مسقط ‘ کا سرکاری نام ’سلطنت آف عمان‘ہے، پاکستان کے قریبی دوست ملک کاقومی دن ہر سال اٹھارہ نومبرکو منایا جاتا ہے۔
آج جن حالات سے ہمارا وطن ِ عزیز گزر رہا ہے، ماضی میں عمان کو بھی ان سے ملتے جلتے حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں روس اور دنیا کے کئی کمیونسٹ ممالک نے (جنوبی) یمن کے راستے تربیت یافتہ تخریب کاروں کو اس ملک میں بھیجنا شروع کیا۔ عمان نے دہشت گردی کے طوفان کا کیسے مقابلہ کیااور دشمن کے مذموم عزائم کو کس طرح شکست دی،یہ ایک دلچسپ داستان ہے جس سے ہم بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
پاکستان کے مسقط سے کئی طرح کے رشتے ہیں۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ ہمارے صوبے بلوچستان کا ایک اہم حصہ( جس میں گوادر کی بندرگاہ بھی شامل تھی) ایک طویل عرصے تک سلطنت آف عمان کے قبضے میںرہا۔ ہندو گوادر میں اچھی خاصی تعداد میں آباد تھے تجارت پر اْن کا مکمل کنٹرول تھا ، پاکستان بننے کے بعد بھی وہ یہاں رہے ، ہندوستان سے بلاروک ٹوک کشتیاں بھر بھر کے افراد اور سامان یہاں آتا رہتا تھا۔ پاکستان کو ایسی اطلاعات مل رہی تھیں کہ بھارت اس اہم بندرگاہ کو ہتھیانے کا پروگرام بنا رہا ہے۔اللہ کا شکر ہے ہمارے اس وقت کے کارپردازوں نے وقت پر فیصلہ کیا،اوردس لاکھ پاؤنڈ دے کر اپنی زمین 1958ء میں مسقط سے واپس لے لی۔
گوادر کے پاکستان میں شامل ہونے کے بعد بھی بلوچ عمانی فوج میں بھرتی ہوتے رہے،بلوچیوں کے لیے روزگار کا مسئلہ تھا اور مسقط کو لڑنے کے لئے افراد کمی کا سامنا تھا۔ وقتاً فوقتاًفوجی بھرتی کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔آپ بلوچستان میں غربت کا اندازہ کریں کہ صرف پیٹ کی خاطر وہ اپنی جانیں قربان کے لیے تیار تھے، جب کہ تنخواہیں بھی کوئی خاص نہیں تھیں۔ وہاں بلوچوں کی کافی تعداد فوج میں موجود تھی،خاص طور پر شورش زدہ علاقوں میں ۔بلوچ خاندان جن کو وہاں کی شہریت مل چکی ہے اْن کو ’البلوشی‘ کہا جاتا ہے۔
٭٭٭
ہماری قسمت میں مسقط کا دانہ پانی لکھا تھا تو ہم نے دسمبر 1974ء میں مسقط آرمی کی اکاؤنٹس برانچ میں شمولیت کے لیے درخواست دے ڈالی،جو فوراً ہی منظور ہوگئی ، منظوری کی وجہ مسقط جاکر معلوم ہوئی۔ آخر 9 مئی 1975ء کی رات ہم مسقط ائیر پورٹ پر جا اترے۔مسقط(مسقط ایک شہر کا نام بھی ہے،جو ملک کا دارالحکومت ہے) فوج کا ہیڈ کوارٹر ،ایک پرانی چھوٹی سی تاریخی عمارت بیت الفلج میں تھا ( بہت خوبصورت وسیع اور نیا ہیڈ کوارٹر ’الرسیل‘ کے مقام پر زیر تعمیر تھا، 1980ء میں میری ٹرانسفر ہوگئی تھی اور میں چھ سال اس ہیڈ کوارٹر میں رہا)۔ اگلے دن ہم نے بیت الفلج میں اپنے پہنچنے کی اطلاع دی ۔ ہیڈ کوارٹر میں کچھ پاکستانی (زیادہ تر پنجابی) اور انگریز نظر آئے۔ مجھے بتایا گیا کہ میری تقرری صلالہ میں مقیم ’کے جے‘ یونٹ میں ہوئی ہے۔
ہم نے جب سب کاغذات حاصل کرلیے۔ تو اس وقت تک وہاں دفتر بند ہونے کا وقت ہوگیا تھا،ایک پاکستانی نے میس میں کھانے کی دعوت دی جو ہم نے قبول کرلی،کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد ہمارے مہربانوں سے جو باتیں معلوم ہوئیں وہ بہت دلچسپ تھیں ۔ ایک صاحب نے بتایا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کو ظفار(Dhofar )کے میدان جنگ(war zone ) میں بھیجا جارہا ہے،آپ کو اس لیے بلایا گیا ہے کہ آپ جس کی سیٹ پر جارہے ہیں وہ ایک چیک پوسٹ پر فوجیوں میں تنخواہیں تقسیم کرنے گیا تھا وہاں دشمن نے حملہ کردیا ،اس کو ہارٹ اٹیک ہوا اور بعد میں اْس کی موت واقع ہوگئی۔ دوسرے صاحب بولے اگر ظفار( مسقط کے جنوبی صوبے کا نام ہے۔
ظفار کو عربی میں ’دفار‘ بولتے ہیں ،اور دفار کے رہنے والے دفاری کہلاتے ہیں) میں آپ نے دو ہفتے گزار لیے تو آپ ظفار میڈل کے مستحق ہوجائیں گے۔ ایک اور صاحب نے اْن کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ دو ہفتے پورے ہوں ،اگر آپ خدانخواستہ دشمن کی کسی کارروائی کے نتیجے میں دو ہفتے مکمل ہونے سے قبل ہلاک ہوجاتے ہیں تب بھی میڈل آپ کا حق ہے ،وہ آپ کے ورثاء کو پہنچا دیا جائے گا۔ ایک اور صاحب نے خوشخبری سنائی کہ آپ کو وار زون میں رہنے کی وجہ سے ایک خصوصی الاؤنس ملے گا۔
ایک صاحب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس یونٹ میں مجھے بھیجا رہا ہے یہ ایک بلوچ رجمنٹ ہے۔وہاں آپ کو سب پاکستانی بلوچ نظر آئیں گے۔صرف چند بڑے آفیسر انگریز ہیں۔ صلالہ میں موسم بہت خوش گوار ہوتا ہے،جبکہ مسقط کی گرمی سے تو کہتے ہیں شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ مسقط کی گرمی کے حوالے سے ایک صاحب نے دلچسپ لطیفہ سنایا: لطیفہ کچھ یوں تھا کہ جہنم میں کچھ لوگ کمبل اوڑھے ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کے ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے،کسی نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں،انہوں نے کہا ہم مسقط سے آرہے ہیں۔پوچھنے والوں نے کہا’ مسقط کا نام سن کر سمجھ آگیا ہے کہ آپ نے کمبل کیوں اوڑھے ہوئے ہیں‘۔
اب وہ سب میری طرف دیکھ رہے تھے کہ میں کیا کہتا ہوں۔ میں نے کہا آپ کی باتیں سن کر میںبے حد خوش اور مطمئن ہوں،اور وہ اس لیے کہ وہاں اپنے پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ رہنا ہے، موسم بھی وہاں خوشگوار ہے، وہاں جانے سے فوجی میڈل ملے گا، وار زون کا الاؤنس دیا جائے گا۔ ایک صاحب نے مجھے یاد دلایا کہ وہاں جنگ جاری ہے اور اس میں مرنے کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ میں نے کہا ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے موت کے بارے میں سوچنا ہمارا سر درد ہے ہی نہیں،یہ فرشتہ ٔ موت کا مسئلہ ہے،کب مرنا ہے،کہاں مرنا ہے،کیسے مرنا ہے ۔جس کا کام وہی جانے ہمیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔
اگلے دن مسقط ائیر پورٹ پر صلالہ کی فلائیٹ پر روانہ کرنے کے لیے آئے ہوئے فوجی سارجنٹ نے میری ملاقات دو آدمیوں سے کروائی اور بتایا کہ یہ دونوں بھی آپ کی یونٹ KJ (الکتیبہ الجنوبیہ)میں جارہے ہیں۔ وہ دونوں وہاں فوجی کیمپ کے میسوں میں ویٹر تھے۔ اْن میں سے ایک بہت شیطان تھا ،اْس کا نام دین محمد تھا لیکن حقیقت میں وہ عیسائی تھا۔ دین محمد بھی مجھ کو ڈراؤنے قصے سناتا رہا۔ اْس نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل دشمن کے گولے ہمارے کیمپ کے قریب آکر گرے تھے۔ ہر وقت آدمی ڈرا سہما رہتا ہے ۔
ہم صلالہ کے ائیر پورٹ پر اترے ، آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔میں موسم سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ دین محمد نے میری توجہ دو جنگی طیار وں کی طرف مبذول کرائی اور بتایا کہ دشمن ایک منٹ ان کو آرام سے ٹکنے نہیں دیتا۔یہ جہاز دشمن کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔یہ سامنے جو پہاڑ (جبل )نظر آرہے ہیں ، ان میں’ جبالی‘ رہتے ہیں ، یہ بڑی ٹیڑھی نسل ہے،یہ سلطان سے بھی مفادات حاصل کر رہے ہیں اور دشمن سے بھی دوستی نباہ رہے ہیں۔ ان پہاڑوں میں دشمن بھرا پڑا ہے، ان پہاڑوں میں سینکڑوں غاریں ہیں ، جن میں دشمن نے اسلحہ کے ڈپو اور پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں۔ برسات میں کئی کئی فٹ اونچی خود رو گھاس پیدا ہوجاتی ہے جس میں دو قدم پر موجود فرد نظر نہیںآتا۔ خدا خیر ہی رکھے ہم تو بس ہر وقت اللہ اللہ کرتے رہتے ہیں۔
ایک گاڑی ہم لوگوں کو یونٹ لے جانے کے لیے آئی ہوئی تھی۔گاڑی میں ایک فوجی کلرک محمد صالح بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اْس نے بتایا کہ وہ بلوچی ہے اور کے جے میں ہی کام کرتا ہے۔ راستے میں اس نے بہت سی دلچسپ باتیں بتائیں۔ اْس نے کہا کہ جس کیمپ میں ہم جارہے ہیں،وہ ’ کے جے‘ کاکیمپ بننے سے قبل دفار فورس(Dhofar Force) کا ہیڈ کوارٹر ہواکرتا تھا،اْس میں صرف دفار یوں کو بھرتی کیا جاتا تھا ،اْس کا کمانڈنگ آفیسر ایک
دفار کی بغاوت کے عرصہ میں برطانوی پراپیگنڈہ اپنے عروج پر تھا۔ یہ بالکل ایسی ہی صورت حال تھی جیسے افغانستان میں سوویت پاکستانی تھا، اْس کے ساتھ اور بھی کچھ پاکستانی افسر یہاں ہوتے تھے۔ آپ کی جس عمارت میں رہائش ہوگی یہ قبل ازیں پاکستانی لفٹیننٹ اور کیپٹن رینک کے افسروں کی رہائش گاہ تھی،اب تو نیا آفیسر میس بن چکا ہے۔میں نے پوچھا کہ اب دفار فورس کا نیا ہیڈ کوارٹر کہاں ہے؟ وہ ہنسا اور اس نے بتایا ،میں کیمپ میں داخل ہوتے ہی آپ کو وہ جگہ دکھاؤں گا جہاں ۱۹۶۶ء میں موجودہ سلطان قابوس کے والد، جو اس وقت سربراہ مملکت تھے،اور جن کا نام سلطان سعید بن تیمور تھا ، پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔
سلطان کیمپ میں پاکستانی کمانڈنگ آفیسر کے ساتھ دس پندرہ سپاہیوں کی طرف سے گارڈ آف آنر کا معائنہ کر رہا تھا کہ ایک دفاری نے سلطان پر فائر کرنے کے لیے بندوق سیدھی کرلی،وقت بہت کم تھا،پاکستانی کمانڈنگ آفیسر نے سلطان کو نیچے گرادیا اور اس کے اوپر لیٹ گیا،سلطان بچ گیا،کمانڈنگ آفیسر کو گولیاں لگیں،لیکن کیونکہ گولی چلانے والا حواس باختہ ہوچکا تھا ،اس نے وہاں سے بھاگنے میں ہی خیر جانی، اس کے کچھ ساتھی بھی اس کے ساتھ ہی بھاگ گئے۔ اس کے بعد ’دفار فورس‘ کو ختم کردیا گیا۔ دفاریوں کو راضی اور خوش کرنے کے لیے سلطان نے بہت جتن کیے ،یہاں تک کے اْس نے شادی بھی ایک ’دفارن‘ سے کرلی تھی ،سلطان سعید گورا تھا،دفارن کالی تھی،موجودہ سلطان اپنی والدہ کی طرح کالا ہے،اس سے دفاری بہت خوش ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑی بات ہے کہ دفار پر ایک دفاری حکومت کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا کیا دفاری اور جبالی علیحدہ علیحدہ نسلیں ہیں یا ایک ہی نسل کے دو نام ہیں۔ محمد صالح نے بتایا کہ میدانی علاقے میں رہنے والے دفاری کہلاتے ہیں ان کے نقوش افریقیوں سے ملتے ہیں ،جبالی تو عرب ہیں اور صدیوں سے یہیں رہنے والے ہیں۔
اسی دوران ہم ام المعارف( Umm al Ghwarif) پہنچ چکے تھے،ہماری گاڑی اس فوجی کیمپ کے اندر چلی گئی۔ محمد صالح نے بتایا کہ ایک آدمی نے یہاں سے کے جے جانا ہے ،یہ سپاہی اسے ابھی بلا کر لے آتا ہے ہم ادھر ہی گپ شپ کرتے ہیں۔
محمد صالح نے بتایا ام المعارف بڑی منحوس جگہ ہے،کیمپ میں آئیں تو وحشت ہوتی ہے۔جب پچھلے سلطان کا دور تھا یہاں بدنام زمانہ nvestigation Centre Iہوتاتھا،سلطان کے فوجی پہاڑوں پر جاتے تھے وہاں جو نوجوان نظر آتا تھا اسے پکڑ کر یہاں لے آیا جاتا تھا،اْس سے دشمن کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا،اْس کے بیان میں ذرا سا بھی جھول ہوتا تو پھر سنٹر والے تشدد سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ کئی لوگ کئی کئی سال یہاں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند پڑے رہتے تھے۔ اس سنٹر نے حکومت کو فائدہ کم پہنچایا اور حکومت کے خلاف نفرت میں زیادہ اضافہ کیا۔گم شدہ افراد کے لواحقین کی یہ جرأت بھی نہ ہوتی تھی کہ وہ کسی سے پوچھ سکیں کہ ہمارے نوجوان کدھر قید ہیں،زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ سلطان قابوس تخت پر کب بیٹھا تھا۔ اْس نے ہنستے ہوئے بتایا جب انگریزوں نے فیصلہ کیا کہ سلطان سعید کو ہٹا دیا جائے کیونکہ وہ دقیانوسی خیالات کا مالک تھا، ۲۳ جولائی ۱۹۷۰ء کو انگریزوں کی سرکردگی میں سلطان سعید کے خلاف ایک چھوٹی سی بغاوت کی گئی،ایک دو گولیاں مار کر زخمی کیا گیا،ہائے بے چارگی، زخمی ہونے کے بعد بیچارا مدد کے لیے انگریزوں کو پکارنے پر مجبور تھا، وہ فوراً پہنچ گئے اور کہا کہ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے بیٹے قابوس کے حق میں دست بردار ہوجائیں۔وہ فوراً دست بردار ہوگیا۔ پھر انہوں نے سلطان کو ہوائی جہاز میں لٹایا اور انگلینڈ لے گئے ،وہاں سے وہ ۱۹۷۲ء میں خاموشی سے اگلے جہان کوچ کر گیا۔‘‘ وہ نوجوان جس نے ہمارے ساتھ کے جے جانا تھا وہ گاڑی میں بیٹھ گیا ،اور بات کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے دوبارہ شروع ہوگیا۔
’’سلطان قابوس برطانیہ کے ،مشہور فوجی ادارے سنیدھرسٹ میں پڑھتا رہا ہے۔ وہ واقعی جدید خیالات کا مالک ہے ،اْس کے آتے ہی راتوں رات ایک سماجی انقلاب آگیا۔ اْس نے فوری طور پر پہاڑو ں سے تمام فوج واپس بلالی، تمام لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔دوسری طرف اس نے فوج کو مضبوط کرنا شروع کیا، شہنشاہ ایران سے معاہدہ کیا کہ یمن سے اسلحے سے بھرے اونٹوں کے جو قافلے چلے آرہے ہیں اْن کو روکنے میں مدد دے،اقوام متحدہ سے مدد حاصل کی،بلوچی بڑی تعداد میں بھرتی کیے،باقاعدہ بلوچ رجمنٹیں بنائیں ،جن میں سے ایک میں آپ جارہے ہیں۔‘‘
آخر ہم ’کے جے‘ کے کیمپ میں داخل ہوئے ،محمد صالح نے مجھے بتایا کہ دائیں طرف جو یہ چبوترہ ہے اس جگہ پہلے سلطان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ چار پانچ منٹ بعد ہم سارجنٹ میس پہنچ گئے، ڈرائیور نے سارجنٹ میس کے احاطے میں مجھے اتار دیا ،میس کے پنجابی سٹاف نے خوش آمدید کہا،کچھ دیر بعد یونٹ کے سارجنٹ میجر غلام محمد صاحب تشریف لے آئے ۔ وہ چکوال کے رہنے والے تھے،بہت محبت سے پیش آئے۔ میرے بغیر پوچھے ہی انہوں نے فرمایا کہ آپ بالکل صحیح وقت پر تشریف لائے ہیں۔ ا ٓپ سے قبل جو صاحب یہاں اکاؤنٹس سے متعلقہ تھے ،اْن کے ساتھ جو ٹریجڈی ہوئی اس کے بعد فیصلہ ہوا ہے کہ آئندہ ہر یونٹ کا فوجی آفیسر خود تنخواہ تقسیم کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ بات صحیح ہے کہ دشمن کے بم اس کیمپ کے باہر تک آکر گرتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا یہ بات ہے تو درست لیکن ہے دو تین سال قبل کی۔ اس وقت یہ پوزیشن ہے کہ وادی صلالہ میں حکومت کا مکمل کنٹرول ہے ،صلالہ کے ساتھ جو یہ پہاڑ آپ دیکھ رہے ہیں اس پر بھی حالات کافی حد تک درست ہوچکے ہیں ،اس وقت بھی دشمن کے اکّا دکّا ایجنٹ تخریبی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔کہیں مائین(mine) دبا جائیں گے،کبھی فوجیوں کو اکیلا دکیلا دیکھ کر مار ڈالیں گے۔آج کل زیادہ لڑائی یمن کے قریبی علاقہ تک محدود ہے۔ میں نے غلام محمد کو بتایا کہ مجھے تو یہ بات پہلے معلوم نہیں تھی کہ یہاں کی فوج کسی لڑائی میں الجھی ہوئی ہے۔یہ بھی مسقط آکر معلوم ہوا کہ میں نے وار زون میں جا نا ہے۔ کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ یہ کس قسم کی لڑائی ہے،کون کون لڑ رہا ہے اور کتنے عرصے سے یہ جنگ جاری ہے۔ کسی نے مسقط میں مجھ سے یہ بھی کہا کہ یہ بنگالیوں کی طرح کی لڑائی ہے ،جس طرح وہ مشرقی پاکستان کی آزادی کے لیے لڑتے رہے۔
مسقط کے پڑوسی ملک یمن میں آج سے کئی سال قبل روس نے کمیونسٹوں کے ذریعے حکومت کے خلاف بغاوت کا چکر چلایا۔ یمن کی حکومت کی حمایت سعودی عرب کر رہا تھا جبکہ کمیونسٹوں کو مصر کے ذریعے اسلحہ اور مالی امداد مل رہی تھی۔ یورش کافی بڑھی ،آخر ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک شمالی یمن اور دوسرا جنوبی یمن کہلایا۔ جنوبی یمن نے دعویٰ کیا کہ ظفار کے علاقے پر مسقط نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے ، ہمارا یہ علاقہ ہم کو واپس دے دیا جائے ورنہ ہم بزور طاقت اس پر قبضہ کر لیں گے۔ اْس زمانے میں مسقط کے معاشی حالات بہت خراب تھے ،پیٹرول دریافت ہوگیا تھا لیکن ابھی زمین سے نکالنے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ غربت بہت زیادہ تھی ۔ حالات ایسے تھے کہ کمیونسٹوں کو آسانی سے مقامی لوگوں کا تعاون مل جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جنوبی یمن اور یہاں ظفار کے لوگوں کا ماضی میں کاروبار کے لیے ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بہت رہا ،دونوں طرف کی زبان،رسوم،لباس، حتیٰ کے اْن کے قبائل بھی ایک ہی تھے۔
٭٭٭
کمیونسٹوں کے ساتھ یہ جنگ برطانوی فوجیوں کی سرکردگی میں لڑی جارہی تھی۔ ہماری یونٹ کا کمانڈنگ آفیسر اور دیگر تمام اہم افسران انگریز ہی تھے ، سپاہیوں سے رابطہ کے لیے بلوچ رجمنٹوں میں کچھ بلوچ افسر ،اور عرب یونٹوں میں عربی افسر بھی ہوتے تھے۔ ہمار ے کئی اکاؤنٹس آفیسر انگریز رہے،بعد میں ایک بلوچی افسر نے یہ کام سنبھال لیا تھا۔ ایک انگریز افسر جس کا نام جم ہاکنز تھا وہ کتابیں اور رسالے پڑھنے کا بہت شوقین تھا۔ میں کبھی کبھار اس سے کتابوں یا مصنفین کے حوالے سے بات کرتا رہتا تھا ۔ اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ مجھے اپنی کئی کتابیں پڑھنے کے بعد دے دیتا تھا۔ اْس کی دی ہوئی کئی کتابیں ابھی تک میرے پاس موجود ہیں۔ غالباً 1977ء کے آغاز میں وہ انگلینڈ چھٹی گیا ۔ جب چھٹی گزار کر واپس دفتر میں آیا تو ایک لفافے میں بند کتاب میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب جب انگلینڈمیں میں نے بک اسٹال پر دیکھی تو ایک کاپی خرید لی ،دکان سے باہر نکل آیااور اپنی کار میں بیٹھ گیا تو نجانے ایک دم کیوں تمہارا خیال آیا،دوبارہ دکان میں گیا اور ایک کتاب تمہارے لیے بھی خرید لی، جم ہاکنز کی وہ نشانی آج تک میرے پاس محفوظ ہے۔
Ranulph Fiennes ایک انگریز تھا،جو مسقط آرمی میں بطور آفیسر کام کرتا رہا ،یہاں سے فارغ ہونے کے بعد اْس نے مسقط کی کمیونسٹوں کے ساتھ اس جنگ کا احوال تفصیل سے اپنی معرکتہ الآرا کتاب ’جہاں فوجی قدم رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں‘(Where Soldiers Fear To Tread ) میں تحریر کیا ہے۔ کتاب میں تفصیل سے جنگ کے پورے حالات درج ہیں ،اور بتایا گیا ہے کہ دشمن کے پیچھے روس ،پوری کمیونسٹ دنیا،مصر اور یمن کھڑے تھے۔۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۷ء تک دفار لبریشن فرنٹ ہلکی پھلکی کارروائیاں کرتا رہا۔ ۱۹۶۵ء میں پہلی دفعہ سلطان کی باقاعدہ فوج فرنٹ والوں کو قابو کرنے کے لیے حرکت میں آئی۔ ۱۹۶۷ء کے بعد کمیونسٹوں نے ڈی ایل ایف(DLF) پر قبضہ کرلیا۔ دنیا بھر کے کمیونسٹ متحد ہوکر میدان میں آگئے۔ دفار کے پہاڑوں میں کمیونسٹ ملکوں کے فوجی باقاعدہ وردی پہن کر لڑتے رہے۔پروگرام کے مطابق یمن میں بیٹھے کمیونسٹوں کا پہلا نشانہ دفار اور دوسرا مسقط بننا تھا اْس کے بعد متحدہ عرب امارات،بحرین اور پھر کویت ٹارگٹ تھا۔ لیکن اللہ کو ایسا منظور نہ تھا یہ بیچارے دفار میں ہی پھنس کر رہ گئے۔ کتاب میں دہشت گردوں کے مظالم کی پوری تفصیل دی گئی ہے۔ لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے راستوں میں پھینک دینا، لاشوں کو جلانا ، لوگوں کو سگریٹوں سے داغنا، معمولی شک پر گولی مارکر زخمی کردینا،لوگوںکو غائب کردینا۔ مصنف نے ایک فقرے میں عمان کی موجودہ صورت حال بیان کردی ہے:Oman is poor yet rich, old yet new(عمان غریب ہونے کے باوجود امیر ہے،پرانا ہونے کے باجود جدید ہے)
٭٭٭
عمان میں کئی سال تخریب کاری کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور اس کے ساتھ ملک کے بعض علاقوں میں باقاعدہ فوجی لڑائیاں لڑی گئیں۔کئی قبیلوں کو انہوں نے آزادی کے خواب دکھائے۔ دوسری اہم ہے کہ وہاں جو میدان ِ جنگ تھا وہ ہمارے بلوچستان یا افغانستان کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقے جیسا تھا ۔ وہاں بھی اسی طرح غریبی اور بے روزگاری نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ حالات بھی ایک جیسے،علاقہ بھی ایک جیسا۔
آئیے دیکھتے ہیں انہوں نے حالات کی اصلاح کرنے کے لیے کیا طریقہ ٔ کار اختیار کیا ۔ انہوں نے سب سے پہلے دشمن سے اْن کا نعرہ لے لیا ،حکومت عمان نے اعلان کیا کہ ہر شہری کو روٹی،کپڑا، مکان دینا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جانوروں کے لیے پانی اور چارے کا بندوبست کرنا بھی حکومت کا فرض ہے۔ ہر شہری کا مفت علاج، ہر بچے کے لیے مفت تعلیم،ہر شہری کے گھر تک کچی یا پکی سڑک۔حکومت نے یہ سہولتیں عوام کو مہیا کیں ،لیکن ان سہولتوں نے عوام کو سرکاری اداروں سے باندھ دیا۔ مثلاً شعبہ طب ہے ،اْس نے تمام عمانیوں کا ڈیٹا تیار کر لیا۔ ہر آدمی کا نام پتہ ،کام ہر چیز اْس کے ریکارڈ میں آگئی۔ بچوں کی تعلیم کے ذریعے سرکاری عملہ ہر علاقے میں پہنچ گیا۔ہر آدمی اپنے نزدیکی تھانے میں رجسٹر ڈ ہے۔ اْس کو کسی قسم کی مدد چاہیے ،اْس نے نزدیکی تھانے میں رپورٹ کرنا ہے۔ تمام ملک میں سڑکوں کا جال پھیلا دیا گیا۔ بینک کھولے گئے ،انہیں کہا گیا کہ آپ لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے ،کار خریدنے کے لیے قرضے دیں ،مقصد یہ تھاکہ عوام ایک منظم زندگی کے عادی ہوں۔ ہر گھر تک سڑک پہنچانے کا پہلا مقصد تو عوام کو آنے جانے کی سہولت دینا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ کوئی گھر ایسا نہیں ہونا چاہیے جو حکومت کی نظر میں نہ ہو۔جوانوں کے لیے تمام ملک میں جم کلب بنائے گئے،ہر قسم کے کھیلوں ،خاص طور پر فٹ بال کے کھیل کے لیے ہر آبادی کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ تمام بوڑھوں، معذوروں ، ناداروں کا ڈیٹا جمع کیا گیا اْن کو ماہوار وظیفہ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔
ایک اور بہت اہم قدم یہ تھا کہ حکومت نے ملک کے کم آباد علاقوں میں جگہ جگہ مکان بناکر لوگوں میں تقسیم کرنے شروع کردیئے ،نظریہ یہ تھا کہ جب ایک آدمی کو مکان مل جاتا ہے تو وہ مکان کے ساتھ بندھ جاتا ہے ،وہ پھر کسی قسم کی شرارت یا تخریب کاری میں ملوث نہیں ہوسکتا ۔ مکان اس شرط پر دیا جاتا تھا کہ آپ کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ آپ کے علاقے میں کوئی بھی شخص قدم رکھے تو آپ نے نزدیکی تھانے کو مطلع کرنا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس طرح فاصلے فاصلے پر مکان بناکر لوگوں کو دے دیئے گئے،اس فیصلے نے کسی غیر آدمی کا علاقے میں گھسنا کافی حد تک مشکل کردیا۔
ملک میں زراعت کو ترقی دی گئی ،زراعت کے لیے پانی چاہیے، ملک میں پانی کی کمی کا مسئلہ ہے جس کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے گئے۔ دو دو تین تین فٹ چوڑی پانی کی پختہ نالیاں بنائی گئیں۔ زمین میں پانی کا لیول بلند کرنے کے لیے،کبھی کبھار ہونے والی بارش کا پانی سمندر میں جانے سے روکنے کا بندوبست کیا گیا۔ مسقط میں جہاں جہاں جو چیز پیدا ہوسکتی ہے اْس کی پیداوار بڑھانے کے لیے ہر ممکن تدبیر کی گئی۔خاص طور پر ملک میں جہاں کجھور پیدا ہوسکتی ہے وہاں کجھور کے باغات بڑھانے کے لیے مدد کی گئی۔ صلالہ اور کچھ علاقوں میں ناریل پیدا ہوتا ہے ،اْس کے نئے نئے باغات لگائے گئے۔ مسقط کا بہت بڑا ساحل ہے ،لوگوں کو مچھلی پکڑنے،اْس کو منڈی تک پہنچانے ،قیمتیں مناسب رکھنے، غرض ہر طرح مچھیروں کی مدد کی گئی۔ سچ ہے کہ لوگوں کے لیے روزگار پیدا کردیا جائے تو وہ پرامن ہوجاتے ہیں۔
٭٭٭
بلوچستان،اور قبائلی علاقوں کے حالات بہت حد تک وہاں کے حالات سے ملتے ہیں ،ہم اْن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں،ہم کو ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔یہاں ایک اہم بات یہ بھی یادکرانے کی ضرورت ہے کہ مسقط میں جنگ ختم ہوچکی ہے ،اب وہاں بلوچیوں کی ضرورت کم ہی رہ گئی ہے،اْن کی بڑی تعداد وطن واپس آچکی ہے ،حکومت کا فرض ہے کہ اْن کو ملازمت مہیا کرے ورنہ ملازمتیں فراہم کرنے والے بہت ہیں۔
1962ء میں دفار کے ایک ناراض قبائلی رہنما مسالم بن نفل نے دفار لبریشن فرنٹ (DLF) کے نام سے تنظیم قائم کی۔ بوریمی نخلستان کی ملکیت کے تنازع پر سعودی عرب اور اومان میں کشیدگی تھی، لہٰذا اس علیحدگی پسند گروپ کو گاڑیاں اور اسلحہ سعودی عرب نے فراہم کیا۔ اسی برس دسمبر میں بن نفل کی گوریلا فورس نے صلالہ کے مقام پرقائم برطانوی ائیر فورس بیس اور تیل کی صنعت میں زیراستعمال گاڑیوں پر گھات لگا کر حملے کیے لیکن جلد ہی سعودی عرب نے ان کارروائیوں کو روک کر ان جنگجوئوں کو مزید گوریلا تربیت کیلئے عراق بھجوا دیا۔ 1964ء میں گوریلا فورس نے دوبارہ کارروائیوں کا آغاز کیا اور تیل کی تنصیبات اور سرکاری املاک کو نشانہ بنانے لگے۔
اومان کے سلطان سعد بن تیمور کا تمام تر انحصار دخار میں امن و امان کی ذمہ دار دخار فورس پر تھا جو صرف 60 افراد پر مشتمل تھی۔ 1966ء میں اسی فورس کے کچھ لوگوں نے سلطان کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ سلطان نے اپنے برطانوی مشیروں کے مشورے کے برعکس دخار کی آبادی کے خلاف انتہائی سخت کارروائی کی جس کے تباہ کن نتائج سامنے آئے اور حکومت کے خلاف بغاوت نے مزید زور پکڑا۔ آغاز ہی میں یمن اور عدن کی بائیں بازو کی تحریکیں دخار کی بغاوت کا ساتھ دے رہی تھیں۔
1967ء میں یمن سے برطانوی انخلاء اور عوامی جمہوریہ یمن کے قیام کے بعد خار کے باغیوں کو یمن سے براہ راست مدد ملنا شروع ہو گئی۔ اب یمن میں تربیتی کیمپ اور دیگر سہولتیں اومان کی سرحد کے بالکل قریب فراہم ہو گئیں۔ 1968میں سلطان کی فوج کی ایک بٹالین نے دیفا کے مقام پر باغیوں کے ٹھکانے پر بڑا حملہ کیا جسے باغیوں نے پسپا کر دیا اور اومان کی بہت سی اہم پوزیشنیں باغیوں کے قبضے میں آگئیں۔ اسی برس بائیں بازو کے نظریاتی غلبہ کے زیر اثر دخار لبرشن فرنٹ کا نام تبدیل کرکے پاپولر فرنٹ فار دی لبرشن آف دی آکوپاٹڈ عریبین گلف Popular Front for the OccupiedArabian Gulf رکھ دیا گیا۔ یوں اس تحریک کو سوویت یونین (روس) چین اور جنوبی یمن کی براہ راست اعانت حاصل ہو گئی۔ دوسری جانب اومان کو پاکستان، ایران، برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور اُردن کی حمایت حاصل تھی۔
23جولائی1970ء کو ایک پرامن انقلاب کے ذریعے سلطان سعیدبن تیمور کو ہٹاکر اس کا بیٹا قابوس بن سعید برسراقتدار آگیا۔ اس کے آنے سے صورت حال بالکل بدل گئی ۔ آہستہ آہستہ باغی مقامی لوگوں کو مدد اور اعانت کھونے لگے۔19جولائی1972ء کو معرکہ مربت کے نتیجے میں باغیوں کی شکست کاآغاز ہوا اور جنوری1976ء میں بغاوت کا مکمل طورپر خاتمہ کردیاگیا۔مصنف پاکستانی فوج کے شعبہ اکائونٹینسی میں خدمات انجام دیتے رہے۔ انھیںڈیپوٹیشن پر دفار کے محاذپروقت گزارنے کا موقع ملا۔اس دوران انھوں نے اومان کو درپیش اس سنگین صورتحال کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اومان پاکستان کے تعاون سے ان نازک حالات سے کیسے سرخرو ہوا، یہ ساری تفصیل انھوں نے زیرنظرمضمون میں بیان کی ہے جس سے پاکستانی حکام کو بھی روشنی ملے گی جو آج اسی قسم کے نازک حالات سے گزرہاہے۔