(قسط نمبر (13)
داغ دہلوی نے کہا تھا:
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
سی آر آئی کی اردو سروس میں کام کرتے ہوئے بارہا یہ خیال آیا کہ ہمارے جو چینی ساتھی اتنی روانی سے اردوبول، لکھ اور پڑھ سکتے ہیں یہ انہوں نے کیسے سیکھی ۔ چین میں کون کون سے ادارے یا جامعات ہیں جہاں اردو کی تدریس کی سہولت موجود ہے۔ ایک روز دفتر میں اردو زبان کے ارتقاء پر بات چیت شروع ہو گئی۔ ہم نے اپنے چینی ساتھی لیو شیاؤ ہوئی سے پوچھ لیا کہ انہوں نے اردو کی تعلیم کہاں سے حاصل کی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے گریجویٹ ہیں ۔
اس جامعہ میں اردو کا شعبہ انیس سو اکاون میںقائم ہوا تھا ۔ اور اب تک برقرار ہے۔ ایک روز اسی یونیورسٹی میں پاکستان کے حوالے سے تقریب منعقد ہوئی تو ہمیں اس میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں پر شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر Zhnag Jiamei (طاہرہ) سے بھی ملاقات ہوئی۔۔روانی سے اردو بولنے والی ڈاکٹر Zhnag Jiamei (طاہرہ) کا اردو زبان سیکھنے اور جاننے کا سفر انیس سو ستانوے میں شروع ہوا جب انہوں نے یہا ں داخلہ لیا۔اس کے بعد انہوں نے یہیں سے گریجویشن ، پوسٹ گریجویشن اور پھر پی ایچ ڈی کی ۔ یہیں انہوں نے اردو کی تدریس کاآغاز کیا اور اب شعبہ اردو کی سربراہ ہیں۔یوں ایک ہی شعبہ میں وہ طالبہ سے معلمہ بن گئیں۔ انہوں نے چین میں اردو کے فروغ کے بارے میں بتایا کہ اکثر طلباء کو ابتداء میں اردو سیکھنا مشکل لگتا ہے آتی ہیں۔
مگر جوں جوں وہ اس کو پڑھتے اورسمجھتے جاتے ہیں ان کی دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر Zhnag Jiamei (طاہرہ) کی اردو سے وابستگی کو دو عشروں سے زائد عرصہ بیت چکا ہے اور وہ اب اُردو پر ایک محققہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہو ں نے بتایا کہ چین کی جامعات میں اردو کے حوالے سے کچھ نہ کچھ تحقیق تو ہو رہی ہے مگر وہ زیادہ موثر نہیں۔ چین میںا ردو پر تحقیق کے عمومی موضوعات اردو ادب، برصغیر کی تاریخ و ثقافت اورمذہب ہیں۔ چین میں اردو کے فروغ کے لیے مزید کیا اقدامات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہاں اردو کی معیاری تعلیم کے لیے پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے اساتذہ کی سلیکشن اور ان کو یہا ں بھیجے جانے کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہا ں کسی خاص تنظیم کی ضرورت ہے۔
جس کے زیرا ہتمام ہر سال تقریری مقابلے اور مشاعرے منعقد ہوں۔ ڈاکٹر Zhnag Jiamei (طاہرہ) اردو ، پاکستان کی ثقافت، برصغیر کی تاریخ کے بارے میں باقاعدگی سے مضامین لکھتی ہیں ۔ اصناف ادب میں سے انہیں افسانہ بہت پسند ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میںنو طلباء زیر تعلیم ہیں اور ان میں سے ایک طالبہ پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ جب انہوں نے ایک چینی طالبہ کا اردو میں پی ایچ ڈی کرنے کا بتایا تو ہمیں بہت خوشی ہوئی اور ساتھ تجسس بھی ہوا کہ اس طالبہ سے ملاقات ضرور کی جائے۔اس ملاقات کا اہتما م بھی ڈاکٹر Zhnag Jiamei (طاہرہ) کے توسط سے ہو گیا ۔ یوں ہماری ملاقات
نائلہ Zhou Jia) ) سے ہوئی جو کہ مغل عہد میں چین اور جنوبی ایشیا کے تعلقات کے بارے میں تحقیق کر رہی ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اردو زبان میں دلچسپی کیسے پیدا ہوئی تو کہنے لگیں کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے پہلے مجھے اپنے میجر مضمون کا فیصلہ کرنا تھا۔ اس وقت میرے پاس کچھ آپشنز تھے ۔ جن میں اردو بھی شامل تھی۔ تو میں نے سوچا کہ پاک چین دوستی بہت اہم ہے اور میں پاکستان کے بارے میں جاننا بھی چاہتی ہوں۔ جس کے لیے زبان جاننا ضروری ہے اس لیے میں نے اردو کو منتخب کیا۔ پم نے ان سے پوچھا کہ ایک بالکل اجنبی زبان کو سیکھنا کیسا لگا تو کہنے لگیں کہ شروع میں مشکل ہوئی کیونکہ سپیلنگ، تلفظ اور لہجہ چینی سے کا فی مختلف ہے۔ تھوڑی تھوڑی سیکھنے کے بعد دلچسپی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔اردو زبان کے دلچسپ پہلو کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اردو میں گیت، منظر کشی اور تصورات کے تازہ دم بیانات اور منطق کا اظہار سب سے دلچسپ ہے اور اردو ایک واضح زبا ن ہے۔
چین میںاردو کے مستقبل کے حوالے سے کہنے لگیں کہ چین میں زیادہ سے زیادہ لوگ اردو پڑھنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور پاکستانیوں سے اردو میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ بعض پاکستانی فلم اور ڈرامہ دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور پاکستان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ صدر شی جن پھنگ کا بیلٹ اینڈ روڈ چین میں کافی مقبول ہے اس وجہ سے چینی لوگ پاکستان کو اچھی طرح سے جاننے کے خواہشمند ہیں۔ چین میں اردو کا مستقبل روشن ہے۔ نائلہZhou Jia) ) کو پاکستانی مصنفین میں سے خالدہ حسین بہت پسند ہیں ۔ان کے افسانے انہوںنے پڑھے ہوئے ہیں۔ پسندیدگی کی وجہ ان کے اندازِ تحریر کا مردوں سے مختلف ہونا ہے۔اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں مذہب، مغربی نقطہ نظر، اور پاکستان میں مڈل کلاس کے نئے خیالات شامل ہیں ۔
شاعروں میں انہیں فیض احمد فیض پسند ہیں۔ اردو ڈرامہ انار کلی کا کچھ حصہ انہوں نے پڑھا ہوا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کا دریا کا انہوں نے چینی میں ترجمہ پڑھا ہوا ہے۔جس سے وہ کافی متاثر ہیں۔ چینی جامعات میں اردو میں پی ایچ ڈی کی کلاسز کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ فی الوقت پیکنگ یونیورسٹی اور بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی میں ہی پی ایچ ڈی ممکن ہے۔نائلہ پاکستانی شاعری، پاکستانی سماج کے متعلق ناولز اور افسانوں کا چینی میں ترجمہ کیے جانے کی خواہشمند ہیں تاکہ اس سے چین میں اردو کا فروغ زیادہ سے زیادہ ہو سکے۔
ہمیں ایک مرتبہ دو ہزار سترہ میں بیجنگ میں واقع بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں یوم اقبال کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں پر اساتذہ اور طلباء سے ملاقات ہوئی ۔اس تقریب میںطلباء نے اردو نغمات بھی پیش کیے۔ چینی طلباء سے مخصوص اردو لہجے میں اردو سننا بہت اچھا لگا۔وہیں ہماری ملاقات اردو جاننے والے ایسے چینی افراد سے بھی ہوئی جو تدریس کے علاوہ دیگر شعبوں سے منسلک تھے۔ بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ Zhou Yuan (نسرین) نے اردو کمیونکیشن یونیورسٹی آف چائنہ سے پڑھی اوران کے دو کلاس فیلوز ہمارے ساتھ سی آر آئی اردو سروس میں کام کر رہے تھے۔ یوں تقریب کے بعد ہونے والی گپ شپ میں معمول سے ہٹ کر ہمیں خصوصی توجہ حاصل رہی کیونکہ ہم نے سی آر آئی میں ان کے کلاس فیلوز سے اپنے تعلق کا حق جتایا۔ چین میں بغیر پیشگی وقت لیے ملاقات کرنا ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے اس کے باوجود انہوں نے نرمی دکھائی اور ہمارے کچھ سوالات کے جوابات دے دیے۔
سب سے پہلے تو ہم نے ان سے شعبہ اردو میں زیر تعلیم طلبا ء کی تعداد کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس وقت بائیس طلباء زیر تعلیم ہیں۔ یہ طلباء کا تیسرا بیچ ہے، اور ہر چار سال بعد طلباء کو یہاں داخلہ دیا جاتا ہے۔ طلباء کو پاکستانی ثقافت سے روشناس کرانے اور اردو میں ان کی مہارت کی بہتری کے لیے یہاں باقاعدگی سے اردو خطاطی، پاکستان کوئز ، تقریری مقابلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہاں اردو فلموں کی ڈبنگ کے حوالے سے بھی پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً پاکستان سے تعلق رکھنے والی علمی شخصیات کو بھی مختلف موضوعات پر لیکچر کے لیے یہاں مدعو کیا جاتا ہے۔ پاکستانی ادب پاروں کے چینی میں ترجمہ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ستر اور اسی کے عشرے میں کرشن چندر اور علامہ اقبال کا کچھ کام چینی میں ترجمہ کیا گیا۔ اور اسی دور میں چینی شاعری ،لو ک کہانیوںاورناولز کا اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ مگر اب دونوں ممالک کے ادب کے ترجمے کا کام سست روی کا شکار ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اب چونکہ چینی بہت بڑی تعداد میںاردو زبان سیکھ رہے ہیںاس لیے اُمید ہے کہ مستقبل میں ترجمے کا کام بہتر انداز میں ہوگا اور اس میں تیزی آئے گی۔ بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ Zhou Yuan(نسرین ) نے بعد میں اپنے طلباء سے بھی ملوایا ۔ان سے بات چیت بھی بہت مفید رہی اور نوجوان چینی طلبا و طالبات سے اردو سیکھنے اور اس میں مستقبل کے حوالے سے ہونے والی گفتگو بہت دلچسپ رہی۔
ان طلباء سے بات کرتے ہوئے سب سے پہلی خوشگوار حیرت ان کے پاکستانی نام جان کر ہوئی۔ معلوم ہوا کہ اردو سیکھنے والے چینی طلباء و طالبات کو سب سے پہلے ان کا اردو نام دیا جاتا ہے یہ ایک اچھی روایت ہے کہ جس ملک کی زبان سیکھ رہے ہیں اس زبان میں مستعمل نام بھی آپ کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے۔تو سب سے پہلے ہماری ملاقات چین کے صوبے جیانگسو سے تعلق رکھنے والی
صدف (Lu Dongxin) سے ہوئی جنہیں اردو سیکھتے ہوئے ڈھائی سال ہو چکے ہیں۔ اردو کی وجہ انتخاب زبانیں جاننے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان۔ چین کی اچھی دوستی اور ہمسایہ ملک ہونا بھی اس کی وجہ ہے ۔ صدف (Lu Dongxin) کو برصغیر کی ثقافت سے خصوصی دلچسپی ہے اورمستقبل میں اس حوالے سے تحقیق کی خواہشمند ہیں تو اس لیے اردو کو میجر مضمون کے طور پر منتخب کیا۔ مستقبل میں اردو جاننے سے جڑے امکانی معاشی فوائد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آج کل سی پیک کا بہت چرچا ہے اور چین ، پاک دوستی نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سائنسی و تکنیکی، تعلیم اور ثقافتی شعبوں میں زیادہ سے زیادہ تعاون ہو رہا ہے۔ دونوں ممالک کو اردو سمجھنے والوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے وہ اردو سیکھ کر روزگار کے زیادہ مواقع حاصل کر سکتی ہیں۔چینی حکومت کی جانب سے انہیں اردو سیکھنے کے لیے پاکستان جانے کا سکالرشپ ملا ہوا ہے۔ پاکستان میں رہ کر ا نہوں نے پاکستانی معاشرت اور ثقافت کے بارے میں براہ راست علم حاصل کیا ۔ پاکستان میں قیام کو انہوں نے خوب انجوائے کیا ۔ یہاں کئی دوست بنائے اور یہاں قیام سے ان کی اردو زبان میں مہارت بہتر ہوئی ۔
چین کے شہر چھینگ تاؤسے تعلق رکھنے والی Zhang YI (عافیہ)بھی ہائی سکول سے گریجویٹ ہو کر کسی زبان کو سیکھنے کی خواہشمند تھیں۔ انہوں نے نے انٹرنیٹ پر کچھ معلومات سرچ کیں اور اردو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔کیوں کہ دونوں ممالک کے درمیان زیادہ تعاون ہو رہا ہے۔ Zhang YI (عافیہ) کے نزدیک اردو سیکھنے کی سب سے بڑی وجہ مستقبل میں اس سے وابستہ روزگارکے مواقع ہیں۔ کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس سے انہیں چین اور پاکستان میں روزگار مل سکتا ہے۔اردو جاننے سے انہیں پاکستانیوں سے بات چیت میں آسانی رہتی ہے۔ اور پاکستانی ثقافت کے متعلق ان کی معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ صوبہ ہونان سے تعلق رکھنے والی Hu Yinuo(عدیلہ) کی کہانی بھی اپنی کلاس فیلوز سے ملتی جلتی تھی ۔
ا نہیں بھی زبان جاننے کا شوق اردو کی جانب لے آیا ۔ ہائی سکول سے گریجویٹ ہونے کے بعدا نہیں کسی بھی زبان کو منتخب کرنا تھا۔ انٹرنیٹ کے ذریعے انہیں پتہ چلا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے اور چین اور پاکستان کے درمیان خوشگوار تعلقات موجود ہیں اور دونوں ممالک اچھے ہمسایہ ممالک بھی ہیں۔تو انہوں نے اردو کو چن لیا۔ Hu Yinuo(عدیلہ) کو چین، پاک اقتصادی راہداری کی تعمیر سے ہونے والی تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کے فرو غ سے روزگار کے مواقعوں کی دستیابی یقینی لگتی ہے۔ طالبات کو تو اردو سیکھنے سے چین یا پاکستان میں روزگار کے مواقعوں کا امکان نظر آتا ہے مگر چینی مرد طالب علم اردو سیکھ کر ملازمت کے ساتھ ساتھ کاروبار کے امکانات پر بھی نظریںجمائے ہوئے ہیں۔
ایسے ہی چین کے صوبے لیاوننگ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم عمار (Fan Shuheng) ہیں جو کہ مستقبل میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اردو کو اپنے لیے فائدہ مند پاتے ہیں۔انہیں پاکستان کی رنگ برنگی ثقافت بہت بھاتی ہے۔ہنس مُکھ اورنکلتے ہوئے قد کے مالک عمار شاعرانہ ذوق کے حامل ہیں۔ موسیقی سے کافی لگاؤ ہے۔ پاکستانی بانسری بجا لیتے ہیں او ر پاکستانی گانے بھی گا لیتے ہیں۔ پاکستانی گانے گا کر پاکستانیوں کو حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔
جبکہ بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے چین کے صوبے ہیبے سے تعلق رکھنے والے طالب علم جنید (Wang Jingjiu) کے لیے اردو ان کے سفارت کار بننے کے خواب میں بہت مدد گار ثابت ہوئی ۔وہ بھی جب ہائی سکول سے گریجویٹ ہوئے تو انہیں معلوم تھا کہ قریبی ہمسایہ ملک پاکستا ن کی قومی زبا ن اردو ہے اور وہ اردو زبان سیکھ کر چین میں اردو کے متعلق کام کر سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ انہیں وزارت ِ خارجہ کا امتحان پاس کرنے میں ہوا ۔یونیورسٹی کے دوسرے سال ہی انہوں نے وزارتِ خارجہ کے داخلہ امتحان میں حصہ لیا اور اردو کی بدولت پاس ہو گئے ۔ اس لیے وہ اردو کے بہت مشکور ہیں کیونکہ اردو کی وجہ سے ان کا سفارت کار بننے کا خواب سچ بن گیا۔ جنید (Wang Jingjiu)کو چینی اردو شاعر انتخاب عالم کا پاکستان اور چین کے دوستی کے متعلق لکھا یہ قطعہ بہت پسند ہے۔
روحِ دوستی
پاکستان میں اہلِ چین جب آتے ہیں
اس کے قریہ قریہ کو مہکاتے ہیں
اپنا دل رکھ جاتے ہیں گلدانوں میں
پاکستان کو سینے میں لے جاتے ہیں
جناب انتخاب عالم کی طرح وہ بھی چین اور پاکستان کی دوستی ہمیشہ برقرار رہنے کے لیے دعا گو ہیں ۔ وہ مستقبل میں چین اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کو آگے بڑھا نے میں اپنی خدمات پیش کرنے کے حوالے سے پرجوش اور پرامید ہیں۔ چین کے صوبہ گانسو سے تعلق رکھنے والے مُوسیٰ (Chen Qiyuan) کو شاعری سے لگاؤ کی وجہ سے اردو پسند ہے۔ ان کے نزدیک اردو شاعری کی زبان ہے۔ اس کے علاوہ چین اور پاکستان کی قریبی ہمسائیگی اور دونوں ممالک کے درمیان گہری پرانی دوستی بھی ان کے اردو سیکھنے کا باعث ہے۔ اردو زبان سیکھنے سے وہ مستقبل میں چین پاک دوستی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر میں اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔اردو زبان سیکھنے سے انہیں پاکستان کی ثقافت،معاشرت ، سیاست، ادب کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔پاکستان کے بارے میں معلومات میں اضافہ ہو اہے۔ مُوسیٰ (Chen Qiyuan)کے نزدیک پاکستانی ثقافت کے موجودہ خدوخال میں تاریخ اور مذہب کے اثرات بڑے نمایاں ہیں۔
مُوسیٰ (Chen Qiyuan) کو پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض پسند ہے، وہ اسے سادہ اور باوقار پہناوا قرار دیتے ہیں۔ پاکستانی لوگوں کے کھانے پینے کی عادات کے حوالے سے ان کا مشاہدہ ہے کہ پاکستانیوں کی روزمرہ خوراک سادہ ہے لیکن شادی بیاہ اور دعوتوں میں پرتکلف کھانوں کا اہتما م کیا جاتا ہے۔ بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی کی مذکورہ تقریب میں کچھ ایسے چینی احباب سے بھی ملاقات ہوئی جو اردوزبان بخوبی جانتے تھے مگر تدریس سے وابستہ نہیں تھے۔ انہی میں ایک معززمہمان لُو شِی لِن (Lu Shilin) بھی تھے جو پاکستان میں چین کے سفیر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ان کا اردو سیکھنے کاآغاز بہت دلچسپ ہے۔ لُو شِی لِن شنگھائی کی ایک یونیورسٹی میں انگلش زبان سیکھ رہے تھے کہ چین کے وزیراعظم چو این لائی نے وزارتِ تعلیم کو ہدایت کی کہ ملک بھر سے طلباء کو منتخب کیا جائے اور انہیں دیگر زبانیں سکھائی جائیں۔ خوش قسمتی سے یہ بھی ان منتخب طلباء میں شامل ہو گئے جو زبانوں کو سیکھنے کے لیے منتخب ہو ئے ۔ انہیں اردو زبان سیکھنے کے لیے دہلی یونیورسٹی بھیج دیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی جانے سے پہلے وہ اردو سے واقف نہیں تھے۔ وزیراعظم چو این لائی کا یہ موقف تھا کہ دنیا میں انگریزی کے علاوہ بھی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔
ہمارے سفارت کاروں کو دوسری زبانیں بھی آنی چاہییں۔ وزیر اعظم چواین لائی کہتے تھے کہ انگریزی بولنے والے ممالک کے مہمانوں یا سفارت کاروں سے ملاقات کرتے ہوئے توانگریزی مترجم کی ضرورت پڑتی ہے مگر ایسے ممالک جن کی زبان انگریزی نہیں ہے ان سے بات چیت کرتے ہوئے انگریزی کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے انہوں نے وزارتِ تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ ایسے طلباء کو منتخب کریں جو کہ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانیں سیکھیں۔ تو وزیراعظم کے احکامات پر وزارتِ تعلیم کے پروگرام کے تحت جناب لُو شِی لِن (Lu Shilin) کو اردو پڑھنے کے لیے دہلی یونیورسٹی بھیج دیا گیا۔ اس وقت برصغیر تقسیم ہو چکا تھا اور ہندوستان اور پاکستان الگ الگ ملکوں کے طور پر وجود پا چکے تھے۔
لُو شِی لِن (Lu Shilin) نے دو سال تک وہاں اردو سیکھی دو سال بعدلُو شِی لِن (Lu Shilin) چین واپس آ گئے۔ اس کے بعد چین اور پاکستان کے درمیان ثقافتی معاہدہ ہوا اور طلباء کا تبادلہ شروع ہوا تو پھر لُو شِی لِن (Lu Shilin)کو اردو پڑھنے کے پاکستان بھیج دیا گیا۔ دو برس کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پڑھتے رہے گریجویشن مکمل کی۔ اس وقت پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا اور چین کا سفارت خانہ بھی کراچی میں تھا تو انہوں نے کراچی ہی میں چین کے سفارت خانے میں کام شروع کر دیا۔ جب پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو چینی سفارت خانہ بھی منتقل ہو گیا۔ اس وقت لُو شِی لِن (Lu Shilin) اسلام آباد نہ آئے۔ چین کی حکومت نے کراچی میں اپنا قونصل خانہ بنا لیا۔تو انہوں نے قونصل خانہ میں کام کرنا شروع کر دیا۔ لُو شِی لِن (Lu Shilin) قونصل خانہ میں کام کرتے ہوئے بھی اردو سیکھتے تھے۔ وہ کتابیں پڑھتے تھے اورلوگوں سے ملتے تھے۔کراچی میں لُو شِی لِن (Lu Shilin) چار سال رہے ۔چار سال بعد وہ واپس چین آگئے۔ چین واپس پہنچنے پر انہوں نے چین کی وزارتِ خارجہ میں پاکستا ن ڈیسک پر چھ سال تک کام کیا۔ ۔ انیس سو نواسی میں انہیں ایک مرتبہ پھر پولیٹکل قونصلر بنا کر پاکستان بھیج دیا گیا۔
چار سال بعد چین واپس آگئے۔ اس کے بعد وہ تین برس تک چین میں رہے اور انہیں ایک کیربین ملک میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد چینی حکومت نے انہیں سفیر بنا کر پاکستان بھیج دیا۔ انیس سوننانوے سے لیکر دوہزار دو تک وہ پاکستان میں چین کے سفیر رہے۔ دو ہزار دو میں بطور سفارت کار ریٹائر ہو گئے اور اب فراغت کی زندگی گزار رہے ہیں۔لُو شِی لِن (Lu Shilin) کے سفارتی کیریر کا نوے فیصد سے زیادہ حصہ پاکستان میں سفارتی فرائض انجام دیتے ہوئے گزرا۔انہوں نے اردو زبان کے متعلق بتایا کہ شروع میں تو انہیں اردو کا علم بھی نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے اس کے متعلق کچھ سنا تھا مگر جب انہوں نے اردو سیکھنا شروع کی تو اس میں دلچسپی لینا شروع کی اوراس میں ان کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے اساتذہ کا ذکر کیا۔ان کے اساتذہ میں ابواللیث صدیقی ، ڈین شعبہ اردو، ابو خیر کشفی ، فرمان فتح پوری اور جمیل اختر خان شامل تھے۔ اس وقت ان کے ساتھ ایک اور چینی طالب علم بھی تھے۔
وہ بھی چین کی وزارتِ خارجہ سے وابستہ رہ چکے ہیں۔لُو شِی لِن (Lu Shilin) کو اردو شاعری بہت پسند ہے۔ میر تقی میر، حالی، مرزا غالب، فیض احمد فیض اور علامہ اقبال کی شاعری پڑھی ہے۔لُو شِی لِن (Lu Shilin) خود بھی اردو میں کبھی کبھار شاعری کرتے ہیں۔ مگر چینی زبان میں شاعرانہ طبع آزمائی قدرے زیادہ کرتے ہیں۔ جب یہ پاکستان میں سفیر تھے تو انہوں نے چین، پاکستان سفارتی تعلقات کی سالگرہ کے سلسلے میں ایک مشاعرے کا بھی اہتمام کیا۔ لُو شِی لِن (Lu Shilin) اگرچہ سفارت کاری سے سبکدوش ہو چکے ہیں مگر اردو سے ان کا تعلق برقرار ہے۔
وہ اب بھی اردو اخبار پڑھتے ہیں۔ریڈیو پاکستان کے پروگرامز سنتے ہیں۔ سی آر آئی کے اردو پروگرامز بھی سماعت کرتے ہیں اور پاکستانیوں سے اردو زبان میں بات کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک کتاب ( ـــ تم اور ہم چین اور پاکستان کی کہانیاں ) شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کو لُو شِی لِن (Lu Shilin)نے مرتب کیا ہے۔ اس کی لانچنگ کے لیے یہ اسلام آباد آئے تھے۔ ان کی خواہش ہے کہ اردو میں جو کتابیں ہیں وہ چینی زبان میںشائع کریں۔ تاکہ چینی لوگ اردو ادب سے واقف ہو جائیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان ثقافتی تبادلہ بھی بہت اہم ہے۔ ان کے نزدیک اردو شاعرانہ زبان ہے اردو شاعری کے لیے بہت موزوں ہے۔ جب انہوں نے علامہ اقبال کی شاعری پڑھی تو انہیں اردو سے محبت ہو گئی۔ پاکستان میں تعیناتی کے دوران اردو زبان جاننے کی وجہ سے ملنے والی پذیرائی کے بہت سے واقعا ت انہیں یاد ہیں۔ بتانے لگے کہ ایک مرتبہ چین کا ایک وفد پاکستان کے دورے پرآیا۔ تو یہ ان کے ساتھ مترجم کے طور پر تعینات ہوئے۔
وفد نے پاکستان کے مختلف شہرو ں کادورہ کیا۔ وفد کے لیڈر جب تقریر کرتے اور یہ ا ن کا ترجمہ کرتے تو لوگ بہت تالیاں بجاتے اور بہت خوش ہوتے۔ وفد کے لیڈر نے ان سے پوچھا کہ پاکستانی لوگ اتنی تالیاں کیوں بجاتے ہیں اتنے گرم جوش کیوں ہیں۔ میں نے کہاکہ پاکستان کے لوگ بہت دوستانہ ہیں اور وہ اس بات پر خوش ہیں کہ چینی وفد کا اپنا مترجم ہے جو کہ اردو زبان جانتا ہے۔ اس لیے وہ زیادہ تالیاں بجاتے ہیں۔جنرل مشرف جب پاکستان کے صدر تھے تو ان کے ساتھ ان کی بڑی دوستی تھی اور وہ اردو زبان میں بات چیت کیا کرتے تھے۔جب جنرل مشرف چین کے دورے پرآئے تو دورے سے پہلے انہوں نے ان کے لیے ایک دعوت کا اہتما م کیا ۔ اس دعوت میں انہوںنے اپناکلام سنایا جس کو انہوں نے سراہا۔
لُو شِی لِن (Lu Shilin) کی پاکستان کے نامور ادیب شوکت صدیقی سے بہت دوستی تھی۔ کراچی میں تعیناتی کے دوران ان کے ہاں ان کا بہت آنا جانا تھا۔ انہوں نے ان کا ناول خدا کی بستی پڑھا ہوا ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ اس کا چینی میں ترجمہ کرتے مگر اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ وہ پاکستان کے نامور شعراء کے کلام کا چینی زبان میں ترجمہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔ پاک چین دوستی کے حوالے سے ان کے کئی مضامین پاکستان کے مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ چین میں اردو کا مستقبل بہت شاندار ہے۔
چین میں اردو کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ کام ہور ہا ہے۔سی پیک کی وجہ سے اردو زبان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ لُو شِی لِن (Lu Shilin)نے معروف چینی شاعر Zhang Shixuan (انتخاب عالم) کی جانب سے پاکستان کے معروف شاعر فیض احمدفیض کے شعری مجموعہ “نسخہ ہائے وفا” کے چینی ترجمے کا پیش لفظ بھی لکھا ہے۔اس کے علاوہ چین اور پاکستان کی دوستی ، تاریخ ، سفارتی تعلقات کے حوالے سے ان کے کئی مضامین پاکستان کے اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔چینی شاعر Zhang Shixuan (انتخاب عالم) کا شعری مجموعہ ” تازہ صبا” بھی ان دنوں اشاعت کے مراحل میں ہے۔چین میں سی پیک کی وجہ سے اردو کی تدریس میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ایک وقت تھا چین میں اردو کی تدریس معدودے چند جامعات تک محدود تھی مگر اب یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے ۔اب چین میں تیانجن، انرمنگولیا، کن منگ، سیچوان ، صوبہ گوان تنگ، گوانگ چو،شی آن ، شنگھائی، ینان کی جامعات میں اردو کی تدریس کے انتظامات موجود ہیں۔ مزید برآں سی آرآئی اردو سروس کے ساتھی لیو شیاؤ ہوئی بھی اردو شاعری کے منتخب کلام کو چینی میں ترجمہ کر کے چین میں مقبول سماجی رابطوں کی ایپ وی چیٹ پر شیئر کرتے ہیں۔اب تک و ہ اردو کی سو سے زائد غزلوں اور نظموں کا چینی میں ترجمہ کر چکے ہیں۔
یہ کام وہ رضاکارانہ اور اپنے شوق کے تحت کر رہے ہیں۔ اردو سمجھنے والے چینی شہری ان کے کام کی تحسین کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ چینی شہری ان کے چینی ترجمے کی مدد سے اردو شاعری کو سمجھ رہے ہیں اور اردو ادب سے ان کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ لیو شیاؤ ہوئی کے نزدیک چین میں اردو کے فروغ کے لیے سنجیدہ اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستانی فلم چین میں نمائش پزیر ہوئی تو بہت سراہی گئی۔ چین میں قیام کے دوران راقم کو مشاہدہ ہوا کہ پڑوسی ملک کی فلمیں اور ڈرامے چین میں بہت مقبو ل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو چینی زبان میںڈب کر کے چین کی مارکیٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ٹی وی ڈراموں اور فلموں کو چینی میں ترجمہ اور ڈبنگ کے ساتھ چین میں پیش کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف تو چین میں اردو اور پاکستانی کلچر کو فروغ دیا جائے اور دوسری طرف سی پیک سے ثقافتی شعبے میں حاصل ہونے والے متوقع فوائد کو بھی سمیٹا جا سکے۔
(جاری ہے)
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ
The post سی پیک چین میں اُردو سیکھنے کے رجحان میں اضافے کا باعث بن رہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.