آج کا سب سے بڑا مسئلہ امن ہے۔
یہ حقیقت دنیا کی ترقی یافتہ اقوام سے لے کر پس ماندہ ممالک تک سبھی نے تسلیم کرلی ہے کہ اکیس ویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتامی برسوں میں کسی بھی تفریق اور امتیاز کے بغیر اس پورے کرۂ ارض کی سب سے بڑی ضرورت امن ہے۔ یہ تو نہیں کہا جارہا اور کہا بھی نہیں جانا چاہیے، اس لیے کہ اس رائے سے خوف اور مایوسی کا احساس بڑے پیمانے پر پھیلنے کا اندیشہ ہے، تاہم سچ یہی ہے کہ اس وقت دنیا کی ایک بڑی آبادی اسی ماحول میں جی رہی ہے، جسے حالتِ جنگ کہا جاتا ہے۔
یہ اپنی جگہ حقیقت ہے اور دوسری طرف ایک اور عجیب و غریب بات ہے۔ وہ یہ کہ جنگ تو ہمیشہ دو فریقین کے درمیان ہوتی ہے اور کسی مسئلے، بنیاد یا جواز پر، لیکن اس وقت جو لوگ اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں، اُن میں بہت بڑی اکثریت ان کی ہے جو بے چارے نہ تو اپنے دشمن کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی انھیں یہ معلوم ہے کہ آخر انھیں کیوں اس جنگ میں جھونک دیا گیا ہے۔
دہشت گرد حملے، بم دھماکے، اچانک اور بے جواز فائرنگ اسی حالتِ جنگ کے وہ مظاہر ہیں جن کا تجربہ آئے دن کہیں نہ کہیں انسانی آبادی کو ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور عراق تو براہِ راست دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، اس لیے کہ وہ اُن کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ان ملکوں میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ یا تو دہشت گردوں کے اقدامات کا نتیجہ ہے یا پھر مدافعت کا اظہار۔ چناںچہ ان علاقوں میں بار بار جنگ کے حالات کا نقشہ ابھرتا رہتا ہے۔ بہرحال ان ملکوں کے لیے تو یہ بقا کی جنگ ہے۔
تاہم ایران، مصر، شام، یمن اور قطر جیسے ممالک بھی وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی عنوان سے ان شعلوں کی لپیٹ میں آتے رہتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ گزشتہ چند ماہ میں برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور امریکا میں بھی دہشت گردی کے جو واقعات ہوتے رہے ہیں، ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس آگ کی لپٹیں کہاں کہاں تک اور کس کس انداز سے پہنچ رہی ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے لے کر پس ماندہ علاقوں تک اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ذہن میں فطری طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اب بارود کی بو اور تیزابی دھویں کے یہ بادل، یک بہ یک کہیں بھی بھڑک اٹھنے والی یہ آگ، انسانی وجود کو چیتھڑوں میں بدل ڈالنے والے دھماکے مستقل طور پر انسانیت کا مقدر ہوکر رہ گئے ہیں؟
اس سوال کا جواب مشکل ہے، خاصا مشکل اور بہت اعصاب شکن بھی۔ مشکل اس لیے ہے کہ یہ صرف امن کی آرزو کا سوال نہیں ہے، بلکہ یہ تو اس عہد کی فطرت کی کھوج کا معاملہ ہے۔ اسی فطرت کی کھوج کہ جو اس کرۂ ارض پر انسانیت کے آئندہ کی صورت گری کررہی ہے۔ چناںچہ اس ایک سوال کے جواب کی تلاش کے لیے آپ کو بہت سے معاملات کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے عوامل کے دیرپا اور وسیع ہوتے ہوئے دائرۂ اثر پر بھی نگاہ رکھنی ہوگی۔ دنیا میں امن کا مسئلہ جتنا گمبھیر ہے، اس کے قیام اور دہشت گردی کی روک تھام کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ آج دہشت گردی کے پس منظر میں مختلف محرکات اور متنوع قوتیں کام کر رہی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی جگہ کوئی خودکش حملہ ہوتا ہے اور سولہ یا اٹھارہ سال کا کوئی نوجوان بم باندھ کر نہ صرف خود کو اڑا لیتا ہے، بلکہ اپنے ساتھ ساتھ کتنی ہی دوسری بے گناہ اور قیمتی انسانی جانوں کو بھی تلف کردیتا ہے تو اس مسئلے کی تحقیقات کا دائرہ صرف اس حد تک نہیں ہوسکتا کہ یہ نوجوان کون تھا، کہاں کا رہنے والا تھا، یہاں کب اور کیسے پہنچا تھا اور جس جگہ، یعنی جن لوگوں کے درمیان اس نے یہ کارروائی کی ہے، ان سے اس کی کیا دشمنی تھی؟ دہشت گردی کے اس منظرنامے میں رونما ہونے والے اس طرح کے کسی بھی واقعے کی تفتیش کے لیے اس نوع کے سوالات تو بہت سادہ ہیں، اتنے کہ ان کا جاننا اور نہ جاننا دونوں برابر ہیں۔ اس لیے کہ یہ نوجوان جو اپنی جان تک نچھاور کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اُس پورے نظام کا ایک بہت چھوٹا سا، بہت ادنیٰ سا پرزہ ہے جو ایسے واقعات کی منصوبہ بندی کرتا اور ان کو رو بہ عمل لانے کے لیے انتظام کرتا ہے۔
ایسے کسی بھی واقعے میں بم باندھ کر پھٹنے والے نوجوان برین واش کیے جانے کے بعد ایک سیدھے سادے سے روبوٹ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ پرانے لوگوں نے کٹھ پتلی کا تماشا دیکھا ہوگا۔ پردے کے آگے کٹھ پتلیاں تماشا کرتی تھیں، لیکن اُن کو ہلانے، حرکت دینے والے ہاتھ پردے کے پیچھے ہوتے تھے۔ یہ ہاتھ ڈور ہلاتے اور کٹھ پتلیاں تماشا دکھانے لگتیں۔ اسی طرح آج ریموٹ کنٹرول سے یہی کام لیا جاتا ہے اور یہ ریموٹ کسی اور ہاتھ میں ہوتا ہے۔ بم باندھنے والا نوجوان ایک روبوٹ کی طرح ہوتا ہے۔ اُسے جو کمانڈ دے دی جاتی ہے، وہ اس کو پورا کرتا ہے۔
غور طلب اور تفتیش کے لائق مسئلہ یہ ہے کہ بھلا انسانی وجود کس طرح ایک مشین میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اُس کی اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کس طرح معطل ہوجاتی ہیں کہ پھر وہ سب کچھ میکانکی انداز میں کرتا چلا جاتا ہے؟ یہ سوال یقیناً خود غور طلب ہے اور اس کی وضاحت مختلف تجزیات کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اس میں معاشرتی رویے، معاشی حالات، مذہبی بیانیہ اور سماجی حقائق جیسے بہت سے معاملات کو سامنے رکھ کر ایک بہتر جائزہ مرتب کیا جاسکتا ہے اور ان حالات کے عقب میں کارفرما بنیادی محرکات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں افغانستان میں ہونے والی ایک دہشت گرد کارروائی نے اس خطے میں امن کے مسائل اور ان پر قابو پانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں ایک بار پھر سنجیدہ اور غور طلب سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ واقعہ قندھار میں ہوا ہے۔ اس حملے میں اعلیٰ سرکاری اور قومی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس حملے کا ایک مرکزی ہدف، یعنی افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر تو اس حملے میں بال بال بچ گیا، لیکن این ڈی ایس انٹیلی جنس سروس کے مقامی کمانڈر، صوبہ قندھار کے گورنر اور قندھار پولیس کے سربراہ جیسے اعلیٰ سرکاری افراد مار دیے گئے۔ اس واقعے کی ذمے داری طالبان نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں حملے کے لیے قندھار پولیس کے سربراہ عبدالرزاق اور امریکی کمانڈر اسکاٹ ملر کو ہدف بنایا گیا تھا۔
گویا اس حملے میں طالبان کو پوری کامیابی حاصل نہیں ہوئی کہ اس کا ایک اہم ہدف بچ گیا، لیکن دوسرا بنیادی ہدف، یعنی پولیس سربراہ عبدالرزاق مارا گیا۔ قندھار کے پولیس سربراہ کی ایک بے حد متحرک اور نہایت سخت گیر، بلکہ سفاک افسر کی حیثیت سے شہرت تھی جو باغیوں کا جانی دشمن سمجھا جاتا تھا۔ اس لحاظ سے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ طالبان نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور بڑی شخصیات کو موت کے گھاٹ اتار کر انھوں نے افغانستان حکومت اور امریکا دونوں کو پوری قوت سے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔
طالبان کی طرف سے یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ دو دن بعد پارلیمانی انتخاب ہونے والا تھا۔ ظاہر ہے، یہ حملہ اس انتخاب پر اثر انداز ہونے کی کوشش تھی جو یقینا کامیاب رہی اور اس کے بعد انتخاب کی صورتِ حال تبدیل ہوگئی تھی۔ یہاں ایک اہم بات یہ بھی قابلِ غور ہے کہ اس سے پہلے امریکا اور طالبان کی اعلیٰ کمان کے مابین مذاکرات کی بات چل رہی تھی، اور طرفین اس نکتے پر متفق نظر آتے تھے کہ مستقبل کے لیے امن کی فضا کو ممکن بنایا جائے۔
اس واقعے کے بعد امن مذاکرات میں پیش رفت کی فوری توقع یقینا بے سود ہوگی۔ طالبان نے جس طرح اس واقعے کی ذمے داری قبول کی ہے، اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اُن کے لیے اپنے وجود کا احساس دلانا اور اپنی طاقت کا اظہار کرنا، مذاکرات سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں اس حملے میں انھوں نے جو ہدف حاصل کیا ہے، وہ افغانستان کی سیاسی حکومت اور انٹیلی جنس سروس کو ہی یہ باور کرانے کے لیے نہیں، بلکہ خود امریکا کو بھی یہ پیغام دینے کے لیے کافی ہے کہ برسوں کی جنگ اور ابھی وہاں امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود افغانستان اس وقت تک بھی طالبان کے اثر سے مکمل طور پر نہیں نکلا ہے۔
افغانستان میں رونما ہونے والے تازہ واقعے کی نوعیت بے شک ذرا الگ ہے، اس لیے کہ اس میں اعلیٰ ترین سطح کی شخصیات کو ہدف بنایا گیا ہے، لیکن ایسے واقعات جن میں ان سے کم درجے کی شخصیات یا عوام کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، امریکا، کینیڈا اور برطانیہ سے لے کر پاکستان اور عراق جیسے ممالک میں وقفے وقفے سے دیکھنے میں آتی رہتی ہیں۔ دنیا کی اس صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا مستقبل قریب میں دنیا میں قیامِ امن کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا سیدھا، صاف اور مختصر سا جواب ہے، نہیں۔ یہ جواب بہت سے لوگوں کے لیے افسوس ناک اور مایوس کن تو ضرور ہوسکتا ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ اس وقت دنیا میں امن و امان کا نقشہ اسی حقیقتِ حال کو پیش کرتا ہے۔ قیامِ امن کی خواہش یا ایک محفوظ دنیا کا خواب اپنی جگہ اور اس سے بھی انکار نہیں کہ یہ ہمیشہ سے انسان کی سب سے بڑی آرزو اور اس کے لیے نہایت قیمتی چیز رہی ہے، لیکن اس دور میں ارضی حقائق اس خواب اور اس آرزو کی کھلے لفظوں میں نفی کررہے ہیں۔
اگر آپ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا مطالعہ کریں تو اُس کے ساتویں باب میں آپ کو اُن اقدامات کی تفصیل ملے گی جو اس کرۂ ارض پر امن قائم یا بحال کرنے اور دنیا کو انسانوں کے لیے ایک محفوظ قیام گاہ بنانے کے لیے اقوامِ متحدہ نے اپنے لیے طے کیے ہیں۔ ظاہر ہے، ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر ممکن کوشش اور ضروری اقدام پر غور بھی ضرور کیا جاتا ہوگا۔ اس کے باوجود ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ یہ دنیا پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہوتی چلی جارہی ہے اور امن کے لیے اس دنیا کی مقتدر اقوام کی کوششیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔
آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک نہیں متعدد وجوہ ہوں گی، لیکن اگر بنیادی وجہ کو سمجھ لیا جائے تو سارا مسئلہ صاف صاف سامنے آجاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ سیکیوریٹی کونسل کے جو پانچ مستقل ممبر ممالک ہیں، وہ سب کے سب اسلحے کی تجارت کرتے ہیں اور دنیا بھر میں اسلحے کی جو خرید و فروخت ہوتی ہے، اس میں ان پانچ ملکوں کا مجموعی حصہ تقریباً 70 فی صد ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ اس صورتِ حال میں امن کی کوششیں کیا معنی رکھتی ہیں۔
اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا جو اسلحہ بیچ رہا ہے، اُس کی مقدار روس کے مقابلے میں 58 فی صد زیادہ ہے۔ دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ حال ہی میں ہندوستان نے روس کے ساتھ اسلحے کی خریداری کا ایک معاہدہ کیا ہے جس کی مالیت پانچ اعشاریہ دو ارب ڈالر ہے۔ اس رقم کے عوض ہندوستان روس سے ایس 400 ایئر ڈیفنس سسٹم خرید رہا ہے۔
ہندوستان نے اپنے دفاعی اخراجات میں 2012-16ء کے مقابلے میں 43 فی صد اضافہ کیا ہے۔ اب اُس کے اسلحے کے اخراجات اس خطے میں اپنے فریقین (پاکستان اور چین) کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ اس ایک مثال کو سامنے رکھتے ہوئے غور کیا جاسکتا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں اس خطے میں امن کے امکانات حقیقت میں کس قدر باقی رہ جاتے ہیں۔ اسلحے کا کوئی بھی خریدار کیا اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ اس کا مقصد دراصل اپنی تباہ کن طاقت کا اظہار ہے۔ جب اس مقدار میں اسلحہ دست یاب ہوگا تو فریق یا باہمی تناؤ رکھنے والے ممالک کے مابین کوئی بڑی براہِ راست جنگ نہ بھی ہو، لیکن اتنا تو بہرحال طے ہے کہ جھڑپیں اور دفاعی پیش قدمی یا اسٹریٹجک اسٹرائیک کے نام پر ہونے والی جارحیت اُن کے خطے میں امن کے امکان کو لازماً اور مسلسل کم سے کم تر کرتی رہے گی۔
اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک امریکا سے اسلحہ خریدتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی ریاستیں ان میں سرِفہرست ہیں۔ بات صرف جنگی اسلحے کی بھی نہیں ہے۔ چھوٹے اسلحے کی خریداری بھی بہت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ صرف امریکا سے ہر سال 85 ارب ڈالر کا چھوٹا اسلحہ دنیا کو فروخت کیا جاتا ہے۔ چین نے اپنی معیشت کے نہایت تیز پھیلاؤ کے بل بوتے پر اب دنیا میں اور خصوصاً تجارتی منڈی میں اپنی حیثیت بہت بلند کرلی ہے۔ علاوہ ازیں دنیا کے مختلف ملکوں میں مختلف طرح کی سرمایہ کاری کے ذریعے بھی وہ اقوامِ عالم میں مقتدر حیثیت میں ابھرا ہے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ 2013-17ء کے عرصے میں اس نے اپنے دفاعی اخراجات میں 38 فی صد اضافہ کیا ہے اور اب امریکا کے بعد وہ دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کا اتنا بڑا دفاعی بجٹ ہے۔
اسلحے کی اس بھرمار کا تماشا یوں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ پاکستان، عراق، افغانستان اور ہندوستان جیسے ملکوں میں جہاں بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی اب تک اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس پر قابو نہیں پایا جاسکا، لیکن اس کے باوجود ان ملکوں کی حکومتیں بڑھ چڑھ کر اسلحہ خریدتی ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ان ملکوں کے عوام کو بھی عام استعمال کا چھوٹا اسلحہ بھی بہت آسانی اور فراوانی سے مہیا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شام، یمن اور جنوبی سوڈان میں بھی جو سول وار کے حالات دکھائی دیتے ہیں، ان کا سبب اسلحے کی آسانی اور بہتات کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
اسلحے سے دنیا کو پاک کرنے کے اعلانات ہوتے ہیں، ایس اے ایل ٹی I اور II کے معاہدے تیار کیے جاتے ہیں اور اُن پر دستخط بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح 2014ء میں اسلحے کی تجارت کا بھی ایک معاہدہ تیار کیا گیا تھا، جس کا مقصد اس امر کا جائزہ لینا اور اس کے لیے اقدامات کرنا تھا کہ دیکھا جائے کہاں، کتنا اور کس مقصد کے لیے اسلحہ لیا جارہا ہے۔ یہ سب باتیں اچھی تو بہت ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب کی سب صرف اور صرف کہنے کی باتیں ہیں۔ عملی سطح پر ان کے کوئی اثرات اب تک دیکھنے میں نہیں آئے ہیں۔ اسلحے کی اس تجارتی ریل پیل اور اندھی دوڑ میں ذرا خود سوچ لیجیے کہ دنیا میں امن کا خواب بھلا کیا معنی رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ مقتدر ممالک جو بڑھ چڑھ کر دنیا میں اسلحہ فروخت کرتے ہیں، امن کے خواب بھی دراصل دنیا بھر کے انسانوں کے دلوں میں وہی بوتے ہیں۔ امن کے خواب کی بڑھتی ہوئی یہی خواہش اصل میں اسلحے کے کاروبار کی افزائش کا ذریعہ بن رہی ہے۔
The post اسلحے کی تجارت اور امن کا خواب appeared first on ایکسپریس اردو.