عرصہ پہلے ہم نے ایک تحریر میں جیہ بہادری کی جگہ جیہ پرادا کو امیتابھ بچن کی اہلیہ قرار دے دیا تھا، خیر گزری کہ جیہ بچن اس تحریر سے ناآشنا رہیں، ورنہ امیتابھ بچن کا بچنا محال ہوجاتا، اور ’’اب تک تو تھی صرف ریکھا، یہ میں نے اور کیا دیکھا! کیا چکر ہے؟‘‘ کے سوال کی وضاحت کرنا ان کے لیے دوبھر ہوجاتا۔ پھر بچن پریوار میں جو کچھ ہوتا آخرکار ہمارے ذریعے کی جانے والی آئی ایس آئی کی کارستانی قرار پاتا۔ بتانے کا مطلب یہ تھا کہ ہم صحافی کبھی کبھی بڑی دل چسپ غلطیاں اور حماقتیں کر جاتے ہیں۔
ایسی ہی خطاامریکا کے فیشن میگزین ’’ووگ‘‘ نے بھی کی ہے۔ ’’ووگ‘‘ نے اپنے فروری کے شمارے میں لیبیائی نژاد امریکی صحافی اور سماجی کارکن نور تگوری کی خدمات کے عوض انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہا، مگر ان کے بہ جائے پاکستانی اداکارہ اور ماڈل نور بخاری کا تعارف شایع کرتے ہوئے ان کی ستائش کرڈالی۔ امریکی میڈیا نے دوسری بار نورتگوری کے ساتھ اس طرح کا ’’مذاق‘‘ کیا ہے، اس سے پہلے ایک دہشت گرد کی بیوی نورسلمان کی گرفتاری پر اس کی جگہ نورتگوری کی تصویر چھاپ دی گئی تھی۔ اس طرح کی غلطیاں عموماً ’’اوئے کوئی گَل نئیں‘‘ مزاج کے لوگوں کے گوگل پر انحصار سے جنم لیتی ہیں۔ چلیے اس معاملے کو ہم پاکستانی صحافت کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لگتا یہ ہے کہ اس مزاج کے کسی صحافی سے ایڈیٹر نے کہا ہوگا ’’میاں! نور تگوری پر ایک رائٹ اپ لکھ دو‘‘ مسئلہ یہ ہے کہ سنیئر صحافی یہ توقع رکھتے ہیں کہ جب وہ اپنے جونیئر کے سامنے کوئی نام لیں تو وہ شش وپنج میں پڑجائے اور جھجکتے ہوئے پوچھے ’’یہ کون ہے؟‘‘ اور تفصیل بتانے سے پہلے سنیئرصحافی جونیئر کی بے علمی اور بے خبری کی خوب خبر لے۔ دوسری طرف ’’اوئے کوئی گل نئیں‘‘ والے بہت سے جونیئر صحافیوں کا یہ حال ہے کہ جون ایلیا کو وہ ہالی وڈ کا اداکار سمجھتے ہیں، نسیم حجازی کا نام لیا جائے تو پوچھیں گے ’’کون تھیں یہ خاتون؟‘‘ اور ان سے عباسی خلفاء میں سے کسی ایک کا نام پوچھا جائے تو پورے یقین سے فرمائیں گے ’’شاہد خاقان عباسی۔‘‘ اب نورتگوری پر لکھنے کی ہدایت پانے والے صحافی کو نور تو یاد رہا تگوری بھول گیا، اسے گوگل پر جو بھی پہلی نور ملی اس پر لکھ مارا۔ ممکن تھا کہ نورتگوری کی تصویر کے نیچے شہنشاہ نورالدین جہاں گیر، ملکہ نورجہاں، گلوکارہ نورجہاں میں سے کسی کا تعارف تاریخ وفات کے ساتھ شایع کردیا جاتا، خیریت رہی کہ اس صحافی کی نظر اداکارہ نور ہی پر جاکر رُک گئی۔
’’ووگ‘‘ نے اس سہو پر دونوں متاثرہ خواتین سے معذرت کرلی ہے، لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ امریکی میڈیا ایسی غلطیاں دہراتا رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی تصویر کے ساتھ بھارتی اداکار عمران خان کا تعارف ’’بہت اچھے اداکار ہیں، جیسا بھی اسکرپٹ ہو اس کے مطابق کردار میں ڈھل جاتے ہیں‘‘ کے الفاظ کے ساتھ چھاپ دیا جائے۔ آصف زرداری کی شبیہہ بھارتی ہدایت کار اور فلم ساز کے آصف کی کہانی کے ساتھ شایع ہو۔ دونوں شخصیات کو گَڈمَڈ کرتے ہوئے لکھا ہو ’’انھوں نے فلم مغل اعظم بنائی، جس کی شوٹنگ کے لیے بڑی تعداد میں گھوڑے اور سِرے محل خریدا۔‘‘ نوازشریف کی تصویر کے نیچے اداکارہ بابرہ شریف کے فلمی کیریر کے عروج وزوال کا قصہ درج ہو۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے امریکی میڈیا گوگل سے زیادہ عقل کا استعمال کرے۔
The post مزید کن کن غلطیوں کا امکان ہے appeared first on ایکسپریس اردو.