مظفر آباد / آزاد کشمیر: بیرونی ممالک کے طالب علموں کے لیے تحریک آزادی کشمیر کا مطالعہ شاید تحقیق کا ایک دلچسپ موضوع ہو لیکن ہم کشمیریوں کے لیے یہ ایک حساس موضوع ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سات عشرے گزر چکے ہیں یعنی دو نسلوں کا زمانہ گزرگیا۔ اب ایک تیسری نسل کو زندگی کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ مستقبل کی قیادت(یعنی نسلِ نو) کو تحریک آزادی کشمیر کے تاریخی نشیب و فراز سے آگاہ ہونے اور اس تحریک کے اتار چڑھاؤ کو تجزیہ کی سان پر چڑھانے کی ضرورت ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ایک بات پر بالکل ذہن صاف رکھنا اشد ضروری ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ دراصل خود پاکستان اور اہل پاکستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے ۔
قائداعظم کے فرمان کے مطابق’’کشمیر، پاکستان کی شہ رگ ہے ‘‘ اور ایک قوم کے لیے اس سے بڑی غفلت کی بات اور کون سی ہو سکتی ہے کہ اس کی شہ رگ پر دشمن کا قبضہ ہو ؟ مسئلہ کشمیر کے بارے میں یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ اس معاملے میں پاکستان کی حیثیت محض ایک تماشائی کی نہیں بلکہ ایک بنیادی فریق کی ہے۔کشمیر کا سب سے پہلا قانونی رشتہ پاکستان سے قائم ہوا۔ آزادی کے حصول کے ساتھ 14اگست1947ء کو ریاست جموں وکشمیر اور پاکستان کے درمیان ایک عبوری معاہدہ ہوا۔ 14اگست1947ء کو کشمیر میں تمام محکموں کے دفاتر پر پاکستانی پرچم لہرائے گئے۔ اس انتظام پر ہندوستان کی فوج کشی سے ضرب پڑی اور تنازعہ کشمیر نے جنم لیا ۔
جس کے نتیجے میں پاکستان اور ہندوستان کی افواج میں سرزمین کشمیر پر جنگ ہوئی۔ بالآخر اقوام متحدہ نے ہندوستان کی جانب سے کشمیر میں استصوابِ رائے کروانے کے وعدے پر جنگ بندی کرائی ۔ جنگ بندی کی یہ قرارداد (Resolution 47 of 1948) بلجیم،چین ،کولمبیا ،کینیڈا ،برطانیہ اور امریکہ نے مشترکہ طور پر پیش کی اور پاکستان و ہندوستان نے اسے منظور کر لیا ۔ اس پس منظر میں مسئلہ کشمیر کے چار فریق ہیں ۔ پاکستان، ہندوستان، اقوام متحدہ اور اہم ترین فریق خود جموں وکشمیر کے عوام ۔کشمیر کے بارے میں ہندوستان جن تضاد بیانیوں کا شکار ہے۔
ان پر پروفیسرلیمب نے اپنی دو تحقیقی کتابوں میں ناقابل تردید دستاویزات اور شواہد سے ثابت کیا ہے کہ ہندوستانی افواج 26اکتوبر1947ء کو کشمیر پہنچ چکی تھیں، جبکہ مہاراجہ سے زبردستی جو دستخط حاصل کیے گئے وہ 27اکتوبر سے پہلے حاصل کرنا ناممکن تھا۔ جس دستاویز کو الحاق کی دستاویز کہا جاتا ہے، وہ محض ایک ’پرفارما‘ ہے۔ پروفیسرلیمب کا دعویٰ ہے کہ آج تک کسی بین الااقوامی فورم پر اصل دستخط شدہ دستاویز کو پیش نہیں کیا گیا۔ ہندوستان کے مشہور صحافی آنجہانی کلدیپ نئیر کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے وزرائے اعظم لال قلعہ کی بلندیوں سے آواز لگاتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور پھر پاکستان کو تحریر کرتے ہیں کہ بھارت کشمیر کے بارے میں بات چیت کے لیے تیار ہے۔
جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔کوئی حاکمیت اعلیٰ رکھنے والا ملک اپنے کسی علاقے کی حیثیت کے بارے میں یہ بات اسی وقت کہتا ہے جب وہ اس علاقے کو متنازعہ تسلیم کرتا ہو۔ایک اور محقق ’اے جی نورانی‘ لکھتے ہیں کہ نہرو نے لیاقت علی خان سے اپنی خط و کتابت میں مسئلہ کشمیر کو ایک عالمی مسئلہ تسلیم کیااور لوک سبھا میں اعلان کیا کہ اس مسئلے کا حل استصواب رائے ہے۔ ’جے پرکاش نارائن‘ کا ایک خط جو 23جون1966ء کو اندراگاندھی کو لکھا گیا اور جسے ایک ہندوستانی دانشور ایم جے اکبر نے اپنی کتاب (Kashmir Behind the vale) میں نقل کیا ہے، کے مطابق ’’کشمیر پر ہندوستان محض طاقت کے بل بوتے پر قابض ہے۔
ہم سیکولرازم کی بات کرتے ہیں لیکن ہندو قوم پرستی کو موقع دیتے ہیں کہ ہمیں مجبور کرے کہ تشدد کے ذریعے اُس کا تسلط قائم ہو۔ مسئلہ کشمیر زندہ ہے اوراس لیے نہیں کہ پاکستان اسے ہم سے چھین لینا چاہتا ہے بلکہ اس لیے کہ وہاں کے عوام کے دلوں میں گہری بے چینی اور بے اطمینانی ہے‘‘۔ یہ خط 53برس پہلے لکھا گیا اور آج 2019ء میں بھی کشمیری اسی بے چینی اور بے اطمینانی کا شکار ہیں۔اسی طرح ڈاکٹر منظور عالم جو کشمیر یونیورسٹی سری نگر کے وائس چانسلر رہے، اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ 1987ء کے انتخابات کے بعد کشمیر کے حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ آج کشمیر، ہندوستان سے مکمل اجنبیت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اگرچہ کشمیر کو مالی معاملات میں خاص حیثیت حاصل ہے لیکن اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑ سکا۔
کشمیر کے مسلمان آج صرف کشمیر کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ وہ پاکستان کے تحفظ اور اس کی تکمیل کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ وہ ہماری نسلوں کی بقاکی جنگ لڑرہے ہیں۔ بھارت تحریک مزاحمت کو طاقت سے کچلنے میں ناکام ہونے کے بعد جس حکمت عملی پر کام کر رہا ہے، اُس میں پاکستان کو کشمیر کے مسئلے سے غیر متعلق کرنا اور اس کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کے الزامات لگانا وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر پاکستان کو Isolate (الگ تھلگ) کرنا، تحریک مزاحمت کو تقسیم کرنے کی کوشش کرنا، تحریک جہاد اور سیاسی محاذ میں تصادم اور بے اعتمادی پیدا کرنا بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ جہادی تحریک کے اندر تک سرنگ لگانا، بھارت کے چنگل سے آزادی کی تحریک کو خود مختاری اورعلاقائی بنیادوں پر اختیارات کی تقسیم اور منتقلی سے الجھانے کے ڈرامے رچانا شامل ہیں۔ جیسا 1950، 1952 اور 1953میں کیا گیااور جس کا حشر جموں وکشمیر کے عوام نے گزشتہ 72برسوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
کشمیر کو تقسیم کرنا ہندوستان کی اولین پالیسی ہے، کبھی وہ مسلم اکثریت کی کشمیر کی وادی ڈوڈہ، پونچھ، راجوری اور کارگل کو ایک علاقہ قراردیتا ہے اور جموں کو دوسرا اور کبھی لیہ (لداخ) کوتیسرا علاقہ قرار دے رہا ہے۔کنٹرول لائن کو معمولی ردوبدل کے ساتھ بین الا اقوامی سرحد بنانا اور اس طرح کشمیر کی تقسیم درتقسیم کے ذریعے اس مسئلے کو دفن کرنا اس کے اس ایجنڈے میں شامل ہے۔مسئلہ کشمیر کے موجودہ مرحلے اور مستقبل کے خطرات و امکانات کی تفہیم کے لیے بنیادی حقائق کو ذہن میں تازہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اصل مسئلہ جموں وکشمیر کی ریاست کے مستقبل اور اس کی مستقل حیثیت کا ہے۔ بھارت کی اٹوٹ انگ کی رٹ کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ جموں وکشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جسے اقوا م متحدہ، یورپی یونین اور اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) سب نے متنازعہ تسلیم کیا ہوا ہے۔
خود بھارت نے ماضی میں اسے تصفیہ طلب مانا ہے اور سب سے بڑھ کر جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے اپنے خون سے گواہی دے کر اسے متنازعہ تسلیم کروایا ہے۔کشمیر کے بارے میں قائداعظم کی پالیسی کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ قائداعظم بہت شروع سے اس مسئلے کی حساسیت سے آگاہ تھے۔ انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پٹنہ اجلاس میں 26دسمبر1938ء کو فرمایا کہ ’’میں کانگریس سے پوچھتا ہوں کہ وہ کشمیر میں کیا کررہی ہے؟‘‘ 1944ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سپاسنامے کا جواب دیتے ہوئے قائداعظم نے کشمیر کے بارے میں فرمایا ’’مسلمان جغرافیائی حدود کے قائل نہیں ہیں، اس لیے اسلامی برادری کے نام پر ہندوستان کے مسلمان آپ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں‘‘۔1947ء میں قائداعظم نے بھارتی گورنر جنرل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا ’’ہم قبائلیوں پر دباؤ نہیں ڈال سکتے کہ وہ کشمیر کو خالی کر دیں۔ مسلمانان کشمیر نے ڈوگرہ آمریت سے تنگ آکر جہاد شروع کر رکھا ہے اور قبائلیوں نے مجاہدین کا ہم مذہب ہونے کی مناسبت سے ان کی مددکی ہے‘‘۔
قائداعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ’’کشمیر جہاں اقتصادی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کا ایک جزو ہے، وہیں پرسیاسی اعتبار سے بھی اس کا پاکستان میں شامل ہونا ضروری ہے‘‘ ۔کشمیر کے بارے میں قائداعظم کی پالیسی کو ان کے معالج ڈاکٹر الہی بخش نے یوں بیان کیاکہ بقول قائد ’’کشمیر سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے اورکوئی خوددار ملک و قوم اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی شہ رگ دشمن کی تلوار کے آگے رکھ دے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے کیوں کہ یہ تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کاجزو ہے‘‘۔ تحریک آزادی کشمیر مختلف مراحل سے گزری ہے اور اس میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں لیکن یہ چنگاری کبھی سرد نہیں ہوئی۔ بقول علامہ اقبال :
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
اکیسویں صدی کے آغازکے ساتھ ہی جہاں مسلم دنیا 11ستمبر2001ء کے منفی اثرات کا شکار ہوئی، وہیں اس کے اثرات تحریک مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد پر بھی پڑے اور اس میں امریکہ، اسرائیل، روس اور بھارت نے خصوصی کردار اداکیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے اُس وقت کے حکمرانوں نے بھی اس میں کچھ کم حصہ نہیں ڈالا۔ اب کشمیر کے حالات ایک تاریخی موڑ پر آ گئے ہیں۔ تبدیلی دستک دے رہی ہے اور وہ کسی کا انتظار نہیں کرے گی کیونکہ کشمیری قوم نے اپنا فیصلہ سُنا دیا ہے۔ جہاں تاریکی چھٹنے اور نئی صبح طلوع ہونے کے امکانات ہیں، وہیں ابھی سازشوں، رام راجی اور سامراجی ہتھکنڈوں کے جاری رہنے کا بھی پورا امکان ہے۔
میں بھارتی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی 8جولائی2010ء کی اشاعت کے ایک مضمونCalm Kashmirکی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتا چلوں، جس میں بھارتی جنتا پارٹی اور اس کے جنگجو حلیفوں کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کے حل کا جو نسخہ پیش کیا گیا ہے اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ الفاظ یہ ہیں ’’پاکستان افضل خان کی شیطانی پالیسی پر چل رہا ہے، اس کا جواب وہی ہے جو شیوا جی نے دیا تھا ‘‘۔ یہ اس تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے، جب مرہٹہ سردار شیوا جی نے اورنگ زیب عالمگیر کے سپہ سالار افضل خان کو امن مذاکرات کے لیے بلا کر قتل کر دیا تھا۔ وہ جو صرف امن کی بات کرتے ہیں انھیں اس تاریخی واقعے کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔
کشمیر کے اہم سیاسی اور انسانی مسئلے کے بارے میں پاکستانی میڈیا وہ کردار ادا نہیں کر رہا جو ہندوستانی میڈیا کرتا ہے۔ یہی صورت حال ہمارے سفارت خانوں کی ہے۔ مغرب کے ایوانوں میں بھارت اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کر رہا ہے اور ہم اپنے سچ کو سچ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کے پروفیسر متو کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں کشمیر میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ پیسے کا مسئلہ نہیں، ہم کئی عشروں سے بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کررہے ہیں۔کبھی کشمیریوں کو خریدنے کے لیے، کبھی ان کو تقسیم کرنے کے لیے۔ یہ منصفانہ انتخابات کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ کشمیریوں کی ایک ایسی نسل تک پہنچنے کا مسئلہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ بھارت ایک بڑا بھوت ہے اورجس کی نمائندہ، اس کی افواج ہیں‘‘۔
مجھے نیو یارک ٹائمز کی نامہ نگار، برمنگھم یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے الفاظ یاد آتے ہیں جس نے کہا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب 9فروری2013ء کو تہاڑ جیل میں افضل گورو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ عارفہ غنی کہتی ہے کہ ’’جب مقبول بٹ (شہید)کو پھانسی دی گئی تو میں پیدا نہیں ہوئی تھی، جب میں نے اس کے بارے میں کچھ پڑھا تو پھر وہ ہمارا ہیرو ہو گیا۔ افضل گورو کی پھانسی کے بعد میں جس طرح محسوس کر رہی ہوں اس طرح کبھی بھی محسوس نہیں کیا۔ مگر ہم اپنے بڑوں کی طرح کبھی ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ ہم زیادہ ذہانت سے رد عمل دیں گے‘‘۔ لیکن یہ تاریخ کا جبر ہے یا نئی نسل کی بدترین مایوسی کہ کشمیری قوم نے 2013ء سے 2016ء تک ایک بار پھر گولی کے مقابلے میں احتجاج کا راستہ اختیار کیا، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا اور یہ تحریک برہان مظفر وانی(شہید) کی صورت میں ایک نئے انداز میں ہمارے سامنے آئی۔
جنہوں نے سوشل میڈیا کو بھرپور انداز میں استعمال کیا تھا۔ زندہ برہان وانی کے مقابلے میں شہید برہان وانی ہندوستان کے لیے زیادہ مضر ثابت ہوئے، جن کی شہادت نے آج 2016ء اور 2017ء میں کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔افضل گورو اور برہان وانی کی شہادتیں اس حقیقت کو سامنے لائیں کہ کشمیر کی تحریک، کشمیریوں کی اپنی ہے اور بھارت کا یہ پروپیگنڈہ بالکل بے بنیاد ہے کہ کشمیر کے اندر چلنے والی تحریک، پاکستان کی Planted ہے۔ہم نے ماضی میں مذاکرات کے تمام مراحل کو سنا، دیکھا اور پڑھا۔ مذاکرات کے نام پر بھارت نے ہمیشہ پاکستان سے وقت لیا ہے اور اس وقت کو کشمیریوں کے خلاف استعمال کیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیز فائر اورمذاکرات کا فائدہ بھارت نے اس صورت میں اٹھایاکہ خط متارکہ پر باڑ لگا دی۔ یہ با ت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں بہر حال مذاکرات میں اصولی موقف پر ذرا سی بھی لچک نہیں دکھانی چاہیے۔ اگر ہمارا موقف مبنی بر حق ہے (اور یقیناً ہے) اور بین الا اقوامی قانون، اقوام متحدہ کی قراردادیں، اقوام متحدہ اور غیر وابستہ تحریک کاچارٹر اور بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے وعدے اورسب سے بڑھ کر جموں وکشمیر کے عوام کی کھلی تائید ہمارے موقف کے حق میں ہے، تو ہمارے کمزوری دکھانے اور انصاف کی راہ سے پیچھے ہٹنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے ؟
کشمیر کا مسئلہ زمین کا تنازعہ نہیں، یہ ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمیں اندرونی طور پر مضبوط پاکستان ہی مدد پہنچا سکتا ہے۔ اقبال نے شاید اسی کی طرح اشارہ کیا ہے کہ
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اُمت مسلمہ آج جن حالات سے دوچار ہے وہ ہم سے پوشیدہ نہیں۔ امت مسلمہ، پاکستانی قوم اور اس کی سیاسی و عسکری قیادت کے لیے آج کے حالات میں اورخصوصیت سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے پس منظر میں اقبال کا پیغام یہ ہے کہ
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
ہم اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں اورتعلیمی اداروں کی سطح پر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ خاص طور پر 11اکتوبر2018ء کو منان بشیر وانی، پی ایچ ڈی سکالر، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی شہادت نے تو یہ ثابت کر دیا ہے کہ مستقبل میں کشمیر کی تحریک کا مرکز بہت تیزی کے ساتھ جامعات بنتی چلی جا رہی ہیں۔ جامعات میں نئی نسل کو مسئلہ کشمیر سے متعارف کروانا، اُن کو یہ باور کروانا کہ یہ دور سوشل میڈیاکا ہے اور وہ سوشل میڈیا کے ذریعے سے بیرونی دنیا میں اپنے روابط کو مربوط بنائیں اور انصاف کو سمجھنے والے افراد، گروہ اور اقوام کو یہ بات باور کروانے کی اپنی سی کوشش کریں کہ اقوام متحدہ کے حل طلب مسئلوں میں سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے جوکہ ایک اصولی مسئلہ ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کو پہلے اپنے آپ کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کشمیر اور پاکستان دو الگ وجود نہیں۔ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کا کوئی بھی کشمیری مخالف نہیں لیکن یہ تعلقات، کشمیریوں کے خون کی بنیاد پر استوار نہیں ہونے چاہیں۔ ہندوستان سے تجارت ضرورکیجیے لیکن توازن کو نظرمیں رکھ کر۔
پھر گئی سوئے اسیرانِ قفس بادِ صبا
خبرِ آمدِ ایامِ بہاراں لے کر
The post ’پھر گئی سوئے اسیرانِ قفس بادِ صبا‘ appeared first on ایکسپریس اردو.