گاؤں کے نوجوان نے اپنے گا ؤں سے کوئی بیس کلو میٹر دور دوسری برادری کے گاؤں میں کسی دوشیزہ سے عشق فرما لیا اور پھر عشق اور مشک تو چھپائے نہیں چھپتے، دونوں گاؤں میں چرچے ہونے لگے، لڑکی والوں کے ہاں جا کر رشتہ مانگنے اور ان کو قائل کرنے کے بارے میں غورکیا جانے لگا۔
بزرگوں نے سمجھایا کہ ایسے نہیں ہوتا کچھ انتظار کروکسی غیر جانبدار سمجھدار بزرگ کو ثالث مقرر کر کے قاعد ے اور روایات کے مطابق ان سے لڑکی کا رشتہ مانگتے ہیں۔ مگر گاؤں کے سب جوان ایک جانب تھے اور اپنے طور پر ہی لڑکی کے گاؤں والوں سے رابط کرکے طے کر لیا کہ ہم اس لڑکے کی شادی آپ کے گاؤں کی لڑکی سے کرنا چاہتے ہیں۔
لڑکی کے گاؤں والوں نے نوجوانوں کو سبق سکھانے کے لیے کہا کہ ٹھیک ہے تاریخ طے کر لیتے ہیں مگر دو شرائط ہیں، پہلی شرط یہ کہ بارات میں تما م جوان آئیں گے کوئی بوڑھا شامل نہیں ہو گا اور دوسری شرط شادی یعنی نکاح کے وقت پوری کرنی ہو گی۔ نوجوان مان گئے، سب بہت خوش تھے، خیر مقررہ تاریخ پر بارات شادی کے لیے جانے کو تیار ہونے لگی تو ایک بزرگ آیا اور بولا تم نوجوانوں کا وہاں بغیر کسی بزرگ کے جانا مناسب نہیں، مجھے کسی طرح چھپا کر ہی لے جاؤ۔ پہلے تو نوجوان مانے نہیں مگر جب کہا کہ چھپا کر لے جاؤ تو مان گئے اور ایک بڑے ٹرنک میں بزرگ کو چھپا کر لے گئے۔ بارات شام کو پہنچی تو گاؤں والوں نے با رات کا استقبال کیا اور کہا کہ کل دوپہر کو شادی ہو گی لیکن شرط یہ کہ بارات میں شامل ہر فرد کو اکیلے اکیلے ایک ایک بکرا کھانا ہو گا۔ یہ سنتے ہی نوجوانوں کے ہوش اڑ گئے۔
ایک نو جوان نے بمشکل کہا کہ آپ ہمیں آپس میں مشورے کے لیے کچھ وقت دیں انہوں آدھے گھنٹے کا وقت دے دیا۔ نوجوان واپس آئے اور بڑے ٹرنک کے پاس آکر چھپے ہوئے بزرگ کو لڑکی والوں کی شرط بتائی تو بوڑھے نے کہاکہ ان سے کہو کہ ایک ایک بکرا کھانے کی شرط ہم قبول کرتے ہیں مگر ہماری شرط یہ ہے کہ ہم جتنے ہیں، یعنی ہماری جتنی تعداد ہے اتنے بکرے ہوں ہم سب ایک دسترخوان پر ہوں گے آپ ایک بکرا لائیں ہم سب مل کراسے ختم کرلیں تو دوسرا بکرا لے آئیں اس طرح جتنے ہم ہیں اتنے بکر ے کھا لیں گئے۔ اس پر لڑکی والوںکی جانب سے سب سے بوڑھے بزرگ نے کہا، وہ بوڑھا شخص کہاں ہے جسے تم ساتھ لائے ہو، اور مسکراتے ہوئے یہ شرط عائد کی کہ جب وہ بزرگ لے آؤ گے تو پھر نکاح اور رخصتی ہو گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔
اس حکایت کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بوڑھے افراد کے پاس تجر بہ ہوتا ہے جو بعد میں فکر وفراست کی کسوٹی پر بھی پرکھا گیا ہوتا ہے۔ اسکول کے زمانے میں ہمارے ایک اسپورٹس ٹیچر تھے جو اپنی جوانی میں ہاکی کے اچھے کھلاڑی بھی رہ چکے تھے یہ وہ دور تھا جب پاکستا ن کے پا س اولمپک، ورلڈ کپ،ایشا کپ،اذلان شاہ کپ اور چیمپین ٹرافی تمام کے تمام اعزازات تھے اس لیے ہمارے سنڈیمن ہائی اسکول کوئٹہ کی ہاکی کی ٹیم کا معیار بھی بہت بلند تھا اور اس ٹیم سے ہمارا ایک ساتھی شفیق اسکول سے فارغ ہونے کے بعد قومی ہاکی ٹیم میں شامل ہوکر اولمپک میں کھیلا بھی تھا۔
یوں یہ اسپورٹس ٹیچر واقعی کمال کے آدمی تھے وہ جب بحیثت کوچ ہمیں ہاکی کھیلنا سکھاتے تھے تو اکثر یہ کہتے تھے ایسا مت کھیلو جیسا میں کھیلتا ہوں، بلکہ ایسا کھیلو جیسا کہ میں بتاتا ہوں یعنی یہاں یہ کہنا ہے کہ معمر افراد جسمانی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں مگر ان کے پاس نوجوانوں کو سکھانے اور بتانے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے، اس سے اہل مغرب بہت استفادہ کر رہے ہیں، امریکہ میں معروف شخصیت ہنر ی کسنجر 1969 سے1977تک نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور پھر امریکہ کے وزیر خا رجہ رہے، 1923 میں پیدا ہوئے اور اس وقت 95 سال کے ہیں مگر امریکی تھنک ٹینک کے اہم ترین رکن ہیں۔
اس کے مقابلے میں ہمار ے سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان جو بحیثیت لیفٹیننٹ جنرل، جنرل ٹکا خان سے پہلے مشرقی پاکستان میں کمانڈ کے انچارچ تھے اور مسئلے کا سیاسی حل چاہتے تھے، فوجی ملازمت کے بعد طویل عرصے تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے، اس کے بعد 1982سے 1997 تک مختلف حکومتوں میں مجموعی طور پر 9 سال وزیرِ خارجہ رہے، 24 فروری1997 کو سابق وزیر اعظم نوازشریف نے گوہر ایوب کو وزیر خارجہ بنا کر ان کو عہدے سے فارغ کردیا، اس کے بعد وہ سولہ سال مزید زندہ رہے اور دو برس قبل 92 برس کی عمر میں انتقا ل کر گئے اور تعریف کی بات یہ ہے۔
1998 سے 2016 تک ہم امور خارجہ کے اعتبار سے دنیا میں ناکام ہو تے رہے مگر مرتے دم تک صاحب زادہ یعقوب خان کی قابلیت اور تجر بے سے ا ستفادہ نہیں کیا۔ اسی طرح سابق صدر غلام اسحاق خان جو حکومتی امور کا خاصا تجربہ رکھتے تھے ان کو صدارت کے عہدے سے فارغ کیا گیا تو مرتے دم تک اس معمر اور تجربہ کار شخصیت سے بھی استفادہ نہیں کیا گیا، امریکہ کے سابق صدور میں جمی کارٹر اور جارج ایچ ڈبلیو بش جن کو بش سینئر بھی کہا جا تا ہے ان دونو ں کی عمریں 92 ۔ 92 سال سے زیادہ ہیںاور امریکہ میں حکو مت کوئی بھی ہو ضرورت کے وقت ان کے مشوروں سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
ہمارے ہاں تقسیم سے قبل پطرس بخاری کے استاد اور نوبل انعام یا فتہ ناول نگار پروفیسر ای ایم فاسٹر جن کا مشہور ناول A Passage To India جو 1920 میں ہند وستان کی تحریک آزادی جس میں ان کے نظریات دوستی ذاتی تعلقات جمہوریت سے محبت اور آمریت کے خلاف جدوجہد اور انسان سے محبت دکھائی دیتے ہیں۔ ای ایم فاسٹر 1879 میں پیدا ہوئے اور91 سال کی عمر میں1970 میں فوت ہوئے، وہ جب آزادی کے بعد واپس لندن چلے گئے تو وہ کافی بو ڑھے ہو چکے تھے مگر ان کی علمی ادبی اہمیت کے پیش نظر کیمبرج یو نیورسٹی نے ان کو تاحیات بطور پروفیسر رکھ لیا تھا۔
یونیورسٹی نے ایک اچھا دفتر مہیا کیا تھا اور یہاں ان کا کام یہ تھا کہ جب کوئی دانشور ادیب ان سے ملنے آئے تو وہ ان سے ملاقات کریں، بات چیت کریں۔ ذرا تصور کریں کہ ان کے ہاں فکر و دانش کی ترقی کا کتنا ادارک ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر دو دانشور، مفکر آپس میں گفتگو کریں گے تو اس سے فکر اور دانش کا کتنا ارتقا ہوگا۔ یہ تو امریکہ اور یورپ میں سرکاری سطح پر ان اہم ترین شخصیات کا حال رہا، ہمارے ہاں پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی جو آزادی کے بعد سائنسی تحقیق میں اپنی علمی جدوجہد کی وجہ سے نمایاں ہوئے اور لیبارٹری بنائی ان کی حکیم سعید مرحوم سے گہر ی دوستی تھی اور ان دونوں نے کیمسٹری کے شعبے میں ادویات سازی میں بہت کام بھی کیا۔
سلیم الزمان صدیقی نے ایک دوا اجملین، حکیم اجمل کے نام پر بنائی ہے۔ ان دونوں حضرات کو اللہ تعالیٰ نے مال بھی دیا تھا اور دل بھی، اور ان دونوں نے عمریں بھی اچھی پائی تھیں اور اس عمر کو اللہ کے بندوں کی خدمت میں صرف بھی کیا۔ حکیم سعید کو تو اسی پاداش میں قاتلوں نے شہید کر دیا تھا۔ ان دونوں شخصیات نے ادیبوں اور سائنسدانوں کا ایک گرہ سا بنا لیا تھا۔ بد قسمتی کہ ان کے بعد ایسی شخصیات پیدا نہ ہو سکیں جو دانشوروں کی کفالت کرکے انھیں معاشی پریشانیوں سے آزاد کر کے معاشرے کی اجتماعی خد مت کے لیے اکھٹا کر سکیں۔ اس رجحان میں بھی 1980 کی دہائی سے انحطاط شروع ہوا اور پھر تیز رفتاری اختیار کرتا چلا گیا۔
سائنسی اور سماجی دونوں شعبوں کی ریسرچ اور علمی ترقی وترویج کی اہمت کو سرکاری اور غیرسرکاری دونوں شعبوں میں نظر اندز کر دیا گیا۔ اس میں ایک بڑی وجہ ارباب اقتدار کی عدم دلچسپی اور افسر شاہی کی جانب سے بے جا مداخلت رہی، یعنی جو منتخب حکومتیں تشکیل پاتی رہیں ان میں سائنسی اور سماجی تحقیق تو دور کی بات رہی ان شعبوں کا علم رکھنے والے بھی بہت ہی کم رہ گئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی جس میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کے گرد محققین اور دانشور وں کا گھیرا رہتا تھا۔ آج اس جماعت میں اعتزاز احسن جیسا دانشور ایک آدھ ہی رہ گیا ہے۔ یونیورسٹیوں میں جہاں محققین اور دانشوروں کی محفلیں فکری اور تحقیقی موضوعات پر ہوتی تھیں وہاں اب ملازمت کے حوالے سے ذاتی مفادات کے لیے گروہ بندیاں ہیں۔ وائس چانسلرز سیاسی وابستگیوں، اقربا پروری کی بنیادوں پر تعینات ہوتے رہے اور اپنی مدت کے دوران درپردہ پارٹی کے لیے کا م کرتے رہے اس کے اثرات ان یونیورسٹوں کے تمام شعبوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ بعض اوقات خانہ پُری کے لیے سیمیناروں کا انعقاد بھی کر دیا جاتا ہے مگر ان سیمیناروں میں پیش کئے گئے مقالات کا جو معیار ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اب بھی ہمارے ہاں یونیورسٹیوں میں عالمی سطح کے محقیقین اور دانشور موجود ہیں مگر ان کی تعداد تناسب کے اعتبار سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ دیانتداری کے ساتھ علم اور تحقیق رکھنے والوں کی اکثریت بددل ہوکر مغربی ملکوں میں منتقل ہونے لگی جہاں ان لوگوں کی عزت بھی ہے اور قدر بھی۔ جہاں تک سرکار کا تعلق ہے یہاں بد قسمتی سے تحقیق اور علم سے متعلق بھی جو شعبے ہیں ان میں بھی عموماً ڈی ایم جی گروپ کے بیوروکریٹ بطور سیکرٹری تعینات ہو جاتے ہیں۔ یوں ان شعبوں میں کام کرنے والے دانشوروں محقیقن کو اکثر بہت مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے، اس کا ایک واقعہ مجھے بلوچستان یونیورسٹی کے صدر شعبہ کیمسٹری اور ڈین جو اب دس برسوں سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک پرو جیکٹ کا بتایا کہ اسی کی دہائی میں وہ کراچی میں وفاقی حکومت محکمہ صحت کی جانب سے ایک تحقیقاتی پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے جس میں جامن کی گٹھلی سے شوگر کے علا ج کے لیے دوا تیار کی جا رہی تھی، اس دوا کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے پروجیکٹ کا ایک بڑا فنڈ تھا جس کے تحت آسٹریلیا سے انسانی جسم جیسی یکسانیت رکھنے والے ایک خاص نسل کے خرگوش کی جسامت کے سفید چوہے منگوائے گئے تھے جن کی تعداد ایک ہزار تھی ان کے لیے شہد، مکھن، انڈے ناشتے میں اور اسی طرح کھانے کا مینو تھا۔اب اس ریسرچ پروجیکٹ کے تحت اس معیار کی خوراک کے استعمال کے بعد جامن سے بنائی ہوئی دوا ان چوہوں کو کھلائی جاتی تھی۔
پروجیکٹ میں ان سائنسدانوں نے یہ دورانیہ دوسال کا رکھا تھا، پہلے سیکرٹری ہیلتھ مناسب آدمی تھے، وہ اس مفید پروجیکٹ کے اغراض و مقاصد سمجھ گئے تھے، دوسرے سال کے آغاز پر سیکرٹر ی تبدیل ہوگئے، نئے سیکرٹری نے آنے کے کچھ دن بعد کراچی کا دورہ کیا اور یہ پروجیکٹ بھی دیکھا، سیکرٹری کو بتایا گیا کہ جامن جیسے پھل پر ریسرچ کی جا رہی ہے کہ اس کی گٹھلی سے شوگر کی دوا بنائی جا رہی ہے اس پر سیکرٹری صاحب نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تھوُم یعنی لہسن بلڈ پریشر کے لیے بہت مفید ہے آپ اس پر تحقیق کریں۔ بڑی مشکل سے ان کو بتا یا گیا کہ تحقیق کے لیے پروجیکٹ ڈیزائن کرنے اور اس کو منظور کروانے میں دو ڈھائی برس لگے تھے۔
تب یہ دو سال کی مدت کا پروجیکٹ ملا، پھر جب انہوں نے چوہوں کے کھانے کا مینو کا بجٹ دیکھا تو بہت غصے میں کہا چوہوں کے کھانے پر اتنا خرچ۔ انہوں نے کھانے سمیت تمام اخراجات میں پچاس فیصد کمی کر دی۔ ابھی اس پروجیکٹ میں ایک سال کا عرصہ باقی تھا، سیکرٹری کے جانے کے بعد ماہرین ’’سائنسدانوں ‘‘ نے فیصلہ کیا کہ ایک ہزار چوہوں میں سے پانچ سوکو ہلاک کر دیا جائے اور یوں باوجود کوششوں کے اس ریسرچ کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔
ہمارے ہاںیہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی محقق، ریسرچر، قومی خدمت کا جذبہ رکھے ہوئے ، مصائب جھیل کر کسی مقام پر پہنچ بھی جائے اور اپنے جو ہر دکھا کر پوری قوم کو حیران کر دے تو اس کے ساتھ ڈاکٹر قدیر خان، ڈاکٹر محبوب الحق اور ڈاکٹر عطا الرحمن کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ محبان وطن میں ڈاکٹر قدیر خان بہت سخت جان واقع ہوئے کہ اتنے معمر ہونے کے باوجود ان کی برداشت کی قوت کہیں زیادہ ہے کہ اب تک پاکستان میں ہیں، محبوب الحق نے 1985 میں بجٹ سازی کرتے ہوئے طویل عرصے کے بعد خسارے کی بجائے بچت کا بجٹ دیا تھا تو ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہونے کی توقعات ہو گئیں تھیں کہ نامعلوم حکومت کو کیا سوجی کہ ان کو فارغ کر دیا، پھر یہی محبوب الحق تھے جن کی خدمات جنوبی کوریا نے حاصل کیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔
اسی طرح ہمارے ماہر تعلیم ڈاکٹر عطاالرحمن ہیں جن کو نہایت کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد فارغ کردیا گیا اور اب گذشتہ دنوں ہمارے ہمسایہ اور دوست ملک چین نے انپی قومی تعلیمی پالیسی کے لئے ان کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ یوں ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح،کوئی ریسرچر، دانشور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد، عملی زندگی میں آتا ہے تو ان کی عمریں پینتیس سے چالیس سال ہو جاتی ہیں پھر وہ اپنے تجربے کے بعد جب خود کو منواتے ہیں تو عموماً ان کی عمر ساٹھ برس یا اس کے قریب پہنچ چکی ہوتی ہیں، یوں ان کو ریٹائر کردیا جاتا ہے اور ہمارے سماج کی ساخت ایسی ہے کہ پھر ایک دانشور، محقق، سائنسدان جب ریٹائر ہو جاتا ہے تو پھر وہ گھر میں کچھ عرصہ اگر پوتے پوتیاں ہیں تو ان کو کھیلاتا ہے اور اگر نہیں تو گوشہ نشین ہو کر جلد اس دنیا ِ ئے فانی سے کوچ کرجاتا ہے۔
ہمارے ہاں اسلامیات کے پروفیسر رشید احمد مرحوم کا نا م بطور محقق، اسکالر بہت بڑا نام ہے ان کی کتاب ’’مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ‘‘ آج بھی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے۔ یہ کتاب تقریباً بارہ سو صحفات پر مشتمل ہے۔ وہ ڈائر یکٹر ایجوکیشن بلوچستان ہوئے۔ ابھی ملازمت کے تین چار سال باقی تھے کہ اس خودار اور بااصول انسان کواوپر سے ناجائر آڈر دیا گیا جس کو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا، اور پھر ان کو قبل از وقت جبری ریٹائر کردیا گیا، انہوں نے اپنے مکان ہی میں پرچون کی دکان کھول لی، وہ صبح سویرے دکان کھولتے اورانگریزی کا اخبار پڑھتے تھے۔
ایک دن ایک بچے نے انہیں انگریزی اخبار پڑھتے دیکھا تو حیرت سے کہا، بابا آپ کو انگریزی پڑھنا آتی ہے؟پروفسیر رشید احمد کا کمال دیکھیں کہ انہوں نے ریٹائر ہونے کے بعد قرآن پاک حفظ کیا، ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی اعزاز تمغہ حسن کار کردگی بھی دیا گیا تھا اور جب ان کو جبری ریٹائر کیا گیا تو پھر انہوں نے کبھی کسی سے تمغے کا ذکر نہیں کیا۔ یوں اب اس ملک میں جس کی 1951میں تین کروڑ تیس لاکھ آبادی تھی تو اس وقت محققین، دانشوروں سائنسدانوں کی نہ صرف تعداد بہتر تھی بلکہ ان کی پیداوار جاری تھی اور ان کی قدر کرنے والی بیوروکریسی میں بھی مختار مسعود جیسے ادیب جو قحط الرجال سے اس زمانے میں بھی واقع اور آنے والوں کو اس کا ادراک دلانے کی فکری صلاحیت اور قوت بھی رکھتے تھے مگر اب ایک جانب تو واقعی شدید قحط الرجال ہے تو دوسری جانب حکومت میں اور بیوروکریسی میں ایسی پہچا ن رکھنے والی آنکھ بھی نہیں ہے۔
اب تقریباً 40 سال بعد ایک ایسی جماعت کی حکومت آئی ہے جس کو اگر چہ نوجوانوں کی اکثریت نے ووٹ دیا ہے لیکن اس سے بزرگوں اور خصوصاً دانشوروں، محققین اور سائنسدانوں کو بھی بڑی امیدیں ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ جو اس وقت جو چند دانشور، محققین اور سائنسدان رہ گئے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں صوبائی اور مقامی سطحوں پر ابھی بہت سی ایسی شخصیات ہیں جو طویل العمر ہو چکی ہیں لیکن ان کی قابلیت اور تجربے کے ساتھ ان میں دماغی قوت کے ساتھ یہ صلاحیت موجود ہے کہ اپنے اپنے شعبوں میں قومی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔
معمر شخصیات اس اعتبار سے بھی اہم ہو تی ہیں کہ وہ لالچ اور حریص کی خرابیوں کا بھی خوب ادراک کر چکی ہو تی ہیں اس لیے قوم و ملک کے لیے ان کی خدمات خالص اور شفاف ہوتی ہیں۔ اب عمران خان کی تحریک انصاف اگر یہ چاہتی ہے کہ ملک میں علم ودانش، تحقیق فروغ پائے تو ان کو چاہیے کہ حکومت ایسی پالیسی بنائے جس کے تحت اس وقت جو دانشور، سائنسدان اور محققین جن کی عمریں ساٹھ سال سے زیادہ ان کو قومی سطح کا کوئی صدارتی ایوارڈ ملا ہو کم ازکم ایک درجن کتابوں کے مصنف ہوں، پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے حامل ہوں اور ایسے سائنسدان جن کے کم سے کم چھ ریسرچ آرٹیکلز تسلیم شدہ انٹر نیشنل جنرلز میں شائع ہوئے ہوں، ایسے دانشوروں، محققین اور سائنسدانوں کی تعداد پورے ملک میں ایک سے ڈیڑھ ہزار ہوگی، یوں ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
اگر تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میں علم وآگہی، سماج اور ماحولیات ، اور سائنس و تحقیق کے دیگر شعبوں میں ملک کوآگے لے جانا چاہتی ہے تو اس معیار کے دانشوروں کی فوری رجسٹریشن کے ساتھ ان کو تاحیات کم از کم ستر ہزار ماہانہ اعزازیہ جاری کر ے اور کوشش کرے کہ صوبائی اور ضلعی سطحوں پر ان کے درمیان آپس میں بہترین رابطے ہوں اور ان کا کام سامنے آئے یعنی ان کے شعبوں کے تحت ان کے ضلعی، صوبائی اور قومی سطحوں پر تھنک ٹینک تشکیل دیئے جائیں اور ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے کہ نوجوان نسل ان کے علم، تحقیق اور تجربے سے استفادہ کر سکے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے معاشرے کے ان اہم ترین افراد کو نظر انداز ہی نہیں بلکہ ضیاع کیا جا رہا ہے ان کو بچانا ان کی حفاظت کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔
The post سائنسدانوں، محققین اور دانشوروں کا قحط الرجال appeared first on ایکسپریس اردو.