ڈاکٹر زاہد یوسف گجرات یونیورسٹی کے سنٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔
علمی تحقیقی سرگرمیوں میں ہمہ وقت مصروف رہنا اُن کا امتیازی وصف ہے۔ قلیل عرصہ میں سنٹر میں ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کی اعلیٰ تعلیمی کلاسز کا اجراء اور ان سے فارغ التحصیل ہونے والے اسکالرزکی نمایاں تعداد ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے فروغ میں گہری دلچسپی اور عملی کوششوں کا مظہر ہے لیکن اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر وہ عموماً ایک شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں تحقیق کا ماحول نہیں۔ ان کے نزدیک ہمارے ہاں اکثر ریسرچ اسکالرز ڈگری کے حصول کے لئے تحقیق کے نام پر خانہ پری کرتے ہیں جس کی وجہ سے معیاری تحقیق نہیں ہو پاتی اور ڈگری کے حصول کے بعد تو بہت سے محققین اپنے آپ کوتحقیق سے دور ہی رکھتے ہیں جس سے مقدار بھی متاثر ہوتی ہے۔ یوںا سکالرز کی اس طرح کی تحقیق اور طرز عمل سے ہمارے معاشرے کو کچھ حاصل نہیں ہو پا رہا۔
ڈاکٹر زاہد یوسف کا حقیقت پر مبنی یہ شکوہ کسی المیہ سے کم نہیں۔ آج ہمارے یہاں یونیورسٹیز کی سطح پر ریسرچ کے شعبے میں تن آسانی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اکثر طالب علم اور کچھ استاد دونوں ہی محنت کرنے سے تائب نظر آتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ملک میں کاپی پیسٹ کا کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ سرقہ بازی کو جانچنے کے طریقوں کو اس کمال سے دغا دیا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ یوں اصل اور نقل کی تمیز مشکل ہو جاتی ہے اور ایسا صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ بس ڈگری مل جائے۔
سیکھنے اور سمجھنے کا اب اکثر کو شغف نہیں۔ اسی طرح ریسرچ کی تعلیم پر مامور اساتذہ میں سے بھی چند پڑھاتے اور سکھاتے کچھ نہیں بس ان کا اتنا فرمان ہوتا ہے کہ یہ کر لیں۔ کیسے کرلیں؟ اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ یعنی بتانے، سمجھانے اور سکھانے کی بجائے ریسرچ اسکالر کو چڑیا کے اُس بچے کی طرح گھونسلے سے باہر دھکیل دیا جاتا ہے کہ یہ اُڑنا خود ہی سیکھے گا۔ سو وہ اپنے تئیں جس طرح اور جیسا اڑنا سیکھتا ہے وہ پھرسب کے سامنے ہے۔ لیکن قصور وار شاید طالب علم اور اساتذہ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں کیونکہ جب طالب علموں سے بات کریں تو جن جن مسائل کی وہ نشاندہی کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ درست ہیں اور جب اساتذہ سے بات کریں تو وہ حق بجانب لگتے ہیں تو پھر اصل قصور وار کون ہے اور بہتری کیسے ممکن ہے؟ یہ سوالات بذاتِ خود تحقیق طلب ہیں لیکن چونکہ ملک میں تحقیق بد قسمتی سے ڈگری اور محکمانہ ترقی سے نتھی ہو چکی ہے اور سوشل ریسرچ کوہم ویسے بھی اتنی اہمیت نہیںدیتے لہذا پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ۔
یہ جو تمام باتیں اب تک کی گئیں یہ کوئی ذہنی اختراع نہیں بلکہ ملک کی علمی تحقیق کے شعبے کی کارکردگی ان کا اصل محرک ہے۔ایک نظر ملک کی ریسرچ آوٹ پُٹ پر ڈال لیجئے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف یو نیورسٹیز کے ورلڈ وائڈ ڈیٹا بیس برائے ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹس کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق ’’دنیا بھر میں جامعات کی 20 ویں بڑی تعداد کا حامل ملک ہے ‘‘۔ اور اقوام متحدہ کے مطابق ’’دنیا میں آبادی کے حوالے سے چھٹا بڑا ملک ہے ‘‘۔اس کے باوجود 2017 ء میں وطن عزیز کے محققین کی 16897 تحقیقی دستاویزات (Research Documents)شائع ہوئیں جو دنیا میں شائع ہونے والی ریسرچ ڈاکومینٹس کا صفر عشاریہ 48 (0.48) فیصد اور جنوبی ایشیاء کی دستا ویز کا 9.77 فیصد ہیں۔
اسپین کی نیشنل ریسرچ کونسل جسے (Consejo Superior de Investigaciones Científicas ) کہا جاتا ہے ۔ اس کے SCImago نامی ریسرچ گروپ جو کہ دنیا بھر کے سائنسی انڈیکیٹرز کی مدد سے تحقیقی اداروں، ریسرچ جرنلز اور تحقیقی دستاویز کی اشاعت کے حوالے سے ممالک کی رینکنگ مرتب کرتا ہے، یہ اعدادوشمار ہماری ریسرچ آئوٹ پُٹ کی واضح عکاسی کر رہے ہیں جس کے مطابق تحقیقی دستاویزات کی اشاعت کے حوالے سے اس گروپ کی ممالک کی مرتب کردہ درجہ بندی میں پاکستان 39 ویں نمبر پر ہے۔ یہ تحقیقی دستاویزات علم پھیلانے کا معتبر ذریعہ ہیں۔ کیونکہ تحقیق کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی اشاعت کی جائے جس سے لوگوں کو یہ پتا چلتا ہے کہ کسی خاص فیلڈ میں کسی خاص موضوع پر کیا کام ہو رہا ہے۔
مثلاً نوبل انعام کے فاتحین اگر اپنا تحقیقی کام شائع نہ کرتے تو ان کے بارے میں کون جانتا؟۔ اسی طرح یہ عمل تحقیق کاروں کی نیٹ ورکنگ کا ایک نمایاںذریعہ بھی ہے جس سے وہ اپنے تصورات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں۔ یعنی یہ آپ کے نام اور کام کو گردش میں رکھتے ہیں اور آپ کے خیالات اور تحقیق کو مزید بہتر بناتے ہیں۔ اسی طرح تحقیقی کارکردگی، اختراعات اور معاشرے پر ان کے اثرات پر مبنی پیمانے کی روشنی میں تعلیم اور تحقیق سے منسلک دنیا کے 5637 انسٹی ٹیوٹ پر مشتملSCImago کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان اس وقت 35 انسٹی ٹیوٹس کی تعداد کے ساتھ 29 ویں نمبر پر ہے۔
عالمی تعداد کے صفر عشاریہ 62 (0.62) فیصد اور جنوب ایشیا ء کے 10.7 فیصد پر مشتمل پاکستان کے ان انسٹی ٹیوٹس میں سے کوئی بھی عالمی رینکنگ میں پہلے چھ سو نمبر میںاپنی جگہ نہیں بنا پایا۔اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا پہلا انسٹی ٹیوٹ قائد اعظم یو نیورسٹی ہے جو621 ویںنمبر پر فائز ہے۔ اس کے بعد دوسرا پاکستانی انسٹی ٹیوٹ کامسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے جو 30 6 ویں نمبر پر براجمان ہے۔ پاکستان میں تیسرے اور عالمی درجہ بندی میں 649 ویں نمبر پر نیشنل یو نیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد ہے۔ جبکہ پاکستان کا آخری انسٹی ٹیوٹ جو اس درجہ بندی میں شامل ہو پایا ہے وہ اسلامیہ کالج پشاور ہے جو 766 ویں نمبر پر ہے۔
عالمی معیشت میں ایجادات اور اختراعات کی تخلیق اور اس کا پھیلائو ترقی اور خوشحالی کی اساس مانا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تحقیقی جرائد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ تحقیقاتی نتائج کو فروغ دینے کا سب سے موثر ذریعہ سمجھے جاتے ہیں جو محققین، ماہرین اور طالب علموں کو اعلیٰ تحقیقی علم کے اشتراک کا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ ان کا اجراء تحقیقی اداروں کے لئے ہمیشہ سے ایک اعزاز رہا ہے۔ اس حوالے سے SCImago کی تحقیقی جرنلز کی رینکنگ 2017 میں ( جو جرنل کے اثرات، اس کا اثر رسوخ یا وقارکو مانپتی ہے اس کے علاوہ یہ اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ جرنل میں چھپنے والے مقالات کو کتنا حوالہ جات کے طور پر استعمال کیا گیا ) 34171 جرنلزکوشامل کیا گیا ہے۔
اس رینکنگ میں جو جرنل جتنے شروع کے نمبرز پر ہوگا وہ اُتنا ہی اپنے impact, influence or prestige کے حوالے سے معتبر سمجھا جائے گا۔ اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کے 103 ریسرچ جرنلز شامل ہیں۔ یوں اس تعداد کے ساتھ تو وطنِ عزیز دنیا بھر میں 33 ویں نمبر پر ہے۔ لیکن دنیا کے صفر عشاریہ30 (0.30) اور جنوبی ایشیاء کی 15.6 فیصد تعداد پر مبنی پاکستانی ریسرچ جرنلز میں سے ’’ پلانٹ پیتھالوجی جرنل‘‘ 7616 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی دنیا کے پہلے ساڑھے سات ہزار اعلیٰ تحقیقی جرنلز میںہمارا کوئی جرنل شامل ہی نہیں۔ اس کے بعد 11281 ویں نمبر پر ’’ پاکستان جرنل آف اسٹیٹسٹکس اینڈ آپریشن ریسرچ ‘‘ ہے۔ تیسرے نمبر پر ’’ پاکستان جرنل آف میڈیکل سائینسز ‘‘ ہے جو عالمی درجہ بندی میں 11494 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ اس رینکنگ میں شامل ملک کا آخری جرنل ’’ پاکستان جرنل آف سائی پیتھا لوجی‘‘ 33586 ویں نمبر پر ہے۔
تحقیق کے میدان میں اس وقت ہماری کارکردگی اگرچہ حوصلہ افزاء تو نہیں لیکن ماضی سے بہتر ضرور ہے۔ SCImago کی ویب سائیٹ سے حاصل اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 1996 سے2017 تک پاکستان کی شائع شدہ تحقیقی دستاویزات کی تعداد میں 1773 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور یہ 902 سے بڑھ کر16897 ہو چکی ہیں۔ اس اضافہ میں نمایاں تیزی ایچ ای سی کے قیام کے بعدسے دیکھنے میں آئی ۔کیونکہ 1996 تا2002 کے دوران (2002 کو ملک کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے کام کرنا شروع کیا) یہ اضافہ 69.6 فیصد رہا اور2002-2017 کے دوران 1004 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح 1999 میں ملک کے10 ریسرچ جرنلز عالمی درجہ بندی میں شامل کئے گئے تھے، اب ان کی تعداد بڑھ کر103 ہوچکی ہے۔ یوں مذکورہ عرصہ کے دوران 930 فیصداضافہ ریکارڈ ہوا جس میں ایچ ای سی کے بننے کے بعد نمایاں اضافہ ہوا۔ اسی طرح 2009 سے2018 تک انسٹی ٹیوٹس کی عالمی رینکنگ میں شامل ہونے والے پاکستانی اداروں کی تعداد 11 سے بڑھ کر 35 ہو چکی ہے جو 218 فیصد اضافہ کو ظاہر کر رہی ہے۔
علمی اور دیگر تحقیق میں کسی بھی ملک کی دلچسپی کا اندازہ اس شعبے پر خرچ کئے جانیوالے فنڈز سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ یونیسکو کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے شعبہ پر1.7 ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں اس شعبہ پر ورلڈ بینک کے مطابق جی ڈی پی کا صفر عشاریہ 24 (0.24 ) فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ اس تناسب کے ساتھ پاکستان دنیا کے96 ممالک (جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ) میں 79 ویں نمبر پر ہے۔ اس تمام صورتحال کا حاصل تحقیق کے شعبے میں ہماری کمزوری کا باعث بن رہا ہے جس کی وجہ سے اختراعات اور ایجادات کا ہمارا سفر کم ہی اپنی منزل ِ مقصودتک پہنچ پاتا ہے جس کا کچھ اندازہ ہمارے تحقیق کاروں کے Patents (سند ِ حقِ ایجاد یا سندِ حقِ اختراع) کے حصول کے رجحان سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
Patents عموماً کسی منفرد کام کو سرقہ بازی سے محفوظ رکھنے اور اس کے معاشی اور سماجی فوائد سے موجد کو فیضیاب ہونے کے لئے قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اور ہمارے تحقیق کار کس قدر منفرد کام کر رہے ہیں؟ اس کا کچھ اندازہ اقوام متحدہ کی اسپشلائزڈ ایجنسی ورلڈ انٹولیکچوول پراپرٹی آرگنائزیشن کی ورلڈ انٹولیکچوول پراپرٹی انڈیکیٹرز 2018 نامی رپورٹ کے ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2017 میں پاکستان میں رہنے والے پاکستانی شہریت کے حامل ہم وطنوں نے Patent کے حصول کے لئے 193درخواستیں دیں جبکہ مذکورہ سال صرف 10 افراد کو سند ِ حقِ ایجاد یا سندِ حقِ اختراع جاری ہوئیں۔ اور اگر ہم 1883 سے قائم دنیا کے قدیم ترین U.S. PATENT AND TRADEMARK OFFICE کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو 2015 میں مذکورہ آفس کو UTILITY PATENT( جسے سند ِ حقِ ایجاد بھی کہا جاتا ہے) کے لئے پاکستانیوں کی 37 درخواستیں موصول ہوئیں۔ یہ تعداد دنیا بھر کے ممالک میں 60 ویں نمبر پر تھی جن میں سے 16 کو یہ حق تفویض کیا گیا۔ یوں یہ تعداد بھی دنیا کی 60 ویںدرجہ پر تھی۔
پروفیسرڈاکٹر افتخار احمد بیگ تدریس اور تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں بطور استاد اور منتظم آپ بہت سے تعلیمی اداروں میں اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں ۔اس وقت ایک نجی جامعہ میں پروفیسر اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔17 سے زائد بین الاقوامی کانفرنسزمیں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ 20 کتابوں اور 16 ریسرچ پیپرز کے مصنف ہیں۔16 پی ایچ ڈیزآپ کی سپر ویژن میں مکمل ہو چکی ہیں۔ایک لمبی فہرست ہے انکی تدریسی اور تحقیقی خدمات کی۔ ڈاکٹر صاحب اس رائے سے مکمل اتفاق نہیں کرتے کہ ملک کی جامعات میں ہونے والی تحقیق کے نام پر اکثر خانہ پری کی جاتی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ سوشل سائنسز میں یہ مسئلہ ضرور کہیں کہیں پایا جاتا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات کورس ورک کے دوران اتنی محنت نہیں کروائی جاتی۔
اور دوسرا ہر اسکالر کا ریسرچ میں برابر کا رجحان بھی نہیں ہوتا ہے۔ مزید اساتذہ کے پاس زیادہ کام ہونے کی وجہ سے وہ اتنا وقت نہیں دے پاتے جتنا طالب علم تقاضا کرتے ہیں۔ اور تحقیق کے آخری لمحات میں انسانی ہمدردی کے تحت بعض اوقات اساتذہ طالب علم کے حصولِ ڈگری کو ممکن بنانے کے لئے نرم گوشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ یورپ میں بھی دیکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات اُنھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں ریسرچ کی افادیت محسوس نہیں کی جاتی۔ نتیجتاً ریسرچ میں خانہ پری کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد بیگ اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ ا ساتذہ/ ریسرچ سپروائزرز کا رویہ اور طرزعمل بھی طالبعلم / ریسرچ اسکالرز کو تحقیق سے متنفر کر دیتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ استثنائی حالات میں کہیں شاید ایسا ہوتا ہو۔ مگر عمومی طور پر سپروائزر ریسرچ اسکالر کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں اور تحقیق کے عمل کو ہر ممکن طور پر خوشگوار اور آسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ملک میں معیاری ریسرچ پیپرز اور معیاری ریسرچ جرنلز کی اشاعت کے حوالے سے موجود تشنگی کو دور کرنے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ریسرچ جرنلز بے شمار ہیں اور اُن کا معیار بھی بہت اعلیٰ ہے۔ ایچ ای سی جرنلز کی پرکھ کرتے ہوئے بہت اعلیٰ بینچ مارک دیتا ہے اور اُسی پر جرنل کو پرکھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جرنل کو ریسرچ پیپر معیاری نہ ملیں تو پھر وہ چھاپے گا کیا؟ اُن کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں سوچ ہے کہ اچھا پیپر یورپ کے کسی جرنل میں چھپوالیں۔ انٹرنیشنل پبلیکیشن بن جائے گی تو پھر معیاری مواد کہاں سے آئے گا۔ اس لئے اپنے ہاں کے جرائد کی سر پرستی کرنی چاہیئے تاکہ یہاں آسانی سے پیپرز چھپوائے جا سکیں۔
تحقیق نیا علم، نئی مصنوعات اور نئے طریقہ کار پیدا کرتی ہے اور تحقیقی اشاعتیں علم میں شراکت کی عکاس ہوتی ہیں جبکہ PATENT کا حصول تحقیق کے نتیجہ میں ہونے والی ایجاد یا اختراع کی انفرادیت کا مظہر ہے۔ اس لئے اگر ہم تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں اپنے لئے معزز اور با وقار مقام کے خواہاں ہیں تو ہمیںاپنے ہاں تحقیق کے لئے موزوں ماحول کی آبیاری کرنا ہوگی اور اپنی تحقیق کے معیاراور مقدارکو تخلیقی نقطہ نظر سے مضبوط کرنا ہوگا۔آئیے اس حوالے سے24 جنوری کو دنیا بھر میں منائے جانے والے تعلیم کے پہلے بین الاقوامی دن کی مناسبت سے یہ عہد کریں کہ ہم تحقیق کو صرف سند اور محکمانہ ترقی کے حصول کا ذریعہ نہیں بنائیں گے بلکہ اس تمام عمل کو ملک اور انسانیت کی بہتری کا باعث بنانے اوراس حوالے سے اپنی جامعات کو معیاری تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز بنانے میں بطور طالب علم، استاد اور پالیسی ساز اپنا بھر پور کردار ادا کریںگے۔
پی ایچ ڈی اسکالر غنی الرحمان کا انٹرویو
کسی مسئلے میں ماہرین کی آرا کی اہمیت بالکل مسلّمہ ہے۔ لیکن اکثر مسئلے کے شکار افراد کی رائے کو مقدم نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے مسئلہ کی حقیقی نوعیت کا ادراک نہیں ہو پاتا اور اُس کے حل کی کوئی بہترصورت نہیں نکل پاتی۔ اس لئے ملک میں تحقیق کے شعبہ میں موجود مسائل کے بارے میں آگاہی کے لئے ایک پی ایچ ڈی اسکالر(پی ایچ ڈی پراگرام میں زیر تعلیم) غنی الرحمان سے بات چیت کی گئی جس کی تفصیل قارئین کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔
سوال :کیا آپ اس رائے سے متفق ہیں کہ ملک کی جامعات میں ہونے والی تحقیق کے نام پر اکثر خانہ پری کی جاتی ہے؟
جواب :میں اس رائے سے مکمل اتفاق نہیں کرتا۔کیونکہ کچھ جامعات میں اچھی تحقیق بھی ہو رہی ہے جس بنا پر ملک میں کچھ تعلیمی اور تحقیقی ستارے روشن ہیں۔ ہاںایسا ضرور ہے کہ اکثر جامعات ایسی ہیں جہاں ہونے والی تحقیق مسلمّہ بین الاقوامی تحقیقی اصولوں اور معیار کے مطابق نہیں ہے۔ جو بالکل سطحی، غیر موثر، بے جان اور ناقص قسم کی ہوتی ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف ڈگری کا حصول ہوتا ہے۔
سوال :اس خانہ پری کی عمومی وجوہات کیا ہیں؟
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں جامعات اور اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں تحقیق کا منظم اور مربوط نظام موجود نہیں۔ بلکہ ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیمی وسائنسی تحقیق کا ماحول ہی ابھی تک قائم نہیں ہو سکا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تحقیق کے اصولوں کے بارے میں ریسرچ اسکالرز کا زاویہ نگاہ ہی صاف نہیں ہوتا۔ بلکہ کئی طالب علم محققین تو تحقیق کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ تیسری بات ریسرچ سپروائزر اپنے زیر نگرانی ریسرچ کے طلباء کو زیادہ وقت نہیں دیتے۔چوتھی بات ہمارا تعلیمی نظام تحقیقی اور تنقیدی طرز فکر نہیں دیتا یہ کچھ نیا سوچنے کچھ نیا کرنے کا درس نہیں دیتا ۔ بلکہ رٹے کے حصار میں طلباء کو جکڑے ہوئے ہے۔
سوال:کہا جاتا ہے کہ بعض اساتذہ/ ریسرچ سپروائزرز کا رویہ اور طرزعمل طالبعلم /ریسرچ اسکالرز کو تحقیق سے متنفر کر دیتا ہے؟
جواب :یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ بعض اساتذہ اور ریسرچ سپر وائزر کا رویہ اور طرز رہنمائی و تعلّم نامناسب، ناشائستہ اور غیر لچکدار ہوتا ہے۔ اکثر اساتذہ / ریسرچ سپروائزر کے پاس گنجائش سے زیادہ ریسرچ اسکالر رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ سپروائزر کا اپنا تدریسی کام بھی زیادہ ہوتا ہے۔ پھر اُن کو تحقیقی مقالہ جات کی نگرانی کے لئے انتہائی نامناسب اور کم فیس دی جاتی ہے۔ کبھی کبھار معاشرتی روئیے، لسانی ، فرقہ ورانہ اور دیگر تعصبات بھی ریسرچ سپر وائزر کو متاثر کرتے ہیں جس کا اثرطالب علم کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یوں کئی ریسرچ اسکالرز ایسے رویوں کا شکار ہوکر اپنا تحقیقی کام ادھورا چھوڑ جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ریسرچ سپروائزر کا اپنے زیر نگرانی ریسرچ اسکالرز کے ساتھ رویہ مناسب ، دوستانہ اور برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
سوال : معیاری تحقیق کے لئے جامعات اور ایچ ای سی کی سطح پر کیا اقدامات کئے جائیں؟
جواب :سب سے پہلے ملک میں اعلیٰ پیشہ ورانہ اور علمی تحقیق کا نظام وفاق کی زیر نگرانی صرف ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس ہونا چاہئے اور اعلیٰ ثانوی تعلیم تک کی ذمہ داری صرف صوبوں کے پاس ہو۔ ایچ ای سی کو مزید با اختیار، موثر اور ملک گیر بنانے کی ضرورت ہے۔
اس کے فنڈز میں کئی گنا اضافہ کی ضرورت ہے۔ ایچ ای سی کو ایسا نظام اور اسکیم متعارف کرانے کی ضرورت ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے تمام ریسرچ اسکالرز کا تحقیقی کام پر اُس کی براہ راست نظر ہو۔ اُن کے کام کا مسلسل جائزہ لیا جائے۔ اس حوالے سے اسکالرز کے لئے کوئی ماہانہ وظیفہ مشروط بنیادوں پر مقرر کیا جائے۔ اور وہ وظیفہ ماہانہ بنیادوں پر تحقیقی کام میں معیار کے مطابق پیش رفت پر ہی دیا جائے۔ تاکہ معاشی مجبوریاں تحقیقی کام میں رکاوٹ نہ ہوں اور محققین کے لئے اُن کے کام میں Incentives بھی ہوں۔ اس کے علاوہ جدید سائنسی تحقیق کے بارے میں ایچ ای سی ریسرچ سپروائزرز کے لئے ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر سیمینارز، کانفرنسز، ورکشاپس اور کورسز کا اہتمام کرے۔ ریسرچ سپر وائزرز کو ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والے سیمینارز، کانفرنسز اور کورسز میں زیادہ سے زیادہ شرکت کا موقع فراہم کریں۔ علاوہ ازیں ریسرچ سپروائزرز کے نگرانی کے کام کا بھی معائنہ کیا جائے اور کوتاہی و غفلت کے مرتکب ریسرچ سپروائزرز کو تحقیقی کام کی نگرانی سے بھی روک دیا جائے تاکہ علمی تحقیق کے معیار پر کوئی بھی سمجھوتہ ممکن نہ رہے۔
سوال: پاکستان میں تحقیق کا ماحول بنانے کے لئے کیا ہنگامی اقدامات ضروری ہیں؟
جواب : میرے خیال میں تحقیق کا ماحول بنانے کے لئے ہنگامی اقدامات کی بجائے ایک ٹھوس پر مغز اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسی منصوبہ بندی جو دوررس ہونے کے ساتھ ساتھ لچکدار بھی ہو کیونکہ تحقیق کے میدان میں بھی آئے روز نت نئی تبدیلیاں اور پیش رفت ہو رہی ہے۔ ہنگامی اقدامات جتنی جلدی کئے جاتے ہیں اتنی ہی جلدی نظر انداز اور ناقابلِ عمل ہو جاتے ہیں۔ البتہ پاکستان میں مکمل طور پر ڈیجیٹلائزلائبریریوں کی فی الفور ضرورت ہے۔اس کمی کی وجہ سے ریسرچ اسکالرز کو کسی بھی موضوع پر مواد کے جائزے اور مطالعے کے لئے بین الاقوامی (آن لائن) لائبریریوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ان میں سے اکثر لائبریریوں اور ریسرچ اسٹور ہائوسزز تک رسائی کرنا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں علمی تحقیقی کام کو اتنی پذیرائی نہیں ملتی جتنی توجہ کھلاڑیوں، گلوکاروں، سیاستدانوں اور فنکاروں کو ملتی ہے۔ لہذا پاکستان میں تحقیقی وعلمی کام کی اور اُس کے کرنے والوں کی بھی پذیرائی ہونی چاہیے۔ تمام علوم و فنون، سائنس و ٹیکنالوجی اور پیشہ ورانہ تعلیم میں اعلیٰ سطحی تحقیق کی پذیرائی کے لئے قومی سطح پر سالانہ ایوارڈز دینے کا پروگرام شروع ہونا چاہئے جن کے ساتھ معقول نقد انعامات بھی ہوں تاکہ محققین کے تحقیقی کام کو قومی سطح پر شناخت اور پذیرائی مل سکے۔
سوال : ملک میں ہونے والی تحقیق کا ہمارے معاشرے پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو رہا اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب :یہ بات بہت درست ہے اور بہت اہم بھی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر قسم کی علمی ، سائنسی اور طبی تحقیق سے ہمارے معاشرے پر براہ راست کوئی اثرات مرتب نہیں ہو رہے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہماری معاشرتی ترجیحات اور ضروریات کچھ اور ہیں اور تحقیق کا کام کسی اور میدان اور موضوع پر ہو رہا ہوتا ہے۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اگر میں نے یعنی ریسرچ اسکالر نے کسی بین الاقوامی اہمیت کے موضوع یا مسئلے کی بجائے کوئی مقامی/ علاقائی یا ملکی موضوع یا مسئلے کو اپنی تحقیق کا موضوع بنا لیا تو شائد یہ کم اہم ہوگا یا اس کی کوئی بین الاقوامی اہمیت نہیں بن پائے گی جوکہ نہایت غلط اور نا معقول سوچ ہے۔ ہمارے اسکالرز کو چاہیئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے مقامی، علاقائی اور ملکی مسائل کو اپنی علمی تحقیق کا موضوع بنائیں۔پوری دنیا بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں علمی تحقیق کے زیادہ تر موضوعات اُن کے اپنے مقامی ہی ہوتے ہیں۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب میں ہمارے مسائل کا اتنا تذکرہ نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم کا نصاب ( ماسوائے چند مضامین کے ) غیر ملکی مصنفین و محققین کا تجویز کردہ اور مرتب کردہ ہوتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کا نصاب زیادہ تر یورپی اور امریکی معاشرتی پس منظر میں رہتے ہوئے تیار کیا ہوا ہوتا ہے۔ مثالیں بھی ان معاشروں سے اخذ ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کو پڑھ کر ہم واضح طور پر نصاب کی اپنے معاشرے سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔ اس نصاب کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو ہمارے تحقیقی کام کا ہمارے معاشرے سے کوئی براہ راست تعلق اور واسطہ نہیں بن پاتا۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر ہمارے ملک میں ہونے والی تحقیق کا معاشرے سے کوئی براہ راست تعلق بنتا بھی ہو تو وہ ہمارے لئے فائدہ مند اس لئے بھی نہیں ہوتی کہ ہمارا معاشرہ جدید سائنسی طرز فکر، تحقیقی و تنقیدی نقطہ نظر کا حامل نہیں۔ ہم اب بھی فرسودہ سوچ، خیالات و تصورات، توہمات، معاشرتی تعصبات اور ذہنی تنگ نظری کا شکار ہیں۔
کچھ ایسے مسائل اور موضوعات جو ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں لیکن مخصوص معاشرتی، ثقافتی و سیاسی حالات کی وجہ سے ہم اُن پر تحقیق تو دور کی بات ہے۔ کھل کر بات بھی نہیں کر سکتے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ مذہب کے غلط تصور اور تشریح نے بھی ہمارے لئے جدید سائنسی و علمی تحقیق کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ حالانکہ اسلام دنیا کا واحد الہامی مذہب ہے جس کی ابتدا ہی اقراء، پڑھ سے ہوئی۔ اور قرآن پاک بار بار ہر معاملے میں تحقیق و جستجو کی تاکید کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان میں پولیو کے مرض کے پھیلائو کے حوالے سے کوئی تحقیق سامنے آجائے اور اُس میں پولیو کے مرض کی روک تھام کے لئے سفارشات موجود ہوں تو ہم اُنہیں غیر ملکی ایجنڈا یا سازش تصور کریں گے۔ چھٹی بات، ہم نے ابھی تک اپنے ملک کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور دیگر مسائل کی نشاندہی اور اُن کے حل کے لئے تحقیق کے طریقہ کار کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ اسی لئے اگر کوئی مفید تحقیقی کام سامنے آبھی جائے تو تب بھی ہمارے اربابِ اختیار اُس کو بروئے کار لاکر معاشرے کے کسی حل طلب مسئلے کو سلجھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں ۔ اور ایسی علمی کاوشوں کو صرف’’ کتابی باتیں‘‘ کہہ کر سرد خانے میں ڈال دیتے ہیں۔
سوال: معیاری ریسرچ پیپرز اور معیاری ریسرچ جرنلز کی اشاعت کے حوالے سے ہم دنیا بھر میں بہت پیچھے ہیں۔ اس تشنگی پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟
جواب : اس میں کوئی شک نہیں کہ معیاری ریسرچ پیپرز اور معیاری ریسرچ جرنلز کے حوالے سے ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ تحقیقی کام کے معیار کے پیمانوں میں گاہے بگاہے تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ہمارے ریسرچ اسکالرز کو ان تبدیلیوں کے بارے میں ہمہ وقت آگاہ رہنا چاہئیے۔کمپیوٹر کے استعمال خصوصاً ڈیٹا اکٹھا کرنے اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے سافٹ وئیرز سے متعلق آگہی اور ان کا استعمال جاننا ضروری ہے۔ علمی سرقے سے اجتناب کی بہت ضرورت ہے۔ معیاری ریسرچ جرنلز کی اشاعت کے حوالے سے ایچ ای سی کا کردار نہایت اہم ہے۔
چاہے وہ صوبائی ہوں یا وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشنز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جامعات و دیگر اداروں کی طرف سے سہ ماہی بنیادوں پر شائع ہونے والے جرنلز کے معیار کا ہمہ وقت جائزہ لیتے رہیںاور تحقیق کے معیار کے لئے مقرر کردہ بین الاقوامی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ ان جرنلز میں کم ازکم ایک چوتھائی حصہ بیرون ملک اسکالرز کے لئے مختص کیا جائے۔ اور بین الاقوامی اسکالرز کو اپنے ریسرچ پیپرز پاکستانی ریسرچ جرنلز میں شائع کرانے کی طرف راغب کیا جائے۔ اس طرح غیر ملکی اسکالرز کے تحقیقی کام سے ہمارے اسکالرز بھی مستفید ہوں گے اور ہمارے زیادہ ریسرچ جرنلز بیرونِ ملک بھی جانے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ریسرچ جرنلز کے ایڈیٹوریل بورڈ میں عام طور پر نامور ملکی اور غیر ملکی محققین، اساتذہ اور ماہرین کے نام ہوتے ہیں۔ لیکن شاذونادر ہی اُس جرنل کے ایڈیٹوریل بورڈ کا اجلاس ہوتا ہے تاکہ جرنل کے معیار کا جائزہ لیا جائے اور نئی گائیڈ لائنز مرتب کی جائیں۔ پاکستانی ریسرچ جرنلز کا معیار بلند کرنے کے لئے بین الاقوامی ماہرین کی آراء و خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی جامعات اور اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں کے ساتھ اشتراک کار کے ذریعے سے بھی ہمارے ریسرچ جرنلز کا معیار بہتر کیا جا سکتا ہے۔
The post پاکستان میں معیاری علمی تحقیق کا فقدان appeared first on ایکسپریس اردو.