چالیس سالہ قادر بخش ہرات، افغانستان کے قریب چند کنال زمین کا مالک ہے۔ وہ اپنی زمین پر سبزیاں اور اجناس اگا کر گزر اوقات کرتا تھا۔ جب بھی مال تیار ہوتا، وہ اسے ہرات کی منڈی میں بیچ آتا۔ اس طرح سے اسے کچھ رقم مل جاتی اور گھر کے اخراجات پورے ہوتے رہتے۔ وہ چار بچوں کا باپ ہے۔
آج مگر قادر بخش اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہرات کی خیمہ بستی میں بڑی تنگ دستی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اسے اور اس کے گھر والوں کو دن میں بہ مشکل ایک بار،بڑی بھاگ دوڑ کے بعد حکومت کی جانب سے فراہم کردہ خوراک ملتی ہے۔ یہ بس اتنی ہی ہوتی ہے کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہے۔ قادر بخش اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں اس بھوک پیاس کی مصیبت میں لاکھوں افغان مرد،عورتیں اور بچے گرفتار ہوچکے ہیں۔
دراصل پچھلے چند برس سے شمالی اور مغربی افغانستان میں بہت کم بارشیں اور برف باری ہوئی ہے۔ اس لیے جتنے بھی دریا، نہریں،ندی نالے اور جھیلیں ہیں،ان میں پانی نہیں رہا۔ زیر زمین پانی کے ذخائر بھی سوکھ گئے۔ پانی کی اس کمی نے افغان باشندوں کے روزگار پر شدید ضرب لگائی۔ افغانستان میں بیشتر لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہے۔ وہ فصلیں یا باغات اگا کر ہی پیداوار پاتے اور اسے بیچ کر رقم کماتے ہیں۔جب پانی نہیں رہا اور کھیت و باغ سوکھنے لگے تو ہزاروں گھرانے اپنا گھر بار چھوڑ کر شہروں کی طرف آنے پر مجبور ہوگئے۔
اعدادو شمار کی رو سے افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 22 صوبے قحط کی لپیٹ میں ہیں ۔جبکہ یہ قحط تیس لاکھ سے زائد افغانوں کو اپنا شکار بناچکا ہے۔بعض علاقوں کو شدید قحط نے اپنی لپیٹ میں رکھا ہے۔ وہاں بوڑھے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسا خوفناک قحط کبھی نہیں دیکھا۔ایسے علاقوں میں ہرات ، بادغیس اور دیگر ملحقہ اضلاع شامل ہیں۔ ان اضلاع میں پانی نہایت نایاب ہوچکا اور ہر جگہ ٹنڈمنڈ درخت اورمٹی کے ویران ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ اپنے گھر چھوڑ چکے اور کھیت و باغ اجاڑ نظر آتے ہیں۔
افغان مویشی پال کر بھی اپنی کمائی میں اضافہ کرتے ہیں۔ مگر پانی کی کمی سے ان کے ہزاروں جانور بھی مرگئے۔ ہزارہا بدقسمت کسان ایسے ہیں جو اپنے تقریباً سبھی مویشیوں اور فصل سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان کی زندگی بھر کی کمائی قحط نے دیکھتے ہی دیکھتے ملیامیٹ کر ڈالی۔ اب وہ روزانہ روکھی سوکھی پر گزر بسر کرتے ہیں۔
افغان حکومت اور اقوام متحدہ کے امدادی ادارے مصیبت زدگان کی مدد کررہے ہیں مگر امدادی کارروائیوں کا پھیلاؤ فنڈز کی کمی کے باعث کم علاقوں تک محدود ہے۔ صرف شہروں میں قائم کیمپوں میں مقیم آفت زدہ شہریوں کو خوراک و علاج کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ قصبوں اور دیہات میں مقیم شہری اپنی مدد آپ کے تحت ہی خوراک مانگ تانگ کر جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ بھوک بڑی ظالم شے ہے، یہ انسان کو غیر معمولی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کردیتی ہے۔ قحط کا شکار افغان گھرانے بھی بھوک پیاس میں مبتلا ہوکر ایسے اقدامات کررہے ہیں جو انسان عام حالات میں انجام نہیں دیتا۔ مثلاً مائیں تک اپنی دس بارہ سال کی بچیاں فروخت کرنے لگی ہیں تاکہ کچھ رقم پاکر اپنے قرضے اتارسکیں۔کئی عورتوں نے بازاروں میں چھابڑیاں لگا لیں اور روزمرہ اشیا فروخت کرنے لگیں۔یاد رہے،افغان معاشرہ بہت قدامت پسند ہے اور وہاں بالعموم خواتین کا گھروں سے نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔مگر بھوک کی ستائی بیچاری عورتیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے باہر بیٹھنے پر مجبور ہو گئیں۔
بدقسمت افغانستان پچھلے چالیس برس سے خانہ جنگی اور جنگوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ طویل لڑائی مارکٹائی نے معاشرتی ،معاشی اور نفسیاتی طور پر افغان معاشرے کا تاروپود بکھیر دیا ہے۔ اب قحط قدرتی عذاب بن کر افغان باشندوں پر نازل ہوگیا۔ مزید خوفناک بات یہ کہ جلد موسم سرما شروع ہونے والا ہے۔ شدید سردی میں بھوک و پیاس کی زیادتی خصوصاً ہزارہا بچے بچیوں کی جان لے سکتی ہے۔
ہرات، بادغیس اور قحط سے شدید متاثرہ دیگر علاقوں میں خوراک اور پانی کم ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ نے امیر ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ افغان مصیبت زدگان کے لیے خوراک و پانی بھجوائیں۔ انسانی زندگی کو درکار ان دونوں بنیادی اشیا کی کمی ہزارہا افغانوں کو موت کے در تک پہنچا دے گی۔
مغربی افغانستان میں قحط سے متاثر ہزاروں افغان۔ ایرانی سرحد پر جمع ہیں۔ وہ ایران جانا چاہتے ہیں مگر ایرانی حکومت نے انہیں سرحدوں پر روک رکھا ہے۔ دراصل امریکی پابندیاں لگنے کے باعث ایران کے معاشی حالات اچھے نہیں اور حکومت اپنے ہاں مقیم افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بجھوا رہی ہے۔ مزید براں ایران بھی پانی کی کمی کا شکار ہے جس نے افغانوں کے مسائل میں اضافہ کرڈالا۔
ایران کی طرح پاکستان بھی معاشی و معاشرتی مسائل سے نبرد آزما ہے۔ پاکستانی حکومت سکیورٹی مسئلے کے باعث بھی اپنے ہاں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو وطن واپس بھجوانا چاہتی ہے۔ تاہم افغانستان میں سیاسی حالات اب بھی خراب ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بم دھماکے میں افغان انٹیلی جنس کے چیف ہلاک ہوگئے۔ طالبان کی خواہش ہے کہ امریکی و اتحادی افواج افغانستان کو خیرباد کہہ دیں۔ مگر امریکی حکمران جغرافیائی تزویراتی لحاظ سے نہایت اہم اس ملک کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنا چاہتے ہیں۔
لہٰذا دونوں قوتوں کے مابین جنگ ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔اس طویل جنگ نے مگر معاشی و معاشرتی لحاظ سے افغان عوام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اب شمالی اور مغربی افغانستان میں لاکھوں شہریوں پر قحط حملہ آور ہے۔ اعدادو شمار کی رو سے متاثرہ افغانوں میں سے تیس لاکھ کو خوراک، پانی، لباس اور سر چھپانے کی جگہ درکار ہے جبکہ مزید اسّی لاکھ افغان بڑی مشکل سے گزارہ کررہے ہیں۔ اگر بارشیں نہ ہوئیں، تو انھیں بھی خوراک اور پانی پانے کے لیے بہت تگ ودو کرنا پڑے گی۔
افغان عوام کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے حکمران،لیڈر،سیاست داں اور سرکاری افسر عوامی مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ان کی اکثریت اپنی کرسیاں بچانے یا کرپشن کر کے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہتی ہے۔ افغان حکومت ویسے بھی کابل اور گردونوح کے اضلاع تک محدود ہے۔اگر آج امریکی فوج رخصت ہو جائے تو موجودہ کرپٹ ، اپنے عیش و آرام میں مست اور عوام کی تکالیف و مصائب سے بے خبر حکمران زیادہ عرصہ حکمرانی نہیں کر سکتے۔اس افسوس ناک کیفیت میں صرف قومی و عالمی سماجی تنظیمیں ہی دامے درمے سخنے قحط کا نشانہ بنے بے کس لاکھوں افغانوں کو جینے کا سہارا اور امید دے رہی ہیں۔
’’عالمی قحط‘‘ کا خطرہ
آج آسٹریلیا سے لے کر امریکا تک کئی ممالک کے مختلف علاقے قحط کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس کی وجہ گلوبل وارمنگ سے جنم لینے والی آب وہوائی اور موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھتا رہا تو اس عجوبے سے کبھی بارشیں اور برف باری زیادہ ہو گی تو کبھی کم!لہٰذا جب بھی بارشیں کم ہوئیں اور اللہ نہ کرے، یہ سلسلہ طویل ہو گیا تو ’’عالمی قحط‘‘بنی نوع انسان کی بقا خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
انسانی تاریخ کا خوفناک ترین قحط 1875ء تا 1880ء کے دوران آیا تھا۔اس کا آغاز ہندوستان سے ہوا جہاں مون سون کی بارشیں بہت کم ہوئی تھیں۔چناں چہ ہندوستان میں قحط پڑ گیا۔یہ قحط رفتہ رفتہ دیگر ایشائی ممالک،آسٹریلیا،افریقا اور جنوبی امریکا تک پھیل گیا۔قحط کی لپیٹ میں آ کر تقریباً پانچ کروڑ انسان چل بسے تھے اور اس نے بڑی تباہی مچائی تھی۔
ماہرین ماحولیات دنیا بھر کی حکومتوں پہ زور دے رہے ہیں کہ وہ پانی بچانے کیلئے مختلف اقدامات کریںتاکہ انسانی آبادی کسی بھی وقت جنم لینے والے شدید قحط کا بخوبی مقابلہ کر سکے۔آنے والے زمانے میں پانی محفوظ کرنا اور بچانا ہر انسان کے لیے یونہی اہم بن جائے گا جیسے زندہ رہنے کی خاطر سانس لینا!
نایاب ہوتا آب
ہم پاکستانیوں کی اکثریت پانی استعمال کرتے ہوئے اس قدرتی نعمت کی قدر نہیں کرتی…اگر شیو ہو رہی ہے تو کھلے نلکے سے مسلسل پانی بہہ رہا ہے اور بندے کو کوئی پروا نہیں۔گھروں میں خصوصاً ماسیاں گھر دھوتے ہوئے بہت پانی ضائع کرتی ہیں مگر انھیں بالکل تنبیہ نہیں دی جاتی کہ پانی ضرورت کے مطابق استعمال کرو۔پانی کتنا زیادہ قیمتی ہے، اس سچائی سے بے خبر پاکستانیوں کو تھر کے باسیوں یا اپنے پڑوسی افغانوں سے پانی کی قدروقیمت دریافت کرنا چاہیے۔اہل تھر کی حالت زار تو ہمارے سامنے ہے، افغان جس مصیبت کا شکار ہیں،اس سے بھی آگاہ ہو جائیے۔افغانستان میں چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں۔مگر پہاڑوں اور میدانوں میں اگر بارشیں کم ہوں اور برف باری کی شرح بھی کم رہے،تو قدرتاً دریاوں میں پانی کم بہتا ہے۔افغان حکومتوں نے پھر ڈیم اور ذخائر آب بھی کم بنائے ہیں۔اسی لیے بیشتر افغان کنوئیں کھود کر زراعت اور پینے کے واسطے پانی حاصل کرتے ہیں۔نہروں اور نالوں کا پانی زرعی مقاصد ہی میں کام آتا ہے۔
پچھلے دو تین برس سے شمالی اور مغربی افغانستان میں بارشیں اور برف باری بہت کم ہوئی ہے۔اسی لیے وہاں پہلے ندی نالوں میں پانی ختم ہوا پھر زیرزمین واقع آبی ذخائر میں بھی کمی آ گئی۔درحقیقت پورے افغانستان میں زمین کے نیچے موجود پانی کی سطح تیزی سے گھٹ رہی ہے۔اب یہ حال ہے کہ اکثر علاقوں میں 800 فٹ گہرائی تک بھی کنواں کھودا جائے تو پانی کا نام ونشان نہیں ملتا۔اسی لیے کئی علاقوں کے مکین جوہڑوں کا بدبودار اور گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔
بڑھتی آبادی بھی افغان شہروں میں پانی کو جنس ِنایاب بنا رہی ہے۔مثال کے طور پہ ماہرین کی رو سے کابل کے زیرزمین آبی ذخائر بیس لاکھ باشندوں کو پینے کا پانی فراہم کر سکتے ہیں۔لیکن کابل کی آبادی پچاس لاکھ ہو چکی۔اسی لیے افغان دارالحکومت پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔لاکھوں غریب شہری خاص طور پر بڑی مشکل میں ہیں۔وہ کئی میل دور سے سرکاری کنوؤں یا تالابوں سے پانی برتنوں وغیرہ میں لاتے ہیں۔کئی گھرانوں میں لڑکوں یا عورتوں کی بنیادی ذمے داری یہی بن چکی کہ وہ دن میں کہیں سے بھی پانی لانے کا بندوبست کریں۔یہ ایک لحاظ سے ان کی کُل وقتی ملازمت بن چکی۔
یہ حقیقت ہے کہ آج افغانستان میں خون سستا ہے اور پانی مہنگا۔حالیہ پارلیمانی الیکشن میں ڈیرھ سو سے زائد افغانی مارے گئے۔اسی طرح امریکیوں،اتحادیوں ،طالبان،داعش اور دیگر گروپوں کی باہمی لڑائیوں کی لپیٹ میں آ کر روزانہ کئی افغان چل بستے یا زخمی ہو جاتے ہیں۔افغان عوام پچھلے چالیس برس میں اتنی زیادہ قتل وغارت گری دیکھ چکے کہ اب ان کے نزدیک کہیں خون بہنا کوئی اہم بات نہیں رہی۔مگر پانی کے حصول کی خاطر وہ جان بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔دراصل جتنی زیادہ گہرائی میں کنواں کھودا جائے،اس پہ اتنی ہی زیادہ لاگت آتی ہے۔
پانچ سو فٹ گہرا کنواں کھودنے پر چھ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔امیر افغان تو یہ خرچہ برداشت کر لیتے ہیںمگر غریب اتنی زیادہ رقم کہاں سے لائیں؟اسی لیے وہ پانی کی نعمت پانے کے لیے روازنہ بھاگ دوڑ اور محنت مشقت کا کنواں کھودتے ہیں۔یہ کام جیسے ان کے مقدر میں لکھا جا چکا۔پانی کی نایابی کے باعث افغان شہروںمثلاً کابل،ہرات،مزار شریف،قندوز وغیرہ میں پینے کے صاف پانی کا صرف ایک لیٹر ستر اسی روپے میں فروخت ہونے لگا ہے۔
گویا افغانستان میں صاف ستھرا پانی ایک بیش قیمت شے بن چکا اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ وہ چوری نہ ہو سکے۔ایک زمانہ تھا کہ انسان راہ چلتے پیاس لگنے پر کسی بھی گھر کا در کھٹکاتا اور بے دھڑک پانی مانگ لیتا۔حکومتوں اور مخیر لوگوں نے جگہ جگہ ثواب کی خاطر پانی کا انتظام کر رکھا ہوتا تھا۔مگر افغانستان میں یہ رواج ختم ہو چکا۔وجہ یہی کہ اب ہزاروں افغان نہایت تگ ودو کے بعد پانی حاصل کرتے ہیں۔لہٰذا وہ اس نعمت کو اپنے استعمال میں لاتے اور دوسروں کو دینے سے معذرت کر لیتے ہیں۔خدانخواستہ افغانستان آنے والے برسوں میں بارشوں اور برف باری سے محروم رہا تو وہاں پانی کی نایابی کا مسئلہ شدت اختیار کر لے گا۔
The post جدید دور کی سفاک سچائی افغانستان میں خون سستا پانی مہنگا appeared first on ایکسپریس اردو.