جنرل پرویزمشرف نے میڈیا کو بلاجواز آزادی نہیں دی، بلکہ اُس کے دو بنیادی اسباب تھے۔ پہلا یہ کہ عالمی سطح پر صورتِ حال تبدیل ہوچکی تھی اور فوج کے براہِ راست اقتدار میں آنے کا معاملہ اب دنیا بھر میں آسان نہیں رہا تھا۔
وہ مقتدر ممالک جو پس ماندہ دنیا میں اپنے اہداف کی تکمیل کے لیے ڈکٹیٹرز کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کرتے یا اُن کو شہہ دیتے تھے، اب یہ کام اس انداز سے کرنے سے گریزاں تھے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل اور اہداف کے حصول کے لیے زیادہ بہتر اور مؤثر طریقے سمجھ لیے تھے۔ پھر یہ کہ اس دوران میں دنیا بھر میں میڈیا اور سیٹیلائیٹ کا استعمال بہت بڑھ گیا تھا۔ لہٰذا اُس کے توسط سے ہونے والے خبروں کے پھیلاؤ کو روکنا کسی طور ممکن نہیں رہا تھا۔ اس لیے یہ طے تھا کہ اگر جنرل پرویزمشرف اپنے میڈیا کو آزادی نہ دیتے تو بھی دنیا کے اور چینلز کو تو حقیقتِ حال بیان کرنے اور خبروں کے پھیلنے کو نہیں روک سکتے تھے۔
دوسرے یہ کہ وہ چوںکہ جمہوریت پر (چاہے وہ جیسی بھی تھی) شب خون مار کر اقتدار میں آئے تھے اور خود اُن کا اور اُن کے اقتداری ساتھیوں کا بیانیہ اس اقدام کو عوامی حقوق کا تحفظ قرار دے رہا تھا اور ملکی دفاع کی ضمانت بتا رہا تھا، اس لیے وہ عوام میں یہ تأثر عام کرنا چاہتے تھے کہ وہ اقتدار میں بحیثیت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نہیں ہیں، اور اسی وجہ سے اُن کا طرزِعمل بھی سابقہ ڈکٹیٹرز جیسا نہیں ہے۔ اسی خیال سے میڈیا کو آزادی دی گئی کہ اس طرح اُن کا عوامی امیج بہتر ہوگا اور فوج کے خلاف جذبات نہیں ابھریں گے۔ ایک حد تک انھیں اس کا فائدہ بھی ہوا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وہ کوشش بھی کرتے تو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا جیسی قابو کرنے والی فضا نہیں بناسکتے تھے۔ اُس وقت تک الیکٹرونک میڈیا وہ قوت حاصل کرچکا تھا کہ دیر سویر سے ہی سہی، اُسے بہرحال آزاد ہو کر رہنا تھا۔
خیر، جب میڈیا کو آزادی ملی تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ دیکھ بھال کر اور ذمے داری سے اس کو استعمال کرتا، لیکن جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ یہ خود ویسے ایک سنجیدہ، غور طلب اور اہم موضوع ہے، جس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے، سو ہم وہ کسی اور موقعے پر کریں گے۔ فی الحال واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔
میڈیا نے گزشتہ بارہ پندرہ برسوں میں خاص طور سے اس تأثر کو پھیلایا ہے کہ ہماری قومی زبان مشکل ہے۔ اس میں (میڈیا کے بقول) بہت ’’سخت الفاظ‘‘ ہیں، جو ’’زبان پر نہیں چڑھتے‘‘ اور جن کے معنی و مفہوم سے بھی آسانی سے واقفیت نہیں ہوتی اور اُن کا محلِ استعمال واضح نہیں ہوتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے سب لفظوں کو ترک کرکے ان کے ایسے متبادل استعمال کیے جائیں جو ’’سادہ‘‘ اور ’’عام فہم‘‘ ہوں۔ یہ بات بڑے تواتر اور تیقن سے کہی گئی ہے۔ صرف کہی نہیں گئی، بلکہ اس حوالے سے عملی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ہم آج میڈیا پر جو زبان سن رہے ہیں، وہ ہمارے سامنے ہے۔ میڈیا پر ہم کیا زبان سن رہے ہیں، اُس کے دوچار نمونے بھی لگے ہاتھوں دیکھتے چلیے:
٭آج ہماری ینگ جنریشن بہت پرومسنگ ہے۔ ہمیں اُس پر ٹرسٹ کرنا اور اسے پروموٹ کرنا چاہیے۔
٭ملک میں اسٹریٹ کرائم کا ریشو ایک بار پھر تیزی سے انکریز ہورہا ہے۔ یہ ایک سیریس ایشو ہے۔
٭ہر ایک پرسن جب شام کو گھر آتا ہے تو اسے اینٹرٹینمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ فیملی کے ساتھ ریلیکسڈ ٹائم گزار سکے۔
٭یہ دنیا بہت چینج ہوچکی ہے۔ پرانا سسٹم اب نہیں چلے گا۔ ہمیں اپنی اپروچ بدلنی ہوگی، نئے نورمز کو اوپٹ کرنا ہوگا۔
پہلے تو آپ ان جملوں کی ساخت پر غور کیجیے، جو الفاظ ان میں استعمال کیے گئے اور جس طرح وہ استعمال ہوئے ہیں، اس پر توجہ دیجیے۔ دیکھا جائے تو یہ فقرے اظہار کی سطح ہی کو نہیں، بلکہ ذہنی کیفیت کو بھی پوری طرح بیان کررہے ہیں۔ یعنی صرف اظہار و ابلاغ کا معاملہ ہی چوپٹ نہیں ہے، بلکہ ان فقروں کو سن کر صاف صاف اندازہ ہوتا ہے کہ بولنے والا ذہنی الجھن یا دباؤ کی کیفیت میں ہے۔ وہ مسائل کو محسوس تو ضرور کررہا ہے، لیکن اُس کی شخصیت انھیں سہارنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اِس لیے کہ یہ سکت کسی شخص میں اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب اُس کی روح توانا اور اعصاب مستحکم ہوں۔ یہ توانائی اور استحکام صرف اور صرف اپنی تہذیب اور اس کی اقدار سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ہر زندہ زبان دراصل ایک زندہ تہذیبی قدر کا درجہ رکھتی ہے اور ایک ایسی توانائی کی حامل ہوتی ہے جو اپنے بولنے والے کو اعتماد کی قوت عطا کرتی ہے۔ وہ اپنے بولنے والے کو صرف الفاظ فراہم نہیں کرتی، ان کے ساتھ معنی کی قوت اور احساس کی حرارت بھی مہیا کرتی ہے۔ وہ اُسے ایک ایسی زمین بھی دیتی ہے جس پر مضبوطی سے قدم جما کر وہ اپنی بات تیقن سے کہتا ہے اور وہ ہوا بھی فراہم کرتی ہے جو اُس کے خیالات اور آواز کو آگے لے کر جاتی ہے اور ایک شخص کی زبان کو پورے معاشرے کا احساس بنا دیتی ہے۔
اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سارے ناموافق حالات کے باوجود اردو آج بھی ایک زندہ اور توانا زبان ہے۔ ہر زندہ زبان وقت کے تقاضوں کو قبول کرتی اور ان کے تحت اپنے اندر لازمی تبدیلیوں کے عمل سے بھی گزرتی ہے۔ اردو ایسی ہی ایک زبان ہے۔ ہمارے سیاسی مسائل اپنی جگہ اس زبان کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں کھڑی کرسکتے تھے، وہ انھوں نے ہر طرح سے کی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ آئین کے مطابق تو بے شک اردو ہماری قومی زبان ہے، لیکن گذشتہ ستر اکہتر برسوں میں بھی اسے سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے قبول نہیں کیا گیا۔ اسمبلی میں اس کام کے لیے قراردادیں پیش ہوئیں، یادداشت گزاری گئیں۔
یہی نہیں، بلکہ ملک کی عدالتِ عالیہ نے احکامات جاری کیے، لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ اقتدار اور اشرافیہ دونوں ہی اس کی راہ میں حائل ہیں۔ جہاں تک عوام کا معاملہ ہے، اُن میں آپ اُردو کے لیے ہر جگہ کھلا پن دیکھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خود اردو کے مزاج میں بھی افہام و تفہیم اور جذب و انجذاب کی حیرت انگیز صلاحیت ہے۔ تاہم اِس بات کا خیال اس کے بولنے والوں کو خود اور ضرور رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی کسی نفسیاتی کم زوری، مرعوبیت یا سہل انگاری کی وجہ سے خواہ مخواہ اُس کا حلیہ تو نہیں بگاڑ رہے۔ اب مثلاً آپ انھی مندرجہ بالا فقروں کو دیکھیے اور بتائیے کہ ان میں جو کچھ کہا گیا ہے، اگر اُسے اس طرح کہا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔
٭آج ہماری نئی نسل بہت ہونہار ہے۔ ہمیں اس پر اعتماد کرنا اور اُسے آگے بڑھانا چاہیے۔
٭ہمارے یہاں گلیوں اور بازاروں میں لوٹ مار کا تناسب پھر بڑھ گیا ہے اور یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔
٭ہر شخص جب شام کو گھر آتا ہے تو اُسے کچھ تفریح کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ گھر کے افراد کے ساتھ سہولت اور اطمینان کے لمحات گزار سکے۔
٭یہ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ پرانا نظام اب نہیں چلے گا۔ ہمیں اپنا رویہ بدلنا اور نئے طور طریقوں کو اپنانا ہوگا۔
کیا اس طرح انگریزی زبان کی قطعی غیرضروری اور بے ڈھب پیوندکاری کے بغیر جو بات ان فقروں میں کہی گئی ہے، وہ واضح نہیں ہے؟ یا اس طرح مفہوم کا ابلاغ ناقص ہو گیا ہے؟ ایسا یقینا نہیں ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ان سیدھے سادے فقروں میں کہی گئی بات اب زیادہ واضح اور ابلاغ کی سطح بہتر ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کس لیے ہم اپنی زبان کو خراب کررہے ہیں؟ اب کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے (بلکہ کہا بھی جاتا ہے) کہ ہم نے انگریز استعمار سے ملک تو آزاد کرالیا، لیکن اپنے ذہنوں کو آزاد نہیں کراسکے۔ اس لیے ہم اب تک اپنے سابقہ آقاؤں کی زبان کو استعمال کرنے کا موقع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم انگریزی کو کسی ضرورت کے تحت استعمال نہیں کرتے، بلکہ وہ ہمارے لیے افتخار کا یا اسٹیٹس کا مسئلہ ہے۔
تو کیا یہ ہماری مرعوبیت اور نفسیاتی کم زوری کا اظہار نہیں ہے؟ اس خیال کو یکسر تو مسترد نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ اس میں صداقت ضرور ہے۔ تاہم ہمارے الیکٹرونک میڈیا پر جو انگریزی اردو کا ملغوبہ پیش کیا جارہا ہے، وہ اقتدار یا بیوروکریسی کے رجحانات کے زیرِاثر نہیں ہے، بلکہ اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، اور وہ یہ کہ اظہار کا یہ انداز میڈیا پر ایک فیشن کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ خبریں پڑھنے، نظامت کرنے اور جائزہ لینے والے بیشتر لوگ (مرد اور خواتین دونوں) جو اس طرح کی زبان بولتے ہیں، وہ دراصل نئے لہجے، نئے انداز اور نئی زبان کی خواہش کے کسی ذہنی مسئلے سے دوچار ہوکر ایسا کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد توجہ اور مقبولیت حاصل کرنا ہے۔ کیوں؟ تاکہ اُن کی شناخت کا نیا پہلو سامنے آئے اور اس کے ذریعے بھی وہ زیادہ سے زیادہ ریٹنگ حاصل کرسکیں۔
قابلِ اعتراض بات یہ نہیں ہے کہ انگریزی کے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں۔ اردو نے تو کتنے بہت سے انگریزی الفاظ پہلے ہی سہولت سے اختیار کیے ہوئے ہیں، مثلاً کپ، گلاس، پلیٹ، ٹیلی وژن، ریڈیو، وال کلاک، ٹیلی فون، وائرلیس، موبائل فون، بیٹری، چارجر، فریج، کاپی، پنسل، پین، ڈرائنگ، بلیک بورڈ، کلینک، لیبارٹری، ٹیسٹ، کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، بیڈمنٹن، اسکول، کار، ڈرائیور، روڈ، ٹائر، ٹیوب، بس، ٹرین وغیرہ غرضے کہ ایک نہیں سیکڑوں، بلکہ ہزاروں الفاظ ہوں گے جو اردو نے دوسری زبانوں سے لیے ہیں اور وہ عام اردو بول چال میں اس طرح مستعمل ہیں کہ ان سے بولنے سننے والوں کو قطعاً کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔
اس طرح آنے والے وقت میں اور نئے الفاظ کے اردو میں داخلے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن کسی بھی نئے لفظ کو زبان میں اس طرح آنا چاہیے کہ وہ اپنی شمولیت کی ناگزیر ضرورت کو ظاہر کرتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ زبان اور معاشرے کے لیے طرزِ احساس کی وسعت اور اظہار و ابلاغ کی بہتری کا ذریعہ بن رہا ہو۔ بصورتِ دیگر وہ معاشرے میں صرف ایک اجنبی ہیولے کی طرح گھومتا اور ذہنوں کو پراگندہ کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر سطورِ گذشتہ میں درج کیے گئے نشریاتی شخصیات کے ان فقروں کو ایک بار پھر پڑھ کر دیکھ لیجیے۔
یہ نیا زمانہ ہے۔ اس کا اپنا مزاج اور رجحانات ہیں اور بے شک ہونے بھی چاہییں۔ تبدیلی انسانی زندگی کا لازمہ اور وقت کا ناگزیر عمل ہے۔ تاہم تبدیلی اور بگاڑ میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ تبدیلی عام طور سے بہتری کے امکانات کے ساتھ آتی ہے اور بگاڑ تو ظاہر ہے کہ نام ہی تخریب کا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا ہماری زبان کو (اور اُس کے زیرِاثر پورے معاشرے اور اُس کے تہذیبی و سماجی رویوں کو) تبدیل کرنے کی نہیں، بگاڑنے کی مہم میں مصروف ہے۔ ہماری عمر کے لوگ جنھوں نے ریڈیو کا زمانہ دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ پہلے ریڈیو پر باقاعدہ ایک شعبہ تھا اور اس سے وابستہ لوگ زبان کی درستی اور الفاظ کے صحیح تلفظ کی خدمت پر مامور ہوتے تھے۔
جب ٹیلی وژن آیا تو اُس پر ایسا کوئی شعبہ تو نہیں بنایا گیا، لیکن زبان و ادب سے بخوبی واقف، پڑھے لکھے اور اچھی صلاحیتوں والے لوگ رکھے گئے۔ وہ اپنے کام کے سلسلے میں ہر طرح سے خود کو ذمے دار محسوس کرتے تھے اور فرائض میں کوتاہی کو جرم خیال کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گزرے ہوئے دنوں میں کتنے ہی لوگ ریڈیو اور ٹیلی وژن تک سے زبان کے اچھے الفاظ اور ان کے استعمال کا قرینہ بھی سیکھتے رہے ہیں۔ افسوس کہ آج کا الیکٹرونک میڈیا ایسی کسی ذمے داری کا شعور تک رکھتا نظر نہیں آتا اور اپنے لوگوں کو سکھانے سمجھانے کی کسی ذمے داری کو پورا کرتا محسوس نہیں ہوتا۔
ہم نے بات کا آغاز کیا تھا وزیرِاعظم کی حلف برداری سے، بہتر ہوگا کہ اس کا اختتام بھی اُسی حوالے سے ہو۔ وزیرِاعظم کی زبان حلفیہ کلمات پر کیوں لڑکھڑائی، اس کی وجہ وہی بتاسکتے ہیں۔ ممکن ہے، محض اعصابی دباؤ، جذباتی کیفیت، ذہنی تناؤ، نیند کی کمی یا بڑھی ہوئی تھکن جیسی کوئی وجہ ہو۔ تاہم یہ بات پوری ذمے داری سے کہی جاسکتی ہے کہ اس عبارت میں ایسے مشکل الفاظ تو نہیں تھے کہ وزیرِاعظم عمران خان کو ان کے ادا کرنے میں دشواری محسوس ہوتی۔ حلف کی ایسی ہی عبارت بینظیر بھٹو اور غلام اسحاق خان جیسے لوگوں نے بھی سہولت سے اور سنبھل کر بخوبی دہرا دی تھی، جب کہ وہ دونوں اردو میں اتنے رواں بھی نہیں تھے جتنے حالیہ وزیرِاعظم عمران خان ہیں۔ چلیے، خیر رفت گزشت۔ البتہ یہ بات ہم ضرور اور باصرار کہیں گے کہ حلف برداری میں وزیرِاعظم کے سہوِ زبان کو بنیاد بناکر جس طرح الیکٹرونک میڈیا نے آسان اردو کو ایک بار پھر ہماری قومی مشکل بناکر پیش کیا ہے، وہ یقیناً قابلِ مذمت اور مسترد کیے جانے کے لائق ہے۔
میڈیا کے لوگوں کو ایسے سوالات اٹھاتے اور ایسے خیالات کو پھیلاتے ہوئے کم سے کم ایک بار رک کر یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ قومی زبان کا تمسخر اڑانا یا اسے استہزا کا نشانہ بنانا دراصل پوری قوم اور اس کی تہذیب کو تماشا بنانے کے مترادف ہے۔ جس طرح خط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لکھنے والے کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے، اسی طرح قومی زبان ایک قوم کے مزاج و کردار کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت ہرگز نہیں دی جانی چاہیے۔
The post ’آسان اردو‘ ہماری قومی مشکل appeared first on ایکسپریس اردو.