Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

اکیسویں صدی کا عجوبہ مشین کو انسان کا روپ دیتی سائنس

$
0
0

عامر نے جب دنیا میں قدم رکھا‘ تو وہ خوب رو اور چلبلا بچہ تھا۔ جب بھی چمک دمک والی کوئی چیز دیکھتا تو بے اختیار اس کی جانب لپکتا۔ ایک دن رات کو بجلی گئی تو پتا چلا کہ یو پی ایس خراب ہو چکا۔

ماں نے موم بتی جلا دی اور عامر کو قریب بٹھا کر سبزی کاٹنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر کسی کام سے باورچی خانے گئی۔اِدھر منچلے عامر نے آو دیکھا نہ تاؤ‘ موم بتی کا شعلہ پکڑنے ہاتھ بڑھا دیئے۔ چیخ سن کر پریشان ماں بھاگی آئی‘ تو دیکھا کہ ننھا بیٹا گرم موم سے اپنی انگلیاں جلا بیٹھاہے۔ وہ دھاڑیں مارکر رو رہا تھا۔

جسم انسانی کا بادشاہ

یہ واقعہ یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ انسان کو پیدائشی طور پر بہت سی باتوں کا علم نہیں ہوتا…زندگی میں پیش آنے والے تجربات ‘ واقعات اور حالات اسے تلخ و شیریں حقائق سے آشنا کراتے ہیں۔ مثال کے طور پر عامر کو علم نہیں تھا کہ آگ ہاتھ جلا دیتی ہے۔ اسی لیے وہ اس کی جانب لپکا۔ لیکن اس تلخ تجربے نے اسے سکھا دیا کہ آگ ایک خطرناک شے ہے اور اسے ہاتھ سے نہیں پکڑنا چاہئے۔ جوں جوںعامر دوران زندگی مزید تجربات حاصل کرے گا‘ اس کا شعور اور ذہانت بھی بڑھتی جائے گی۔ اس سچائی سے آشکار ہے کہ انسان کا دماغ (یا ذہن) بھی مسلسل ارتقا پذیر ہے۔

ذرا ایک لاکھ سال پہلے کی دنیا تصور میں لائیے ۔ تب انسان نیم برہنہ رہتا تھا۔پتوں سے تن ڈھکتا۔ پیٹ بھرنے کی جستجو اور زندہ رہنا ہی مقصدِ زندگی تھا۔ پھر آگ اور پہیے کی دریافت نے اسے نئے جہانوں سے متعارف کرایا۔ وہ کھیتی باڑی کرنے اور بستیاں بسانے لگا۔ یوںانسانی تہذیب و ثقافت کا آغاز ہوا۔ انسان کی یہ پوری محیر العقول ترقی دراصل اس کے دماغ ،نظام اعصاب اور حسیات (بصارت ‘ سماعت‘ لامسہ‘ سونگھنا‘ چکھنا‘ درد‘ سردی گرمی محسوس کرنا‘ توازن برقرار رکھنا وغیرہ) کی مرہون منت ہے۔ دماغ انسان سمیت ہر جاندار میں پائی جانے والی جسمانی و ذہنی سلطنت کا بادشاہ ہے کیونکہ وہی اعصابی نظام اور تمام حسّیات کنٹرول کرتا ہے۔

نیورل نیٹ ورک کا کمال

دلچسپ بات یہ کہ سائنس و ٹکنالوجی کی شاندار ترقی کے باوجودانسان اپنے دماغ کی مادی ہیئت سو فیصد حد تک نہیں جان سکا۔ بہر حال جدید سائنس نے ہمیں یہ ضرور بتا دیا کہ انسانی دماغ تقریباً ایک سو ارب مختلف اقسام کے خلیوں کا مجموعہ ہے جو ’’نیورون‘‘(Neurons) کہلاتے ہیں۔انسانی دماغ کا ہر نیورن دراصل ایک منی کمپیوٹر ہے۔ یہ اپنے طور پر وہ کام بھی بخوبی انجام دیتا ہے جو اسے تفویض کیا جائے۔ مثلاً انسان کو بتانا کہ آگ اس کی جلد جلا رہی ہے۔انسان کا پورا اعصابی نظام انہی نیورونوں پر مشتمل ہے۔ ہر نیورن اپنے ننھے منے کئی بازوئوں کی مدد سے دیگر نیورونوں کے بازؤں سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ نیورون کیمیائی یا برقی (الیکٹر یکل ) اشاروں (سگنلوں ) کی مدد سے ایک دوسرے سے تعلق و رابطہ رکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ نے دیکھا کہ چائے مناتے ہوئے اچانک کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ آنکھ کے نیورون یہ منظر دیکھ کر حادثے کی خبر دماغ تک پہنچائیں گے۔ اب دماغ فیصلہ کرے گا کہ ہاتھوں اور پانی کی مدد سے آگ بجھائی جائے۔ ایک دوسرے سے جڑے نیورونوں میں یہ ساری پیغام رسانی برقی اشاروں کے ذریعے نہایت تیزی سے ہوتی ہے۔ نیورونوں کا یہ باہمی نظام اصطلاح میں ’’نیورل نیٹ ورک‘‘(Neural Network) کہلاتا ہے۔

انسانی دماغ میں ایک ارب منی کمپوٹر کے مانند نیورونوں کا نیٹ ورک ہی اعصابی نظام سمیت انسانی جسم کو رواں دواں رکھنے والا’’سپر کمپیوٹر‘‘ تشکیل دیتا ہے۔ گویا ہمارا دماغ ایک ارب ’’کور پروسیسر‘‘(Core Processor) رکھتا ہے۔ انہی کور پروسیسروں نے انسانی دماغ کو نہایت طاقتور شے بنا ڈالا ہے… ایسی شے جس سے مماثلت رکھنے والی چیز انسان سر توڑ کوشش کے باوجود(فی الحال) نہیں بنا پایا۔

سپر کمپیوٹر بھی انسان کا غلام

اس وقت امریکی کمپنی‘ آئی بی ایم کا تیار کردہ سمٹ(Summit ) دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر ہے۔ یہ سپر کمپیوٹر صرف ایک سکینڈ میں 200پیٹا فلاپس (petaflops) یعنی دو لاکھ ٹریلین پیمائشیں کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ یقیناً انسانی دماغ اتنی محیر العقول تیزی سے پیمائش نہیں کر سکتا، اس کی رفتار زیادہ سے زیادہ ایک سیکنڈ میں چند ٹریلین پیمائش کرنا ہو گی۔

اس کے باوجود یہ تیز ترین سپر کمپیوٹر بھی انسان کا غلام ہے… کیونکہ انسان ہی اسے حکم دیتے ہیں کہ اس نے کون سی پیمائشیں کرنا ہیں یا کس نوعیت کا کام انجام دینا ہے۔ گویا صرف ایک سیکنڈ میں دو لاکھ ٹریلین پیمائشیں کرنے والی یہ حیرت انگیز مشین از خود ایک پیمائش بھی نہیں کر سکتی۔ معنی یہ کہ ایک سیکنڈ کی عمر رکھنے والے انسانی بچے کا دماغ بھی سمٹ سپر کمپیوٹر سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ وہ بچہ ہوتے ہوئے بھی بہر حال ازخود کئی کام کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہاتھ ہلانا‘ رونا‘ ماں کو د یکھنا وغیرہ۔

خود مختار ہونے کے علاوہ ملٹی ٹاسک(Multitask) ہونا بھی انسانی دماغ کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ دماغ کی وجہ سے ہی انسان بیک وقت کئی کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر کپڑوں میں آگ لگے‘ تو انسان اسے دیکھتے ہوئے ہاتھ پاؤں ہلا کر اپنا بچاؤ کرتا اور چیخیں مارتا ہے۔ حقیقتاً خطرے کی حالت میں انسان کی خفیہ حسّیں بھی بیدار ہو جاتی ہے جنہیں مجموعی طور پہ ’’چھٹی حس‘‘ کا نام دیا جا چکا ۔

سپر کمپیوٹر سمٹ ملٹی ٹاسک مشین نہیں… وہ ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتا ہے ۔ درست کہ سمٹ اپنا کام حیرت انگیز رفتار سے انجام دے گا، انسانی دماغ اتنی تیزی نہیں دکھا سکتا۔ مگر سمٹ بیک وقت کئی کام کرنے سے قاصر ہے۔ ملٹی ٹاسک ہونا بھی انسانی دماغ کو زیادہ طاقتور اور منفرد بنا ڈالتا ہے۔ گویا انسانی دماغ کا سپر کمپیوٹر سمٹ سے زیادہ پیچیدہ اور گنجلک مشین ہے۔ اسی لیے سائنس داں ابھی تک اسے مکمل طور پر سمجھ نہیں پائے۔

سمٹ سپر کمپیوٹر کو تیس مختلف کام کرنے کی خاطر بنایا گیا ۔ مطلب یہ کہ اس میں تیس سافٹ ویئر موجود ہیں۔ جب بھی تیس کاموں میں سے کوئی ایک کام کرنا مقصود ہو‘ تو اس کے متعلقہ سافٹ ویئر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ پھر سافٹ ویئر میں جو ریاضیاتی ہدایات (algorithms)دی گی ہیں‘ سمٹ ان کے مطابق اپنا کام انجام دیتا ہے۔ اگر اس مشین سے اکتیسواں کام کرانا ہے تو اس میں نیا سافٹ ویئر یا پروگرام انسٹال کرنا ہو گا۔یاد رہے، ہر سافٹ وئیر مختلف ریاضیاتی ہدایات کا مجموعہ ہوتا ہے۔یہ ہدایات اعداد،الفاظ، اعراب اورگرافکس وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔کمپیوٹر انہی ہدایات کے مطابق اسکرین پہ متن(ٹیکسٹ) یا تصویریں وغیرہ پیش کر دیتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی تاریخ

دنیا میں بیشتر کمپیوٹر سمٹ سپر کمپیوٹر کے مانند کام کرتے ہیں۔ یعنی ان میں مخصوص سافٹ ویئر موجود ہیں۔ چھوٹا ہو یا بڑا‘ ہر کمپیوٹر مشین اپنی سافٹ ویئرکے احکامت پر عمل کرتی ہے۔ لیکن اب ایک انقلاب کی آمد آمد ہے… سائنس داں ایسی مشینیں ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو انسانی دماغ کے مانند از خو د فیصلے کر سکیں۔ گویا وہ مشین کو ظاہری کے علاوہ ذہنی طور پر بھی انسان کا روپ دینا چاہتے ہیں۔ یہ انقلابی اور تاریخ ساز قدم ’’مصنوعی ذہانت‘‘ (Artificial intelligence)کے ایک خصوصی شعبے کی مدد سے اٹھایا جارہا ہے۔

مصنوعی ذہانت کا نظریہ اس بنیاد پر استوار ہے کہ انسان کی طرح مشین بھی ذہین و فطین ہو سکتی ہے لہذا وہ مختلف کام انجام دینے کے قابل ہے۔ یہ نظریہ قدیم یونانی‘ہندوستانی اور چینی فلسفیوں نے پیش کیا۔ پہیے کی دریافت کے بعد انسان مشینیں ایجاد کرنے لگا تھا۔ مثال کے طور پر یونانی موجد‘ ارشمیدس نے ڈھائی ہزار سال پہلے ’’ارشیمدس پیچ ‘‘ ایجاد کیا۔ اس مشین کی مدد سے گڑھوں میں موجود پانی بالائی جگہوں پر پہنچانا ممکن ہے۔دو ہزار سال پہلے ہیرو اسکندروی نامی ماہر ریاضی اور انجینئر گزرا ہے۔ یہ شاید پہلا موجد ہے جس نے ازخود حرکت کرتی مشینیں ایجاد کیں مثلاً بھاپ انجن، چکی اور آٹومیٹک دروازے۔

جب مسلم سائنس دانوں کا ظہور ہوا تو انہوں نے چینی، یونانی اور ہندوستانی ماہرین کی تخلیق کردہ سائنس و ٹیکنالوجی کو آگے بڑھایا۔ الخوازمی نے الجبرا کی بنیاد رکھی۔ مشہور مسلم موجد، الجزری نے کئی حیرت انگیز ایجادات دنیا والوں کے سامنے پیش کیں۔ الجزری اپنی ’’ہاتھی گھڑی‘‘(Elephant clock) کے باعث مشہور ہیں۔ یہ شاید پہلی مشین ہے جس میں ایک مشینی آدمی سنج (تھالی نما ساز) بجا کر ایک گھنٹہ پورا ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ نیز ایک مشینی چڑیا نمودار ہوکر بولتی ۔

سترہویں صدی میں یورپی فلسفیوں مثلاً گونفریڈ لائیبنز، تھامس ہوبز اور رینے دیکارت نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ریاضی و الجبرا کی مدد سے مصنوعی ذہانت کو جنم دینا ممکن ہے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر بیسویں صدی میں ’’ریاضیاتی منطق‘‘ (Mathematical logic) وجود میں آئی۔ یہ علم ریاضی کی ایک شاخ ہے۔ ریاضیاتی منطق ہی نے وہ نظریاتی اور عملی بنیادیں فراہم کیں جن کے ذریعے کمپیوٹر اور روبوٹ بنائے گئے۔

شاخوں میں تقسیم

دوسری جنگ عظیم کے بعد مصنوعی ذہانت کا شعبہ دو بڑی شاخوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک شاخ میں سافٹ ویئرز کے ذریعے چلنے والے کمپیوٹر، روبوٹ اور دیگر مشینیں ایجاد ہونے لگیں۔ یہ مصنوعی ذہانت کی ’’پروگرامڈ اقسام‘‘ ہیں۔ اس شاخ سے منسلک ماہرین ایسے سافٹ ویئر پروگرام ایجاد کرتے ہیں جو مشین کو ہر قدم پر معین ریاضیاتی ہدایات دے سکیں۔ ان ہدایات کے بغیر کمپیوٹر یا مشین کوئی کام نہیں کرسکتی۔

دوسری شاخ سے منسلک سائنس داں کوشش کرنے لگے کہ وہ ایسی مشینیں تیار کرلیں جو سافٹ ویئرز کے علاوہ انسان کے مانند مصنوعی دماغ بھی رکھتی ہوں۔ یعنی وہ ریاضیاتی ہدایات کی مدد سے ’’ازخود‘‘ بھی سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیتیں حاصل کرلیں۔ یہی صلاحیتیں ایک انسان کو مشین سے برتر قوت بناتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی اس شاخ کو ’’مشین لرننگ‘‘(Machine learning) کا نام دیا گیا یعنی مشین کو تعلیم وتربیت دینے کا طریق کار!

1950ء کے بعد مشین لرننگ کے سائنس داں مصنوعی دماغ بنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کرنے لگے۔ بیس سال بعد آخر کار انہوں نے انسانی دماغ کے نیورل نیٹ ورک کی طرح ریاضیاتی ہدایات کی مدد سے ’’مصنوعی نیورل نیٹ ورک‘‘(Artificial neural network) ایجاد کرلیا۔ اس مصنوعی نیورل نیٹ ورک میں ہر ریاضیاتی ہدایت جسے اصطلاح میں یونٹ (Unit) کہتے ہیں،’’مصنوعی نیورون‘‘ کہلانے لگی۔

ڈیپ لرننگ کا جنم

سائنس داں شروع میں ایسے مصنوعی نیورل نیٹ ورک ہی تیار کرسکے جن میں چند لاکھ مصنوعی نیورون موجود تھے۔ لیکن جیسے جیسے سائنس و ٹیکنالوجی نے ترقی کی، ماہرین کو زیادہ پیچیدہاور بڑے مصنوعی نیورل نیٹ ورک بنانے کی خاطر نئے آلات اور وسائل مل گئے۔ ان نیٹ ورکوں میں بھی انسانی دماغ کی طرح تمام مصنوعی نیورون ایک دوسرے سے تعلق و رابطہ رکھتے ہیں۔ ان کے مابین بجلی کے ذریعے برقی پیغام رسانی ہوتی ہے۔

اکیسویں صدی میں جب سپرکپیوٹر وجود میں آئے، تو ان کی مدد سے شعبہ مشین لرننگ کے تکنیکی(ٹیکنیکل) مسائل تیزی سے حل ہونے لگے۔ اسی دوران مشین لرننگ کی ایک شاخ ’’ڈیپ لرننگ‘‘ (Deep learning) وجود میں آگئی۔ اسی شاخ سے منسلک سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین اب ایسی مشینیں بنارہے ہیں جو انسانی بچے کی طرح ماحول سے تجربات اور واقعات کے ذریعے نئی باتیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔جیسا کہ بتایا گیا، جب بچہ دنیا میں آنکھیں کھولے، تو وہ تجرباتِ زندگی، حالات، واقعات اور ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اسی نمونے کی بنیاد پر ڈیپ لرننگ کے ماہرین بھی انسان نما مشین بنارہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انسانی بچے کو تو قدرت سیکھنے اور نشوونما دینے کے مواقع فراہم کرتی ہے، مشین کو انسان پھلنا پھولنا، سوچنا سمجھنا اور ترقی کرنا سکھائے گا۔

انسان نما مشین کا مصنوعی دماغ زیادہ پیچیدہ اور وسیع نیورل نیٹ ورک رکھتا ہے۔ اس نیٹ ورک میں مصنوعی نیورنوں کی کئی تہیں موجود ہوتی ہیں۔ اس طرح کم رقبے میں زیادہ نیورون رکھنا ممکن ہوگیا۔یہ یاد رہے کہ جتنے زیادہ مصنوعی نیورون ہوں ، مشین کا مصنوعی دماغ اتنا ہی زیادہ طاقتور بن جائے گا۔اس ڈیپ (مصنوعی) نیورل نیٹ ورک کی تجربہ گاہ ڈیٹا ہے…عظیم الشان ڈیٹا جو انسان اسے فراہم کرتا ہے۔ یہی ڈیٹا انسان نما مشین کو نت نئی باتیں سکھانے اور بتانے کا بنیادی ذریعہ بن چکا۔

ڈیٹا کا عجوبہ

دس پندرہ سال پہلے تک انسان تصاویر و متن کی صورت کم ہی ڈیٹا رکھتا تھا۔ لیکن انٹرنیٹ کی زبردست ترقی کے باعث اب انسان کئی ہزار کھرب میگا بائٹ ڈیٹا تک رسائی رکھتا ہے۔ ڈیٹا کی اسی بے پناہ بڑھوتری نے ماہرین ڈیپ سائنس کو یہ سنہرا موقع عطا کیا کہ وہ انسانی دماغ کی طرح سوچنے سمجھنے والا مصنوعی دماغ ایجاد کرنے کی جدوجہد کرسکیں۔سائنس دانوں نے جب مصنوعی نیورنز کا نیٹ ورک (مصنوعی دماغ) تیار کرلیا، تو انہوں نے اس کے ساتھ حرکت کرنے، دیکھنے، سننے اور محسوس کرانے والے حساس آلات (سینسر) نصب کردیئے۔

یوں اس مصنوعی دماغ کو بیشتر انسانی حسیں بھی عطا کر ڈالیں۔ اس نیٹ ورک کو آخر میں ڈیٹا فراہم کیا جانے لگا۔مثال کے طور پر مصنوعی نیورنز کے اس نیٹ ورک کو بلی کی پہچان کروانی ہے۔ چناں چہ نیٹ ورک کوبلی کی ہزارہا تصاویر دی جاتی ہیں۔ نیٹ ورک کے مصنوعی نیورونوں کو ان تصاویر کی مدد سے مختلف جانوروں میں بلی کو شناخت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ جب وہ یہ عمل سیکھ جائیں، تب مصنوعی دماغ ’’ازخود‘‘ مختلف حیوانوں میں کھڑی بلی شناخت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔عام کمپیوٹر میں تو انسان ہی حیوانوں میں سے بلی شناخت کرتا ہے۔

معنی یہ کہ مصنوعی دماغ کے نیورون نیم خود مختار ہیں۔ وہ ایک دفعہ کوئی نئی بات سیکھنے کے بعد تجربات اور واقعات کی مدد سے اس نئی بات سے مختلف ذیلی اور متعلق باتیںخود بخود سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ازخود سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی نے ڈیپ نیورل نیٹ ورکس پر مشتمل انسان جیسے مصنوعی دماغ کو اکیسویں صدی کا محیر العقول عجوبہ بنادیا ہے۔

گویا یہ مصنوعی دماغ مشین کو اس قابل بناسکتا ہے کہ وہ دنیا کو ’’دیکھ‘‘ سکے، انسان کی باتیں سمجھ لے اور خود بھی مناسب جواب دے ڈالے۔ تاہم مشین کا یہ مصنوعی دماغ ترکیب و ہئیت اور کارکردگی میں ابھی چند ماہ کے نوزائیدہ انسانی بچے جیسا ہے۔ ابھی اسے کارکردگی اور قوت میں انسان کا دماغ جیسا بنتے ہوئے کئی عشرے لگ جائیں گے۔ سائنس کی رو سے انسانی دماغ بھی ہزاروں لاکھوں سال کے عرصے میں ارتقا پذیر ہوا ہے، تبھی وہ کئی حسّیات سے مالا مال ایک بہترین قدرتی سپرکمپیوٹر بن سکا۔

مصنوعی دماغ کے نظام

یہ ارتقا پذیر مصنوعی دماغ کئی نظاموں پر مشتمل ہے۔ان میں سے درج ذیل ذیلی نظام اہمیت رکھتے ہیں:

٭…آواز کی شناخت کا خود کار نظام(Automatic speech recognition) :اس نظام کی مدد سے مصنوعی دماغ مختلف آوازوں کو شناخت کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ آواز انسان کی ہے یا شیر کی۔
٭… چہرے کی شناخت(face tracking) :یہ نظام مصنوعی دماغ کو انسانوں اور حیوانوں کے چہرے پہچاننے میں مدد دیتا ہے۔
٭… قدرتی بولی پروسیسنگ(Natural language processing):یہ نظام مصنوعی دماغ کو بولنا سکھاتا ہے۔ اسی ذیلی نظام میں نت نئے الفاظ ذخیرہ ہوتے رہتے ہیں۔
٭… جذبات کی شناخت(emotion recognition) :اس نظام کی مدد سے مصنوعی دماغ انسان یا حیوان کے جذبات سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسان حیران ہے یا پریشان، خوش ہے یا غمگین۔
٭… مشینی حرکات(robotics) :اس نظام کی مدد سے مصنوعی دماغ مشین کی حرکات و سکنات کنٹرول کرسکتا ہے۔ مثلاً یہ مصنوعی دماغ کسی مشین یا روبوٹ میں نصب کیا جائے، تو اسی ذیلی نظام کی مدد سے وہ روبوٹ کے بازو اور ٹانگوں کو حرکت دے سکے سگا۔

ابھی دلی دور ہے

جیسا کہ بتایا گیا، ڈیپ لرننگ مشین کی بنیاد پر بننے والا مصنوعی دماغ اور اس کے سبھی ذیلی نظام ابھی ارتقا پذیر ہیں۔ ماہرین مسلسل اس پورے ڈھانچے کو بہتر سے بہتر بنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کررہے ہیں۔ ابھی یہ نشوونما پذیر ہے اور پانچ سالہ بچے کے دماغ کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔مثال کے طور پر ایک چار پانچ سالہ بچہ فوراً اپنی پالتو بلی کو پہچان لیتا ہے۔

اسے یہ بھی بہت جلد معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں بلی پڑوسیوں کی ہے لیکن مصنوعی دماغ کے لیے ابھی پالتو بلی کی شناخت کرنا ہی بڑا مسئلہ ہے۔پہلے مصنوعی دماغ کی ہارڈ ڈسک میں اس بلی کی ہزارہا تصاویر رکھی جائیں گی۔ یہ تصاویر مختلف زاویوں سے کھنچی ہوں گی تاکہ پالتو بلی کا ہر زاویہ واضح ہو جائے۔ مثلاً اس کی مونچھیں، پلکیں، ناک، ہونٹ وغیرہ۔ ان تصاویر کی اسکیننگ کرکے مصنوعی دماغ پالتو بلی کا ہیولا اپنے نیورون نیٹ ورک میں محفوظ کرلے گا۔ یوں جب بھی وہ بلی اس کے سامنے آئی، وہ بتاسکے گا کہ یہ پالتو ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ انسان ساختہ مصنوعی دماغ ابھی ارتقا پذیر ہے۔ لہٰذا پالتو بلی کی دو تین مونچھیں کاٹ دی جائیں یا اس کے جسم پر کیچڑ لگ جائے تو مصنوعی دماغ اسے پہچاننے سے انکار کردے گا۔ یعنی وہ اسے بلی تو ضرور قرار دے گا مگر پالتو نہیں۔ پالتو بلی کی ظاہری ہئیت میں تھوڑی سی بنیادی تبدیلی بھی مصنوعی دماغ کو کنفیوز و پریشان کردے گی۔

ایک پانچ سالہ بچے کا دماغ مگر جلد ہی جان لیتا ہے کہ یہ اسی کی پالتو بلی ہے، بس اس کے جسم پر کیچڑ لگ چکا یا مونچھیں کٹنے سے وہ کچھ عجیب لگ رہی ہے۔ہے وہ اپنی پالتو بلی ہی۔ ماہرین اس کوشش میں ہیں کہ مصنوعی دماغ کا نیورول نیٹ ورک بھی ازخود پالتو بلی کی ہیئت میں آنے والی تبدیلیاں ’’ازخود‘‘ اور خودکار طریقے سے سمجھ سکے۔ وہ جان لے کہ یہ پالتو بلی ہی ہے، بس اس کی ظاہری ہئیت میں کچھ تبدیلیاں جنم لے چکی۔

ماضی میں کمپیوٹر بہت سست رفتار تھے۔ اب ان کی پروسیسر طاقت یا کام کی رفتار بہت بڑھ چکی۔ پھر پروسیسر چھوٹے بھی ہوگئے۔ اس لیے مصنوعی ذہانت کی دونوں شاخوں، شعبہ سافٹ ویئر اور شعبہ مشین لرننگ میں زبردست ترقی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہ ترقی بنی نوع انسان کے لیے فوائد رکھتی ہے، نقصان بھی اور نت نئے چیلنج بھی! یہ بہرحال طے ہے کہ مصنوعی ذہانت کا جن بوتل سے باہر آچکا اور اب اسے واپس بند کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

فوائد اور نقصان

مصنوعی ذہانت کی ترقی کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان کو سستی افرادی قوت میسر آئے گی۔ فرض کیجیے، آپ کو گھر کی صفائی کے لیے ماسی درکار ہے۔ لہٰذا ایسا روبوٹ بنائیے جسے صفائی کا طریقہ سافٹ ویئرز اور مشین لرننگ کے طریقوں سے کام لیتے ہوئے سمجھا دیجیے۔ لیجیے آپ کو چوبیس گھنٹے دستیاب رہنے والی ماسی مل گئی۔ جاپان، امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں ایسے ماسی نما ہزارہا روبوٹ گھریلو صفائی کرنے لگے ہیں۔

غرض اب کوئی ایک معین کام انجام دینے کی خاطر مشین یا روبوٹ بنانا ممکن ہوچکا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث مزید آسانیاں جنم لے رہی ہیں لیکن مشین کی اس ترقی نے کئی انسانی پیشوں کا مستقبل خطرے میں بھی ڈال دیا۔ ظاہر ہے کسی پیشے میں روبوٹ یا مشینیں گھس آئیں تو اس سے وابستہ کئی انسانوں کا روزگار تو ختم ہوجائے گا۔ انہیں پھر نیا پیشہ ڈھونڈنا پڑے گا تاکہ کماکر اپنا اور بچوںکا پیٹ بھرسکیں۔

انسان جیسی ذہانت رکھنے والی مشین کا سامنے آنا مگر ابھی کئی عشرے دور کی بات ہے۔ وجہ یہ کہ انسانی دماغ دراصل ہمارے بدن میں ایک نہایت پیچیدہ ’’اعصابی نظام‘‘ (Nervous system) کا حصہ ہے۔ ریڑھ کی ہڈی اور پورے انسانی بدن میں پھیلی اعصابی نسیں اس نظام کی دو اور بنیادی جزو ہیں۔اس کے علاوہ خود دماغ سینکڑوں ذیلی نظام اور حصے رکھتا ہے۔ سائنس دانوں کو انسان جیسی ذہین و فطین مشین تیار کرنی ہے، تو انہیں پورے اعصابی نظام کی نقل بنانا ہوگی۔ تبھی صحیح معنوں میں انسان نما مشین وجود میں آسکتی ہے۔ لیکن سائنس و ٹیکنالوجی ابھی اتنی ترقی یافتہ نہیں کہ وہ انسان کے اعصابی نظام کی نقل ایجاد کر لے۔ البتہ اسے تیار کرنے کی کوششیں ضرور ہورہی ہیں۔

صوفیہ …نسوانی روبوٹ

قابل ذکر بات یہ کہ شعبہ سافٹ ویئر اور شعبہ لرننگ کے ملاپ و ادغام سے ماہرین نت نئی مشینیں یا روبوٹ ایجاد کرنے لگے ہیں۔ یہ نئے روبوٹ پروگرامڈ روبوٹوں سے زیادہ بہتر ہیں۔ صوفیا(Sophia) بھی ایک ایسا ہی روبوٹ ہے جو مصنوعی ذہانت کی دونوں شاخوں کی مدد سے بنایا گیا۔ یہ روبوٹ اعضا کو حرکت دینے، سننے اور بولنے کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ بعض انسانی جذبات بھی عیاں کرتا ہے جیسے مسکرانا، سنجیدہ ہونا، غور کرنا۔

صوفیا کا مرکزی اعصابی نظام ڈیپ (مصنوعی) نیورل نیٹ ورک ، سافٹ ویئرز اور حساس آلات پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے اسے نسوانی انسان کی شکل دی گئی۔ پھر آنکھوں میں کیمرے، کانوں میں آلہ سماعت، حلق میں مائیکروفون اور مختلف اعضا حرکت میں لانے والے آلات نصب کیے گئے۔ پھر مصنوعی نیورل نیٹ ورک فٹ کرکے اس میں تمام آلات کو ہدایات دینے والے سافٹ ویئر بھرے گئے۔ آخر میں ڈیپ لرننگ ٹیکنالوجی کی مدد سے تمام سافٹ ویئرز اور آلات کو مربوط و منسلک کردیا گیا۔ یوں انسان کی طرح سننے، دیکھنے اور بولنے چالنے والے روبوٹ نے جنم لے لیا۔
لیکن صوفیا بنیادی طور پر احساسات و جذبات سے عاری مشین ہے۔

اس میں پہلے سے متعین جوابات دینے والا سافٹ ویئر موجود ہے۔ جب صوفیا کوئی سوال سنے، تو اس کا مصنوعی نیورل نیٹ ورک یا مصنوعی دماغ جوابات والے سافٹ ویئر سے رابطہ کرتا اور اسے کنگھالتا ہے کہ موزوں جواب کون سا ہونا چاہیے۔ جب موزوں جواب مل جائے، تو مصنوعی دماغ کے حکم پر مائیکرو فون اسے بول دیتا ہے۔ یہ جواب سوفیصد درست نہ ہو تب بھی سوال سے نسبت ضرور رکھتا ہے۔حقائق سے مگر عیاں ہے کہ صوفیا میں متعین ریاضیاتی ہدایات (سافٹ ویئرز کی صورت) موجود ہیں۔ وہ از خود کوئی جواب تخلیق نہیں کرسکتی۔ ہاں، ڈیپ لرننگ کے باعث اس میں یہ صلاحیت ضرور پیدا ہو گئی کہ وہ سینکڑوں جوابات میں سے موزوں جواب ڈھونڈ سکے۔

نئی باتیں تخلیق کرنے والا نیٹ ورک

مصنوعی ذہانت کی دنیا میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا انسان ایسی مشین تخلیق کرسکتا ہے جو اسی کے مانند ذہانت ہی نہیں احساسات و جذبات بھی رکھتی ہو؟ وہ خیر اور شر کے مابین تمیز کرلے؟ جب بھی انسان سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے ذہانت و جذبات رکھنے والی اپنی نقل بنانے میں کامیاب ہوا تو اُسے اعلیٰ تخلیق کار کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔۔

2014ء میں ڈیپ لرننگ کے مشہور امریکی ماہر، آئن گڈ فیلو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحقیق و تجربات کرتے ہوئے مصنوعی نیورونوں کا ایک نیا نیٹ ورک ایجاد کیا جو ’’جینیر یٹو ایڈورسیریل نیٹ ورک‘‘(Generative adversarial network) کہلاتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا مصنوعی نیٹ ورک ہے جو ازخود بھی نئی باتیں تخلیق کرسکتا ہے۔ گویا اس کا طریق کار انسانی دماغ سے مماثلت رکھتا ہے۔

فرض کیجیے، آپ باغ میں گئے اور وہاں آپ نے ایک خوبصورت چڑیا دیکھی۔ پھر آپ آنکھیں بند کرلیجیے۔ اب آپ اس چڑیا کے متعلق ایسی باتیں بھی سوچ سکتے ہیں جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتیں۔ مثلاً یہ کہ یہ چڑیا شاید پریوں کے دیس سے آئی ہے۔ یا یہ کوئی پری ہوگی۔ممکن ہے کسی جن نے اس چڑیا کا بھیس بدل رکھا ہو۔غرض ہمارا دماغ اس چڑیا کے متعلق نت نئے تصّورات اور خیالات جنم دینے کا اہل ہے۔ اسی لیے بعض سائنس داں دماغ کو چھوٹا سا خالق قرار دیتے ہیں جو ہر قسم کا خیال تخلیق کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔

اب انسان کے بنائے جینیر یٹو ایڈورسیریل نیٹ ورک بھی ایسے نمونے تخلیق کرنے کے قابل ہوچکے جو پہلے وجود نہیں رکھتے تھے۔ ان نیٹ ورکس کو عام طور پر ہزارہا تصاویر کا ڈیٹا فراہم کیا جاتا ہے۔ نیٹ ورک کا مصنوعی دماغ (نیورل نیٹ ورک) پھر اس ڈیٹا کی مدد سے تصویروں کے نت نئے نمونے اپنی مرضی سے تخلیق کرتا ہے ۔ مثلاً آپ نے نیٹ ورک کو کاروں کی سینکڑوں تصاویر فراہم کردیں۔ نیٹ ورک کاروں کا تجزیہ کرکے ان کے ایسے نمونے تیار کردے گا جو پہلے وجود ہی نہیں رکھتے تھے…اور یہ نمونے حقیقی کاروں جیسے ہی ہوتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل فرانس میں جینیر یٹو ایڈورسیریل نیٹ ورک میں مختلف عالمی شہرت یافتہ مصوروں کی پندرہ ہزار تصاویر اپ لوڈ کی گئیں۔ ان تصاویر کو جانچ پرکھ کر نیٹ ورک نے ’’اپنی‘‘ ایک تصویر تخلیق کرلی جس کو ’’ایڈمنڈ دی بیلامی‘‘(Edmond de Belamy) کا نام دیا گیا۔ اس تصویر کو شہرت تب ملی جب نیلامی کے مشہور ادارے، کرسٹی نے اسے نیلام کرنے کا اعلان کیا۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیق کی گئی یہ پہلی تصویر چار لاکھ بتیس ہزار پانچ سو ڈالر (پانچ کروڑ روپے سے زیادہ رقم) میں فروخت ہوئی۔

آئن گڈ فیلو اور اس کے ساتھی اب اپنے بنائے مصنوعی نیورل نیٹ ورک نظام کو مزید بہتر بنارہے ہیں۔ یہ نیٹ ورک دراصل دو نیٹ ورکوں پر مشتمل ہے۔ دونوں مل جل کر نت نئے نمونے تخلیق کرتے اورایک دوسرے کے ممدو معاون بنتے ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک میں جینیر یٹو ایڈورسیریل نیٹ ورک کی مدد سے انٹریئر اور انڈسٹریل کے نت نئے ڈیزائن، جوتوں اور بیگس کے نئے نمونے اور کمپیوٹر گیمز کے نئے مناظر تخلیق کیے جارہے ہیں۔

ڈیپ لرننگ کا ایک عملی مظہر گوگل کمپنی کا بنایا الفاگو کمپیوٹر سافٹ ویئر (AlphaGo system)بھی ہے۔ یہ کمپیوٹر پروگرام مشہور جاپانی کھیل، گو کھیلنے میں مہارت رکھتا ہے۔ یہ کھیل شطرنج اور ڈرافٹ سے ملتا جلتا ہے۔ الفا گو اب تک اس کھیل کے کئی نامی گرامی کھلاڑیوں کو شکست دے کر اپنی صلاحیتوں کا سکہ جما چکا۔

الفاگو کے ڈیٹا میں گو کھیل کی تیس لاکھ سے زائد چالیں محفوظ ہیں۔ یہ مصنوعی نیورونوں والے نیٹ ورک کے ذریعے کام کرتا ہے۔ اس کمپیوٹر پروگرام نے شروع میں انسانوں اور پھر دیگر کمپیوٹروں سے مقابلہ کیا۔ جب وہ گو کھیلنے میں طاق ہوگیا، تو اس کے مقابلے ماہر کھلاڑیوں سے کرائے گئے۔ جب یہ پروگرام معین عرصے تک کوئی چال نہ چل سکے، تو ہار مانتے ہوئے بند ہوجاتا ہے۔دنیا کی ابھرتی قوت، چین میں ہزارہا سائنس داں اور موجد شعبہ مصنوعی ذہانت میں کام کررہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں چینی سائنس داں امریکی و یورپی موجدوں سے آگے ہیں۔ گویا مستقبل میں چین مصنوعی ذہانت سے متعلق نت نئی ایجادات کا مرکز بن جائے گا۔یہ سچائی حال ہی میں عیاں ہوئی جب چین کی ممتاز خبررساں ایجنسی،شینہوا (Xinhua) نے دو انوکھے نیوز ریڈر متعارف کرائے۔ یہ دونوں مصنوعی نیورونز کا نیٹ ورک رکھتے ہیں۔ بولنے چالنے اور چہرے کی حرکات و سکنات میں انسان سے ملتے جلتے ہیں۔ ان مشینی نیوز ریڈروں کا فائدہ یہ ہے کہ نیوز ایجنسی اب چوبیس گھنٹے ان کے ذریعے خبریں نشر کرسکتی ہے۔

حرف آخر

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ مصنوعی ذہانت کے دونوں شعبوں(سافٹ ویئر اور مشین لرننگ)سے منسلک سائنس داں اب ایسی مشینیں اور روبوٹ ایجاد کرنے لگے ہیں جو زندگی کے مختلف شعبوں میں انسان کے مددگار بن سکتے ہیں۔خاص طور پر مستقبل میں شعبہ طب میں ان کی مدد سے بیماریوں کی تشخیص اور علاج کرنا ایک آسان عمل بن سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے شعبے کو ترقی دینے میں پاکستان سمیت کسی اسلامی ملک کا کوئی نمایاں کردار نہیں۔ دراصل بیشتر اسلامی ممالک میں حکمران طبقہ کرسی بچانے اور ذاتی خواہشات پوری کرنے میں محو ہے۔ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی پر توجہ نہیں دیتا‘ مصنوعی ذہانت تو دور کی چیز ہے۔ افسوس‘ علم سے دوری امت مسلمہ کو مغرب کی غلام بنا رہی ہے۔

انسانی تاریخ مگر افشا کرتی ہے کہ منفی سوچ رکھنے والے انسان ٹیکنالوجی کو شرانگیز سرگرمیوں میں بھی استعمال کرتے ہیں۔مصنوعی ذہانت کی حامل مشینیں اور روبوٹ بھی نت نئے ہتھیاروں کی صورت ڈھالے جا سکتے ہیں۔دور جدید کے دانشور مصنوعی ذہانت کے اسی پہلو سے خوفزدہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر انسان نے اپنے جیسے دماغ رکھنے والی مشینیں تیار کر لیں تو وہ مستقبل میں کسی بھی وجہ سے بغاوت کر کے بنی نوع انسان کو اپنا غلام بنا سکتی ہیں۔تب تک وہ مشین ہونے کے ناتے جسمانی و دماغی طور پر انسان سے زیادہ طاقتور اور ذہین ہو جائیں گی۔

The post اکیسویں صدی کا عجوبہ مشین کو انسان کا روپ دیتی سائنس appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>