Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

عوامی مفاد کی چارہ جوئی

$
0
0

آغاز سے قبل میں وضاحت کردوں کہ عوامی مفاد کی چارہ جوئی یا  Public interest litigation (PIL) کی صراحت کسی قانون میں نہیں کی گئی ہے مگر درد دل رکھنے والے ججز نے عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے آئین کی بعض شقوں کی تعبیر و تشریح کرتے ہوئے عوامی مفاد کے قانون کو واضح کیا تاکہ عوام کے بنیادی حقوق غصب نہ کیے جاسکیں۔

ہر معاشرے میں مملکت لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کی پابند ہے لیکن ریاستوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجود بدقسمتی سے غریب، ناخواندہ لوگ بنیادی حقوق سے محروم رہتے ہیں غریب مزدور، کسان، نسلی اور گروہی تعصبات کا شکار افراد طبقات کا شکار جانتے ہی نہیں کہ ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ اگر جان بھی لیں تو ان کی معاشی بدحالی، ناخواندگی آڑے آجاتی ہے جو ان کو احساس کم تری میں مبتلا کردیتی ہے۔

طاقت ور، معاشی طور پر خوش حال، وسائل پر قبضے کے خواہش مند، دولت کے بل بوتے پر غریب افراد پر اپنا جبر مسلط کردیتے ہیں بلکہ وسائل اور قانونی پیچیدگی کا فائدہ اٹھا کر معاشرے پر محرومیاں مسلط کردیتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے مختلف ادوار میں آئینی دائرے میں رہتے ہوئے سخت دیرینہ اصولوں کو نرم کرکے غریب اور کچلے ہوئے افراد کو بنیادی حقوق کے حصول کے کسی قدر قابل بنادیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عوامی حقوق کی چارہ جوئی (PIL) اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے مجبوروں کے لیے عطیہ ہے۔ اس معاملے میں ہمارے ججز ہمیشہ سے بہت سخت رہے ہیں۔

(Locus Standi) یعنی کسی کیس کو داخل کرنے کے لیے اس شخص کا حق مداخلت یعنی براہ راست مفاد بنتا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس افضل ظلہ نے کہا کہ ایک طرح سے اس روایتی قانونی نظام نے غریبوں کے لیے عدالتوں کے دروازے بند کردیے ہیں۔ جسٹس اجمل میاں نے کہا، اس کو Inherited evil یعنی وراثت میں ملی ہوئی برائی قرار دیا۔ ہمارا مخالفانہ/معاندانہ (Adversarial) نظام قانون بہت زیادہ خرابی کا سبب بنا ہمیں عوامی حقوق کی چارہ جوئی کے قانون یعنی PIL کے اصول و ضوابط پر بحث سے قبل معاشرہ میں مروج لیگل سسٹم کو دیکھنا ہوگا۔ اس بنیاد پر بہت سے لوگ انصاف کے حصول سے محروم کردیے جاتے ہیں۔

اس بددیانتی کے علاوہ ہمارا پیچیدہ عدالتی نظام Adversarial یعنی مخالفانہ/معاندانہ رویوں پر استوار ہے یعنی غاصب کا ایک وکیل بھی ہوتا ہے جو اپنی ’’پارٹی‘‘ کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے۔ لیکن اس بیچ کہا یہی جا رہا ہوتا ہے کہ ہم انصاف تک کے لیے عدالت کی مدد کر رہے ہیں حالاںکہ ہر وکیل اور جج یہ جانتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ وکیل اپنے دلائل اور ذہانت، بھاری فیس اور اپنی ’’پارٹی‘‘ کے مالی وسائل کی بنیاد پر پورا زور لگا رہے ہیں اور وسائل کی بنیاد پر اپنی پارٹی کے وسائل کی تکمیل کر رہے ہیں۔

یوں دولت کے بے دریغ استعمال، کم زور اور غریب افراد اپنے حق سے محروم ہوجاتے ہیں اور عدالت کبھی کبھی یہ نوٹ لکھ کر بری الذمہ ہوجاتی ہے کہ وکیل نے عدالت کی صحیح معاونت نہیں کی اور اس طرح عدالت اپنے ضمیر کا بوجھ شفٹ کردیتی ہیں۔ مطلب یہ ہے ججز کو قانون پر عبور حاصل ہونا چاہیے مگر لوئر جوڈیشری ابھی تک اعلیٰ عدلیہ کی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں عوامی مفادات کی قانونی چارہ جوئی کی۔ مختلف ادوار میں اعلیٰ عدلیہ نے اس قانون کے ذریعے عوامی مسائل اور بنیادی حقوق کو اس طرح آگے بڑھایا کہ اس کے اس حلف کا بھرم قائم رہے جو آئین کے تحت اٹھایا ہے۔

جس میں انسانی بنیادی حقوق کی پاسبانی اور تحفظ کی پاس داری سے متعلق ہے اس کی راہ میں ایک رکاوٹ جیسا کہ چیف جسٹس افضل ظلہ اور چیف جسٹس اجمل میاں نے کہا کہ فرد کا حق مداخلت Locus Standi کے عمل درآمد پر سختی سے عمل ہے جس کے باعث ایک عام آدمی جو قانون سے ناواقفیت یا ناخواندگی کے باعث حصول انصاف سے محروم رہ جاتا ہے اس قانون کو اس طرح نرم کیا جائے کہ قانون کی شق میں تبدیلی کیے بغیر بنیادی حقوق کی ادائیگی ہوسکے۔ ان کے اٹھائے ہوئے حلف کا بھرم بھی رہ سکے اور کوئی بری نظیر نہ بنے۔

مثال کے طور پر صاف ماحول کی فراہمی ہر فرد کا بنیادی حق ہے جس میں اہم کردار درخت ادا کرتے ہیں۔ اس لیے درختوں کی ناجائز کٹائی پر کوئی بھی فرد شکایت نہیں کرسکتا ہے۔ اس کے لیے عدالت Locus Standi کے باعث مداخلت سے گریز نہیں کرے گی بلکہ کسی اخبار میں چھپنے والی خبر پر بھی فوری نوٹس لے گی۔ اس جرم کے ذمے دار ملزمان اور متعلقہ اداروں کو اعلیٰ عدلیہ طلب کرلے گی کیوںکہ صاف ہوا لوگوں کا بنیادی حق ہے۔ آئین کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا حلف پابند کرتا ہے کہ وہ صاف پانی کی فراہمی، عوامی پارکوں یا ان کی جگہوں پر مافیا کے قبضے کم زوروں پر بالادست طبقات کے جبر کی حوصلہ شکنی اسپتالوں میں بہترین علاج کی ضمانت فراہم کرے۔ امریکا میں ایک نفسیاتی اسپتال میں تو امریکی اعلیٰ عدلیہ نے بورڈ آف ڈائریکٹرز تبدیل کردیا اور ان کے اونر تبدیل کروادیے تھے۔

ہم نے ابھی صاف پانی کی بات کی تھی۔ غریبوں کی بستی میں بہنے والی ندی میں اگر کیمیکل زدہ کارخانے کا پانی مل کر پانی کو خراب کر رہا ہو، لوگوں کی جان کو بدترین خطرات اور بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ ہو تو وہاں کوئی بھی شخص Spirited(Locus Standi حق مداخلت کو نظرانداز کرکے) عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔

اسی لیے اعلیٰ عدلیہ نے کہا کہ قانون کی زبان میں یعنی اس کی تعبیر و تشریح میں اس بات کی اجازت موجود ہے۔ ہائی کورٹس 199(1)(C) کے تحت عوامی مفاد کے لیے Suo Moto ایکشن لے سکتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ آئین کی شق 184(3) کی تعبیر و تشریح رسمی نہیں ہونی چاہیے بلکہ بامقصد ہونی چاہیے جو کہ آئین کی روح ہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ آئین میں آرٹیکل 2-A میں بنیادی حقوق اور حکمت عملی کے اصول موجود ہیں جو مملکت کی پالیسی سے متعلق ہیں، تاکہ جمہوریت کو آگے بڑھایا جاسکے، ملک کی اکثریت مطمئن رہے اور اس کو بھی وہ حقوق مل سکیں جس کے بغیر ملک کی ترقی ناممکن ہے ۔

اس سلسلے میں عوامی مفادعامہ کا پہلا کیس بے نظیر بھٹو کا ہے۔ PLD 1988SC 416 ان کی والدہ نصرت بھٹو مرحومہ کا پہلا کیس ہے۔ بہرحال قانون کے دانش ور بے نظیر بھٹو کا کیس عوامی مفاد عامہ کا پہلا کیس قرار دیتے ہیں۔ اس میں ایوب خان کے پولیٹیکل پارٹنر ایکٹ 1962 کی شق کو چیلینج کیا گیا کہ یہ شق آئین 1973 کی شق 17(2) سے متصادم ہے۔ آئین 1973 کی شق 17(2) کے مطابق ہر شہری کو اجازت ہے کہ کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہو یا سیاسی جماعت خود بنائے (اگر لازمی سروس کا حصہ نہ ہو) مگر 1962 کا آئین لوکل پارٹیز ایکٹ اس پر قدغن عائد کرتا ہے جو انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اس کیس میں پہلا سوال یہ اٹھا کہ بے نظیر بھٹو کو اس کیس میں حق مداخلت Locus Standi حاصل نہیں ہے، وہ یہ کیس داخل نہیں کرسکتیں۔ یہ پٹیشن قابل سماعت نہیں ہے۔ یہ انتہائی اہم کیس تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے 11 ججز کو ایک تاریخی فیصلہ کرنا تھا۔ ان کے ذہن میں موجود تھا کہ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 25 اور 17(2) کی موجودگی میں ایوب خان کی 1962 کے آئین میں ترمیم (Act XXII of 1985) کو کالعدم قرار دینے کی درخواست وزن رکھتی تھی۔ دوسرا بنیادی حقوق کا مسئلہ تھا جو آئین میں موجود ہے کہ فرد سیاسی جماعت بھی بناسکتا ہے۔ سیاسی پارٹی کا ممبر بھی ہوسکتا ہے، اس بات سے انکار ناممکن ہے۔

ہمارا آئین اور سسٹم ہمیشہ طالع آزماؤں کے ہاتھوں ڈی ریل ہوتا رہا ہے اور ہماری عدلیہ شدید دباؤ سے گزری ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا Adversarial نظام قانون ہے، جس کے بارے میں جسٹس علیم نے خود کہا کہ یہ معاندانہ/مخالفانہ بنیادوں پر استوار ہے۔ بقول چیف جسٹس اجمل میاں Inherited Evel ہمیں وراثت میں برائی ملی ہے۔

اس کے علاوہ انڈیا کی سپریم کورٹ کی ایک رولنگ موجود تھی، بندھو مکتی مورجہ بخالف یونین آف انڈیا AIR 1984 SC 802 میں اس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، جس میں اس پٹیشن کو قابل سماعت قرار دے کر منظور کرلیا گیا۔ لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ نصرت بھٹو صاحبہ کا کیس پہلا کیس تھا، (PIL) مفادعامہ کا، جس میں بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو صاحب کی گرفتاری کے خلاف آئین کے آرٹیکل 184(3) میں پٹیشن دائر کی۔ یہاں سوال نہیں اٹھا کہ بیگم نصرت بھٹو (Aggrieved Person) متاثرہ شخص نہیں ہیں، اس لیے انھیں اس پٹیشن کو داخل کرنے کا حق نہیں ہے۔ پرانے ججز پروسیجر کے معاملات میں سخت رویہ رکھتے تھے مگر یہاں ججز نے وہ راستہ اختیار کیا جس میں فرد کو حق بھی مل جائے اور قانون کو توڑے بغیر وہ حقوق عطا کردیے جائیں جو آئین میں عطا کیے گئے ہیں۔ آئین پاکستان 1973 کے تحت عدالت کے سامنے آئین کی شق 184(3) موجود تھی جس میں بڑی وضاحت سے کہا گیا ہے کہ

Supreme Court Shall, if it considers that a question of public importance with reference to the enforcement of any of fundamenetal rights involved, have the power to make an order of the nature mantioned in the said article.

آرٹیکل 184(3) کی زبان کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ نے بیگم نصرت بھٹو کے حق (Locus Standi) بحیثیت بیوی تسلیم کرتے ہوئے اس کیس میں حق مداخلت عطا کیا۔ گویا عدالتی فعالیت Judicial Activisim اور عوامی مفاد کی چارہ جوئی Public (PIL Interest litigation کا آغاز 1977 سے پاکستان میں ہوگیا تھا۔ بدقسمتی سے بار بار جمہوری پروسیس کے ڈی ریل ہونے کے باعث قانونی نظام میں اکثر خامیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ اگر جمہوری سسٹم ڈی ریل نہ ہوا تو جلد ہم اپنی قانونی کمیوں اور خامیوں پر قابو پالیں گے۔ ہمیشہ پرانے قوانین کے بطن سے نئے قوانین جنم لیتے ہیں۔ اس بنیاد پر ترقی یافتہ ملکوں میں لوگوں کے تعلیم یافتہ ہونے کی بنیاد نے دوسری ترقی کے علاوہ قانون کے پروسیس سسٹم نے تیزی سے ترقی کی ہے اور انھوں نے اپنے معاشرے میں ’’انصاف‘‘ کو رواج دیا۔ اعلیٰ عدلیہ نے ہیومن رائٹس اور بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف مذہبی اقلیتوں اور خواتین پر مظالم کے حل کے لیے PIL عوامی حقوق کی چارہ جوئی کو چنا اور اس کے لیے کوشش کرتی رہی۔

مثلاً چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ایک ٹیلی گرام موصول ہوتا ہے کہ ہم بھٹہ مزدور ہیں، غلام بنالیے گئے ہیں جبری مشقت ہم پر مسلط کردی گئی، ہم اور ہمارے بیوی بچے رسیوں اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے ہم چند بھاگ گئے ہیں اور جنگلوں بیابانوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ بھٹے کے مالک کے ایجنٹ اس کے غنڈے ہمیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ہم بھوکے پیاسے چھپتے پھر رہے ہیں۔ ہماری مدد کی جائے تاکہ جان اور عزت آبرو بچ سکے۔

اس کے علاوہ ہمارے ساتھی جو ابھی تک قید میں ہیں ان کو نجات دلائی جائے۔ عدالت نے اس ٹیلی گراف کو پٹیشن میں تبدیل کرکے 184(3) میں کارروائی کی اور ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو ممکن بنایا۔ اسی طرح شہلا رضا کیس میں PLD 1994 SC 690 اس بات کو بنیاد بنایا کہ گرڈز اسٹیشن کی ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن کے باعث لوگوں کی صحت اور زندگی کو شدید خطرات میں ڈال دیا گیا ہے اور لوگوں کی صحت اور زندگی کو خطرہ انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے اس خط کو آئین کی شق 184(3) کے تحت قابل سماعت قرار دیتے ہوئے۔

اس کو عوامی حقوق Public Interest Litigation کا کیس قرار دیتے ہوئے کارروائی کی۔ ہماری ہائی کورٹس بھی اپنے کردار کی ادائیگی سے غافل نہیں رہیں جب ایک اخبار میں خبر چھپی کہ مٹی کے تیل کے چولہے پھٹنے کے کئی واقعات ہوچکے ہیں، دو عورتیں مرچکی ہیں اور کئی زخمی حالت میں اسپتال میں موجود ہیں تو ہائی کورٹ لاہور نے اس پر سوموٹو ایکشن لیا (PLD 1991 Lahore 224) اور ذمے دار اداروں پولیس، محکمہ صحت، اسٹور مینوفیکچرز ایسوسی ایشن طلب کرکے حکم دیا کہ کوئی اسٹور آیندہ غیررجسٹرڈ کمپنی کا مارکیٹ میں نہ بیچے اور آیندہ تمام ادارے ذمے دار ہوں گے۔

اسی طرح لاہور کے ایک روزنامے میں فروری 1991 میں خبر شایع ہوئی کہ پنجاب کی مختلف جیلوں میں کم عمر بچے مختلف کیسوں کے تحت قید ہیں اور جیلوں میں انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال کا شکار ہیں۔ یہ مجرموں کے رحم و کرم پر ہیں اور ان کے ساتھ غیرفطری سلوک کیا جاتا ہے۔ انکار پر یہ بدترین تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی کم زوریوں مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ لاہور کیمپ جیل کی رپورٹ اس کا بین ثبوت ہے۔ اس خبر کا چیف جسٹس ہائیکورٹ نے فوری سوموٹو ایکشن لیا۔ بھاولپور پولیس کا یہ ’’کارنامہ‘‘ اخبار میں چھپنے پر کہ 7 سالہ بچے کو پولیس نے گرفتار کرکے دفعہ 109/55 کے تحت جیل بھیج دیا ہے، ہائی کورٹ نے سوموٹو ایکشن لے کر سیکشن 82 PPC کے تحت بچے کو رہائی دلوائی اور پولیس اسسٹنٹ کمشنر سے جواب طلبی کی کہ 7 سالہ بچے کو کس طرح مجرم بتایا اور جیل بھجوادیا۔

(CRP/M/1759-M.89 خادم حسین بخلاف بروسٹل جیل بھاولپور) اسی طرح لیاقت نیشنل اسپتال کراچی میں اس کے ایسوسی ایٹس کے درمیان اختلاف عدالت جا پہنچا۔ PLD 2002 Karachi 359 لیاقت نیشنل اسپتال کی ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ شکایت کنندگان کا کوئی Locus Standi نہیں بنتا لیکن عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت کسی Locus Standiکی ضرورت نہیں ہے اور عوامی مفاد کی چارہ جوئی Adversarial طریقہ قانون کا محتاج نہیں ہے یہ ایک عوامی مفاد کا کیس ہے۔

آئین کے آرٹیکل 184(3) کی زبان (Language) سادہ زبان ہے جو سپریم کورٹ کو بنیادی حقوق کے نفاذ کا اختیار دیتا ہے۔ مسائل کو حل کرنے میں لوگوں کے مسائل اور مشکلات دور کرنے میں سندھ ہائی کورٹ نے بھی اپنا مکمل کردار ادا کیا۔ جولائی 1989 میں کراچی جیل میں بچوں کو ناگفتہ بہ حالت میں دیکھا گیا جن کی عمریں 14 سال سے کم تھیں جنھیں آوارہ گردی کا الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس پر سوموٹو ایکشن لیا اور CRP/MISE 190/H-1991 کے تحت بچوں کو Release کردیا گیا۔

انڈیا میں عوامی مفاد کے کیسز اور قانونی چارہ جوئی سے قبل ہم Public Interest Litigation کی ابتدا اس کی فلاسفی، اس کے نفاذ کا عمل، حق مداخلت Locus Standi مروجہ نظام عدل کا متبادل عوامی مفاد کا قانونی PIL حقوق انسانی اور بنیادی انسانی حقوق اور عوامی مفاد کی چارہ جوئی قیدیوں کے حقوق، جیلوں کی حالت زار، ماحولیاتی آلودگی اور PIL، لیبر اور PILپر تفصیلی بحث کرچکے ہیں مگر یہ کہنا بڑی زیادتی ہوگی کہ انڈیا کی عدلیہ نے واقعی اپنے غریبوں کے حقوق کے مفادات کی حفاظت کے لیے جس طرح جدوجہد کی ہے اس کی مثال ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں ہم کسونندا بھارتی کیس کی مثال دے سکتے ہیں جس میں آئین کے بنیادی اسٹرکچر اور بنیادی حقوق کو تبدیل یا اس میں رد و بدل نہیں کیا جاسکتا اور پارلیمنٹ بھی بنیادی حقوق میں تبدیلی نہیں کرسکتی نہ اسٹرکچر تبدیل ہوسکتا ہے۔

بھارت میں بھی امریکا اور پاکستان کی طرح عوامی مفاد PIL کے کیس ریاست/گورنمنٹ کے خلاف داخل یا ان کے اداروں کے خلاف داخل کیا جاسکتا ہے۔ مفادعامہ کی چارہ جوئی مختلف طبقات، نسل، سماج میں تفریق اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم مختلف طبقات کے درمیان انصاف کے فروغ کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ ہم معاشی معاشرتی استحصال کو روکنے کے لیے استعمال کرکے معاشی ترقی اور معاشرے میں استحصال کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔

انڈیا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھگوتی نے مفاد عامہ کی چارہ جوئی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عوامی مفاد عامہ Public Interest Litigation لوگوں کے مسائل کے حل کی ذمے داری لیتا ہے اور اجتماعی سوشل مفادات کی نہ صرف حفاظت کرتا ہے بلکہ اس کے نفاذ میں ممد و معاون بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس میں وکلا کی پروفیشنل تنظیمیں، معاشرتی فلاحی ادارے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بھارت کی اعلیٰ عدلیہ نے اپنے فیصلوں میں کہا کہ عوامی مفاد عامہ کا قانون ایک انتہائی اہم اختیار ہے اور اعلیٰ عدالتیں اس حق کو استعمال کرسکتی ہیں۔ اہم مثبت تبدیلیوں کے لیے حکم جاری کرسکتی ہیں جو پسماندہ فرد/افراد، طبقات کے لیے انتہائی اہم ہیں، جو ماحولیات، جنگلات، جنگلی حیات زندگی کو آسان بنانے کے لیے اہم ہیں۔

اعلیٰ عدلیہ کے ججز جانتے ہیں کہ ملک کی بڑی آبادی غریبوں اور پس ماندہ لوگوں پر مشتمل ہے وہ اپنی ناخواندگی اور قانون سے ناواقفیت کی وجہ سے مسائل مصائب کا شکار ہیں اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جہاں بھی ناانصافی ہو، سائل یا سائیلین اس قابل نہ ہوں کہ دادرسی کے لیے رجوع کرسکیں تو ان کی دادرسی کی جائے، اخباری اطلاع پر ہو یا کوئی اس پر سیٹڈ پرسن کھڑا ہوجائے اسی لیے اعلیٰ عدلیہ نے بندومکتی مورجہ بخلاف یونین آف انڈیا کیس میں غیررجسٹرڈ ایسوسی ایشن کو کیس میں پیش رفت کی اجازت دے دی۔

آرگنائزیشن نے کہا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں اور ان کے ڈسٹرکٹ میں مزدوروں سے جبری مشقت لی جا رہی ہے اور ان پر غلامی مسلط کردی گئی ہے، جن میں وہ مزدور بھی شامل ہیں جو پتھر توڑتے ہیں۔ ان کے بنیادی حقوق کا احترام نہیں کیا جا رہا ہے ضرورت ہے کہ ان کو سوشل ویلفیئر کے زمرے میں لایا جائے اور جبری مشقت سے نجات دلائی جائے ان کو روزگار کی بہتری کے لیے مائینز ایکٹ میں لایا جائے، غلامی اور جبری مشقت کا خاتمہ کیا جائے۔ ان ویجز کے نظام کو بہتر کیا جائے۔ اس درخواست کو مفاد عامہ کے قانون کے تحت منظور کرلیا گیا، اس اعتراض کے باوجود کہ آرٹیکل 32 کے تحت یہ درخواست ناقابل سماعت اور مسترد کردی جائے۔ سپریم کورٹ نے ہیومن رائٹس اور انسانی بنیادی حقوق کو مقدم جان کر پٹیشن کو منظور کرلیا کیوںکہ عوامی مفاد کی چارہ جوئی Public Interest Litigation (PIL) انصاف کی راہ میں رکاوٹیں دور کرکے شہری حقوق کو آگے بڑھاتے ہیں۔

ریاست مدراس کے ایک کیس میں AIR (37) 1950 SC 27 (گوپلان بخلاف ریاست مدراس) کیس میں تفصیلی آئینی بنیادی حقوق پر بحث کی پھر دمودر رائے کیس AIR 1987 AP 171 کیس کے فیصلے میں لکھا کہ بہتر ماحول اصل ہے، اس میں رخنہ اندازی قابل دست اندازی اور بنیادی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے کیوںکہ اس سے انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ ہوا یہ کہ ایک پلاٹ پر جو گرین لینڈ کے لیے مختص تھا ایک بہت بڑے بلڈر نے قبضہ کرلیا۔

ایک شخص نے شکایت کی حالاںکہ اس کا براہ راست کوئی مفاد یعنی Locus Standi نہ تھا مگر عدالت نے کہا اگر اس کو شکایت کرنے کا حق نہیں تو بلڈر کو گرین لینڈ کے لیے مختص پلاٹ پر قبضے کا حق بھی نہیں ہے۔ عدالت عالیہ نے اس کیس کی شنوائی کی اور قبضہ کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وسیع تر مفاد میں ماحول کی حفاظت عوام کا حق ہے اور اس کی حفاظت کی ذمے داری مملکت پر عائد ہوتی ہے۔ ایک کیس میں جو حُسن آرا کے نام سے موسوم ہے، اس نے کہا کہ ملزم کو بغیر کیس چلائے غیرمعینہ مدت کے لیے جیل میں نہیں رکھ سکتے۔ اس بنیاد پر 40,000 قیدیوں کی رہائی مختلف ریاستی جیلوں میں عمل میں آئی اور وہ ضمانت کے مستحق قرار پائے۔

امریکی مفاد عامہ کی چارہ جوئی دراصل تاریخی طور پر ابتدا ہے Public Interest Litigation۔ امریکا نے سماجی اقتصادی حقوق کے لیے اپنے پس ماندہ ناتواں لوگوں کو بڑھاوا دیا۔

قانون عوامی مفاد عامہ کم زوروں کو انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ہے مروجہ ملکی اور شہری قوانین سے وہ مقاصد حاصل کرلیے ہیں جو پرانے مروجہ نظام قانون میں اقلیتی گروپوں کے لیے حاصل کرنا ممکن نہیں، جو معاشی کم زوری، ناخواندگی اور دیگر معذوری کے باعث ناممکن تھا۔ اور سول سوسائٹی اس قابل ہوسکی کہ لوگوں کو بنیادی حقوق کی آگہی دے کر انھیں اس کے حصول کے قابل بناسکے یہ PIL مفاد عامہ کا قانون ہی ہے جس کے باعث حکومت کو بھی جواب دہ ہونا پڑا ہے۔ اصل میں اس قانون کا مقصد ہی یہ ہے کہ غریبوں ناداروں، کم زوروں اور ذہنی معذوروں، اقلیتوں کو بنیادی حقوق کی رسائی تک مدد فراہم کی جائے۔

امریکی لیگل سسٹم بہت پرانا نہیں ہے۔ اس کی ابتدا تقریباً 60 سال قبل اس وقت ہوئی جب امریکی معاشرہ انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ معاشرے میں ابتری کے باعث نئے نئے مسائل جنم لے رہے تھے۔ صنعتی ترقی کی وجہ سے نئے معاشی رشتے استوار ہو رہے تھے۔ معاشرہ ایک کشمکش کا شکار تھا، پیداواری رشتے تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے جن کی وجہ سے تعلیم، ٹرانسپورٹ اور رہائش کے حوالے سے بے اطمینانی بڑھتی جا رہی تھی تو امریکی کانگریس خود شہریوں کے مسائل کے لیے فکرمند ہوئی، تعلیم سب کے لیے اور صاف پانی کی فراہمی کا بل پاس کردیا اور آلودگی سے پاک ماحول کی فراہمی ریاست کی اہم ذمے داری قرار دے دی۔

امریکی اعلیٰ عدلیہ عوامی مفاد کے مسئلے میں اس حد تک آگے چلی گئی کہ اس نے ذہنی امراض کے اسپتال کے نظام میں مداخلت کی اور اس کی انتظامیہ میں تبدیلیاں کروائیں۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تبدیل کروایا، ان کے قوانین کو درست کروایا اور ذہنی امراض کے مریضوں کا علاج ان کی دیکھ بھال کو بنیادی حق قرار دے دیا، کیوںکہ ذہنی امراض کے مریضوں کو حق ہے کہ بہتر ہوکر معاشرے میں اپنا کردار ادا کرسکیں اور ریاستی سطح پر اس بات کی منصوبہ بندی کی جائے کہ کوئی شہری علاج سے محروم نہ رہے۔ اس کے علاوہ ذہنی مریض چوںکہ خود عدالت سے رجوع نہیں کرسکتے اس لیے ان کے کیسز کو مفاد عامہ کے کیسز میں لایا جائے۔

مفاد عامہ PIL کے ایک کیس Hoft V. Sarver میں عدالت نے ایک درخواست پر ارکنساس جیل میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا اور ایک State Correction Board تشکیل دیا جس کے سپرد کیا گیا کہ وہ راہ نما اصول تجویز کرے اس طرح اصول وضع کیے گئے۔ انتظامی افسران مقرر کیے گئے تاکہ قیدیوں کو جیل حکام کے ناروا سلوک سے بچایا جاسکے۔ عدالت نے Little Rock Bar لٹل راک بار کو ہدایت کی کہ Pro bono وکیل (جو بلامعاوضہ یا حکم معاوضہ پر کام کریں) مقرر کیے جائیں۔ اس سے قبل یہ کہنا ضروری ہے کہ جسٹس انیل اسمتھ نے تمام جیل کے سسٹم کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

1963 میں سپریم کورٹ نے ریاست کے قیدیوں کو حق عطا کردیا کہ وہ جیل میں کسی بھی سلوک کے بارے میں عدالت میں درخواست دے کر انصاف طلب کرسکتے ہیں۔

ایک بہت اہم کیس Whitney V. California میں ایک عورت کو اس الزام میں گرفتار کرلیا گیا کہ وہ حکومت کے خلاف لیبر کمیونسٹ پارٹی کی مدد کر رہی ہے مگر جسٹس برانڈیز اور ہولمس نے Clear & Present Danger یعنی واضح اور موجود خطرے کے قانون کی تعریف تبدیل کردی اور کہا کہ حادثے کے ظہور پذیر ہونے کا ڈر یا خوف اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آزادی رائے کے لیے جمع ہونے والے لوگوں کا حق چھین لیا جائے اور اسی رواج اور روایت کو جرم قرار دے دیا کہ کسی عورت کو چڑیل قرار دے کر جلا دیا جائے، بلاوجہ ڈر اور خوف کے باعث کسی کو گرفتار کرلینا قتل کردینا جلا دینا ناقابل معافی جرم ہے ڈر کے باعث آزادی رائے یا زندہ رہنے کا حق چھینا یا سلب نہیں کیا جاسکتا۔

The post عوامی مفاد کی چارہ جوئی appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>