بھارتی ریاست تامل ناڈو میں دودھ فروشوں پر بڑا مشکل وقت ہے ایسی بات نہیں کہ قلت آب کے سبب وہ دودھ میں پانی نہیں ملا پارہے مسئلہ کچھ اور ہے۔
تامل ناڈو کے شیرفروشوں کی تنظیم نے پولیس سے شکایت کی ہے کہ فلمیں ریلیز ہونے کے موقع پر دودھ چُرانے کی وارداتیں روزبہ روز بڑھتی جارہی ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ بھارت میں دودھ سے دُھلی فلمیں تو بنتی نہیں، بلکہ کپڑوں کی کمی اور گالیوں کی زیادتی میں بھارتی فلمیں جس مقام پر ہیں اسے دیکھتے ہوئے پاکستانی فلمی صنعت کے تو ابھی دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر فلم کی ریلیز سے عین پہلے فلمی ستاروں کے پرستار اپنے اپنے من پسند اداکار کے دیوقامت پوسٹروں اور کٹ آؤٹس کو دودھ سے نہلاتے ہیں۔ اگر یہ دودھ خریدا جاتا تو دودھ بیچنے والوں کے وارے نیارے ہوجاتے، لیکن سیانے پرستار دودھ چُراکر ’’دودھوں دھُلانے‘‘ کی رسم ادا کرتے ہیں۔
یہ دودھ چُرانے اور فلمی ستاروں کی بڑی بڑی تصویروں پر بہانے کا یہ سلسلہ بیس سال سے جاری ہے۔ تامل ناڈو کے دودھ کے تاجروں کی تنظیم کے سربراہ ایس اے پانوسامے کے مطابق پرستار فلمی ستاروں کو ’’نیم دیوتا‘‘ مانتے ہیں، چناں چہ جس طرح بُتوں پر دودھ کا چڑھاوا چڑھایا جاتا ہے، اسی طرح محبوب اداکاروں کی تصویروں کو دودھ کا غسل دیا جاتا ہے۔
دودھ چوری کی وارداتیں صبح کے وقت ہوتی ہیں، جب پیکٹوں میں بند دودھ باڑوں سے ٹرکوں کے ذریعے دکانوں پر پہنچتا ہے، اس دوران جب جہاں موقع ملے فن کاروں کے چاہنے والے فن کاری دکھاتے ہوئے دودھ کے ڈبے اُڑا لیتے ہیں۔
اگرچہ مندر اور پوسٹر دونوں جگہ دودھ بہانے کا چلن یکساں ہے، مگر فرق یہ ہے کہ بتوں پر چڑھاوا اپنی مانگیں منتیں پوری کروانے کے لیے چڑھایا جاتا ہے، اور اداکاروں کی تصویروں پر دودھ ان کی کام یابی کی خاطر بہایا جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک اداکار نے اپنے پرستاروں سے درخواست کی ہے کہ ان کی فلم آنے والی ہے، اس لیے ان کے کٹ آؤٹس پر دودھ بہادیا جائے۔ گویا یہ آدھے ادھورے دیوتا اپنی آشاؤں کے پورا ہونے کے لیے پجاریوں کے محتاج ہیں۔
ایک زمانے میں بڑی بوڑھیاں چھوٹوں کو دعا دیتی تھیں ’’دودھوں نہاؤ پوتوں پَلو‘‘ یہ بھارتی پرستار پوسٹروں پر دودھ بہاتے وقت ’’دودھوں نہاؤ فلموں پلو‘‘ کی دعا دیتے ہوں گے۔ جس اداکار کے لیے یہ سارے جتن کیے جاتے ہیں اس کی فلم آنے کے بعد دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا ہے، فلم نے پردہ پھاڑ کام یابی حاصل کرلی تو فلمی ستارہ پرستاروں کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر اسے اپنی صلاحیت اور محنت کا صلہ سمجھتا ہے، اور اگر فلم پردہ پھاڑ کام یابی کے برعکس ناکام ہوکر پھٹا ہوا دودھ ثابت ہو، تو وہ کہتا ہوگا پرستاروں نے یقیناً دودھ میں مینگنی ملادی۔
افسوس کی بات ہے، بھارت کے فلمی اداکار خاص طور پر سُپراسٹار کروڑوں کماتے ہیں، لیکن اپنی ہی تصویروں پر بہانے کے لیے دودھ خرید کر نہیں دے سکتے، بے چارے پرستاروں کو کیا کیا جتن کرکے دودھ چُرانا پڑتا ہے۔ اور حیرت ہے پرستاروں کی محبت اور عقیدت پر جو ’’چُرائی‘‘ سے ’’دُھلائی‘‘ تک کتنے پاپڑ بیلتے ہیں، پھر ٹکٹ لے کر اپنے محبوب اداکار کی فلم دیکھتے ہیں، تالیاں بجاکر داد دیتے ہیں، اور فلم اور اداکار کو کام یاب کرواکر ہاتھ جُھلاتے سنیما گھر سے نکلتے ہیں، لیکن اپنے گھر دیر سے پہنچتے ہیں، تاکہ بیوی سوچکی ہو اور یہ نہ پوچھ پائے کہ ’’’مُنے کا دودھ لائے؟‘‘
The post دودھ کی چُرائی، اداکاروں کی دُھلائی appeared first on ایکسپریس اردو.