ملک پر بے یقینی کی فضا طاری ہے۔
اگر اس کا براہِ راست تعلق حکومت سے نہیں تو حکومت کو بری الذمہ بھی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس لیے کہ کسی بھی سماج یا ملک پر یہ صورتِ حال طاری ہونے کے چاہے جو بھی اسباب ہوں، لیکن ان کا سب سے پہلے اندازہ حکومتی افراد اور ملکی اداروں کو ہوتا ہے اور یقینا ہونا بھی چاہیے۔ اس لیے کہ ملک کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ایسے آلات اور ذرائع اُن کے پاس ہوتے ہیں جو اس طرح کے حالات کی وقت سے پہلے اور فوری نشان دہی کرتے ہیں۔ چناںچہ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ نہ صرف ان پر نظر رکھے، بلکہ جب ان حالات کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھے تو ان اسباب کا جائزہ لے جو ان کے وقوع پذیر ہونے کا سبب بن رہے ہیں اور بہتری کے لیے راست اور فی الفور اقدامات کرے۔
اس وقت جب کہ ہم ملک کے ماحول اور عوامی فضا کا جائزہ لے رہے ہیں، پاکستان تحریکِ انصاف کی ملک میں حکومت قائم ہوئے پچاس روز سے زائد گزر چکے ہیں، اور یہاں پر جس فضا کا ذکر کیا جارہا ہے، یہ بھی اچانک رونما نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے کہ گومگو کے یہ بادل یکایک کسی سمتِ غیب سے آکر ہمارے یہاں نہیں چھائے ہیں، بلکہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس کا ماحول ہمارے داخلی معمولات نے بنایا ہے۔ ملک میں اس وقت جو کچھ بھی ہوا، رفتہ رفتہ ہوا ہے، تاہم اب فضا اس قدر بوجھل ہے کہ عام آدمی بھی اس کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اس فضا کو بنانے میں جن عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا، وہ بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ دقیق۔ سامنے کی کچھ چیزیں ہیں، مثلاً شہبازشریف ایک روز نیب میں ایک مقدمے میں طلب کیے جاتے ہیں اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ایک اور کیس میں گرفتار کرلیے جاتے ہیں۔ اگلے روز عدالت سے ریمانڈ لے کر ان سے تفتیش بھی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ قانون اور انصاف کی کارروائی سے کوئی بھی شخص اور کسی بھی قیمت پر بالاتر نہیں ہونا چاہیے، لیکن ملزم جب تک مجرم ثابت نہ ہو، اس وقت تک قانون اور انصاف کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی میں کچھ لوازم اور نزاکتوں کو بہرحال پیشِ نظر رکھا جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ایسے اقدامات کی وجہ سے احتساب کا نہیں، بلکہ سیاسی انتقام کا تأثر پھیلتا ہے جو کہ اس معاملے میں ایک حد تک پھیلا بھی ہے۔
اس واقعے کے بعد وفاقی وزیرِاطلاعات کے جو بیانات سامنے آئے، ان میں بھی ذمے دارانہ رویہ دکھائی نہیں دیتا اور متانت تو بالکل ہی مفقود ہے۔ اس کارروائی پر وزیرِاعظم نے جس طرح نیب کو تھپکی دی، اس کا نتیجہ سخت ناگوار صورت میں اس وقت سامنے آیا جب نیب نے پنجاب یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران اور اُن کے ساتھیوں کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا۔ وائس چانسلر صاحب اور ان کے ساتھ یونی ورسٹی کے چھے اساتذہ پر غیرقانونی بھرتیوں اور من پسند طلبہ کو اسکالر شپ دینے کا الزام ہے۔ اوّل تو یہ بھی الزام ہے، یعنی جرم ثابت نہیں ہوا اور ثابت بھی ہوجائے کہ تو اساتذہ کو یوں ہتھکڑی لگا کر قتل کے مجرموں کی طرح عدالت سے لے جانا ہرگز قابلِ برداشت نہیں ہوسکتا۔ یقیناً یہ قابلِ مذمت اقدام ہے۔ بھلا ہو چیف جسٹس کا کہ انھوں نے اس کا نوٹس لینا ضروری سمجھا اور پھر ساتھ ہی شاباش ہے، نیب کے ڈی جی کو کہ عدالت میں آکر انھوں نے اس قطعی غیراخلاقی اقدام کے لیے سراسر نامعقول عذر پیش کیے اور جب چیف جسٹس نے سختی دکھائی تو رو پڑے اور معافی مانگ لی۔
دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کو بجلی اور پیٹرول وغیرہ کے نرخ بڑھانے کے لیے سمری بھیجی جاتی ہے۔ خبر آتی ہے کہ متعلقہ وزیر یا وزیرِاعظم صاحب نے سمری مسترد کردی۔ اس خبر کے بعد چار روز نہیں گزرتے کہ قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور گیس کی قیمت میں تو ایک دم بائیس روپے اضافہ کردیا جاتا ہے۔
ان سب باتوں کے علاوہ سی پیک کے بارے میں حکومتی ذرائع سے اطلاعات آنے لگتی ہیں کہ منصوبے کا ازسرِنو جائزہ لیا جارہا ہے۔ کیا جائزہ لیا جارہا ہے؟ یہ کہ سارا منصوبہ کس حد تک قابلِ قبول اور قابلِ عمل ہے۔ اس کے ساتھ آپ فنانس کے شعبے کو دیکھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا نہیں سوچ رہے اور پھر اعلان ہوجاتا ہے کہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی منظوری دے دی۔ اسٹاک مارکیٹ ان گومگو کے حالات میں بہت بڑا جھٹکا کھاتی ہے اور دو سو اسّی ارب سے زائد کے خسارے کی لپیٹ میں آکر کریش ہوجاتی ہے۔ ادھر ڈالر ملک کی تاریخ میں ایک دم سب سے بڑا اضافہ حاصل کرتا ہے اور یک بہ یک لگ بھگ ساڑھے نو روپے اوپر چلا جاتا ہے۔ ان حالات میں ملک اور قوم بے یقینی، بے اطمینانی، خوف اور اندیشوں میں مبتلا ہورہے ہیں تو یہ کوئی اَن ہونی نہیں، فطری ردِعمل کا اظہار ہے۔
چلیے مانے لیتے ہیں کہ یہ سب کچھ براہِ راست حکومتی فیصلوں کا نتیجہ ہے اور نہ ہی حکومتی اقدامات کا، لیکن اتنا کہہ کر بات ختم نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے کہ یہ چھوٹے معاملات نہیں ہیں، بلکہ اتنے بڑے ہیں کہ ملک کی بیس بائیس کروڑ آبادی ان سے متأثر ہوگی۔ ایسے معاملات پر کچھ سوالات اٹھتے ہیں، مثلاً یہ کہ کیا حکومت کے پاس وہ نظر یا وہ وژن بھی نہیں ہے کہ وہ حالات کے بدلتے ہوئے رخ کا پہلے سے اندازہ کرکے ان کو سہارنے اور سنبھالنے کی صورتِ حال بنا سکے؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو بس پھر کیا کہا جاسکتا ہے سوائے یہ کہ اللہ ملک و قوم کی حفاظت کرے— اور اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر سوالوں کا ایک سلسلہ اٹھتا چلا جاتا ہے کہ آخر پھر حکومت کے لائق فائق لوگ کیا کررہے ہیں؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا ملک کے اداروں کے درمیان اعتماد کی فضا نہیں ہے کہ وہ حالات کے سلسلے میں ایک دوسرے کو باخبر رکھیں؟ یہ بھی پوچھا جائے گا کہ کیا حکومت نے اب تک کوئی مربوط اور جامع حکمتِ عملی نہیں بنائی کہ جو ملک کو ترقی اور استحکام کے راستے پر لاسکے؟ غورطلب سوال یہ بھی ہے، کیا یہ حالات حکومت کی ناتجربے کاری کے سبب پیدا ہوئے ہیں یا پھر غیر ضروری حد تک بڑھتی ہوئی غیر حقیقی خود اعتمادی کا نتیجہ ہیں؟ یہ بھی پوچھنا ضروری ہے، کیا حکومت نے اب تک اپنی ترجیحات طے نہیں کی ہیں کہ اسے معلوم ہو کہ کب، کیا اور کس طرح کرنا ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے، کیا حکومت نے وزارتیں سونپتے ہوئے اس امر کا لحاظ نہیں رکھا کہ کون کس شعبے کے لیے موزوں ثابت ہوگا؟ یہ اور ایسے ہی کچھ اور سوالات بھی اب اُن سب لوگوں کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں جو حالات اور حقائق کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ اس سے زیادہ سوالات سادہ دل اور خوش فہم عوام کے دلوں اور ذہنوں میں گونج رہے ہیں۔ اس لیے کہ دو مہینے پہلے تک وہ اپنے وزیرِاعظم اور ان کے رفقا کو جو کچھ کہتے ہوئے سنتے رہے ہیں، اُن سب باتوں نے ان کی جاگتی ہوئی آنکھوں میں دور تک اجلے خوابوں کی فصل بوئی تھی، اور اب جو کچھ ہورہا ہے، اس کا نقشہ بالکل الٹ ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور بڑی مشکل عام آدمی کی زندگی میں اس وقت یہ ہے کہ اس کی ڈھارس بندھانے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت حالات اور مسائل کے بارے میں اسے بالکل اعتماد میں نہیں لے رہی۔ وزیرِاعظم نے بے شک کہا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے، اس پر گھبرانے کی ضرورت نہیں، یا یہ کہ فکر نہ کرو، میں ان حالات سے نکال لوں گا۔ اب اس طرح کے بیانات تو عوام کی امید نہیں بندھا سکتے۔ حکومت کے باقی لوگ جو باتیں کررہے ہیں، وہ سب وہی ہیں جو اس سے پہلے ہر نئی حکومت کے لوگ اپنے سے پہلے والی حکومت کے بارے میں کرتے رہے ہیں۔ یہ باتیں کتنی حقائق پر مبنی ہیں، اس سے قطعِ نظر، بار بار کی سنی ہوئی ایسی باتوں میں عام آدمی کے لیے کوئی معنی ہیں اور نہ ہی تسکین کا سامان۔ اس پر ستم یہ کہ روز کوئی نہ کوئی بحرانی صورتِ حال پیدا ہورہی ہے۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پیدا کیا ہے اسٹاک مارکیٹ کے انہدام اور ڈالر کی قدر میں اضافے نے۔ خدا اس ملک و قوم کی حفاظت فرمائے اور اس کے عوام کو روزی روٹی کی آزمائش سے بچائے، لیکن اس وقت جو حالات ہیں، انھیں معاشی بحران کا پیش خیمہ ہی سمجھنا چاہیے۔ ایسے ہی حالات ہوتے ہیں جب کسی ملک میں مہنگائی کا سیلابی ریلا سارے بند توڑتا ہوا داخل ہوتا ہے اور غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر لے جاتا ہے۔ پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے، وہ بہت انوکھے نہیں ہیں۔ آج بہت ترقی یافتہ نظر آنے والی بہت سی قومیں اپنے اپنے وقت پر اسی طرح کے مسائل سے گزری ہیں۔ چین، ملائیشیا، سنگاپور، ہانگ کانگ ان میں شامل ہیں۔ حالیہ عرصے میں ترکی اسی مرحلے سے دوچار ہوا ہے، بلکہ اب بھی ایک حد تک اس سے نبرد آزما ہے۔ تاہم اس کے صدر طیب اردوان نے ڈٹ کر فیصلہ کیا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ اپنے مسئلے سے خود نمٹیں گے۔
ترکی نے 2013ء میں آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کیا اور پھر جو بھی حالات رہے اور جو بھی مسائل پیدا ہوئے، وہ ان سے اپنے بل بوتے پر نکلا۔ گذشتہ مہینوں میں امریکا نے ترکی کرنسی لیرا کو عالمی مارکیٹ میں جس طرح نیچے لانے کے اقدامات کیے ہیں، ان کے نتیجے میں ترکی مالیاتی مسائل سے دوچار ہوا۔ اس کی معیشت نے کئی جھٹکے کھائے۔ صدر اردوان نے کھلے لفظوں میں امریکی اقدامات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ’’کرنسی وار‘‘ قرار دیا، لیکن اپنی خود انحصاری پر سمجھوتا کرنے سے انکار کردیا۔ ملک کی بقا، ترقی اور استحکام کا انحصار دراصل ایسے ہی فیصلوں اور اقدامات پر ہوتا ہے۔
پاکستانی عوام ملک کے اچانک بگڑتے ہوئے معاشی حالات کے بارے میں یوں بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ گذشتہ حکومت نے جس انداز سے اور جس نہج پر ملک کو چلایا، اس میں عام آدمی کسی بحران سے دوچار نہیں ہوا۔ اسٹاک مارکیٹ میں اگر اس دوران میں مندی کا رجحان آیا بھی سہی تو جلد ہی ختم ہوگیا اور پھر سے تیزی نظر آنے لگی۔ ملک کی معیشت بہت اچھی بے شک نہ رہی ہو، لیکن بدحالی کا شکار بھی نہ ہوئی۔ اس کا بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ کم و بیش دو سال پہلے (2016ء میں) آئی ایم ایف کی انھی سربراہ کرسٹین لگارڈ نے پاکستانی معیشت کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اب مستحکم ہوگئی ہے اور ترقی کے راستے پر ہے۔
اس وقت انھوں نے پاکستان کے معاشی مستقبل کے بارے میں خاصی امید افزا باتیں کی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایسا کیا ہوا کہ ملکی معیشت کا پہیا الٹا گھومنے لگا؟ اس عرصے میں معیشت کی خرابی کی رفتار اگر اتنی بڑھ گئی تھی تو حکومت کے قابل اور ذہین فنانس منسٹر جو وزیراعظم کے نہایت قابلِ اعتماد لوگوں میں سے بھی ہیں، انھوں نے ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ پھر کیوں تذبذب میں گزارا اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ اتنی تاخیر سے کیوں کیا کہ اس اثنا میں فارن کرنسی کے ذخائر پریشان کن حد تک نیچے آگئے؟ حالات کا اندازہ کرکے اگر یہ فیصلہ پہلے کرلیا جاتا تو کیا اس حد تک آنے والے مسائل سے بچا نہیں جاسکتا تھا؟
اب جب کہ حکومت نے باضابطہ آئی ایم ایف سے قرض کی درخواست کردی ہے تو کچھ اور باتیں بھی غور طلب ہیں۔ سب سے پہلے تو یہی کہ اگر جانا ہی تھا اور اس کے بغیر کاروبارِ حکومت چلانا ممکن نہیں تھا تو اتنا زیادہ وقت لگانا درست نہیں تھا۔ یہ طے کیے بغیر کہ آئی ایم ایف کی طرف جانے کے سوا چارہ نہیں، حکومت نے یہ جو بجلی، گیس وغیرہ میں اضافہ کیا ہے، یہ کس لیے؟ اب یہ بات تو ہمارے ملک کے نوجوان بھی اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جب بھی ہماری نئی حکومت قرض کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے تو اُسے قرض کے ساتھ نظامِ حکومت چلانے کے لیے کچھ خاص ہدایات بھی دی جاتی ہیں اور اُس کے لیے اس قرض کے ساتھ کچھ شرائط بھی رکھی جاتی ہیں۔
قرض دار حکومت ان پر عمل کی پابند ہوتی ہے۔ اشیائے صرف مثلاً بجلی، گیس، پیٹرول وغیرہ کے نرخ میں اضافہ اور قومی اداروں کی فروخت کے مطالبات اس قرض کی عنایت کے ساتھ بنیادی تقاضوں کے طور پر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ قرض دار ملک کی کرنسی کی قدر میں خاطر خواہ کمی بھی لازمی شرط ہوتی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ آئی ایم ایف اپنے قرض داروں کے سفارتی تعلقات اور عالمی سیاسی معاملات پر بھی پوری طرح اثرانداز ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت پہلے ہی سے اشیا کی قیمتیں بڑھا رہی ہے اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے پر نظرِثانی کرکے چین جیسے خیرخواہ دوست کو بدظن اور دُور کررہی ہے تو اس کے بعد وہ آئی ایم ایف کے تقاضوں پر اور کیا کیا کچھ کرنے کو تیار ہوجائے گی؟ وزیرِاعظم کہتے ہیں کہ سخت فیصلے کرنے ہوں گے، وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ اور کڑوے گھونٹ پینے پڑیں گے۔ ٹھیک ہے لیکن:
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
عوام کی پسلی کتنا وزن سہار سکتی ہے، اس کا لحاظ رکھنا بھی تو ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ملک کو خوش حالی کے راستے پر لانے کے چکر میں آپ لوگوں کو فاقوں مار دیں گے۔ وہ لوگ جو عزت، شرافت اور خاموشی سے مرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے، وہ جرائم میں پناہ تلاش کریں گے۔ غربت اور مایوسی معاشرے کے لیے ناسور کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ افلاس میں انسان کا ایمان تک خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی کے سارے دعوے اپنی جگہ، لیکن فی الحال حکومت کے ارادوں، عزائم اور نیت پر شبہ کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ٹھیک ہے، یہ بات مان لیتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس جادو کی چھڑی ہے اور نہ ہی الٰہ دین کا چراغ کہ وہ پلک جھپکتے میں کوئی کرشمہ دکھا سکیں۔ یہ بھی تسلیم کہ ملک کے حالات اور دنیا کی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ان کے بارے میں سوچنا چاہیے اور زمینی حقائق کے پیشِ نظر اُن سے سوال کرنا چاہیے۔ اس لیے یہ خیال تو درست نہیں ہے کہ موجودہ اہلِ اقتدار لوگ پچاس دن کی حکومت میں عوام کے لیے دودھ کی نہریں کیوں نہیں بہا سکے۔ البتہ ان سے تاخیر کے جواز اور وژن کی کمی کا سوال ضرور کیا جانا چاہیے۔ یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں اب تک نہ تو کوئی حکمتِ عملی پیش کی ہے اور نہ ہی عوام کو اعتماد میں لیا ہے۔
آج ہم جس گلوبل دنیا میں سانس لے رہے ہیں یہ ایک بہت پیچیدہ نظام کی حامل ہے۔ اس میں کوئی بھی ملک قبضہ گیر ذہنیت کی حامل عالمی طاقتوں کے ہتھکنڈوں اور عفریت کی طرح مسلط ہوجانے والے عالمی مالیاتی اداروں کے حربوں سے آسانی سے نہیں بچ سکتا۔ اس کے لیے ترکی اور ارجنٹائن جیسے ملک یا اُن جیسی سیاسی قیادت مطلوب ہوتی ہے کہ ایسے ہی لوگ اپنی دانش مندی، بصیرت، جرأتِ فیصلہ اور عوامی اعتماد کے بل بوتے پر ملک کو خود انحصاری کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ اس لیے کہ ملک کی معیشت کے لیے مشکل اور بڑے فیصلے ہی ان حالات میں کافی نہیں ہوتے، بلکہ اور بھی کئی مسائل پر کڑی نظر رکھنی ضروری ہوتی ہے۔
اسی طرح اپنے لیے متبادل وسائل کی فراہمی کا مسئلہ بھی معاشی استحکام اور خود انحصاری کے لیے بنیادی تقاضے کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر سوال پر غور کیا جائے کہ پاکستان کے پاس متبادل وسائل کے امکانات کیا ہیں تو صورتِ احوال ایسی مایوس کن نہیں ہے، مثلاً دو عوامل ہی پاکستانی معیشت اور اس کی کرنسی کی قدر کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پہلا ہے، بیرونِ ملک پاکستانی جو دنیا کے دوسرے ممالک میں کام کرتے اور ملک میں اہلِ خانہ کو رقم بھجواتے ہیں۔ حکومت کو ان پر توجہ دینی چاہیے اور اُن کے ذریعے ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافے کی صورت بنانی چاہیے۔ اس کے لیے ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت ان افراد کے لیے مالیاتی بانڈ جاری کرے اور انھیں اس میں انویسٹمنٹ کی تحریک دے۔ اس سے پاکستان کو بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اسے ایک طرف تو وافر اور آسان زرِمبادلہ حاصل ہوگا اور دوسری طرف یہ بھی کہ رقم کی ادائی اپنی کرنسی میں اور اپنے ملک ہی میں کرنی ہوگی۔ اس طرح وہ غیر ملکی قرض کے دباؤ سے باہر آسانی سے آسکے گا۔
دوسری بہت ہی بنیادی چیز درآمدات کا حد سے بڑھا ہوا تناسب ہے۔ اس میں فی الفور کٹوتی کی ضرورت ہے۔ اس میں دو باتوں پر خاص طور سے توجہ چاہتی ہیں۔ پہلی یہ کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اجناس کی درآمدات کررہا ہے۔ ملک میں زراعت کے فروغ پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اس کے لیے کسانوں کی سہولیات، پانی کے نظام، بہتر معیار کے بیچ اور کھاد کی فراہمی کو یقینی بناکر خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح بیرونِ ملک سے ہمارے یہاں دودھ، پنیر اور پھل خاصی مقدار میں درآمد کیے جارہے ہیں۔ 2018ء میں پاکستان کا تجارتی خسارہ تیئس ارب اور اڑتالیس کروڑ ڈالر رہا ہے۔
اس میں پنیر اور پھلوں کا خاصا حصہ ہے۔ اس کو بہ آسانی اور فی الفور کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمد بھی زرِمبادلہ کے مسائل کا سبب بن رہی ہے۔ بین الاقوامی قرضوں پر چلنے والے پاکستان جیسے ملک کے عوام کے لیے بھلا اس عیاشی کا دروازہ اوّل تو کھولا ہی کیوں گیا ہے اور اگر بہ درجہ مجبوری کھولا بھی جائے تو اس کی حد مقرر کرنا ضروری ہے۔ آپ پاکستان کے بیشتر بڑے شہروں میں کاروں کے شورومز پر کھڑی بے شمار ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کو دیکھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معیشت پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ اس کے لیے بہتر اور مؤثر حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔
محنت کش اور سرزمینِ وطن کی محبت کے جذبے سے سرشار عوام، قدرتی وسائل اور زراعت کے لیے کارآمد زمین ایسی نعمتیں ہیں کہ جو کسی بھی ملک کو مہینوں میں نہیں، بلکہ دنوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں بھرپور مدد فراہم کرسکتی ہیں۔ یہ نعمتیں ملک کے لیے خود انحصاری اور استحکام کو عملاً ممکن بنانے میں بنیادی اور غیر معمولی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ملک میں انقلاب لاسکتی ہیں اور اس کے عوام کے لیے خوش حالی کے در وا کرسکتی ہیں۔ اس کے لیے ضرورت ہے، حالات و حقائق کو سمجھنے اور وژن رکھنے والی قیادت کی جو نعروں پر نہیں عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہو اور جانتی ہو کہ اچھے اور بڑے فیصلے اسی وقت بہتر طور پر نتیجہ خیز اور مؤثر ہوسکتے ہیں جب انھیں پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ بروقت کیا جائے— اور ہر طرح کی سیاست و مصلحت سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف ملک و قوم کے مفاد میں۔
The post اور پھر آئی ایم ایف appeared first on ایکسپریس اردو.