Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

اگر عمران خان ناکام ہوا تو مارشل لا لگے گا یا ’خلائی مخلوق‘ کوئی نیا نظام تلاش کرے گی!

$
0
0

وہاں بے شمار کالے کوٹ والے جمع تھے، شعلہ بیاں وکیل راہ نما علی احمد کُرد کی آمد متوقع تھی۔۔۔ دبی دبی سی آوازیں تھیں کہ اگر وہ آگئے، تو عدلیہ پر برسیں گے، بڑی ’گرما گرمی‘ ہو جائے گی۔۔۔ مگر وہ شریک نہ ہوئے، البتہ سینئر وکیل خورشید رضوی، ممتاز صحافی مجاہد بریلوی، پیپلزپارٹی کے مرکزی راہ نما وقار مہدی، راشد ربانی اور مسرور احسن اس تقریب میں موجود تھے، ’پاک سرزمین پارٹی‘ کے سیکریٹری جنرل رضا ہارون اور وائس چیئرمین انیس ایڈووکیٹ بھی تھے، ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کی سینٹیر نسرین جلیل بھی دکھائی دیں، لندن میں مقیم لیاری کے سیاسی راہ بر حبیب جان تو پیش پیش تھے، منچ سے پکار کر اگلی نشستوں پر آنے کے لیے کہا تو کیا دیکھتا ہوں ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے چیئرمین آفاق احمد بھی موجود ہیں۔۔۔ یہ ممتاز قانون داں بیرسٹر صبغت اللہ قادری کی ’یادداشتوں‘ کی تقریب رونمائی تھی۔

بیرسٹر صبغت اللہ قادری کو ہمارے سیاسی حلقوں میں ایک منفرد مقام حاصل ہے، وہ اُن دنوں لندن سے کراچی آئے ہوئے تھے۔۔۔ تقریب برخاست ہوئی تو مشترکہ تصویر کے واسطے سیاسی زعما کو اوپر بلایا گیا، نسرین جلیل نے انکار کر دیا۔۔۔! رشید جمال نے اُن کے پاس جا کر بہتیری کوشش کی، مجاہد بریلوی نے بھی بہت منایا، لیکن وہ قائل نہ ہوئیں اور تیزی سے باہر نکل گئیں۔ ہم تتّر بتّر ہوتے حاضرین کے جُھرمٹ سے یہ منظر بغور دیکھ رہے تھے، سو اُن کے پاس جا کر پوچھا کہ ’تصویر کیوں نہ بنوائی آپ نے؟‘ تو وہ اپنے خاص انداز میں بولیں ’’ارے، کیا تصویر بنوانا، ان لوگوں کے ساتھ۔۔۔!‘‘ اور پھر جلدی سے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔

پھر ہم نے بیرسٹر صبغت اللہ قادری سے وقت لیا اور ماضی سے لے کر حال تک بہت ساری باتیں کر ڈالیں۔ بریگئیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی کی طرح انہیں بھی ہم پر یہ ’اعتراض‘ ہوا کہ ’’آپ بڑے ’ڈیفیکلٹ‘ سوال کر رہے ہیں۔۔۔!‘‘

وہ ملک کے ابتدائی واقعات کے شاہد ہیں، بتاتے ہیں کہ پہلے دستور کی منظوری کے بعد 23 مارچ 1956ء ملک کا ’یوم جمہوریہ‘ قرار پایا، تو اس دن نہ کوئی سلامی وغیرہ نہ ہوتی تھی۔ متوقع عام انتخابات سے پہلے غلام محمد نے مقنّنہ تحلیل کی، جسے جسٹس منیر نے درست قرار دیا، کیوں کہ آئین نہیں بنا تھا، 1935ء کا ایکٹ نافذ تھا اور ہم ملکہ کی کالونی تھے، تکنیکی طور پر ہم اس فیصلے کو درست کہہ سکتے ہیں، لیکن عملی طور پر نہیں، انہیں اس کی مختلف تشریح کرنا چاہیے تھی۔

بیر سٹر صبغت اللہ 1961ء میں کراچی سے لندن چلیگئے، وہاں انہوں نے ’’پاکستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ فعال کی، اسی توسط سے بنگالی طلبہ سے تعلق ہوا، شیخ مجیب الرحمن، ظہیر الدین اور حسین شہید سہروردی وغیرہ سے ملاقات رہی، بنگلا دیش کے سابق نائب وزیراعظم اور ’بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی‘ کے راہ نما مودود احمد اور سابق وزیر قانون امیر السلام سمیت آج کے بنگلادیش کے بہت سے سیاست داں اُن کے دوست ہوئے۔ انہیں یقین ہے کہ وہ  بھی ہمارے جیسے محب وطن تھے۔۔۔ کہتے ہیں ’میں نے اُن میں اور مغربی پاکستان کے جاگیردار طبقے میں بہت فرق دیکھا۔ یہاں کے سیاست دان نون ، ٹوانے وغیرہ جاگیردار تھے، بنگال میں ایسا نہ تھا۔‘

مشرقی پاکستان کی علاحدگی کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان نے ’مکتی باہنی‘ کی مدد کی، جس کا نریندر مودی اعتراف کرتا ہے۔ حریف تو فائدہ اٹھاتا ہے، جیسے کمیونزم کا حامی نہ ہونے کے باوجود روس میں ’زار‘ کی حکومت گرانے میں جرمنی نے معاونت کی۔ وہ شیخ مجیب جو ’مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ کا جنرل سیکرٹری تھا، اور ’لے کے رہیں گے پاکستان‘ کے نعرے لگاتا تھا، آخر کیوں وہ پاکستان مخالف ہوا؟ قائداعظم کو پتا نہیں کس نے مشورہ دیا کہ بنگلا زبان نہیں ہوگی، اس پر انہوں نے احتجاج کیا۔‘

بنگال کی محرومی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے زبان کا ذکر چھیڑ دیا تو ہم نے لقمہ دیا کہ ’’ریاستی زبان کے لیے اردو کہی، لیکن صوبائی زبان کا تو حق دیا؟‘‘ وہ بولے کہ انہوں نے انگریزی میں کہا بنگالیوں سے۔۔۔ انہیں وہ کیسے کہہ سکتے ہیں، انہیں غلط مشورہ دیا گیا۔ ’نیشنل‘ یا ’اسٹیٹ‘ لینگویج کہہ دیں، صوبائی کچھ نہیں ہوتا۔ فن لینڈ میں فرانسیسی کے ساتھ آٹھ فی صد سوئیڈش لوگوں کی زبان بھی ’قومی‘ ہے، سوئٹزر لینڈ میں جرمن اور اطالوی سمیت تین قومی زبانیں ہیں۔‘‘

’’آپ نے تو ابھی خود ذکر بھی کیا کہ یہ تو ہمارا ’دو قومی نظریہ‘ تھا۔‘‘ ہمیں کچھ ابہام محسوس ہوا۔ وہ بولے کہ ڈھاکا میں صرف ایک ہی زبان تھی، وہاں کوئی اردو نہیں بولتا تھا! ان کے ہیرو رابندر ناتھ ٹیگور اور نذر الاسلام جیسے بنگلا کے شاعر تھے، بنگالی اردو کے برعکس دائیں کے بہ جائے بائیں طرف سے لکھی جاتی ہے۔

’’آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح ہمارے لیے بنگلا اجنبی تھی، بالکل ایسے ہی اُن کے لیے اردو اجنبی تھی؟‘‘ ہمیں اچنبھا ہوا، وہ بولے: ’’بالکل، اردو اجنبی تھی، سوائے پڑھے لکھے طبقے کے، لیکن یہاں لاہور میں تو پورا ’اردو بازار‘ تھا۔‘‘ ’’اردو چوک تو بنگال میں بھی ہے؟‘‘ ہمیں دفعتاً یاد آیا، وہ بولے کہ ’’وہ تو بعد میں بنا، لاہور میں پہلے ہی اقبال اور پھر فیض اردو کے شاعر تھے اور لوگ علی گڑھ پڑھنے بھی جاتے تھے، بنگال سے نہیں جاتے تھے۔‘‘

’’آپ اسے قائداعظم کی غلطی شمار کریں گے؟‘‘ اس سوال پر وہ بولے ’’بالکل! انسان خطا کا پتلا ہے، سوائے انبیا کے ہر ایک سے غلطی ہو سکتی ہے! قائد تو خود مان چکے کہ کانگریس میں رہنا غلطی تھی، اب اگر قائد نے اردو کہہ دی تھی، تو گولی نہیں چلنا چاہیے تھی۔ 1952ء میں جن طلبہ پر گولی چلائی، وہ بنگلادیش نہیں مانگ رہے تھے، وہ تو اردو کے ساتھ پاکستان کی ہی قومی زبان بنگلا بنانے کے لیے آواز اٹھا رہے تھے۔‘‘

’’بنگالی کے بعد پھر دوسری زبانوں کا ’قومی زبان‘ قرار دینے کا مطالبہ ہوتا؟‘‘ ہم نے پوچھا تو وہ بولے کہ بنگالی ہمارے ملک کا 56 فی صد تھے، ان کی زبان ہونا چاہیے تھی، باقی زبانوں میں یہاں صرف سندھی ہی تحریری زبان تھی۔

ہم نے پوچھا کہ کیا 1952ء کے اسی واقعے سے ہی علیحدگی شروع ہوئی، تو انہوں نے اتفاق کیا۔ ہم نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو 1956ء میں تو دو قومی زبانیں بنا دی گئی تھیں؟ وہ بولے کہ اس پر وہ خوش تھے، لیکن ایوب خان نے پاکستان بنانے والے حسین سہروردی کو نا اہل کر دیا!  ون یونٹ بنا کر اقلیت ہونے کے باوجود اکثریت کی برابری کی، پھر بھٹو نے تم ادھر اور ہم ادھر! کہہ کر بنگال کو الگ تھلگ کر دیا، پھر جو ہوا سب سامنے ہے، احساس محرومی کے باعث غصے میں ہوتے ہیں۔۔۔ دشمن کو موقع ملا، جو کراچی میں ہوا الطاف حسین صاحب۔۔۔‘‘ وہ رکے، پھر بولے کہ ’’را کود گئی بیچ میں!‘‘

اچانک روئے سخن بدلا، تو ہم نے نقب لگائی: ’’کیا آپ الطاف حسین پر ’را‘ والے الزامات درست سمجھتے ہیں؟‘‘ وہ بولے ’مجھے نہیں معلوم، لیکن جو حالات پیدا کیے، اس میں ہندوستان نے کوشش تو کی ہوگی۔۔۔ اب مجھے نہیں پتا کہ وہ کام یاب ہوا یا نہیں، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم دشمن کو مواقع ہی کیوں دیتے ہیں؟‘

’’گویا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر الطاف حسین اس میں ملوث ہیں، تو ریاست کی غلطیوں کی وجہ سے ایسا موقع پیدا ہوا؟‘‘ ہم نے وضاحت چاہی تو وہ بولے ’’بالکل! الطاف حسین پر ’جناح پور‘ بنانے کا الزام تھا، میں سمجھتا ہوں درست نہ تھا، پھر حکومت نے خود ہی غلط مانا، پھر وہی الطاف حسین ہندوستان جا کر کہتا ہے کہ پاکستان بنانا ہمارے اجداد کی غلطی تھی! ہمارے خلاف ظلم ہوتے ہیں، آیندہ اگر ہوں تو آپ ہمیں پناہ دیں! یہ کب کہہ رہا ہے، جب یہاں فوجی حکومت تھی۔ یہاں کوئی کارروائی نہیں ہوتی، بلکہ بڑا نوازا جاتا ہے۔ پرویزمشرف کو فوج  نہیں بتاتی کہ وہ غدار تھا۔۔۔؟ اب اس سے کیا نتیجہ اخذ کریں۔ یہی کہ جب ضرورت پڑے تو ہمارا آدمی، ورنہ ’غدار‘!‘‘

ہم نے لندن میں الطاف حسین سے ملاقات کا پوچھا، تو وہ بولے میں قانون دان ہوں، مجھ سے کوئی مشورہ مانگتا ہے، تو پیشہ ورانہ اور انسانی ہم دردی کے طور پر اسے مشورہ دیتا ہوں۔ 12 مئی 2007ء کے واقعے کے بعد میں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے بہت غلط کیا، لیکن الطاف حسین کی بیگم کی علاحدگی کے معاملے میں، میں نے بھی قانونی مشورے دیے، رحمن ملک بھی اُن کے معاون تھے۔ ’منی لانڈرنگ‘ کے حوالے سے تب بیرسٹر فروغ نسیم بڑے ٹھاٹھ سے وہاں جاتے تھے، آج وہ ہمارے وزیر قانون ہیں!

ہماری گفتگو میں ’ایم کیو ایم‘ کا موضوع چل نکلا، بیرسٹر صبغت اللہ نے ذکر کیا کہ کل اُن کی ’پی ایس پی‘ کے سربراہ مصطفیٰ کمال سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مصطفیٰ کمال سے کہا کہ مشترکہ ذمہ داریاں تقسیم نہیں ہوتیں۔ اس شہر میں بوری بند لاشیں ملیں۔۔۔ مہاجر نے مہاجر کو قتل کیا، ایک منٹ میں ہڑتال ہوتی تھی، اب ساری ذمے داری صرف الطاف حسین پر۔۔۔؟ اگر وہ یہ سب کہتا تھا تو اسے عملی جامہ کون پہناتا تھا؟ یہی سب لوگ تھے!

’’پھر کیا کہا انہوں نے؟‘‘ ہم نے کریدا تو بیرسٹر صاحب گویا ہوئے ’وہ بولے کہ ہاں، مگر ہم مرنے سے پہلے اس کی تلافی چاہتے ہیں، میں نے کہا کہ تلافی ایسے نہیں ہوتی! مصطفیٰ کمال کے بقول دبئی میں ایم کیو ایم کے راہ نما محمد انور نے رحمن ملک کی موجودگی میں یہ مانا کہ ہم نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس جا کر ’را‘ کی فنڈنگ کا اعتراف کیا ہے، میں نے کہا آپ کو تو اسی وقت غدار کہہ کر ایم کیو ایم سے مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔۔۔! رحمن ملک تو وزیر داخلہ تھے، آپ کو چاہیے تھا انہیں بھی شرم دلاتے، جو کچھ الطاف حسین نے کیا، اگر وہ غلط کیا تو مشترکہ ذمہ داریاں تقسیم نہیں کی جا سکتیں!‘‘

الطاف حسین سے وابستہ افراد کے خلاف کارروائی پر اُن کی رائے لینا چاہی تو وہ بولے کہ ’پاکستان انصاف کے لیے بنا تھا، یہ اس لیے تو نہیں بنا کہ یہاں شوگر مل لگیں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو۔ ایک لوہا بنانے والے کی بڑی صنعت بن جائے، چند خاندان حکومت کریں۔‘

’’آپ اس کارروائی کو غلط سمجھتے ہیں؟‘‘ ہمیں اُن کے جواب میں اپنا سوال گُم ہوتا ہوا لگا تو ہم نے پھر دُہرایا۔ وہ بولے کہ ’’پاکستان میں قانون کی حکم رانی اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔ یہاں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر انصاف قائم ہونا چاہیے۔‘‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا موضوع چھِڑا، وہ بولے کہ ’’مجھے اس کے ثبوت نہیں معلوم، لیکن یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ اگر یہ غلط بھی ہے تو اتنی بڑی غلطی نہیں، جو ’نظریہ ضرورت{‘ سے اب تک ہوتی آئی ہیں۔۔۔ جسٹس شوکت کو پھانسی نہیں دی، یہاں تو بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔‘‘

ایک جج کی بے دخلی پر ہمارا ذہن 2007ء میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بے دخلی اور ان کے لیے چلنے والی ’عدلیہ تحریک‘ کی طرف گیا، وہ بولے کہ ’یہ تحریک بالکل ٹھیک چلی، ایک آمر یا حاکم جج کو نہیں نکال سکتا، لیکن عدالت عظمیٰ نکال سکتی ہے۔‘

پرویز مشرف نے بھی تو ان کے خلاف ایک ریفرنس ہی بھیجا تھا؟ ہم نے پوچھا تو وہ بولے کہ انہوں نے چیف جسٹس کو معطل بھی کیا تھا، لیکن جسٹس شوکت صدیقی کو تو آخری وقت تک عہدے پر برقرار رکھا گیا۔ انگلستان میں جب کسی جج کو نکالنے کا ذمہ دونوں ایوان ’ہاؤس آف لارڈ‘ اور ’ہاؤس آف کامن‘ کا مشترکہ ہے، جب کہ پاکستان اور ہندوستان میں اس حوالے سے ’سپریم جوڈیشل کونسل ‘ کام کرتی ہے۔‘

’جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے بعد عدلیہ کتنی بہتر ہوئی؟‘ ہمارے استفسار پر انہوں نے یوں اطمینان ظاہر کیا: ’’بہت بہتر ہوئی، پہلی بار انصاف کی خاطر آصف زرداری اور ن لیگ کے بارے میں ’اسٹینڈ‘ لیا گیا ہے، عدلیہ کو ڈرنا نیں چاہیے اور کوئی بھی توہین عدالت کرتا ہے، تو وہ آئین کی اہانت کرتا ہے، اسے پکڑیں، چاہے کوئی بھی ہو!‘‘

وہ موجود عدلیہ کے کردار سے مطمئن ہیں، کہتے ہیں کہ کسی قدر انصاف ہو رہا ہے، لیکن ڈیم وغیرہ سپریم کورٹ کا کام نہیں۔ انسانی حقوق کا کوئی مسئلہ یا ظلم وزیادتی ہے، تو قانون کہتا ہے کہ از خود نوٹس لے کر مقدمہ سنیں۔‘

’’جیسے اسپتالوں کے دوے کرتے ہیں، مختلف جگہوں پر چھاپے مارتے ہیں؟‘‘ ہم نے جاننا چاہا۔

’’اسے آپ ’چھاپا‘ کہہ رہے ہیں!‘‘ انہوں نے شاید یہ لفظ ناپسند کیا، پھر بولے کہ ’’وہ تو تب جاتے ہیں، جب انہیں شکایت ملے، یہ اگرچہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ جاتے ہیں، اگر نہ جاتے، تو ایک آدمی جس پر کرپشن کا الزام ہے، وہ ٹھاٹھ سے ایک جیل کی جگہ اسپتال میں بیٹھا ’محفل سرور‘ لگا رہا ہے، وہ ریمانڈ پر ہے، یہ تو عدالتی عمل داری کی توہین ہے، عدالت کو حق ہے، کہ ایسی اطلاعات ملیں، تو حقیقت جانے، اگرچہ اس کے لیے بنیادی طور پر پولیس کو بھیجنا چاہیے۔‘‘

موجودہ احتساب کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ میں یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے خلاف کوئی کارروائی ہو رہی ہے، ’پی پی پی‘ میں کوڑے کھانے والے جیالے بھی ہیں، انہیں تو کوئی کچھ نہیں کہہ رہا۔ کل تک معمولی ’اسٹیٹ ایجنٹ‘ آج اتنے ’’بڑے‘‘ ہیں کہ انہیں سونے کا تاج پہنایا جا رہا ہے، بے گناہی ثابت ہو جائے تو بے شک پہناؤ۔ دنیا میں کسی پر بھی الزام لگتا ہے، تو اسے معطل کر دیا جاتا ہے۔۔۔‘‘

’’افتخار چوہدری کے خلاف بھی تو الزام تھا، لیکن آپ اُن کی معطلی کو غلط کہہ رہے ہیں؟‘‘ ہمیں اچانک تھوڑی دیر پہلے انہی کی بات یاد آگئی، وہ بولے کہ ’’انہیں تو الزام لگانے والا ہی معطل کر رہا تھا۔‘‘

’نواز شریف کو جس بنیاد پر نااہل کیا گیا، اُسے عاصمہ جہانگیر ودیگر نے ’کم زور فیصلہ‘ قرار دیا؟‘ اس سوال پر وہ بولے کہ ’دنیا کے کسی بھی مقدمے کے بارے میں ماہر قوانین کا اختلاف رائے کا مطلب کسی فیصلے کا صحیح یا غلط ہونا نہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر ایسا ہو، جو دنیا غلط ہے، جیسے  بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ ایسے ثبوت پر ہوا، جس میں قاتل نے یہ کہا کہ میں نے قتل بھٹو کے کہنے پر کیا؟ اسے کہا گیا کہ تمہیں پھانسی نہیں ہوگی۔ اگر نواز شریف کی نااہلی پر کوئی غیر جانب دار وکیل کچھ کہے، تو پھر بات کی جا سکتی ہے۔‘

’’اگر احتساب تحریک انصاف کے ساتھ ہو تو اسے چھوٹ مل جاتی ہے؟‘‘ ہم نے ایک عام اعتراض ان کے روبرو کیا تو وہ بولے ’کم سے کم ایک چور کے خلاف تو کارروائی ہور ہی ہے۔‘ آج انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آمریت سے زیادہ کڑی پابندیوں کا ذکر ہوا، تو بیرسٹر صبغت قادری بولے کہ عدالت میں اس کی شکایت کریں!

’میثاق جمہوریت‘ کے حوالے سے بیرسٹر صبغت اللہ قادری نے بتایا کہ بے نظیر چاہتی تھیں کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک سمجھوتا کریں، تاکہ غیر جمہوری قوتیں فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ بے نظیر نے کہا تھا کہ حکومت میں آئیں گے تو ایک آئینی عدالت بنائیں گے، اس پر کچھ نہیں ہوا۔

’’وہ تو دنیا میں ہی نہیں رہیں؟‘‘ ہم نے کہا تو وہ بولے ’’لیکن بات تو یہ بھی ہے کہ میثاق جمہوریت کے بعد آپ نے ’این آر او‘ لے لیا! یہاں ’ری کنسی لیئشن‘ (Reconciliation) پر زور رہا ’’ٹرتھ اینڈ ری کنسی لیئشن‘‘ پر نہیں! آپ گناہ تسلیم کیے بغیر مصالحت کر ہی نہیں سکتے، معافی اور اعتراف کے بغیر تو اللہ بھی معاف نہیں کرتا۔‘‘

’’پہلی غلطی کہاں ہوئی؟‘‘ ہم نے دریافت کیا۔

’’جہاں این آر او کیا!‘‘ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا، پھر بولے ’’انہیں اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ یہاں ’بھٹو‘ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کمال دیکھیے، ذوالفقار بھٹو کے بعد بے نظیر کی حکومت آئی، کچھ نہیں کیا! مرتضیٰ کو بے نظیر کے دور میں مارا، اس کے قاتل کا پتا نہ چلا! بے نظیر کے قتل کے بعد آصف زرداری کی حکومت آئی، کچھ نہیں کیا، اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں، میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا۔ پرویز مشرف کا ایک فارمولا تھا ’مائنس ون‘۔ بے نظیر کو ہٹا دو، باقی پیپلزپارٹی ٹھیک ہے!‘‘

بیرسٹر صبغت بتاتے ہیں کہ بھٹو کو پھانسی کے بعد پی پی کے بہت سے راہ نما لندن میں ان کے ہاں رہے، انہوں نے بلامعاوضہ ان کی سیاسی پناہ میں مدد کی۔ ہم نے پوچھا کہ یہ سنا ہے کہ آپ 2007ء میں بے نظیر کے ساتھ یہاں آرہے تھے، آپ کو خبر ہوگئی کہ ’کچھ ہونے والا ہے؟‘ وہ بولے کہ ’’اگر پتا ہوتا تو بی بی کو نہ بتاتا! ماجرا یہ تھا کہ مجھے یقین نہ تھا کہ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ پاکستان چلنے کے لیے کہیں گی، اس لیے ایک محفل میں مذاقاً یہ کہہ دیا کہ بھئی، گڑ بڑ ہو سکتی ہے، اس لیے میں تو ساتھ نہیں جا رہا! میں نے دراصل یہ کہنے سے گریز کیا تھا کہ شاید بے نظیر مجھے ساتھ چلنے کے لیے نہ کہیں۔ مجھے ایسی خبر نہیں، بلکہ خدشہ تھا، کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ بھٹو خاندان کو اس ملک میں حکومت نہیں کرنے دی جائے گی۔ ذوالفقار بھٹو نے جنرل ایوب کے خلاف تحریک چلائی اور آج یہ سوچ ہے کہ اگر بھٹو نہ ہوتا تو آج بھی یہاں کسی ایوب، یحییٰ، ضیا یا مشرف کی حکومت ہوتی!‘‘

نواز لیگ پر کسی بھی عتاب سے وہ انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ان پر تو کبھی ظلم ہوا ہی نہیں!‘‘

پھر بولے کہ آج یہ ایوانوں میں پڑھتے ہیں کہ ’’حکم راں ہوگئے کمینے لوگ!‘‘ جب جالب نے یہ کہا تب یہی لوگ حاکم تھے!

’’پرویز مشرف نے تو ان پر ظلم کیا؟‘‘ ہم نے انہیں ٹٹولا تو وہ بولے کہ ’’کون سا ظلم کیا؟ انہوں نے تو جیل سے نکل کر سعودی عرب میں پناہ لے لی، ٹھاٹ سے وہاں ایک اور فیکٹری بنائی، کاروبار جاری رکھا۔ یہ ظلم ہے؟ آج بھی ان کا وزیر خزانہ ملک سے باہر نکل گیا ہے!‘‘

’’بدترین جمہوریت بھی کسی بہترین آمریت سے بہتر ہے‘‘ بیرسٹر صبغت اللہ اس خیال کی پرزور نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بدترین سے کوئی چیز بہتر ہو ہی نہیں سکتی! اس جملے میں ہی تضاد ہے۔ جمہوریت یا تو ہوگی یا نہیں ہوگی، یہ بدترین نہیں ہو سکتی۔ آمریت ہو یا کچھ بھی، ملک کی حفاظت، انصاف اور قانون کی حکم رانی ہونا چاہیے۔ پاکستان میں حقیقتاً آمریت نہیں، بلکہ ’اجتماعی آمریت‘ قائم ہوئی۔ سیاست دان آمروں سے مل جاتے ہیں، آمر چلا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ آمر برا ہے، یہ تو مذاق ہے!

بیرسٹر صبغت اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ذوالفقارعلی بھٹو سے لندن میں ’پی پی پی‘ کی مخالفت کی تھی، کیوں کہ میں مقامی سیاست کا قائل ہوں۔ ملک میں بہتری کا راستہ پوچھا تو بیرسٹر صبغت بولے ’ایوب خان سے پرویز مشرف تک ہمارے اداروں اور فوج کے جرنیلوں نے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے بڑا نقصان پہنچایا، تمام تر الزامات کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ آج فوج بڑی ذمے داری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔‘

’موجودہ سیاسی نظام سے پر امید ہیں؟‘ اس سوال پر وہ بولے کہ ’’پاکستان اس وقت دوراہے پر ہے۔۔۔!‘‘

’’یہ بات تو کب سے کہی جا رہی ہے!‘‘ ہم نے جب ایک روایتی سا جملہ سنا، تو رہا نہ گیا، وہ بولے ’’دنیا جانتی ہے عمران خان بدعنوان نہیں، لیکن اب اس کی اہلیت اور ایمان داری کا ٹیسٹ ہے، عمران خان نے اپنی زندگی کو داؤ پر لگایا ہے، اس کی عزت ہے، یہ ناکام ہوا تو پھر مارشل لا لگے گا یا پھر ’خلائی مخلوق‘ کوئی نیا نظام تلاش کرے گی۔‘‘

آپ نے کہا تھا کہ ’خلائی مخلوق‘ اگر ایک فی صد انصاف کرتی ہے، تو میں اس کا ساتھ دوں گا؟ ہم نے کتاب کی تقریب رونمائی میں کہا گیا ان کا جملہ پکڑا تو وہ بولے ’’کوئی بھی انصاف کرے!‘‘

’’بے انصافی کے راستے سے بھی۔۔۔؟‘‘ ہم حیران ہوئے کہ ہمیں ابو الکلام آزاد کی وہ بات یاد آئی تھی کہ کوئی لاکھ انصاف کر لے، لیکن اگر بے انصافی کے راستے سے آیا ہے تو کبھی برحق نہیں کہہ سکتے۔۔۔ وہ بولے کہ ’’کسی بھی راستے سے ہو، انصاف ہو! ایک آدمی بھوک سے مر رہا ہو تو شرعاً اسے بچانے کے لیے ’سور‘ بھی کھلا سکتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے! سوویت یونین دوسری عظیم طاقت تھا، اس کے پاس پاکستان سے 100 گنا زیادہ بم تھے، لیکن اس کے ’ایٹم بم اُسے نہ بچا سکے، آپ کا ایٹم بم بھی آپ کی معیشت کو نہیں بچا سکتا۔‘‘

’’بٹوارے کے وقت خیال تھا کہ دونوں ملکوں میں ویزا نہیں ہوگا!‘‘

بیرسٹر صبغت اللہ قادری 23 اپریل 1937ء کو بدایوں (یوپی) کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کی دو بہنیں اور چھے بھائی ہیں، ان کا نمبر دوسرا ہے، کہتے ہیں کہ میرے والد فراست اللہ قادری ایک بڑے عالم تھے۔ ہم بنیادی طور پر تحریک پاکستان کا دفاع کر رہے تھے، ہمارے ذہن میں تھا کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے ایک مثالی حکومت ہوگا، میرے کافی رشتے دار پاکستان آگئے، لیکن والد یہاں آنے کے لیے تیار نہ تھے، ان لوگوں کا اور قائداعظم سمیت دیگر کا بھی یہ خیال تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی ویزا نہیں ہوگا۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بنا، صرف بنگال، پنجاب اور سندھ کے مسلمانوں کے لیے نہیں۔ 1950ء میں وہاں حالات خراب ہوئے تو یہاں آنا پڑا۔ وہاں ایک دو معزز افراد کا قتل بھی ہوا تھا۔

اس وقت یہاں آنے پر ’پرمٹ‘ لگ چکا تھا، ہم جالندھر کیمپ میں ٹھیرے اور پھر فوج کی نگرانی میں واہگہ آئے۔ کہتے ہیں کہ عجیب سی بات تھی اس وقت ’مہاجر‘ لفظ ایجاد ہو چکا تھا، ’مہاجر ٹیکس‘ بھی تھا۔ ہجرت کرنے والوں کو سندھ جانے کو کہا جاتا۔ ہم سے بھی پوچھا گیا کہ آپ کراچی جانا چاہیں گے، ہم نے کہا ہمارے رشتے دار لاہور میں رہتے ہیں، ہم یہیں ٹھیریں گے، تو کیمپ کی انتظامیہ نے کہا کہ ’لاہور میں گنجائش نہیں!‘ یوں ہم چند ہفتے بعد شکار پور آگئے، ایک ڈیڑھ ماہ بعد کراچی منتقل ہوگئے، یہاں بڑی مشکلات تھیں، لوگوں نے پرانی نمائش کے قریب جھونپڑیاں ڈالی ہوئی تھیں۔ ہم میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ) کے قریب گنجان جگہ ایک بلڈنگ میں رشتے دار کے ہاں رہے۔ پھر بہار کالونی کے ایک کمرے میں نانی، دادی، والدین اور بہن بھائیوں سمیت درجن بھر افراد رہے، جب کہ بدایوں میں خاصا وسیع اور آرام دہ گھر تھا۔

جنوری 1951ء میں نویں جماعت پاس کر کے یہاں آیا، لیکن یہاں داخلہ نہ ملا، اس کی تگ ودو میں وہ ’ہائی اسکول فیڈریشن‘ میں شامل ہوئے، پھر پنجاب میں میٹرک کا امتحان دیا۔ کچھ عرصے بعد پیر الٰہی بخش کالونی میں ہم نے ایک بڑا کمرا لیا، جس کے باہر کے چبوترے پر چولھا لگایا گیا تھا، ساتھ ایک باتھ روم بھی تھا۔ وہ شام کے اسکول میں پڑھتے، گزر بسر والدہ کے زیورات پر تھی، پھر میں چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا، تو پانچ چھے روپے ماہانہ آمدن ہو جاتی۔

جیل سے چُھوٹا تو پتا چلا کہ جامعہ کراچی نے نکال دیا ہے!

اپنی اسیری کا احوال بتاتے ہوئے بیرسٹر صبغت کہتے ہیں کہ مارشل لا کے بعد 14 اکتوبر 1958ء کو مغربی پاکستان سے جو دو گرفتاریاں ہوئیں، وہ ہم دو طلبہ تھے، میں اور محمد شفیع۔ مجھے ’ہاری موومنٹ‘ میں ملوث قرار دے کر چھے ماہ جیل میں رکھا، حالاں کہ میں نے زندگی میں ’ہاری‘ دیکھا تک نہ تھا، میں تو کبھی کراچی سے نہیں نکلا تھا۔ اسیری میں سندھی قوم پرست راہ نما جی ایم سید کی صحبت میسر ہوئی۔ میں جامعہ کراچی میں کیمسٹری میں بی ایس سی آنرز کر رہا تھا، رہائی کے بعد جامعہ گیا، تو پتا چلا کہ وہاں سے نکال دیا گیا ہے، پھر ’سندھ یونیورسٹی‘ (جام شورو) چلا گیا، وہاں بھی استثنیٰ نہیں ملا۔ حیدرآباد میں رسول بخش تالپور کے گھر میں ٹھیرا، اسی اثنا میں ریڈیو پاکستان (حیدر آباد) کے پروڈیوسر علی حسن مل گئے، جو کراچی میں ’این ایس ایف‘ میں ساجھے دار تھے، ان کی وساطت سے وہاں حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی اور اداکار محمد علی سے ملا، ان کے گھر میں بھی ٹھیرا، بعد میں محمد علی کو شہرت ملی۔ رسول بخش تالپور کے بطور گورنر کردار کا ذکر ہوا تو بولے کہ وہ بعد کی بات ہے، میرے ساتھ جتنا وقت رہے، تو بہت اچھی طرح رہے۔

بہن کے ناگہانی حادثے نے لندن پہنچا دیا!

بیرسٹر صبغت اللہ قادری جامعہ کراچی کے بعد جامعہ سندھ میں بھی تعلیم مکمل نہ کر سکے، ہوا یوں کہ 1961ء میں برطانیہ میں مقیم ان کی بہن کے گھر میں آگ لگ گئی، ڈاکٹروں نے والدین کو بلوا لیا اور ہم سب لندن چلے گئے، روانگی ’ماری پور‘ سے امریکی ایئر لائن کے جیٹ طیارے میں ہوئی، ’ایس ایس پی‘ سی آئی ڈی اکرم شیخ نے مجھے روکنے کے لیے فون کیا تھا، لیکن میں نکل چکا تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ بہن جاں بر نہ ہو سکیں، میں لندن میں رہنا نہیں چاہتا تھا، لیکن باقی اہل خانہ کی وجہ سے وہاں رہنا پڑا۔‘ اس طرح وہ ’پاکستان‘ میں صرف 11 برس ہی رہ سکے! لیکن یہاں سے تعلق قائم رہا۔ وہ بتاتے ہیں والدین مجھے سائنس دان بنانا چاہتے تھے، حادثات سے ’بیرسٹر‘ بن گیا۔ میں ایوب خان کے زمانے میں 15 برس یہاں نہ آ سکا، اس کے بعد ہر سال چکر لگتا ہے۔

وہاں سائنس میں داخلہ نہیں مل سکتا تھا اور ’بار‘ میں بھی ڈگری کے بغیر جانا ممکن نہ تھا، لیکن میں نے اپنے حالات بتائے کہ میں وہاں گرفتار رہا ہوں، تب چھوٹ ملی، پھر بیرسٹری کی اور پھر پہلے مسلمان اور ایشیائی بیرسٹر قرار پائے جسے 1989ء میں ملکہ برطانیہ سے ’کیوسی‘ (Queen’s Counsel) کا اعزاز ملا۔ اُن کی شادی فن لینڈ میں ہوئی، اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ شریک حیات سے بائیں بازو کی تحریک کے دوران ملاقات ہوئی تھی۔ اُن کے دو بچے ہیںِ، بیٹا ’صاحب کتاب‘ اور بیرسٹر ہارورڈ اور کیمبرج سے فارغ التحصیل ہے، جب کہ صاحب زادی نے ماسٹرز کیا ہے۔

’دو قومی نظریہ‘ دراصل ’یوپی‘ اور بہار میں ہی تھا!

بیرسٹر صبغت اللہ قادری 1947ء کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں مسلمان طلبہ کی لازمی زبان اردو ہوتی تھی، جب کہ ’ثانوی زبان‘ ہندی، جسے ہم بس سرسری سا پڑھتے، اسی طرح ہندو لڑکے ہندی لازمی پڑھتے۔ قائداعظم نے جس دو قومی نظریے کا ذکر فرمایا، وہ ’یوپی‘ اور بہار وغیرہ میں ہی نظر آتا ہے۔۔۔ پنجاب میں سب لوگ ایک جیسے تھے، سکھ تو گوشت بھی کھا لیتے تھے، نام جانے بغیر آپ مذہب نہیں بتا سکتے تھے۔‘ ہم نے پگڑی اور داڑھی کے فرق کا ذکر کیا تو وہ بولے کہ اس سے صرف سکھ کا پتا چلتا، سندھ اور سرحد (پختونخوا) میں بھی 90 فی صد ثقافت ایک تھی۔ دوسری طرف ’یوپی‘ میں لوگ کرتا، پاجاما اور شیروانی، جب کہ ہندو دھوتی پہنتے، جواہر لعل نہرو بھی جیکٹ پہنتے تھے۔‘

ہم نے کہا ’’نہرو نے تو شیروانی بھی پہنی!‘‘ تو وہ بولے کہ ہندوؤں میں بس اونچا طبقہ ہی شیروانی پہنتا تھا، ورنہ عمومی طور پر لباس سے لے کر زبان تک، سب مسلمانوں سے الگ تھا، زبان کو آپ ہندوستانی کہہ لیں، جس کے لکھنے میں فرق، ہمارے ناموں سے لے کر کھانا پینا سب مختلف۔ ’ہندو پانی‘ اور ’مسلم پانی‘ یہ سب وہیں ہی تو تھا۔ ہم نے پوچھا کہ ’آپ نے وہاں ہندو پانی اور مسلم پانی دیکھا؟‘ تو انہوں نے تصدیق کی کہ ’میں عیسائی مشنری اسکول میں تھا، لیکن وہاں بھی ہندو لڑکوں کو الگ پانی دیا جاتا تھا۔‘

’آپ کہتے ہیں کہ ’دو قومی نظریہ‘ اصل یوپی اور بہار میں تھا، وہ تو آئے نہیں پاکستان میں؟‘‘ ہم نے استفسار کیا، تو وہ بولے کہ پاکستان پورے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بنا، ہندوستان میں مسلمان کے نماز، روزے کو کوئی خطرہ نہ تھا، آج بھی دلی کی ’جامع مسجد‘ پہلے جتنی ہی بھری ہوئی ہوتی ہے۔ رہا گائے کاٹنے کا مسئلہ، تو وہ کوئی لازمی فریضہ نہیں۔ یہ ملک مساوات محمدی کے لیے بنا تاکہ دنیا کو دکھا سکے کہ یہ رسول اللہ کے اصولوں پر چلنے والی ریاست ہے۔‘

بیرسٹر صبغت اللہ قادری ’دو قومی نظریے‘ کے حوالے سے یہ بھی مانتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر قومیں نہیں ہوتیں، ورنہ تو صومالیہ بھی تو مسلمان ملک ہے۔ قائد اعظم نے کبھی ’پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ اللہ‘ کا نعرہ نہیں لگایا۔ صرف پاکستان کا نہیں، بلکہ پوری کائنات کا ہی یہ مطلب ہے کہ اللہ ایک ہے، پھر اگر کوئی یہ نعرہ لگاتا ہے تو ساتھ ’محمد الرسول اللہ‘ کہنے میں کیا قباحت ہے؟‘

ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے عرصۂ معطلی کی تنخواہ لینے سے انکار کیا!

جامعہ کراچی میں فلسفے کے سابق استاد اور ایم کیو ایم (لندن گروپ) کے انچارج ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے حوالے سے بیرسٹر صبغت اللہ قادری نے کہا کہ ’’وہ بڑے ’باکردار باصلاحیت شخص تھے، انہیں میں عرصہ دراز سے جانتا تھا، ضیا الحق نے انہیں جامعہ کراچی سے برطرف کیا، بے نظیر وزیراعظم بنیں، تو معطلی کے عرصے کی تنخواہیں دی گئیں، تو انہوں نے یہ لینے سے انکار کیا! انہوں نے پیپلزپارٹی کو مشورے دیے، لیکن جب دیکھا کہ غلط فیصلے ہو رہے ہیں، تو الگ ہو گئے۔ اس عمر میں شاید انہوں نے سمجھا کہ ’ایم کیو ایم‘ کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، تو وہ اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور انہیں بڑا عجیب سا دل کا دورہ پڑا تھا، کہ وہ اپنی گاڑی میں جا کہاں رہے تھے، چل پڑے دوسری طرف۔۔۔ میلوں دور۔۔۔!‘‘’اُن کا الطاف حسین کے ساتھ چلنا غلط فیصلہ تھا؟‘ ہم نے براہ راست پوچھا تو وہ بولے کہ ’’نہیں، وہ اصول کے آدمی تھے، انہیں میرا خیال ہے، اس عمر میں انہیں ریٹائر ہو جانا چاہیے تھا، لیکن میں کون ہوتا ہوں انہیں یہ کہنے والا!‘‘

سرکار نے ’این ایس ایف‘ بنائی تو کالعدم ’ڈی ایس ایف‘ نے اس میں شامل ہو کر تصرف کرلیا!

بیرسٹر صبغت اللہ قادری کی سیاسی زندگی کا آغاز ’ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ (ڈی ایس ایف) سے ہوا، وہ 1953ء کی طلبہ تحریک کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ کسی نے مشتاق گورمانی کی گاڑی جلا دی۔ ہم نے پوچھا کہ کیا طلبہ نے جلائی؟ تو وہ بولے کہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن میرا خیال ہے کہ طلبہ نے نہیں، بلکہ ان کے ساتھ شامل لوگ اس کے مرتکب ہوئے۔

’مشتاق گورمانی سے نفرت کی وجہ کیا ان کا نام لیاقت علی کے قتل میں لیا جانا تھا؟‘ ہم نے ذہن میں آنے والا سوال ظاہر کر دیا، تو وہ بولے کہ ’’ہو سکتا ہے، دراصل تب وہ وزیر داخلہ تھے، جن کے حکم پر طلبہ کا راستہ روکا گیا تھا! جب طلبہ پر گولیاں چلیں، تو وہ کوئی ’عَلم بغاوت‘ بلند نہیں کر رہے تھے، بلکہ ’وزیراعظم ہاؤس‘ جا کر اپنے مطالبات پیش کرنا چاہتے تھے، لیکن روکا گیا اور گولیاں چلیں! ابھی پاکستان بنے چھے سال ہوئے تھے اور یہاں مسلمان، مسلمان پر گولیاں چلا رہا تھا۔ اس واقعے نے طلبہ تحریک کو اور ابھارا، ’ڈی ایس ایف‘ اور مضبوط ہوئی، ہم یونین کا چناؤ بھی جیتے۔‘‘بیرسٹر صبغت اللہ قادری کہتے ہیں کہ حکومت نے ہم پر فائرنگ کے اس واقعے کو ’کمیونسٹ خطرہ‘ دکھا کر امریکی امداد حاصل کی۔ ہ

م نے پوچھا کہ ’’گویا یہاں سے داخلی واقعات کو بنیاد بنا کر بیرونی امداد لینے کا سلسلہ شروع ہوا؟‘‘ وہ بولے جی ہاں، اس کے بعد ’اے پی ایس او‘ (آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن)‘ کا ملک گیر کنونشن ہوا، تو ’کمیونسٹ پارٹی‘ اور ’ڈی ایس ایف‘ کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ یہ 1954ء تھا، جب مارشل لا بھی نہیں لگا تھا، حکومت نے ’ڈی ایس ایف‘ کا خلا پُر رکنے کے لیے ’این ایس ایف‘ بنائی۔ یہ مقبول نہ ہوئی، لیکن جب ’ڈی ایس ایف‘ کی ساری قیادت گرفتار ہو گئی، تو سارے کارکنان نے لائحہ عمل طے کیا۔ ہم ’این ایس ایف‘ میں شامل ہوئے اور اپنی اکثریت سے دوسروں کو باہر نکال کیا اور ’این ایس ایف‘ پر تصرف کر لیا، یوں ’این ایس ایف‘ نے ہی ’ڈی ایس ایف‘ کی جگہ لے لی۔ کہتے ہیں کہ این ایس ایف ’ڈی ایس ایف‘ سے زیادہ ’ملٹنٹ‘ تھی۔ ’این ایس ایف‘ سوئس وار پر کھڑی ہوئی، یونین جیک جلائے، امریکا مخالف جدوجہد کی، آگے بڑھ کر سیاسی تحریکیں چلائیں، ورنہ پہلے ہماری تحریک صرف طلبہ کے مسائل تک محدود رہتی تھی۔ اسی دور میں، میں پہلی بار جامعہ کراچی کی یونین کا جنرل سیکریٹری منتخب ہوا۔

The post اگر عمران خان ناکام ہوا تو مارشل لا لگے گا یا ’خلائی مخلوق‘ کوئی نیا نظام تلاش کرے گی! appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles