آزادی کے حصول کا سفر ہم نے بہت سے خوابوں، خواہشوں اور امنگوں کے ساتھ شروع کیا تھا۔ تاہم ان سب کے ساتھ ساتھ ایک حقیقت بھی زادِراہ کے طور پر ہمارے دامنِ دل میں دھڑکتی تھی۔ یہ کہ ہم ایک قوم ہیں۔
ایک مذہب، تہذیب، ثقافت، زبان اور تاریخ رکھنے والی زندہ اور باشعور قوم ہیں۔ یہی وہ ادراک تھا جس کی بنیاد پر ہم نے سوچا تھا کہ فرنگیوں کی غلامی سے نکل کر اگر ہم ہندوستان میں ہندو اکثریت کے زیرِنگیں رہنے بسنے پر آمادہ ہوگئے تو اپنے آزاد قومی شعور کے ساتھ ہرگز خود مختار اور باوقار زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس حقیقت کا شعور ہم نے اُن تجربات سے براہِ راست حاصل کیا تھا جو ہندو اکثریتی علاقوں میں تقسیم سے پہلے فرنگی سام راج میں ہندو حکم رانی کے دور میں ہمیں حاصل ہوئے تھے۔
دراصل یہی وہ حالات اور تجربات تھے کہ جنھوں نے جداگانہ قومیت کا احساس ہمارے اندر بیدار کیا اور وہ سیاسی شعور ہمیں حاصل ہوا جو آزادی کی فیصلہ کن جدوجہد کی بنیاد بنا۔ یہی وہ شعور تھا جس نے 1940ء کی قرارداد کے بعد محض سات برس کے مختصر سے عرصے میں آزادی کے خواب کو تعبیر سے ہم کنار کیا۔ ملک کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے لوگوں کا یوں قومیت کے احساس کے ساتھ جمع ہونا اور اتنی قلیل مدت میں آزادی حاصل کرلینا، قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک مثالی واقعہ ہے۔
1947ء کے اگست کی 14 تاریخ کو مسلمانانِ برصغیر کے لیے صبحِ آزادی طلوع ہوئی اور جنوبی ایشیا کے نقشے پر پاکستان ایک زندہ حقیقت کے طور پر ابھرا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مہاجر آبادیوں کا جو تبادلہ ہوا، خاص طور پر ہندوستان سے جتنے مسلمانوں نے آزاد وطن کی طرف ہجرت کی، وہ بھی تاریخِ عالم کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔ اس ہجرت نے عزت آبرو، جان اور مال کی جتنی اور جیسی قربانیاں طلب کیں اور مسلمانوں کو آگ اور خون کے جو دریا عبور کرکے اس جنت نظیر آزاد سرزمین تک پہنچنا نصیب ہوا، اُن کے ذکر سے تاریخِ انسانی کے اوراق ہمیشہ کے لیے رنگین ہوگئے۔
انسانی خون سے کس طرح ہولی کھیلی گئی، ماؤں کی گود سے نومولود کس طرح چھین کر نیزوں پر اچھال دیے گئے، باپ بھائیوں کی آنکھوں کے آگے بیٹیوں اور بہنوں کو پامال کرنے کا شیطانی کھیل کیسے کھیلا گیا، خاندان کی عزت و ناموس اور اپنی آبرو بچانے کے لیے کتنی عورتیں کنوؤں میں کود گئیں، کتنے شوہر، بیٹے، بھائی اور باپ اپنے کنبے کو حفاظت اور عزت سے آزاد وطن تک پہنچانے کی کوشش اور خواہش میں موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ تاریخ ان سب سانحات اور واقعات کا حساب رکھتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے، لیکن وہ سب لوگ جو بذاتِ خود ان تجربات سے گزرے ہیں اور وہ بھی جنھوں نے دل دہلا دینے اور روح لرزہ دینے والے ان حقائق کی روداد اپنے کانوں سے براہِ راست ان مراحل سے گزرنے والے لوگوں کی زبانی سنی ہے، انھیں ان واقعات کو صرف تاریخ کے اوراق کو سونپ کر نہیں بیٹھ رہنا چاہیے۔
ایسے سب لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ان واقعات اور حقائق کا اعادہ کریں، انھیں دہرائیں اور اپنی نئی نسلوں کو ساری ممکنہ تفصیلات کے ساتھ ان سے آگاہ کریں۔ اجتماعی، تہذیبی اور قومی حافظے کو اسی طرح زندہ رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طریقے سے قومی طرزِاحساس کو تقویت ملتی ہے۔ اجتماعی تجربات اسی طرح نسل در نسل آگے بڑھتے اور بعد والوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ بعد میں آنے والی نسلیں اس ورثے کی اہمیت اور قدر و قیمت سے بھی آگاہ ہوتی ہے جو اگلے وقتوں کے لوگوں سے اُسے منتقل ہوتا ہے۔ محض جغرافیائی سرحدیں ہی نہیں، بلکہ نظریاتی بنیادیں بھی تجربات کے اس شعور کو آگے بڑھانے سے مستحکم ہوتی ہیں۔ اجتماعی تہذیبی قدریں بھی اس کے ذریعے تسلسل اور استحکام حاصل کرتی ہیں۔
ہمیں آزادی حاصل کیے اب اکہتر برس ہوگئے ہیں۔ آج بھی ایسی بہت سی آنکھیں زندہ ہیں جنھوں نے وہ منظر دیکھے ہیں کہ جب آبا و اجداد کی وراثت و جائیداد کو چھوڑ کر آزاد وطن کی محبت میں لٹے پٹے لوگ خاک و خون کے دریا پار کرکے یہاں پہنچے تو یہاں والوں نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ بھائی چارے، اخلاص، محبت، یگانگت اور وارفتگی کے وہ مناظر دیکھنے میں آئے کہ کہنے والے کہہ اٹھے، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہونے والے انصار و مہاجرین کے واقعے کی یاد تازہ ہوگئی۔
لاہور، کراچی جہاں بھی یہ قافلے پہنچتے تھے، محبت کے گداز اور خلوص کی گرمی سے ان کا استقبال کیا جاتا تھا۔ آنے والے جی جان سے دونوں ہاتھ کھول کر اس دھرتی پر اترنے والوں کا استقبال کرتے اور انھیں سینے سے لگاتے تھے اور سوچتے تھے کہ بس اب یہی لوگ اصل رشتے دار اور اپنے ہیں۔ یہ اسی خلوص و محبت کی برکت ہی تو تھی کہ آنے والے سفر کے عذاب اور کٹے پھٹے وجود کی ساری اذیتیں بھول کر اس نئی زمین میں جڑیں پکڑنے لگے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے زندگی بحال ہوگئی تھی۔
یہ آزادی کا موسم تھا۔ ہوا میں زخموں کو بھرنے کی وہ صلاحیت تھی کہ جیسے کوئی نسخۂ اکسیر کام کرتا ہو۔ پانی صرف پانی نہیں تھا، آبِ شفا تھا، آبِ بقا تھا۔ روح پر لگے گھاؤ یوں بھرتے جاتے تھے کہ جیسے گزرنے والے سارے سانحات و حادثات حقیقت میں نہیں، کسی ہول ناک خواب میں واقع ہوئے تھے۔ خون کے آنسو روتی، دھندلائی نظر اور سوجی ہوئی آنکھیں کہ جو بے نور ہوئی جاتی تھیں، اس ہوا اور اس فضا میں بحال اور بیدار ہونے لگی تھیں۔ ان کے خواب واپس ان پر اترنے لگے تھے۔ بینائی بحال ہوگئی تھی۔ پت جھڑ کے دنوں اور خزاں کے موسم میں بھی یہ بحال ہونے والی آنکھیں منظر کے اندر سے پھوٹتی ہریالی اور رنگوں کو دیکھنے لگی تھیں۔ یہ یقین کا موسم تھا۔ یقین کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہ آئے اور سجھائی نہ دے تو بھی احساس کی قوت رگ و پے میں خون بن کر دوڑتی چلی جاتی ہے۔ زندگی کو اُس کی قوت فراہم ہونے لگتی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں، قائدِاعظم کی مادری زبان اردو نہ تھی اور یہ بھی کہ وہ گفتگو کرتے ہوئے ہی نہیں، بلکہ مجمعے میں تقریر کرتے ہوئے بھی انگریزی زبان پر انحصار کیا کرتے تھے۔ جی الانہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ایک بار ایسے ہی ایک جلسے میں تھے۔ قائدِاعظم تقریر کررہے تھے۔ مجمع انہماک سے سن رہا تھا۔ جی الانہ کی نگاہ اٹھی تو دیکھا کہ قریب ہی ایک خوانچہ والا بھی وہاں موجود ہے اور اطمینان سے کھڑا ہاتھ باندھے ہوئے تقریر سن رہا ہے۔ اُس کو یوں اپنا کام چھوڑ کر سنجیدہ کھڑے ہوئے قائداعظم کی تقریر سنتے ہوئے دیکھ کر انھیں ہنسی آگئی۔
خیال ہوا کہ یہ بھی خوب بات ہے کہ جو شخص زبان جانتا ہے اور نہ ہی سیاست کو سمجھتا ہے، وہ اس قدر دل چسپی سے یہ تقریر سن رہا ہے۔ پھر یہ ہوا کہ اس خیال نے مسکراہٹ کو ایک سوال میں تبدیل کردیا۔ وہ اٹھ کر اُس خوانچے والے کے پاس گئے اور پوچھا، تم یہاں کیا کررہے ہو؟ اُس نے اطمینان سے جواب دیا، قائدِاعظم کی تقریر سن رہا ہوں۔ انھوں نے مشکل سے ہنسی ضبط کی اور دریافت کیا، قائدِاعظم تو انگریزی میں تقریر کررہے ہیں، کیا تم انگریزی سمجھتے ہو؟ اس شخص نے نفی میں سر ہلایا۔ انھوں نے کہا، پھر تقریر سن کر بھلا تمھیں کیا سمجھ میں آرہا ہے؟ اُس شخص نے نہایت اطمینان اور پورے اعتماد سے جواب دیا، ’’مجھے زبان نہیں سمجھ میں آرہی، لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ آرہی ہے کہ قائدِاعظم جو بھی کہہ رہے ہیں، سچ کہہ رہے ہیں۔‘‘
یہ تھی وہ اعتبار کی قوت کہ جس کے بل پر لوگ آزادی کی منزل کے لیے دو گام چلے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنوں میں منزل سامنے آگئی۔ کروڑوں لوگوں کے دلوں میں اعتبار کی یہ قوت کس شے نے پیدا کی تھی۔ بلاشبہ یہ معجزہ تھا، لیکن یہ معجزہ کسی پیغمبر نے آکر نہیں دکھایا تھا۔ اللہ نے پیغمبروں کو بھیجنا تو بند کردیا تھا۔ پیغمبرِ آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آچکے تھے۔
ان کے بعد تو رشد و ہدایت، قیادت و سیادت اور وقار و اعتبار کے سارے کام اُن کی امت کے لوگوں کو ہی کرنے کی ذمے داری سونپ دی گئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ کام ہدایت کا ہو یا قیادت کا صرف اس وقت کیا جاسکتا ہے جب کرنے والا پہلے اپنے کردار کے اعتبار کو لوگوں کے دلوں میں اتارنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ محمد علی جناح نے عمرِعزیز کا ایک بڑا حصہ ویسا ہی گزارا تھا جیسا دنیا کی کام یابیوں کو حاصل کرنے والے لوگ گزارتے ہیں۔ وہ کوئی عالمِ دین یا صوفیِ صافی نہیں تھے اور نہ ہی دین کی تبلیغ کا کوئی کام کررہے تھے، لیکن وہ جو کچھ بھی کررہے تھے، منافقت کے بغیر پورے شعور، ذمے داری اور سچائی کے ساتھ کررہے تھے۔
اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں بھی انھوں نے اپنی شخصی ساکھ اور انسانی کردار کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا تھا۔ یہی طرزِعمل ان کی سیاسی زندگی میں اِس طرح اُن کے کام آیا کہ انھیں اپنے کردار کی گواہی کے لیے کچھ اور نہیں کرنا پڑا۔ سیاست کے میدان میں آئے تو اپنے اصولوں کی وجہ سے اور اپنے کردار کے بل بوتے پر جلد ہی اپنی قوم کے دلوں میں بس گئے۔ ہمارے یہاں مقصدی سیاست کی سب سے بڑی مثال اپنے کردار کے اجلے پن کی وجہ سے کل بھی قائدِاعظم تھے اور آج بھی قائدِاعظم ہیں۔ آزادی کے بعد وہ ملک کے بے تاج بادشاہ تھے۔ مفادات کا تو سوال ہی کیا، مراعات کے نام پر ہی وہ جو کچھ بھی چاہتے حاصل کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے ذاتی منفعت کو تو کبھی سامنے ہی نہیں رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے انھوں نے صرف ایک روپیا تنخواہ اپنے لیے مقرر کی تھی۔
آج عام طور سے اچھے خاصے پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی یہ دیکھا جارہا ہے کہ عمررسیدہ اور بزرگ نسل کے لوگ اپنے تجربات، احساسات اور شعور کے ساتھ گوشہ گیر ہوتے جارہے ہیں۔ نئی نسل سے ان کا فاصلہ نسبتاً زیادہ رفتار کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ بعض حوالوں سے اور بعض مراحل پر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ نئے اور پرانے لوگ الگ الگ خطوں اور الگ دنیاؤں کے لوگ ہیں۔ اُن میں شعور و احساس کا کوئی مشترک علاقہ ہی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں سوچیے کہ بھلا نئی نسلوں کو اُن کا قومی و تہذیبی ورثہ کس طرح منتقل ہوگا۔
اگر ایک لمحے کے لیے فرض کرلیجیے کہ کسی نہ کسی طرح منتقل ہو بھی جائے تو وہ نئے لوگوں کے لیے بامعنی اور قدر و قیمت کا حامل کیسے ہوگا کہ جب وہ اُس کی اہمیت، افادیت اور ضرورت سے واقف ہی نہیں ہیں۔ اس صورتِ حال میں زیادہ ذمے داری بزرگ نسل کے لوگوں کی ہے۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ یہ اُن کا فرض ہے کہ وہ اس نسلِ نو تک اپنا سارا ذہنی، فکری، ثقافتی، جمالیاتی، اخلاقی، سیاسی اور ارضی ورثہ ذمے داری اور کامیابی کے ساتھ منتقل کریں جو انھیں اپنے بڑوں سے ملا تھا اور جو انھوں نے خود زندگی کے تجربات اور حالات و واقعات سے حاصل کیا ہے۔ اس میں کسی بھی طرح کی کوتاہی ایک قومی سطح کے جرم کا درجہ رکھتی ہے۔
یہاں اس سوال پر بھی ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں آزادی کے شعور و احساس سے اگر اس دور کے لوگ، ہماری نئی نسل لاتعلق یا عاری ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا پہلا اور سیدھا سادہ جواب تو یہ ہے کہ عمررسیدہ لوگ یعنی پرانی نسل انھیں حقائق اور احساس میں شریک کرنے میں ناکام رہی ہے جو نسل در نسل قومی طرزِ احساس کو قائم رکھتے اور مستحکم کرتے ہیں۔ اس کے کچھ اور اسباب بھی ہیں، لیکن چلیے فی الحال اُن کو رہنے دیجیے۔ البتہ اس پہلو پر ضرور سوچنا چاہیے کہ پرانی نسل اپنی ذمے داری اور فرائض سے کیوں کر غافل ہوگئی؟ یہ سوال تھوڑا سا ٹیڑھا ہے، اس لیے اس کا جواب بھی براہِ راست اور دو ٹوک نہیں دیا جاسکتا، اس لیے کہ اس میں مختلف عناصر اور عوامل اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں، اور سب سے اہم کردار ادا کیا ہے سیاست نے۔
واقعہ یہ ہے کہ اپنا آزاد وطن ہم نے سیاسی رہنماؤں کی قیادت میں اور ان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے حاصل کیا تھا۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے ہی ہمارے اندر قومی شعور کی لہر پیدا کی تھی اور قومی وجود کی حقیقت و اہمیت سے ہمیں آگاہ کیا تھا۔ بکھرے ہوئے دانوں کو ایک تسبیح میں پرو کر ان کی اجتماعی حیثیت اور طاقت کو ابھارا تھا۔ اس کا نتیجہ حسبِ توقع نکلا۔ ہم ایک قوم بن کر ابھرے اور اپنے لیے آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں تک تو ہمارے سیاست دانوں کا کردار کچھ اور تھا، لیکن آزادی کے بعد یہ کردار بدل کر رہ گیا۔
قائداعظم محمد علی جناح تو سال بھر بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے، لیکن سیاست میں راہ بنانے اور اقتدار تک اپنا راستہ ہموار کرنے والے سازشی ٹولے نے چند برس بعد ہی ان کے جانشین اور سب سے بااعتماد ساتھی لیاقت علی خان کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد تو رفتہ رفتہ پورا ماحول ہی بدلتا چلا گیا۔ سازشی ٹولے کی خوب بن آئی۔ وہ لوگ جو ملک و قوم سے اخلاص کا رشتہ رکھتے تھے اور انھیں ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے، وہ سازشوں کا شکار ہوکر پارہ پارہ اور ناکارہ ہوتے چلے گئے۔ طاقت کا مسئلہ یہ ہے کہ افراد کی ہو یا قوم کی، اگر مرکز جو نہ رہے تو قائم نہیں رہ پاتی۔ بے اثر اور بے نتیجہ ہوجاتی ہے۔ ہماری سیاست میں اجتماعیت کا عنصر کم ہوا تو انفرادی رجحانات نے تیزی سے راہ پانی شروع کردی۔ نتیجہ یہ کہ قومی وحدت کا زور ٹوٹتا چلا گیا۔
ایسا کیوں ہوا؟
سیاست داں اپنے قومی اور اجتماعی مقاصد سے دور ہوکر گروہی اور ذاتی فائدوں کی سمت جانکلے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے حالات یک بہ یک پیدا نہیں ہوتے۔ یہ سب کچھ وقت کے ایک دورانیے میں ہوتا ہے۔ حالات بدلتے ہیں، واقعات کا رخ تبدیل ہوتا ہے، افراد کی ترجیحات تبدیل ہوتی ہیں۔ اجتماعی طرزِاحساس میں دراڑ پڑتی ہے، اور پھر گروہی مفادات اور انفرادی لالچ اپنا اثر دکھا کر قومی دھارے کو توڑنے اور اس کی قوت کو زائل کرنے لگتے ہیں۔
سردار عبدالرب نشتر 1949ء میں پنجاب کے گورنر بنے تھے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد پہلے سیاست داں تھے جو اس مرتبے پر فائز ہوئے۔ اس سے پہلے ہمارے یہاں یہ منصب انگریزوں کی باقیات کو حاصل تھا۔ لیاقت علی خاں زندہ تھے اور جانتے تھے کہ صوبوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ وفاق کے استحکام کا اہتمام بے حد ضروری ہے۔
یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ صوبوں کو حتی الوسع خود مختاری دے کر انھیں آزادی اور طاقت کا احساس دلاتے ہوئے قومی دھارے کو مضبوط رکھا جائے۔ اس کے لیے صوبائی حکومت کی سطح پر قومی وحدت کے احساس کو تقویت اپنے اور عوام سے راست تعلق رکھنے والے لوگوں کی ضرورت تھی۔ سردار عبدالرب نشتر کا گورنر بننا اسی زاویۂ نگاہ کا عملی اظہار تھا۔ وہ مرکزی دھارے اور قومی سیاست کے اہم رکن تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم ترین بات، ان کا وہ رویہ اور اندازِنظر تھا جو ایک طرف اجتماعیت اور قومی وحدت کو پیشِ نظر رکھتا تھا اور دوسری طرف عام آدمی سے اپنے رشتے کو بھی کبھی فراموش نہیں کرتا تھا۔
سردار عبدالرب نشتر شام کو چہل قدمی کے عادی تھے۔ گورنر ہاؤس میں آنے کے بعد بھی یہ معمول برقرار تھا۔ شام کو تیار ہوئے، کرتہ پاجامہ اور سلیم شاہی پہن اور ہاتھ میں چمڑی لے کر ٹہلتے ہوئے مال روڈ کی طرف چل دیے۔ خدمت اور حفاظت پر مامور عملے کے افراد کچھ نہ سمجھ پائے اور چپ چاپ دیکھتے رہ گئے۔ دوسرے اور پھر تیسرے روز بھی یہی ہوا تو عملے کا ایک شخص پیچھے لپکا۔ قدموں کی آہٹ پاکر سردار عبدالرب نشتر رک گئے۔ سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو عرض کی گئی کہ جاننا مقصود ہے کہ آپ اکیلے کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ بتایا گیا، چہل قدمی کے لیے۔ عرض کیا، گورنر ہیں آپ، اکیلے نکلنا ٹھیک نہیں۔ پوچھا، کیوں ٹھیک نہیں؟ عرض کیا، سیکیوریٹی کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔
خفا ہوگئے اور کہا، آپ مجھے انھی لوگوں سے ڈرنا اور دور رہنا سکھانا چاہتے ہیں جنھوں نے اس جگہ تک مجھے پہنچایا ہے۔ یہ واقعہ ایک طرف تو عوام پر سیاست داں کے اعتماد کا مظہر ہے اور دوسری طرف بہت واشگاف لفظوں میں یہ بھی بتاتا ہے کہ سیاست داں عوامی ترقی اور خوش حالی کا خواہاں اور ذاتی مفادات سے بلند ہوکر اجتماعی بہبود کو پیشِ نظر رکھے تو عدم تحفظ کا احساس اُس کے اندر جگہ بنا ہی نہیں سکتا۔ ہم نے آزادی ایسے ہی لوگوں کی قیادت میں حاصل کی تھی۔
افسوس کہ بعد میں ہمارا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ قومی دھارا علاقائی، لسانی اور ثقافتی گروہوں میں تقسیم ہوا اور نفاق کی وہ ہوا چلی کہ پھر تو قومی وجود جیسے بکھرتا ہی چلا گیا۔ جب یہ صورتِ حال قوموں کی زندگی میں آتی ہے تو ذاتی مفاد کے خواہش مندوں کو آگے بڑھنے، منظر پر ابھرنے اور اقتدار کو ہاتھ میں لینے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ذاتی منفعت اور اقتدار کی ہوس رکھنے والے لوگ قومی خدمت اور ملکی ترقی کا جذبہ رکھنے والوں کو دائیں بائیں دھکیل کر آگے آگئے۔ حکومت طالع آزماؤں کے ہاتھ میں چلی گئی۔
قومی شناخت اور اجتماعی وجود کہ جس کے لیے آزادی حاصل کی گئی تھی، پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ وحدت اور اجتماعیت کا احساس عوام میں برقرار رکھنا ضروری ہے تو اسے کسی طرح رکھا جاسکتا ہے۔ ایسا کوئی سوال حکومت اور اختیار حاصل کرنے والے لوگوں کا مسئلہ ہی نہیں تھی، اس لیے قومی وجود میں پڑنے والی دراڑیں بھلا کون دیکھتا اور کیوں دیکھتا؟ یہ جو شگاف پیدا ہوا تھا، یہ بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ ایک ایسی خلیج بن گیا کہ جس کو پاٹنا دشوار سے دشوار تر ہوگیا۔ سیاست پھر تو اقتدار کی ہوس کا کھیل ہوکر رہ گئی تھی۔ جوڑ توڑ اور بناؤ بگاڑ کا وہ دور دورہ ہوا کہ قومی وجود کو سنبھالنا ممکن نہیں رہا۔
اس کے بعد ہم نفاق کی آندھیوں کی زد میں آگئے۔ بگولہ در بگولہ فتنے رقص کرنے لگے اور مفادات کی چک پھیریاں یہاں وہاں ناچتی نظر آنے لگیں۔ پہلے ہمارے سیاسی رہنما اور قومی قائدین خود کو صرف خدا کے سامنے ہی نہیں، بلکہ اُس کے بعد عوام کے سامنے بھی جواب دہ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بات بنانے کے لیے اور جلسہ لوٹنے کے لیے منہ سے کوئی بات نہیں نکالتے تھے۔
انھیں اپنے کہے کا لحاظ رہتا تھا۔ زبان کی شرم کو وہ ہمیشہ دامن گیر محسوس کرتے تھے۔ سو، ان کی زبان سے وہ بات نکلتی ہی نہ تھی جس کا اُن کے عمل سے تعلق نہ ہو اور جسے وہ عملاً پورا کرکے نہ دکھا سکیں، لیکن طالع آزما اور اقتدار کی ہوس رکھنے والے سیاست دانوں کے لیے نفاق کی آندھیوں نے جب میدان صاف کردیا تو پھر ماحول ہی بدل گیا۔ اب سیاست داں بادشاہ تھے اور بھلا بادشاہ کب کسی کو جواب دہ ہوتا ہے۔ چناںچہ اب یہ ہوا کہ سیاست کاروبار بن گئی۔ پہلے ہماری جان کے دشمن، ہمارے قومی وجود کے سارے ہی بد خواہ باہر کے لوگ تھے۔ جب اُن کا داؤ چل گیا اور ہمارے یہاں اتحاد و یگانگت کی سوچ میں دراڑ پڑگئی۔ گروہی، علاقائی، ثقافتی اور لسانی حقوق کی آڑ میں نفرت کی فصلیں سر اٹھانے لگیں تو پھر ہمارے دشمن صرف باہر ہی نہیں رہے، بلکہ ہمارے اندر بھی ظاہر ہونے لگے۔ ان میں یوں تو اور لوگ بھی تھے، لیکن سب سے نمایاں سیاست داں تھے۔
وہ منہ سے کوئی بھی بات نکالتے، کسی بھی طرح کا نعرہ لگاتے ہوئے نہ جھجکتے۔ ہر بات کو، ہر چیز کو، ہر موقع کو، ہر معاملے کو صرف اور صرف اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا اُن کا معمول بن گیا۔ خارجی قوتوں کو اور گل کھلانے کا موقع ملا۔ نفاق تو ہوتا ہی کیکر کے بیچ کی طرح ہے، ناموافق حالات میں بھی اس کا بیج ضائع نہیں ہوتا، پھل پھول جاتا ہے۔ یہاں تو پھر حالات بھی اسے پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کررہے تھے۔ خیر، یہاں پر اپنی پوری ستر سال کی تاریخ دہرانا مقصد نہیں ہے۔
کہنے کی بات صرف یہ ہے کہ حالات اور واقعات کا بہاؤ جب ایک بار اپنا رخ بدل کر چل نکلا تو پھر قومی مزاج اور قومیت کے احساس کو توڑتا، بدلتا اور قومی وحدت کا ملیامیٹ کرتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ ملک دو ٹکڑے تو ہوا ہی تھا، لیکن قومی شعور اور اجتماعی طاقت تو اس نفاق کے ہاتھوں ایسی ماری گئی کہ آدھی چھوڑ ایک تہائی بھی مشکل ہی سے رہ گئی۔ اس نفاق کو ہمارے معاشرے میں دور دور اپنی جڑیں پھیلانے اور بھرپور اثر دکھانے کا موقع اُس وقت اور زیادہ ملا جب ہمارے یہاں لسانی، ثقافتی اور گروہی مسائل کے ساتھ ساتھ تفریق کی ایک اور بہت مضبوط بنیاد مذہبی یا فرقہ وارانہ صورت میں سامنے آئی۔ اب یہ چوتھی دہائی چل رہی ہے کہ ہم اس فرقہ واریت کے ہاتھوں لہولہان ہیں۔
کل جب ہم نے آزادی حاصل کی تھی تو اپنی اجتماعی اور داخلی قوت کی بنیاد پر ہمارے دائیں بائیں ہی نہیں دور دراز تک ہمارے لیے حالات سازگار ہورہے تھے۔ ہمارا قومی وقار ایسا تھا کہ قوموں اور ملکوں کے اجتماع میں ہم (یعنی ہمارے سیاسی راہ نما) سر اٹھا کر کھڑے ہوتے تھے۔ دلوں میں چور اور دشمنی کا رشتہ رکھنے والے بھی اُن کی طرف آنکھ ٹیڑھی کرکے دیکھنے سے گریز کرتے تھے۔ حالاںکہ آزادی کے فوری بعد ہماری انتظامیہ اور ملک کا کاروبار اور اس کی معیشت کو چلانے کے لیے کمیشن کا طے کردہ نقد سرمایہ بھی ہمیں پورا نہیں دیا گیا تھا۔
روپیا روک کر یہ سمجھا گیا تھا کہ ملکی کاروبار اور انتظامی معاملات کی بدحالی قوم کے گھٹنے توڑ دے گی اور ہم دشمنوں کے قدموں پر جاگریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ تقسیم کے لیے علاقوں کو جس طرح بانٹا گیا، اس میں بھی یہی کوشش کی گئی کہ جغرافیائی فاصلے قومی وحدت کے احساس کو مستحکم نہ ہونے دیں گے۔ سماجی تقسیم کے سلسلے میں بعدازاں کی جانے والی پے در پے سازشیں تو خیر سلسلہ در سلسلہ چلتی رہیں۔ ہمیں گرانے اور جھکانے کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا، لیکن اس کے باوجود ہم حالات کا سامنا کرگئے اور سب کچھ جھیل کر بھی کھڑے رہے۔ دو حصوں میں بٹنے کے بعد جو بچا تھا، اُس کو سنبھالنے میں بھی کسی نہ کسی طرح کامیاب ہوگئے۔ آج ہمارے اجتماعی وجود میں ایک نہیں کئی ایک رخنے ہیں، لیکن پھر بھی ہم یک جا ہیں۔ ٹوٹے ہوئے نہیں، جڑے ہوئے ہی نظر آتے ہیں۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ ہیں۔ تاہم آج اصل اور غور طلب سوال یہ ہے کہ وہ آزادی جو ہم نے بڑے جوش و جذبے، شوق اور ولولے کے ساتھ اور بہت بھاری قیمت چکا کر حاصل کی تھی، جان کو ہزار طرح جوکھم میں ڈال کر ہم نے وہ جو خود مختاری کا پودا لگایا تھا، آج وہ کس حال میں ہے؟ سوال بہت تکلیف دہ ہے، لیکن حوصلہ کرکے براہِ راست اور دو ٹوک پوچھ لینا چاہیے کہ کیا آج حقیقتاً ہم آزاد ہیں؟
اگر ہم خود سے واقعی سچ بولنا اور حقیقت کا سامنا کرنا چاہتے ہیں تو پھر جواب اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم صرف دیکھنے میں آزاد ہیں۔ حقیقت ورنہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی، مذہبی، قومی رہنماؤں اور قائدین نے ہماری آزادی کو ان لوگوں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے جو ہمیں کسی بھی صورت میں آزاد، خودمختار، توانا اور باوقار دیکھنا چاہتے ہی نہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ جب ایک بچہ وطنِ عزیز میں پیدا ہوتا ہے آنکھ کھولنے سے پہلے وہ ننھی جان کا مالک ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہوجاتا ہے اور ہوش سنبھالنے سے پہلے وہ کسی لسانی گروہ اور مذہبی فرقے کا رکن بن چکا ہوتا ہے۔
یہ کیسی آزادی ہے کہ اس ملک کے عوام کی تقدیر کا فیصلہ ملک و قوم سے محبت نہ کرنے والوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہاں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد لگ بھگ نصف آبادی کے برابر، بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں عام آدمی کی مراعات اور سہولتوں کا فیصلہ عوام کے نمائندے، ملک کے حکم راں اور سیاسی راہ نماؤں سے زیادہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یہ کیا آزادی ہوئی کہ ہماری مسجدیں، امام بارگاہیں، کھیل کے میدان، بازار، بچیوں کے اسکول، کاروباری مراکز تک دشمن کو آسانی سے رسائی حاصل ہے اور وہ جب اور جتنا نقصان جہاں چاہتا ہے، ہمیں پہنچا دیتا ہے۔ یہ کس طرح کی آزادی ہے کہ جہاں ہم اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے نصاب اور اپنے سوچنے والے ذہنوں کے لیے نظریات اور سوالات باہر سے لیتے ہیں۔
یہ سب کچھ یقینا بہت اذیت ناک ہے، دل کو مسوس کر رکھ دینے اور روح کو ملول کرنے والا ہے۔ بلاشبہ ہے— لیکن یہ معاملات اور حالات صرف اور صرف ہم پر نہیں گزرے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی اور بھی بہت سی قومیں گزری ہیں جنھوں نے کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا کیا اور مسلسل پامالی کے تجربات انھیں پیش آتے رہے تاہم ایک دن انھوں نے اپنے حالات کا جائزہ لیا اور سوچنا شروع کیا کہ یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟ اس کے بعد جب سمجھ لیا تو پھر غور کیا کہ ہم ان حالات سے کب اور کس طرح نکل سکتے ہیں۔
تب انھوں نے اپنی اجتماعی قوت کو جمع کرنا شروع کیا، قومیت حمیت کو بروے کار لائے۔ قومی شعور کو بیدار کیا اور اس سے کام لیا۔ اس کے بعد کوئی طاقت ایسی تھی اور نہ کوئی دشمن ایسا کہ جو انھیں جینے، اٹھنے اور حقیقی آزادی سے بہرہ مند ہونے سے روک پاتا۔ ہم نے بہت وقت لگا دیا، لیکن چلیے دیر سے ہی سہی، ہم نے اپنے اور اپنی آزادی کے بارے میں کھلے ذہن اور حقیقت پسندی کے ساتھ سوچنا تو شروع کیا۔ آئیے اب اس سے آگے کے کاموں پر توجہ مرکوز کریں اور اپنا اپنا کردار اپنی آزادی، اپنی آئندہ نسلوں کی آزادی کے لیے ذمے داری اور خلوص سے ادا کریں۔
The post آزادی، کل اور آج appeared first on ایکسپریس اردو.