ماہ نامہ وادیٔ ادب (نعت نمبر)گوجرانوالہ
مدیر: امجد شریف
صفحات: 128، ہدیہ: 200 روپے
وادیٔ ادب کی اس خصوصی اشاعت میں اردو کے کئی نام وَر اساتذہ اور مشاہیر کے ہدیۂ نعت سجائے گئے ہیں، جن میں الطاف حسین حالی، حسرت موہانی، عبدالمجید سالک، مولانا ظفر علی خان، رئیس امروہی، صوفی تبسم، ماہر القادری اور واصف علی واصف وغیرہ کے نذرانے جمع کیے گئے ہیں۔ اس میں ہمیں علامہ اقبال کی نعت ’لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب‘ اور اقبال عظیم کی ’مدینے کا سفر اور میں نم دیدہ نم دیدہ‘ بھی جلوہ افروز دکھائی دیتی ہے۔ عبدالستار خان نیازی کی مشہور نعت ’محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں‘ بھی عقیدت مندوں کو مستفید کرتی ہے۔
انہی اوراق پر حامد لکھنوی کی مشہور نعت ’حقیقت میں وہ لطف زندگی پایا نہیں کرتے، جو یاد مصطفیٰ سے دل کو بہلایا نہیں کرتے‘، ’حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے، سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے (صبیح رحمانی) ’کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے‘ (خالد محمود خالد) اور ’میرے دل میں ہے یاد محمدؐ میرے ہونٹوں پہ ذکر مدینہ‘ (سکندر لکھنوی) وغیرہ جیسی خوب صورت نعتیں بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نام وَر خطیب اور شاعر بہادر یار جنگ کا اظہار عقیدت یوں شامل ہے ؎
تیرے بیاں سے کھل گئیں تیرے عمل سے حل ہوئیں
منطقیوں کی الجھنیں، فلسفیوں کی مشکلات
اکبر الہ آبادی کا اظہار ان الفاظ میں ہے ’یہ جلوہ حق سبحان اللہ، یہ نور ہدایت کیا کہنا، جبریل بھی ہیں شیدا اُن کے یہ شان نبوت کیا کہنا‘ ساغرصدیقی کا نذرانہ بہ عنوان ’جس طرف چشم محمد کے اشارے ہو گئے، جتنے ذرے سامنے آئے ستارے ہوگئے‘ بھی ان صفحات کا حصہ ہے۔
اس کتاب میں ایک طرف جہاں بہت سی یادیں تازہ ہوتی ہیں وہیں بہت سے منفرد اظہار عقیدت بھی توجہ کھینچ لیتے ہیں، جن میں تخلیقیت کے ساتھ رحمت الاالعالمین سے محبت دوچند ہو جاتی ہے، جیسے خورشید نقوی کا یہ اظہار دیکھیے کہ ’’شان ان کی سوچیے اور سوچ میں کھو جائیے، نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے‘‘ پھر سید فیضی نے کس قدر سادہ انداز میں کہا ہے کہ ’اک مصطفیٰ کا نام ہے نام خدا کے بعد، پھر جس قدر بھی نام ہیں سب مصطفیٰ کے بعد‘‘ اس اہم پرچے کو مجلد شایع کر کے گویا اس یادگار شمارے کو محفوظ رکھنے والوں کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے۔
ڈئیوس علی اور دیا
مصنف: نعیم بیگ
صفحات: 240، قیمت: 800 روپے
ناشر: عکس پبلی کیشنز، لاہور
یوں تو اس ناول کے مصنف بینکاری اور انجینئرنگ سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن جز وقتی لکھاری کے طور پر وہ مختلف اخبارات اور جرائد میں مضامین لکھتے رہے ہیں۔ اس سے قبل انگریزی میں دو ناول ’ٹرپنگ سول‘ اور ’کوگن پلان‘ بھی تصنیف کر چکے، اردو میں یہ ان کا پہلا ناول ہے، البتہ دو افسانوی مجموعے ’یو۔ ڈیم۔ سالا‘ اور ’پیچھا کرتی آوازیں‘ شایع ہو چکے ہیں۔
اس ناول کا انتساب پڑھیے: ’آنکھوں میں آزادی کا خواب سجائے ان کروڑوں پاکستانیوں کے نام، جنہیں اس ملک میں نئی زنجیریں عطا ہوئیں!‘‘ یہ انتساب ہی اتنا چبھتا ہے کہ قاری کو پتا چل جاتا ہے کہ آگے کیا آنے والا ہے، بلکہ اگر اِسے ہی ناول کا مرکزی خیال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ جا بہ جا مکالموں کی کاٹ اور مفہوم کی چبھن اِسی سمت اشارہ کرتی ہے۔ اس ناول میں آج کل کی اردو میں رواج پا جانے والے غلط لفظ ’ڈھکن‘ کو درست یعنی ’ڈھکنا‘ لکھنا ناول نگار کی زبان پر توجہ اور گہری نظر کی خبر بھی دیتا ہے۔ کہنے کو یہ 1970 اور 1980ء کے پس منظر میں لکھا گیا ہے، لیکن اس میں بہت گہرائی کے ساتھ تاریخی پس منظر کو بھی ٹٹولا گیا ہے۔
18 ابواب میں تقسیم کیے گئے ناول کے مرکزی کردار ایک ہفت روزہ کے صحافی ہیں، جن کے مکالمے فقط مکالمے نہیں، تاریخ، سماجیات اور سیاسیات کا گہرا شعور بھی لیے ہوئے ہیں۔ مظہر چوہدری اسے رومان، سماجی المیوں اور سیاست سے جڑا ہوا شاہ کار ناول قرار دیتے ہیں۔ ناول نگار کی ترقی پسند سوچ کا اظہار بھی ملتا ہے۔
افسانوں کے دریچوں سے جھانکتی زندگی
مصنف: شہنازخانم عابدی
صفحات: 143، قیمت: 250 روپے
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی
اس کتاب میں شامل مختصر افسانے جہاں ولایت میں بسنے والے دیسیوں کا دکھڑا کہتے ہیں، وہی دُکھڑے جو یہاں سے جانے والوں کے لیے تو باعث رنج ہیں، لیکن شاید وہاں کی تیز زندگی میں معمول کا حصہ ہیں۔ کبھی یہ افسانے دیسی سماج کے المیوں کا اظہار بھی بنتے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم ادیبہ کے افسانوں کا یہ دوسرا مجموعہ ہے، جس میں ایک طرف جہاں ’ہونے والا ہے‘ کے بہ جائے ’ہونے جا رہا ہے‘ جیسی زبان زد عام ہونے والی انگریزی تراکیب دکھائی دیتی ہیں، وہیں دنیا و مافیہا کو دنیا و ’مافیا‘ پڑھنا بہت کَھلتا ہے۔
اس تصنیف سے قبل مصنفہ کا افسانوں کا پہلا انتخاب ’خواب کا رشتہ‘ شایع ہو چکا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ان کے مختلف ادبی جرائد میں شایع ہونے والے افسانوں کا دوسرا چناؤ ہے، جس سے متعلق مصنفہ کا خیال ہے ’’میں ذاتی طور پر اپنی کتاب کے ہر افسانے سے مطمئن ہوں۔‘‘ کتاب کے پچھلے سرورق پر ممتاز ادیب اسد محمد خان رقم طراز ہیں ’’شہناز خانم عابدی نے اپنے افسانوں کو ان میں بیان کیے گئے ماجرے کو اور پیش کیے گئے کرداروں کو بیان کرنے، سنانے اور دکھانے کے لیے کسی نظریے، آرائش یا بناوٹ کا سہارا نہیں لیا ہے۔
وہ سیدھی اور صاف کہانی لکھتی ہیں۔‘‘ حسن منظر اظہارخیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’شہناز خانم کی تخلیق کی دنیا وسیع ہے، وہ اس میں رہی ہیں۔ اس میں بسنے والوں کو جانتی ہیں، ان کے ساتھ ہنس سکتی ہیں، رہ سکتی ہیں اور بن پڑے تو۔۔۔ کردار کے روپ میں۔۔۔ مداخلت بھی کر سکتی ہیں۔ یہ آخری بات انہیں واقعات کا محض کیمرا بن جانے سے بچا لیتی ہے۔‘‘
یہی دسمبر کا مہینہ تھا
مصنف: انور فرہاد
صفحات: 208، قیمت: 450 روپے
ناشر: میڈیا گرافکس، نارتھ کراچی
کہانیوں کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے سے متعلق قارئین کے ذہنوں میں بہت سے سوالات اور پیدا ہوتے ہیں اور تجسس جنم لیتا ہے۔ بالخصوص جب کہانی تاریخی المیوں کا احاطہ کرتی ہوئی ہو تو اس کی شدت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس حوالے سے ادب وتاریخ کا گہرا درک رکھنے والے نوجوان صحافی رانا محمد آصف کا یہ کہنا کس قدر حقیقی ہے کہ ’کوئی بھی کہانی پڑھ لینے کے بعد ایک کہانی وہ ہوتی ہے جو قاری کے اندر شروع ہوتی ہے۔‘ ہمارے تاریخی حادثات وواقعات کو بہت سے ادیبوں نے موضوع بنایا ہے۔ تاریخی اعتبار سے تقسیم ہند کے بعد دوسرا بڑا واقعہ 1971ء کا بٹوارا ہے۔۔۔ دونوں مرتبہ خلق خدا کو تقسیم، خوں ریزی اور ہجرت درپیش ہوئی۔۔۔ زیرتبصرہ کتاب بھی موخر الذکر وقوعے کے گرد گھومتی ہوئی 10 کہانیوں پر مشتمل ہے۔
کتاب کی ابتدا میں مصنف نے اِن کہانیوں کے حقائق کے حوالے سے ضروری اظہارخیال کیا ہے کہ کس کہانی کا ماخذ کون سے حقائق ہیں، کہاں مکالموں کے لیے کون سی دستاویز سے استفادہ کیا گیا ہے اور کس کہانی کا پس منظر کس قدر حقیقی اور کس قدر افسانوی ہے۔ یہ امر شاید انہوں نے اس لیے بھی ملحوظ خاطر رکھا کہ اُن کا ماننا ہے کہ ’ایک ادیب، کسی مورخ سے زیادہ سچ لکھتا ہے۔‘ اے خیام اس کتاب کے حوالے سے رقم طراز ہیں ’’انہوں نے ڈھاکا کو ڈوبتے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس کے غروب کے مناظر کو بہت نزدیک سے دیکھا، سماجی حالات اور معاشرے پر اس کے اثرات کو دل اور دماغ سے محسوس کیا اور اپنے انداز سے اپنے احساسات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا۔‘‘
اب کے ساون گھر آجا
مصنف: سبوحہ خان
صفحات: 157، قیمت: 200 روپے
ناشر: اشارات پبلی کیشنز
یہ کتاب افسانے، طنزو مزاح اور ہلکے پھلکے مضامین کا مجموعہ ہے۔ پہلے حصے میں پانچ افسانے، دوسرے حصے ’فن اور فن کار میں تین مضامین، جب کہ ’مسکرا کے دیکھتے ہیں‘ میں 14 مضامین شامل ہیں۔ کتاب میں شامل افسانوں کی بابت وہ لکھتی ہیں کہ ان سچی کہانیوں میں میرا حصہ صرف اتنا ہے جتنا کسی بات کو، کسی واقعے یا حقیقت کو فن کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کسی فن کار کا ہوسکتا ہے۔
انہوں نے 10 سال کی عمر سے قلم سنبھالا ہوا ہے، پہلی کتاب 1995ء میں ’دلی سے ڈیفنس‘ آئی، اس کے بعد ’اپنا دیس اپنے لوگ‘ ، ’انڈیا انڈیا‘ اور ’محور کی تلاش‘ شامل ہیں۔
اس کتاب میں شامل مضامین میں سادہ انداز بیانی کالموں جیسی روانی پیدا کرتی ہے، جو کہیں بھی تحریر کو بوجھل نہیں ہونے دیتی۔ ممتاز دانش وَر مظہر جمیل کا یہ اظہار خیال فلیپ کا حصہ ہے ’’سبوحہ خان کا انداز تحریر سادہ اور پُر اثر ہے، جو قاری کی توجہ اور انہماک کو کم نہیں ہونے دیتا۔ یہ ایک اچھی ، دل چسپ اور معنی خیز کتاب ہے جو یقیناً قارئین کے ایک بڑے حلقے کی داد وصول کرے گی۔‘‘ حارث خلیق کا خیال ہے کہ ’’جس تہذیبی رچاؤ، نفاستِ طبع، کشادگیِ قلب اور طنز لطیف سے ان کی شخصیت مرصع ہے، وہی تمام خواص ان کی تحریر میں پائے جاتے ہیں۔‘‘ نام وِر قلم کار حسینہ معین کہتی ہیں کہ ’’مختلف اصناف ادب میں بہ یک وقت اظہار کی صلاحیت کا جوہر کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ سبوحہ خان کے ہاں یہ جوہر نظر آتا ہے۔‘‘
آگ کا دریاـ ایک مطالعہ
(ناول کی رفیق مطالعہ کتاب)
مصنف: عبداللہ جاوید
صفحات: 283، قیمت: 300 روپے
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس تصنیف کا موضوع سخن اردو ادب کا عظیم ترین ناول ’آگ کا دریا‘ ہے۔ بقول مصنف انہوں نے قارئین کے ساتھ اس ناول کی خواندگی کی کوشش کی ہے۔۔۔ اس کتاب میں اردو کے شاہ کار ناول کی تیکنیک، اس کی فکری اٹھان اور مذہبی اثر سے لے کر اس کے کرداروں تک کا علاحدہ علاحدہ تجزیہ کیا گیا ہے۔
اس ضمن میں ناول کے 11 اہم کرداروں گوتم نیلمبر، ہری شنکر، چمپاوتی، ابوالمنصور کمال الدین، سر ل ہارورڈ ایشلے، عامر رضا، تہمینہ رضا، کمال رضا، طلعت رضا، نرملا اور سرل ڈیرک ایڈون ایشلے پر باقاعدہ ابواب باندھے گئے ہیں۔ اس میں ہر تجزیے کے ساتھ باقاعدہ حوالے کے لیے متن بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ گروہ نگاری کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ نقادوں کے رویے اور اس ناول کے حوالے سے پائے جانے والے تاثرات غلط فہمیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، اس حوالے سے قرۃ العین حیدر پر لکھی گئی نگارشات اور دیگر مضامین کو بھی حوالہ بنایا گیا ہے۔ اس کتاب کو اردو کے کسی ناول کی پہلی رفیقِ مطالعہ کتاب کہا گیا ہے۔ اس سے قبل عبداللہ جاوید کے تین شعری مجموعے ’موج صد رنگ‘، ’حصار امکاں‘، ’خواب آسماں شایع ہو چکے ہیں۔ ’بھاگتے لمحے‘ افسانوں اور ’مت سہل ہمیں جانو‘ مطالعۂ میر پر مشتمل ہے۔ سات دہائیوں سے لکھنے لکھانے والے مصنف گویا شعر وادب کے بعد اب تنقید کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔
تفہیم وتحسین
(تحقیقی وتنقیدی مطالعات)
مصنف: کلیم احسان بٹ
صفحات: 208، قیمت: 250 روپے
ناشر: روزن پبلی کیشنز، گجرات
اس کتاب میں مختلف رسائل وجرائد میں اشاعت پذیر ہونے والے تنقیدی مضامین یک جا کیے گئے ہیں۔ دیباچے میں صاحب کتاب کے اظہار خیال کے مطابق غالب اُن کا پسندیدہ موضوع ہے، اسی سبب اُن پر مضامین بھی زیادہ ہیں۔ کتاب کے مندرجات کا حصہ کُل 19 میں سے چھے مضامین کا موضوع استاد اسد اللہ غالب ہیں۔ دیگر موضوعات میں ضمیر جعفری، احمد ندیم قاسمی، صہبا لکھنوی اور دیگر مشاہیر کے کام پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ بہت سے مضامین کا موضوع ادب کے کسی رجحان، صنف یا عنصر کے مجموعی اثرات پر ہے، جب کہ کہیں پر کسی کتاب کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔
ان مضامین کی خوبی یہ ہے کہ یہ مضامین زیادہ طویل نہیں۔ سیدوقارافضل کہتے ہیں کہ ’’کلیم کا تنقیدی اسلوب اور دلیل کی روشنی کا مظہر ہے۔ اس کے جملوں کی شاخت براہ راست اِبلاغی وسیلوں پر قائم ہے۔ کسی بھی گن پارے یا ادبی رجحان کے بارے میں اس کا واضح اور منظم نقطۂ نظر اس کے اسلوب کو مبہم اور گنجلک ہونے سے بچاتا ہے۔‘‘ مصنف کے الفاظ میں دیکھیے تو کتاب میں شامل ’’بعض مضامین کی نوعیت اشارات کی ہے، بعض تنقیدی نوعیت کے ہیں اور بعض خالص تحقیقی مضامین ہیں۔‘‘
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.