کسی بھی ملک کی معیشت میں کرنسی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی کبھی اناج، نمک، زعفران اور کئی مصالحہ جات کو لین دین کے لیے بطور کرنسی استعمال کیا گیا۔
ایک ہزار سال قبل مسیح چین میں کانسی کو سکوں کی شکل میں ڈھال کر دنیا کی پہلی باقاعدہ کرنسی کے طور پر استعمال شروع کیا گیا۔ کرنسی کو قانونی شکل اور اس کی قیمت کو یکساں رکھنے کے لیے سونے، چاندی اور دیگر قیمتی دھاتوں سے بنے سکوں کو کئی صدیوں تک پیسوں کے لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
ساتویں صدی میں چینی تہذیب ’’تنگ‘‘ کے تاجروں نے سکوں کے بوجھ سے نجات کے لیے کاغذ سے بنی کرنسی بنانے پر کام شروع کردیا تھا اور گیارہویں صدی کے آغاز میں چینی تہذیب ’’سونگ‘‘ میں پہلی بار کاغذ سے بنی کرنسی کا استعمال شروع کیا گیا۔ تیرہویں صدی میں مارکو پولو اور ولیم ربرک کی بدولت کاغذی کرنسی یورپ میں متعارف ہوئی۔ مارکو پولو نے بھی اپنی کتاب ’’دی ٹریولز آف مارکو پولو‘‘ میں یو آن سلطنت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے،’’یہ لوگ اپنے ملک میں درخت کی چھال سے بنی کاغذ سے مشابہہ ٹکڑوں کو لین دین کے لیے بطور پیسہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘
وقت کے ساتھ ساتھ کاغذی نوٹوں کی شکل اور معیار میں بہتری آتی گئی اور اس کے بعد کریڈٹ کارڈ متعارف کرائے گئے جنہیں پلاسٹک کرنسی کا نام دیا گیا۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد پیسوں کے لین دین کے لیے ’’ای کرنسی‘‘ وجود میں لائی گئی، جس نے صارفین کے لیے انٹرنیٹ پر خریداری کو مزید سہل بنادیا۔ لیکن چند سال قبل ایک ایسی ورچوئل کرنسی ’’بٹ کوائن‘‘ وجود میں آئی، جس کی مالیت اس وقت دنیا کی سب کرنسیوں سے بہت زیادہ ہے۔
تادم تحریر ایک ’’بٹ کوائن‘‘ کی مالیت 308امریکی ڈالر ہے، جب کہ پاکستان میں ایک بٹ کوائن لینے کے آپ کو تقریباً 33ہزار روپے دینے پڑیں گے، لیکن اس ورچوئل کرنسی کی قیمت نیچے بھی بہت تیزی سے آتی ہے۔
اس غیریقینی صورت حال کے باوجود بٹ کوائن کی مقبولیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں ایک طرف منشیات فروشی، غیرقانونی اسلحے کی تجارت، جوئے کے دھندے میں ملوث اور منی لانڈرنگ کرنے والے افراد کے لیے یہ کرنسی بہت قابلِ اعتماد سمجھی جا رہی ہے تو دوسری جانب بہت سے مشہور ریستورانوں، کاروباری اداروں اور آن لائن خریدوفروخت اور خدمات فراہم کرنے والے ادارے بھی بٹ کوائن میں پیسوں کا لین دین کر رہے ہیں ، جب کہ چند دن قبل ہی کینیڈا میں دنیا کی پہلی ATM مشین بھی نصب کی گئی ہے، جس کے ذریعے ابتدائی چند دنوں میں ایک لاکھ ڈالر سے زاید مالیت کی ساڑھے تین سو سے زاید ٹرانزیکشن کی جاچکی ہے۔ بٹ کوائن ATM (روبو کوائن) بنانے والی کمپنی کے سی ای او جارڈن کیلی کا کہنا ہے کہ یہ مشین بنانے میں تقریباً 15 ہزار ڈالر کی لاگت آئی ہے اور ہم دسمبر 2013کے اختتام تک ’’برلن‘‘،’’ٹورنٹو‘‘،’’ہانگ کانگ‘‘،’’لندن‘‘ اور ’’نیویارک ‘‘ سمیت دیگر شہروں میں روبوکوائن نصب کردیں گے۔ اس رپورٹ میں ہم نے بٹ کوائن کی تاریخ اور اس کے کام کرنے کا طریقۂ کار واضح کیا ہے۔
٭ بٹ کوائن کیا ہے؟: بٹ کوائن رقم کی ادائیگی کے لیے دنیا کا سب سے منفرد ڈیجیٹل کرنسی کا نظام ہے۔ یہ پیسوں کی منتقلی اور وصولی کا دنیا کا پہلا ڈی سینٹرلائزڈ ’’پیر ٹو پیر‘‘ نیٹ ورک ہے، جو استعمال کنندہ کنٹرول کرتا ہے، جس کے لیے اسے کسی سینٹرل اتھارٹی یا مڈل مین کی ضرورت نہیں پڑتی۔ استعمال کنندہ کے نزدیک بٹ کوائن انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کے لیے کیش کی طرح ہے۔
٭بٹ کوائن کس نے ایجاد کیا؟: بٹ کوائن کو پہلی بار ایک نظریے ’’کرپٹو کرنسی‘‘ کے تحت استعمال کیا گیا، جسے 1998میں پہلی بار ’’Wei Dai‘‘ نے اپنیcypherpunks(ایسا فرد جو کمپیوٹر نیٹ ورک پر اپنی پرائیویسی کو خصوصاً حکومتی اتھارٹیز کی دسترس سے دور رکھتے ہوئے رسائی حاصل کرے) میلنگ لسٹ میں وضع کیا، جس میں اس نے پیسوں کو ایک ایسی نئی شکل میں ڈھالنے کی تجویز پیش کی، جس کی تشکیل اور منتقلی مرکزی حکام کے بجائے cryptography (رمزنویسی، فنِ تحریر یا خفیہ کوڈز کو حل کرنا) کے طریقۂ کار پر مشتمل ہو۔ پہلے بٹ کوائن کی تفصیلات اور اس کے حق میں دلائل 2009 میں ساتوشی ناکاموٹو کی cryptography ملنگ لسٹ میں شایع ہوئے تھے۔ 2010 کے اواخر میں ساتوشی نے مزید تفصیلات کا انکشاف کیے بنا اس پروجیکٹ کو چھوڑدیا، لیکن اس کی ای میل فہرست میں شامل کئی۔ ڈویلپرز نے بٹ کوائن پروجیکٹ پر کام شروع کردیا۔
ساتوشی کی گم نامی نے کئی افراد میں بلاجواز تحفظات پیدا کردیے اور ان میں سے متعدد کا تعلق بٹ کوائن کی ’’اوپن سورس‘‘ ساخت کے حوالے سے غلط فہمیوں سے تھا۔ اب بٹ کوائن پروٹوکول اور سافٹ ویئر سب کے سامنے شایع ہوچکا ہے اور دنیا کا کوئی بھی ڈویلپر اس کوڈ کا جائزہ اور اپنا ترمیم شدہ بٹ کوائن سافٹ ویئر کا نیا ورژن بالکل اسی طرح بناسکتا ہے، جیسے موجودہ ڈویلپرز، ساتوشی کا اثر ان تبدیلیوں پر بہت محدود تھا، جنہیں دوسروں نے حاصل کرلیا اور ساتوشی اسے کنٹرول نہیں کرسکا۔
٭ بٹ کوائن نیٹ ورک کو کنٹرول کون کرتا ہے؟: بٹ کوائن نیٹ ورک کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس کا مالک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس ای میل کے پس منظر میں کام کرنے والی ٹیکنالوجی کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔ بٹ کوائن کو دنیا بھر میں موجود اس کے استعمال کنندہ ہی کنٹرول کرتے ہیں، جب کہ ڈویلپرز اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن وہ بٹ کوائن پروٹوکول میں تبدیلی نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہر استعمال کنندہ کو اپنی مرضی کا سافٹ ویئر اور ورژن استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک دوسرے سے مطابقت رکھنے کے لیے تمام استعمال کنندہ کو ایک جیسے اصول پر پورا اترنے والے سافٹ ویئر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ بٹ کوائن اسی صورت میں صحیح کام کرتا ہے جب تمام استعمال کنندہ کے درمیان مکمل مطابقت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام استعمال کنندہ اور ڈویلپرز اس مطابقت کو تحفظ دینے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔
٭بٹ کوائن کیسے کام کرتا ہے؟: ایک استعمال کنندہ کے نقطۂ نظر سے بٹ کوائن ایک ایسی موبائل ایپلی کیشن اور کمپیوٹر پروگرام سے زیادہ کچھ نہیں ہے جو ذاتی بٹ کوائن والیٹ فراہم کرتا ہے اور استعمال کنندہ اس کے ذریعے بٹ کوائن بھیجتا اور وصول کرتا ہے۔لیکن استعمال کنندہ کے نقطۂ نظر کے برعکس اس کا پس منظر دیکھا جائے تو بٹ کوائن نیٹ ورک ایک عوامی لیجر (بہی کھاتا) میں شریک کرتا ہے جو ’’بلاک چین‘‘ کہلاتا ہے۔ اس لیجر میں تمام ٹرانزیکشن کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں اور ہر ٹرانزیکشن کی درستی کے لیے استعمال کنندہ کے کمپیوٹر کی تصدیق کی جاتی ہے۔ کسی جعل سازی سے بچنے کے لیے ہر ٹرانزیکشن کو ڈیجیٹل دستخط سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جب کہ کمپیوٹر یا مخصوص ہارڈ ویئرز کے ذریعے یہ سروس فراہم کرنے پر بطور انعام بٹ کوائن بھی دیے جاتے ہیں جسے اکثر لوگ ’’مائننگ‘‘ کہتے ہیں۔
کیا لوگ حقیقت میں بٹ کوائن کو بطور ’’رقم ‘‘ استعمال کرتے ہیں؟
دنیا بھر میں بٹ کوائن کے لین دین میں انفرادی اور کاروباری سطح پر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جن میں ریسٹورینٹ، اپارٹمنٹس، لا فرمز، اور آن لائن خدمات فراہم کرنے والی مشہور کمپنیاںNamecheap, WordPress, ، Reddit اور Flattr شامل ہیں۔ بٹ کوائن کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ اگست 2013 کے اختتام تک دنیا بھر میں زیرِگردش بٹ کوائنز کی مالیت150 کروڑ1.5 ) بلین (ڈالر سے تجاوز کرچکی تھی،جب کہ روزانہ لاکھوں ڈالر مالیت کے بٹ کوائنز کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
٭بٹ کوائنز سے ادائیگی کا طریقۂ کار: بٹ کوائن سے خریداری کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے زیادہ سہل ہے اور اسے کسی بھی مرچنٹ اکاؤنٹ کے بغیر وصول کیا جاسکتا ہے۔ رقوم کی ادائیگی والیٹ ایپلی کیشن کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہ ایپلی کیشن آپ اپنے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سے بھی استعمال کر سکتے ہیں، پیسے بھیجنے کے لیے وصول کنندہ کا ایڈریس اور ادا کی جانے والی رقم لکھ کر Send کا بٹن دبا دیں۔ وصول کنندہ کا ایڈ ریس لکھنے کا طریقہ مزید سہل بنانے کے لیے اسمارٹ فون کی مدد سے QRکوڈ (ایڈریس، فون نمبرز، ای میل ایڈریس اور ویب سائٹ کی معلومات پر مبنی مخصوص کوڈ جو سیاہ اور سفید چوکور خانوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسکین کرنے پر تمام معلومات فون میں منتقل کردیتا ہے ) اسکین کرلیں۔
٭بٹ کوائنز کے فوائدپیسے ادا کرنے کی آزادی : بٹ کوائن کے ذریعے دنیا بھر میں کسی بھی جگہ کسی بھی وقت رقوم کی منتقلی اور وصولی فوراً ہوجاتی ہے۔ یہ طریقۂ کار کسی سرحد، کسی بینک ہالیڈے اور کسی حد سے مبر ا ہے۔ بٹ کوائن استعمال کنندہ کو اپنی رقم پر مکمل کنٹرول دیتا ہے۔
انتہائی کم فیس: بٹ کوائن سے کی جانے والی ادائیگیوں پر کوئی فیس نہیں لی جاتی، تاہم بٹ کوائنز کو کاغذی نوٹوں میں تبدیل کروانے یا فروخت کنندہ کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کرانے پر معمولی فیس لی جاتی ہے، جو کہ Pay Pal اور کریڈٹ کارڈ نیٹ ورکس کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔
مرچنٹس کے لیے کم خطرات: بٹ کوائنز کی ٹرانزیکشنز محفوظ، ناقابل واپسی ہیں اور ان میں صارف کی حساس اور نجی معلومات بھی شامل نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرچنٹ کے لیے یہ ایک محفوظ اور بھروسے کے قابل کرنسی سمجھی جا رہی ہے اور وہ کریڈٹ کارڈ سے ہونے والے فراڈ سے بھی ممکنہ حد تک بچ سکتے ہیں۔
٭سیکیوریٹی اور کنٹرول: بٹ کوائن کے استعمال کنندہ کو اپنی ٹرانزیکشن پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور فروخت کنندہ کے لیے بٹ کوائن کے ذریعے ادائیگی کرنے والے صارف سے فیس کی مد میں اضافی فیس وصول کرنا ناممکن ہے جب کہ بٹ کوائن سے کی جانے والی ادائیگی صارف کی نجی معلومات کے بنا پرکی جاتی ہے۔ بٹ کوائن کو بیک اپ کے طور پر بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
٭بٹ کوائن کے نقصانات : بٹ کوائن مکمل طور پر اوپن سورس اور ڈی سینٹرلائزڈ ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی کسی بھی وقت مکمل سورس کوڈ پر قابض ہوکر دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو ان کی متاع حیات سے محروم کر سکتا ہے۔ تاہم ایسا ہونا بظاہر نا ممکن ہے، کیوں کہ یہ مکمل نظام ’’cryptographic algorithms‘‘ پر مشتمل ہے اور کوئی فرد یا تنظیم بٹ کوائن پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکتی۔
بٹ کوائن کے سب سے بڑے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زیادہ تر لوگ ابھی تک بٹ کوائن کے بارے میں نہیں جانتے۔ گرچہ دن بہ دن اس کے استعمال کنندہ کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن یہ تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔
بٹ کوائن کا ایک بڑا نقصان اس کی مالیت میں تیزی کے ساتھ ہونے والا اتار چڑھاؤ ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر بٹ کوائن وصول کرنے والے چھوٹے تاجروں اور کاروباری اداروں پر پڑتا ہے۔
بٹ کوائن آن لائن بینکنگ نیٹ ورکس اور کریڈٹ کارڈ ز کی طرح ورچوئل ہے۔ بٹ کوائن کو کرنسی کی دوسری اقسام کی طرح آن لائن شاپنگ اور فزیکل اسٹورز پر خریداری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جب کہ اسے منی چینجر سے ایکسینچ کروا کر کاغذی کرنسی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم زیادہ تر لوگ موبائل فون کے ذریعے ادائیگی زیادہ سہل سمجھتے ہیں۔ تاہم بٹ کوائن کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا ابھی بعید از قیاس ہے۔ بٹ کوائن کے کاروبار کو کچھ ملکوں میں غیرقانونی قرار دیا گیا ہے تو کچھ ملکوں میں اس کو قانونی قرار دے کر ’’بٹ کوائن ایکسچینج‘‘ کھولنے کے لیے لائسنس کا اجرا بھی کیا جا رہا ہے۔
٭بٹ کوائن کیسے بنائے جاتے ہیں؟: نئے بٹ کوائنز ایک ڈی سینٹرالائز پروسیس ’’مائننگ‘‘ سے بنائے جاتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں نیٹ ورک کے لیے خدمات سر انجام والے افراد کو انعام کے طور پر بٹ کوائنز دیے جاتے ہیں۔ ان افراد کو ’’مائنرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مائنرز ٹرانزیکشنز کو پروسیس کرنے اور اسپیشلائزڈ ہارڈ ویئرز استعمال کرتے ہوئے نیٹ ورک کو محفوظ اور ایکسچینج میں نئے بٹ کوائنز کو جمع بھی کرتے ہیں۔
بٹ کوائن پروٹوکول اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ نئے بٹ کوائن ایک فکسڈ ریٹ پر تخلیق ہوتے ہیں، جس نے بٹ کوائن مائننگ کو بہت مسابقت والا کاروبار بنادیا ہے۔ جب زیادہ مائنرزنیٹ ورک میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر انفراد طور پر ہر کسی کا منافع کم ہوجاتا ہے اور کسی ڈویلپر یا مائنر کے پاس منافع میں اضافے کے لیے سسٹم میں ردوبدل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سسٹم کے معیار سے مطابقت نہ کرنے والے بٹ کوائن نوڈ کو دنیا بھر میں مسترد کردیا جاتا ہے۔ بٹ کوائن کی قیمت کا انحصار معاشیات کے قانون ’’طلب‘‘ اور ’’رسد‘‘ پر ہے۔ طلب بڑھنے پر بٹ کوائن کی قیمت میں اضافہ اور کم ہونے پر کمی ہوجاتی ہے۔
بٹ کوائن کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ سسٹم میں صرف21ملین بٹ کوائن ہی تخلیق کیے جاسکیں گے۔ تاہم اس کی کوئی حد نہیں ہوگی کیوںکہ بٹ کوائنز کو 8 ڈیسی مل ( 0.000 000 01 BTC )میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، مستقبل میں ضرورت پیش آنے پر اسے مزید چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔