Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سارے رنگ

$
0
0

جو ’طعام مستاں‘ میں نہ رہا اس کی نماز جنازہ ۔۔۔؟

مشتاق احمد یوسفی

شان الحق حقی صاحب سے میری نیازمندی کی مدت 47 سال سے کچھ اوپر بنتی ہے، جس زمانے میں تعارف ہوا، میں پیر الٰہی بخش کالونی (کراچی) کے ایک دو کمرے والے مکان میں رہتا تھا، جسے میں گھر اور جمشید کوارٹر، عامل کالونی اور ناظم آباد میں رہنے والے ’’کوارٹرز‘‘ کہہ کر ہمیں اپنی اقامتی اوقات یاد دلاتے تھے۔ کرایہ 35 روپے ماہ وار جو گھریلو بجٹ پر گراں گزرتا تھا۔ اسی غریب وادیب پرور کالونی میں معروف مارکسسٹ نقاد پروفیسر ممتاز حسین رہتے تھے، جو اسے بورژوا بستی قرار دیتے تھے۔

خلق خدا کی اس بستی نے کیسے کیسے صاحبان کمال اور نابغہ روزگار شخصیات کو پناہ دی ہے۔ دو تین ہوں تو گنواؤں، کہکشاں اتر آئی تھی۔ آرزو لکھنوی، آرٹسٹ شاکر علی، شاہد احمد دہلوی، محمد حسن عسکری، جمیل جالبی، عزیز حامد مدنی، نقی محمد خان، محمود علی خان جامعی، فاطمہ ثریا بجیا، زہرا نگاہ، انور مقصود، آرزو لکھنوی نے تو ایک صاحب کی مساوی شراکت میں ایک ریستوراں بھی بس اسٹینڈ کے پاس کھولا جس کا نام ’’طعامستان‘‘ رکھا۔ مساوی شرکت سے ہماری مراد ہے کہ ایک پارٹنر نے سو فی صد سرمایہ لگایا اور دوسرے نے اسے سو فی صد ٹھکانے لگایا۔۔۔!

پڑوسیوں کا خیال ہے کہ ریستوراں کا دِوالہ گاہکوں نے نکالا! وہ اس طرح کہ ہمہ وقت شاعروں، بے گھر ادیبوں اور بے روزگار دانش وَروں کا جماؤ بلکہ پڑاؤ رہتا جو ایک کڑک چائے کا آرڈر دے کر چار گھنٹے ادبی وآفاقی مسائل اور خرخشوں پر گھمسان کی غٹا غٹی کرتے۔ مرزا اسے طعامستان کے بہ جائے ’طعامِ مستان‘ کہتے تھے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہندوستاں سے کراچی وارد ہونے والا مہاجر دانش وَر جو اس قرنطینۂ کاملاں میں نہیں رہا، اس کی نماز جنازہ جائز ہیں، سوائے شان الحق حقی کے جو جیکب لائن کے ایک سرکاری کوارٹر میں سکونت پذیر تھے۔ وہی نقشہ تھا مگر زیادہ آباد اور بارونق۔

ہم تو جب بھی گئے ایک کمرے میں کبوتروں کے بے تاب جوڑے اور بچے دیکھے اور دوسرے میں کتابیں، مہمان اور مہمانوں کے ملاقاتی۔ ہم کسی کی نجی زندگی کے بارے میں جاسوسانہ ٹوہ لگانے میں وقت ضایع نہیں کرتے۔ لہٰذا کبھی یہ نہ سوچا کہ گھر میں گھر والے کہاں فروکش ہیں۔ ویسے کچا صحن بہ ظاہر دس چار پائیوں کے برابر تھا۔ بیگم رشید احمد صدیقی پہلے پہل اسی کوارٹر میں (مہمان) دیکھا۔ اس بھرے پُرے گھر میں کبوتروں کی ریل پیل تو دیکھی، لیکن چھتری کہیں نظر نہ آئی۔ یہ سوچ کر ہم آج بھی مرعوب ہونے کی حد تک حیران ہوتے ہیں کہ حقی صاحب کو چھتری گرداں کبوتر پالنے انہیں سدھانے اور بھولے بھٹکے کبوتروں کو بام سے زیر دام لانے کا ہنر، لغوی اور علامتی ہر دو اعتبار سے خوب آتا ہے! ادب میں بھی وہ کسی اور کی چھتر چھاؤں یا خود اپنی چھتری کے قائل یا محتاج نہیں رہے۔

ہاں کوئی کبوتر خود ہی ان کے آنگن میں یاشانے پر آن بیٹھے اور غٹرغوں کرنے لگے تو وہ اُسے تالی بجا کے یا ہُش کہہ کر اڑانے سے تو رہے۔ ان کا تعلق کبھی بھی کسی گروپ یا مخصوص ادبی حلقے سے نہیں رہا۔ ہر کام تنہا کیا۔ ہر منزل اپنے ہی دم قدم سے تنہا سر کی۔ مختلف شعبوں میں اہم مناصب اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ کیریئر کا بیش تر حصہ اطلاعات ونشریات کے شعبے اور ڈائرکٹوریٹ آف فلمز اینڈ پبلی کیشنز میں گزرا۔ ایک رسالے کے مدیر بھی رہے۔ پاکستان ٹیلی وژن میں جرنل مینجر سیلز اور اس کے بعد ایک معروف ایڈروٹائزنگ ایجنسی میں بہ حیثیت مشیر کام کیا، جو کام کیا پوری تندہی اور جاں فشانی سے کیا، کام یابی اور نیک نامی کے سا تھا کیا۔

’تُو‘ نہیں ’تُم‘۔۔۔

حکیم خواجہ سید ناصر نذیر فراق دہلوی

لال قلعہ کی تمیز اور بات چیت اور شاہ جہاںآباد کی تمیز اور بات چیت میں بڑا فرق تھا۔ ایک بیاہ کی محفل میں لال قلعہ کی بیگمیں شاہ جہاں آباد کے اندر شریک ہوئیں، محل کی انگنائی میں ایک ’چوکہ‘ پر شاہ جہاں آباد کی لڑکیاں جن کی عمر پانچ چھے سال سے زیادہ نہ تھی، دس پانچ بیٹھی آپس میں کھیل رہی تھیں، ان ہی میں ایک قلعہ کی رہنے والی شاہ زادی بھی بیٹھی تھیں، جن کی عمر بھی شہر والی لڑکیوں سے زیادہ نہ تھی۔ شہر والی لڑکیاں تُو کہہ کر ایک دوسرے سے بولتی تھیں اور قلعہ والی لڑکی کو نہیں بھاتا تھا۔ وہ ان کی باتوں سے گھبرا گئی تو توتلی بولی میں کہنے لگیں ’’بیگم ’تُو‘ نہیں کہتے ’تُم‘ کہتے ہیں۔‘‘ مگر نقار خانے میں طوطی کی صدا کون سنتا ہے، اُن کے کہنے کا کسی نے خیال نہ کیا تو انہوں نے اپنے بڑے سے کہا ’’تم مجھے گود میں اٹھا کر لے چلو، یہ ’تُو پکار‘ مجھ سے نہیں سُنی جاتی۔‘‘

(کتاب ’’لال قلعے کی ایک جھلک‘‘ سے چُنا گیا)

استاد محترم۔۔۔!

عابد میر

پروفیسر صاحب ریٹائر ہوئے تو پتا چلا کہ ریٹائر منٹ سے کہیں بڑا عذاب تو ’جی پی فنڈ‘ اور پنشن کی وصولی ہے۔ اے جی آفس کے چکروں نے انہیں اس قدر نڈھال کر دیا کہ جی چاہا بھاڑ میں جائیں پیسے، آدمی کتنی ذلت برداشت کرے! حالاں کہ اس بھاگ دوڑ میں وہ خوب مٹھیاں گرم کر چکے تھے، مگر فائل تھی کہ چیونٹی کی رفتار سے سرکتی تھی۔ ایک ٹیبل سے دوسری ٹیبل تک پہنچتی تو کبھی ٹیبل والا صاحب بیمار، کبھی اُس ٹیبل والا حج پر گیا ہوا ہے، تو کبھی اِس ٹیبل والے کی دادی وفات فرما گئیں۔۔۔

خدا خدا کر کے اور جانے کتنی مٹھیاں گرم کر کے فائل ڈائریکٹر صاحب کے ٹیبل پر پہنچی اور اگلے ہی روز ڈائریکٹر صاحب کا تبادلہ ہو گیا، پروفیسر صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اب جانے کب نیا صاحب آئے اور جانے کیسے مزاج والا آئے۔۔۔پروفیسر صاحب کی قسمت نے اب کے مگر اُن کا ساتھ دیا اور جلد ہی نئے ڈائریکٹر نے چارج سنبھال لیا۔ انہوں نے جو نام پتا معلوم کروایا تو کھِل اٹھے کہ یہ صاحب تو کسی زمانے میں اُن کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ اب تو یقین ہو چلا کہ کام ہو ہی جائے گا۔۔۔کچھ روز خود صاحب سے ملنے پہنچ گئے۔ کارڈ اندر بھجوایا تو صاحب نے فوراً بلوا لیا۔ کھڑے ہو کر استقبال کیا، حال احوال ہوا، بات کی بات میں چائے بسکٹ آگئے۔

پروفیسر صاحب نے جوں ہی مدعا بیان کیا، صاحب ایک دم بول پڑے: ’’سر جی آپ کی فائل میرے پاس آچکی ہے، میں دیکھ چکا ہوں، تو کیا دے رہے ہیں آپ؟‘‘

پروفیسر صاحب بھونچکا ہو کر رہ گئے، جیسے کچھ سمجھے نہ ہوں۔۔۔ ’’میں تو لینے۔۔۔‘‘

’’وہ تو آپ کی چیز ہے، مل جائے گی سر، پر انتا کچھ جمع کرلیا آپ نے کچھ تو زکوۃ نکلنی چاہیے نا!‘‘

’’بیٹا، میں تمہارا استاد ہوں، میں نے پڑھایا ہے تمہیں!‘‘

’’جی بالکل استاد محترم! مجھے اچھی طرح یاد ہے، پر شاید آپ بھول گئے ہیں کہ آپ ہر برس پاس ہونے کی لازمی شرف کے طور پر چار ہزار روپے میں اپنے نوٹس ہمیں فروخت کرتے تھے، صرف پانچ سو روپے کم ہونے پر آپ نے جسے نوٹس دینے سے انکار کردیا تھا، میں آپ کا وہی شاگرد عزیز ہوں!‘‘

(کتاب ’’سرخ حاشیوں‘‘ سے لیا گیا)

صد لفظی کتھا

محویّت

رضوان طاہر مبین

اُس کا فون آیا اور ثمر کھو سا گیا۔۔۔

دوسری طرف سے ثمر میں محو ہونے کے قصے شروع ہوئے کہ کس طرح اُس کا دھیان ثمر میں رہتا ہے۔

’’دفتر سے نکل رہا ہوں۔۔۔!‘‘

’موبائل‘ کان سے لگائے ثمر نے بے ترتیب دھڑکنوں کے ساتھ کہا۔

’’تمہیں تو کبھی میرا خیال نہیں آتا، تم کیا جانو محویّت۔۔۔!‘‘

دوسری طرف سے شکایت ہوئی۔

’’ٹھیرو، میں دفتر واپس جا رہا ہوں!‘‘ ثمر بولا۔

’’آگیا ہوگا کوئی کام یاد۔۔۔!‘‘ دوسری طرف آواز درشت ہوگئی۔

’’میرا موبائل جیب میں نہیں، شاید وہیں بھول گیا۔۔۔!‘‘

ثمر نے دفتر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔

کچھ ادبی موتی۔۔۔

مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

٭ ’’ہر شخص کو اس بات کا علم ضرور ہوتا ہے کہ ’’دوسرے لوگوں کو اپنی زندگیاں کس طرح بسر کرنی چاہئیں!‘‘

٭دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ کیا ہے؟

’’وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کے خاص لمحے میں، اپنے ساتھ ہونے والے واقعات پر کنٹرول نہیں رکھتے اور ہماری زندگیوں پر قسمت کا کنٹرول ہوجاتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‘‘

٭’’پراسرار قوت کیا ہوتی ہے؟‘‘

’’یہ ایک ایسی قوت ہوتی ہے، جو بظاہر منفی دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ یہ دکھاتی ہے کہ تم اپنی تقدیر کو کس طرح جانو۔ یہ تمہارے جذبے اور ارادے کو مستحکم کرتی ہے، کیوں کہ اس کرہ ارض پر یہی سچائی سب سے بڑی ہے، تم جو بھی ہو، یا تم جو بھی کرتے ہو، تمہیں واقعی کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہش کائنات کی روح میں پیدا ہوتی ہے۔ زمین پر یہی تمہارا مشن ہے۔‘‘

٭ کائنات کی روح کی غذا لوگوں کی خوشیاں ہیں اور ناخوشیاں، حسد اور جلن بھی۔ کسی کی تقدیر کو ماننا ہی آدمی کی حقیقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سب چیزیں ایک ہی ہیں’’اور جب تم کوئی چیز حاصل کرنا چاہتے ہو تو پوری کائنات اس چیز کے حصول میں تمہاری مددگار ہے۔‘‘

(پاؤلو کوہلو کے مشہور ناول ’’الکیمسٹ ‘‘ سے کچھ اقتباسات)

’’میں تو کہوں گا۔۔۔!‘‘

اس ہفتے ہم اپنے عنوان کے لغوی معنی پر زیادہ توجہ دیے ہوئے ہیں، اس لیے آج ہم واقعتاً ’’خانہ پُری‘‘ ہی کریں گے، لیکن دھیان رہے کہ اس میں ’خانہ‘ ہمارا ہے تو ’پُر‘ بھی ہم ہی کر رہے ہیں، مطلب یہ کہ اس کے سارے لفظ ہمارے ہی قلم سے نکلے ہوئے ہیں، بہ الفاظ دیگر ’’ہماری اور کوئی ’’شاخ‘‘ نہیں۔۔۔!‘‘ (لیکن جڑیں البتہ تھوڑی بہت ہیں، الحمدللہ) اور ان واقعات سے مماثلت قطعی اتفاقی نہیں ہوگی، اس لیے تمام قارئین ان واقعات کی کہیں نہ کہیں اور بھی مماثلت ضرور تلاش کریں، ورنہ بہتر ہے کہ نہ پڑھیں۔۔۔ ہم نے یہ سب شروع میں اس لیے واضح کردیا کہ ’سند رہ وے اور بہ وقت ضرورت ’کام‘ آوے۔۔۔‘

٭٭٭

ہوا یوں کہ ہمارے ایک ادب دوست مگر خاصے اینٹی اسٹبلشمنٹ مزاج صاحب نے ہم سے پوچھا کہ اُن کی ایک ’پسند‘ نے طویل وقت اُن کا ’اپنا‘ رہنے کے بعد اچانک کسی اور کو پسند کرلیا ہے۔۔۔ اور اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر اپنی عَن قریب ہونے والی شادی کا دعوت نامہ بھی چسپاں کر دیا ہے، ذرا بتاؤ تو سہی، اس پر کیا تبصرہ کروں؟ ہم نے کہا کہ آپ وہاں محسن بھوپالی کا یہ شعر لکھ دیں؎

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے

’منزل‘ انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

٭٭٭

چارے اور گھاس کا ایک بیوپاری پالتو بھیڑ بکریوں پر گہری نظر رکھتا تھا۔ مجال ہے کوئی ایک تنکا گھاس بھی یوں ہی کسی بھیڑ یا بکرے کے پیٹ میں چلا جائے۔۔۔ ایک دن کیا ہوا ایک تیز رفتار ٹرک بے قابو ہوکر اس کی بند دکان کے شٹر سے ٹکرایا تو شٹر ٹوٹ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے پالتو بکروں کا ریوڑ دکان کے چارے اور گھاس پر آن موجود ہوا۔۔۔ ہماری نظر بے ساختہ شٹر کے اوپر پڑی، جہاں اس نے لکھوایا ہوا تھا ’’واللہ خیر الرازقین‘ (اور اللہ بہتر رزق دینے والا ہے)

٭٭٭

وفاداری بدل لینے والے ایک سیاست داں نے اپنی پرانی سیاسی جماعت کو پھر سے حاکم ہوتے، دیکھا تو ’سابق قائد‘ کو اپنی ’’مجبوریوں‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے ’واپسی‘ کا ایک طویل جذباتی سندیس میں یہ شعر لکھا؎

تم سے نہیں ملے تو کسی سے نہیں ملے

ملنا بھی پڑ گیا تو خوشی سے نہیں ملے!

اُن کے قائد مان تو گئے، لیکن اگلے روز ’واپسی‘ کی پریس کانفرنس میں وہ کہہ رہے تھے ؎

وہ کہیں بھی گیا ’لوٹا‘ تو میرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

٭٭٭

کچھ دن پہلے یورپ سے کراچی آئے ہوئے احباب وہاں کی انصاف پسندی کے گُن گا رہے تھے، جب انہوں نے کہا کہ دیکھیے آج ہمارے لندن میں بھی میئر (صادق خان) یہاں کا بنا ہے۔ میں نے کہا اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ ہمارا میئر بھی تو ’لندن‘ کا ہی ہے یہاں۔۔۔ حساب برابر! اور محفل زعفران زار ہوگئی۔

٭٭٭

٭اگر آج آپ کو اپنا پچھلا خیال یا فعل حماقت لگے، تو گھبرائیں نہیں، بلکہ یہ جان لیں کہ آپ کا شعور بڑھ رہا ہے۔ (یہ مذاق کی بات نہیں!)

٭خواب جاگتی آنکھوں کے ہوں تو سونے نہیں دیتے اور سوتی آنکھوں کے ہوں تو پھر اٹھنے نہیں دیتے۔۔۔ (تجربہ ہے یہ!)

٭بعض لوگوں کو دیکھ کر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ شاید انہیں مٹی سے نہیں بلکہ پتھر سے بنایا گیا ہے۔ (اس کا تعلق عقل کے پتھر سے نہیں)

٭جب اُس نے کہا کہ سنو کل سردی کی پہلی بارش تھی، تو میں نے یاد دلایا کہ سردی کی تو نہیں البتہ سرد لہجوں کی ضرور پہلی بارش تھی۔۔۔!

٭کبھی زندگی میں بھی کسی کو اپنا کندھا فراہم کردیا کریں اجر اس کا بھی بہت۔۔۔!

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>