دہشت گردی ویسے تو کوئی بالکل نئی چیز نہیں ہے۔ اس ترقی یافتہ، جدید، حیران کن ٹیکنالوجی اور تباہ کن اسلحے سے لیس دنیا سے پہلے بھی انسان جس کرۂ ارض پر جی رہے تھے، وہاں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے تھے۔ تاہم اُس دور اور اِس زمانے کی دہشت گردی کی صورت اور اثرات میں بہت زیادہ فرق ہے، اتنا کہ دونوں کے نتائج کا کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے دور کی دہشت گردی نہ صرف یہ کہ ایسی صورت میں سامنے آئی ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، بلکہ اِس کے ساتھ اُس کے ہول ناک اثرات کا دائرہ بھی بہت بڑھ گیا ہے۔
دہشت گردی کے اس نئے دور کا آغاز ویسے تو بیس ویں صدی کی آخری دہائی میں ہوچکا تھا، لیکن دنیا کو اس کا بدترین تجربہ اس وقت ہوا جب امریکا کے ٹوئن ٹاور پر حملہ کیا گیا۔ اِس کے بعد تو دہشت گردی نے ایک ایسی آندھی کی صورت اختیار کرلی جس نے دنیا کے کئی ایک علاقوں اور بہت سی قوموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس سے پہلے کے حالات دہشت گردی کو بڑی حد تک ایک مقامی یا علاقائی مسئلے کے طور پر پیش کرتے تھے، لیکن اس کے بعد اس کی نوعیت بالکل تبدیل ہوگئی اور یہ ایک عالمی مسئلے کی حیثیت سے اُبھرا، پھر اسی سطح پر اس کے اثرات بھی سامنے آئے۔
عالمی مسئلے کے طور پر دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو متعدد بیانیے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ظاہر ہے، ہر ایک بیانیے میں اپنے اپنے انداز سے اس مسئلے کی تعریف کی گئی ہے، اس کے حدود کا تعین کیا گیا ہے اور اس کے اثرات اور آئندہ امکانات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جو براہِ راست دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ اس مسئلے نے ہماری سیاسی، سماجی، معاشی اور حفاظتی صورتِ حال کو بری طرح متأثر کیا۔
آج پاکستان کی اقتصادی صورتِ حال جس ابتری کا نقشہ پیش کرتی ہے، اس میں بہت غیر معمولی کردار ملک میں امن و امان کی صورتِ حال نے بھی ادا کیا ہے۔ آئے دن ہونے والے اندوہ ناک حادثات و سانحات، انسانی جانوں کے زیاں اور عدم تحفظ کے احساس نے ایک طرف ملک کے داخلی منظرنامے کو بدحالی سے دوچار کیا تو دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کی برآمدات کا نظام اس حد تک متأثر ہوا کہ زرِمبادلہ کے ذخائر کو مطلوبہ سطح پر سنبھالنا ممکن نہیں رہا۔ اس کا براہِ راست ایک نتیجہ یہ نکلا کہ روپے کی قدر میں کمی نے قرضوں کے بوجھ میں تشویش ناک حد تک اضافہ کردیا۔ دوسری طرف حالات کی خرابی نے ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ غرضے کہ دہشت گردی نے پاکستان کو جن حالات اور مسائل سے دوچار کیا وہ ملک اور اس کے عوام کے لیے ہر سطح پر اور ہر صورت میں تباہ کن ثابت ہوئے۔
روس کے عالمی طاقت کی حیثیت سے انہدام کے بعد اس یک قطبی دنیا میں عالمی سیاست اور اقتدار پر امریکا کی اجارہ داری کا پرچم ضرور لہرایا، لیکن اِس بے تاج بادشاہت کی قیمت بھی اسے پوری پوری چکانی پڑی۔ امریکا نے نوگیارہ کے بعد افغانستان اور عراق میں جنگ چھیڑ کر اپنی بدمست طاقت کا مظاہرہ تو بے شک کیا اور یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اس نے مطلوبہ اہداف تو بے شک حاصل کرلیے، لیکن یہ ایڈونچر خود اُس کے لیے بھی ایک بہت مہنگا اور نہایت پیچیدہ تجربہ ثابت ہوا۔
اس کا اندازہ بہت سی باتوں سے لگایا جاسکتا ہے، مثلاً دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد عالمی سطح پر امریکا کے خلاف سخت ناپسندیدگی کے جذبات وسیع پیمانے پر پیدا ہوئے اور قطبین کے مابین پھیلتے ہوئے بھی نظر آئے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ خود امریکا کی داخلی صورتِ حال بھی جن مسائل کی لپیٹ میں آئی وہ ایک حد تک اسی دہشت گردی کے پیدا کردہ حالات کا ذیلی نتیجہ تھے جو پہلے پہل دنیا میں امریکا کے زیرِاثر دنیا میں رونما ہوئے تھے۔
کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح امریکا نے اپنی شتر بے مہار طاقت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کی تھی اسی طرح اُسے اپنے اقدامات کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ ملک کے طول و ارض میں پھیلے ہوئے اُس کے اپنے اہلِ نظر، اہلِ دانش، امن پسندوں اور انسانیت کے لیے آواز اٹھانے والے افراد اور گروہوں کی طرف سے اُس کے رویوں اور اقدامات کی بنا پر اُسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ نوگیارہ کے بعد ممتاز امریکی دانش ور نوم چومسکی نے کئی ممالک کا دورہ کیا اور وہاں مختلف طبقاتِ فکر کے لوگوں سے ملاقات کی اور مختلف فورمز پر دنیا میں ابھرنے والے اس مسئلے کے بارے میں اظہارِخیال بھی کیا۔
نوم چومسکی نے عالمی سیاسی منظرنامے پر امریکا کی اجارہ داری کو نہ صرف کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، بلکہ امریکا جو کچھ خود اور اپنے بعض حلیفوں کے ساتھ مل کر دنیا میں کررہا تھا، اسے ’’دہشت گردی کی ثقافت‘‘ قرار دیا۔ نوم چومسکی نے اس حوالے سے جو کچھ کہا اور لکھا، وہ اخبارات و رسائل کے علاوہ کتابی صورت میں بھی شائع ہوا اور دنیا کے مختلف ممالک میں ان کے خطبات اور کتابوں کے مقامی زبانوں میں تراجم بھی کیے گئے۔ یوں چومسکی کے خیالات سے ایک وسیع و عریض دنیا آگاہ ہوئی اور امریکا پر ہونے والی تنقید کا دائرہ مزید پھیل گیا۔
علاوہ ازیں امریکا میں اکیس ویں صدی کی ان اوّلین دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے جو واقعات رونما ہوئے، ان کے بارے میں امریکی عوام اور اس کے سماجی مفکرین کا ردِعمل وہ نہیں تھا جو اس سے پہلے کے واقعات پر سامنے آتا تھا۔ سماجی مفکرین کے حلقوں اور تھنک ٹینکس میں اب اس مسئلے کو اس انداز سے دیکھا ہی نہیں جاتا جس انداز سے امریکا ساری دنیا کو دکھانے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکا میں اب ایک نوم چومسکی ہی نہیں، بلکہ اس عرصے میں وہاں ایسے بہت سے سماجی مفکرین ہیں جو امریکا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی ذمے داری براہِ راست امریکا پر ڈالتے ہیں۔
وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سیاسی عدم توازن، عامۃ الناس کے عدم تحفظ، عالمی سیاست میں اشتعال کی صورت میں سامنے آنے والے عناصر، امریکا کے زیراثر ممالک میں گروہی، لسانی، علاقائی اور مذہبی اختلافات اور عدم برداشت کے رویے کے پھیلاؤ اور بعض ملکوں کے سیاسی تناؤ میں خود امریکا کا براہِ راست یا بالواسطہ کسی نہ کسی سطح پر کوئی کردار ضرور ہے، اور ان سارے مسائل کی اصلاح اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک امریکا اپنی ترجیحات نہیں بدلتا اور اس کے ساتھ ساتھ اُس کی سیاسی پالیسیز میں تبدیلی نہیں آتی۔ اس نوع کی آرا اور تجزیات اب امریکا میں اخبارات، رسائل، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر کھلے عام آتے اور بڑے حلقوں میں عوام تک پہنچتے ہیں۔
2016ء میں جب داعش یا آئی ایس آئی ایس کا موضوع خبروں میں نمایاں ہوکر سامنے تھا اور امریکی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے امن پسند اور معصوم لوگوں کے لیے خوف کا حوالہ بنا ہوا تھا، انھی دنوں ایک اخبار نے کارٹون شائع کیا تھا۔ کارٹون میں ایک گھوڑا دکھایا گیا تھا جس کے سامنے دنیا کا نیم رخ گلوب روشن تھا۔ گویا گھوڑا دنیا کی سیاحت پر یا شکم پروری کے لیے نکلا ہوا ہے۔
گھوڑے کی گردن اور پچھلی ٹانگوں کے پٹھوں سے واضح ہوتا تھا کہ یہ گھوڑا دراصل امریکا ہے، یا امریکی آشیرباد لے کر نکلا ہوا کوئی علامتی یا طلسمی گھوڑا ہے۔ اس گھوڑے کا پیٹ تناسب سے کہیں زیادہ بڑا دکھایا گیا تھا اور اس میں خود ایک چھوٹا گھوڑا تھا، جس پر سوار شخص کے ہاتھ میں آئی ایس آئی ایس کا جھنڈا تھا۔ مطلب یہ کارٹون بتا رہا تھا کہ دنیا کو خوف میں مبتلا کرنے والا عفریت دراصل کیا ہے اور کہاں اس نے جنم لیا ہے، کس کے ہاتھ میں اس کی باگ ڈور ہے اور اس کا ہدف کہاں تک ہے۔ یہ کارٹون دراصل امریکا کے تھنک ٹینکس سے وابستہ افراد اور سماجی مفکرین کے نظریات و تصورات کی نمائندگی کررہا تھا۔
گذشتہ دنوں امریکا کے ایک تھنک ٹینک ’’نیو امریکا‘‘ نے نوگیارہ کے بعد اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیا ہے، جن میں 12 اگست 2017ء کو اور لینڈو میں اور 2016ء میں شارلٹس وائل کے واقعات بطورِ خاص شامل ہیں۔ اس جائزے میں کئی اہم باتیں کہی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر بتایا گیا ہے کہ سفید فام نسل پرستوں نے اس عرصے میں 68 حملے کیے ہیں جب کہ سیاہ فام انتہاپسندوں نے صرف 8۔ علاوہ ازیں سفید فام انتہاپسندوں نے 62 الگ واقعات میں 106 مزید افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میڈیا ذرائع نے محسوس کیا ہے کہ امریکا کے موجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت، اسلامی دہشت پسندوں کی مذمت میں تو ضرور پیش پیش نظر آتی ہے، لیکن اپنے ہی ملک میں جو دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے، اُس کے خلاف کچھ کہنے سے ہچکچاتی ہے۔ اس تجزیے میں بہت صاف لفظوں میں اسی بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ اس وقت امریکا میں دہشت گردی کی جو صورتِ حال ہے وہ تقریباً تمام تر خود اس کے اپنے داخلی عناصر کی وجہ سے ہے۔ اس تجزیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نو گیارہ کے بعد کسی بھی غیرملکی دہشت گرد تنظیم کے ایما پر یا اُس کے پروردہ لوگوں کے ذریعے امریکا میں دہشت گردی کے کوئی واقعات نہیں ہوئے ہیں۔
گویا نوگیارہ کے موقع پر امریکا اور اس کے اداروں نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جو کریک ڈاؤن آپریشن شروع کیا تھا، اس میں اُن تنظیموں اور اُن کے سارے رابطہ کاروں کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا تھا۔ لہٰذا اب جو کچھ امریکا میں ہورہا ہے، اس کی ذمے داری خارجی عناصر پر قطعی طور پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ امریکا کے موجودہ داخلی حالات اور اُس کے عوام کو پیش آنے والی دہشت گردی کے اب سارے واقعات خود اس کے اندر موجود عناصر کے پیدا کردہ ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں سفید فام افراد کا نسلی تعصب ہے جو دوسری نسلوں خاص طور پر سیاہ فام لوگوں کے خلاف دہشت گردی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ سفید اور سیاہ فام افراد کی آویزش کے واقعات کا تناسب سامنے رکھا جائے تو باآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیاہ فام افراد نے جو کچھ کیا وہ بالعموم دفاعی حکمتِ عملی یا اپنے تحفظ کے لیے کیا ہوگا، جب کہ سفید فام افراد کا رویہ جارحانہ نظر آتا ہے۔ جارحیت کے اسی رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا میں اس وقت داخلی سطح پر دہشت گردی کے جو واقعات ہورہے ہیں، اُن کی ذمے داری سفید فام افراد پر عائد ہوتی ہے۔
’’نیو امریکا‘‘ کے اس جائزے میں کچھ تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں جو دہشت گردی پر قابو پانے میں معاون ہوسکتی ہیں۔ اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے مسئلے پر اُس وقت تک قابو نہیں پایا جاسکتا جب تک طاقت ور ریاستیں کم زور ریاستوں پر دہشت گردی کا الزام رکھتی رہیں گی، اور یہ کہتی رہیں گی کہ وہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے میں ملوث ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب سے اچھی تجویز یونی ورسٹی آف میری لینڈ سے وابستہ ڈاکٹر لہکوا باڈی آن وڈوی نے اپنی کتاب ’’دہشت گردی کی عالم گیریت‘‘ (دی گلوبلائزیشن آف ٹیررازم) میں پیش کی ہے۔ ڈاکٹر آن وڈوی کا خیال ہے کہ دنیا میں ایسی مقتدر اقوام ہیں کہ دنیا بھر کے ذخائر اور مصنوعات کا نظام جن کے ہاتھ میں ہے اور جو اپنے معاشی وسائل کو کسی بھی وقت اپنے لیے ایک سیاسی اور حربی قوت میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں تاکہ دنیا کے نظام کو اپنے مفادات کے حساب سے چلا سکیں۔
ڈاکٹر آن وڈوی کا کہنا ہے کہ عالمی نظام اور قوموں کے مابین جو عدم مساوات پائی جاتی ہے، دہشت گردی اُس کی پیدا کردہ ہے۔ اس لیے دہشت گردی کے خاتمے کی واحد صورت یہ ہے کہ قوموں کے مابین پائی جانے والی عدم مساوات اور استحصال کی موجودہ صورتوں کو ختم کرنے کے لیے حکمتِ عملی میں تبدیلی کی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی مداخلت یا سماجی اقتدار کی دوسری صورتیں، مثلاً کسی ملک پر اقتصادی پابندیاں وغیرہ وقتی طور پر تو مفید ہوسکتی ہیں، لیکن مستقل بنیادوں پر نہیں۔ کچھ وقت کے بعد ایسے اقدامات غیرمؤثر ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ یہ اُن حالات کا تدارک نہیں کرتے جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں، یعنی عالمی عدم مساوات۔
امریکا کی اپنی داخلی صورتِ حال جو نقشہ پیش کررہی ہے، وہ خود عدم توازن اور عدم مساوات کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے اپنے معاشرے کے مختلف عناصر کے درمیان تناؤ کی فضا اب تصادم کے مرحلے تک آپہنچی ہے، اور تصادم بھی دہشت گردی کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس صورتِ حال کے اثرات اس کے سماج تک محدود نہیں ہیں، بلکہ اس کی معیشت پر بھی صاف طور سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس عرصے میں دو مرتبہ اُس کی اسٹاک ایکسچینج اس سطح تک پہنچی ہے جہاں ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ ایک بار حکومت نے اسے خصوصی فنڈ کا سہارا دے کر سنبھالا اور دوسری بار غیر ملکی خصوصاً چین کی سرمایہ کاری نے اسے سنبھلنے کا موقع فراہم کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکا کا اسٹاک ایکسچینج، بلکہ نظامِ معیشت ایسے جھٹکوں سے خود کو کس طرح محفوظ رکھ سکتا ہے، اور اگر نہیں رکھ سکتا تو اس میں ایسے دھکوں کو سہارنے کی سکت کب تک باقی رہے گی؟
دنیا کے نظام، بقا اور استحکام کے اصولوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھنا دشوار نہیں کہ کسی بھی ملک یا قوم کے لیے تعمیر اور تخریب کے دونوں حیلوں کو بہ یک وقت اختیار کرکے وقتی فائدہ اٹھانا تو بے شک ممکن ہے، لیکن اس طرح دوررس نتائج بہرحال حاصل نہیں کیے جاسکتے، اور نہ ہی ایسی صورتِ حال میں اپنی بقا کا یقینی سامان کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کو اس وقت جس بنیادی مسئلے کا سامنا ہے، وہ تعمیر و تخریب کے بہ یک وقت اقدامات کا پیدا کردہ ہے۔ امریکا نے ایک طرف دہشت گردی کے عفریت کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے اور پھیلنے میں مدد دی ہے اور دوسری طرف اس کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔
دونوں طرح کے حالات میں اس نے اپنے فوائد پر نگاہ مرکوز رکھی ہے اور حالات و واقعات سے ہر ممکن فائدہ اٹھایا ہے۔ دائیں بائیں بکھیرے گئے انگاروں سے اُڑ اُڑ کر اگر کچھ چنگاریاں خود اُس کے دامن میں جاپڑیں اور اب وہاں آگ بھڑکانے کا سبب بن رہی ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ایسا اگر ہورہا ہے تو عناصر کی اس دنیا کے اصولوں کے عین مطابق ہورہا ہے، اور بالکل فطری انداز سے۔ ایڈونچر کے ہر تجربے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ امریکا کے داخلی حالات اس وقت ہمارے سامنے اسی قرض کی ادائی کا ایک منظر پیش کررہے ہیں۔
The post امریکا اور دہشت گردی appeared first on ایکسپریس اردو.