مشہور ماہر تعلیم اگناسیو ایسٹراڈا کا کہناہے:’’اگر ایک بچہ اس طرح نہیں سیکھ پاتا جس طرح ہم سکھاتے ہیں تو پھر ہمیں اسے اس طرح سکھانا چاہئے جس طرح کہ وہ سیکھ پائے‘‘۔
استاد بچے کو بنانے اور بگا ڑنے میں وہ کردار ادا کرتا ہے جو شاید والدین بھی نہیں کرسکتے۔ بہت سے نامور لوگ اپنے استادوں کی وجہ سے نامور ہوئے اور بہت سے مجرم اور ناکام لوگ بھی استادوں کی بے جا سختی کے باعث سکولوں سے بھاگے اور سڑکوں پر آوارگی کے بعد ان کا انجام یا تو کسی ورک شاپ میں مکینک بن کر ہوا یا پھر جیل جا کر۔ اگر ہمارے سوشل ورک کے سٹوڈنٹس جیلوں میں جا کر قیدیوں کا انٹرویو کریں تو ان میں سے اکثریت نے بچپن میں استادوں کی مار پیٹ کی وجہ سے سکول چھوڑا ہوگا۔ سکول چھوڑنے کے بعد معاشرے سے بچے پر نالائق ہونے کا پکا لیبل لگ کر اسے آوارگی کا سرٹیفیکیٹ مل جاتا ہے۔ والدین بھی ایسے بچے کی عزت نہیںکرتے۔کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ہوسکتاہے بچہ بے قصور ہو اوراستادکی سختی اس کے سکول چھوڑنے کا باعث بنی ہو۔
یورپ اور امریکہ میں استادوںکی اپنے طالب علموں کوسمجھنے اور پروان چڑھانے کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ بہت سارے استاد اپنے فیلڈ میں گہری دلچسپی کے باعث کامیاب سپیکر اور ریسرچر بن گئے۔ انہوں نے بچوں کی نفسیات پر ایسی کتابیں لکھیں جنہوں نے کسی ناول کی طرح بکنے کے ریکارڈ توڑ دئیے اور وہاں لوگ ایسے استادوں کی ورک شاپس اور لیکچرز سننے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ استاد اپنے تجربے کی روشنی میں انمول نکتے بیان کرتے ہیں کیونکہ ان کی زندگی کا مشن بچوں کی بہبود ہوتا ہے اور ضرورت مند والدین اور ریسرچرز انہیں سننے کے لئے دوڑے چلے آتے ہیں۔
استاد کی آنکھ حیران کن حد تک باریک بین اور مرد م شناس ہوتی ہے۔ اکثر استاد والدین کو ان کے بچے کے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین کی فطری محبت بچے کی کمزوریوں کو نظر انداز کرجاتی ہے اور وہ اس امید پر رہتے ہیں کہ بڑا ہوگا تو ٹھیک ہوجائے گا لیکن استاد اور ڈاکٹر کا واسطہ چونکہ بہت سارے لوگوں سے پڑتا ہے اس لئے وہ صحیح موازنہ کر لیتے ہیں کہ200 بچوں میں سے یہ چار بچے اضافی طور پر تیز ہیں یا نمایاں طور پر سست ہیں۔ والدین کی محبت بے پایاں ضرور ہوتی ہے لیکن مشاہدے کا میدان اتنا وسیع نہیںہوتا۔
٭استاد ایک جادوگر
استاد کا کردار جادو کی وہ چھڑی ہے جو کسی کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوکر اسے بدل سکتی ہے۔ بند ذہن کو کھولنا، اداس روح کو خوشی اور مایوس بچوں کو امید سے آشنا کرنا استاد کا کام ہے۔ نار تھ امریکہ کے بہت بڑے ڈپارٹمنٹل سٹور کے ششماہی رسالے ’دی کنکشنز‘ نے استاد کے موضوع پر لوگوں سے اپنی یادیں لکھنے کو کہا۔ دو بہت سادہ اور موثر واقعات جون، 2018 کے شمارے میں شائع ہوئے ہیں انھیں پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ استاد بچوں کی زندگیوں پر کتنا زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔
٭’مہربانی میں چھپا ایک سبق‘(جینیفر کی کہانی)
’’1970ء کی دہائی میں’ مس ڈیگ‘ میری دوسری کلاس کی استانی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتیںکہ ان کی شفقت سے بھر پور کتنے لمحات نے میری زندگی کو کیسے متاثرکیا تھا۔ مس ڈیگ ہمیشہ ایک لاکٹ پہنتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ا یک دن کلاس کے راؤنڈ کے دوران وہ جھکیں اور لاکٹ کھل کر آگے پیچھے جھولنے لگا۔ لاکٹ کا یوں جھولنا مجھے مبہوت کر رہا تھا۔ میں نے بے اختیار آگے بڑھ کر کھلا ہوا لاکٹ بند کردیا۔ وہ ایک لمحے کو رکیں، میری آنکھوں میں دیکھا ، پیار سے میرے گالوں کو سہلا یا اور کہا: ’’شکر یہ‘‘
بہت سارے لوگوں کے لئے یہ بات بہت ہی معمولی ہوگی لیکن ایک ایسی بچی جو انتہائی بے توجہی کے ماحول میں پروان چڑھ رہی تھی جہاں باپ ہمیشہ غیر حاضر ہوتا اور سوتیلی ماں نے سوائے تلخی اور غصے کے کبھی کچھ نہیں دیا تھا، اس کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی۔ اس دن زندگی میں پہلی دفعہ مجھے احساس ہواکہ میں بھی نرم رویے اور محبت کی مستحق ہوسکتی ہوں۔ کئی سال بعد میرے شوہر نے میرے بچے کی پیدائش پر مجھے ایک سونے کا لاکٹ تحفے میں دیا، اس کی کنڈی میں کچھ خرابی تھی اور وہ اکثر کھل جاتا۔ میرے شوہر نے کہا کہ جیولر کو واپس کردیتے ہیں تاکہ وہ اس کی مرمت کردے لیکن میں نے انہیں روک دیا کہ میں اس کی مرمت نہیں چاہتی کیونکہ مجھے ایسے لگتا تھا کہ یہ اگر اس طرح ہے تو اس کے پیچھے کوئی وجہ ہے۔ میں ہمیشہ ’’مس ڈیگ‘‘ کی شکر گزار رہوں گی، ان کی شفیق تھپکی ،مہربان آواز اور میرے اندر یہ احساس جگانے کے لیے کہ میں بھی توجہ دئیے جانے کے قابل ہوں‘‘۔
کہنے کو یہ واقعہ بہت ہی معمولی ہے لیکن یہ اپنے اندر ایک گہری نفسیات لیے ہوئے ہے۔ ایک محرومیوں کی ماری ہوئی بچی کو استاد کا ایک محبت بھرا لمس اور شفقت بھرا رویہ ہمیشہ کے لئے متاثر کرگیا۔ تقریباً آدھ صدی گزرنے پر بھی وہ اس محبت کو سرمائے کی طرح سنبھالے ہوئے ہے۔ یقیناً ایسے مثبت احساسات سے بچے کے اندر کام کا شوق پیدا ہوتا ہے کہ میں استاد کی امیدوں پر پورا اتروں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جینیفر مس ڈیگ کا سبق نہ یاد کرنا چاہتی ہو یا مس ڈیگ کی کلاس میں بیٹھنا اسے بوجھل محسوس ہوتا ہو؟ یقیناً مس ڈ یگ کا پڑھانا جینیفر کو زیادہ آسانی سے سمجھ آتا ہو گا کیونکہ وہ ٹینشن فری ماحول میں سکھایا جاتا تھا۔ محبت کا جواب ہمیشہ مثبت ہوتا ہے۔ کلاس میں دی گئی تھوڑی سی توجہ کلاس سے باہر کی طویل زندگی پر محیط ہوسکتی ہے۔
٭ڈبہ بند طرز تعلیم
بد قسمتی سے تعلیم کو نصاب کے ڈبے میں بند کردیا گیا ہے۔ تعلیم کی روح کو پانے کے لیے نصاب سے باہر نکلنا اور بچوں کو نکالنا بہت ضروری ہے۔ ایک اچھا استاد بچوں کو نصابی کتب کے علاوہ مطالعے سے آشنا کرواتا ہے اور پوری دنیا کی سیر کرواتا ہے۔ مروجہ طرز تعلیم میں استاد اور طالبعلم کے تعلق میں فاصلوں کو لازمی سمجھا جاتا ہے تاکہ
احترام اور ادب برقرار رہ سکے۔ طے یہ کرنا ہے کہ کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟ فاصلہ نہ صرف ایک دوسرے کی بات سمجھنے اور سمجھانے میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ ایک ایسے تکلف اور تکلیف کو جنم دیتا ہے جو آسان چیزوں کو مشکل بنا دیتا ہے۔
خاص کر ذہنی مریض بچے جن کے مسائل نے ان کے ارد گرد ہچکچاہٹ اور خوف کی مضبوط دیواریں کھڑی کی ہوتی ہیں۔ بچوں کے دماغ بڑھو تری کے جس عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں، انہیں اپنے ارد گرد کے متعلق بہت زیادہ تجسس ہوتا ہے۔ معاشرے ، اخلاق ، رسم و رواج، دنیا ، فطرت اور سب سے بڑھ کر اپنا وجود اور اس کی قدر و قیمت کے متعلق ان
کا جاننا بہت ضروری ہوتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب استاد دوستانہ گفتگو میں نصابی علم کے ساتھ ساتھ بہت ساری اخلاقی اور سماجی تربیت بھی کرسکتا ہے۔
٭استاد شاگرد اور شاگرد استاد
ایک حدیث مبارکہ میں علم کو مومن کی کھوئی ہوئی میراث کہا گیا ہے۔ اس حدیث کا اصل مقصد علم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، علم صرف استاد کی میراث نہیں ہوتا اور نہ صرف کتاب میں بند ہوتا ہے۔ علم روشنی کی طرح ہر طرف پھیلا ہوتا ہے ، اگر اسے سیکھنے کے دروازے بند نہ کرلئے جائیں یا خود سے ہی فیصلہ نہ کر دیا جائے کہ یہ جگہ اور یہ شخص تو اس قابل ہی نہیں کہ کچھ سکھاسکے تو سیکھنے کے لا متناہی رستے کھل سکتے ہیں۔ سیکھنے کے عمل کا کو ئی بھی ذریعہ ہوسکتا ہے اور کسی طرح بھی سیکھا جا سکتا ہے جیسے کہ مشہور موسیقار فل کولنز کہتے ہیں:’’ سیکھنے میں آپ سکھاتے ہیں اور سکھانے میں آپ سیکھتے ہیں۔‘‘ اس کی بہترین مثال جونی ہیرن کی یہ سچی کہانی ہے۔
٭وقت ضائع نہیں کرنا
(جونی ہیرن کی کہانی )
اس سال(2018ء میں ) میں، میں61سال کی ہوگئی ہوں اور میری استاد’لین ہین کاک‘ جو بہت مشہور مصنفہ ہے اور جس کی یہ کہانی ہے وہ 80 سال کی۔ میری خوش قسمتی ہے کہ چھٹی جماعت میں مس ہینکاک میری استانی تھیں۔ ہماری کلاس کا کمرہ بہت دلچسپ تھا کیونکہ مس ہینکاک اپنے ساتھ طرح طرح کے دلچسپ جانور لایا کرتی تھیں۔ میری دوسری بڑی خوش قسمتی یہ تھی کہ مجھے ’جپسی‘ نام کے بندر کی دیکھ بھال کا موقع ملا جس نے میرے لئے لکھنا پڑھنا آسان کردیا۔ میں جس سکول میں پڑھتی تھی وہاں ’مس ہینکاک‘ جیسے غیر روایتی استاد اتنے عام نہیں تھے۔ خاص کر میرے جیسی لڑکی جو سخت قسم کے ڈسلیکسیا( لکھنے پڑھنے کی کمزوری) کا شکار تھی اور اس وقت سکولوں میں ذہنی امراض کی تشخیص اور خصوصی طریقہ تعلیم کا کوئی رواج نہیں تھا۔ میں اس روایتی قسم کے سکول میں سخت مشکلات کا سامنا کر رہی تھی، جب خوش قسمتی سے ’مس ہینکاک‘ آسٹریلیا سے جدید ٹیچنگ کورس کرکے آئی جسے عملی پڑھائی کا طریقہ کہتے ہیں۔
اس نے میرے مسائل کو سمجھ کر میری پوشیدہ صلاحیتوں کو خوب چمکایا۔ مثلاً مجھے بندر پر غور کر کے اس کی نشوونما اور بڑھو تری کی رپورٹ لکھنے کے کام نے مصنفہ بنادیا۔ چھٹی کلاس میں، میں نے بندر پر جو مضمون لکھا تھا اسے دس سال بعد’مس ہینکاک ‘ نے ایک کہانی کی بنیاد بنایا۔ مجھے وہ استاد نہیں بلکہ دوست کی طرح یاد آتی ہے۔ میرے والد کا کام کیمرے اور فلموں سے متعلق تھا اور مجھے میڈیا کے بارے میں کافی علم تھا، میں نے میڈیا سے متعلق جدید ٹیکنالوجی مس ہینکاک کو سکھائی، بدلے میں’مس ہینکاک‘ نے مجھے بڑ ی کشتی کے پیڈل چلانے سکھایا۔ مس ہینکاک ہی تھیں جنھوں نے مجھے دنیا کا شاندار نظارہ دکھایا کہ کیسے سمندر میں عقاب مچھلیاں پکڑنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں، جو ایک بہترین تحفہ تھا‘‘۔
یہ دونوں خواتین استاد اور شاگرد اپنے اپنے میدان میں کئی ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں۔ دونوں نے خوب نام کمایا اور دنیا کو اپنا بہت کچھ دیا اور ایسا صرف ان کے سیکھنے اور سکھانے کی لگن سے ممکن ہوا۔
٭کوئی بات نہیں
انگلش میں ’پلیز‘ اور ’تھینک یو‘ کو میجک ور ڈز کہا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے اساتذہ کو اس لسٹ میں ’بہت اچھا‘،’شاباش‘ اور’ کوئی بات نہیں‘ کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔ یہ اساتذہ اور والدین کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ بظاہر یہ معمولی الفاظ بچوں کے لئے ایک طاقتور ٹانک کا کام کرتے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے زنگ آلود تالے کو تیل لگانے سے وہ بڑے آرام سے کھلنے ملنے لگتا ہے یا جام ہوئے پرزوں کو گریس لگانے سے ان میں روانی آ جاتی ہے۔ کامیاب استاد وہ ہے جو پچھلی رو میں بیٹھنے والے بچوں کو اگلی رو میں بٹھاسکے ورنہ ان بچوں کی ساری زندگی معاشرے میں پیچھے رہ کر گزر جائے گی۔
٭کوئی بات نہیں
بچے کی غلطی، ہوم ورک میں بہ وجوہ تاخیر کے نتیجے میں استاد کا رد عمل ’کوئی بات نہیں‘ زیادہ تر مثبت نتائج لائے گا۔ اگر کوئی بہت ہی کاہل بچہ اس رویے سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا تو بہت سارے، ڈرے ہوئے ، کم اعتماد بچوں میں بہت مثبت تبدیلی آئے گی۔ رٹا ایک عارضی،محدود اور ناکارہ طرز تعلیم ہے جبکہ اسی چیز کو خواہ وہ قرارداد پاکستان ہو یا حدود اربع بلوچستان ہو دوستانہ ماحول میں اسے اپنے لفظوں میں بیان کرنا اور ساری کلاس کو اس میں دلچسپ طریقے سے اس طرح شامل کرنا کہ بچے اس نصابی پڑھائی کے لیے اپنے الفاظ استعمال کرسکیں اور صرف کتاب میں لکھے ہوئے لفظ لائن بہ لائن یاد کرنے کی فکر سے آزاد ہوجائیں۔ یہ ایسی ہی آزادی ہے جیسے کسی کے سر سے منوں ٹنوں وزنی بوجھ اتار لیا جائے۔ پاکستانی معاشرے میں والدین کو بھی ایسے استاد کو ترجیح دینی چاہیے جو نمبروں کی دوڑ سے زیادہ معیاری تعلیم دے رہا ہو۔ اگر استاد والدین اور بچے کو جانچ سکتا ہے تو والدین کیوں استاد کو نہیں جانچ سکتے۔
ایک حساس ماں کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے بچے کو صرف اس لئے ایک کلاس سے دوسری میں کروایا کہ میٹنگ کے دوران دو سے تین دفعہ استانی نے بچے کے لئے لفظ ’جھوٹا‘ بولا جہاں بچہ جھوٹا نہیں تھا بلکہ استاد اور بچے کی کوئی غلط فہمی تھی۔ ایک قابل قدر، بلند مقام استاد کا معمولی سی بات پر بچے کو ’جھوٹا‘ کہہ دینا گالی سے کم نہیں۔ اس ماں کا مؤقف تھا کہ میں نے اپنے بچے کو یہ سکھایا ہے کہ مر جانا لیکن جھوٹ نہ بولنا اور مجھے ڈر ہے کہ یہ استانی اس کو جھوٹ بولنا نہ سکھادے۔ کیونکہ جب سچے کو جھوٹا کہا جائے تو وہ سچ کی قدر کھو دے گا۔ ہاں! وہی استاد اگر مصلحتاً جھوٹ کی پردہ پوشی کردے تو شاید جھوٹا بچہ بھی سچ بولنا شروع کردے۔
٭فیل استاد
فیل صرف طالب علم ہی نہیں بلکہ استاد بھی ہوتے ہیں،ایک بارہویں کلاس کے لڑکے سے پوچھا گیا کہ کیا استاد بھی فیل ہوسکتے ہیں ؟ اس نے ایک سیکنڈ سوچے بغیر کہا:’’ہاں! وہ استاد جو بچوں کا احساس نہیں کرتے‘‘۔ ’’استاد کیسا ہونا چاہیے؟‘‘اس کے جواب میں تھرڈ ائیر کی طالبہ نے کہا کہ مجھے اتنا پتا ہے کہ میں ٹیچر بنوں گی اور اس دن استعفی دے
دوں گی جب کوئی ایک سٹوڈنٹ بھی غیر مطمئن میری کلاس سے باہر نکلا‘‘۔ کچھ اساتذہ کے مخصوص تکیہ کلام ہوتے ہیں مثلاً ’ڈل کلاس‘،’سست بچے‘،’ Passive people‘۔
حقیقت یہ ہے کہpassive class نہیں ہوتی، استاد ہوتاہے۔active استاد کی کلاس کبھی Passive نہیں ہوتی۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ جیسے کہ آپ وہ ہیں جو آپ کھاتے ہیں(you are what you eat) یعنی کلاس استاد کی کارکردگی کا آئینہ ہوتی ہے۔
٭استاد کا بستہ
استاد کا ذہنی بستہ رنگا رنگ آئیڈیاز سے بھرا ہونا چاہیے۔ کلاس میں کسی مختلف یا مشکل بچے سے واسطہ پڑنے پر کامیاب استاد اپنا غیر روایتی بستہ کھولتا ہے۔ کلاس کو کوئی بھی دلچسپ بات سنا دیں، کلاس سے کہہ دیں کہ وہ کوئی پہیلی یا لطیفہ سنادیں، کلاس کا ایک یا چند خاموش نہ دلچسپی لینے والے بچے بھی لطیفہ اور پہیلی سنانا یا سننا پسند کریں گے۔ اگر ان کی خاموشی پھر بھی نہ ٹوٹے تو آپ زیادہ ایکٹیو بچے سے پوچھیں کہ ہا!ں بھئی عمران آپ نے آج گھر سے سکول آتے ہوئے کیا کیا دیکھا؟ (بلی،کتا، گاڑی، ٹھیلا کچھ بھی ) اور پھر ڈائریکٹ خاموش بچے سے پوچھیں لیکن ایسے بچے کو کبھی بھی دو ٹوک آرڈر مت دیں کہ علی! اب آپ بتاؤ کہ کیا دیکھا؟ بلکہ علی کیا آپ ہمیں بتانا پسندکریں گے کہ آپ نے آج کیا دیکھا آتے ہوئے؟ اگر بچہ زیادہ ہی مسئلے کا شکار ہے تو آپ اس کو الفاظ دیں مثلاً آپ پیدل آئے یا ویگن میں؟ ویگن میں آئے تو کس رنگ کی ،بڑی ،چھوٹی وغیرہ وغیر ہ۔ پیدل آئے تو اکیلے یا کسی کے ساتھ ؟عین ممکن ہے کہ لرننگ ڈس ایبل بچہ اتنی کوشش کے باوجود کوئی خاص جواب نہ دے پائے لیکن اس کے لئے یہ احساس ہی کافی ہے کہ وہ باقی طلبا کے برابر اہمیت رکھتا ہے۔
٭کلاس کا ماحول
اچھا استاد کبھی بھی بچوں پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ انھیں خوفزدہ یا پریشان نہیں کرتا۔ سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ پریشانی میں دماغ بند ہوجاتا ہے۔ اچھا استاد کبھی اپنے طالب علم پر ’نالائق‘ کا لیبل نہیں لگنے دیتا۔ ایک دفعہ ’نالائق‘ کا دھبہ لگ جانے سے طالب علم اپنا جذبہ اور محنت کی تحریک کھودیتا ہے۔ بچوں کو جب ’نالائق‘ اور ’سست‘ کہہ دیا جاتا ہے تو وہ ذہنی طور پر یہ یقین کرلیتے ہیںکہ وہ دوسرے بچوں کی طرح سیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ احساس انھیں صرف پڑھائی ہی میں پیچھے نہیں رکھتا بلکہ زندگی میں ہرجگہ وہ اپنے کمتر ہونے کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔
٭بند دروازہ = کھلا دروازہ
اندر جانے کے لئے دروازے کا کھلا ہونا ضروری ہے۔ اگر دروازہ بند ہے تو آپ صرف ٹکریں مارسکتے ہیں اندر نہیں جا سکتے۔ خواہ آ پ کے پاس کتنا ہی بڑا عہدہ اور پیسہ کیوں نہ ہو۔ استاد کلاس میں آتے ہی اپنی رعب دار آواز میں کہتا ہے ’ہوم ورک کی کاپیاں میز پر لے آؤ‘ یا ’کل کا سبق سناؤ‘ یا ’میں تم لوگوں کے ہفتہ وار ٹیسٹ کے رزلٹ لایا ہوں۔‘ یہ سب کہتے ہوئے استاد کی آواز دوستانہ تو قطعاً نہیں ہوتی بلکہ ہر فقرے کے آخر میں ایسی وارننگ ہوتی ہے کہ اگر نہیں تو پھر سزا کے لیے تیار رہو۔ خوف سیکھنے کے راستے بند کر دیتا ہے۔ ساؤ تھ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں نیورو سائنس ، فلسفہ اور نفسیات کے پروفیسر کی تحقیق کے مطابق’’دماغ کے سیکھنے کا عمل بلاواسطہ ہمارے جذبات سے جڑا ہوتا ہے‘‘۔ گویا ہما ری ساری علمیت یاد داشت کی مرہون منت ہے۔ اگر ہم اپنی سٹور کی ہوئی معلومات کو ضرورت پڑنے پر واپس نہیں لاسکتے تو سارا سیکھنا بے کار ہے۔ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایک بور اور نہ دلچسپی لینے والا طالب علم سکھائی گئی معلومات کو اپنی یاد داشت سے اس طرح واپس نہیں لاسکتا جیسے ایک دلچسپی لینے والا طالبعلم۔
استاد کی پہلی انٹری ہی بچوں کے دماغ کو بند کردیتی ہے۔ بالخصوص کمزور دل و دماغ کے یا ’لرننگ ڈس ایبل‘ بچے کے دماغ کے سیکھنے کے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ اب استاد خواہ پی ایچ ڈی ہو وہ دماغ کو نہیںکھول سکتا کیونکہ خوف سیکھنے کے ماحول کا بڑا قاتل ہے اور خوف میں رکھنا ایک روایتی استاد کی عادت بن چکی ہوتی ہے(جو صرف جہالت ہے) اس کے بر عکس کلاس میں آتے ہی اگر استاد مسکرا کر یہ کہہ دے کہ ’کیسے ہیں آپ لوگ؟‘ یا یہ کہ ’آج ہم کچھ نیا سیکھیں گے‘۔ اور اگر استاد بہت پسندیدہ اور روایت شکن بننا چاہتا ہے تو وہ تھوڑا سا آگے قدم اٹھاسکتا ہے مثلاًکسی کے پاس کوئی اہم بات ہے بتانے والی تو وہ ہمیں بتائے۔کسی نے کل کچھ نیا پڑھا؟
اکثر سٹوڈنٹس ابتدا کرنے میں گھبراتے ہیں لیکن اگر استاد خود سے ابتدا کردے تو پھر ماحول ایک دم بہت دوستانہ ہوجاتا ہے اور طالبعلموں کو بولنے کی جرات ہوجاتی ہے ( مثلاً ’ہوں میرا کل کا دن بہت اچھا گزرا، مجھے میرا پرانا دوست مل گیا اور ہم نے خوب باتیں کیں‘ یا ’مجھے کل کسی نے ایک کتاب تحفے میں دی جو میں پڑھنے کے بعد آپ کو بتاؤں گا کہ اس میں کیا لکھا ہے‘ یا ’کل میں ایک دعوت میں ہوٹل گیا/ گئی وہاں میں نے ایک نئی ڈش کھائی جو بہت انوکھی تھی، میں نے وہاں ایک بیرے سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ ہمارے ہوٹل کی بہت خاص ڈش ہے ہما رے باورچی اٹلی سے سیکھ کر آئے ہیں‘۔ یہ پانچ یا دس منٹ کی گفتگو بچوں کے دماغ کو کھول دے گی اور وہ استاد کا پڑھایا ہوا جذب کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ دوستانہ ماحول میں پڑھانے کے استاد کو خاطر خواہ مثبت نتائج نظرآئیںگے۔
اگرچہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی کچھ اساتذہ کو جب بچوں کو سلیبس سے ہٹ کر گفتگو کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں مقررہ وقت پر نصاب ختم کروانا ہوتا ہے،ہم وقت ضائع نہیں کرسکتے، لیکن انہیں یہی کہا گیا کہ اس طرح بچے ذہنی طور پر آسودہ ہو جاتے ہیں اور وہ زیادہ اچھا اور جلدی سیکھتے ہیں۔
سخت ورزش سے پہلے وارم اپ کیا جاتا ہے ہلکی پھلکی اچھل کود ،جسم کو ورزش کے لیے تیار کرنے کے لیے اسی طرح کلاس کو ذہنی کام کے لیے تیار کرنے کے لیے ماحول خوشگوار کرنا بہت ضروری ہے۔
٭مثبت سوچ والا استاد= با اعتماد بچے
ہما رے ہاں بچوں کو ذہنی تناؤ میں رکھنا تعلیم کا ضروری حصہ سمجھا جاتا ہے، اور اکثر استاد منفی فقروں کا استعمال اپنی عادت بنا لیتے ہیں جو خود استاد اور بچے دونوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ مصر میں منعقد ہونے والے تلاوت قرآن مجید کے مقابلے میں پوری دنیا سے بچے اپنے والدین یا استاد کے ساتھ شرکت کرتے ہیں اس ڈاکو مینٹری https://www.youtube
.com/watch?v=mjbahxKVj9A میں بچوں کے تاثرات کو بہت اچھی طرح فلم بند کیاگیاکہ کس طرح وہ مقابلے کے لئے محنت کرتے ہیں اور کتنی ذہنی ٹینشن لیتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہ ہو جائے۔
بارہ سالہ پاکستانی بچے عبدالمجید کی تلاوت بہت ہی پیاری ہے، اس کا سکور سو میں سے90.6 پوائنٹ بنتا ہے۔ ایک سیکنڈ کے سین میں استاد بہت غیر جذباتی انداز میں کہہ رہا ہے کہ تم نہیں جیتو گے۔ یہ ایک سچ تھا، مایوس کن سچ لیکن پھر بھی یہ فقرہ ایسا ہونا چاہئے تھا کہ بچہ اپنا دل چھوٹا نہ کرے کیونکہ مقابلے کی ایسی صورت حال میں بچے پہلے ہی ڈرے ہوتے ہیں انہیں ایک حوصلہ افزا مسکراہٹ، اپنایت بھری تھپکی یا ایک مثبت فقرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یقیناً استاد نے بہت محنت کروائی ہوگی اور استاد کو بھی مایوسی ہوئی ہوگی لیکن اتنی دور اجنبی ملک میں اتنے ججز اور کمپیوٹر کے سامنے اس بچے کا سکور بہت اچھا تھا۔ پاکستانی استاد نے بچے کے پہلے سے پریشان چہرے پر نظر ڈالے بغیر یہ فقرہ کہا۔ باقی بچوں نے غلطیاں بھی کیں اور ان کا سکور بھی کم ہوا لیکن ان کے ساتھ لوگوں کا رویہ مثبت تھا۔
٭’میری کلاس میں بچے بہت نالائق اور سست ہیں‘
یہ ایک عام فقرہ ہے جو اکثر استاد بچوں کے متعلق کہتے ہیں، لیکن یہ سراسر غلط جواز ہے۔ ایک طرفہ ٹریفک اب بند ہوجانی چاہئے۔ کب تک صرف استاد کو ہی سنا جائے گا اور طالب علم کو بولنے کا حق نہیں دیا جائے گا! یہ فیصلہ کون کرے گا کہ طالب علم نالائق ہے یا استاد کو پڑھانا نہیں آتا۔ امریکا میں ماہرین تعلیم نے اس موضوع پر بہت تحقیق کی ہے بہت سے بچوں کو نالائق اور پڑھنے کے جذبے سے خالی قراردے دیا گیا اور ایک سے زیادہ استادوں نے کہا کہ ہم ان سے مغز ماری کرکے تھک چکے ہیں۔ انہی بچوں کو مختلف طریقے سے پڑھایا گیا تو انہوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ انسانی فطرت ہے کہ انسان’ عادت کا عادی‘ رہنے میں سہولت محسوس کرتا ہے لیکن بڑی کامیابیاں صرف انہی لوگوں کو ملتی ہیں جو’ کمفرٹ زون‘ سے باہر نکلتے ہیں۔ اکثر استاد یہ سوچ کر زیادہ کوشش یا تجربات نہیں کرتے کہ تنخواہ تو وہی ہے اور سہولتیں بھی وہی ہیں تو کلاس میں کچھ لائق اور نالائق کا تناسب توہوتا ہی ہے لیکن یہ تناسب کی بات نہیں انصاف، حق اور مساوی حقوق کی بات ہے۔ اپنے کمائے ہوئے رزق کو حلال کرنے کی کوشش اور ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچوں کو معاشرے کا عضو ناکارہ بننے سے بچانے کی ضرورت ہے۔
ایلکس مور( Alix Moor) جیسے کئی استاد ہیں جو استادی کے پیشے کی شان بن کر جگمگاتے ہیں انکی کتاب’دی گفٹ‘ ہر استاد کو پڑھنی چاہئے، وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں:’’ ٹیر نس کو میں نے سال بھر پڑھایا ، تیسری کلاس کا ایک بچہ، وہ ہما رے سکول میں نیا تھا اور اسے پڑھنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ شروع میں ہم نے پہلی کلاس کی ابتدائی کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ جو ایک درمیانے درجے کا پہلی کلاس کا بچہ اس سال خزاں میں پڑھتا (ششماہی پرچوں کے بعد) ٹیر نس کو پڑھنے میں جو طریقہ اپنانے کی ضرورت تھی وہ تھا سمجھ کر پڑھنا۔ جب کوئی مشکل لفظ اسے سمجھ نہیں آتا تھا تو وہ اسے بار بار پڑھتا تاکہ سمجھ سکے۔ وہ جلدی پڑھنا سیکھ رہا تھا وہ بہت جلد پہلی کلاس کے دوسرے درجے کی کتابیں پڑھنے والا تھا۔ ٹیر نس کی ترقی سے میں خوش تھی لیکن تیسری کلاس اور پہلی کلاس کا فرق مٹانے کے لئے جتنی ترقی درکار تھی وہ اس سے بہت دور تھا۔
اب میں نے اپنے استادی کے خصوصی ڈبے سے کوئی بڑا ہتھیار نکالنے کا سوچا۔ میں نے ٹیر نس کو چیلنج کردیاکہ اگر وہ اپنی عمر اور کلاس کے درجے کے مطابق 25کتابیں پڑھ کر دکھا دے تو میں اسے اس کی پسند کے ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے لے جاؤں گی۔ ٹیر نس بہت پر جوش ہوگیا۔ اس نے اپنی پسند کا ریسٹورنٹ منتخب کرلیا اور ایک دوست کو ساتھ لے جانے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ ہما رے درمیان ایک معاہدہ طے پاگیا ہم نے شرائط لکھ کر دستخط بھی کردئیے۔ آہستہ آہستہ ٹیرنس نے خود سے ایسی کتابیں منتخب کرنا شروع کردیں جو نہ تو بہت آسان ہوتیں اور نہ بہت مشکل۔ (ایک آسان کتاب کا پڑھنا پھر بھی ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن بہت مشکل کو پڑھنا بے کار ہوگا)۔ ہر رات، وہ یاد رکھنے کی کوشش کرتا کہ سارا ہوم ورک ختم کر لے تاکہ پھر کوئی کتاب پڑھ سکے۔ وہ کتاب کا نام نوٹ بک میں درج کرتا، پھر اسے پڑھتا پھرسارا کچھ بستے میں پیک کر کے سوتا۔ اس کے لیے یہ سب کرنا آسان نہیں تھا اور کبھی کبھی وہ بھول جاتا لیکن پھر بھی اس کی نوٹ بک میں کتابوں کے نام بڑھتے ہی جا رہے تھے۔
ایک دن میں نے سوچا کہ شاید اب ٹیرنس آسان لیکن طویل ابواب والی کتابیں پڑھنے کے لیے تیار ہوچکا ہوگا۔ میں نے مناسب کتابوں کی تلاش شروع کردی، اس کے لیے دوکتابیں (ہاپ آن پوپ اور لٹل بئیر) منتخب کر لیں۔ جب میں نے وہ ٹیرنس کو دیں تو وہ اچھل پڑا کہ وہ کئی ابواب پر مشتمل لمبی کتاب پڑھ سکتا ہے۔ میں بھی بہت زیادہ پر جوش تھی، اتنی زیادہ کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اس کی یہ کامیابی کسی اور کو بھی نظر آنی چاہئے۔
اس مقصد کے لیے میں نے اور ٹیرنس نے چیپٹرز والی کتابیں پکڑیں اور پرنسپل کے دفتر کی طرف چل پڑے۔ میں اس کی کامیابی پرنسپل کو دکھانا چاہتی تھی لیکن وہ آفس میں نہیں تھی۔ پھر ہم نے سوچا کہ اسسٹنٹ پرنسپل کو ہی پڑھ کر سنا دیتے ہیں لیکن اس نے ہمیں انتظار کرنے کا کہا۔ آخر ٹیرنس نے اونچی آواز میں دونوں کتابیں پڑھیں جو کہ اسسٹنٹ پرنسپل اور سیکرٹریوں نے سنیں، جب اس نے پڑھنا بند کیا تو انہوں نے کھڑے ہوکر تالیاں بجا کر گرم جوشی کا اظہار کیا۔ ٹیرنس کی خوشی کی انتہا نہ تھی، وہ بادلوں میں اڑ رہا تھا۔ ’’مجھے یقین نہیں آرہا ، میں بھی طویل کتابیں پڑھ سکتا ہوں‘‘ یہ الفاظ وہ بے اختیار اور بار بار کہہ رہا تھا۔ میں اس کی خوشی دیکھ کر سوچ رہی تھی کلاس کے کمرے میں سب سے بڑی خوشی کامیابی کے ایسے لمحات ہوتے ہیں، جب ہرچیز ٹھیک ہوجاتی ہے، سٹوڈنٹ کو مسئلہ حل کرنا آجاتاہے تو استاد کو کامیابی مل جاتی ہے۔ استاد، طالب علم اورکامیابی، یہ کیسی مکمل اور اطمینان بخش تکون ہے‘‘۔ اس ساری کہانی کے اندر جو بات قابل غور ہے وہ استاد کی لگن اور پڑھانے کا جذبہ ہے کہ کس طرح ایلس جیسے استاد اپنی بے پناہ محبت سے ان گنت بچوں کو پڑھنا سکھاتے ہیں۔
ایلس کی کتاب پڑھتے وقت پاکستان کے اخباروں میں چھپنے والی معصوم بچوں پر ان گنت مظالم کی انتہائی تکلیف دہ خبریں یاد آتی ہیں کہ کیسے ایک معصوم اندھا بچہ جسے درس کے قاری نے سبق نہ آنے پر پنکھے کے ساتھ اتنا لٹکائے رکھا کہ وہ لٹکے لٹکے مر گیا، ایک کم عمر لڑکے کو بہت ہی معمولی بات پر استاد نے اتنا زدوکوب کیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر تین چار دن بعد فوت ہوگیا۔ اس کے والدین ٹی وی پر بھی بلائے گئے تھے اور اس طرح کی ان گنت کہانیاں جو انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک ہیں۔
ایلس مور کی کتاب ’دی گفٹ‘ ھر استاد کے ٹیچنگ کورس کا لازمی حصہ ہونی چاھئے۔ ایلس کہتی ہیں کہ جب کلاس کے سب بچوں کو آپ کا پڑھایا سمجھ آ رہا ہو تو کوئی نہ کوئی ایسا بچہ ضرور ہوتا ہے جس کو آپ کا پڑھایا سمجھ نہیں آتا ، یہاں آپ کو اس بچے کے سمجھنے کے طریقے کو سمجھ کر اپنا سمجھانے کا طریقہ بدلنا ہوگا۔
The post استاد، طالب علم اور کامیابی کی تکون appeared first on ایکسپریس اردو.