ڈویژنل ایمرجنسی آفیسر ریسکیو 1122 بہاول پور
ای میل: dremergencybwp@hotmail.com
جدت پسندی اور انسانی ترقی نے جہاں انسان کے لیے بہت ساری سہولیات پیدا کی ہیں وہاں انسانی حیات کے لیے کچھ خطرات بھی جنم لے رہے ہیں، ان میں سب سے بڑا خطرہ آتش زدگی ہے۔
موجودہ جدید دور کی روز مرہ زندگی میں گھر، آفس، فرنیچر ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹرانسپورٹ، موبائل، کاسمیٹکس، ادویات، لباس اور برقی آلات سے لے کر انسان کے اردگرد پائی جانے والی زیادہ تر اشیا آگ کا باعث بننے اور آگ پکڑنے والی ہیں جو آتش زدگی کے واقعات میں اضافہ و شدت کا موجب ہیں جن کی وجہ سے قیمی جان و املاک کو نقصان پہنچ رہا ہے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جامع و مکمل تحریر قارئین کی نذرکی جا رہی ہے جس پہ عمل کر کے ان واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔
قدیم یونانیوں کا خیال تھا کہ آگ ان چار بنیادی عناصر میں سے ہے جن سے کائنات کی تمام چیزیں تشکیل دی گئی ہیں ۔ اس فسانے میں آگ ایک مقدس مادہ ہے جو زندگی یا طاقت دیتا ہے۔ سائنسی طور پر آگ کسی مواد کے آکسیجن کی موجودگی میں جلنے کو کہتے ہیں۔ جدید دنیا میں آگ کے تین اجزا کو ایک مثلث کے طور پر پیش کیا ہے جس میں 1 – جلنے والا مواد 2 – حرارت -3آکسیجن شامل ہیں۔
آگ جلانے کے لیے ان تین اجزاء کی موجودگی ضروری ہے۔ مسلسل رد عمل حرارت مہیا کرتا ہے جو آگ کو جلتے رہنے میں مدد کرتا ہے۔ جدید سائنس نے آگ کو چار مراحل میں تقسیم کیا ہے۔
Ignition(جلنا): فیول، آکسیجن اور حرارت ایک ساتھ مل کر کیمیکل ری ایکشن میں شامل ہوتے ہیں۔ اس مرحلے میں آگ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
)Growthبڑھنا(: ابتدائی طور پر شروع ہونے والی آگ گرمی کی وجہ سے بڑھتی ہے اور چھت تک جا پہنچتی ہے۔
Fully Developed (مکمل طور پر تیار): اس مرحلے میں فیول کے ملنے سے آگ پوری طرح پھیل جاتی ہے اور حرارت اپنی آخری حددوں کو چھوتی ہے اور آکسیجن تیزی سے استعمال ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
)Decayجل جانا( : اس مرحلے میں جلنے والی چیز مکمل طور پر جل کر کوئلہ یا راکھ ہو جاتی ہے۔
آگ حرارت کے تین طریقو ں سے منتقل ہونے سے پھیلتی ہے۔
1۔ Conduction حرارت کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی سے
2 ۔ Convection گرم جگہ سے گیس یا سیال کے ٹھنڈی جگہ منتقل ہونے سے
3 ۔ Radiationحرات یا الیکٹرک لہروں کے ذریعے بغیر کسی رابطے سے
یہ بات بڑی دلچسپی کی حامل ہے کہ آگ کے بننے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن آگ بجھانے کے لیے ان تینوں میں سے کسی ایک ذرائع کو ہٹا دیں تو آگ بجھ سکتی ہے ۔
آگ بجھانے کے تین طریقے ہیں۔
1 – جلنے والے مواد کو ٹھنڈا کرنا
2 – آکسیجن کی موجودگی کو ختم کرنا
3 – ایندھن کو ختم کر دینا یا ہٹا دینا
آتش زدگی کے دوران کچھ واقعات بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن میں فلیش اور بیک ڈرافٹ شامل ہیں۔
Flash Over اس میں کمرے میں موجود ہر چیز اچانک آگ پکڑ لیتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب درجہ حرارت ایک دم سے کچھ سیکنڈ میں 1000F ڈگری ہو جاتا ہے اور کمرے کی ہر چیز کا درجہ حرارت اس نہج پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ آگ پکڑ لیتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک فائر فائٹر جو کہ مکمل طور پر حفاظتی حصار میں موجود ہے اپنے آپ کو اس Flashover سے نہیں بچا سکتا۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ عمارت سے گھنا سیاہ دھواں نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔
Backdraftاس میں آگ لگنے کے بعد جب بند کمرے میں درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور کمرہ گیسوں سے بھر جاتا ہے اور کمرے میں آکسیجن ختم ہو جاتی ہے تو کمرے میں موجود گیس دروازے اور کھڑکیوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیتی ہے۔ جب کچھ وقت بعد کمرے میں اچانک کسی راستے سے آکسیجن کی فراہمی شروع ہو تو دھماکہ ہوتا ہے اس کو BackDraft کہتے ہیں۔اس لیے ان علامات کی صورت میں کسی بھی کمرے کا دروازہ یا کھڑی یکدم نہیں کھولنی چاہیے۔
آگ کو جلنے والی چیز یا ایندھن کی بنا پر بین الاقوامی درجہ بندی کے مطابق پانچ کلاسوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
کلاس A :اس کلاس میں لکڑی، کپڑا، کاغذ، ربڑ اور بہت سے پلاسٹک مواد شامل ہیں۔
کلاسB :اس کلاس میں ایسے مائعات جو جلنے والے ہوں جیسے پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، تھنر، پینٹ، رنگ، الکوحل، سپرٹ وغیرہ شامل ہیں۔
کلاس C : اس کلاس میں برقی آلات شامل ہیں جو آگ پکڑ لیتے ہیں ۔
کلاس D: اس کلاس میں مختلف دھاتوں کو لگنے والی آگ شامل ہے جیسے میگنیشم، ٹائٹینیم، زرکونیم، لیتھیم، اور پوٹاشیم وغیرہ شامل ہیں ۔
کلاس K : اس کلاس میں باورچی خانہ میں موجود کھانا پکانے والے آلات ،گھی، کوکنگ آئل، مکھن اور چربی وغیرہ شامل ہیں ۔
آگ سے حفاظت کے اچھے انتظام کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آگ لگے ہی نہ ۔ اور اگر آگ لگ گئی ہے تو فوری طور پر اس کو کنٹرول کر لیا جائے اور اگر کنٹرول نہیں ہوئی اور پھیل گئی ہے تو عمارت سے ہر شخص کے حفاظت سے نکلنے کا راستہ موجود ہو ۔
آگ کے خطرے کی تشخیص کے لیے ایک منظم طریقہ کار کے تحت اپنی عمارتوں کو دیکھیں۔ آگ لگنے کے خطرے کی تشخیص کا مقصد آگ لگنے کے خطرات کو پہچاننا اوران کو کم کرنا ہے۔ یاد رکھیں آگ لگنے کے خطرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے باربار خطرات کو دیکھنا اور کم کرنا چاہیے۔
لوگوں کو آگ لگنے کی صورت میں خطرات سے آگاہ رکھیں۔ آگ کے خطرات کاپتہ لگانے اور آگ سے لڑنے، ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے راستے کے بارے میں لوگوں کو انتباہ کریں کہ آگ لگنے کی صورت میں انھوں نے کیا کرنا ہے۔
ایک عمارت میں اگنیشن کے طور پر درج ذیل چیزیں شامل ہو سکتی ہیں۔
1 – کھانا پکانے کا سامان، گرم پانی، فلش اور فلٹر، تمباکو نوشی کا مواد مثلاً سگریٹ اور لائٹر، بجلی یا گیس سے جلنے والا ہیٹر دیگرعوامل مثلاً ٹھیکیداروں کی طرف سے غلط ویلڈنگ، غلط استعمال شدہ برقی آلات، روشنی سے متعلقہ اشیاء اور روشنی کے علاوہ سامان ہالوجن لیمپ یا ڈسپلے، مرکزی حرارتی بوائیلر، ننگی آگ مثلاً موم بتی یا گیس، مائع ایندھن کی کھلی آگ، مشعل اور آتش بازی۔
کوئی بھی چیز جو جلتی ہے وہ آگ کو ایندھن مہیا کرتی ہے۔ کچھ ایندھن جو عام طور پر چھوٹی اور درمیانے درجے کی جگہوں پر دستیاب ہوتے ہیں ان میں جلنے والے مائعات کی بنیاد پر مصنوعات جیسے پینٹ، وارنش، پتلی اور چپکنے والی چیزیں، جلنے والے مائعات اور محلولات جیسے کہ الکوحل، سپرٹ، کھانے کا تیل، سگریٹ لائیٹر، جلنے والے کیمیکل جیسے مخصوص صفائی کی مصنوعات اور فوٹو کاپی کا کیمیکل، جلنے والی گیس جیسے LPG گیس، خوراک جو ڈبوں میں پیک کی ہوتی ہے، سجاوٹ اور پیکنگ والا سامان، اسٹیشنری اور اشتہاری مواد، لاسٹک اور ربڑ جیسے کہ ویڈیو ٹیپ، فرنیچر، پلاسٹک سے بنی ہوئی نمائشی چیزیں، کپڑے اور فوم سے بنا فرنیچر، فضلہ کی مصنوعات خاص طور پر تقسیم شدہ کاغذ کے ٹکڑے، لکڑی کی چھتیں اور گندے علاقوں میں جمع دھول، آتش بازی اور پیٹرو ٹیکنیک مصنوعات شامل ہیں۔
آگ کے لیے بنیادی جزو آکسیجن ہمارے اردگرد موجود ہوتی ہے۔ ایک بند عمارت میں آکسیجن وینٹیلیشن سسٹم کی مدد سے دی جاتی ہے۔ یہ دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ دروازے، کھڑکیوں اور دیگر راستوں کے راستے قدرتی ہوا کے ذریعے یا ائیرکنڈیشنگ سسٹم اور ائیر ہنڈلنگ سسٹم کے ذریعے۔
آگ سے پیدا ہونے والا دھواں بھی خطرناک گیسوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو لوگوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ ایک جدید عمارت میں لگی ہوئی آگ سے نکلنے والا دھواں گہرا اور سیاہ ہوتا ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور یہ ہنگامی راستوں کو بند کر سکتا ہے۔
ہنگامی راستے مناسب اور محفوظ ہونے چاہیئں جن کو کسی بھی وقت استعمال کیا جا سکے۔ وہاں روشنی کامناسب انتظام ہو۔ راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ ہنگامی طور پر کھلنے والے تمام دروازے باہر کی طرف کھلتے ہوں ۔ کمرے کا احاطہ اگر 60 لوگوں سے زیادہ ہے تو ہنگامی طور پر نکلنے کے لیے دو راستے ہونے چاہیئں۔
آڈیٹوریم، شادی حال، سینما گھر، تھیڑ، امتحانی مراکز اور سٹیڈیم میں سیٹیں ایسے لگانی چاہیئں کہ تمام لوگ باہر کے راستے تک آسانی سے جا سکیں، وہ سیٹیں جو فکس ہوتی ہیں ان کے درمیان پچھلی سیٹ سے اگلی سیٹ کا فاصلہ کم سے کم1 فٹ ہونا چاہیے۔
آگ بجھانے کے آلات چھوٹی آگ کو بجھانے کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔ کوڑا دان میں لگی ہوئی آگ بڑی آگ بن سکتی ہے اگر اس کو فوراً قابو نہ کیا جائے۔ جہاں جہاں ضروری ہو وہاں نوٹس لگائیں کہ آگ بجھانے والے آلات کو کیسے استعمال کرنا ہے اور آگ لگنے کی
صورت میں کیا کیا اقدامات کرنے ہیں ۔ ریسکیو1122، فائر فائٹر کی مدد کریں مثلاً بجلی کاسوئچ بند کر دیں اور آگ لگنے والی جگہ کی نشاندہی کریں۔
فائر سیفٹی و الارم کے نظام کو ہفتہ وار، ماہانہ وار اور چھ ماہ بعد الارم سسٹم انسٹال کرنے والی کمپنی کی ہدایات کے مطابق چیک کریں ۔ ایمرجنسی لائٹ کی بیٹری چیک کریں ۔ آگ بجھانے والے آلات کی جگہ اور ان کے کام کرنے کی صلاحیت چیک کریں ۔
آگ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے موثر ایمرجنسی پلان ہونا چاہیے۔ ہنگامی منصوبہ بندی کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ آگ لگنے کی صورت میں اس جگہ پر موجود لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس جگہ سے محفوظ طریقے سے کیسے نکلنا ہے ۔
کسی بھی جگہ پر کام کرنے والے لوگوں کو آگ بجھانے کی تربیت دی جائے ۔ سامان اور مشینری میں آگ کا عام سبب کسی بھی مشین کے اندر ہوا کے اخراج کا بند ہو جانا ہے اور اس وجہ سے مشین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور آگ لگ جاتی ہے ۔
تمام مشینیں، سازوسامان، کھانا پکانے والے آلات ، حرارت خارج کرنے والے تمام آلات جیسے کہ فوٹو کاپی کرنے والی مشین وغیرہ شامل ہیں ان کو کسی ماہر پیشہ ور سے چیک کرواتے رہنا چاہیے۔ سب سے بڑا خطرہ تب پیدا ہوتا ہے جب مشینوں کو وقت پر چیک نہیں کروایا جاتا اور غیر تربیت یافتہ عملہ اس کو استعمال کرتا ہے۔ سگریٹ اور تمباکو نوشی کا سامان آگ لگنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ آلودہ ماحول میں ایک سگریٹ کئی گھنٹوں تک سلگ سکتا ہے جو کہ آگ لگنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ آگ لگنے کے کئی واقعات سگریٹ نوشی کے اس مواد سے ہوئے ہیں جن کو کوڑا دان میں ڈال دیا گیا اوراس فضلہ کو مستقبل میں ختم کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ آگ لگنے کے واقعات میں زیادہ تر لوگ دھواں اور گیس کی وجہ سے مرتے ہیں۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آگ لگنے کی صورت میں ابتدائی مراحل میں آگ کا پھیلاؤکم ہوتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بہت سے اقدامات ایسے ہیں جو ابتدائی مراحل میں آگ کے پھیلاؤ کو روکتے ہیں اور آگ کے پھیلاؤ کے بعد بھی آگ پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں۔
آگ لگنے کی صورت میں الارم کی آواز اتنی اونچی ہونی چاہیے کہ ہر شخص سن لے۔ چھت سے پانی چھڑکنے والا نظام آگ بجھانے کے لئے بہت موثر ہے۔ دیگر آلات میں پانی، فوم، گیس اور پاؤڈر والے سلنڈر شامل ہیں ۔
رہائش گاہ کے عملے اور رہائشیوں کے ساتھ آگ بجھانے والے لوگوں کی گنتی آگ لگنے کے بعد بہت ضروری ہے۔ اسٹاف، مہمانوں، رہائشیوں اور فائر فائٹرزکی حاضری کے رکارڈ کو یقینی بنانا چاہیے۔کسی بھی آگ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ آگ ہر منٹ یعنی 60 سیکنڈ کے بعد دوگنا ہو جاتی ہے آگ کی تباہی سے بچنے کے لیے سب سے اچھا طریقہ ہر سطح پر آگ سے بچاؤ کی آگاہی، تیاری اورفوری ردعمل ہے ۔
پاکستان میں آتش زدگی کے واقعات کو روکنے کے لیےBuilding Codes بلڈنگ کوڈز متعارف کرانے چاہئیں جس میں بلڈنگ کی نوعیت مثلاً سرکاری ونیم سرکاری، کمرشل، رہائشی وغیرہ کے مطابق فائرسیفٹی کو مدِ نظر رکھنا چاہیے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ایریا فی مربع فٹ فلور اور منزلوں کی تعداد اور لوگوں کی تعداد و آمدو رفت کے حوالے سے فائر سیفٹی کے انتظامات کیے جانے چاہئیں اس کے علاوہ واٹر ہائیڈرنٹس کی تنصیبات کو یقینی بنانا چاہیے۔ آگ سے مزاحمت کرنے والے خصوصی دروازے جو مارکیٹ میں آسانی سے دسیتاب ہیں وہ لگوانے چاہئیں۔
یہ بات توجہ طلب ہے کہ کمرشل پلازہ جو اربوں روپے میں تعمیر ہوتا ہے اگر وہا ں پر چند ہزار روپوں سے فائر سیفٹی کے انتظامات کر لیے جائیں جو کہ کوئی اضافی بوجھ نہیں ہے، ان سے لوگوں کے قیمتی جان و مال کے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام پبلک ٹرانسپورٹ میں سیٹوں کی تعداد کے مطابق آگ بجھانے والے فائر ایکسٹنگیوشر(Fire Extinguisher ) آگ بجھانے والے سلنڈر اور ہنگامی انخلا کے دروازے یقیناً موجود ہونے چاہئیں۔ وہ بڑے آئل ٹرالر اور کنٹینر جو پٹرولیم مصنوعات کو لے کر سفر کرتے ہیں ان میں بھی آگ بجھانے والے سلنڈر اور ان کے استعمال کی تربیت، ڈرائیور و ہیلپر کے پاس ہونی چاہیے۔ کسی بڑے لیکج کی صورت میں ٹرالر کو مین روڈ سے ہٹ کے سائیڈ پر کر دیا جائے۔
حفاظتی کون (Cones)کے ذریعے ایریا کو سیل کر دینا چاہیے ۔ پٹرولیم کی آگ کو کبھی پانی سے نہیں بجھانا چاہیے کیونکہ پانی بھاری اور پٹرولیم پراڈکٹ ہلکا ہوتا ہے اور اگر پانی ڈالا جائے تو پانی نیچے بیٹھ جاتا ہے اور پٹرول اوپر ہو جاتا ہے اور پانی کے اوپر آگ لگی رہتی ہے ۔ اس صورتحال میں مقامی طور پر موجود مٹی یا ریت فوراً لیک ہونے والی جگہ پر ڈال دینا چاہیے اس کے علاوہ تمام پبلک ٹرانسپورٹ، ویگن اور بسوں میں CO2 اور فوم بنانے والے فائر سلنڈ رہونے چاہئیں۔
موجودہ جدت پسندی کے دور میں ہر گھر کے اندر آگ بجھانے والا چھوٹا (DCP) ڈرائی کیمیکل پاؤڈر والا سلنڈر موجود ہونا چاہیے جو کہ ہر کلاس والی آگ پہ موثر ہوتا ہے۔ صنعتی اداروں، پبلک ڈیلنگ والے اداروں، تعلیمی اداروں ، بینکس، لائبریری ، ہسپتال، لیبارٹری، بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور، مارکیٹس، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، ہوائی اڈے، پریزیڈنٹ ہاؤس، وزیرِ اعظم ہاؤس، صوبائی و قومی اسمبلیاں اور وہ تمام ادارے جہاں پر سرکاری ریکارڈ رکھا جاتاہے، گودام، ٹمبر مارکیٹ، فرنیچر و پالش مارکیٹ کی انتظامیہ و ذمہ دار افراد کے لیے کسی مستند ادارے سے تربیت اور فائر سیفٹی کی تنصیبات کو لازمی قرار دینا چاہیے اور ان جگہوں پر ایک فوکل پرسن نامزد کرنا چاہیے جو صرف اور صرف فائر سیفٹی کے معاملات کو دیکھے۔
اس وقت پاکستان میں ہر تحصیل کی سطح پر فائر برگیڈ سروس موجود ہے جس کا یونیورسل نمبر 16 ہے جو بغیر کسی ایریا کوڈ کے ملایا جا سکتا ہے جو کہ (TMA) تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے ماتحت کام کر رہی ہے اس سروس کو فعال کرنے کی ضرورت ہے جس کو جدید فائر گاڑیوں، آلات کے ساتھ ساتھ عملہ اور جدید تربیت کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ریل گاڑیوں، ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں میں فائرسیفٹی کے لیے جدید اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔ ان کے عملے کی تربیت کو جدید فائر سیفٹی سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔ ٹی ایم اے و دیگر اتھارٹیز کو بلڈنگ نقشہ بنانے یا پاس کرتے ہوئے اور این او سیNOC) ( جاری کرتے ہوئے فائر سیفٹی کے عملی اقدامات کو لازمی جزو قرار دینا چاہیے۔
مملکت خداداد میں نئی حکومت وجود میں آئی ہے وفاقی اور صوبائی سطح پر فائر سیفٹی کے قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے جدید تقاضوں کے تحت ان قوانین میں ترامیم ناگزیر ہے، ہو سکے تو نئی قانون سازی کی جائے لیکن اہمیت اس بات کی ہوگی کہ ان قوانین پر 100 فیصد عمل درآمد رکروایا جائے۔اور بلڈنگ و ٹرانسپورٹ کوڈز متعارف کرانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں احمدپور شرقیہ بہاولپور جون 2017 میں ہونے والے آئل ٹینکر کے حادثے کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارعت صحت پورے پاکستان میںڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال (DHQ) کی سطح پر 10 بیڈ پر مشتمل پر جدید برن یونٹ بنائے تا کہ آتش زدگی کے شکار متاثرین کا بروقت علاج ممکن ہو ۔
اس وقت پاکستان میں سکن بینک (Skin Bank)کا کوئی تصور نہیں ہے، وفاقی سطح پر ایک سکن بینک قائم ہونا چاہیے، اس ضمن میں آرگن ڈونیشن کے قانون کو موثر بنایا جائے اور لوگوں کو موت کے بعد دیگر اعضاء سمیت جلدکو بھی عطیہ (Donate) کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ایک انسانی جلد کا عطیہ سکن بینک میں کئی سالوں تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور سکن بینک کے قیام سے لوگوں کی قیمتی جانوں کو بچانا ممکن ہو سکے گا۔
آخر میں راقم الحروف کے مقولے کو ’’چھوٹی آگ کو کبھی چھوٹا مت سمجھیں‘‘ کو ذہن نشین رکھیں۔
آگ ایک بہت بڑی آفت ہے جو کہ جانی ومالی نقصان کے لیے ایک مستقل خطرہ کے طور پر موجود ہے اگر ہم ہر سطح پر لوگوں کے اندر شعور و آگاہی پیدا کریں اور حفاظتی انتظامات کو یقینی بنائیں تو ہم اس آفت پر قابو پا سکتے ہیں۔
The post آتشزدگی سے کیسے بچا جائے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.