Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

قادر خان بھی فلم نگری کی روایتی بے حسی سے نہ بچ پائے

$
0
0

’’اپن بہت فیمس آدمی ہے، بڑے بڑے پیپر میں اپن کا چھوٹا چھوٹا فوٹو چھپتا ہے‘‘، ’’تیرے باپ نے چالیس سال بمبئی پر حکومت کی ہے، اس کھلونے(بندوق) کے بل پر نہیں اپنے دم پر‘‘ دو ہندی فلموں کو یہ وہ ڈائیلاگ ہیں، جن کو لکھنے والا انہیں حقیقی زندگی میں بھی سچ ثابت کر گیا۔ ایک زمانہ اُس عظیم فنکار، اداکار، ہدایت کار اور فلم نویس سے شناسا ہے۔

جس نے تنگ دستی، گمنامی اور محرومیوں میں آنکھ ضرور کھولی لیکن عمر بھر کے لئے انہیں اپنی زندگی کی مجبوری نہیں بنایا۔ محنت، لگن اور خالصتاً اپنے دم پر اس نے دنیا میں اپنا وہ مقام بنایا کہ جس کی شائد ہر کوئی تمنا کرتا ہے۔ جی ہاں! وہ شخص ہے قادر خان، ایک بھارتی و کینیڈین مسلمان، جس کی زندگی کی صبح (22 اکتوبر 1937ء) افغانستان میں ہوئی اور بھارت میں پورا دن گزارنے کے بعد کینیڈا میں شام (31 دسمبر 2018ء) ہو گئی۔

قادر خان کے والد کا نام عبد الرحمان تھا، جو قندھار سے تعلق رکھتے تھے جبکہ والدہ اقبال بیگم برطانوی ہند کے پشین (بلوچستان) سے تعلق رکھتی تھیں۔ پشتون کے کاکڑ قبیلہ کی نسل سے تعلق رکھنے والے خان نے علاقائی میونسپل اسکول اسماعیل یوسف کالج میں داخلہ لیا اور اس کے بعد انسٹی ٹیوشن آف انجیئنرنگ، بھارت سے ماسٹر ڈپلوما ان انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ 1970ء تا 1975ء انہوں نے جنوبی ممبئی کے مضافاتی علاقے میں واقع ایم ایچ سابو صدیق کالج آف انجینئرنگ ، بائکلا میں تدریسی خدمت انجام دی، جہاں وہ سول انجینئرنگ پڑھاتے تھے۔ سنجیدہ مزاح کے استاد قادر خان کے تین بیٹے ہیں۔

قادر خان کے شوبز کیرئیر کی بات کی جائے تو ایم ایچ سابو صدیق کالج آف انجینئرنگ، بائکلا کے سالانہ جلسہ میں ایک ناٹک پلے کرتے ہوئے دلیپ کمار کی نظر ان پر پڑی تو انھوں نے خان کو اگلی فلم کے لئے سائن کرلیا۔ شروع میں وہ تھیٹر کے لئے ڈرامے لکھا کرتے تھے اور اسی دوران انہیں فلم ’’جوانی دیوانی‘‘ کے لئے اسکرپٹ لکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم کے وہ شریک لکھاری تھے، تاہم 250 سے زائد فلموں کے لئے مکالمے لکھنے والے لکھاری کی پہلی بڑی فلم ’’روٹی‘‘ تھی۔ راجیش کھنہ کے کہنے پر معروف ڈائریکٹر و پروڈیوسر منموہن ڈیسائی نے انہیں فلم روٹی (1974ء) کے لئے کہانی لکھنے کا ٹاسک دیا۔ بہترین کہانی لکھنے پر قادر خان کو ایک لاکھ اکیس ہزار روپے کی پہلی بڑی رقم حاصل ہوئی۔

جس کے بعد انھوں نے راجیش کھنہ کے لئے کئی فلموں کے مکالمے لکھے، جن میں مہاچور، چیلا بابو، دھرم کانٹا، ففٹی ففٹی، نیا قدم، ماسٹرجی اور نصیحت شامل ہیں اور یہ سب فلمیں باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئیں۔ دیگر فلمیں جن کو انھوں نے لکھا اور یا لکھنے میں مدد کی اور ان میں جیتیندر نے اداکاری کی، ان میں ہمت والا، جانی دوست، سرفروش، جسٹس چودھری، فرض اور قانون، جیو اور جینے دو، تحفہ، قیدی اور حیثیت شامل تھیں۔ بطور منظر نویس انھوں نے منموہن ڈیسائی اور پرکاش مہرا کے لئے ان فلموں میں کام کیا جن میں امیتابھ بچن نے مرکزی کردار ادا کیا ہے اور امیتابھ بچن کے علاوہ خان ہی ایسے انسان تھے جنہوں نے منموہن کے حریف کیمپ میں بھی ساتھ ساتھ کام کیا۔ ڈیسائی کے ساتھ انھوں نے دھرم ویر، گنگا جمنا سرسوتی، قلی، دیش پریمی، سہاگ، پرورش اور امر اکبر انتھونی جبکہ پرکاش مہرا کے ساتھ جوالامکھی، شرابی، لاوارث اور مقدر کا سکندر کے لئے کام کیا۔ امیتابھ بچن کی دیگر فلمیں جن کو قادر کے قلم نے الفاظ کا جادو بخشا وہ مسٹر نٹورلال، خون پسینہ، دو اور دو پانچ، ستے پہ ستا، انقلاب، گرفتار، ہم اور اگنی پت ہیں۔

راجیش کھنہ، جتیندر، فیروز خان، امیتابھ بچن، انیل کپور، شکتی کپور، جونی لیور اور گووندا جیسے بڑے اداکاروں کے ساتھ ان کی جوڑی بے مثال رہی۔ اس کے علاوہ انہوں نے دلیپ کمار، امریش پوری، پریم چوپڑہ، انوپم کھیراور پریش راول کے ساتھ کئی فلموں میں اداکاری کی۔ متنوع صلاحیتوں سے مالا مال اداکار نے فلموں میں مختلف نوعیت کے کردار ادا کئے، جن میں کہیں وہ باپ، چچا، بھائی بنے تو کبھی انہیں منفی و مزاحیہ کردار نبھانے پڑے۔ 3 سو سے زائد اردو و ہندی فلموں میں اداکاری کا جوہر دکھانے والے خان کے فلمی سفر کا آغاز فلم داغ سے ہوا، جس میں راجیش کھنہ مرکزی کردار میں تھے۔ اس فلم میں انہوں نے ایک وکیل کا کردار ادا کیا۔

جسے نہ صرف شائقین بلکہ ناقدین کی طرف سے بھی بے حد پسند کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے دل والا، گونج، عمر قید، مکتی، چور سپاہی، مقدر کا سکندر اور مسٹر نٹور لال وغیرہ میں کچھ چھوٹے کردار بھی کئے، مگر ان کو زیادہ شہرت ان فلموں سے ملی جس میں راجیش کھنہ مرکزی کردار میں تھے، جیسے مہا چور، چھیلا بابو، ففٹی ففٹی، مقصد، نیا قدم اور نصیحت وغیرہ۔ قادر خان نے فلم پرورش، دھن دولت، لوٹ مار، قربانی، بلندی، میری آواز سنو، صنم تیری قسم، نصیب اور نوکر بیوی جیسی فلموں (1976ء تا 1982ء) میں بطور ولن اداکاری کی۔

1988ء میں کچھ ایسی فلمیں لکھی گئیں، جن میں قادر خان مرکزی کردار میں تھے، جیسے جیسی کرنی ویسی بھرنی، بیوی ہو تو ایسی، گھر ہو تو ایسا، ہم ہیں کمال کے، باپ نمبری بیٹا دس نمبری وغیرہ۔ بطور مزاحیہ اداکار انہوں نے ہمت والا اور آج کا دور سے فلمی سفر کا آغاز کیا، جس کے بعد انھوں نے مزاحیہ فلموں میں بڑے کردار نبھائے، ان فلموں میں سکہ، کشن کنہیا، ہم، گھر پریوار، بول رادھا بول، اور پھر نوے کی دہائی میں آنکھیں، تقدیروالا، میں کھلاڑی تو اناڑی، دولہے راجہ، قلی نمبر 1، ساجن چلے سسرال، سوریہ ونشم، جدائی، آنٹی نمبر 1، گھروالی باہر والی، ہیرو ہندوستانی، صرف تم، اناڑی نمبر ون وغیرہ شامل ہیں۔

2000ء کے عشرے میں بھی انھوں نے متعدد فلموں میں کام کیا، جن میں انکھیوں سے گولی مارے، چلو عشق لڑائیں، سنو سسرجی، یہ ہے جلوہ، اور مجھ سے شادی کروگی شامل ہیں۔ 2001ء میں انھوں نے اپنا خود کا ایک مزاحیہ ٹی وی سلسلہ شروع کیا جس کا نام ’’ہنسنا مت‘‘ تھا۔ ہندی فلم و سینما کے لئے بہترین خدمات سرانجام دینے والے ہر دلعزیز فنکار کو 2013ء میں ساہتیہ شیرومنی اعزاز سے نوازا گیا۔ اسی طرح ایفمی (امریکن فیڈریشن آف مسلم فرام انڈیا) نے بھارت میں مسلمانوں کے حق میں کام کرنے کے لئے ان کو عزت بخشی۔ بہترین ڈائیلاگ پر قادر خان کو تین بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ 9 بار بہترین کامیڈین کے لئے نامزد کیا گیا۔

بلاشبہ شوبز انڈسٹری یہاں کام کرنے والوں کے لئے ایک گھر یا خاندان کا درجہ رکھتی ہے، لیکن مفاد پرستی، چڑھتے سورج کو سلام اور رشتوں سے بے اعتنائی جیسے محرکات نے اس گھر کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ اس نگری میںکسی بھی وجہ سے رک جانے یا پیچھے رہ جانے والوں کی طرف کوئی جلد مڑ کر بھی نہیں دیکھتا، ایسا ہی کچھ عظیم فنکار قادر خان کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ اپنی فیملی اور بیماری کے باعث بالی وڈ سے دور کینیڈا منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزارا، لیکن اس دوران بالی وڈ سے منسلک ایسے فنکاروں نے بھی قادر خان کی خبر گیری نہ کی، جو ان کی وجہ سے سپر سٹار بنے۔

قادر خان کے بیٹے سرفراز اس بے حسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بالی وڈ کے فنکاروں پر برس پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’خود کو میرے والد کا بیٹا کہنے والے گووندا نے آج تک انہیں بیماری کے باوجود ایک فون تک نہیں کیا۔‘‘ عظیم اداکار بالی وڈ کی بنیادوں میں سے ایک تھے، انہوں نے ہندی فلم انڈسٹری کو اس کے اعلی مقام تک پہنچایا لیکن ایسی شخصیت کا اپنے وطن سے ہزاروں میل دور دوسرے ملک میں انتقال قابل غور امر ہے۔‘‘ اسی طرح شکتی کپور وہ اداکار ہیں، جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی قادر خان کے ساتھ جوڑی بالی وڈ میں سب سے زیادہ ایک ساتھ کام کرنے والی جوڑیوں میں سب سے اوپر ہے۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا نصف حصہ قادر خان کے ساتھ گزارا، اس جوڑی نے ایک سو سے زائد فلموں میں اکٹھے کام کیا۔

عظیم فنکار کے تنہائی کا شکار ہونے اور بیرون ملک انتقال پر شکتی کپور بھی پھٹ پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آج وہ لوگ کیسے قادر خان کے مرنے کا سوگ منا سکتے ہیں، جنہوں نے بھارت سے جانے کے بعد ان کی کوئی خبر ہی نہیں لی۔ قادر خان گزشتہ ایک عشرے سے فلم انڈسٹری سے دور اور مشکلات سے دوچار تھے، لیکن اس دوران کسی نے ان کا حال نہیں پوچھا، انہیں کیوں اتنا تنہا کر دیا گیا؟‘‘

دینی و علمی پہلو
اداکار، ہدایت کار اور لکھاری کے علاوہ مرحوم قادر خان کے دینی و علمی پہلو کی اگر بات کی جائے تو یہاں بھی وہ اس اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے کہ شوبز کی چکا چوند میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود وہ ایک علم دوست مذہبی شخصیت تھے۔ اقبالؒ، منٹو، غالب اور مشتاق احمد یوسفی جیسے عظیم لوگوں کو انہوں نے نہ صرف پڑھا بلکہ عملی زندگی کا حصہ بھی بنایا۔

وہ نہ صرف اردو، ہندی، انگریز بلکہ پشتو زبان کے علاوہ کافی حد تک فارسی اور عربی زبان بھی جانتے تھے۔ 2000ء کے اوائل میں وہ اردو، ہندی اور عربی زبان سیکھنے کے لئے ایک اکیڈمی بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ زبان و بیاں کے حوالے سے وہ بہت حساس تھے، اس لئے وہ آخری وقت تک ہندی فلموں پر اس حوالے سے تنقید کرتے رہے کہ آج کے آرٹسٹ زبان و بیان کے بجائے صرف ظاہری چمک دمک پر توجہ دیتے ہیں۔ مرحوم نے قرآن پاک کی ہر قدیم و جدید تفسیر پڑھ رکھی تھی، انہوں نے تجوید، ناظرہ اور تفسیر کے مدرسے بنائے اور ایک اسلامی سنٹر بھی قائم کیا۔ انہوں نے بھارت اور امارات میں قرآن پاک کے 15 زبانوں میں تراجم اور تفسیری حاشیوں پر کام بھی کیا۔

’’وہ عظیم فنکار، استاد، سکالر اور باپ جیسے تھے‘‘ سیاسی و فلمی شخصیات کا خراج تحسین
قادر خان وہ ہر دل عزیز شخصیت تھے، جن کے انتقال پر صرف ان کے مداح ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ’’سینئر اداکار اور اسکرپٹ رائٹر قادر خان کی موت کے بارے میں سن کر گہرا دکھ ہوا، ان کی ہمہ جہت صلاحیت، مزاحیہ اور منفی کرداروں کے علاوہ ایک لکھاری کے طور پر ان کی کئی فلمیں آج بھی یاد کی جاتی ہیں۔‘‘ دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹوئٹ کیا کہ ’’قادر خان جی نے اپنی بے مثال اداکارانہ صلاحیت سے سنیما کو مالامال کیا۔‘‘

عظیم اداکار امیتابھ بچن نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ’’قادر خان کے انتقال کی خبر انتہائی تکلیف دہ اور مایوس کن ہے۔‘‘ انوپم کھیر کے مطابق قادر خان کو ایک عمدہ فنکار کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔‘‘ رشی کپور نے کہا کہ ’’بہت لمبا رشتہ تھا آپ کا ہم سب کپور کے ساتھ، بہت کام کیا، بہت سیکھا آپ سے، آپ کو جنت نصیب ہو۔‘‘ روینہ ٹنڈن نے کہا کہ ’’وہ نہ صرف ایک بہترین فنکار بلکہ بہت بڑے سکالر بھی تھے اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں ایسا امتزاج ملنا نہایت مشکل ہے۔‘‘ معروف فنکار گووندا کا کہنا ہے کہ ’’مرحوم قادر خان صرف میرے استاد ہی نہیں بلکہ باپ جیسے تھے، وہ ایسی شخصیت تھے کہ جس نے بھی ان کے ساتھ کام کیا، وہ سپر سٹار بن گیا۔‘‘

The post قادر خان بھی فلم نگری کی روایتی بے حسی سے نہ بچ پائے appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>