امینہ، سارا اور عافیہ شاپنگ کے لیے گھر سے نکلی تھیں، گرمی حد سے سوا تھی۔ شاپنگ کے بعد اب وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتی تھیں کہ ایک سنسان سڑک پر گاڑی یک دم دو جھٹکے کھا کر رک گئی۔ عافیہ جو ان سب میں بے حد ڈر پوک واقع ہوئی تھی اس کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔
’’اب کیا ہوگا‘‘؟ عافیہ نے روہانسے لہجے میں بولی۔
’’اب تم دونوں گاڑی کو دھکا لگاؤگی۔‘‘ امینہ ہنستے ہوئے بولی۔
’’دھکا!!!‘‘ سارا بھی سوچ میں پڑ گئی۔ تب امینہ نے سائیڈ ریک میں سے ٹول باکس نکالا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ اس نے بونٹ کا ڈھکن اٹھایا اور کچھ کرنے لگی۔ دس منٹ بعد وہ پھر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکی تھی۔
’’بیٹری کا وائر شاٹ ہوگیا تھا۔‘‘ امینہ نے انھیں بتایا۔
’’تمھیں یہ سب بھی آتا ہے، یہ تو لڑکوں والے کام ہیں؟‘‘ عافیہ حیرانی سے بولی۔
جی ہاں! میرے بابا نے ڈرائیونگ سکھاتے وقت ہی مجھے یہ بات باور کروا دی تھی کہ گاڑی کا میکنیزم بھی سمجھنا ہو گا، ہلکی پھلکی مرمت اور کم سے کم پنکچر ٹائر تبدیل کرنا تو آنا ہی چاہیے تاکہ کسی بھی ہنگامی موقع پر پریشانی نہ ہو۔
جی قارئین! ہماری اکثریت یوں تو آج بھی عورت کو امورِ خانہ داری کے بعد زیادہ سے زیادہ بیوٹیشن، کسی قسم کا گلاس اور پیپر ورک سیکھنے یا پھر انٹیرئر ڈیزائنر بننے کے قابل ہی سمجھتی ہے یا پھر یہ کہ اگر کوئی عورت گھر میں بوریت محسوس کرے اور اس کے پاس کوئی خاص کام نہ ہو تو خود کو مصروف رکھنے کے لیے اسے باغبانی کا مشغلہ اپنانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے، مگر یہ بھی درست ہے کہ اب ہماری فکر اور رویّوں میں تبدیلی آرہی ہے۔ آج عورت جہاں گھر بیٹھے مختلف ہنر سیکھ رہی ہے، وہیں مردوں کے شانہ بشانہ کام بھی کر رہی ہے۔
عورت گھر اور دفاتر میں کام کر کے کمانے کے علاوہ سڑکوں پر ٹرک چلاتی اور فضا میں ہوائی جہاز اڑاتی نظر آرہی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب عورت یہ سب کر سکتی ہے تو جب وہ اپنی کار کے انجن کی کوئی خرابی دور کررہی ہو تو اسے حیرت سے کیوں دیکھا جائے؟ کار یا بائیک کا کوئی عام مسئلہ، گھر کا کوئی نلکا یا سوئچ بورڈ تبدیل کرنا، الیکٹرک وائرنگ اور پانی کی موٹر کی ریپئرنگ کا معاملہ تو کیا صرف کوئی مرد ہی اسے ٹھیک کر سکتا ہے۔ اوزار تھام کر کوئی لڑکی کسی مشین کے ساتھ جوجھ رہی تو تعجب کیسا؟
لڑکے رسمی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ریڈیو، ٹی وی ٹھیک کرنا، خراب استری بنانا یا بجلی کا چھوٹا موٹا کام اپنے دوستوں سے یا کسی قریبی دکان پر بیٹھ کر سیکھ ہی لیتے ہیں، مگر لڑکیوں کو زیادہ تر سلائی کڑھائی اور کچن کے معاملات تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ان کا بنیادی وظیفہ بھی ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کئی مرد بہترین کُک بھی ہیں۔
انہوں نے پکوان سیکھا اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے بعد نام اور پیسہ بھی کمایا۔ اسی طرح سلائی کڑھائی کا کام ہے جو بنیادی طور پر خواتین کاشعبہ ہے، مگر یہاں بھی مرد ڈریس ڈیزائنر اور ٹیلر کے طور پر جانے مانے جارہے ہیں۔ اسی طرح کوئی لڑکی اوزار سنبھال کر الیکٹرک بورڈ، واشنگ مشین، فریج، گاڑی کا انجن یا پانی کی موٹر ٹھیک کرسکتی ہے اور یہ اس کا شوق اور روزگار بھی بن سکتا ہے۔ بظاہر یہ مشکل لگتا ہے، مگر لڑکی کم از کم اپنے گھر کے کئی کام نمٹا سکتی ہے۔
ہمارے ہاں ٹیکنیکل تعلیم اور ایسے ہنر سکھانے کے ادارے موجود ہیں جو مشین اور بھاری اوزاروں سے متعلق ہیں۔ میٹرک کے بعد طلبہ و طالبات پولی ٹیکنیک اداروں سے مختلف مدتی کورسز اور ڈپلوما حاصل کرسکتے ہیں۔ اس میں مرد و زن کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہ بس شوق اور ہمت کی بات ہے۔ سرکاری اداروں کے علاوہ ہمارے ہاں نجی اداروں میں بھی مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں اور ٹیکنیکل تعلیم دی جاتی ہے۔ انہی اداروں میں مختصر مدتی کورسز میں تین سے چھے ماہ تک کے دورانیے میں ہنر سکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ان میں آٹھویں پاس بھی داخلہ لے سکتے ہیں۔ فی الوقت ایسے اداروں میں ہمیں لڑکے ہی مختلف ٹریڈ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ لڑکیوں کی اس معاملے میں گھر والوں کی طرف سے حوصلہ شکنی ہے، اور پھر ان کا شوق اور فطری رجحان مختلف ہونا بھی ہے، مگر روایت شکن اور باہمّت خواتین اب ٹرک ڈرائیونگ، بائیک چلانے کے ساتھ گاڑیوں کے انجن باندھنے کا کام بھی کر رہی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ لڑکیاں ویلڈنگ، پلمبرنگ، الیکٹریشن اور موٹر مکینک جیسے شعبوں میں بھی قدم رکھیں اور اپنے شوق اور لگن سے یہ ہنر سیکھیں۔
ٹیکنیکل اداروں کے بارے میں معلومات انٹرنیٹ سے اکٹھی کی جاسکتی ہیں۔ آپ آٹومیکینکل، ریفریجریشن، اے سی اور موبائل فون ریپئرنگ کے علاوہ ڈرافٹنگ اور بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔
کراچی کے ایک صاحب کے بارے میں چند ماہ پہلے ایک ٹی وی چینل پر رپورٹ نشر ہوئی تھی جس کے مطابق انہوں نے اپنی بیٹیوں کو نہ صرف موٹر بائیک چلانا سکھایا بلکہ مختلف ایسے کام بھی سکھائے جو عموماً مردوں سے منسوب ہیں۔ جیسے بجلی کی وائرنگ اور اسی سے متعلق مختلف کام، گاڑی کے انجن کی دیکھ بھال، پانی کی موٹر کی خرابی دور کرنا وغیرہ۔ اسی طرح ایک اور صاحب نے اپنی بیٹیوں کو پلمبرنگ، الیکٹریشن کا کام سیکھنے کا موقع دیا جب کہ انہی کی ایک بیٹی کو گھر کی سجاوٹ کے ساتھ رنگ ریزی کا شوق تھا اور انہوں نے اسے یہ سیکھنے اور کرنے کا موقع دیا۔
بظاہر یہ سب انوکھا اور عجیب معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتاً یہ سب ہماری سوچ کا الٹ پھیر ہے۔ غور کریں کہ یہ سارے کام مردوں ہی تک کیوں محدود ہیں اور وہ بھی آج کے دور میں تو آپ کو خود بھی بہت عجیب لگے گا۔ سوچیے اب تو خواتین بم ڈسپوزل اسکواڈ کا بھی حصّہ ہیں اور لوگوں کی زندگیاں بچانے کی خاطر بارود کو ناکارہ بنانے میں اسکواڈ کے مرد اراکین کا ساتھ دے رہی ہیں۔ یہ سب پہلے تو ہم نے نہیں دیکھا تھا۔ اب یہ ہماری تعمیری اور مثبت سوچ کے ساتھ ممکن ہو گیا ہے۔
یہ ہنر اور چھوٹے موٹے کام سیکھنا صرف شوق کی بات نہیں بلکہ جب مرد کسی وجہ سے گھر میں موجود نہ ہوں، یا بیرونِ شہر اور ملک مقیم ہوں تو معمولی نوعیت کے کاموں کے لیے خواتین کو پریشان نہیں ہونا پڑتا اور اس کی اہمیت آپ پر واضح ہو جاتی ہے۔ ایسے ہنر اور کام جاننے والی خواتین کو کسی کی خوشامد کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی اپنی جیب ہلکی کرنی پڑتی ہے۔ وہ اپنا مسئلہ خود ہی حل کر لیتی ہیں اور اس سے خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔
جی ہاں۔ اب اگر آپ کو راستے میں، کسی سڑک کے کنارے کوئی لڑکی گاڑی کا پنکچر ہو جانے والا ٹائر تبدیل کرتی نظر آئے تو اچنبھے کا شکار نہ ہوں بلکہ یہ سوچیں کہ آپ کے گھر کی خواتین بھی اگر حالات اور مسائل سے نمٹنے اور معمولی نوعیت کے ایسے کام انجام دینے کی عادی ہوں تو آپ گھر میں اپنی غیرموجودگی کے دوران بھی ان کی طرف سے بے فکر اور مطمئن رہ سکتے ہیں۔
آپ بھی اپنے گھر کی خواتین کو رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سکھانے کی طرف توجہ دیں اور جہاں تک ممکن ہو ان کا ساتھ دیں۔ ہمارے ہاں اگرچہ اب بھی بہت کچھ ممکن نہیں اور عورت کو اپنی صلاحیتوں، حیثیت اور اہمیت کو منوانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی جبر کا مقابلہ کرنا ہے، مگر مثبت تبدیلی کی خواہش اور تعمیری سوچ کے ساتھ ہر فرد عورتوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو عزت و مقام دے تو یہ سب ممکن ہے۔
The post عورت یہ بھی کر سکتی ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.