سن 2015ء میں تھائی لینڈ حکومت کے حوالے سے خبر آئی تھی کہ ترکی پہنچنے کے خواہشمند، چین کے ترکی النسل100 یغور مسلمانوں کو انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود چینی حکومت کے حوالے کر دیاگیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ان افراد پر چینی حکومت کے بد ترین تشدد کا خطرہ موجود ہے۔ پھر خبر آئی کہ ایسے ہی چینی مظالم سے بچنے کے لئے فرار ہونے والے کچھ یغور مسلمان تھائی لینڈ کی ایک جیل سے فرار ہو گئے ہیں اور چینی حکومت ان کی جلددوبارہ گرفتاری پر زور دے رہی ہے۔ حال ہی میں مصر سے خبر آئی کہ مصری حکومت نے قاہرہ اور اسکندریہ میں مقیم یغور طلبہ اور کچھ یغور ریستورانوں پر چھاپہ مار کر یغور مسلمانوں کو چینی حکومت کی ایما پر گرفتار کیاگیا۔ یاد رہے کہ تھائی لینڈ اور چین کی سرحد ملتی ہے اور حکومتی مظالم اور مذہبی پابندیوں سے بچنے کے لئے یغور مسلمان ایک دہائی سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب سے ایک کرم فرما نے بتایا کہ سعودی عرب میں بھی بڑی تعداد میں یغور مسلمان مقیم ہیں۔
چینی حکومت ان جلاوطن مسلمانوں پر علیحدگی پسندی کی تحریک چلانے کا الزام لگاتی ہے۔ دوسری طرف یغور ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے ان پر بے پناہ مذہبی پابندیاں لگا رکھی ہیں، مساجد میں آنے جانے والوں کی سخت نگرانی ہوتی ہے۔2009 سے خبریں آرہی تھیں کہ 60 سال سے کم عمر یغور مسلمانوں کو حج پر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، مساجد میں پابندی سے جانے والے نوجوانوں کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ ہوتی تھی۔ پھر2014ء میں خبر آئی کہ نہ صرف رمضان میں روزے رکھنے پر پابندی لگادی گئی ہے بلکہ رمضان کے دوران سرکاری دفاتر میں زبردستی کھانا کھانے پر مجبورکیا جاتا ہے۔ امریکی کانگریس نے اس پر ایک مذمتی قرارداد بھی پاس کی تھی، معلوم نہیںکسی مسلم ملک کو اس کی توفیق ہوئی یا نہیں۔ پھر ایک اور خبر آئی کہ سنکیانگ کے صوبے میں نقاب یا حجاب میں ملبوس خواتین پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر نہیں کرسکتیں۔کاشغر شہر کے تاریخی مرکز کو جہاں تقریباً 100 فیصد مسلمان رہتے تھے، عرصہ سے مختلف بہانوں سے خالی کروایا جارہا تھا کیونکہ حکومت کو شک تھا کہ یہاں علیحدگی پسندی کی کوئی تحریک موجود ہے جبکہ مقامی لوگوں کاکہنا ہے کہ چین کا رویہ ان مسلمانوں کو بغاوت پر مجبور کررہا ہے۔
ایک فرنچ صحافی، جس نے ایک ٹورسٹ گروپ کے ساتھ 2014ء میں سنکیانگ کا سفرکیااور ایک تفصیلی ڈاکومنٹری بنائی تھی، کے مطابق چین نے پچھلی تین چار دہائیوں میں بہت بڑی تعداد میں چینی نسل کے باشندوں کو بھاری مراعات دیکر سنکیانگ میں منتقل کیاہے۔ ان میں بڑی تعداد سابق فوجیوں کی بھی ہے۔ صحافی کا کہنا تھا کہ انہیں سنکیانگ کی بہترین زمینیں اور ہتھیار دیکر ان سے یغور مسلمانوں کی نگرانی کا کام بھی لیا جا رہا ہے اور وقت پڑنے پر ان سے ملٹری سروس بھی لی جاسکتی ہے۔ چینی حکومت کے نئے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سنکیانگ میں آٹھ ملین یغور جبکہ11ملین چینی نسل کے باشندے موجود ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہاں چینی نسل کے باشندوں کا اکثریت میں ہونا پچھلی سات دہائیوں سے چینی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ عملاً صوبے کا سارا انتظام چینی نسل کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے کیونکہ یغور باشندوں پر بھروسہ نہیں کیا جاتا۔
یہی نہیں چین کے دوسرے شہروں میں جہاں یغور بزنس یا ملازمت کے لئے مقیم ہیں، انہیں بھی بیجا پابندیوں اور امتیازی پالیسیوں کا سامنا ہے۔ پچھلے دنوں یغور باشندوں کو چین کے کاروباری مرکز شنگھائی سے نکلنے کا حکم ملا جہاں بڑی تعداد میں یغور مسلمان ملازمت اور کاروبار کے سلسلے میں مقیم تھے۔
حالیہ اطلاعات کے مطابق ، یغورشہری بہت بڑی تعداد میںکیمپوں میں قید ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی تعداد ایک ملین سے زاید بتاتی ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور جلاوطن یغور باشندوں کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آٹھ ملین سے زائد یغور مسلمانوں کی کڑی نگرانی ہو رہی ہے،کسی بھی مذہبی سرگرمی میں حصہ لینے پر یغور مسلمانوں کو گرفتار کرکے کیمپوں میں پہنچا دیا جاتا ہے، ان کیمپوں سے اب تک بہت کم خوش نصیبوں کو نکلنے کا موقع ملا ہے، جو چند افراد نکلنے میں کامیاب ہوئے،انہوں نے تشدد اور جبری ذہن سازی کی کہانیاں سنائی ہیں۔ صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ کسی کا جنازے میں سورہ فاتحہ یا قرآن مجید کی کوئی سورت پڑھنا اور اپنے بچے کا نام ’محمد‘ رکھنا بھی ایسا جرم ہے جس پر اسے کیمپوں میں پابند سلاسل کیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ ایسا ظلم اسرائیل میں بھی نہیں ہو رہا، وہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزرنے کی پوری آزادی ہے۔
یغور مسلمانوں کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کی آوازیں بھی اب کافی بلند ہیں۔ ذیل میں دس ستمبر2018ء کی شائع کردہ ’الجزیرہ‘ کی ایک رپورٹ کا ترجمہ دیا جا رہا ہے جس نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کو اپنی ذریعہ بنایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق:
48 سالہ تاریم چین کے صوبے سنکیانگ کے مرکز ارمچی میں ایک کامیاب بزنس تھا، اسے اپریل 2017ء میں پولیس ڈیپارٹمنٹ سے اچانک ایک فون موصول ہوا، اسے فوری طور پر اکسو شہر پہنچنے کے احکامات دیئے گئے تھے جو 900 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ تاریم جس کا تعلق ترک نسل یغور سے تھا، فوری طور پر سمجھ گیا کہ اب اس پر مصیبت ٹوٹنے والی ہے۔ دو دن قبل وہ اکسو شہر اپنی 33 سالہ بہن زہرا سے ملنے گیا تھا جو چینی کمیونسٹ حکومت کے قائم کردہ ایک ری ایجوکیشن کیمپ میں قید تھی۔ تاریم نے بعد ازاں انسانی حقوق کی تنظیم، ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ بہن سے ملنے کے لئے اسے متعلقہ حکام کو 20ہزار چینی یو آن (2900 امریکی ڈالر کی رقم رشوت کے طور پر دینا پڑی)۔ تاریم کا خیال تھا کہ وہ مزید رشوت دے کر اپنی بہن کو وہاں سے آزاد کروا لے گا مگر اسے بتایا گیا کہ یہ نا ممکن ہے۔
تاریم نے ’الجزیرہ‘ کو یہ بھی بتایا کہ ری ایجوکیشن کیمپ عوام کی نظروں سے اوجھل تھا جہاں پہنچنے کے لئے بہت سے فوجی چیک پوائنٹس سے گزرنا پڑا۔ بالآخر اس کی بہن کو مختصر وقت کے لئے خاتون گارڈ کی موجودگی میں ملنے کی اجازت دی گئی۔ بہن کی آنکھوں کے گرد گہرے حلقے اور آنسوؤں سے بھرے پیلے چہرے سے اس کی حالت کا اندازہ ہو رہا تھا۔ بہن کا کہنا تھا کہ اس کے کچھ سبق باقی ہیں اس کے بعد اگر اس نے امتحان پاس کرلیا تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ ’’کب؟‘‘ اس کا جواب بہن نے دیا نہ تاریم میں پوچھنے کی ہمت تھی۔ تاریم نے وہاں500 نئے یغور قیدیوں کو بھی دیکھا جن کے کپڑے اتروا کر انھیںکیمپ کا یونیفارم پہنایا جارہا تھا۔ ان سب کے سرمنڈے ہوئے تھے، ان میں سے کچھ قیدیوں کو تاریم اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کی حیثیت سے پہچانتا تھا۔
واپس ’ارمچی‘ پہنچنے کے دو دن بعد اسے پولیس ڈیپارٹمنٹ سے کال موصول ہوئی اور اکسو میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے فوری طور پر اکسو کے لئے فلائٹ بک کروائی۔ فلائٹ کے مقررہ وقت سے پہلے اس نے ائیرپورٹ پہنچ کر اپنی بورڈنگ کروائی لیکن اس کا پلان مختلف تھا۔ ویٹنگ لاؤنج میں فون کرکے اُس نے اپنے سیکرٹر ی کے ذریعے استنبول کی فلائٹ بک کروائی۔ اسے معلوم تھا کہ چینی شہریوں کے لئے ترکی کا ویزا آن آرائیول یعنی داخلے پر دے دیا جاتا ہے۔ بجائے اکسو کی فلائٹ کے اُس نے ائیرپورٹ لاؤنج سے استنبول کی فلائٹ پکڑی، اس طرح تاریم چینی عقوبت خانوں سے بچ کر استنبول پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ سنکیانگ سے باہر ایسے58 افراد کے انٹرویو کرچکی ہے جو سنکیانگ سے کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوئے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندازے کے مطابق اس وقت ایک ملین سے زائد ایغورچینی کیمپوں میں قید ہیں۔ چینی حکومت کے مطابق یہ معمولی نوعیت کے جرم میں ملوث مجرم ہیں جنھیں اصلاح کے لئے کیمپوں میں رکھا گیا ہے، مخالفین انہیں کنسنٹریشن کیمپس کا نام دیتے ہیں۔ بی بی سی ہی کے مطابق چینی اس پروگرام کو transformation through educationکا نام دیتے ہیں۔
تاریم ، ارمچی کا یہ بزنس مین سنکیانگ میں اپنا چلتا ہوا بزنس اور اہل خانہ چھوڑ کر چین سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا مگر چین میں رہنے والے گیارہ ملین سے زائد یغور مسلمانوں پر مختلف سورتوں میں ظلم جاری ہے، یہ کب تک جاری رہے گا، کوئی نہیں جانتا۔
یغور مسلمان ہیں کون؟
یہ 2012ء کی بات ہے، کراچی کے ایک مہنگے اور معیاری اسکول کے اسٹاف کے ایک ٹریننگ سیشن کے دوران میں نے بر سبیل تذکرہ پوچھ لیا کہ اقبال کا یہ شعرکس کس نے سن رکھا ہے؟
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکرتا بہ خاک کاشغر
تمام شرکاء کے ہاتھ کھڑے ہوگئے۔ میرا اگلا سوال تھاکہ آپ میں سے کون جانتا ہے کہ کاشغر کہاں واقع ہے؟ تقریباً تین درجن شرکاء جن میں سے بیشتر او اور اے لیول کی کلاسز بھی لیتے تھے، میں سے کوئی بھی اس سوال کا جواب نہ دے سکا کہ کاشغر جس کا حکیم الامت نے اپنے معروف ترین شعر میں ذکرکیا ہے۔ چین کے سرحدی صوبے xingjiang میں واقع ہے جسے اردو میں سنکیانگ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ چین اسے سنکیانگ خودمختار علاقے کا نام دیتا ہے۔ چینی قبضے سے پیشتر یہ مشرقی ترکستان کہلاتا تھا۔ کاشغر شہر قدیم شاہراہ ریشم پر واقع معروف ترین شہروں میں ہے۔ مغربی سیاح اسے ثقافتی اعتبار سے وسط ایشیا کا سب سے محفوظ شہر قرار دیتے تھے جو صدیوں بعد اسی طرز تعمیر کا حامل تھا۔
سنکیانگ میں ایک اندازے کے مطابق 15 ملین ترکی نسل کے مسلمان بستے ہیں جنھیں نسلاً یغور کہا جاتا ہے۔ ان کی عورتیں آج بھی نقاب اور حجاب کرتی ہیں۔ ان کے بازاروں میں مشرق وسطیٰ کے بازاروں کی طرح مصالحے، اشیائے خورو نوش اور تازہ تندور کی روٹیاں، اور مویشی کھلے عام فروخت ہوتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے کاشغر کا تاریخی مرکز مسلمانوں سے بزور خالی کروا لیا۔ اس سے قبل شہر کے مرکزی علاقے کی تنگ گلیوں میں عورتیں حجاب پہن کر اور داڑھی والے مرد ٹوپیاں پہن کر روز مرہ کے کام انجام دیتے نظر آتے تھے۔ پچھلی چند دہائیوں میں چین نے ان مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ چین میں ایک دوسری نسل کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں جو ’ہوئی‘ مسلمان کہلاتے ہیں۔ ان مسلمانوں کی اکثریت چینی النسل ہے یا یہ آٹھویں صدی کے بعد باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کی چینیوں سے شادیوں کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ یہ مسلمان چین میں مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہوئی مسلمانوں کی ثقافت چینی نسل کی ثقافت سے بہت قریب ہے۔
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ چین کی مسلم آبادی سعودی عرب کی مسلم آبادی سے زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی مسلمانوں کا رابطہ باہر کی دنیا سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ چین سنکیانگ کے صوبے کو خود مختار صوبے کا نام دیتا ہے لیکن یہاں کا مسلمان ایک قیدی کی زندگی گزار رہا ہے۔ مہذب ممالک میں مجرم قیدیوں کو بھی اس کے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوتی ہے لیکن ترک نسل کا یہ چینی اپنے گھر اور محلوں میں بھی اپنے مذہب پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا۔برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق اس وقت یغور علاقوں کی گلیاں سنسان پڑی ہیں۔ مرد اور نو عمر لڑکے بہت کم گھر کے باہر نظر آتے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے زیادہ نگرانی والی جگہ ہے۔
تیل اور گیس کے قدرتی وسائل سے مالا مال، یہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کا رقبہ فرانس کے رقبے کا تین گنا بتایا جاتا ہے۔ یہ چین کا سب سے زیادہ ملیٹرائزڈ علاقہ بھی ہے جہاں ڈیجیٹل آلات کے ذریعے مسلمانوں کی مسلسل مانیٹرنگ ہورہی ہے۔ مسجدوں میںface recognition ڈیوائسز لگی ہوئی ہیں جو مساجد میں نماز ادا کرنے والوں کی تصویریں ریکارڈ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کتنے مسلمان مساجد میں نماز ادا کرنے کا رسک لیتے ہوں گے۔
امریکی مسلمانوں کی ایک تنظیم کے رہنما عبدالمالک مجاہد کا کہنا ہے کہ انھوں نے ٹورنٹو میں ایک یغور بہن سے ملاقات کی جنکی چھ خالائیں یا پھوپھیاں سنکیانگ میں رہتی ہیں۔ چھ کی چھے آنٹیوں کے شوہروں کو ری ایجوکیشن یا کنسٹریشن کیمپوں میں منتقل کردیا گیا ہے، عورتیں اور بچے مردوں کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ بی بی سی کی وڈیو کے مطابق، تشویشناک بات یہ ہے کہ اب تک ان کیمپوں میں منتقل شدہ افراد میں سے بہت کم کو رہا کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی Genocide کی تعریف کے مطابق، کسی نسل کو جبری مذہبی عقائد یا ثقافت کی تبدیلی پر مجبور کرنا نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔
The post یغور مسلمانوں کا فرار appeared first on ایکسپریس اردو.