وطن عزیز کی تاریخ میں معمّوں کی کمی نہیں اور پچھلے دنوں ایک اور انوکھے معّمے کا اضافہ ہو گیا۔25جولائی کو الیکشن والی رات اچانک ایک سافٹ ویئر نے کام کرنا چھوڑ کر پوری قوم کو حیران پریشان کر دیا۔
اب یہ معاملہ چیستان بن چکا کہ سافٹ ویئر میں از خود کوئی خرابی پیداہوئی یا اسے جان بوجھ کر خراب کیا گیا؟ اس خرابی سے فائدہ اٹھا کر بہرحال حزب اختلاف کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع مل گیا کہ الیکشن 18ء دھاندلی زدہ تھے۔آرٹی ایس (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم) نامی یہ سافٹ ویئر الیکشن کمیشن نے قومی شناختی کارڈ بنانے والے سرکاری ادارے‘ نادرا کے آئی ٹی ماہرین سے تیار کرایا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں سے فارم 45 کی الیکشن شدہ کاپی بذریعہ انٹر نیٹ جلد از جلد الیکشن کمیشن کے ہیڈ کوارٹر واقع اسلام آباد تک پہنچ سکے۔
فارم 45 پر ایک پولنگ اسٹیشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد امیدواروں کے حساب سے درج ہوتی ہے۔یہ سافٹ ویئر پچاسی ہزار پولنگ اسٹیشنوں کے ناظمین (پریزائڈنگ افسروں یا ان کے نائبین ) کے سمارٹ فونوں میں انسٹال کر دیا گیا۔ اس سافٹ ویئر کو چلانے کا سارا انتظام عملہ نادرا ہی کے سپرد تھا۔ نادرا کے ہیڈ کوارٹر (اسلام آباد) میں اس سافٹ ویئر کی خاطر سرور مخصوص کر دیئے گئے۔ نیز ایک معروف انٹر نیٹ کمپنی سے 400ایم بی پی ایس (MBPS) کی پائپ لائن کرائے پر حاصل کی گئی۔
الیکشن والی رات پولنگ اسٹیشنوں سے ہر فارم 45 سب سے پہلے نادرا کے سروروں میں آنا تھا۔ عملہ نادراپھر ہر فارم الیکشن کمیشن کے ہیڈ کوارٹر‘ حلقے کے متعلقہ ریٹرنگ افسر اور سرکاری ٹی وی‘ پاکستان ٹیلی ویژن کو بھجوا دیتا۔ جیسا کہ بتایا گیا‘ آر ٹی ایس سافٹ ویئر کروڑوں روپے کی لاگت سے اسی لیے بنایا گیا تاکہ پولنگ سٹیشنوں کے نتائج الیکشن کمیشن تک جلد پہنچ سکیں۔ یہی وجہ ہے، الیکشن کمیشن نے پارلیمانی انتخابات سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ 25 جولائی کی رات دو بجے تک سبھی پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج قوم کے سامنے آ جائیں گے۔اس دن بعض ناخوشگوار واقعات کے باجود ووٹنگ جاری رہی۔ رات نو بجے سے پہلے ہی ہمارے ٹی وی چینل پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج بھی مشتہر کرنے لگے۔ نتائج تیزی سے سامنے آ رہے تھے۔ تاہم گیارہ بارہ بجے اچانک نتائج آنے کا سلسلہ تھم سا گیا۔ بعض مبصرین نے اظہار حیرت بھی کیا کہ نتائج آنا بند کیوں ہو گئے؟
گو مگو کی اس کیفیت میں اچانک سابق وزیراطلاعات ‘ مریم اورنگ زیب ٹی ی چینلوں پر نمودار ہوئیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعوی کیا کہ پولنگ اسٹیشنوں سے مسلم لیگ ن کے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا۔ اور یہ کہ پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45کے بجائے سادہ کاغذ پر ووٹوں کی تعداد لکھ کر دے دی گئی ۔
انہوں نے دعوی کیا کہ دھاندلی کا آغاز ہو چکا اور بند کمروں میں ووٹوں کی تعداد تبدیل کی جا رہی ہے۔ مریم اورنگ زیب کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے رہنماؤں نے بھی پریس کانفرنسیں کر کے درج بالا الزامات دھرائے اور دعوی کیا کہ پولنگ اسٹیشنوں میں نتائج بدلے جا رہے ہیں۔ گویا ان پارٹیوں نے الیکشن 18ء کو مشکوک قرار دے ڈالا۔ڈیڑھ دو گھنٹے بعد سیکرٹری الیکشن کمیشن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ آر ٹی ایس سافٹ ویئر میں خرابی کی وجہ سے نتائج آنا بند ہوئے ہیں۔ اب روایتی طریقے سے کام ہو رہا ہے لہٰذا نتائج آنے میں دیر ہو سکتی ہے۔ یوں دو بجے تک تمام نتائج سامنے لانے کا جو دعویٰ الیکشن کمیشن نے کیا تھا‘ وہ غلط ثابت ہوا۔
معاملہ کیا پیش آیا؟
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ رات گیارہ بجے کے بعد آر ٹی ایس جام ہونا شروع ہوا ۔ وجہ یہ کہ جب ہزار ہا پریذائڈنگ افسروں نے اپنے اپنے فارم 45 سافٹ ویئر میں لوڈ کیے‘ تو فارموں کی کثرت کی وجہ سے آر ٹی ایس بیٹھ گیا۔ اب اس میں اسکین شدہ فارم 45 لوڈ کرنا ممکن نہیں رہا۔ایک سافٹ ویئر کا جا م ہو جانا کوئی نئی بات نہیں‘ ترقی یافتہ ممالک میں تو زیادہ ٹریفک ہونے سے ویب سائٹس بیٹھ جاتی ہیں۔ اس قسم کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں لہٰذا 25 جولائی کی رات فارموں کی کثرت کے باعث آر ٹی ایس سافٹ ویئر نے کام کرنا چھوڑ دیا‘ تو یہ ایک ناگہانی آفت تھی۔
اس خرابی پر زیادہ سے زیادہ الیکشن کمیشن پر یہ تنقید کی جا سکتی ہے کہ اس نے پہلے کیوں نہیں سوچا ،جب ایک ساتھ ہزاروں فارم 45سافٹ ویئر میں لوڈ ہوں گے تو ہجوم کی وجہ سے وہ بیٹھ جائے گا؟ اگر اصل خرابی یہی ہے‘ تو مطلب یہ کہ نادرا اور الیکشن کمیشن‘ دونوں قومی اداروںنے سافٹ ویئر کوتجربات سے نہیں گذارا ۔ اگر آر ٹی ایس پرایسا تجربہ کیا گیا ہوتا‘ تو یقیناً یہ خرابی سامنے آ جاتی کہ فارموں کی کثرت اسے جام کر دے گی۔ الیکشن کوئی بھی ہو‘ بڑا اہم ہوتا ہے۔ خاص طور پر قومی الیکشن کی اہمیت تو بے حساب ہوتی ہے کہ اسی کے ذریعے ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کا چناؤ ہوتا ہے ۔ الیکشن کے عمل میں بعض اوقات معمولی سی غلطی بھی اسے مشکوک بنا دیتی ہے۔ اسی لیے الیکشن کمیشن اور متعلقہ سرکاری اداروں کو خصوصاً قومی الیکشن کرواتے ہوئے انتہائی توجہ اور احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کے دشمن ہیکروں نے سافٹ ویئر جام کر دیا ہو۔ یہ عمل انجام دینے کا معروف طریقہ یہ ہے کہ ہیکر سافٹ ویئر کی ٹریفک مصنوعی طریقے سے بڑھا دیتے ہیں۔ یہ مصنوعی ٹریفک دراصل مختلف کمپیوٹر پروگرام ہو تے ہیں۔ جب ہجوم بڑھ جائے تو سافٹ ویئر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ دنیائے انٹرنیٹ میں یہ عمل اصطلاح میں ’’ڈی ڈی او ایس‘‘ (Denial-of-service attack) کہلاتا ہے۔اگر درج بالا معاملہ پیش آیا‘ تو اس کے جنم لینے کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں۔ آر ٹی ایس سافٹ ویئر کی انٹرنیٹ پائپ لائن محفوظ (Secure) تھی۔ یعنی اس سافٹ ویئر تک صرف نادرا کا عملہ ہی رسائی رکھتا تھا۔ پہلی صورت میں یہ ممکن ہے‘ سافٹ ویئر میں از خود کوئی تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی۔ یوں پاکستان دشمن ہیکروں کو اس میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔
انہوں نے پھر ڈی ڈی او ایس حملے کے ذریعے سافٹ ویئر جام کر ڈالا۔دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی تربیت یافتہ پاکستان دشمن ہیکر آر ٹی ایس کا دفاعی حصار توڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ چنانچہ وہ سافٹ ویئر کی انٹرنیٹ پائپ لائن میں داخل ہو اور اسے ڈی ڈی او ایس حملوں کا نشانہ بنا دیا۔تیسری صورت یہ ہے کہ نادرا کے آئی ٹی عملے میں سے کسی نے آر ٹی ایس سافٹ ویئر میں ایسی خرابی پیدا کر دی کہ اس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ کام کرنا نہیں چھوڑا‘ تو جام ضرور ہوگیا اور بڑی سست رفتاری سے اپنا کام انجام دینے لگا۔چوتھی صورت یہ کہ جس انٹرنیٹ کمپنی سے سافٹ ویئر چلانے کے لیے 400 ایم بی پی ایس کی پائپ لائن کرائے پر لی گئی تھی، اس کے کسی شرپسند عنصر نے آر ٹی ایس میں خرابی کردی۔ اس کی وجہ سے وہ قابل استعمال نہیں رہا۔
الیکشن کمیشن اور نادرا کا تنازع
25 جولائی کی رات سیکرٹری الیکشن کمیشن نے دعوی کیا تھا کہ آر ٹی ایس نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن اسی موقف پر قائم ہے۔ تاہم الیکشن کے بعد نادرا کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ آر ٹی ا یس نے کام کرنا نہیں چھوڑا تھا۔ سوال یہ ہے کہ دونوں قومی اداروں میں سے کس کا دعویٰ درست ہے؟آر ٹی ایس سافٹ ویئر کے ڈیٹا کی رو سے 25 جولائی کو شام چھ بجے ووٹنگ ختم ہوئی‘ تو اگلے ایک گھنٹے میں’’225‘‘ پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج بذریعہ نادرا سرور الیکشن کمیشن کے پاس پہنچ چکے تھے ۔پھر فارم 45تیزی سے آنے لگے حتیٰ کہ رات گیارہ بجے 15,796فارم الیکشن کمیشن تک پہنچ گئے۔ اس کے بعد فارم 45کی آمد سست رفتاری کا شکار ہو گئی۔ حتیٰ کہ فی گھنٹہ ایک ہزار پولنگ اسٹیشنوں کے فارم 45آنے لگے۔ اس ڈیٹا سے یہ سچائی عیاں ہے کہ آر ٹی ایس سافٹ ویئر نے کام کرنا تو نہیں چھوڑا تاہم وہ انتہائی سست رو ضرور ہو گیا۔
الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ آر ٹی ایس سافٹ ویئر چلانے کا سارا انتظام نادرا کے سپرد تھا۔ اگر سافٹ ویئر خراب ہوا تو یہ اس کی ذمے داری ہے۔ لیکن نادرا کا د عویٰ ہے کہ 25 جولائی کی رات آر ٹی ایس صحیح طرح کام کر رہا تھا۔ بعض نادرا افسران کا کہنا ہے کہ پریڈائزنگ افسروں اور ان کے نائبین کو الیکشن کمیشن نے سافٹ ویئر چلانے کی درست تربیت نہیں دی۔ یہی وجہ ہے ‘ وہ الیکشن کی رات فارم 45صحیح طرح سافٹ ویئر پر لوڈ نہیں کر سکے اور نتائج کا سلسلہ تعطل کا شکار ہو گیا۔تجویز یہ ہے کہ درج بالا تنازع ختم کرنے کے لیے تجربہ کار آئی ٹی ماہرین، ججوں اور ارکان اسمبلی پر مشتمل ایک جامع کمیشن بنایا جائے ۔وہ گہرائی و گیرائی سے تحقیق کرے کہ آر ٹی ایس سافٹ ویئر میں کس مرحلے پر خرابی در آئی۔
غیر جانب دارانہ تحقیق دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دے گی۔ ایسا کمیشن ضرور بننا چاہیے تاکہ مستقبل میں ٹیکنالوجی سے متعلق کوتاہیوں اور غلطیوں سے بچا جا سکے۔یہ بات ضرور قوم کو معلوم ہونی چاہیے کہ 25 جولائی کی رات آر ٹی ٹی ایس سافٹ ویئر کیوں صحیح طرح اپنا کام انجام نہیں دے سکا؟ جس نے بھی اسے خراب کیا ہے، اس کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ وجہ یہ کہ اس سافٹ ویئر کی خرابی کے باعث ہی الیکشن 18ء کا پورا عمل دھاندلی زدہ اور مشکوک بن گیا۔
الیکشن میں شکست سے دوچار ہونے والی سیاسی جماعتوںکے بعض رہنما تو اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے یہ الزم عائد کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر یہ سسٹم بند کیا گیا تاکہ پی ٹی آئی کی کامیابی کو یقینی بنایا جاسکے ۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ سابق حکمران جماعت (مسلم لیگ ن) کے ساتھی مختلف اداروں میں موجود تھے۔ انہوں نے اپنے اثرورسوخ کی بدولت آر ٹی ایس جام کرادیا۔ مقصد یہ تھا کہ الیکشن کو جس میں ان ناکامی واضح ہوچکی تھی‘ متنازعہ بنایا جاسکے۔پی ٹی آئی رہنماؤں کا یہ دعویٰ اس لیے کمزور ہے کہ الیکشن 18 میں فوج سبھی پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کی گئی تھی۔ مقصد یہی تھا کہ کسی قسم کی دھاندلی انجام نہ پائے۔ یہ عمل کارگر اور مفید ثابت ہوا۔
الیکشن کے بعد اگرچہ کوڑے کے ڈھیر وغیرہ سے بیلٹ پیپر ملنے کے واقعات سامنے آئے، تاہم کوئی امیدوار یہ ثبوت پیش نہیں کرسکا کہ اس کے حلقے میں جعلی ووٹ ڈالے گئے۔ پاک فوج کی موجودگی کے باعث ووٹنگ کا عمل بھی مجموعی طور پر منظم اور پُرامن رہا۔یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو کامیابی دلوانی تھی ،تو الیکشن سے قبل ایسے اقدامات کیے جاتے جن کی بدولت اس جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہو جاتی۔یعنی وہ الیکشن میں کم از کم 140 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہتی مگر ہم نے دیکھا کہ وہ بمشکل 116 نشستیں جیت سکی۔
اس حقیقت سے عیاں ہے کہ حالیہ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار رہی۔الیکشن کو پرکھنے والی مشہور پاکستانی تنظیم،فافن نے بھی مجموعی طور پر الیکشن کو صاف ستھرا قرار دیا ۔یہ یاد رہے،حالیہ الیکشن سے قبل ہی غیرملکی میڈیا میں ایسے مضامین شائع ہونے لگے تھے جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ’’یہ الیکشن نہیں سلیکشن‘‘ہوں گے۔اس قسم کے مضامین امر یکا اور برطانیہ کے مشہور اخبارات اور ویب سائٹس میں شائع ہوئے۔گویا غیرملکی میڈیا نے پہلے ہی الیکشن کو متنازع اور مشکوک قرار دے دیا۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا دعوی ہے کہ غیرملکی میڈیا کی اس ملک دشمن مہم کے پیچھے مسلم لیگ ن کا سرمایہ کارفرما تھا۔مقصد یہ تھا کہ خصوصاً سیکورٹی فورسز کو بدنام کیا جا سکے۔
حزب اختلاف کے دیگر الزامات
اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ الیکشن کی رات ان کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشن سے باہر نکال دیا گیا۔ ان کے نزدیک یہ دھاندلی کا ثبوت ہے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت ہر امیدوار کے صرف ایک پولنگ ایجنٹ کو پولنگ اسٹیشن میں رہنے کی اجازت تھی۔ جس امیدوار کے زیادہ پولنگ ایجنٹ تھے،صرف انہیں پولنگ اسٹیشن سے باہر نکالا گیا۔اگر الیکشن کمیشن کا دعویٰ درست ہے، تو یہ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی غلطی تھی کہ انہوں نے پولنگ اسٹیشنوں میں اپنے زیادہ پولنگ ایجنٹ داخل کردیئے۔ گویا یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات لگتی ہے۔ امیدواروں کو قانون پر عمل کرنا چاہیے تھا۔
حزب اختلاف کا دوسرا بڑا دعویٰ یہ ہے کہ الیکشن کی رات ان کے پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45 کے بجائے سادہ کاغذ پر ووٹوں کی تعداد لکھ کر دی گئی۔ اس کے نزدیک یہ دھاندلی ہونے کا دوسرا ثبوت ہے۔اس ضمن میں الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ سبھی پریذائڈنگ افسروں کو ہدایت دی گئی تھی ،فارم 45آر ٹی ایس پر بھجوانے کے بعد ہی وہ فارم کی نقول پولنگ ایجنٹوں کو فراہم کریں گے۔
جب آرٹی ایس میں خرابی پیدا ہوئی تو فارم دینے کا معاملہ بھی لٹک گیا۔اس پر بعض بے صبرے پولنگ ایجنٹوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ان سے جان چھڑانے کی خاطر کچھ پولنگ اسٹیشنوں کے پریشان اور گھبرائے ہوئے عملے نے انھیں سادہ کاغذوں پر ووٹوں کی متعلقہ تفصیل فراہم کر دی۔اگر یہی ماجرا پیش آیا تو یہ بھی آشکارا کرتا ہے کہ حزب اختلاف نے اپنے پولنگ ایجنٹوں کے بے صبرے پن اور جلد بازی کو دھاندلی کا نام دے دیا۔گویا کوتاہی ان کے اپنے لوگوں کی تھی مگر معتوب الیکشن کمیشن کا عملہ قرار پایا جس کی انتظامیہ کو سابقہ حکومت نے خود متعین کیا تھا۔بہرحال حزب اختلاف کے دونوں الزامات کی گہرائی سے تحقیق ہونی چاہیے تاکہ سچ سامنے آسکے۔
The post الیکشن2018ء؛ دھاندلی ہوئی… نہیں ہوئی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.