ذہن ایک سوال میں الجھا ہوا ہے۔
بعض سوال بھی ریشم کے لچھے کی طرح ہوتے ہیں۔ آپ سرا پکڑنے اور سلجھانے کی جتنی کوشش کیجیے، وہ اتنے ہی الجھتے چلے جائیں گے۔ کتنا ہی سنبھال لیجیے، مجال ہے جو ذرا سا بھی سنبھل جائیں۔ اِدھر ذہن کا مسئلہ یہ کہ اگر ایک بار کسی شے میں الجھ گیا تو جیسے پھانس ہی تو چبھ گئی، اب یہ جب تک نکلے نہ، بھلا چین کیسے آئے۔ سب کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ اپنی اپنی طبیعت کا معاملہ ہے۔
انسانوں کے صرف چہرے ہی الگ نہیں ہوتے، مزاج بھی جدا ہوتے ہیں۔ مزاج کی تشکیل میں آپ کے انفرادی رویے بھی ایک کردار ادا کرتے ہیں اور کچھ چیزیں آپ اپنے خون میں، یعنی جینز میں لے کر پیدا ہوتے ہیں، جنھیں بدلنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ وہ آپ کے اندر شروع سے ہوتی ہیں اور آخری سانس تک رہتی ہیں۔ یہ سوچنے اور غور کرنے کی عادت بھی ایسی ہی ایک چیز ہے۔
اگر آپ کا ذہن حالات، واقعات، معاملات، چیزوں، لوگوں، کاموں کے بارے میں سوچنے کا عادی ہے تو آپ اسے روک نہیں سکتے۔ وہ اگر کسی سوال پر اٹک گیا ہے تو آپ اُسے اُدھیڑ بن کے عمل سے گریزاں نہیں رکھ سکتے۔ وہ اپنا کام اپنے انداز سے بنا کچھ کہے، بنا کچھ پوچھے کرنے لگتا ہے، کرتا چلا جاتا ہے اور کرکے رہتا ہے۔ آپ لاکھ اِدھر اُدھر دھیان لگانے کی کوشش کیجیے، لیکن خیال کی رَو اپنے راستے پر چلتی رہتی ہے۔
وقتی طور پر یہ ہو تو سکتا ہے کہ آپ کچھ اور دیکھنے اور سوچنے میں منہمک ہوجائیں، لیکن آپ کا ذہن اُس پھانس سے ہٹ جائے جو کہیں ہتھیلی میں یا پھر کسی انگلی کی پور میں کھٹکتی رڑکتی محسوس ہوتی ہے، ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس کا بس ایک ہی حل ہے، اسے دیکھیے، محسوس کیجیے اور نکالنے کی صورت بنائیے۔ اسی طرح اگر ذہن میں کسی سوال کی چپکیں محسوس ہونے لگی ہیں تو اس سے نظریں چرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایک ہی چارۂ کار ہے، اُس کا سامنا کیجیے، اس کے بارے میں سوچیے، اس پر بات کیجیے— جھجک، خوف، مصلحت، احتیاط اور تحفظ کے بغیر۔
یہ باتیں بے مصرف نہیں ہیں، بلکہ بالارادہ اور اس مقصد سے کی گئی ہیں کہ آپ کی توجہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر مرکوز ہوسکے جو اس وقت بیان کیا جارہا ہے۔ اب آئیے اس سوال کی طرف۔ گزشتہ دنوں ایک ادارے نے جو عالمی سطح پر اس طرح کے کام کرتا رہتا ہے، ایک سروے کیا۔ یہ دنیا کے ملکوں اور قوموں کے بارے میں تھا اور اس کا مقصد اس امر کا تعین کرنا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں قومی یا اجتماعی سطح پر جھوٹ کا تناسب کیا ہے اور لوگ آپس کے معاملات میں دیانت داری کا رویہ کس حد تک اختیار کرتے ہیں؟ سروے کی نوعیت کے بارے میں جان کر ممکن ہے، آپ کو تعجب ہوا ہو اور آپ سوچیں کہ عالمی اداروں کو ایسے سوالوں سے کیوں دل چسپی ہوگئی ہے اور ان کے جواب سے انھیں کیا حاصل ہوگا۔ تو چلیے آگے بڑھنے سے پہلے ذرا اسی نکتے کو دیکھے لیتے ہیں۔
یہ جو ترقی یافتہ اقوام اور ان کے ادارے اس قسم کے کاموں کا ڈول ڈالتے رہتے ہیں، یہ کبھی بے سبب نہیں ہوتے۔ ایسے کسی بھی منصوبے کو عملی سطح پر لانے سے پہلے اس کے بارے میں بہت اچھی طرح اور تمام ممکنہ پہلوؤں سے غور کیا جاتا ہے۔ اُن کے حوالے سے کچھ اہداف مقرر ہوتے ہیں اور پھر ان کے حصول کے لیے سنجیدگی اور ذمے داری سے کوششوں کا آغاز ہوتا ہے۔ چناںچہ اس نوع کے سروے کرنے والوں کو ان کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ جس ملک کے لیے انھوں نے جو ہدف مقرر کیا تھا اور اس کے لیے جو کوششیں کی گئی تھیں، اس میں کام یابی کی شرح کیا ہے اور مزید کس قدر اور کن خطوط پر کام کی ضرورت ہے۔
وہ معاشیات کا پھندا ہو یا سماجیات کا چنگل، سیاسیات کی شطرنج ہو یا دہشت کی ثقافت کا جال، کس کو کہاں، کس طرح اور کب استعمال کرنا ہے، عالمی طاقتیں اور ان کے ادارے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسی سروے رپورٹس سے بھی کام لیتے ہیں۔ ایسی ہی رپورٹس کی روشنی میں وہ دنیا کے ملکوں اور قوموں میں اپنے لیے کام کرنے والے مقامی گماشتے تلاش کرتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ یہ رپورٹس ان گماشتوں کے کام کا دائرہ اور ان کی خدمات کا معاوضہ طے کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس دنیا کی تبدیلی کے پس منظر میں جو سب سے بڑا محرک اب تک کام کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا، اس کا تعلق معاشیات سے ہے۔ قدیم تاریخ سے اس عہدِجدید تک آپ ایک ملک کی ترقی کو دوسرے کے استحصال سے جڑا ہوا دیکھیں گے۔ ایک قوم کے فروغ میں دوسری کا انحطاط کارفرما دکھائی دے گا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ عالمی یا بیرونی قوتیں اپنے مقامی ایجنٹ مقرر کرنے کے باوجود ایک مرحلے پر براہِ راست اقدام یا جارحیت اختیار کرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں، لیکن اب وہ انسانیت، جمہوریت، ثقافت، امن اور تحفظ کے نام سے اپنے لیے آڑ قائم کرتی ہیں اور پھر دھڑلے سے ننگی جارحیت کا کھیل دکھاتی ہیں۔ اس بیان کی تصدیق اور اپنے عہد کی اس حقیقت کے مشاہدے کے لیے آپ اس وقت بس ایک نگاہ شام، مصر اور فلسطین پر ڈال لیجیے۔
خیر، اِس وقت ہمارا موضوع عالمی سیاسی منظرنامہ ہے اور نہ ہی طاقت اور معاشیات کا مکروہ شیطانی کھیل۔ جیسا کہ اس گفتگو کے آغاز میں کہا گیا، ذہن ایک سوال میں الجھا ہوا ہے۔ اس سوال کا تعلق دنیا سے کم اور اپنے آپ سے زیادہ ہے۔ اس لیے اس پھانس کی کھٹک کچھ زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم سب خود کو دھوکا دے رہے ہیں— یعنی اپنے آپ کو یا آپس میں ایک دوسرے کو؟
اصولی طور پر تو اِس وقت پوری امتِ مسلمہ کو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے، لیکن چلیے، اتنے بڑے دائرے میں حالات و حقائق کو بعد میں دیکھیں گے، فی الحال تو ذرا صرف اپنے گریبان میں جھانکتے اور اپنی قومی صورتِ حال کو دیکھے لیتے ہیں۔ پاکستان اسلامی مملکت ہے۔
یہاں دن میں پانچ بار ہزاروں نہیں لاکھوں مساجد سے اذان کی آواز بلند ہوتی ہے اور اس پکار کے جواب میں بلامبالغہ کروڑوں افراد خدا کے آگے سر جھکاتے ہیں، ہزاروں مدارس ہیں جہاں تدریسِ دین کا کام ہوتا ہے اور لاکھوں طلبہ دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں، رمضان کے مہینے میں بلاشبہہ صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ کے کیسے روح پرور مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں، ویسے بھی سال بھر لوگ اللہ رسولؐ کے نام پر انسانوں کی فلاح اور انسانیت کی خدمت کے لیے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، سیکڑوں فلاحی ادارے اور اسپتال خاموش مالی مدد کے طفیل چل رہے ہیں، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا موقع آتا ہے تو کیسے کیسے جلوس نکلتے ہیں کہ لاکھوں لوگ امڈ آتے ہیں، عاشورۂ محرم میں غمِ حسینؓ کا منظر کیسا دیدنی ہوتا ہے۔
مسجدیں عام دنوں میں بھی نمازیوں سے بھری ہوئی ملتی ہیں، تبلیغی جماعت کے اجتماع کو مسلمانوں کی جوق در جوق شرکت نے حج کے بعد سب سے بڑا اجتماع بنا دیا ہے۔ نفلی عبادات، قرأت، نعت اور قوالی کی محفل کہیں ہو تو مجمع سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ ان سب باتوں سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ بہت کچھ ثابت ہوتا ہوگا، لیکن ایک چھوٹی سی بات تو بچوں کو بھی سمجھ آجاتی ہوگی، یہ کہ ہم دین دار لوگ ہیں۔ ہم اللہ رسول سے محبت کرتے ہیں اور اُن کے نام پر جان و تن وارنے کے لیے ہر گھڑی تیار۔ بس یہیں ایک لمحے کے لیے رکیے۔ اسی مرحلے پر سوال کا سامنا ہے، اور سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر دیانت داری کے اس سروے میں ہمارا نمبر ایک سو ساٹھ (160) کیوں ہے؟
یہ چھوٹا سا سوال ذہن کو الجھاتا ہے اور دل کو الٹ کر رکھ دیتا ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ دیانت داری تو ہمارے دین کی تعلیم کا پہلا سبق ہے۔ یہ ہمارے نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی شخصیت کا وہ بنیادی جوہر ہے جسے خداوندِ عالم نے منصبِ نبوت پر فائز کرنے سے بھی پہلے اُن کے کردار و عمل کا جزوِ لاینفک بنا دیا تھا۔ عرب کا معاشرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی کی حیثیت سے جاننے اور دیکھنے سے بہت پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و امین کی حیثیت سے پہچانتا اور مانتا تھا۔
اللہ کے آخری پیغام کی دعوت لے کر نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام جب اس معاشرے کی طرف آئے تو تبلیغِ دین سے پہلے سوال کیا کہ تم مجھے جانتے ہو، تم نے مجھے کیسا پایا؟ اپنے پرائے، چھوٹے بڑے اور امیر غریب سب کا ایک ہی جواب تھا کہ آپ سچے اور دیانت دار ہیں۔ ایسے صادق اور امین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگوں کا یہ حال کہ انھوں نے اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں اس کے بالکل برعکس کردار اختیار کیا ہے۔ افسوس صد افسوس۔ اُس دین کے ماننے والے جو صداقت پر اصرار کرتا ہے، انفرادی زندگی میں اُسے شخصیت کا جوہر بناتا ہے اور اجتماعی زندگی میں خیر کے فروغ اور حصول کا لازمہ قرار دیتا ہے، اس کے پیروکار صداقت و دیانت سے ایسے بے بہرہ، اس قدر غافل۔ حیف صد حیف۔
سوچنا تو چاہیے کہ ہماری یہ نمازیں، یہ روزے، یہ زکوٰۃ و خیرات، انسانی ہم دردی، میلاد، تبلیغِ دین، ماتمِ حسین، غربا، مساکین اور درماندہ لوگوں کے لیے کھانے کے دسترخوان جہاں بلامبالغہ ہزاروں نہیں، لاکھوں ہی افراد رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق سے آزاد عزت سے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، کتنے ہی اسپتال ہیں جہاں کروڑوں روپے چپ چاپ بھیجے جاتے ہیں اور بیماروں کا مفت علاج ہوتا ہے، بھیجنے والے یہ نہیں پوچھتے کہ ہمارا پیسا کس پر کتنا خرچ ہورہا ہے اور علاج کی سہولت پانے والے یہ نہیں جانتے کہ کس سے انھیں فیض پہنچا ہے۔
دونوں کے بیچ انسانیت کا رشتہ ہے جس پر دونوں ہی پورا اعتبار کرتے ہیں۔ اسی طرح کتنی بیوہ خواتین اور یتیم و بے آسرا بچے ہیں جن کی ہر ممکن امداد اسی معاشرے کے زید، بکر اور عمر خاموشی اور ذمے داری سے کرتے ہیں، غریب ماں باپ کی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے اور گھر بسانے کے لیے مدد فراہم کرنے والے بھی اسی طرح بے آواز جذبے سے کام کرتے ہیں۔ یہاں اگر یہ سب کچھ ہورہا ہے تو پھر یہ جھوٹ اور بددیانتی کا الزام کیسا ہے؟
اس بات پر ذرا اطمینان سے، ٹھنڈے دل اور کھلے ذہن سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جن کاموں کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے، وہ یقینا ہورہے ہیں اور ان میں سے کتنے ہی واقعات اور حقائق کے آپ اور ہم گواہ ہیں، کوئی جانتے بوجھتے اندھا بن جائے تو بات الگ ہے، ویسے ان سب کاموں کے ہمارے یہاں ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ہمیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرنا چاہیے کہ خیر کے ان سب کاموں کے باوجود ہمارا معاشرہ فرشتوں کا معاشرہ نہیں ہے۔ جس طرح دوسرے انسانی معاشروں میں چور، اُچکے، ڈاکو، قاتل، ظالم، جابر، فاسق اور منافق لوگ ہوتے ہیں۔
اسی طرح ایسے کچھ لوگ ہمارے یہاں بھی ہیں، لیکن ایسے لوگوں کا ہمارے یہاں ایک تناسب ہے، پورا معاشرہ ایسا نہیں ہے۔ تو پھر پورے معاشرے کے آگے سوالیہ نشان کیسے لگایا جاسکتا ہے؟ ملک کی ساری آبادی کو جھوٹا اور بددیانت کیوں کر کہا جاسکتا ہے؟ یہ ماننے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے کہ جو لوگ خیر کے، بھلائی کے، محبت و اخلاص کے اور انسانی فلاح کے کام کرتے ہیں، ان سے بھی زندگی میں کچھ لغزشیں ہوتی ہوں گی، گناہ سرزد ہوتے ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں اور انسان خطا کا پتلا ہے، لیکن کیا کسی کمی، کوتاہی یا غلطی کی بنیاد پر ان کی بھلائی کے بڑے بڑے کاموں کی نفی کرنا انصاف کی بات ہے؟ ہرگز نہیں۔
اچھا تو پھر یہ سروے رپورٹ ہمیں کیا بتا رہی ہے؟ جھوٹا اور بددیانت۔ ماننا چاہیے کہ ہمارے یہ مسائل ضرور ہوں گے، لیکن یہ سروے کن لوگوں کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے؟ اس کا ڈیٹا کن لوگوں کے جائزے یا جوابات پر مشتمل ہے؟ کتنے لوگوں سے رابطے کے بعد یہ نتائج مرتب کیے گئے ہیں؟ جو ڈیٹا مرتب ہوا، کیا اسے کراس چیک کیا گیا؟ سروے کا بنیادی محرک کیا ہے؟ اس کے نتائج کن لوگوں کے لیے کارآمد یا مفید ہوں گے؟ یہ اور ایسے ہی کچھ اور سوالات سامنے رکھے جائیں تو سروے اور اس کے نتائج کی حقیقت و حیثیت کے آگے خود ایک بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
ان جوابات کے تقابل میں پاکستانی قوم کے روزمرہ معمولات، حقائق اور واقعات کو دیکھنے سمجھنے والا کوئی بھی پڑھا لکھا، عقلِ سلیم اور متوازن ذہن رکھنے والا آدمی ذرا تحمل سے ان سوالات پر غور کرنے کے بعد اس سروے رپورٹ کو من و عن قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ وہ اس کے بارے میں سوال اٹھائے گا، اس کے نتائج کی چھان پھٹک پر اصرار کرے گا اور پھر اس کے سامنے اس کے برعکس نتائج آئیں گے، اور وہ اس سروے رپورٹ کو مسترد کردے گا۔
ہم مانتے ہیں کہ واقعی ہم فرشتوں کا معاشرہ نہیں ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم شیطانوں کا سماج بھی ہرگز نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں خیر اور بھلائی کے کام کرنے والوں کی تعداد شر اور برائی کرنے والوں سے بدرجہا زیادہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں انسانی فلاح کا کام کرنے والوں کا تناسب ان اقوام سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ ہوگا، جو انسان دوست کہلاتی ہیں۔ ہمارا قومی یا اجتماعی مسئلہ بنیادی طور پر یہ ہے کہ ہمیں اچھے حکم راں (سیاست داں) میسر نہیں ہیں۔ ملک و قوم کا نظم و نسق چوںکہ انھی لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اس لیے ہم ایک اعلیٰ نظامِ حیات رکھنے کے باوجود اجتماعی سطح پر وہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے جو اچھے حکم رانوں کے میسر آنے پر باآسانی کرسکتے ہیں۔
ہمارے یہاں افراد اپنے بے پایاں جذبے اور بے نہایت اخلاص کی وجہ سے وہ کچھ کررہے ہیں جو نام نہاد بڑے اور ترقی یافتہ ممالک میں ادارے بھی ذرا مشکل سے کرتے ہیں۔ ہم چوںکہ ترقی یافتہ نہیں ہیں، ترقی پذیر ہیں، لیکن ہمارے اقتدار سے وابستہ افراد ہمیں پس ماندگی کی سمت دھکیلنے میں لگے رہتے ہیں، اس لیے ہمیں من حیث القوم جمنے اور ابھرنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ یہ بلاشبہ ہماری بدقسمتی ہے، کم زوری ہے، لیکن آتے ہوئے زمانے کی ہوائیں یہ خبر لارہی ہیں کہ ہم گرداب و گردش کے اس مرحلے سے نکلنے کی سمت بڑھے بغیر نہیں رہیں گے۔
ممکن ہے، کچھ لوگوں کو یہ باتیں خوش امیدی اور خوش گمانی کا اظہار معلوم ہوں، لیکن آپ یہ یقین جانیے، اس خیال اور اس احساس کی بنیاد اپنی قوم کے مزاج اور اپنے لوگوں کی فطرت کے شعور پر ہے۔ یہ خوش گمانی اگر ہے بھی تو خود آگاہی کی پیدا کردہ ہے۔ ہماری عبادات، ہماری بھلائی اور خیر کے کام سب حقیقت ہیں، اور اخلاص کے جذبے کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔
ہم من حیث المجموع کسی کو دھوکا نہیں دے رہے۔ ہماری انسان دوستی، امن پسندی اور خیر طلبی دنیا دکھاوا نہیں، ہمارے باطن کا فطری تقاضا اور اس کا عملی اظہار ہے۔ ہم ایسی ہر سروے رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں جو ہمیں اپنی بھلائی اور سچائی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا سبق دے، ہمیں ایک دوسرے سے بدظن کرے اور ہماری مثبت قدروں کو منہدم کرنے کی کوشش کرے۔
The post سچ اور جھوٹ؛ ایک سوال appeared first on ایکسپریس اردو.