ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ آپ کسی ایسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں جس میں آپ کو اپنے بول و براز پر قابو نہیں ہے، آپ کے پاس کھانے کے لیے کھانا ہے اور نہ ہی پینے کے لیے صاف پانی، اس صورت حال میں بالغوں کے ڈائپر یا سینیٹری نیپکنز کا تصور آپ کے لیے عیاشی ہے، تصور کریں کہ مستقل بہنے والے پیشاب کی تیزابیت کی وجہ سے آپ کی جلد جل گئی ہے۔
زخم پڑ گئے ہیں اور پھر کوئی آپ کی اس اذیت کا مداوا کرنے سے پہلے ویڈیو یا تصاویر بنا کر دنیا بھر میں شایع کردے۔ آپ خود کو ایک ایسی ماں تصور کریں جس کی چھاتیاں غذائی قلت کی وجہ سے خشک ہوچکی ہیں، آپ کا شیر خوار بچہ بھوک سے تڑپ تڑپ کر قریب المرگ ہے۔
آپ اپنی زندگی کے اذیت ناک دوراہے سے گزر رہی ہوں اور کوئی آپ کی بے بسی، آپ کے بچے کی بے جان ہوتی آنکھوں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرلے اور آپ سے تسلی کے دو بول بولے بغیر نکل جائے تو آپ کو کیا محسوس ہوگا؟ دنیا بھر کے پس ماندہ خصوصاً افریقی ممالک کے شہریوں کے لیے یہ سب ان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ لاکھوں ڈالر کے کیمروں سے روٹی کے ایک نوالے کو ترستے لوگوں کی عکاسی دنیا بھر میں کم وقت میں زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کرنے کی اس روش کو پاورٹی پورن کا نام دیا گیا ہے۔
پاورٹی پورن کا تصور پہلی بار 1980میں سامنے آیا، اسی کے عشرے کو خیراتی مہم کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں خیراتی اداروں نے افریقا اور دنیا کے دیگر غریب خطوں میں ایسی تصاویر کو اپنی چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کا حصہ بنایا جن میں سے کسی میں بھوک سے مرتے بچے کی آنکھوں میں مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں، کم زوری سے نڈھال بچہ موت سے ہم کنار ہونے والا ہے اور ایک گدھ اس کے مرنے کے انتظار میں قریب ہی بیٹھا اسے دیکھ رہا ہے۔ خیرات ، عطیات اکٹھا کرنے کے اس رجحان نے جلد ہی دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرلی۔
ان میں سے کچھ مہم بہت کام یاب ہوئیں اور انہیں قحط سے نبزد آزما ہونے کے لیے ڈیڑھ سو ملین ڈالر سے زاید کے عطیات جمع کرنے میں مدد ملی، تاہم ناقدین نے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے انسانی جذبات کو مجروح کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز کے استعمال پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کے لیے ’پاورٹی پورن ‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ خیراتی اداروں کی دیکھادیکھی ذرایع ابلاغ نے بھی اس طرح کی تصاویر کو اپنی ریٹنگ اور سرکولیشن بڑھانے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس عرصے میں افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگی، قحط سالی پر شایع ہونے والے مضامین اور انٹرویوز میں اس نوعیت کی تصاویر اور ویڈیوز کا ہونا لازم تھا۔
یونیورسٹی آف برمنگھم میں انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کی تعلیم دینے والے ڈیوڈ ہڈسن لندن کی ایک ٹیوب میں سیر و تفریح کر رہے تھے، جب ان کی نظر ایک پوسٹر پر پڑی جس میں کسی تکلیف میں مبتلا ایک نحیف و لاغر بچہ چِلّا رہا ہے اور اس کی ماں بے بسی سے اسے دیکھ رہی ہے۔ اس تصویر کے نیچے چند سطروں میں کچھ اس طرح امداد کی درخواست کی گئی تھی،’’آپ کے دیے گئے 25 پاؤنڈ اس غذائی قلت کے شکار بچے کو مہینے بھر کی خوراک مہیا کر سکتے ہیں۔
اپنے عطیات جلد از جلد دیں۔‘‘ تصویر اور اس پر درج عبارت نے ڈیوڈ کو ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کی ترغیب دی جس کا عنوان انہوں نے کچھ یہ رکھا ’لوگوں کو افریقا اور اس جیسے قحط کے شکار ملکوں کو پیسہ دینے کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ یہ افریقی ملک ملاوی کے دارلحکومت کا ایک تجارتی مرکز تھا۔ مرکزی سڑک کی ایک جانب لگے اسٹال پر لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی جانب سے لگائے گئے کیمپ میں ایک رجسٹریشن مہم کے تحت پیدائشی سرٹی فیکیٹ بنانے کی ترغیب دی جا رہی تھی۔ تشہیری پمفلٹ میں ایک ملاوی شیر خوار بچے کو دکھا یا گیا تھا جس کی آنکھوں میں موجود بے بسی اور گالوں سے بہتا آنسو کا ایک قطرہ دیکھ کر سب کا دل پسیج رہا تھا۔
اس تصویر کو بعد میں عطیات جمع کرنے کی بہت سی مہموں میں استعمال کیا گیا۔ انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق پاورٹی پورن کو عموماً سیاہ فاموں سے مشروط کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ بہت سے خیراتی اداروں کے خیال میں جو اثر ایک غریب افریقی بچے کی تصویر کرتی ہے وہ اثر ایک سفید فام بچے کی تصویر نہیں کر سکتی۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج تک تمام تر تصویریں سیاہ فام بچوں کی استعمال کی گئی ہیں۔
خشک سالی اور خانہ جنگی نے مشرقی افریقا کو بدترین قحط سالی کا شکار بنا دیا ہے، کینیا، جنوبی سوڈان، صومالیہ اور ایتھوپیا میں دو کروڑ افراد کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ افریقی ممالک کی مدد کے لیے دنیا بھر کی بہت سی فلاحی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں، اور ان کی جانب سے کی گئی امدادی کارروائیوں کے نتیجے میں وہاں غذائی قلت کی وجہ سے ہونے والی شرح اموات میں کافی کمی بھی آئی ہے، لیکن ان فلاحی اداروں کی جانب سے تشہیر کے لیے بھوک سے سسکتے بلکتے کم زور بچوں کی تصاویر، پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس اپنے بچے کو خشک چھاتی سے دودھ پلاتی ماؤں کی تصاویر ان فلاحی اداروں کے لیے سونے کی کنجی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تصویر میں جتنی یاسیت، محرومی اور غربت ہوگی اس تصویر کے ساتھ ہونے والی فنڈ ریزنگ مہم اتنی ہی کام یاب ہوگی۔
پاورٹی پورن کے لیے ایسی تصاویر کے حصول کی دوڑ میں دنیا بھر کی بہت سی فلاحی تنظیموں کے ساتھ ساتھ ذرایع ابلاغ بھی شامل ہوگیا ہے۔ یہ تصاویر فلاحی اداروں کے لیے پیسے تو ذرایع ابلاغ کے لیے ریٹنگ حاصل کرنے کا سب سے موثر اور کم خرچ ذریعہ ہیں۔ دنیا بھر کے سر فہرست میڈ یا اداروں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امدادی اور فلاحی کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ڈیزاسٹرز ایمرجینسی کمیٹی ( ڈی ای سی) برطانیہ کی تیرہ غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک سے ایسی تصاویر کے حصول کے لیے کوشاں رہتی ہیں جنہیں دکھا کر برطانوی عوام سے زیادہ سے زیادہ عطیات جمع کیے جاسکے۔
اس بارے میں ڈیوڈ ہڈسن کا کہنا ہے کہ ’میں فلاحی تنظیموں کی جانب سے ان کے تمام تر خلوص کے باوجود عطیات جمع کرنے کے لیے اس طرح کی تصاویر کے استعمال کو پاورٹی پورن‘ کے زُمرے میں رکھتا ہوں۔ ہڈیوں کا ڈھانچا بنے بچے، چیتھڑوں میں ملبوس ہاتھ پھیلاتی خواتین کی تصاویر ہی امداد کا واضح پیغام دیتی ہیں۔ تاہم ان کی غربت، کسمپرسی کی زندگی کو امداد حاصل کرنے کے لیے اس طرح اجاگر کرنا ہی درحقیقت ’پاورٹی پورن‘ ہے، لیکن لوگوں کی اکثریت اس کو غلط سمجھتے ہوئے بھی امداد دیتی ہے۔
ڈی ای سی کی جانب عطیات جمع کرنے کی مہم میں درج بالا پوسٹر کی مدد سے ایک ہی دن میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پاؤنڈ جمع ہوگئے تھے، عطیات دینے والوں میں مشہور شخصیات کے علاوہ ملکۂ برطانیہ بھی شامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں خیراتی کام کرنے والی تنظیمیں اسے عطیات جمع کرنے کے ایک موثر ٹول کے طور پر لیتی ہیں، تاہم میری تحقیق کے مطابق پاورٹی پورن اس طرح کام یاب نہیں جس طرح ہم سوچتے ہیں۔ یہ مختصر مدت کے لیے تو کام یاب ہوسکتی ہے لیکن لوگ اس طرح کی مہم میں زیادہ طویل عرصے تک عطیات نہیں دیتے۔ فلاح کا کام لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ انہیں متنفر کرنے کے لیے۔ ‘
پاورٹی پورن کے بارے میں یونیورسٹی آف وسِکونسِن کے شعبہ زراعت و معیشت میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم پروفیسر جیکب وین رجن کا کہنا ہے کہ ’پاورٹی پورن کی بھی کئی اقسام ہیں، کچھ طبی سہولیات کی عدم فراہمی کو پاورٹی پورن کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو کچھ لوگ بھوک، غربت ناخواندگی کی آڑ میں یہ مکروہ کام کرتے ہیں اور اس کا سیدھا سا طریقہ یہ ہے کہ تصویر میں جس قدر بے بسی، بھوک اور غربت ہوگی۔
لوگ اس تصویر کو اتنی زیادہ امداد دیں گے اور اس غلط رجحان کے فروغ میں سفید فام سیلے بریٹیز پیش پیش ہیں جو ایک مدت سیان تصاویر کی مدد سے غیرمعمولی مراعات حاصل کر رہی ہیں۔جس کی واضح مثال گذشتہ سال ڈی ای سی کی جانب سے جاری کی گئی ایک ویڈیو تھی جس میں غذائی قلت کا شکار نحیف و نزار بچہ فرش پر ہاتھ پھیلائے لیٹا رک رک کر سانس لے رہا ہے، جب کہ اداکارایڈی ریڈ مین کیمرے کیجانب دیکھتے ہوئیکچھ اس طرح کے ڈائیلاگ ادا کر رہا ہے،’’اس بچے کی طرح لاکھوں بچے موت سے ہم کنار ہونے جا رہے ہیں۔
اپنے عطیات سے انہیں مرنے سے بچائیں۔‘‘ اسی طرح برطانیہ کے ایک بڑے خیراتی ادارے کومِک ریلیفنے لائبیریا کے اسٹریٹ چلڈرن کے لیے عطیات جمع کرنے کے لیے بھی ایسا ہی گھٹیا طریقہ استعمال کیا، جس میں برطانوی گلوکار ایڈ شیرانناظرین کو کچھ اس طرح مخاطب کر رہا ہے؛’’جب آپ آج اپنے بچوں کے ساتھ گرم بستر میں محوخواب ہوں گے اس وقت جے ڈی (سڑک پر رہنے والے بچے کا فرضی نام) جیسے بے گھر بچے ایک دوسرے کو گلے لگائے شدید سردی میں فٹ پاتھ پر ، سڑکوں پر سو رہے ہوں گے۔‘‘
اس ویڈیو کے نشر ہونے کیبعد شیران اور کومک ریلیف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد کومِک ریلیف نے آئندہعطیات جمع کرنے کی کسی بھی مہم میں کسی سیلے بریٹی کوبہ طور ایمبیسیڈر استعمال نہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس ویڈیو کی بابت دنیا بھر میں فلاحی کاموں میں سب سے ناپسندیدہ مہم چلانے پر دیے جانے والے ایوارڈ Radi-Aid awardsکا انعقاد کرنے والی تنظیمSAIH کے صدر بیتھ اوگارڈ کا کہنا ہے کہ ’’غربت، موت کا خطرہ اور اس جیسی دیگر چیزیں عطیات جمع کرنے کے لیے بہت کار آمد ہتھیار ہیں کیوں کہ لوگ ان سے نجات پانے کے لیے ہر جگہ، ہر ملک میں کچھ نہ کچھ امداد دے ہی دیتے ہیں، لیکن اس طرح کی کچھ خیراتی مہمات بہت ہی متنازع ہوتی ہے، جن میں لوگوں کی غربت کا بہت بُری طرح استیصال کیا جاتا ہے۔ اسی مسئلے کو اجاگر نے کے لیے ہم نے اس ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا ہے اور گذشتہ سال شیران کی ویڈیو نے یہ ایوارڈ جیتا تھا، جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ویڈیو میں غریب بچوں کے جذبات کو کس قدر ٹھیس پہنچائی گئی ہوگی۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2017 میں مشرقی افریقا میں پڑنے والے قحط نے ڈی ای سی اور دیگر بین الاقوامی خیراتی اداروں کو عطیات جمع کرنے میں بہت مدد کی۔ صرف صومالیہ میں قحط سے بچاؤ کے لیے تقریباً ایک اربتیس کروڑ ڈالر استعمال کیے گئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ماہ تیس لاکھ سے زاید افراد کو مرنے سے بچایا گیا۔
جب آپ کو کم وقت میں بڑی رقمجمع کرنی ہو تو خیراتی اداروں کے لیے سب سے مفید اور موثر فارمولا یہی ہے کہ کسی سیاہ فام بچے کی سسکتی بلکتی تصویر لگاکرکیپشن لکھ دیا جائے کہ ’’آپ کی دیگئی امداد اس بچے کی زندگی کی ضامن ہے۔‘‘تاہم خیراتی ادارے نہ صرف مختصر المدتی بلکہ طویل مدتی مہم کے لیے بھی پاورٹی پورن کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔
کینیا کے مشہور ادیب اور امداد کے نام پر پاورٹی پورن کرنے پر خیراتی اداروں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے والےBinyavanga کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ گوگل پر تلاش کریں تو آپ کو ایسی ہزاروں تصاویر نظر آئیں گی جنمیں ایک لاغر یا بھوکے ننگے بچے کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوگا کہ یہاں کلک کرکے اس بچے کو ایک ڈالر کا عطیہ بھیجیں، اور اس طرح کئی لوگ امداد کردیتے ہیں۔ آپ ایک بات یہ بھی دیکھیں کہ ہر سالآنے والی تصاویر پہلی والی تصاویر سے زیادہ ہول ناک ہوتی ہیں۔‘
ڈیوڈ ہُڈ سن کا اس بابت کہنا ہے کہ ڈیولپمنٹ کے ایشوز کے ساتھ لوگوں کے کم ہوتے عمل دخل اور دل چسپی کی وجہ سے ’پاور ٹی پورن‘ کو ایک موثرہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بہت سے خیراتی ادارے ان تصاویر کو کبھی قحط سالی کے شکار ملک کے لیے عطیہ جمع کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو کبھی وہی تصاویر خانہ جنگی کا نشانہ بننے والے متاثرین میں شامل ہوتی ہیں۔
ایک طرح سے یہ ایک چال بازی ہے کہ آپ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ غربت، محرومی، عالمی عدم مساوات سے نجات کا سب سے آسان حل اسی طرح ممکن ہے اگر آپ ہمیں کچھ رقم بہ طور امداد ادا کر دیتے ہیں، یہ سلسلہ دس یا بیس سال تک چلتا ہے لیکن یہ مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اس کا سب سے افسوس نا ک پہلوتو یہ ہے کہ فلاحی اداروں کی رپورٹ کبھی بھی یہ ظاہر نہیں کرتیں کہدنیا بھر میں غربت کی شرح میں بہتری آئی ہے یا افریقا میں بچوں کی شرح اموات کم ہوئی ہیں۔حالاںکہ گذشتہ تین عشروں میں ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی شرح امواتمیں 25 فی صد اور دنیا بھر میں غربت کی شرحدس فی صد گر چکی ہے۔ ہڈ سن کا کہنا ہے کہ اگر ڈی ای سی کی جانب سے لگائے گئے پوسٹرکی بات کی جائے تو کیا پچیس پاؤنڈ سے آپ پوسٹر میں نظر آنے والے بچے کو غذا فراہم کرسکتے ہیں؟ اب اس کی دو ہی صورتیں ہوں گی یا تولوگ ا س پوسٹر سے متاثر ہوں گے یا پھر اس سینفرت کریں گے۔
افریقی ملک روانڈ پر تحقیق کرنے والی محقق اولیویارُتازِبوا کاکہنا ہے کہ فلاحی کام اب ایک باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس صنعت کا وجود اس مائنڈ سیٹ پر برقرار ہے کہ مغرب برتر اور باقی دنیا کم تر ہے پر قائم ہے، غریب لوگوں کی بہتری مغرب کی موجودگی کے بنا ممکن نہیں۔ اسی مائنڈ سیٹ کے دیرپا نتائجبھی ہمیں بھگتنا پڑتے ہیں مثال کے طور پر میں یہ نہیں جانتی کہ ہماری جی ڈی پی کتنی گر چکی ہے کیوںکہ ہماری مفلوک الحال تصاویر ہر جگہ دکھائی دے رہی ہیں، میں یہ بھی نہیں جانتی کہ اس مد میں دیا گیا ہر ڈالر کہاں خرچ ہوا۔
پاورٹی پورن اور میڈیا
اکیسویں صدی میں پاورٹی پورن کا دائرہ کار خیراتی اداروں سے نکل کر فلم اور ٹیلی ویژن تک پہنچ گیا۔ 2015 میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ’دی یارڈیسٹ گریفٹار‘‘ کے نام سے ایک پروگرام پیش کیا۔ برطانیہ کے 25 غریب مزدوروں کے حالات زندگی پر بننے والے اس پروگرام میں انہیں مختلف ٹاسک دیے گئے۔ فاتح کے لیے پندرہ ہزار ڈالر کا انعام رکھا گیا۔ اس پروگرام میں شامل ہونے کی اولین شرط امیدوار کا غریب ہونا تھی۔ مزدوروں کی کسمپرسی کو ٹی اسکرین پر دکھانے پر اس پروگرام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
2014 میں چینل فائیو نے ’کانٹ پے؟ وی ول ٹیک اٹ اوے‘ کے نام سے ایک دستاویزی فلم بنائی۔ اس فلم میں انگلینڈ اور ویلز میں ہائی کورٹ کی جانب سے قرض وصولی پر مامور اہل کاروں کو شامل کیا گیا جو قرض نادہندگان سے قرض وصولی کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے۔ اس کی پہلی قسط 24فروری2014 کو نشر ہوئی۔ اس پروگرام کے نشر ہونے نے بہت سے قرض نادہندگان کی سفیدپوشی کا بھرم توڑ دیا۔ ریکوری ٹیم کی جانب سے پیسے وصول کرنے کے لیے استعمال کیے گئے حربوں کی وجہ سے روتے، سسکتے افراد کو ٹی وی اسکرین پر دکھا کراس پروگرام کی ریٹنگ آسمان پر پہنچ گئی۔ تاہم غربت کے نام پر لاکھوں ڈالر کمانے والی اس سیریز کو پاورٹی پورن کے زُمرے میں شمار کرتے ہوئے شدید تنقید کی گئی۔
2008 میں برطانوی ہدایت کار ڈینے بوئلے نے ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ کے نام سے ایک فلم پر ڈیوس کی۔ ممبئی کی جھونپڑ پٹی میں رہنے والے بچوں کی زندگی پر بننے والی اس فلم نے باکس آفس پر کام یابی کے جھنڈ ے گاڑ دیے۔ فلم کی کام یابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2009کے آسکر ایوارڈز میں اس فلم کو آٹھ ایوارڈ ملے۔ تاہم بھارتی معاشرے کی غلط عکاسی کرنے اور ’سلم ڈاگ‘ کا لفظ استعمال کرنے پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ناقدین نے اس فلم کو پاورٹی پورن کی سب سے بڑی مثال قرار دیا۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کام یاب ہونے والی اس فلم میں اداکاری کرنے والے بچوں کے حالات زندگی پر فلم کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔
فلم کے مرکزی کردار اظہرالدین محمد اسماعیل کو صرف سترہ سو پاؤنڈ اور روبینہ علی کو صرف پانچ سو پاؤنڈ معاوضہ دیا گیا، جب کہ فلم ساز اور اس کی ٹیم نے اس فلم سے اربوں روپے کمائے۔ فلم ساز ڈینے نے ان بچوں کو میٹرک تک اعلٰی تعلیم، اچھے علاقے میں گھر دلانے کا تحریری بیان بھی دیا، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ فلم کی ریلیز کے ایک سال بعد ہی ممبئی کی میونسپل کارپوریشن نے غریب نگر میں قایم روبینہ علی کی جُھگی کو مسمار کردیا۔ جب کہ محمد اسماعیل کو فلم ساز کی جانب سے نیا گھر دے دیا گیا۔
پاورٹی پورن قرار دی گئی تصاویر کی اشاعت، سخت تنقید
اٹلی سے تعلق رکھنے والے فوٹو گرافر الیسیو مامو نے 2011میں بھارت کی دو ریاستوں میں کچھ تصاویر کھینچی۔ الیسیو نیتصاویر کی اپنی اس سیریز کو (خواؓبوں کا کھانا) ڈریمنگ فوڈ کا نام دیا۔ یہ تصاویر لینے کے لیے الیسیو مامو نے ایسی دو بھارتی ریاستوں کا انتخاب کیا جہاں لوگوں میں غذائی قلت کی شرح دوسری ریاستوں سے نسبتاً زیادہ ہے۔
الیسیو نے انافراد کو کھانے کی ایک میز کے سامنے کھڑا کر کے تصاویر لیں۔ میز پر کھانے پینے کی مصنوعی اشیا رکھ کر تصویروں میں شامل افراد کو آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا گیا کہ وہ ان کھانوں کے بارے میں سوچیں جنہیں وہ کھانے کی میز پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ڈریمنگ فوڈ کے عنوان کے تحت لی گئی2011 کی ان تصاویر پر تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب یہ ورلڈ پریس فوٹو فاؤنڈیشن کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شائع ہونے کے بعد وائرل ہوئیں۔ الیسیو مامو نے کا کہنا ہے کہ میرا ان تصاویر کو کھیچنے کا مقصد انڈیا میں بھوک کے مسئلے کو اجا گر کرنا تھا۔
ورلڈ پریس فوٹو فاؤنڈیشن نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کا کنٹرول الیسیو مامو کو دیا جس کے بعد انھوں نے اِن تصاویر کو پوسٹ کیا۔ واضح رہے کہ یہ ادارہ اکثر مختلف فوٹوگرافرز کو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ چلانے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم یہ واضع نہیں کہ الیسیو مامو نے جو تصاویر شائع کیں وہ ادارے کی نظروں سے گزری تھیں کہ نہیں۔ جب کہ ورلڈ پریس فوٹو فاؤنڈیشن کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ ’فوٹوگرافر ہی دراصل اپنا کام منتخب کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں انہیں صرف عمومی ہدایات دی جاتی ہیں جن پر عمل کرنا ہوتا ہے۔‘ یاد رہے کہ غربت اور بھوک انڈیا کے بڑے مسائل میں شامل ہے۔ دنیا میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق بھی انڈیا سے ہے۔ بھوک کے بارے میں عالمی اعداد وشمار گلوبل ہنگر انڈیکس میں انڈیا درجہ بندی کے حساب سے مسلسل نیچے رہا ہے۔ گذشتہ برس 119 ترقی پذیر ممالک میں انڈیا 100یںنمبر پر تھا۔
The post پاورٹی پورن، خیراتی اداروں کی ظالمانہ روش appeared first on ایکسپریس اردو.