پہلا منظر: طارق صا حب کا آج اس بینک میں تیسرا چکر ہے، انہوں نے چند ماہ قبل ہی تمام جمع پونجی لگا کر اپنے بیٹے کو بہ سلسلہ روزگار ایک خلیجی ملک بھیجا ہے۔ انہیں امید تھی کہ بیٹا باہر جاتے ہی باقاعدگی سے مناسب رقم بھیجنا شروع کردے گا، جس سے ان کی تمام مالی مشکلات ختم تو نہیں لیکن کم ضرور ہوجائیں گی، لیکن اب ان کے گھر میں فاقوں کی نوبت آچکی ہے، کیوں کہ ساری رقم تو وہ بیٹے کو باہر بھیجنے پر خرچ کرچکے ہیں۔
بیٹا وہاں ملازمت کررہا ہے اور خوش قسمتی سے اسے کفیل بھی بہت اچھا ملا ہے جس نے ایک ماہ پورا ہوتے ہی اس کی اُجرت دے دی ہے، لیکن بیٹے کو ملنے والی اُجرت فی الوقت ان کی دسترس میں نہیں، بیٹا روز فون کر کے ان سے ایک ہی سوال کرتا ہے اور ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے ’نہیں‘۔
طارق صاحب بینک کاری نظام کے اس قانون کا شکار ہیں جس کے تحت وہ اس وقت تک بینک اکائونٹ نہیں کُھلوا سکتے جب تک ان کے ایکسپائر ہوجانے والے شناختی کارڈ کی تجدید نہیں ہوجاتی۔ اور شناختی کارڈ بنوانا ان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف، طارق صاحب نے آج پھر بینک میں بڑے افسر کے پاس جا کر داد رسی چاہی، لیکن ٹھنڈے کمرے میں آرام دہ کُرسی پر تقریباً نیم دراز بینک منیجر نے پسینے میں شرابور طارق صاحب کی اس درخواست کو بیک جنبش قلم مسترد کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی پالیسیاں بتانی شروع کردیں ’بڑے صاحب! یہ معاملہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، اگر بایو میٹرک کے بنا آپ کا اکائونٹ کھول دیا تو اسٹیٹ بینک ہماری برانچ پر جُرمانہ عاید کردے گا، یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ ایکسپائر شناختی کارڈ پر بینک اکائونٹ کسی صورت نہیں کُھل سکتا۔‘‘ افسر یہ کہہ کر فون پر کسی سے باتوں میں مصروف ہوگیا۔ خالی پیٹ اور خالی جیب والے طارق صاحب پالیسیوں کے گورکھ دھندے میں الجھے ہوئے خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئے۔
دوسرا منظر: ایک مصروف شاہ راہ پر موجود بینک کے کیش کائونٹر پر ایک نوجوان کیشیئر سے منت سماجت کر رہا ہے، سر کچھ دیر بعد میرا پیپر شروع ہونے والا ہے، اور پیپر دینے سے پہلے مجھے یہ پیسے گائوں میں اپنے والد صاحب کے اکائونٹ میں لازمی جمع کروانے ہیں، لیکن کیشیئر اس کی بات کو سننے سے یکسر انکاری ہے، کیوں کہ وہ ’اصول کا پکا‘ انسان ہے اور اصول کے مطابق پچاس ہزار سے زیادہ کی رقم جمع کروانے کے لیے اصل شناختی کارڈ کا ہونا لازمی ہے۔ اس نوجوان کا جُرم یہ ہے کہ اس نے کسی ناگہانی صورت حال سے بچنے کے لیے اپنے پرس میں اصل شناختی کارڈ کی جگہ اس کی کاپی رکھی ہوئی ہے، لیکن نوجوان کی ’زبان درازی ‘ نے اس بات کو کیشیئر بادشاہ کی انا کا مسئلہ بنا دیا ہے اور اب وہ اصلی شناختی کارڈ دیکھے بنا یہ رقم جمع نہیں کرے گا۔
تیسرا منظر: جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹائون کا مکین عبدالقادر نامی ایک فالودہ فروش رزق حلال کمانے کے لیے ٹھیلے پر فالودہ فروخت کر رہا ہے۔ اسی دوران اس کے موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے، دوسری جانب موجود فرد کی بات سُن کر اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی ہیں۔ ساری زندگی رزق حلال کمانے والے عبدالقادر نے تو کبھی پولیس اسٹیشن کی شکل تک نہیں دیکھی تھی، لیکن آج اسے پولیس سے بھی زیادہ طاقت ور ادارے ایف آئی اے نے اپنے دفتر طلب کیا تھا۔ ہانپتا کانپتا جلدی جلدی ایف آئی اے دفتر پہنچا۔ اسے ایک کمرے میں بٹھادیا گیا اور کچھ دیر بعد چند افسران اس کے سامنے بیٹھے تھے۔
ان میں سے ایک نے پوچھا ’کیا کام کرتے ہو؟ عبدالقادر نے گھبراتے ہوئے جواب دیا،’سر! میں ٹھیلے پر فالودہ فروخت کرتا ہوں، اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی دوسرے افسر نے سوال ایک اور سوال کردیا جسے سُن کر عبدالقادر کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سوال ہی کچھ اتنا حیران کُن تھا، جس بندے نے ساری زندگی لاکھ روپے بھی اکٹھے نہ دیکھیں ہو وہ راتوں رات ارب پتی بن چکا تھا۔ افسر نے اسے بتایا کہ اس کے اکائونٹ میں سوا دو ارب روپے کی خطیر رقم موجود ہے۔ انگوٹھا چھاپ عبدالقادر کا بینک اکائونٹ کسی بینک آفیسر کی جانب سے بایو میٹرک اصول کو بالائے طاق رکھ کر اور اصل شناختی کارڈ کے بغیر پچاس ہزار سے زاید رقم جمع نہ کرنے کے اصول بتانے والے کسی کیشیئر کی ملی بھگت سے نہ صرف کُھل چکا تھا، بلکہ اس میں اربوں روپے کی خطیر رقم بھی موجود تھی۔
ایف آئی اے نے جب اپنی تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو صرف یہی نہیں بلکہ خاتون خانہ، طالب علم یہاں تک کہ ایک مُردے کا بینک اکائونٹ بھی سامنے آگیا۔ ان اکاؤنٹس میں کروڑوں، اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کی جا رہی تھی۔ مزید تحقیقات کے بعد وزارت داخلہ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں 95 مشتبہ افراد کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی۔ سپریم کورٹ نے بھی جعلی بینک اکائونٹس کا نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے پر کارروائی شروع کردی ہے ۔
جعلی اکاؤنٹس سے مبینہ طور پر اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے کے مقدمے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے اب تک ہونے والی پیشرفت سے متعلق سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ بھی جمع کروائی ہے جس کے مطابق 107 جعلی اکاؤنٹس سے 54 ارب روپے سے زائد کی رقم دوسرے ملکوں میں منتقل کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق کچھ بینک اکائونٹس محدود مدت کے لیے کھولے گئے اور اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے کے بعد ان اکاؤنٹس کو بند کردیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک عام شہری بایو میٹرک کے بغیر بینک میں اکائونٹ نہیں کُھلوا سکتا، اصل شناختی کارڈ کے بغیر پچاس ہزار روپے سے زائد کی رقم کسی دوسرے اکائونٹ میں جمع نہیں کرواسکتا تو پھر غریب لوگوں کے نام پر اکائونٹ کیسے کھلے اور ان میں بنا شناختی کارڈ دیکھے اتنی بڑی رقوم کا لین دین کیسے ممکن ہوا۔
اس بابت ایک سنیئر بینکار (نام ظاہر کرنے سے منع کردیا) کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے مطابق ہر سرکاری اور نجی بینک کے ہیڈ آفس سے دن کے اختتام پر ایک ٹرانزیکشن مانیٹرنگ رپورٹ جاری ہوتی ہے، جس میں ایسی ٹرانزیکشن کی نشان دہی کی جاتی ہے جن میں پانچ لاکھ سے زیادہ رقم جمع کرائی گئی ہو۔
تاہم زیادہ تر بینک کاروباری مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کی ٹرانزیکشنز کی رپورٹ اسٹیٹ بینک کو نہیں کرتے۔ تاہم اگر کسی بینک اکائونٹ میں ایک دن میں بیس لاکھ سے زیادہ رقم جمع کرائی جائے تو پھر متعلقہ بینک ایک سی ٹی آر (کرنسی ٹرانزیکشن رپورٹ) جاری کرکے لازماً مرکزی بینک کو رپورٹ کرتا ہے۔ اب یہ مرکزی بینک پر منحصر ہے کہ وہ اس رپورٹ کی روشنی میں کیا کارروائی کرتا ہے۔ 6 جنوری 2012کو اسٹیٹ بینک نے ایک سرکلر نمبر 01آف 2012جا ری کیا، جس میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010کی روشنی میں تمام مالیاتی اداروں، بہ شمول ایکسچینج کمپنیوں، نجی، سرکاری اور مائیکرو فنانس بینکس کے لیے کسی بھی ایس ٹی آر (سسپیشیزٹرانزیکشن رپورٹ) اور کرنسی ٹرانزیکشن رپورٹ (سی ٹی آر) کی فوری رپورٹ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ میں کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے چار صفحات پر مشتمل سی ٹی آر فارم کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں ٹرانزیکشن کرنے والے فرد کی مکمل تفصیلات، دوسرے حصے میں کی گئی ٹرانزیکشن کی تفصیلات، ٹرانزیکشن کی تاریخ، کرنسی کی شکل اور ٹرانزیکشن کی نوعیت کا اندراج کیا جاتا ہے۔ فارم کے تیسرے حصے میں متعلقہ مالیاتی ادارے کا نام، برانچ کوڈ، این آئی ایف ٹی کوڈ، برانچ کا مکمل پتا اور رپورٹنگ آفیسر کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں، جب کہ ایس ٹی آر کا پانچ صفحات پر مشتمل رپورٹنگ فارم چار حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلے حصے میں جہاں ٹرانزیکشن کی گئی ہے اس مالیاتی ادارے کا نام، مکمل پتہ، این آئی ایف ٹی کوڈ، پرائمری ریگولیٹر (اسٹیٹ بینک، سیکوریٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) اور رپورٹنگ کرنے والے آفیسر کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔
دوسرے حصے میں ٹرانزیکشن کرنے والے مشتبہ فرد کی تٖفصیلات (نام بمعہ ولدیت، مکمل رہائشی اور دیگر پتے، فون نمبرز، شناختی کارڈ، تاریخ پیدائش، قومیت اور نیشنل ٹیکس نمبر (اگر ہو)، مالیاتی ادارے سے اس کا تعلق اور ٹرانزیکشن کی شکل (انفرادی، کمپنی، ایجنٹ یا بروکر )، مشتبہ ٹرانزیکشن کی معلومات جس میں تاریخ، رقم، اور ٹرانزیکشن کرنے والے کی جانب سے پیش کی گئی توضیحات درج کی جاتی ہے جب کہ چوتھے اور آخری حصے میں اس اکائونٹ کی تٖفصیلات (اکائونٹ نمبر، اکائونٹ کس تاریخ کو کُھلا، اکائونٹ کا موجودہ اسٹیٹس، اکائونٹ کھلوانے کا مقصد، اوسط ماہانہ ٹرن اوور، گذشتہ تین سال میں جمع اور نکلوائی والی رقوم کی تٖفصیلات، گذشتہ تین سال میں سب سے بیلنس، اکائونٹ انفرادی، پارٹنر شپ، کمپنی یا ٹرسٹ کے نام پر کُھلا ہے، ٹرانزیکشن نقد، چیک، ریمٹنیس، کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ، پے آرڈر، فکسڈ ڈپازٹ، آن لائن یا کارڈ ٹرانسفر یا کسی شکل میں کی گئی) کا تمام تر جُزیات کے ساتھ اندراج کرکے مرکزی بینک کو بھیجا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کم آمدنی والے افراد کے لیے بھی بینک اکائونٹ کھلوانے کی سہولت میسر ہے، کسی بھی کمرشیل بینک میں کھاتے دار معمولی رقم کی ادائیگی کرکے اپنا اکائونٹ کھلوا سکتے ہیں، (مرکزی بینک) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے وضع کردہ قواعد کے مطابق بیسک بینکنگ اکائونٹ میں ایک ماہ میں محدود ٹرانزیکشن کرسکتے ہیں۔ بیسک بینکنگ اکائونٹ کھلوانے کے لیے متعلقہ فرد ذاتی حیثیت میں اصلی شناختی کارڈ کے ساتھ پیش ہوکر بایومیٹرک کرواتا ہے، جس میں اس کے شناختی کارڈ کی تاریخِ تنسیخ، انگلیوں کے نشانات اور دیگر نجی معلومات کی تصدیق کی جاتی ہے، جب کہ کرنٹ اکائونٹ عموماً ایسے کاروباری افراد کی جانب سے کھولے جاتے ہیں۔
جو روزانہ کی بنیاد پر پیسے جمع کرواتے اور نکلواتے ہیں۔ کھاتے دار کسی بھی وقت اپنے اکائونٹ سے جتنی رقم چاہے نکلوا سکتا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ کُھلوانے کے لیے بینک کو متعلقہ فرد کا شناختی کارڈ، بایو میٹرک اور آمدنی کی ذرایع فراہم کرنا لازم ہے، اس کے بغیر اکائونٹ نہیں کھولا جاسکتا۔ سول پروپرائٹرشپ یا بزنس اکائونٹ کُھلوانے کے لیے متعلقہ فرد یا ادارے کو اپنی آمدنی کے ذرایع کے ساتھ ساتھ قومی شناختی کارڈ ، نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این )، کاروباری پتا، کمپنی کا لیٹر ہیڈ اور مُہر بینک کو فراہم کرنی ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک بھی چیز کے بغیر بینک بزنس اکائونٹ کُھولنے کا مجاز نہیں ہے۔
جب ایک عام آدمی بایو میٹرک کے بنا بیسک بینک اکائونٹ بھی نہیں کھلوا سکتا تو پھر اتنی بڑی تعداد میں بینک اکائونٹس کا کُھلنا اور ان میں ہونے والی ٹرانزیکشن بینک عملے، اور مرکزی بینک کے تعاون کے بغیر ممکن نظر نہیں آتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یا تو متعلقہ برانچ نے مرکزی بینک کو ایس ٹی آر یا سی ٹی آر نہیں بھیجی اور اگر برانچ نے یہ فارم بھر کرکے مرکزی بینک کو فراہم کیے تو پھر مرکزی بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے اس پر کارروائی کیوں نہیں کی؟ اگر تحقیقاتی ادارے غیرجانب داری سے متعلقہ برانچ اور مرکزی بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ذمے داروں سے تفتیش کریں تو اس گتھی کے سلجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ لیکن بات صرف غیرجانب داری کی ہے۔
پاکستان میں منی لانڈرنگ کے خلاف موجود قوانین
پاکستان 2000ء میں ایشیا پیسیفک گروپ آن منی لانڈرنگ (اے جی پی) کا رکن بنا۔ اس گروپ کی رکنیت کی بنیادی شرط یہ تھی کہ رکن ملک اپنی حدود میں منی لانڈرنگ کے بین الاقوامی قوانین کو رائج کرتے ہوئے قانون سازی کرے گا۔
تاہم پاکستان 2007ء تک منی لانڈرنگ کے خلاف کوئی موثر قانون سازی میں ناکام رہا، جس کے بعد جولائی 2007 میں اے جی پی کے ایک اعلٰی سطح وفد نے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے 31 دسمبر2007 تک منی لانڈرنگ کے خلاف صدارتی آرڈینینس کے اجراء پر زور دیا، اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کی رکنیت ختم کرنے کا عندیہ دیا۔ اے جی پی کے اصرار پر 8 ستمبر 2007کو اُس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف نے ایک صدارتی آرڈینینس کے ذریعے اینٹی منی لانڈرنگ بل کی منظوری دی۔
اس آرڈینینس کے تحت فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) قائم کیا گیا۔ اگرچہ اس قانون کو اے جی پی نے تسلیم تو کرلیا لیکن بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے کے لیے اس بل میں ابھی بھی کچھ خامیاں ہیں، جنہیں مزید بہتر کرنی کی ضرورت ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ کے اس قانون کا معیار ویانا اور پالمیرو کنونشن سے مطابقت نہیں رکھتا، کیوں کہ اس میں اسلحے کی اسمگلنگ، انسانی اسمگلنگ، جنسی استحصال اور ماحولیاتی جرائم کو منی لانڈرنگ جرائم کے درجے میں نہیں رکھا گیا ہے۔
2010 میں مرکزی بینک نے اینٹی منی لانڈرنگ آرڈینینس کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ سے تبدیل کردیا۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے کئی ادارے مالیاتی جرائم کے قوانین کو لاگو کرنے کے ذمے دار ہیں۔ ان میں قومی احتساب بیورو (نیب)، اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف)، ایف آئی اے اور ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ ایویسٹی گیشن قابل ذکر ہیں۔
2007ء کے اینٹی منی لانڈرنگ آرڈینینس کے اہم قوانین میں انسداد دہشت گردی ایکٹ1997، قومی احتساب آرڈینینس1999، کنٹرول آف نارکوٹکس سبٹینس ایکٹ 1997 کے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔ جن کے مطابق دہشت گردوں کو مالی تعاون فراہم کرنے، رشوت ستانی اور مشکوک ٹرانزیکشن اور منشیات کے حوالے سے ہونے والے مشکوک مالیاتی لین دین کی صورت میں فوری کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس آرڈینینس کے مطابق نیب، ایف آئی اے، اے این ایف اور کسٹم کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے منجمد کیے گئے اثاثوں کو ضبط کرنے کا حق حاصل ہے۔ حالیہ چند برسوں میں پاکستان نے منی لانڈرنگ کے خلاف قانون کو مزید موثر بنانے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیوریٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پرائمری فنانشل ریگولیٹرز ہیں۔ مالیاتی سیکٹر کی نگرانی کے لیے ان دونوں اداروں نے اینٹی منی لانڈرنگ یونٹس قائم کیے، تاہم وسائل کی قلت کی وجہ سے یہ یونٹس بہتر طریقے سے اپنا کام سرانجام نہیں دے پارہے تھے۔ رواں ماہ ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رقوم کی مشکوک ترسیل کی نگرانی کے لیے ایک جدید ٹیکنالوجی سے مزین ڈیٹا سینٹر قائم کیا ہے۔
اس بابت اسٹیٹ بینک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پہلے اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کو مالی تعاون کی روک تھام اور نگرانی کے لیے کوئی خودکار نظام موجود نہیں تھا، جس سے دہشت گرد تنظیمیں فائدہ اٹھا رہی تھیں۔ تاہم اب اس جدید ہائی ٹیک ڈیٹا سینٹر کی مدد سے بینکوں، فارن ایکسچینج کمپنیوں اور دیگر ذرائع سے رقوم کے لین دین کی زیادہ بہتر طریقے سے نگرانی کی جاسکے گی، جب کہ ایک ماہ قبل بھی مرکزی بینک نے اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل کی قرارداد کے تناظر میں منی لانڈرنگ کے خلاف نئے راہ نما اصول جاری کیے جاتے تھے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل نے منی لانڈرنگ میں ملوث افراد و اداروں کے اثاثے ضبط کرنے اور سفری پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دی تھی۔
اسی تناظر میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ ’ضوابط اور ہدایات کی روشنی میں کالعدم تنظیموں اور افراد کے خلاف پابندیاں اور ذمہ داریاں، حکومت کی جانب سے جاری اقدامات کی بنیاد پر کالعدم تنظیموں اور نام زد اداروں یا افراد پر مسلسل لاگو رہیں گی۔‘ مرکزی بینک کے اعلامیے کے مطابق بینک، ڈی ایف آئی یا پھر ایم ایف بی کسی بھی کالعدم یا نام زد کمپنی اور افراد کو یا پھر ان سے متعلقہ کسی بھی شخص کو انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے قانون کے تحت بینکنگ کی سہولیات فراہم نہ کرے۔
پاکستان منی لانڈرنگ کرنے والے بدترین ممالک کی فہرست میں 46 ویں نمبر
منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے بیزل انسٹی ٹیوٹ آف گورننس کے منی لانڈرنگ انڈیکس کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں مالی معاونت کی روک تھام میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے 50 ممالک کی فہرست میں پاکستان 46 ویں نمبر پر ہے۔ بیزل انسٹی ٹیوٹ آف گورننس کی جانب سے مرتب کی جانے والی اس فہرست میں ایسے ممالک کا نام شامل ہے جہاں منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔
مجموعی طور پر اس فہرست میں146 ممالک شامل ہیں، جب کہ ٹیکس نادہندگان کی جنت اور آف شور کمپنیاں چلانے والے ممالک کو اعداد و شمار کی عدم دست یابی کی بنیاد پر اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ سوئٹزرلینڈ میں قائم بیزل انسٹی ٹیوٹ دنیا بھر میں کرپشن کی روک تھام کے لیے نجی اور سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ بیزل کی اینٹی منی لانڈرنگ فہرست میں ریکارڈ مرتب کرتے وقت اے ایم ایل / سی ایف ٹی کے ضابطوں، کرپشن، مالیاتی معیارات، سیاسی حالات اور قانون کی بالادستی سمیت مجموعی طور پر 140 اشاریوں کا جائزہ لیا گیا۔
اس فہرست کو مرتب کرنے کے لیے اعداد و شمار ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل، ورلڈ بینک اور ورلڈ اکنامک فورم سے حاصل کیے گئے۔ 2017ء کے انڈیکس میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے نگرانی کے حوالے سے پاکستان کو 6اعشاریہ 64 نمبر دیے گئے، بدترین اسکور حاصل کرنے والے ممالک میں ایران 8.6، افغانستان 8.38، گنی بساؤ 8.35، تاجکستان 8.28، لاؤس 8.28، موزمبیق 8.08، مالی، 7.97، یوگنڈا 7.95 اور کمبوڈیا 7.94 شامل ہیں۔
بینکاری اور مالی لین دین کی زبردست نگرانی کے حوالے سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں فِن لینڈ 3 اعشاریہ صفر چار اسکور کے ساتھ اول نمبر پر ہے۔ فن لینڈ کے بعد بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے دیگر ممالک میں لتھوانیا 3.67، ایسٹونیا 3.83، بلغاریہ 3.87، نیوزی لینڈ 3.91، سلوونیا 4.02، ڈنمارک 3.05 شامل ہیں۔
منی لانڈرنگ؛ کالے دھن کو سفید کرنے کا مذموم طریقہ
زر، زن اور زمین، کہتے ہیں کہ ان تین عوامل کا کسی انسان کی تباہی میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کہیں زن کی وجہ سے قتل ہوتے ہیں تو کہیں زمین اپنے ہی مالک کی لاش کو اپنی آغوش میں لے رہی ہے، لیکن ان تینوں میں سب سے خطرناک شے زر ہے، جس کی وجہ سے دنیا بھر کی حکومتیں، لسانی اور مذہبی گروہ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ منشیات، جسم فروشی، کرپشن، جنگوں کا اولین محرک پیسہ ہی ہے۔ پیسے کو ہاتھ کا میل کہا جاتا ہے، لیکن یہی پیسہ خونی رشتوں کو بھی ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے۔
دنیا بھر میں جسم فروشی، بلیک مارکیٹنگ، رشوت خوری، ہتھیاروں کی سپلائی اور دیگر غیرقانونی طریقوں سے کما ئی گئی دولت ’کالا دھن‘ کہلاتی ہے۔ کالے دھن کو سفید کرنے کا آغاز دو ہزار قبل مسیح میں چینی تاجروں نے کیا، جو اپنی دولت کو حکم رانوں سے چھپانے کے لیے دوسرے صوبوں اور چین سے باہر سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس ضرورت نے انفارمل ویلیو ٹرانسفر سسٹم یعنی حوالہ یا ہنڈی کے کاروبار کو جنم دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کالے دھن کو سفید کرنے والے افراد کے خلاف قانون سازی کا آغاز کیا گیا، اس وقت یہ کام منشیات کے اسمگلر ہی کرتے تھے۔
1989میں جی سیون ممالک نے منی لانڈرنگ کے خلاف مشترکہ طور پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ قائم کی۔ تاہم نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کو ہونے والی فنڈنگ کے خلاف سخت قانون سازی پر زور دیا گیا۔ 2002ء کے آغاز میں دنیا بھر کی حکومتوں نے مالیاتی لین دین کی نگرانی کے کے لیے منی لانڈرنگ کے قوانین کو مزید بہتر بنایا۔ دنیا بھر کے اسمگلر، سیاست داں، مالیاتی ادارے ناجائز طریقے سے کمائے گئے پیسے کو قانونی شکل دینے کے لیے منی لانڈرنگ کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔
قانون کی نظروں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے یہ غیرقانونی دولت ٹیکس حکام کی نظروں میں بھی نہیں آتی۔ منی لانڈرنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ پہلا طریقہ ٹیکس چوری کا ہے جس میں پہلے سے چلتے ہوئے کاروبار سے ملنے والے منافع کو ٹیکس ادا نہ کرتے ہوئے اسی رقم سے کوئی جائیداد یا چلتا ہوا کاروبار خرید لیا جاتا ہے۔ ایک طرح سے یہ بھی کالے دھن کو سفید کرنے کے مترادف ہے۔ دوسرا طریقہ کرمنل پروسیجر کا ہے، اس قسم کی منی لانڈرنگ میں ملوث فرد کسی غیرقانونی اور مجرمانہ طریقے (زمینوں پر قبضے، بینک ڈکیتی، قتل، اغوا برائے تاوان وغیرہ) کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم سے جائیداد یا کاروبار خرید لے اور پھر اسے دوبارہ فروخت کرکے حاصل کی گئی دولت کو جائیداد کی خریدوفروخت سے حاصل ہونے والی رقم قرار دے۔
یہ منی لانڈرنگ کی ایک بدترین شکل ہے۔ ریاست کے نزدیک کرمنل منی لانڈرنگ، منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے، جب کہ فرضی ناموں سے بنائی گئی جعلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری، فرضی خیراتی اداروں کے نام پر چندے لینا بھی منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔منی لانڈرنگ کا سب سے مقبول اور مستعمل طریقہ ہنڈی یا حوالے کا ہے، اس طریقۂ کار میں کسی کاغذی کارروائی کے بغیر بھاری رقوم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیا جاتا ہے۔
مالیاتی اداروں کے علم میں نہ ہونے کی وجہ سے اس رقم پر ٹیکس بھی حاصل نہیں ہوپاتا اور ملکی کرنسی کی اسمگلنگ کی وجہ سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچتا ہے۔ غیرقانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی سے دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ بھی حاصل ہورہا ہے، کیوں کہ کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کو بھاری رقوم منتقل کی جاتی ہیں جنہیں وہ ہتھیار خریدنے اور دہشت گردی کے دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
منی لانڈرنگ کی مختلف اشکال
اسٹرکچرنگ: اس طریقۂ کار میں رقم پے آرڈر، ٹریول چیکس اور منی آرڈر کے ذریعے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے مختلف وصول کنندگان کو بھیجی جاتی ہے جو اس رقم کو وصول کرکے ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں۔
بَلک کیش اسمگلنگ: اس طریقۂ کار میں نقد رقم کو آف شور بینک اکاؤنٹس میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ بعد میں اس رقم کو قانونی شکل دے دی جاتی ہے۔
تجارت کی بنیاد پر منی لانڈرنگ: اس طریقۂ کار میں پیسے کی لین دین کو انوائسز (بلوں) میں مالیت کم یا زیادہ کرکے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے۔ مثلاً ایک چیز کی قیمت سو روپے ہے لیکن بل میں اسے کم مالیت ظاہر کرکے پچاس روپے یا زیادہ مالیت ظاہر کرکے ڈیڑھ سو روپے کردیا جاتا ہے۔
شیل کمپنیاں اور ٹرسٹ: ٹرسٹ اور شیل کمپنیاں دوسرے کے سرمائے کو اپنی ملکیت ظاہر کرتے ہوئے کام کرتی ہیں۔ لیکن اس سرمایہ کاری کے پس منظر میں کوئی سیاست داں، اسمگلر یا منشیات فروش ہی اصل سرمائے کا مالک ہوتا ہے۔ پاناما دستاویزات میں انہیں شیل اور آف شور کمپنیوں میں چھپ کر سرمایہ کاری کرنے والے افراد کو بے نقاب کیا گیا۔
جائیداد کی خرید و فروخت: اس طریقے میں کالے دھن سے خریدی گئی جائیداد کو قانونی طریقے سے فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدنی کو قانونی شکل دی جاتی ہے۔
بلیک سیلریز: منی لانڈرنگ کی اس شکل میں بہت سی کمپنیاں کسی تحریری معاہدے کے بنا اپنے ملازمین کو تنخواہیں نقد دیتی ہیں، اور اس کام کے لیے کالے دھن کو استعمال کیا جاتا ہے۔
انشورنس پالیسیز اور پرائز بانڈ: اس طریقۂ کار میں کالا دھن رکھنے والے میچور ہونے والی انشورنس پالیسیز کو زیادہ قیمت پر خرید کر انہیں کمپنی سے کلیم کروا لیتے ہیں، اس طریقہ کار میں انشورنس کمپنی کی جانب سے ملنے والی رقم قانونی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کا پچاس لاکھ روپے کا پرائز بانڈ نکل جائے تو منی لانڈرنگ کرنے والے افراد کے ایجنٹ پانچ یا دس لاکھ روپے اوپر دے کر وہ بانڈ حاصل کر لیتے ہیں، اس طرح دس لاکھ روپے دے کر وہ اپنے چالیس لاکھ روپے کے دھن کو قانونی کرلیتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ کراچی میں بولٹن مارکیٹ پر پرائز بانڈ کی خرید و فروخت کرنے والے اسٹالز پر بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔
تحائف کی شکل میں منی لانڈرنگ: منی لانڈرنگ کی اس شکل کو پاکستان میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ چوں کہ پاکستان میں ’تحائف‘ ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں لہٰذا ملک کا امیر طبقہ اپنی آمدنی، اثاثہ جات اور دولت کو منتقل کرنے کے لیے اس آپشن کو ایک محفوظ طریقۂ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ٹیکس حکام کے حوالے سے شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان میں 2 ہزار 785 افراد نے تحائف کی شکل میں منی لانڈرنگ کی۔
قانون کے مطابق جن افراد سے ایسی رقم موصول کی جاتی ہیں یا تو وہ افراد ٹیکس ادا کرنے کی حدود سے باہر ہوتے ہیں یا پھر ان کے ذرائع آمدن کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ ایک خبر کے مطابق گذشتہ برس دولت مند افراد کی ٹیکس ریٹرن فائلوں کی جانچ پڑتال کے دوران منی لانڈرنگ کے لیے ’تحائف‘ کی لین دین‘ کے کیسز کا انکشاف ہوا۔ اس انکشاف کے بعد ایف بی آر کے محکمے اِن لینڈ ریونیو کے اینٹی منی لانڈرنگ سیل نے ان افراد کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا، جنہوں نے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کراتے وقت کروڑوں روپے کی دولت کو ’تحائف‘ کے زمرے میں شمار کیا تھا۔
اینٹی منی لانڈرنگ سیل کے اعدادوشمار کے مطابق 2 ہزار 785 دولت مند افراد نے 2016 کے ٹیکس گوشواروں میں مجموعی طور پر 102 ارب روپے کی جائیداد کو ’تحائف‘ قرار دیا۔ تین کیسز میں ان افراد نے 1 ارب سے زائد جائیداد کو ’تحائف‘ ظاہر کیا، جب کہ اس میں سب سے بڑا ’تحفہ‘ 1 ارب 70 کروڑ روپے کا ہے، تقریباً 8 افراد نے 50 کروڑ سے 1 ارب تک کے اثاثہ جات کو تحائف قرار دیا۔ ایک اور کیٹیگری میں 97 دولت مند افراد نے 20 کروڑ سے 50 کروڑ تک کی جائیداد کو تحائف قرار دیا جب کہ مزید 97 افراد نے ان تحائف میں اپنی 10 سے 20 کروڑ روپے کی جائیداد کو شامل کیا۔ اپنی جائیداد اور اثاثہ جات کو 5 کروڑ سے 10 کروڑ تک کے تحائف میں ظاہر کرنے والے افراد کی تعداد 280 ہے، جب کہ دیگر 2 ہزار 348 افراد نے 1 کروڑ سے 5 کروڑ تک کے اثاثوں کو تحائف میں شامل کیا۔
اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت ان افراد کے اثاثوں کو ضبط اور کسٹم اور محکمہ محصولات کی خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مجرمانہ دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج کیا جاسکتا ہے، جس کے تحت تحائف کی شکل میں جائیداد، رقوم یا اثاثوں کی غیرقانونی منتقلی میں ملوث افراد پر بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ 10 سال تک قید کی سزا اور جائیداد کی ضبطی کی فرد جرم عاید کی جاسکتی ہے۔
منی لانڈرنگ میں ملوث بڑے بینک
دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کے قوانین کی خلاف ورزی پر بہت بڑے اور نام ور بینکوں پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ بی سی سی آئی بینک ایک بین الاقوامی بینک تھا جسے 1972میں ایک پاکستانی سرمایہ کار آغا حسن عابدی نے قائم کیا تھا۔
بی سی سی آئی صدام حسین، فلسطین کے علیحدگی پسند تنظیم فتح کے لیڈر ابواندال سمیت متعدد سیاست دانوں کے اکاؤنٹ کھولنے اور منی لانڈرنگ میں معاونت کرنے پر بند کردیا گیا۔اس بینک پر اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کا الزام تھا۔ دسمبر 2012 میں ایچ ایس بی سی بینک پر ایک ارب نوے کروڑ ڈالر اور جولائی 2014 میں دنیا کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک بی این پی پر آٹھ ارب نوے کروڑ ڈالر جرمانہ عاید کیا گیا۔ 2013 میں دنیا کی سینٹرالائزڈ ڈیجیٹل کرنسی لبرٹی ریزرو کو چھے ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کرنے پر بند کر دیا گیا۔ ایک مشہور بینک پر ایران کے لیے اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کرنے کے جرم میں تین سو تیس ملین ڈالر جرمانہ عاید کیا گیا۔
مالیاتی اداروں کے مطابق اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے تقریباً ایک دہائی میں 250 ارب ڈالر کی ساٹھ ہزار سے زائد ٹرانزیکشن کیں۔ مئی 2017 میں سنگاپور کے مالیاتی حکام نے سوئٹزرلینڈ کے بی ایس آئی بینک کو منی لانڈرنگ قوانین کے خلاف ورزی پر بند کردیا۔ حال ہی میں امریکا کے ڈیپارٹمنٹ آف فنانشل سروس (ڈی ایف ایس) نے ایک بڑے پاکستانی بینک پر 225 ملین ڈالر جرمانہ عاید کیا ہے۔ ڈی ایف ایس کے مطابق مذکورہ بینک کی نیویارک میں قائم برانچ گذشتہ چالیس برس سے آپریشنل تھی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کی جانب سے یہ جرمانہ ممکنہ طور پر دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے سدباب کے لیے اقدامات نہ کرنے پر عائد کیا گیا ہے جب کہ اب اس برانچ کو بند بھی کردیا گیا ہے۔
امریکی حکام کی جانب سے نیویارک میں موجود اس برانچ کو 2006ء میں رقوم کی غیرقانونی منتقلیوں کی نگرانی کرنے اور ان کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھی، تاہم بینک کی جانب سے ان ہدایات کو مسلسل نظرانداز کیے جانے پر یہ فیصلہ کیا گیا۔ ڈی ایف ایس کے حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بینک سعودی عرب کے ایک نجی بینک کو اربوں ڈالر کی منتقلی میں مدد فراہم کرتا رہا اور اس سعودی بینک کے دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے رابطے تھے۔ اس پاکستانی بینک کی برانچ نے تیرہ ہزار مرتبہ زائد ایسی رقوم کی منتقلی میں معاونت کی، اور ان رقوم کی منتقلی سے مستفید ہونے والوں میں دہشت گرد اور ہتھیاروں کے بین الاقوامی تاجر بھی شامل تھے۔
The post ضابطے کہاں گئے۔۔۔ قوانین کیا ہوئے۔۔۔؛ جعلی بینک اکاؤنٹ کیسے کھلے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.