مصر اور تیونس میں برپا ہونے والے انقلابا ت میں شام کا محاذ کئی اعتبار سے مختلف ہےالبتہ لیبیا کی خانہ جنگی اور شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔
لیبیا میں سخت گیرسلفی عسکری گروپوں اورالقاعدہ کی بغل بچہ تنظیموں نے کرنل قذافی کا بیالیس سالہ شاہانہ اقتدارختم کرانے میں اہم کردار کیا ۔ ملک شام میں جاری بغاوت کے محاذِ جنگ کا نقشہ دیکھا جائے تووہاں بھی ہمیں چپے چپے پرعسکری گروپوں کا ایک جال بچھا دکھائی دیتی ہے۔ یہ عسکری گروپ بشارالاسد کی وفاداری اور ان کی مخالفت دونوں طرف صف آراء ہیں۔
حمایت میں لڑنے والے گروپوں میں لبنان کی حزب اللہ، ایران کی القدس بریگیڈ اور پاسداران انقلاب کے جنگجوؤں کے علاوہ عراق کے کئی شیعہ عسکری گروپ بھی شامل ہیں۔ایران کی مجلس شوریٰ کے ایک رکن جواد کریمی قدوسی کا ماننا ہے کہ ان کے ملک سے سیکڑوں جنگجو گروپ شام میں بشارالاسدکی وفاداری میں لڑ رہے ہیں۔
مخالفت میں لڑنے والے گروپ بھی اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی تفصیل ایک طویل کتاب کی متقاضی ہے۔ یہ بات شام کے متعدد باغیوں اور عالمی برادری کے لیے بھی باعث تشویش ہے کہ انقلابیوں کی صفوں میں ایسے گروپ بھی درآئے ہیں جنہیں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے۔ ان میں سرفہرست القاعدہ کا ذیلی گروپ’’النصرہ محاذ‘‘ اور ’’مملکت اسلامیہ عراق وشام‘‘ جیسے نام نمایاں طورپر لیے جا رہے ہیں۔ان میں تیونس، لیبیا، مصر، خلیجی ممالک ،افریقی ملکوں،مالی، صومالیہ اور مغرب اسلامی کے جنگجو گروپ بھی شامل ہیں جو القاعدہ کی چھتری تلے بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے مسلح کارروائیاں کرتے ہیں۔
ہم میں سے بہت سوںکے لیے یہ بات باعث حیرت ہوگی کہ لیبیا کے برعکس شام میں تحریک طالبان کی بڑی تعداد بھی باغیوں کی حمایت میں لڑ رہی ہے۔ تحریک طالبان کے کئی رہ نماؤں کے اعترافی اوراقبالی بیانات ریکارڈ پرموجود ہیں جن میںوہ مبینہ طورپرتسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان سے جاکر سیکڑوں کی تعداد میں جنگجو شام کے شہروں دمشق،حمص، ادلب، حلب اور الاذقیہ میںکارروائیاں کرتے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں کی کوریج کرنے والے ایک مقامی صحافی احمد ولی مجیب نے برطانوی نشریاتی ادارے کے لیے تیار کی گئی اپنی رپورٹ میں اعدادوشمار کی روشنی میں بتایا ہے کہ طالبان جنگجوؤں کی ایک معتدبہ تعداد شام روانہ ہوچکی ہے۔ ایک قابل ذکر تعداد مزید شام کے’’جہاد‘‘ میں حصہ لینے کے لیے روانگی کے مراحل میں ہے۔شام میں کارروائیاں کرنے کے لیے طالبان نے اپنا ایک خفیہ بریگیڈ قائم کر رکھا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق القاعدہ کی معیت میں لڑنے والے ’’بریگیڈ 313‘‘ میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد بھرتی کیے جاتے ہیں۔
احمد ولی مجیب کے مطابق طالبان کے ایک سرکردہ رہ نما محمد امین کا کہنا ہے کہ شام میں لڑنے والے گروپوں نے طالبان تک معلومات کی رسائی کے لیے بھی ایک سیل قائم کر رکھا ہے۔ اس خفیہ سیل کے ذریعے نہ صرف محاذ جنگ میں موجود طالبان سے روابط رکھے جاتے ہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کی طالبان قیادت کو بھی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔محمد امین نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی باغیوں کی حمایت میں لڑنے کے لیے 12ماہرنشانہ باز اور کمانڈوز ایک ہی وقت میں دمشق پہنچے تھے۔ یہ کمانڈوز نہ صرف خود کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں بلکہ نئے آنے والے جنگجوؤں کوٹریننگ بھی دیتے ہیں۔
طالبان کمانڈر محمد امین نے بتایا کہ افغان جہاد میں حصہ لینے والے ان کے ملکی اورغیرملکی ساتھیوں نے شام کے محاذ جنگ کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ یہاں سے جانے کے بعد طالبان نہ صرف انفرادی طور بشارالاسد کی حامی ملیشیا کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیںبلکہ دوسرے ہم خیال گروپوں کے ساتھ مل کرمشترکہ آپریشنز میں بھی حصہ لیتے ہیں۔بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق ازبک جہادی تنظیم’’تحریک ازبکستان اسلامی‘‘ پاکستان اور افغانستان سمیت وسطی ایشیائی ریاستوں سے جنگجو بھرتی کرکے شام کے محاذ پرلے جاتی ہے۔
یہ ازبک جنگجوماضی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ افغانستان پرامریکی یلغار کے بعد انہوں نے اپنی بندوقوں کا رخ امریکی افواج کی طرف موڑلیا تھا، تاہم پاکستان میں ہونے والی کارروائیوں میں اس گروپ کا نام نہیں لیا جاتا۔ قبائل میں یہ تاثر عام ہے کہ اُزبک تحریک جہاد الاسلامی شمالی وزیرستان میں جلال الدین حقانی گروپ کی وفادار ہے، جو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے بجائے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجیوں پرحملوں میں ملوث ہے۔
شام کے محاذ میں ’’بریگیڈ313‘‘ کے بارے میں عرب ذرائع ابلاغ میں بھی رپورٹس آتی رہتی ہیں۔ چند ماہ قبل یہ رپورٹس آئی تھیں کہ اس بریگیڈ نے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوب میں’’العبد‘‘ کالونی میں حزب اللہ کے ایک کمپاؤنڈ پرحملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کارروائی میں کم سے کم 67 لبنانی زخمی ہوگئے تھے، جن میں اکثریت حزب اللہ کے کارکنوں کی تھی۔
’’بریگیڈ313‘‘ ہی کے نام سے القاعدہ کا ایک کمانڈو یونٹ پہلے سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی موجود ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر القاعدہ نے اس نام سے کوئی تنظیم قائم کررکھی ہے تو طالبان کو اسی نام سے اپنا خفیہ سیل قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ عرب ذرائع ابلاغ اور باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ایک ہی گروپ ہے جوپاکستان ،افغانستان اور شام میں القاعدہ کی زیرنگرانی مسلح کارروائیوں میں مصروف ہے۔
طالبان کے ایک اور سرکردہ کمانڈر ملاعاصم عمر منظرنے چندماہ قبل انکشاف کیا تھا کہ جو جنگجو عراق کے محاذ پرموجود تھے وہ اب وہاں سے شام کا رخ کر رہے ہیں۔ان کا اگلا پڑاؤ اب شام ہوگا جہاں مجاہدین خلافت اسلامیہ کے لیے میدان میں اتریں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ شام کے محاذ میں پاکستان سے جانے والوں میں صرف طالبان ہی نہیں بلکہ لشکرطیہ، لشکر جھنگوی، الیاس کشمیری کی قائم کردہ حرکت جہاد اسلامی (جس کی قیادت ان دنوں’’شاہ صاحب‘‘ نامی ایک طالب کمانڈر کر رہے ہیں)، کالعدم جیش محمد اور ایران مخالف تنظیم جنداللہ بھی شامل ہیں۔ شام میں یہ تمام جنگجو گروپ ’’بریگیڈ313‘‘ کے پرچم تلے جمع ہیں اور مل کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ جنداللہ نے پاکستان کے شہر کراچی سے اپنے ہم خیالوں کو بھرتی کرنے کے بعد شام کے محاذ پرپہنچایا ہے۔ لشکر طیبہ اور لشکرجھنگوی جیسے گروپوں نے پاکستان کے صوبہ پنجاب سے جنگجو بھرتی کرنے کے بعد شام کے میدان جنگ میں بھیج رکھے ہیں۔
قطری ٹی وی الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شام میں جنگ کے طول پکڑنے کے بعد القاعدہ نے دنیا بھرمیں موجود اپنے ہم خیالوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں شام روانہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مفاہمت کا عمل شروع ہونے کے بعد طالبان قیادت نے خود بھی یہ محسوس کیا ہے کہ ان کے جنگجووں کو اب کسی دوسرے محاذ جنگ پر روانہ کردینا چاہیے۔ چنانچہ قریب ترین اور گرم محاذ صرف شام کا ہے ۔ طالبان اب ادھر کا رخ کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شام پہنچنے کے لیے طالبان ایران،عراق، خلیجی ریاستوں اور خفیہ بحری راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔
شام۔۔۔ مشرق وسطیٰ کا افغانستان!
شام میں خانہ جنگی جوں جوں طول پکڑتی جا رہی ہے، توں توں اس کے مستقبل کے حوالے سے طرح طرح کے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ شورش کو تقریبا تین سال ہونے کو ہیں لیکن مسئلے کا کوئی پرامن تصفیہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دمشق کے محاذ جنگ کو باریک بینی سے دیکھنے والے ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ شام اٖفغانستان بنتا جا رہا ہے جو ایک بدترین خانہ جنگی سے گزرچکا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد اپنی جانوں اور گھربار سے محروم ہوگئے تھے۔ چونکہ شام کے محاذ میں بھی اس وقت بشارالاسد کی وفادار سرکاری فوج سے زیادہ خون خرابہ باغی گروپوں کے باعث ہورہا ہے۔ اس لیے مستقبل میں بھی ان باغی گروپوں کا شام کے نئے سیاسی نقشہ راہ میں کردار تسلیم کرنا پڑے گا۔
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شام اب پہلے کی طرح ایک مستحکم ملک نہیں رہ سکتا۔ اس کا حشر عراق اور افغانستان سے بھی بدتر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پڑوسی ملک عراق میں دس سال تک امریکی افواج امن آشتی کاڈھول پیٹنے کے کھوکھلی دعوؤں کے ساتھ نوری المالکی اور جلال طالبانی جیسے کٹھ پتلیوں کی نحیف ونزارحکومت بنانے کے سوا اور کچھ نہ کرسکیں۔دہشت گردی کی کون سی شکل ہے جو نئے اور ’’جمہوری عراق‘‘ کے تاروپود نہیں بکھیر رہی ۔ مذہبی، گروہی، مسلکی ہرطرح کی لڑائی وہاں ہو رہی ہے۔ عراقی حکومت نے جیلیں بھی بھردی ہیں۔ آئے روز درجنوں مشتبہ جنگجوؤں کو موت کی سزائیں بھی دی جا رہی ہیں، لیکن دہشت گردی اور کشت وخون ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔شام کے حالات تو اس سے بھی بدتر ہیں۔بشارالاسد کے جانے کے بعد ملک میں مستحکم حکومت کا خواب دیکھنا سوائے بے وقوفی اور خوش فہمی کے اور کیا ہوسکتا ہے۔مستقبل قریب میں عراق، افغانستان اور شام مسلمان ملکوں کی ایک ایسی تکون بنتی دکھائی دیتی ہے جنہیں حقیقی معنوں میں ناکام ریاستیں قرار دیا جائے گا۔
سفارتی کوششوں میں ناکامی
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے مشغلے کے ساتھ شورش پرقابو پانے کے لیے سفارتی محاذوں پرمساعی شروع ہوئی ہیں مگر یہ سفارتی کوششیں اپنے آغاز ہی سے ناکامی سے دوچار ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔شام کی قومی عبوری کونسل اوراسد حکومت اپنے اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ فریقین کے غیرلچک دار رویے سے ایسے لگ رہا ہے کہ خانہ جنگی طول پکڑسکتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بشارالاسد عالمی سطح پر مزید تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اسد کے حاشیہ نشینوں کا کہنا ہے کہ وہ جنیوا2 میں اقتدار باغیوں کے حوالے کرنے کی غرض سے شرکت نہیں کرسکتے جبکہ باغی کونسل نے بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی شرط پر اس اجلاس میں شرکت پرآمادگی کااظہار کیا ہے۔
دوسرے معنوں میں دو سال سے جنیوا 2 اجلاس بلانے کے لیے جاری سفارتی کوششیں بھی کھٹائی میں پڑتی دکھائی دیتی ہیں۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کواقتدار سے ہٹانے کے لیے براہ راست ان سے بات کرنے کے بجائے ایران سے معاملہ طے کرنا ہوگا۔ اس وقت شام کا مسئلہ صرف ایران حل کرسکتا ہے، لیکن باغیوں کو ایران کاحل قابل قبول نہیں ہوگا۔سفارتی محاذوں پر مسئلے کے حل میں ناکامی سے القاعدہ جیسے سخت گیر گروپ خوش ہوں گے کیونکہ امن کی کوششوں میں ناکامی سے القاعدہ کو اپنا اثرو رسوخ بڑھانے اور کارروائیاں تیز کرنے میں مدد ملے گی۔
اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح 1995ء میں افغانستان میں طالبان نے جھاڑو پھیرتے ہوئے اپنی حکومت قائم کرلی تھی، یہ تجربہ اب شام میں بھی دہرایا جاسکتا ہے، جس کی سرخیل القاعدہ ہوگی۔ شام میں برسرجنگ القاعدہ کو تیونس، لیبیا اور دوسرے عرب ملکوں سے امداد بھی مل رہی ہے۔ یوں سفارتی محاذ پرناکامی القاعدہ کی فتح تصور کی جائے گی۔ اگرملک کو القاعدہ کے شکنجے میں جانے سے روکنا ہے تو فریقین کو کسی بھی فورم پر ہونے والی امن کوششوں میں شامل ہونا پڑے گا۔ بشارالاسد کا جانا تو نوشتہ دیوار ہے لیکن انقلابی کونسل کی ذمہ داری اور حساسیت بڑھتی جا رہی ہے۔اس نازک وقت میںکوئی معمولی سی غیرذمہ داری بھی ملک کو کسی بڑی تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے۔
ان سفارتی کوششوں کے جلو میں بشارالاسد کے مستقبل کا تعین کرنے اور انہیں محفوظ راستہ دینے کی قیاس آرئیاں بھی زور پکڑنے لگی ہیں۔ایرانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بشارالاسد کو اقتدارسے ہٹانے کے بعد ان کے مستقبل کی حیثیت کا تعین سب سے اہم امر ہے۔’’ جنیوا2‘‘ کے متوقع اجلاس میں بھی اس معاملے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ انہیں محفوظ راستہ دینے کی باتیں بھی کئی ماہ سے جاری ہیں۔ گوکہ ایران اسد حکومت کو بچانے کی پوری کوشش کرے گا ، تاہم باغیوں کے ہاتھوں بشارالاسد نے شکست قبول کرلی تو ان کی ایران کے سوا اور کوئی جائے پناہ نہیں ہوسکتی۔بشارالاسد کے اپنے اندازبیان سے یہ نہیں لگتا کہ وہ ملک چھوڑ کرکہیں اورجائیں گے۔اس لئے خدشہ ہے کہ ان کا انجام صدام حسین یا کرنل معمرقذافی جیسا ہوسکتا ہے۔