Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

وہ جو ہم سے بچھڑ گئے

$
0
0

اسٹیفن ہاکنگ Stephen Hawking (سائنسدان) ’’اسٹیفن ہاکنگ‘‘ بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی کے معروف ماہر طبیعیات تھے۔ انھیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔

وہ 8 جنوری1942 کو آکسفورڈ برطانیہ میں پیدا ہوئے۔وہ ایک ایسے سائنس داں تھے جولوگوں کو کائنات کی نہ صرف سیر کرواتے تھے بلکہ ایسی معلومات فراہم کرتے تھے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ ان کا زیادہ تر کام بلیک ہول، نظریاتی کونیات کے میدان میں ہے۔ ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھے۔ ظاہری طور پر انتہائی ذہین ہونے کے باوجود بھی اْن کے اساتذہ کو یہ شکایت رہتی تھی کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ لیکن پھر 1962ء میں ایک انقلاب آیا، جب انھوں نے آکسفورڈ سے سند حاصل کی۔

1966ء میں جب وہ 21 برس کے تھے تو پہلی دفعہ انھوں نے ایک پیچیدہ دماغی بیماری کی علامات کو محسوس کیا۔۔ یہ بیماری ’’موٹر نیوران‘‘ کہلاتی ہے ،جس میں انسان کا جسم آہستہ آہستہ مفلوج اور معذور ہو جاتا ہے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ اس ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو اس خبر نے ان پر بجلی گرا دی ۔ اس بیماری نے اْنھیں رفتہ رفتہ مفلوج و معذور بنا کر جسمانی طور پر وہیل چیئر تک محدود کر دیا۔ تاہم بیماری کے اس جھٹکے کے بعد انھوں نے باقی ماندہ زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے کمر ہمت کس لی اور پھر زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی توجہ کو ایک جگہ مرتکز کیا۔

ہاکنگ نے جس مشکل ترین کام کا انتخاب کیا وہ آئن سٹائن کے پیچیدہ ترین نظریہ اضافت پر غور کرناتھا۔ اْنھوں نے بیماری کی حالت میں ایک بڑے کام کو چْنا۔اس کام نے جہاں اْنھیں موت کے خوف سے کسی حد تک دْور رکھا وہیں دوسری طرف اس کام میں بنی نوع انسان کی بھلائی کے پہلوبھی سامنے آئے۔  1970ء کی دہائی کے شروع میں ہی انھوں نے اپنے امتیازی مقالوں کے سلسلے کو شائع کروانا شروع کیا جس میں انھوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آئن سٹائن کے نظریہ میں “وحدانیت ” اضافیت کا ایک ناگزیر حصّہ ہے اور اس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

1974ء میں ہاکنگ نے اس بات کو بھی ثابت کر دیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں، وہ بتدریج شعاعوں کا اخراج کر رہے ہیں جس کو اب ہاکنگ کی اشعاع کہتے ہیں کیونکہ اشعاع بلیک ہول کے ثقلی میدان سے بھی گزر کر نکل سکتی ہیں۔ اس مقالے نے پہلی دفعہ کوانٹم نظریہ کے عملی اظہار کو نظریہ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا اور یہ ابھی تک ان کا سب سے شاندار کام ہے۔ ان کی بیماری کے اثر کی شرح اس سے کہیں سست رفتار تھی جتنی کہ ڈاکٹروں کو شروع میں امید تھی۔ نتیجتاً انھوں نے عام لوگ کی طرح زندگی کے دوسرے کام بھی کیے، مثلاًشادی اور وہ تین بچوں کے باپ بن گئے۔اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد انھوں نے چار سال بعد دوسری شادی کر لی۔ لیکن اپنی اس بیوی کو بھی انھوں نے 2006ء میں طلاق دینے کے لیے دستاویز جمع کروا دیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مکمل طور پر اپنی ویل چیئر پر مفلوج ہو گئے تھے اور دنیا سے ان کا رابطہ محض آنکھوں کے اشاروں سے رہتا۔ اس مار دینے والی بیماری کے باوجود وہ مقالات لکھتے اور لیکچروں دیتے۔1990ء میں ہاکنگ نے جب اپنے رفقائے کاروں کے مقالات کا مطالعہ کیا جس میں ٹائم مشین کو بنانے کا ذکر تھا توان کے وجدان نے اس کو بتایا کہ وقت میں سفر کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے وقت کے سفر سے روکنے کے لیے قوانین طبیعیات کی طرف سے ایک “نظریہ تحفظ تقویم” پیش کیا ہے تاکہ “تاریخ کو مورخوں کی دخل اندازی سے بچایا جا سکے “۔

ان کی ایک کتاب وقت کی مختصر تاریخ یعنی  (A Brief History of Time)ایک شہرئہ آفاق کتاب ہے جسے انقلابی حیثیت حاصل ہے۔ یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی ایک نہایت اعلیٰ پائے کی کتاب ہے جس سے ایک عام قاری اور اعلیٰ ترین محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کتاب نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیاتھا۔ لیکن وہ دماغی طور پر صحت مند رہے اور بلند حوصلگی کی وجہ سے اپنا کام جاری رکھا۔ وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اسے صفحے پر منتقل کرنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کرتے تھے۔

کیمبرج کے کمپیوٹر سائنسدانوں نے ہاکنگ کیلئے یہ ’’ٹاکنگ‘‘ کمپیوٹر بنایا تھا۔ کمپیوٹر اْس کی وہیل چیئر پر لگا دیا گیا تھا۔ جو اْس کی پلکوں کی زبان کوسمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ پلکیں ایک خاص زاویے میں ہلتی تھیں۔ اورلفظوں کی شکل اختیار کرتے تھے۔ وہ لفظ کمپیوٹر کی اسکرین پر ٹائپ ہوجاتے تھے اور بعدمیں ا سپیکر کے ذریعے سنے اور سنائے جانے لگتے تھے۔ سٹیفن ہاکنگ نے آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائٹی میں ایک لیکچر کے دوران انکشاف کیا تھا کہ دْنیا میں انسانوں کے محض ایک ہزار سال باقی رہ گئے ہیں۔جس کے بعد کرہء ارض سے نسل انسانی ختم ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانوں کو اپنی بقا کیلئے کسی دوسرے سیارے پر نقل مکانی کرنا ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ہم نے اپنے سیارے کو موسمیاتی تبدیلیوں، بڑھتے درجہ حرارت، قطبی برفانی خطوں میں کمی، جنگلات اور جانوروں کے خاتمے جیسے تباہ کن تحائف دیئے ہیں اور ہم تیزی سے اپنے انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اسٹیفن نے90ء کی دہائی میں ایک نیا کام شروع کیا تھا کہ مایوس اور نااْمید لوگوں کو زندگی کی خوبصورتیوں کے بارے میں لیکچر دے کر اْن کے عزم اور حوصلے کو بڑھاتا رہا۔وہ انہیں اپنی معذوری کی مثال دے کر عزم اور حوصلے کو مستحکم بنانے کیلئے کہتے تھے۔ یہ عظیم ماہر فلکیات، طبعیات دان اور ریاضی دان 14مارچ 2018ء بروز بدھ 76 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

جون پاؤل سٹیور (Jon Paul Steuer):’’جون‘‘ ایک امریکی اداکار و موسیقار تھے۔ وہ 27 مارچ 1984ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی شہرت کا آغاز مشہور زمانہ انگریزی فلم ’’سٹار ٹریک‘‘ (Star Trek) میں ’’الیگزینڈر روزہنکو‘‘ (Alexander Rozhenko) کا کردار ادا کرنے سے ہوا۔ ان کا انتقال 1 جنوری 2018ء کو 34 برس کی عمر میں ہوا۔

علی اکبر معین فر:’’معین فر‘‘ مئی 1928ء میں تہران میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ایرانی سیاست دان تھے۔ انقلاب ایران کے بعد بننے والی پہلی حکومت میں انہوں نے وزیر تیل کا قلمدان سنبھالا۔ بعدازاں وہ 1980-84ء ایران کی پارلیمنٹ رکن بھی رہے۔ ان کا انتقال 2 جنوری 2018ء کو ہوا۔

زبیدہ طارق ( زبیدہ آپا):4 اپریل 1945ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہونے والی زبیدہ طارق، جو عرف عام میں زبیدہ آپا کہلاتی تھیں، ایک ماہر پکوان تھیں اور انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی کھانے پکانے کی ماہر تھیں جو شہرت کی بلندیوں پہ پہنچی۔ ان کے گھریلو ٹوٹکے بھی بے انتہا مقبول ہوئے۔ وہ اپنی اسی مقبولیت کی وجہ سے متعدد ٹی وی چینلز کے کھانا پکانے کے پروگراموں میں ہر دلعزیز میزبان کے طور پر شریک ہوتی رہیں۔ قیام پاکستان پر وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر آئیں تھیں اور کراچی میں رہائش پذیر ہوئیں۔ ان کی 5 بہنیں اور 4 بھائی تھے۔ جو تمام کے تمام بعدازاں فنون لطیفہ کی مختلف شاخوں میں نامور ہوئے۔ 1966ء میں ان کی شادی اپنے کزن طارق مقصود سے ہوئی۔ ان کے دو بچے ہیں۔

ابتدائی طور پر جب ان کے شوہر اپنے گھر پر تقریبات کا انعقاد کرتے تو ان میں زبیدہ آپا کے پکائے ہوئے کھانے مہمانوں کو اتنے پسند آتے کہ ایسی ہی ایک تقریب میں شامل ایک مہمان جو ایک مشہور گھی اور کوکنگ آئل بنانے والی کمپنی کی فوڈ ایڈوائزری سروس سے تعلق رکھتے تھے، نے ان کی اس صلاحیت سے متاثر ہوکر انہیں اپنی کمپنی میں ملازمت کی پیشکش کی۔ اس کے بعد 1990ء کی دہائی میں زبیدہ آپا شہرت کی سیڑھیاں چڑھتی چلی گئیں۔ ان کا انتقال 4 جنوری 2018ء کو ہوا۔

منتظر بابا:منظر بابا پشتو زبان کے ہر دلعزیز شاعر تھے جو 1950ء میں پیدا ہوئے اور 5جنوری 2018ء کو ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئے۔

جون ینگ (John Young):جون ینگ امریکی خلا نورد تھے جو 24 ستمبر 1930ء کو کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 1972ء میں خلائی جہاز اپالو 16 کے کمانڈر کی حیثیت سے چاند پر چہل قدمی کرنے والے 9 ویں شخص تھے۔ اس کے علاوہ یہ اعزاز بھی انھیں حاصل ہے کہ وہ خلا نورد کے طور پر سب سے طویل عرصہ تک خدمات سرانجام دیتے رہے اور اپنے کیریئر میں 6 مرتبہ خلائی مشنز پر گئے۔ وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے بطور پائلٹ اور کمانڈر 4 مختلف طرح کے خلائی جہاز اڑائے۔ ان کی وفات 5 جنوری 2018ء کو ہوئی۔

اصغر خان (سیاستدان):ایئرمارشل (ر) اصغر خان 17 جنوری 1921ء کو جموں کشمیر میں پیدا ہوئے۔ ایک فوجی خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھی فوج میں شمولیت اختیار کی اور 1941میں رائل انڈین ایئرفورس میں خدمات سرانجام دینا شروع کیں۔ دوسری جنگ عظیم میں انہوں نے ایشیاء کے محاذ پر ایئرفورس کے کمانڈنگ آفیسر کے طور پر لڑائی میں حصہ لیا۔ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر انہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا اور 1959ء میں محض 36 سال کی عمر میں پاکستان ایئرفورس کے سربراہ کا منصب سنبھال لیا۔

وہ اس وقت کے کم عمر ترین ایئرفورس سربراہ تھے۔وہ PIA کے سربراہ بھی رہے اور اس قومی ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی جماعت تحریک استقلال کی بنیاد رکھی۔ 1970ء سے 1990ء کی دہائی تک ان کا پاکستان کی قومی سیاست میں کلیدی کردار رہا۔ اسی دوران انہوں نے پاکستانی سیاست کے حوالے سے متعدد کتابیں بھی تصنیف کیں۔ سیاستدانوں کی کرپشن کے حوالے سے ان کا سپریم کورٹ میں دائر کردہ مقدمہ اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ بعدازاں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کو پاکستان تحریک انصاف میں ضم کردیا۔ ان کے چار بچے تھے، دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ ان کا انتقال 97 برس کی عمر میں 5جنوری 2018ء کو ہوا۔ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔

رسا چغتائی (شاعر)1928ء میں پیدا ہونے والے مرزا محتشم علی بیگ، رسا چغتائی کے تخلص سے پاکستان کے شعری افق پر نمودار ہوئے اور بام عروج کو پہنچے۔ وہ اپنے شعری مجموعوں ’’زنجیر ہمسائیگی‘‘ اور ’’تیرے آنے کا انتظار رہا‘‘ کی صورت ادبی اور شعری ذوق رکھنے والوں کے دلوں میں تادیر زندہ رہیں گے۔ ان کا انتقال 5 جنوری 2018ء کو ہوا۔

اشفاق احمد(سائنسدان):ڈاکٹر اشفاق احمد پاکستانی ایٹمی سائنسدان تھے۔ وہ 3نومبر 1930ء کو گرداسپور میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی سائنسدانوں میں شامل تھے۔ اپنے میدان میں انہوں نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ وہ 18 جنوری 2018ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

قاضی واجد (اداکار):قاضی واجد 26 مئی 1930ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 1965ء میں ریڈیو پاکستان کے بچوں کے پروگرام سے کیا۔ 25 برس تک وہ ریڈیو سے وابستہ رہے۔ 1967ء میں انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی ڈراموں میں کام کرنا شروع کردیا۔ ان کا فنی سفر 47 سالوں پر محیط تھا۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ سٹیج اور فلموں میں بھی کام کیا۔ وہ ایک ورسٹائل فنکار تھے۔ انہیں ٹی وی ڈرامہ ’’خدا کی بستی‘‘ سے بے پناہ شہرت ملی۔ انہوں نے متعدد ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ 1988ء میں انہیں ڈرامہ ’’ہوا کی بیٹی‘‘ میں بہترین پرفارمنس پر ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ بھی ملا۔ ان کے مشہور ڈراموں میں خدا کی بستی، ہوا کی بیٹی، دھوپ کنارے اور تنہائیاں وغیرہ شامل ہیں۔ وہ 11 فروری 2018ء کو کراچی میں 87 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

عاصمہ جہانگیر (وکیل رہنماو سماجی کارکن)عاصمہ جہانگیر 27 جنوری 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ وہ انسانی حقوق کی علمبردار وکیل اور ایک مشہور سماجی کارکن تھیں۔ انہوں نے وکلاء تحریک میں بھی سرگرم حصہ لیا۔ 1980ء کی دہائی میں مارشل لاء کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کردہ مقدمے کی وجہ سے انہوں نے بہت شہرت پائی۔ عاصمہ جیلانی کیس کے  نام سے مشہور یہ مقدمہ بعد میں بھی مختلف مقدمات میں نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ 1983ء میں مارشل لاء کے خلاف چلنے والی تحریک ’’ایم آر ڈی‘‘ (MRD) میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ 1986ء میں وہ جنیوا چلی  گئیں اور وہاں دو سال تک بچوں کے حقوق کی تنظیم ’’ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل‘‘ کی وائس چیئرپرسن رہیں۔

وطن واپسی کے بعد 1987ء میں وہ انسانی حقوق کی تنظیم کی شریک بانی کے طور پر ’’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ کی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئیں اور 1993ء میں اس کی چیئرپرسن منتخب ہوگئیں۔ نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کے موقع پر انہیں ایک بار پھر گھر میں نظر بند کردیا گیا کیونکہ وہ وکلاء کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں۔ بعدازاں انہیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کی پہلی خاتون صدر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ وہ انسانی حقوق اور وکلاء کی متعدد بین الاقومی تنظیموں اور اداروں اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی نمائندہ اور شریک سربراہ رہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی ملکی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا، جن میں ہلال امتیاز اور ستارۂ امتیاز وغیرہ کے علاوہ نشان امتیاز بھی شامل ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی تھیں۔ ان کا انتقال 11 فروری 2018ء کو ہوا۔

سری دیوی:13 اگست 1963ء کو پیدا ہونے والی سری دیوی ہندوستان کی فلمی دنیا کی صف اول کی ہیروئن رہیں۔ ان کی بہت ساری فلمیں 1980-90 کی دہائیوں میں شہرت کے ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ ان کو کئی ایواڈز ملے جن میں ہندوستان کا چوتھا بڑا سول ایوارڈ ’’پدما شری‘‘ بھی شامل ہے۔ ان پر پکچرائز ہونے والے گانے آج بھی مشہور ہیں۔ 24 فروری 2018ء کو ان کا انتقال ہوا۔

محمد عاشق (سائیکلسٹ):17 مارچ 1935ء کو پیدا ہونے والے محمد عاشق ایک سائکلسٹ تھے جنہوں نے 1960ء اور 1964ء کے سمر اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے اپنا کیریئر ایک باکسر کے طور پر شروع کیا تھا۔ ایک مقابلے میں جب انہیں کافی چوٹیں آئیں تو انہوں نے باکسنگ کو خیرباد کہہ کر سائیکلنگ شروع کردی۔ ان کی وفات 11 مارچ 2018ء کو ہوئی۔

ونی منڈیلا (Winnie Mandela):ولی منڈیلا، جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر نیلسن منڈیلا کی اہلیہ تھیں۔ وہ 26 ستمبر 1936ء کو پیدا ہوئیں۔ ان کی 38 سالہ ازدواجی زندگی میں سے 27 سال ان کے شوہر نیلسن منڈیلا جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رہے۔ ونی نے یہ تمام عرصہ بہت ہمت و حوصلے سے گزارا اور اپنے شوہر کے مشن کو آگے بڑھانے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ ان کی وفات 2 اپریل 2018ء کو ہوئی۔

بار برا بش:8 جون 1925ء کو پیدا ہونے والی بابر برابش، امریکہ کے 41 ویں صدر جارج بش سینٹر کی اہلیہ اور امریکہ کی سابق خاتون اول تھیں۔ ان کے بیٹے بش جونیئر بعد میں دو مرتبہ امریکہ کے صدر رہے۔ ان کی ازدواجی زندگی 73 برس پر محیط تھی جو کسی بھی امریکی صدر اور ان کی اہلیہ کے مقابلے میں طویل ترین ہے۔ ان کا ایک اور بیٹا ’’جیب بش‘‘ امریکی ریاست ’’فلوریڈا‘‘ کا گورنر بھی رہا۔ 17 اپریل 2018ء کو ان کا انتقال 92 برس کی عمر میں ہوا۔

مدیحہ گوہر (اداکارہ):مدیحہ گوہر 21 ستمبر 1956ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نویس، سماجی تھیٹر کی ڈائریکٹر اور سماجی کارکن بھی تھیں۔ 1983ء میں انہوں نے ’’اجوکا تھیٹر‘‘ کے نام سے معاشرتی اور سماجی ڈراموں کو سٹیج کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کا تھیٹر گلیوں، محلوں اور دیگر عوامی مقامات پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا۔ پاکستان کے علاوہ انہوں نے ’’اجوکا تھیٹر‘‘ کے زیر اہتمام یورپ اور ایشیاء کے دیگر ممالک میں بھی ڈرامے سٹیج کیے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ انہوں نے انگریزی ادب کے علاوہ یونیورسٹی آف لندن سے تھیٹر سائنسز میں بھی ماسٹرز کیا۔ وطن واپسی پر وہ لاہور میں سکونت پذیر ہوگئیں۔ انہوں نے اپنے تھیٹر ڈراموں کے ذریعے ناصرف مختلف سماجی اور معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کی بلکہ تھیٹر کی کلاسک روایات کو بھی زندہ کیا۔ انہیں اپنے کام کے سلسلے میں بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ ان کا انتقال 25 اپریل 2018ء کو لاہور میں 61 برس کی عمر میں ہوا۔

جمشید مارکر (سفارتکار):سابق سفارتکار جمشید مارکر حیدر آباد دکن میں 24 نومبر 1922ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک پارسی گھرانے سے تھا اور ان کے والد ادویات کا کاروبار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم ہندوستان اور پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پائی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انہوں نے رائل انڈین نیوی میں بطور ایک رضاکار خدمات سرانجام دیں۔ بعدازاں وہ اپنے ایک اور خاندانی کاروبار یعنی جہاز رانی سے بھی کچھ عرصے تک منسلک رہے۔ 1950ء کی دہائی میں وہ ریڈیو پر کرکٹ میچوں کی کمنٹری بھی کرتے رہے اور خاصی شہرت حاصل کی۔

اپریل 1965ء میں انہوں نے اپنے شاندار سفارتی کیریئر کا آغاز کیا اور انہیں گھانا میں پاکستان کا ہائی کمشنر لگایا گیا۔ بعد میں وہ ایک درجن کے قریب اہم ترین ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے۔ ان کا سفارتی کیریئر لگ بھگ 3 دہائیوں پر مشتمل ہے۔ 1986ء میں انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا گیا جہاں انہوں نے ملک و قوم کی ترجمانی اور نمائندگی کا حق ادا کردیا۔ انہیں متعدد اعزازات جیسے ہلال امتیازودیگر سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی حکومتوں میں وہ کئی سربراہوں اور وزراء اعظم کے اعتماد کے حامل رہے اور اپنی سفارتی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ ان کا انتقال 95 برس کی عمر میں 21 جون 2018ء کو کراچی میں ہوا۔

(1 جون مککین John Mccain (امریکی سینیٹر): ’جون مککین‘ ایک انسان دوست شخص تھے۔ ان کی شخصیت کا امریکہ کی سیاست پر گہرا اثر پڑا۔ وہ 29 اگست 1936ء کو پیدا ہوئے۔ وہ نیوی میں خدمات سرانجام دینے کے بعد 1982ء میں پارلیمنٹ کے ممبر اور 1986ء میں سینیٹر بنے۔ 2000ء کے عشرے میں وہ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے دو بار امریکہ کے صدارتی امیدوار نامزد کیے گئے۔ ان کا انتقال 25 اگست 2018ء کو ہوا۔

بیگم کلثوم نواز (سابق خاتون اول):سابق وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز 29 مارچ 1950ء کو لاہور میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز اور بعدازاں فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ وہ برصغیر و ہند کے مشہور پہلوان رستم زماں گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔ اپریل 1971ء میں نواز شریف کے ساتھ ان کی شادی ہوئی۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ 1990-93ء، 1997-99ء، 2013-17ء میں 3 مرتبہ پاکستان کی خاتون اول بنیں۔1999ء میں مارشل لاء لگنے کے بعد جب نواز شریف قید میں تھے تو بیگم کلثوم نواز نے مسلم لیگ (ن) کی صدارت سنبھالی اور احتجاجی تحریک کی قیادت کی۔ وہ 2017ء کے ضمنی انتخابات میں لاہور سے قومی اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہوئیں تاہم اپنی بیماری کے سبب رکنیت کا حلف نہ اٹھاسکیں۔ 11 ستمبر 2018ء کو وہ اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔

سٹین لی Stan Lee (مصنف):28 دسمبر 1922ء کو پیدا ہونے والے ’’سٹین لی‘‘ ایک لکھاری اور پبلشر تھے۔ ان کا سب سے مشہور کام ’’سپارئڈمین‘‘ (Spider Man) کے کردار کی تخلیق تھی۔ اس کے علاوہ معروف فلمی کرداروں ’’فنٹاسٹک فور‘‘ (Fantastic Four) کے خالق بھی وہی تھے، جنہوں نے بہت شہرت سمیٹی۔ ان کے والد روم سے امریکہ ہجرت کرکے آئے تھے اور زیادہ تر بے روزگار رہے۔ ’’سٹین لی‘‘ نے اپنی ابتدائی زندگی میں بے انتہا غربت دیکھی اور اپنا کیریئر بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ ان کی وفات 12 نومبر 2018ء کو ہوئی۔

فہمیدہ ریاض (شاعرہ):فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1946ء کو ہندوستان کے شہر میرٹھ میں ایک انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ریاض الدین احمد ایک ممتاز ماہر تعلیم تھے جنہوں نے صوبہ سندھ میں جدید نظام تعلیم کے خدوخال بنانے اور اسے ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ فہمیدہ ریاض کو اردو اور سندھی کے علاوہ فارسی زبان پر بھی دسترس حاصل تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے بطور نیوز کاسٹر وابستہ ہوگئیں۔ وہ شادی کے بعد کچھ عرصہ انگلستان میں بھی رہیں جہاں انہیں بی بی سی اردو ریڈیو میں کام کرنے کا موقع ملا۔ نیز انگلستان سے ہی انہوں نے فلم بندی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ان کی پہلی شادی سے ایک بیٹی جبکہ دوسری شادی سے دو بچے ہیں۔

جنرل ضیاء کے دور میں ان کے میگزین ’’آواز‘‘ میں شائع ہونے والے جمہوریت اور لبرل ازم پر مبنی مضامین کی وجہ سے انہیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں نامساعد حالات کی وجہ سے وہ بھارت چلی گئیں اور وہاں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ 7 سالہ جلاوطنی کے بعد وہ بے نظیر بھٹو کی پہلی وزارت عظمی کے دور میں وطن واپس آئیں۔ وہ ایک ترقی پسند شاعرہ اور ادیبہ، سماجی کارکن، انسانی اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کی علمبردار تھیں۔ انہوں نے پہلی بار مثنوی مولانا روم کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ وہ شاعری اور فکشن کی15 کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ 13 برس کی عمر میں ان کی پہلی نظم احمد ندیم قاسمی کے مشہور جریدے ’’فنون‘‘ میں شائع ہوئی جو ایک بڑا اعزاز تھا۔ 22 برس کی عمر میں ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ منظر عام پر آیا۔ انہیں ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ سمیت بہت سے ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ان کا انتقال 21 نومبر 2018ء کو 72 برس کی عمر میں ہوا۔

الطاف فاطمہ (ادیبہ):پاکستان کی نامور ناول نگار، افسانہ نگار، مترجم اور معلمہ الطاف فاطمہ 1929ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور آگئیں۔ یہاں پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسلامیہ کالج برائے خواتین لاہور میں اردو کی استاد مقرر ہوئیں اور اسی کالج سے شعبۂ اردو کی سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ ان کا پہلا افسانہ 1962ء میں لاہور کے مؤقر ادبی جریدے ’’ادب لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔ بعدازاں ان کے افسانے ملک کے دیگر معروف جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ ان کی شخصیت پر لکھنؤ کی تہذیبی روایات کا گہرا اثر تھا۔ ان کے افسانوں اور ناولوں سمیت دوسری تصنیفات و تراجم کی تعداد تقریباً 10 ہے۔ الطاف فاطمہ نے ہمیشہ فن کی گہرائی میں ڈوب کر لکھا۔ سقوط ڈھاکہ پر ان کا ناول ’’چلتا مسافر‘‘ دس برس میں مکمل ہوا۔ ان کے ایک اور ناول ’’دستک نہ دو‘‘ پر مبنی پاکستان ٹیلی ویژن کی ڈرامہ سیریز اتنی مقبول ہوئی کہ اس کے نشر ہونے کے دوران سڑکیں سنسان ہوجاتیں اور لوگ ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے جم کر بیٹھ جاتے۔ الطاف فاطمہ 29 نومبر 2018ء کو ہم سے بچھڑ گئیں۔

جارج بش سینئر (سابق امریکی صدر):امریکہ کے 41 ویں صدر جارج ڈبلیو بش سینئر 12 جون 1924ء کو پیدا ہوئے اور 30 نومبر 2018ء کو انتقال کرگئے ۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں نیوی میں پائلٹ، کانگریس کے رکن، CIA کے ڈائریکٹر، چین میں امریکہ کے سفیر اور دوبار امریکہ کے نائب صدر رہے۔ وہ 1989ء سے 1993ء تک امریکہ کے صدر کے طور پر کام کرنے رہے۔ ان ہی کے دور میں سرد جنگ کا خاتمہ ہوا۔ بعد میں ان کے بیٹے جارج بش جونیئر بھی امریکہ کے دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔

علی اعجاز (اداکار):پاکستانی فلم اور ٹی وی کے معروف اداکار علی اعجاز  18دسمبر 2018ء کو لاہور میں 77 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ وہ 1941 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا۔1964 میں لاہور سے ٹی وی کا آغاز ہوا تو اطہر شاہ خان (جیدی) کا لکھا ہوا سلسلے وار کھیل ’لاکھوں میں تین‘ لائیو پیش کیا جانے لگا جس کے تین مرکزی کرداروں میں ایک علی اعجاز نے نبھایا۔ علی اعجاز نے فلموں میں کچھ چھوٹے موٹے کردار تو ادا کیے تھے مگر ان کو فلموں میں جانے کا اصل موقع عارف وقار کے پیش کردہ ٹی وی پلے ’دبئی چلو‘ کے بعد ملا۔ اسی کھیل پر مبنی اسی نام کی فلم 1980 میں ریلیز ہوئی جس کے بعد انھیں فلموں کی آفرز ملنا شروع ہو گئیں۔ 1980 کی دہائی میں اداکار ننھا (خاور رفیع) کے ساتھ ان کی جوڑی فلمی ناظرین میں بہت مقبول رہی۔ حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا تھا۔ عطا الحق قاسمی کے لکھے ہوئے مزاحیہ کھیل خواجہ اینڈ سنز میں ان کا کردار آج بھی پاکستان ٹیلیویڑن کے ناظرین کے پسندیدہ کرداروں میں سے ایک ہے۔

ذیشان محمد بیگ
zeeshan.baig@express.com.pk

The post وہ جو ہم سے بچھڑ گئے appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>