قسط نمبر10
میں وہ نہیں جو نظر آرہا ہوں باہر سے، تو ایسے ہوتے ہیں لوگ، اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ، ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ، جیسے بہروپیا۔ لیکن بہروپیے کو تو آپ رعایت دے سکتے ہیں کہ وہ تو ایک اداکار ہوتا ہے جو اپنی فن کاری سے لوگوں کو محظوظ کرتا اور پھر ان سے کچھ سکّوں کا طلب گار ہوتا ہے، یہ دوسری بات کہ اس سماج میں فن کار کی کیا حیثیت اور مقام ہے۔
بس یہی ہوا تھا کہ اس بازار میں مجھے ایک شریف، نیک اور پارسا نظر آنے والے انسان نے بھیجا اور ایک گم راہ اور بدکار آدمی نے مجھے وہاں سے باہر نکال ڈالا تھا، اور اس تنبیہ کے ساتھ کہ میں اگر اسے آئندہ یہاں نظر آیا تو اس سے برُا کوئی نہیں ہوگا، یہی نہیں بل کہ اس نے مجھے کتابوں کی دکان کا راستہ بھی سمجھایا تھا۔
لی مارکیٹ میں کتابوں کی دو ہی بڑی دکانیں تھیں، شاید اب بھی ہوں اور دعا ہے کہ ہوں ورنہ تو ہمارے سماج میں کتابوں کی دکانیں بند ہوتی جارہی اور ان کی جگہ فاسٹ فوڈ نے لے لی ہے کہ اس میں لذت کام و دہن کے عوض منافع بھی تو بہت ہے، اور یہی کسی سماج کے زوال کے اولین صورت ہے۔ خیر ایک دکان کا نام مکتبہ اسحاقیہ اور دوسری کا نام مکتبہ عزیزیہ تھا۔
میں نے چند کتابیں خریدیں تو انہوں نے مجھے ہر کتاب کے لیے ایک گردپوش بھی دیا، مجھے آج بھی اس گردپوش پر لکھی ہوئی عبارت یاد ہے، اس پر لکھا ہوا تھا: ’’کتابیں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بُری بھی، ہمیں اچھی کتابیں پڑھنا چاہییں کہ ہمیں خود اچھا بننا اور دوسروں کو اچھا بنانا ہے‘‘ یہ دوسری بات کہ اس عبارت نے میرے اندر مزید سوالات کو جنم دیا اور پھر اس سوال کے جواب کی کھوج نے مجھے ان کتابوں تک پہنچایا جنہیں بُرا کہا جاتا ہے، خیر یہ ایک بہت بحث طلب موضوع ہے، اسے کسی اور وقت پر رکھتے ہیں۔ میں نے کتابیں خریدیں اور اپنے ٹھکانے پر واپس آگیا۔
لیکن ایک بے کلی اور بے چینی تھی، اس بازار کے جاننے کے تجسس نے مجھے گھیر لیا تھا۔ کون ہیں یہ عورتیں، کہاں سے آگئی ہیں، اور پھر وہ کرتی کیا ہیں؟ کیوں کرتی ہیں؟ ان کے پاس کون آتا ہے؟ کیوں آتا ہے؟ ان کے دن سوتے اور راتیں جاگتی ہیں، آخر کیوں؟ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کیوں، کیا اور کیسے میرے چاروں جانب میرا منہ چڑاتے ہوئے رقص کر رہے ہیں، اور نہ جانے اس طرح کے بہت سے سوالات، کہ اسے گندا بازار کیوں کہتے ہیں۔
میں ساری رات ان سوالات کے بھنور میں تنکے کی طرح گھومتا رہا اور بس گھومتا رہا۔ آخر صبح ہوئی اور صبح کو ہونا ہی ہوتا ہے، کوئی رات ہمیشہ نہیں رہتی، تاریکی کا مقدر ہی ہے چلے جانا۔ لیکن ذرا سا دم لیجیے، یہ روشنی اور تاریکی کی جنگ ہمیشہ سے جاری تھی، ہے اور رہے گی، اس لیے بتایا گیا ہے کہ اپنی روشنی کو ایسا روشن بناؤ کہ پھر کوئی تاریکی اسے پسپا نہ کرسکے، مگر پھر ایک سوال آگیا کہ ایسا کیسے کریں۔۔۔؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایسا اس وقت ہوسکتا ہے جب آپ اپنے اندر کو روشن کرلیں، جب اندر روشن ہو تو اسے باہر کی کوئی تاریکی شکست نہیں دے سکتی۔
اب یہاں پھر سے ایک سوال سامنے کھڑا ہے کہ اپنے اندر کو روشن کیسے کریں۔۔۔؟ یہ تو آپ کسی اہل علم سے دریافت کیجیے، مجھے تو صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ جب آپ خالق کی مخلوق سے بے ریا محبت کرنے لگیں، میں مخلوق کہہ رہا ہوں، صرف انسان نہیں کہ وہ تو ان سب میں اشرف ہے، مخلوق میں تو یہ ساری کائنات ہے، جی جی انسان تو دولہا ہے اس کا کائنات کا، تو خالق اپنا نور اس انسان کے اندر ہدیہ کردیتا ہے، واہ جی واہ پھر باہر کی کوئی تاریکی اس نور کو پسپا نہیں کرسکتی، کر ہی نہیں سکتی، کیا آپ اتنا بھی نہیں جانتے، مجھ عامی، عاصی، بے کار و بے مصرف کو معاف کیجیے۔
آپ ضرور جانتے ہوں گے کہ چراغ کو تو گُل کیا جاسکتا ہے لیکن نور کو نہیں کہ اس کا منبع تو کہیں اور ہوتا ہے، مصور سے تعلق، عشق، پیار و محبت کا دعویٰ اور اس کی بنائی ہوئی تصویروں سے بیر رکھنا اور نہ صرف بیر رکھنا بل کہ انہیں نیست و نابود کردینا کہاں کا دعویٰ عشق و محبت ہے، نہیں، بالکل بھی نہیں یہ تو دھوکا ہے، فریب ہے بل کہ خود فریبی، اس مصورِ حقیقی سے تعلق بنانا ہے تو اس کی بنائی ہوئی تصویروں سے محبت کرو، اور پھر اس تصویر سے تو خاص طور پر جس کے لیے اس نے کہا ہے کہ وہ احسن التقویم ہے، کہ یہی پہلا زینہ ہے، اس مصور حقیقی تک پہنچنے کا۔ جیتی جاگتی تصویروں کا قتل اس کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ ہم شاید بہت دور نکل رہے ہیں، چلیے واپس پلٹتے ہیں۔
میں اپنی مزدوری کے لیے پہنچا۔ میرے ساتھ ایک لڑکا کام کرتا تھا میں نے اس سے پوچھا۔ یار! یہ تُونے گندا بازار دیکھا ہے۔۔۔ ؟ اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور پھر آنکھ مارتے ہوئے مجھ سے کہا، چلے گا میرے ساتھ وہاں؟ گندا بازار نہیں ہے وہ، ہیرا منڈی ہے، ایک سے ایک ہیرا ملتا ہے وہاں۔ گندا بازار اور منڈی بھی، ہیرا بھی۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا بل کہ میں سوالات کی گہری دلدل میں اترتا چلا گیا، جتنا میں سوچتا جارہا تھا اتنا ہی دھنستا چلا جارہا تھا۔
چھٹی کے بعد میں سنیما ہال چلا گیا۔ دوسرے دن فجر کی نماز ادا کرکے میں قبرستان چلا گیا اور بہت دیر تک سوچتا رہا کہ کیا ہوتا ہے وہاں؟ اس دن میں کام پر نہیں گیا۔ قبرستان میں بیٹھے ہوئے مجھے بہت دیر ہوگئی تھی، میں نے واپسی میں ہوٹل میں کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں چلا آیا، لیکن مجھے ایک پل بھی قرار نہیں تھا۔ شام تک عجیب طرح کی بے کلی نے مجھے گھیر لیا تھا۔ آخر مغرب کی نماز ادا کرکے میں لی مارکیٹ اس بازار میں جا پہنچا۔ وہی بنی سجی، سنوری عورتیں، لڑکیاں اور عجیب سے اشارے، لوگوں کی آمد و رفت، بھرے میلے میں تنہا کھڑا میں سب دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں مجھے اپنے محلے میں رہنے والے اکبر بھائی نظر آگئے۔
اکبر بھائی پنج وقتہ نمازی تھے اور گھروں میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ بہت خوش مزاج اور خوش لباس، وہ ایک لڑکی سے نہ جانے کیا باتیں کر رہے تھے کہ میں ان کے سر پر جا پہنچا۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے پوچھتا وہ مجھ سے پوچھ بیٹھے۔ یہاں کیا کر رہے ہو تم! اور آپ کیا کر رہے ہیں یہاں؟ میرے سوال کا جواب تو انھوں نے نہیں دیا مجھے ہاتھ سے پکڑ کر وہ قریب ہی ایک ہوٹل پہنچے اور کھانے کا آرڈر دیا۔ اکبر بھائی! میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ کیوں؟ یار! جینے کے لیے کھانا پڑتا ہے۔ آخر کھانا آگیا۔ تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ وہ مجھ سے پوچھ بیٹھے۔
میں ایک دفعہ پہلے بھی یہاں آیا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا یہ بازار۔ آج میں پھر اسے دیکھنے اور سمجھنے کے لیے آگیا۔ لیکن آپ کیا کرنے آئے تھے اور وہ لڑکی کون ہے اکبر بھائی! وہ یہاں کیوں رہتی ہے۔ کیا کام کرتی ہے وہ۔ میں ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ بیٹھا تھا۔ وہ بس مسکراتے اور کھانا کھاتے رہے۔ بتائیں اکبر بھائی! کون ہے وہ؟ یار! وہ سب جسم فروش ہیں۔ یہ کیا ہوتا ہے اکبر بھائی! یار! تجھے سمجھ نہیں آئے گا۔ تو یہاں آئندہ مت آنا۔ تو آپ کیوں آئے تھے؟ میں تو بڑا ہوں ناں۔ تُو تو ابھی بچہ ہے۔ تو کیا جو کام بڑے کریں وہ بچوں کو نہیں کرنے چاہییں؟ میرا سوال پھر ان کے سامنے تھا۔ کھانے کے بعد ہم بس میں بیٹھے اور واپس آگئے
۔ اکبر بھائی بھی ہمارے محلے میں میری طرح تنہا رہتے تھے۔ یار! سلطان تو میرے ساتھ کیوں نہیں رہتا؟ کرایہ آدھا کرلیں گے۔ اور یوں میں ان کے کمرے میں منتقل ہوگیا۔ اس بازار کے متعلق شورش کاشمیری کی کتاب ’’اُس بازار میں‘‘ انھوں نے مجھے لاکر دی تھی، باتصویر کتاب، اور پھر ساحر لدھیانوی کی نظمیں، عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا اور ثنا خوانِ تقدیس ِمشرق کہاں ہیں۔ اس کتابوں کو پڑھ کر میرے اندر مزید سوالات پیدا ہوگئے تھے۔
اکبر بھائی خود جیسے بھی تھے، لیکن انھوں نے حقیقی بڑے بھائی کی طرح میرا خیال رکھا۔ ہم جس چیز کو سمجھ نہیں سکتے تو اسے عجیب کہنے لگتے ہیں۔ ’’تم اس دنیا کے نہیں ہو۔ بہت عجیب ہو تم‘‘ اکبر بھائی کا تکیہ کلام تھا۔ میرے پاس تیرے سوالات کا جواب نہیں ہے یار! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سوالات کا جواب ہی نہ ہو۔ میرا نیا سوال ان کے سامنے ہوتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ سوال غلط ہوسکتا ہے تو پھر کیا غلط سوال کو جواب سے محروم رہنا چاہیے؟ پھر اک نیا سوال۔ میرے سوالات سے تنگ آکر آخر وہ مجھے اس بازار کی ایک جسم فروش سے ملانے پر تیار ہوگئے۔ مغرب کی نماز ہم نے ساتھ پڑھی اور وہ مجھے لے کر وہاں پہنچے جہاں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہم دوسری منزل پر پہنچے، عجیب طرح کی اداسی چھائی ہوئی تھی، گندے سے پردے اور دو چار برتن اور وہ جسم فروش، اس کا نام شائستہ تھا۔ شاید اکبر بھائی اسے میرے متعلق بتا چکے تھے۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔ آم کھاؤ، پیڑ کیوں گنتے ہو۔ کیوں اپنی زندگی عذاب کروگے۔ کھاؤ پیو اور پُھٹّا کھاؤ۔ اس نے بات شروع کی۔ یہ آم کھانے والا نہیں ہے شائستہ! بہت عجیب ہے یہ۔ اکبر بھائی بولے۔ تم کون ہو، کہاں سے آئی ہو، کیوں آئی ہو، خود آئی ہو یا پھر کوئی تمہیں لے آیا ہے؟ میرے سوالات شائستہ کے سامنے تھے۔
ہم بکاؤ مال ہیں، ہم سب کے لیے ہیں، ہم لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہیں۔ وہ بولی۔ ٹھیک ہے یہ بات لیکن تم خود بھی کیا خوش ہو ؟ میرا سوال پھر اس کے سامنے تھا۔ یہ واقعی عجیب ہے اکبر! ہاں یہ بہت مشکل ہے، وہ اکبر سے مخاطب تھی۔ میرے سوال کا جواب دیجیے۔ میں نے اپنا سوال دہرایا۔ میں خوش ہوں یا غمگین اس سے کسی کو کیا لینا دینا، لوگ اپنی خوشی کی خاطر ہمارے پاس آتے ہیں بس اور ہم انھیں خوش کردیتے ہیں۔
یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے شائستہ جی۔ تم مجھے ’’جی‘‘ کہہ رہے ہو؟ اس نے عجیب سا سوال کردیا۔ مجھے میرے بلیوں والے بابا جی نے سکھایا ہے، باادب بانصیب ہوتا ہے اور بے ادب بے نصیب۔ میری یہ بات سن کر وہ زار و قطار رونے لگی، رم جھم گرتے ساون کی طرح۔
کیا ہو تم سلطان؟ پہلے تم مجھے بتاؤ۔ وہ مجھ سے پوچھ بیٹھی۔ اس نے مجھ سے بات کرنے سے صاف انکار کردیا تھا، بس روتی رہی، اور اکبر بھائی مجھے لے کر نیچے اتر آئے۔ مل لیا تُو اس سے۔ اکبر بھائی بولے۔ میں یہ سب کچھ اس سے پوچھ کر رہوں گا اور اس مرتبہ میں اکیلا آؤں گا اس سے ملنے۔ خبردار! جو تُو اکیلا آیا یہاں پر۔ اکبر بھائی نے مجھے ڈانٹ دیا۔ لیکن میں جو ٹھان لوں وہ کرکے رہتا ہوں۔ دوسرے دن میں کام سے اپنے کمرے میں آنے کے بہ جائے اس کے پاس جا پہنچا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ حیران ہوئی۔ تم پھر آگئے؟ ہاں کل آپ سے بات ہی نہیں ہوسکی تھی۔ لیکن آج تو میں مصروف ہوں۔ تم کل اس وقت آنا پھر ہم باتیں کریں گے۔ وعدہ کرو مجھ سے۔ ہاں ہاں وعدہ ۔ کل ہم باتیں کریں گے۔
اور اگر آپ اپنے وقت کے پیسے چاہتی ہو تو وہ بھی میں آپ کو دینے کے لیے تیار ہوں۔ پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے میرے پاس۔ میری اس پیش کش پر وہ مسکرائی۔ کبھی کبھار میں اس کے پاس جاتا اور ہم باتیں کرتے۔ میں کبھی خالی ہاتھ اس کے پاس نہیں گیا۔ میرے پاس وہ قلم اب تک ہے جو اس نے مجھے خرید کردیا تھا۔ شائستہ کو بھی اپنے ماں باپ کا کچھ پتا نہیں تھا۔ بس وہ اتنا جانتی تھی کہ وہ بہت چھوٹی تھی اور گلی میں کھیل رہی تھی کہ ایک شخص نے اسے مٹھائی دی اور پھر وہ یہاں تھی۔ ہمارے سماج میں لڑکیوں کی پیدائش پر لوگ فکر مند ہوجاتے ہیں اور اس بازار میں لڑکیوں کی پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے۔
وہ بہت اچھی رقاصہ تھی۔ جب وہ پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر ناچتی تو عجیب سماں بندھ جاتا۔ وہ بے خود ہوکر ناچنے لگتی۔ اس کی نائیکہ جو ہر وقت پان چباتی رہتی تھی اس کا بہت خیال رکھتی تھی۔ اسے میرا اس سے ملنا جلنا بالکل پسند نہیں تھا، لیکن وہ شائستہ سے مجبور تھی۔ اتنی کماؤ سے وہ کیسے ہاتھ دھو بیٹھتی۔ شائستہ بھی پنج وقتہ نمازی تھی۔
اور اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ بازار بند ہونے کے بعد تہجد بھی پڑھتی ہے۔ مجھے اس کی کوئی بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ تم اﷲ جی سی باتیں کرتی ہو ؟ ایک دن میں نے اس سے پوچھا تھا اور اس کی سسکیاں سنی تھیں۔ پھر ایک دن جب میں اس سے ملنے پہنچا تو وہ نہیں تھی۔ میں نے اس کی نائیکہ سے پوچھا۔ اس نے ناگواری سے مجھے دیکھا اور بولی۔ اب تم یہاں مت آیا کرو، ہم نے اس کی شادی کردی ہے۔ لیکن کب اور کس سے؟ میں نے پوچھا۔ پنجاب کے ایک زمین دار نے اسے پسند کرلیا تھا، ہم نے شادی کردی۔ کیا وہ شادی پر رضامند تھی؟ جاؤ یہاں سے، میرا بھیجا مت کھاؤ، نہ جانے کہاں سے آجاتے ہیں۔ میں نے اس کے کوسنے سنے اور بوجھل قدموں سے نیچے اتر آیا۔ نہ جانے کہاں چلی گئی تھی وہ۔
ایک اور دوست زندگی سے نکل گیا تھا۔ ہم اپنے سوا سب کو بُرا کہتے ہیں۔ ہمیں کسی سے محبت نہیں ہوتی ہم صرف اپنی ذات کے اسیر ہوتے ہیں۔ ہم نظام کائنات کو نہیں سمجھتے۔ ہم اس کے اسَرار کو نہیں سمجھتے۔ اسے وہ سمجھتا ہے جو واقف اسرارِ کائنات ہو اور واقف اسرارِ کائنات وہ ہوتا ہے جو اﷲ جی سے اپنا تعلق قائم کرلے۔ ہر شے اس کی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اضداد پر قائم ہے یہ کائنات، اگر بدی نہ ہو تو نیکی کی پہچان ہی نہ ہو۔ رات نہ ہو دن کی کیا حیثیت، بس نظر کرم ہوجائے تو نیّا پار لگ جاتی ہے ورنہ تو طوفانوں میں گھری رہتی ہے۔
شائستہ جسم فروش نہیں تھی۔ اسے اس ڈھب پر لانے کے لیے سب نے بہت جتن کیے۔ اس نے ہر طرح کے ظلم سہے، اسے کئی کئی دن تک بھوکا رکھا گیا، مارا پیٹا گیا، لیکن وہ نہیں مانی۔ آخر تھک ہار کر اسے گانے بجانے پر لگادیا گیا۔ اس کے چہرے پر رقصاں معصومیت کوئی نہیں چھین سکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں جھلمل کرتے ستارے اس کی پوری داستان سناتے تھے۔ اس کا رکھ رکھاؤ قابل دید تھا۔ پھر یقینا اس کے اچھے دام لگ گئے ہوں گے تو اسے کسی زمین دار سے بیاہ دیا گیا۔ ہم صرف سامنے کی چیز دیکھتے ہیں۔ قریب کی آواز سنتے ہیں۔ ہم دور تک دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ ہم سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے عادی ہیں۔ زندگی اور اس کا اسَرار کیا ہے، ہم نہیں جانتے اور المیہ یہ ہے کہ ہم اسے جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے، ہم آئینے میں اپنی شکل دیکھتے اور بہ جائے اسے سنوارنے کے، دوسروں کو پتھر مارنے لگتے ہیں۔
اکبر بھائی نے مجھے اپنے ساتھ رکھ کر اپنی جان عذاب کرلی تھی۔ میں کئی مرتبہ انھیں کہہ چکا تھا کہ مجھے جانے دیں۔ لیکن وہ نہیں مانتے تھے۔ میں جب بھی ان سے رخصت کی اجازت لینا چاہتا وہ عجیب سی اداسی سے کہتے۔ میں تیرے بغیر اب رہ بھی نہیں سکتا۔ پھر ان کا اصرار بڑھنے لگا کہ میں تعلیم حاصل کروں۔ لیکن پھر میرے بیہودہ سوالات ان کے سامنے ہوتے، کون سی تعلیم اکبر بھائی، یہ کوئی تعلیم ہے کیا جس کی تحصیل کے بعد انسان مزید جاہل، خودغرض اور اس کی زندگی ایک مشین میں ڈھل جاتی ہے اور ایسے ہی ان گنت سوالات، جن کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔
اکبر بھائی نے ایس ایم لاء کالج سے قانون کی ڈگری لے لی تھی اور پھر وہ دن بھی آیا جب وہ مستقل پنجاب جانے کے لیے ٹرین میں سوار تھے۔ اکبر بھائی! آپ تو کہتے تھے کہ آپ میرے بغیر رہ ہی نہیں سکتے اب کیسے رہیں گے؟ اکبر بھائی نے مجھے گلے لگایا ہوا تھا۔ وہ بالکل خاموش تھے۔ بس ان کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ ٹرین نے سیٹی بجائی اور ہم دونوں کو جدا کرگئی۔ دیکھیے وہ منیر نیازی کس وقت یاد آئے، ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا۔
The post جہاں گشت ؛ ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا appeared first on ایکسپریس اردو.