قرآن کریم میں رسول اکرمﷺکا عالی مقام
تالیف: مولانا مفتی عبدالرحمان کوثر مدنی
قیمت: 410 روپے
صفحات: 256
ناشر: زمزم پبلشرز، کراچی
حضور سرور دو عالمﷺ کی جتنی شان بیان کی جائے کم ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان قرآن مجید میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کی ہے، اور آپﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمانا اپنا احسان عظیم قرار دیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مفتی صاحب نے بڑے خوبصورت انداز میں قرآن کے حوالے سے آپﷺ کی شان بیان کی ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے’’ یہ رسول ہیں ہم نے فضیلت دی ان میں بعض کو بعض پر، ان میں سے بعض سے اللہ نے کلام فرمایا، اور بعض کو درجات کے اعتبار سے بلند فرمایا‘‘۔ تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ لفظ ’’ تلک‘‘اسم اشارہ ہے، اس کا مشار الیہ المرسلین ہے یعنی یہ پیغمبر جن کا ذکر ابھی ابھی ہوا ان کو ہم نے آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت دی، کہ بعض کو ایسی منقبت سے متصف فرما دیا جو بعض دوسروں میں نہیں تھیں۔
صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہاں ’’ بعضھم ‘‘ سے سرور دو عالم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ مراد ہیں، اللہ تعالیٰ شانہ نے آپ کو وہ خواص علمیہ و عملیہ عطا فرمائے کہ زبانیں ان کو پوری طرح ذکر کرنے سے قاصر ہیں، آپﷺ رحمۃ للعالمین ہیں، اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام ؑ کو آپﷺ پر ایمان لانے اور نصرت کرنے کا عہد لیا، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا،آنحضرت ﷺ کو مقام محمود عطا کیا جائے گا، شب معراج میں حضورﷺ کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہونا۔ مفتی صاحب نے اسی طرح آپ کی شان میں قرآن پاک سے سو سے زائد حوالہ جات جمع کر دیئے ہیں اور ساتھ میں تفسیر اور احادیث بھی بیان کی ہیں۔ مجلدکتاب آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے، ہر مسلمان کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
خوشبوئے طیبہ
شاعر:عبدالقیوم
قیمت:400 روپے
صفحات: 256
ناشر: رمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، راولپنڈی
حضور نبی کریم ﷺ کی شان اتنی بلند ہے کہ آپ کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ عبدالقیوم نے آپﷺ سے اپنی محبت اور عقیدت کا اؓظہار بڑی سادگی سے کیا ہے۔ ریاض ندیم نیازی کہتے ہیں ’’ خوشبوئے طیبہ عبدالقیوم نظر کے قلم کا وہ شاہکار ہے جس میں سیرت پاک کی روشن کرنوں سے جمال و نور کو یکجا کر دیا گیا ہے۔
ان کے اشعار میں آپﷺ کی سیرت عظمیٰ کو انتہائی خوب صورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ‘‘ عبد القیوم اس سے قبل بھی ایک کتاب محسن ملت چوہدری محمد علی کے عنوان سے تصنیف فرما چکے ہیں۔ تاہم نعت کا ادبی اصناف میں بہت اعلیٰ مقام ہے اس لئے قلم اٹھاتے ہوئے استاد شعراء سے ضرور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، خاص طور پر املاء کی غلطیوں سے بچنا چاہیے، بہرحال شاعر کی اچھی کاوش ہے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی
مصنف: منیر احمد منیر
قیمت: 600 روپے
صفحات: 256
بھٹو دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شاہ فیصل کی خواہش اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے دعوت کے باوجود مولانا مودودی نے یہ کہہ کر اس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا کہ ’’ میں برداشت نہیں کر سکتا کہ شیخ مجیب الرحمان جس نے غداری کر کے ملک توڑا، وہ وہاں بیٹھا ہو اور میرے سامنے بنگلہ دیش کو منظور کرنے کی قرار داد پیش کی جائے۔‘‘اس حقیقت کا افشا مکتبہ آتش فشاں 78ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاوؤن، لاہور کی شائع کردہ منیر احمد منیر کی تالیف ’’ ابوالاعلیٰ مودودی‘‘ میں کیا گیا ہے۔ امریکہ میں مولانا کے ایک میزبان ڈاکٹر مقبول احمد نے اپنے انٹرویو میں بتایا ’’ ہم ملاقاتیوں کو منع کر دیتے تھے کہ مولانا سے مشرقی پاکستان کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے کیونکہ اس پر وہ دکھی ہو جاتے تھے۔‘‘ مولانا کے ایک بیٹے محمد فاروق مودودی کہتے ہیں ’’ ایسٹ پاکستان کے سانحہ کا ان کی صحت اور اعصاب پر شدید منفی اثر ہوا، بلکہ ان کی صحت ٹوٹی ہی اس کے بعد تھی‘‘۔
زیرتبصرہ کتاب میں مولانا کی 80 سے زائد نادر تصاویر، مولانا کی شاعری، ان کے شجرہ نسب اور بعض دستاویزات کے علاوہ مولانا مودودی، جوش ملیح آبادی، راجا غضنفر علی، مولانا کوثر نیازی، مولانا کے بڑے بھائی ابوالخیر مودودی، بیگم مولانا مودودی، مولانا کے چھ کے چھ بیٹوں، ان کے بھتیجے ابو محمود مودودی وغیرہ کے انٹرویوز کے علاوہ 1938ء میں مولانا کا علامہ اقبال پر لکھا ہوا مضمون بھی شامل ہے۔ کتاب کے مولف کے ساتھ انٹرویو میں مولانا نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی قائد اعظم کے ساتھ نہ کبھی ملاقات ہوئی اور نہ ہی خط و کتابت۔ تاہم انھوں نے قائد اعظم کو دیکھا ضرور تھا، اسمبلی ڈبیٹس کے موقع پر میں انھیں سننے چلا جاتا تھا۔
مولانا کوثر نیازی نے کہا: میں ریکارڈ درست کرنا چاہتا ہوں، یہ کہنا کہ مولانا یا جماعت اسلامی کو امریکی امداد ملتی تھی، یہ غلط ہے۔ البتہ بعض مسلمان حکومتوں مثلاً سعودی عرب اور بعض عرب ملکوں سے انھیں امداد ملی ہے۔ مولانا کے صاحبزادوں اور بیگم صاحبہ نے اچھا کیا مولانا کو گھر میں دفن کیا۔ اگر وہ منصورہ میں دفن ہوتے تو دوسرا ربوہ پیدا ہو جاتا۔ ایک اور سوال کے جواب میں مولانا کوثر نیازی کہتے ہیں ۔ بھٹو صاحب نے کئی مرحلوں پر جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دینے کے متعلق سوچا۔ تاہم مولانا کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد مولانا بھٹو صاحب کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے بڑے بھائی مولانا ابوالخیر مودودی نے اپنے انٹرویو میں مولانا کے بچپن کی شرارتوں ، ذہنی رجحانات ، اولین تحریروں، صحافیانہ زندگی ، خاندانی اور گھریلو طرز حیات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے جس سے مولانا کے شخصی ارتقا کا کھوج اور کئی ٹھوس معلومات اور واقعات کا پتا چلتا ہے۔ منیر منیر احمد نے مولانا مودودی کی شخصیت کے بہت سے چھپے گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے، قارئین کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے ۔
مثالی ریاست
مصنف: ارسطو
ترجمہ:امجد محمود
قیمت: 1200 روپے
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
گھر، معاشرے،گاؤں، شہر اور ریاست کا تانا بانا کیسے بنا جاتا ہے اس حوالے سے قدیم دانشوروں نے بڑی طویل بحثیں کی ہیں، ارسطو کا شمار بھی انھی مدبرین میں ہوتا ہے جو فرد، اس کے رہن سہن، اختیارات ، رویوں اور آزادی وغیرہ پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ قبل مسیح کے یونانی مفکرین کا باوا آدم سقراط تھا، ارسطو بھی اسی لڑی کا ایک موتی ہے۔ وہ کافی سالوں تک افلاطون کے تعلیمی ادارے میں پڑھاتا رہا۔ اس نے انسان کو غوروفکر پر مائل کرنے کے لئے متعدد کتابیں لکھیں جس نے معاشرے پر زبردست اثرات مرتب کئے، سکندر اعظم بھی دو سال تک اس کا شاگرد رہا، تاہم اس پر روشنی نہیں ڈالی گئی کہ اس نے اسے دوسال کیا پڑھایا مگر سکندر اعظم کی کامیابیاں خود گواہ ہیں کہ اس کے عظیم استاد نے اسے کیا تعلیم دی ہو گی۔
زیر تبصرہ کتاب میں ارسطو نے مثالی ریاست کا خاکہ اس دور اور نظریات کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ آج کے دور میں اس کا مختلف انداز میں تنقیدی جائزہ لیا جا سکتا ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ قبل مسیح کے زمانے میں اتنی گہری اور دور رس فکر رکھنا اس کے عظیم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ کتاب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ہر حصے میں مختلف عنوانات کے تحت متعدد ابواب لکھے گئے ہیں جس سے موضوع کے پھیلاؤ کو سمیٹنے میں مدد ملتی ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ سمجھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے جس سے انھیں سیاست کے مختلف پہلوؤں سے آگاہی کے ساتھ ساتھ وسعت نظر بھی عطا ہو گی ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
زوال دی گھڑی
شاعر: فخرزمان
صفحات: 160
قیمت: 400 / روپے
ناشر: کلاسیک ، مال روڈ ، لاہور
زیر تبصرہ کتاب معروف ادیب، شاعر و دانش ور فخرزمان کی منتخب پنجابی شاعری کا مجموعہ ہے۔ یہ شاعری آزاد نظموں پر مشتمل ہے لیکن ذائقہ بدلنے کے لیے چند غزلیں بھی شامل کر لی گئی ہیں۔’’ زوال دی گھڑی ‘‘ شعری مجموعے کا نام ہے لیکن پورے مجموعے میں اس نام سے الگ سے کوئی نظم نہیں ہے یوں سمجھئے کہ بیشتر نظمیں اسی عنوان کے گرد ہی گھومتی ہیں۔
مجموعے میں شامل سب نظمیں اور غزلیں شاعر کی ترقی پسندانہ سوچ کی مظہر اور انسانی رویوں اور سماجی صورت حال کی آئینہ دار ہیں۔ فخر زمان نے اپنی منتخب پنجابی شاعری میں انگریزی کے الفاظ بھی حسب ضرورت و حسب موقع استعمال کیے ہیں۔ یہ الفاظ اس خوبصورتی کے ساتھ مصرعوں میں فٹ کئے ہیں کہ لگتا ہے کسی جوہری نے انگوٹھی میں نگینہ جڑ دیا ہے۔ آزاد نظمیں عمومی طور پر باآسانی ’’ ہضم ‘‘ نہیں ہوتیں لیکن ان نظموں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں ایک خاص ردھم موجود ہے جس کی وجہ سے انہیں پڑھ کر قاری کسی قسم کی بوریت محسوس نہیں کرتا بلکہ حظ اٹھاتا ہے۔ اس سے پہلے فخرزمان کی اردو شاعری پر مبنی مجموعہ بھی منظر عام پر آچکا ہے اور عوام الناس میں اسے پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور اب یہ پنجابی مجموعہ بھی یقینی طور پر پسند کیا جائے گا۔
’’سا سا‘‘اور مریضانہ تہذیبی نرگسیت
ادبی مجالس اور حلقہ احباب و رفقائے کار میں ڈاکٹر محمد شیراز دستی کی وجہ شہرت ان کی تدریسِ انگریزی زبان و ادب، ترجمہ نگاری اور لسانیات رہی ہے، جن سے متعلق ان کی تین کتابیں Hour of Decline،’’مغل سرائے‘‘ اور ’’نسلوں نے سزا پائی‘‘ کے عنوانات سے منظر عام پر آکر قارئین سے داد پا چکی ہیں، تاہم ان کا نو تصنیف ناول’’ساسا ‘‘ایک مکمل تخلیقی تجربہ ہے، جو اس لحاظ سے توجہ کا طالب ہے کہ وہ ایک انگریزی مدرس کے قلم سے تحریر کردہ ایک اردو ناول ہے۔
ناول کے پیشگی تعارف کے طور پر پہلے دو ابواب اس سے قبل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آبادکے ادبی جریدے ’’ثبات ‘‘میں شائع ہو چکے ہیں، جب کہ 52 ابواب اور تقریباً اڑھائی سو صفحات پر مشتمل ناول کی کتابی شکل عکس پبلی کیشنز، لاہور کے توسط سے منصہ شہود پر آئی ہے، جس کے سادہ سے سرورق پر نہ صرف مستنصر حسین تارڑ، محترمہ خالدہ حسین، جناب حمید شاہد، ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد جیسے اکابرینِ زبان و ادب کی آرا دی گئی ہیں بلکہ ناول کے اندرونی صفحات پر بہ طور پیش لفظ عصر ِ حاضر کے معروف دانش ور اور نقاد ڈاکٹر ناصرعباس نیر کا تبصرہ بھی موجود ہے ۔
ناول کا عنوان’’ساسا‘‘انفرادیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ دل چسپ بھی ہے۔ یہ متن کے اعتبار سے ایک طوطانما پرندے کا نام ہے، جس کا ذکر ہمیں صرف چند ابواب ہی میں ملتا ہے البتہ اس کردار کی مدد سے ناول نگار نے جس فکر کو نمایاں اور جس تضاد کو ابھارنے کی سعی کی ہے، اس کی بازگشت’ساسا ‘ کی عدم موجودگی کے باجود بھی پورے ناول میں سنائی دیتی ہے اور یہی مصنف کا بنیادی قضیہ بھی ہے، جو ان کے ناول کے انتساب سے بھی پوری طرح واضح ہو جاتا ہے، جسے وہ ’’ساسا‘‘ہی کے ثنوی جوڑے’’سادہ‘‘ سے منسوب کرتے ہیں ۔
ناول کی کہانی ڈیرہ غازی خان کے علاقے کاٹھ گڑھ سے شروع ہوتی ہے اور پھر امریکہ سے ہوتی ہوئی کاٹھ گڑھ ہی پر آکر ختم ہو جاتی ہے۔ بادی النظر میں ناول کا موضوع تلاش محبت کے پردے میں محبت، محب اور محبوب کی مثلث معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسے مہ کامل کا سراغ پانے کی سعی ہے جو گھٹتا اور بڑھتا تو ہے لیکن اپنے پورے جمال یعنی چودھویں کے چاند کی صورت کبھی منکشف نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ اس کے مظاہر جا بجا دکھائی دیتے یا محسوس کیے جاتے ہیں۔ اس صورت حال سے مرکزی کردار سلیم میں ایک عجیب بے چینی اور اضطراب کی کیفیت نظر آتی ہے جو ناول کے تمام صفحات میں اْسے ملنے والی آسودگیوں کے باوجود، قائم و دائم ہے۔ لیکن بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو ناول کا خمیر اپنی دھرتی کی بو باس سے اٹھنے کے ساتھ ساتھ کسی قدر ذاتی اور حقیقی تجربات و واقعات پر مبنی محسوس ہوتا ہے۔
ناول کے ہر باب میں چاہے وہ ’اینا ‘سے متعلق ہو یا ’جینی‘ اور ’منزہ‘سے، رومانویت کے ساتھ ساتھ نائن الیون کے بعد کے عالمی سیاسی حالات کی ایک لہر بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے جو زیریں لہر ہرگز نہیں بلکہ اکثر و بیش تر سیاسی حالات و واقعات اصل موضوع پر غالب آ جاتے ہیں۔ان دونوں موضوعات کا امتزاج ناول میں مشرق و مغرب کا تفاوت، مادیت پرستی، حقیقت پسندی، عالم گیریت، اتحاد بین الثقافت،آفاقیت، انسان دوستی، تیسری دنیا کے مسائل ، سپر طاقتوں کی خوش حالی، خوش گمانی، تعصب اور دائرے کے مرکز اور اس کے حاشیے پر موجود افراد یا ممالک جیسے ذیلی موضوعات کو داخل کر دیتا ہے۔ مرکزی کردار کی تنہائی، احساس جرم، خوف،اذیت، اصلیت، شناخت اور پہچان کے مسائل، تصادم، یہ دنیا وہ دنیا اور مابعد الطبیعیاتی فضا وجودیت کے وہ عناصر ہیں جو جا بجا سر اْبھارتے ہیں اور اپنی معنویت کو واضح کر جاتے ہیں۔ وہ مسلسل آشوب ِذات اوراذیت ناک کرب کا شکار نظر آتا ہے۔
اسے نہ صرف دیارِ غیر میں اپنی تہذیبی شناخت کے کھو جانے کا شدید غم ہے بل کہ اس امر کا بھی احساس ہے کہ اس کی ذات کا کوئی حصہ کٹ کر اْس دیس میں رہ گیا ہے، جسے وہ محبت کی تلاش میں پیچھے چھوڑ آیا ہے، حالاں کہ اس کی اصل محبت وہیں ہے۔ چناں چہ وہ پہلی دنیا میں رہتے ہوئے بھی مسلسل تیسری دنیا میں سانس لیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تیسری دنیا کو درپیش اقتصادی اور معاشی بدحالی اور بد نظمی ہے، جو غربت، افلاس، بھوک، پیاس اور جہالت سے نمٹتے اور اس پر مغربی طاقتوں کے استحصال اور ان کی استعماریت میں اْبھرتے یا زندگی کی بقا کی دوڑ میں شامل ہوتے معاشروں کے لیے سدِ سکندری کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ یہ وہ رکاوٹ ہے جو سپر طاقتوں کی اجتماعی یا مریضانہ تہذیبی نرگسیت کی بدولت اقوام عالم میں کشیدگی اور تصادم کو جنم دے کر انسانی برادری کی اجتماعی نشو ونما کا راستہ روکے کھڑی ہے اور اتنی مستحکم ہو چکی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔
ناول کی منظر نگاری،خواہ وہ سماجی ہو یا مادی، خوب اور مناسب ہے۔ کمال مہارت سے مناظر کو یکے بعد دیگرے کینوس پر ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے ناول میں تر و تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ منظر نگاری میں بھی ناول کے متاثر کن حصے وہی ہیں جن میں کاٹھ گڑھ کی زندگی، وہاں کی معاشرت، رہن سہن، طبقاتی نظام، سیاست، معصومیت، سادگی اور الہڑ پن کے دل کش اور جیتے جاگتے مرقعے پیش کیے گئے ہیں۔
بحیثیت مجموعی ’’ساسا‘‘ کو عہد حاضر کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سپر طاقتوں کی مریضانہ تہذیبی نرگسیت کا اظہار کہا جا سکتا ہے، جس میں فرسودہ اور کمزور روایات کو بدلنے کی خواہش ناول نگار کو بت تراش سے بت شکن بننے پر مجبور کر دیتی ہے۔
(تبصرہ نگار: بی بی امینہ ،اسلام آباد)
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.