قسط نمبر39
عجیب سی دعائیں مانگتی تھی وہ، مانگتی کیا تھی اب بھی مانگتی ہے۔ مالک مجھے اندھا بنائے رکھنا، مالک مجھے لنگڑی لُولی بننا اچھا لگتا ہے، میرے ہاتھ توڑے رکھنا، مجھے اپاہج ہی رکھنا، مالک مجھے تو جاننے کا بھی شوق نہیں ہے بس بے خبر رکھنا، اچھا بُرا کیا ہوتا ہے میں کیا جانوں، بس مجھے تنہا مت چھوڑنا، تجھے تیری عظمت کا واسطہ، تجھے میری بے بسی کی قسم، تجھے انسانیت کی حرمت کا واسطہ، کچھ بھی تو نہیں کرنا چاہتی میں، میں چاہتی کیا ہوں، وہ تو تُو جانتا ہی ہے، تُو بس اپنی امان میں رکھنا اور نہ جانے کیا کچھ۔ کلینک پر مریضوں کے ہجوم کی وجہ سے جب اس کی نماز کا وقت نکل جائے تو پھر اسے دیکھیے، جائے نماز پر ہاتھ باندھ کے عاجزی سے کھڑی ہوجاتی ہے اور پھر پکارتی ہے: مالک دیر ہوگئی، چاہتی تو نہیں تھی لیکن کیا کروں تیری مخلوق کو کیسے منع کرسکتی ہوں، وہ تو دکھوں میں مبتلا ہیں، ان کے زخموں سے تو لہو بہہ رہا ہے تو کیسے انہیں چھوڑ کر آجاتی، تُو نے ہی تو کہا ہے کہ خدمت کرو بس، تو دیر ہوگئی مالک۔ آنسوؤں کی مالا میں وہ پکارتی رہتی تھی، پکارتی رہتی ہے۔
ایک اسرار ہے اُس میں، ایسی ویسی نہیں بہت ہی محبت کی مُورت، پیار کی مٹی میں گندھی ہوئی، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ایک پَل میں بات کی تہہ تک پہنچ جانے والی، مسکرانے والی، جب وہ اپنے کلینک میں ہو اور چہار جانب مریض رقص کر رہے ہوں تب اُس کا رنگ انوکھا ہوتا ہے، بہت دیر تک سوچتی ہے اور پھر سب سے سستی دوا تجویز کرکے رب سے کہتی ہے: صحت تو تیرے حکم میں ہے، منشا میں ہے، غریب ہے، کہاں سے خریدے گا، تُو چاہے تو مٹی کو شفا بنادے، پانی کو دوا بنادے۔ اور کوئی مریض اسے کہہ دے کہ دوا خریدنے کے پیسے نہیں ہیں تو اس کا ہاتھ اپنے بڑے سے بیگ میں داخل ہوتا ہے اور پھر اس کی بند مٹھی اس مریض کی مٹھی میں کُھل جاتی ہے اور اس کی آواز آتی ہے جاؤ جلدی جاؤ دوا وقت پر لینا ذرا سی بھی فکر مت کرنا، رب جی ہے سب کا پالن ہار۔ کارِکُشا و کارساز۔
جی میں اُسے جانتا ہوں اور بہت اچھی طرح سے، اس لیے کہ وہ میری رضائی بہن ہے ماں جی کا عکسِ کامل ہی نہیں، اُن کی عادات واطوار کا خزینہ بھی اور ان ہی کی طرح آرائش و زیبائش سے یک سر بے نیاز و لاتعلق، مجسمِ عجز و انکسار اور اپنے نام کی طرح کوثر۔ یہاں سے طب کی سند لے کر جب وہ اعلٰی تعلیم اور اسپیشلائزیشن کے لیے برطانیہ جارہی تھی تو میں نے اسے چھیڑا تھا کہ اب تم سات سال تک جب وہیں رہو گی تو اس سماج میں رچ بس جاؤ گی اور ہوسکتا ہے وہیں شادی بھی کرلو۔ تو مسکرائی اور کہنے لگی: وِیرے! آپ کو میں کیا ایسی لگتی ہوں، نہیں وِیرے! میں اپنی مٹی میں واپس آؤں گی اور پھر اِس کی خاک اوڑھ کر سوجاؤں گی، آپ کو ہر روز مجھ سے ملنے آنا ہوگا۔
بہت سوچ سمجھ کر میں نے اُس کا نام چَریا رکھا ہے۔ آپ جانتے ہیں اس کا مطلب، جی پاگل کو کہتے ہیں عوامی زبان میں چَریا، وہ ہے ہی ایسی۔ اگر میدان میں اُتر آئے تو بڑے بڑے سورما پسپا ہونے پر مجبور ہوجائیں، لیکن وہ پَگلُو کبھی اپنا تعارف نہیں کراتی۔ مجھ جیسے احمق کی بھی اونگیاں بونگیاں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا اتنی توجہ سے سنتی ہے کہ اُس کے صبر و برداشت پر حیرت ہوتی ہے۔ اپنی قابلیت جھاڑنے کے لیے کوئی بھی اُس کے پاس آجائے وہ اتنی توجہ سے اس کی بات سنتی ہے کہ مقرر اپنی تقریر طویل کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن کسی دھوکے میں مت رہیے گا۔ توجہ سے ضرور سنتی ہے، ہر بات سمجھتی ہے، لیکن جب پوچھو تو کہہ دیتی ہے۔ میں کیا جانوں وِیرے! جی وہ مجھے وِیرے کہتی ہے۔ بہت اسرار ہے اُس میں، پردہ ہی پردہ، اخفا ہی اخفا اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں واقفِ اسرار تو پہلے بھی نہیں تھا، بس اک مان ہے تو وہ سنتی ہے۔
ایک دن میں نے اسے کہا او چریا! ’’جی وِیرے‘‘ کہہ کر وہ بیٹھ گئی تب میں نے اس سے پوچھا یہ بتا یہ کیا دعا مانگتی رہتی ہے۔ مسکرائی پھر ہنسی اور کہنے لگی: آپ کو کیا بتاؤں، کچھ آتا نہیں تو کیا بتاؤں، کچھ جانتی ہی نہیں تو کیسے آگاہ کروں۔ لیکن جب میری پانچ سات بے نقط سن لیں تو پھر سکون سے بولی: ’’ اچھا تو وِیرے جی! بات یہ ہے کہ مالک اندھا بنائے رکھے ناں کہ میں وہ کچھ نہ دیکھ سکوں جس سے اﷲ جی نے منع کیا ہے، بس وہی دیکھوں جو اﷲ جی کو پسند ہو۔ مجھے لنگڑی لُولی بننا اس لیے پسند ہے کہ اُس طرف میرے قدم اٹھ ہی نہ سکیں جہاں جانا اﷲ جی نے پسند نہیں کیا۔
میرے ہاتھ توڑے رکھے، ناکارہ رکھے کہ میں وہ کام ہی نہ کرسکوں جو میرے اﷲ جی کو اچھے نہیں لگتے اور دیکھو وِیرے جی! جتنا بندہ جان لے گا تو اتنا حساب بھی تو دینا ہوگا تو بس انجان رہنے میں، لاعلم رہنے میں عافیت ہے۔ بندہ بشر کیا جانے اُس کی کیا اوقات کہ اچھائی برائی میں تمیز کرسکے بس رب وہ خود کردے۔ وہ کچھ کرادے، جو اﷲ کی رضا کا سبب بن جائے، دیکھو میرے وِیرے جی! رب جس کا نگہبان ہوجائے، سائبان بن جائے تو اس سے بڑی نعمت اور ہے ہی کیا، ساری دنیا سنگ رہے اور اﷲ جی سنگ نہ رہے تو کیسا بڑا نقصان ہے، سراسر خسارہ، تو بس یہ ہے دُعا کہ سب کچھ خود کردے مجھے تنہا نہ چھوڑے، بس پکڑے رکھے۔‘‘
میں اُس کی باتیں بہت توجہ سے سُن رہا تھا اور یہ جو تُو اُس کی عظمت کے ساتھ اپنی بے بسی کا واسطہ دیتی ہے یہ کیا ہے؟ ’’ وِیرے جی! یہ تو مان ہے ناں، اس کے شایان شان اُس کی عظمت ہے، اور دوسرا واسطہ اُس کا حبیبؐ ہے اس کا محبوبؐ ہے، اپنی نفی اپنی بے بسی کے اظہار میں ہے۔ جب ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے تو نفی کی منزل پر ہونا چاہیے۔‘‘ میں نے کہا: لیکن نفی کی منزل تو توفیق پر ہے؟ ’’ جی وِیرے جی! بالکل ایسا ہی ہے تو پھر تو اور بھی زیادہ شُکر کرنا چاہیے کہ وہ اپنی نعمتوں کا اہتمام کرتا چلا جائے۔ آپ بس شُکر کرتے چلے جائیں اور آپ کا انت اخیر عافیت سے ہوجائے۔‘‘
کیا بات ہے تیری چَریا! واہ۔۔۔۔ میں نے اسے سراہا، ہاں سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ ہاں یہی ہے اصل جوہر زندگی، جوہر بندگی ہمارے بابے بھی تو یہی کہتے ہیں۔ رضا صبر و رضا، تسلیم و رضا، اپنی تگڑم نہیں بس تسلیم ہی تسلیم، ہر وقت رضا ہی رضا، مجسمِ تسلیم و رضا۔ شہر علمؐ کے بابِ علم امام المتّقین جناب علی مرتضیؓ نے پتا ہے کیا ارشاد فرمایا: ’’میں ایسی دنیا کی طلب ہی کیوں کروں جس کے حلال میں حساب اور جس کے حرام میں آگ ہے۔‘‘
ہمارے بابے کہتے ہیں اور بالکل سچ کہتے ہیں، جو خلقِ خدا کو معاف کردے گا اﷲ جی اُسے معاف کردے گا، جو مظلوموں کو، بے آسروں کو گلے سے لگائے گا اﷲ جی اسے سینے سے لگائے گا، جو بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرے گا، اﷲ جی اس کا نگہبان بن جائے گا، تو بس رب سے ناتا جوڑنا ہے تو بندگان خدا سے جوڑو، رب کو منانا ہے تو رب کے بندوں کو راضی رکھو، اگر سکون چاہتے ہو تو بندوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرو، اپنے لیے تو تھکتے رہتے ہو، ہلکان رہتے ہو، کبھی اوروں کے لیے بھی تھکو، ہلکان رہو، اشک بہاؤ، دیکھو کیسی رحمت باری تعالیٰ جوش میں آتی ہے، رم جھم، رم جھم، وہ تو مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے بادلوں سے اور آنسوؤں سے مُردہ اور ویران دلوں کو، تو اس کے لیے نینوں کو رم جھم برساؤ۔ جی جناب، بہت سعادت ہے یہ، نینا برسیں رم جھم، رم جھم، یہ تو اﷲ جی کی دین ہے یارو، جسے چاہے سعادت بنادے، جسے چاہے سعدیہ۔
میرے مالک نے کیسا احسان کیا ہوا ہے اُس پر، رشک آتا ہے مجھے، اک میں ہوں، بے صبرا بھی، ناشکرا بھی، ٹنڈ منڈ درخت کی طرح، بس رب اپنا کرم کردے، فضل کردے، اُسے میں نے ہمیشہ دوسروں کے لیے ہلکان دیکھا ہے، کیسی عظیم سعادت یہ ہے یہ بس ویسے ہی میں نے آپ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ اس میں آخر کیا ہے، آپ کو سمجھ آجائیں تو مجھے بھی بتائیے گا۔ آپ سدا خوش رہیں، آباد رہیں، دل شاد رہیں۔ رہنا کس نے ہے یہاں پر، کسی نے بھی تو نہیں ناں۔ سب نے ہی تو چلے جانا ہے۔ خوش آمدید کہنے والوں نے بھی اور دھتکار دینے والوں نے بھی، پھر دفتر اعمال ہوگا ہم ہوں گے۔ ہاں یہاں کوئی بھی تو نہیں رہے گا۔ بس نام رہے گا اﷲ کا
آتشِ جاں کو جو دامن کی ہَوا دے، وہ حبیب
دردِ دل کو جو بڑھا دے، وہی ہے میرا طبیب
جام سے اپنے دے اک جرعۂ مے ہوش اُڑا
کسی باہوش کو لذّت نہیں اس مے کی نصیب
عجیب ہوں میں، کہیں سے کہیں اور نکل جاتا ہوں، گم راہوں کے لیے راستوں کی کیا قید، جہاں چاہے نکل جائیں۔ ہاں تو ہم بات کر رہے تھے بابا کی۔ بابا بہ مشکل سنبھلے لیکن مجھے اُن کی پوری کہانی سننا تھی، میری حماقت دیکھیے کہ کوئی کسی کی پوری کہانی بھی کبھی سُن سکا ہے بھلا۔۔۔؟ لیکن میری بے وقوفی کہیے کہ میں موقعے کے انتظار میں تھا اور ایک دن مجھے تو ایسا ہی لگا کہ بس مجھے کہہ دینا چاہیے اور میں نے ایسا ہی کیا اور بابا سے اگلی رُوداد کی فرمائش کر بیٹھا، وہ سنجیدگی سے مجھے گُھورتے رہے، خاموش رہے اور پھر بولے: نہیں مان کے دے گا تُو، کیا کریں تیری اس عادت کا، سوال پر سوال اور جب اُن کا جواب دیا جائے تو اس جواب میں سے بھی کئی سوال، کیوں نہیں تُو خاموشی اختیار کرتا ۔۔۔۔؟
کیسے اختیار کروں بابا، آپ تو بینا ہیں، دانا ہیں، اہل فہم و فراست ہیں، دُور اندیش ہیں، کسی کی بھی کہانی بِنا اس کے سنائے جان جاتے ہیں، میں تو اجڈ گنوار ایسا نہیں ہوں، مجھے تو سوال کرنا پڑتا ہے تاکہ جان سکوں کہ حقیقت کیا ہے، اور بابا میں یہ بھی بہ خوبی جانتا ہوں کہ میں جاہل کمّی موقع محل بھی نہیں دیکھتا، اور وہ اس لیے کہ میں دیکھ ہی نہیں سکتا تو بس سوال کر بیٹھتا ہوں، کیا کروں میں اپنی اس عادتِ بد کا، میری بھی تو مجبوری ہے ناں، اور پھر آپ جیسوں سے زیادہ کون جانتا ہے مجھے، عیاں بھی نہاں بھی ، اک آگ ہے مجھ میں بس شعلہ بار رہتی ہے۔
بابا نے میری بات بہ غور سنی، مسکرائے، میرے شانے پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور کہا: بیٹا کیا کہوں اب میں پھر سے تنہا ہوگیا تھا اور تنہا ذات تو بس رب کی ہے، بندہ بشر تو لوگوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے جہاں وہ اپنے دکھ درد دوسروں سے شریک کرے اور ان کی سنے، تو پھر ہوا یہ کہ مجھے اپنی آیا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میرے والد کو زہر دے دیا گیا تھا اور دینا تو مجھے بھی تھا لیکن جسے رب جیون دے تو کوئی کیسے اسے مار سکتا ہے تو مجھے گھر سے نکال دیا گیا اور اس کے پیچھے صرف ایک مقصد تھا کہ ساری جائیداد ہتھیالی جائے اور میرے تایا اور تائی اماں اپنے اس مقصد میں بہ ظاہر کام یاب ہوگئے۔
بہ ظاہر میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انسان کو ساری کائنات کی نعمتیں بھی دے دی جائیں تو اس کی عمر ہی اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ ان سے کسی بھی صورت میں فائدہ نہیں اٹھا سکتا، بس ایک فریب میں مبتلا رہتا ہے وہ کہ بس اب وہ سارا جیون سکھی رہے گا، جب کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے لیکن انسان کی حرص کی کوئی دوا نہیں ہے ناں، بس جسے رب تعالی اس سے محفوظ رکھے۔
میں ایک بابا جی کے پاس پہنچ چکا تھا، وہ ایک چھوٹے سے مکان میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے اور ریلوے اسٹیشن کے باہر کھانے کا ٹھیلا لگاتے تھے، مسافر بھی اور عام راہ گیر بھی ان کے ٹھیلے سے کھانے پینے کی اشیاء خریدتے تھے، انہوں نے ہی مجھے ہر طرح کا کھانا بنانا سکھایا اور اب تک میں یہی کام کر رہا ہوں کہ حکم ہے کہ محنت مشقت کرو، اپنے ہاتھ سے کام کرو اور رزق حلال کماؤ اور گزر بسر کرو۔ وقت گزرتا چلا گیا اور میں نے نوجوانی میں قدم رکھ دیا، بابا جی کی اہلیہ کو میں اماں کہا کرتا تھا اور وہ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھتی تھیں، پھر ہوا یوں کہ میں نے بابا اور اماں کو گھر پر آرام کرنے کا کہا اور اکیلے ہی یہ کام سنبھالا، بابا اور اماں کھانا تیار کرتے اور میں صبح سویرے ٹھیلے پر رکھ کر ریلوے اسٹیشن چلا آتا اور مغرب میں واپس گھر آجاتا، گھر بھی کوئی دور نہیں تھا۔
وہ ایک چھوٹا سا محلہ تھا جس میں مزدوروں کے گھر تھے اور بیٹا گھر بھی کیا، بس سر چھپانے کی جگہ کہو، ہمارے پڑوس میں ایک خاندان آکر رہنے لگا، وہ صاحب راج مستری تھے، مکانات بناتے تھے اور اچھی یافت تھی ان کی۔ ایک دن میں گھر پہنچا تو اماں نے مجھے کہا کہ انہوں نے مجھ سے کوئی اہم بات کرنا ہے، میں نے کہا ضرور کیجیے تو انہوں نے بتایا کہ پڑوس سے خاتون آئی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ آپ کا بیٹا جوان ہے اور محنتی بھی تو ہم چاہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردیں اس لیے میں آپ کے پاس آئی ہوں تو بیٹا اب تمہاری رضامندی درکار ہے۔
میں کیا کہتا خاموش رہا اور پھر بابا اور اماں سے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا تو آپ کا اختیار ہے، وہ مجھے آپ کا حقیقی بیٹا سمجھ رہے ہیں، تو شاید اس لیے کہہ رہے ہوں تو آپ ان سے میری اصلیت بیان کردیں تو بابا نے کہا وہ تو ہم انہیں پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ میری نسبت اس گھر میں طے کردی گئی اور سچ یہ ہے کہ زندگی اچھی لگنے لگی اور پھر وہ دن بھی آہی گیا کہ سادگی سے میری شادی ہوگئی۔ بہت اچھی لڑکی تھی وہ، خوب صورت، نیک سیرت اور سگھڑ بھی، اس نے نہ صرف گھر کے کام سنبھالے بل کہ بابا اور اماں کی خدمت کو بھی شعار کیا۔ اچھے دن تھے وہ، ایک دن میرے سسر صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں ٹھیلے کے بہ جائے کوئی جگہ لے لوں اور چھوٹا سا ہوٹل کھول لوں اور اس میں وہ میری پوری مدد کریں گے، تو میں نے ان سے کہا کہ یہ فیصلہ میرے بابا جی کرسکتے ہیں آپ ان سے معلوم کیجیے تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ انہوں نے بابا سے دریافت کیا تھا تو بابا نے انکار کردیا تھا۔
اب وہ مجھ سے براہ راست اس پر بات کرنا چاہتے تھے تو میں نے صاف انکار کردیا کہ بابا جو کہیں گے بس وہی ہوگا اور آپ کو اگر بابا نے انکار کردیا تھا تو مجھ سے دریافت کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ شاید انہوں نے میری اس بات کا بُرا مانا اور خفا ہوگئے، اب میں جب بھی ان سے ملتا تو ان کی بے اعتنائی صاف محسوس کرتا۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا بھی کہ بابا میرے سرپرست ہیں یہ ان کا اختیار ہے تو اس میں خفا ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ مان کے نہ دیے، پھر رفتہ رفتہ ساس صاحبہ کا بھی مجھ سے اور اماں سے اصرار بڑھتا رہا لیکن ہمارا انکار اپنی جگہ اٹل رہا، میں نے اپنی بیوی کو بھی سمجھایا اور وہ نیک بخت اپنے ماں باپ کو سمجھاتی بھی تھی لیکن بس ضد کا کیا علاج۔ ایک دن میں گھر پہنچا تو گاڑی پر سامان رکھا ہوا تھا معلوم ہوا کہ میرے سسرال نے کہیں اور گھر خرید لیا ہے تو وہ جارہے ہیں، مجھے حیرت ہوئی لیکن میں خاموش رہا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے بابا، اماں اور اپنی بیوی سے اس اچانک فیصلے کا معلوم کیا سب ہی اس سے بے خبر تھے۔ دوسرے دن میری غیرموجودی میں سسر اور ساس آئیں اور یہ کہتے ہوئے میری بیوی کو ساتھ لے گئیں کہ وہ کچھ دن بعد خود اسے چھوڑ جائیں گے۔
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.