صاحب زادہ محمد حلیم کا مختصر تعارف:
معروف سماجی کارکن، ترقی پسند صحافی اور فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے چیئرمین صاحب زادہ محمد حلیم یکم ستمبر 1969ء کو پشاور کے نواحی علاقے ماشو گگر بڈھ بیر میں پیدا ہوئے۔ زمین دار گھرانے اور صاحب زادگان فیملی سے تعلق رکھنے والے صاحب زادہ محمد حلیم نے پرائمری ایجوکیشن اپنے گاؤں، میٹرک نمبر ون سٹی پشاور اور گریجویشن پشاور یونی ورسٹی سے کی، اے این پی سے خاندانی تعلق ہونے کی بناء پر زمانہ طالب علمی ہی میں ڈی ایس ایف کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن خیبرپختون خوا کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں، صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، 1990ء میں’’ ندائے جہاں‘‘ کے نام سے ماہانہ میگزین کا اجراء کیا یہ سلسلہ 1998ء تک جاری رہا، اسی دوران 1992ء میں ’’نیشنل ڈیلی‘‘ کا اجراء کیا، ’’پکار‘‘ میگزین میں بھی کافی عرصہ تک لکھتے رہے۔ 1998ء میں کاروبار کے سلسلے میں دبئی چلے گئے جہاں پرنٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے منسلک رہے، 2001ء میں وطن واپس آئے، زمانۂ طالب علمی ہی سے خون عطیہ کرنا شروع کیا، اس وقت وہ الخدمت فاؤنڈیشن، اتفاق کڈنی سنٹر اور فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے تعاون سے پاکستان چیریٹی کونسل کے صوبائی چیئرمین بھی ہیں۔
’’اسے زہر دے دو، مارڈالو اسے، میں اس زندہ لاش کو لے کر کہاں کہاں اور کس کس کے در پر لیے پھروں گی، آخر کب تک یہ لاش مجھ سے چمٹی رہے گی؟ اگر تم لوگ اسے خون نہیں دے سکتے تو خدارا اسے زہر دے دو، اب مجھ میں مزید سکت باقی نہیں رہی، بہت تھک چکی ہوں میں۔‘‘ یہ سارا منظر ابھی ابھی میرے دل و دماغ کے کینوس پر نہ صرف محفوظ ہوا تھا، بل کہ کانٹے کی طرح چبھ بھی رہا تھا، مجھ سے رہا نہیں گیا اور جن متعلقہ افراد سے مجسم مایوسی کی پیکر وہ خاتون مکالمہ کر رہی تھیں ان سے مخاطب ہو کر بول اٹھا کہ آخر اس خاتون کی داد رسی کیوں نہیں کی جاتی؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ کراچی ہیڈ آفس سے مزید رجسٹریشن نہ کرانے کی ہدایت کی گئی ہے، اس لیے ہم مجبور ہیں اور اس خاتون کی ننھی منی معصوم سی بیٹی کو خون فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ 2002ء کا ذکر ہے اور میں اس ادارے کو باقاعدگی سے خون اور نقد امداد ڈونیٹ کیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے ادارے کے کراچی آفس سے اس سلسلے میں بات کرنا چاہی، لیکن وہاں اس مسئلے کے حوالے سے ایک بندہ دوسرے اور دوسرا تیسرے کی طرف فٹ بال کی طرح مجھے پھینک رہا تھا۔ جب کچھ نہ بنا تو کسی نے کہا کہ اگر تم اتنے خدا ترس بنے پھرتے ہو تو خود اس قسم کا ادارہ کیوں نہیں کھولتے۔ اسی اثناء میں نے 25 ہزار روپے وہاں ڈونیٹ کیے اور واپسی کی راہ لی۔
گھر آتے ہوئے غیرمحسوس طریقے سے یہ سارا ماجرا مجھے بے چین کیے جارہا تھا۔ انہی دنوں چیف سیکریٹری خیبر پختون خوا شکیل درانی کے ہاں دعوت پر جانا ہوا، جہاں موجود لوگوں سے اس سلسلے میں بات چھیڑدی کہ سرکاری سطح پر خون کے امراض میں مبتلا بچوں کے لیے ایک ادارہ قائم ہونا چاہیے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ سرکاری سطح پر اس قسم کے ادارے کا قیام مشکل ہے۔ اس تقریب میں موجود ایک ڈاکٹرصاحب نے حامی بھر لی کہ چلو ابھی سے ابتدا کرلیتے ہیں، لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ اس مقصد کے لیے سردست 70 لاکھ روپے درکار تھے، جو ہمارے لیے مشکل اور ایک کٹھن مرحلہ تھا، لیکن
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
2003ء میں اس وقت کے کرم ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ شیر زادہ، سیکریٹری سیفران اور موجودہ ایم این اے گل زار خان نے اس چھوٹے سے قافلے کے لیے زاد راہ اور ہمت باندھنے کی بندھن نبھائی اور یوں 2003ء ہی میں یہ قافلہ اس وقت کے گورنر سید افتخار حسین شاہ کی سرکردگی میں افتتاح کی منزل تک جا پہنچا، جب کہ انہی کی درخواست پر دسمبر 2004ء میں کوہاٹ میں فرنٹیئر فاؤنڈیشن کی برانچ کھولی گئی اور چل سوچل کے مصداق اسی ماہ دو کروڑ روپے کی لاگت سے سوات کے شہر مینگورہ میں ایک اور شاخ کھولی جائے گی۔
یہ کہانی ہے معروف و سماجی کارکن، صحافی اور فرنٹیئر فاؤنڈیشن ویلفیئر ہاسپٹل اینڈ بلڈ ٹرانسفیوژن سروسز کے چیئرمین صاحب زادہ محمد حلیم کے ادارے فرنٹیئر فاؤنڈیشن ویلفیئر ہاسپٹل اینڈ بلڈ ٹرانسفیوژن سروسز کی۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں خون کے مہلک امراض میں مبتلا بچوں کو زندگی کی سانسیں دینے، سماجی خدمات اور ذاتی زندگی کے حوالے سے صاحب زادہ محمد حلیم کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس : سماجی خدمت کا جذبہ کیسے پیدا ہوا اور اس کے پیچھے کیا عوامل اور محرکات تھے؟
صاحب زادہ محمد حلیم : شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اپنے آس پاس، اڑوس پڑوس میں لاچار، بے بس اور سسکتی زندگیوں کو دیکھتا تو ایک ہیجانی سی کیفیت دامن گیر رہتی، پہلے پہل گلی محلے میں چھوٹی موٹی خدمات میں پیش پیش رہا، لیکن جب فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا تو فاطمید فاؤنڈیشن کو باقاعدہ خون عطیہ کرتا اور ساتھ اپنی پاکٹ منی سے کچھ بچا کر اپنے حصے کی مقدور بھر سعی کرتا رہا اور دوسرے ساتھیوں کوبھی اس ضمن میں ترغیب دلاتا رہا، حتیٰ کہ چند دوستوں کو مجھ سے چڑ بھی ہو گئی کہ تم بڑے پھنے خان اور سخی بنے پھرتے ہو۔ تم ہی یہ خدمت گاری کے کام کرتے رہو ہمیں معاف ہی رکھنا۔
یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ ایک واقعے نے میری زندگی ہی بدل ڈالی جو میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ہی کہہ لیں جس نے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، وہ مذکورہ خاتون کا واقعہ تھا، جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یہی سے ارادہ کر لیا کہ اب کچھ نہ کچھ دکھا کے رہوں گا اور پھر چل سو چل یہ سارا کچھ آپ سب کے سامنے ہے۔
ایکسپریس: ادارہ کب اور کیسے قائم کیا؟
صاحب زادہ محمد حلیم: فرنٹیئر فاؤنڈیشن ویلفیئر ہسپتال اینڈ بلڈ ٹرانسفیوژن کا قیام 2003ء میں اس وقت عمل میں لایا گیا جب خیبر پختون خوا میں سرکاری و پرائیویٹ سطح پر تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا کے نو تشخیص شدہ مریض بچوں کی رجسٹریشن اور مستقل بنیادوں پر صاف اور صحت مند خون کی فراہمی کا کوئی انتظام موجود نہ تھا۔ اس ادارے نے 14 جولائی 2003ء سے باقاعدہ سروسز کا آغاز کیا۔ فاؤنڈیشن نے جلد ہی صوبے کے جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے مریض بچوں کے لیے 30 ستمبر 2004ء کو لیاقت میموریل ہسپتال میں فرنٹیئر فاؤنڈیشن کی کوہاٹ برانچ بھی قائم کر دی۔
ایکسپریس: کتنی تعداد میں مریض بچے اب تک رجسٹرڈ ہو چکے ہیں؟
صاحب زادہ محمد حلیم: پشاور اور کوہاٹ مراکز میں خیبر پختون خوا، قبائلی علاقہ جات، اٹک، راول پنڈی، اسلام آباد اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تین ہزار سے زاید مریض بچے رجسٹرڈ ہیں، ادارہ ان بچوں کو بہترین سہولیات اور خون و اجزائے خون بالکل مفت فراہم کرنے کے علاوہ خیبر پختون خوا کے سرکاری و غیرسرکاری ہسپتالوں میں ایمرجینسی کی صورت میں آنے والے مریضوں کو بھی مکمل اسکرین شدہ خون اور اجزائے خون بلامعاوضہ فراہم کرتا ہے، چوں کہ تھیلیسیمیا اور ہیمو فیلیا کے ایک مریض بچے کے علاج پر سالانہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں جو غریب والدین کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس لیے ادارہ رجسٹرڈ مریضوں کو علاج و معالجے اور خون کی فراہمی کی وہ تمام سہولیات بالکل مفت فراہم کرتا ہے جن پر لاکھوں روپے ماہانہ اخراجات اٹھتے ہیں۔
ایکسپریس: تھیلیسیمیا اور ہیمو فیلیا کیا ہیں اور کیا شادی سے قبل ان کے ٹیسٹ لازمی ہونے چاہییں؟
صاحب زادہ محمد حلیم : تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے، جس کی وجہ سے بچے کے جسم میں پیدائشی طور پر خون کے سُرخ ذرات یعنی آر بی سی نہیں بنتے۔ اس لیے ایسے مریض بچے کو زندگی کی بقاء کے لیے ہر پندرہ سے بیس دن بعد خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا علاج بی ایم ٹی ہے جس پر لاکھوں روپے خرچہ آتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا 8 فی صد تھیلیسیمیا مائینر کے کیریئر ہیں۔ بدقسمتی سے ان افراد کو پتا ہی نہیں کہ وہ تھیلیسیمیا کے کیریئر ہیں، جب کہ خیبر پختون خوا میں 40 ہزار کے قریب تھیلیسیمیا میجر کے مریض ہیں اور اس تعداد میں سالانہ 6 فی صد اضافہ ہوتا ہے، جب کہ ہمارے ملک میں تھیلیسیمیا میجر کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ کم آگاہی، خاندان میں شادیاں خصوصاً کزن میرج اور شادی سے قبل BH الیکٹرو فورسز ٹیسٹ نہ کروانا ہے۔
اسی طرح ہیموفیلیا بھی ایک موروثی مرض ہے جو خون Factor VIII اور Factor IX کی کمی سے لاحق ہوتا ہے، جس کی وجہ سے خون میں جمنے کی صلاحیت کم پڑ جاتی ہے، جب کہ زخم لگنے یا جسم میں اندرونی چوٹ سے خون بہتا چلا جاتا ہے، جسے روکنے کے لیے خصوصی انجکشن اور متبادل خون (FFP) WBC کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان مہلک امراض سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ان کی وجہ اور تدارک سے مکمل آگاہی حاصل کی جائے، ان امراض کی بنیادی وجوہات میں خاندان میں بار بار شادیاں یعنی فرسٹ کزن میرج ہیں جس میں عموماً مائینر + مائینر کے باعث میجر تھیلیسیمیا جنم لیتا ہے جس کے تدارک کے لیے مؤثر قانون سازی کر کے اسکول میں داخلے کے وقت سرٹیفکیٹ میں دو لائنوں کا اضافہ کر کے یہ نشان دہی اور تصدیق لازمی قرار دی جائے کہ فلاں بچے یا بچی کو خون کے مہلک امراض لاحق ہیں یا نہیں، یعنی داخلے کے وقت مذکورہ ٹیسٹ لازمی ہونے چاہییں، سرٹیفکیٹ میں بلڈ گروپ اور ایکسٹورل فورسز کا اضافہ ضرور کیا جانا چاہیے۔
ایکسپریس: ادارے کی روز مرہ خدمات کے بارے میں بتائیں؟
صاحب زادہ محمد حلیم: فرنٹیئر فاؤنڈیشن کی پشاور برانچ میں روزانہ 60 سے 70 اور کوہاٹ برانچ میں روزانہ 20 سے 30 مریض بچوں کو خون اور اجزائے خون کی مفت فراہمی یقینی بنا رہے ہیں، جب کہ ادارے کی جانب سے مریض کے جسم میں فولاد کی مقدار نارمل رکھنے کے لیے ڈسفرال انجکشن بھی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مریض بچوں اور ان کے لواحقین کو کھانا وغیرہ بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح فاؤنڈیشن کی لیبارٹری جدید ترین مشینوں سے آراستہ ہے، عطیات میں اکٹھے کیے جانے والے خون کا تجزیہ جس میں HIV/AIDS، ہیپاٹائٹس، ملیریا اور سوزاک کے ٹیسٹ شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق جدید کمپیوٹرائزڈ ڈائیلاسز مشین پر جانچ کی جاتی ہے۔ اسی طرح محدود وسائل کے باوجود فرنٹیئر فاؤنڈیشن نے فلاحی تنظیم ’’للسائل و المحروم‘‘ کے اشتراک سے صوبہ بھر کے دور دراز علاقوں میں عوام کی سہولت کے لیے مفت میڈیکل کیمپ لگائے، تاکہ جن علاقوں میں طبی سہولیات کا فقدان ہے وہاں بسنے والے بیمار اور ضرورت مند مریضوں کو علاج اور ادویات مہیا کی جا سکیں ان کیمپوں کے ذریعے ہزاروں افراد کا مفت معائنہ کیا گیا اور ادویات فراہم کرنے کے علاوہ موبائل لیبارٹری کے ذریعے ہیپاٹائٹس کے ہزاروں مریضوں کے خون کا تجزیہ کیا گیا، انہیں بروقت علاج اور احتیاط سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔
ایکسپریس: کیا انتقالِ خون ہی اس بیماری کا واحد علاج ہے یا جدید تحقیق کی روشنی میں دیگر ذرائع علاج بھی اس ضمن میں قابل عمل ہیں؟
صاحب زادہ محمد حلیم : چوں کہ بار بار خون چڑھانے سے اگر ایک طرف متاثرہ مریض کی زندگی کو طوالت دینے کی جستجو کی جاتی ہے تو دوسری طرف بدن میں آئرن کی مقدار بڑھنے سے جگر، گردے اور دیگر اعضاء شدید متاثر ہو کر موت واقع ہو جاتی ہے، جب کہ اس مقدار کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈس فرال انجکش لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بی ایم ٹی بھی ذریعہ علاج ہے، یعنی بون میرو ٹرانسپلانٹیشن، لیکن یہاں میچنگ کا سامنا ہوتا ہے، اس لیے کام یابی کے امکانات بہت کم ہیں، البتہ انڈیا میں نسبتاً زیادہ اور اٹلی میں 95 فی صد تک یہ طریقۂ علاج کام یاب رہتا ہے۔ پاکستان میں اس طریقۂ علاج پر 20 لاکھ روپے خرچہ، انڈیا میں 25 لاکھ جب کہ اٹلی میں اس پر ایک لاکھ ڈالر تک خرچ اٹھتا ہے، میں یہاں یہ بھی بتاتا چلو کہ مصر اور ایران میں یہ مرض بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا تھا، لیکن وہاں موثر قانون سازی کے ذریعے اس پر مکمل کنٹرول پا لیا گیا ہے۔ یعنی خاندان میں شادیوں کے رواج کی حوصلہ شکنی کے ساتھ شادی سے قبل HB ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا ہے، جب کہ مؤثر تدارکی اقدامات کے باعث اب 12 یا 13 سال کی عمر میں ان بچوں کی اموات کو کنٹرول کرکے طوالت دی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں انگلینڈ کے 70 سالہ شخص کی مثال دی جا سکتی ہے جو دادا نانا بھی بن چکا ہے، مانسہرہ کی ایک لڑکی اب میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہے، یعنی اب کہا جا سکتا ہے کہ خون کے امراض میں مبتلا افراد کی زندگی اوسطاً 35,30 سال تک طویل ہو سکتی ہے، یعنی اب جدید تیکنیک کی مدد سے اموات کی شرح پر قابو پانا ممکن رہا۔
ایکسپریس: حکومتی سطح پر یا انٹرنیشنل ڈونر کی جانب سے اس مرض پر قابو پانے یا متاثرہ مریضوں کی کسی بھی قسم کی مدد سے آپ مطمئن ہیں؟
صاحب زادہ محمد حلیم: میں نے ذاتی طور پر یو ایس ایڈ، ایشین ڈیویلپمینٹ بینک، یو این ایچ سی آر اور دیگر ڈونر ایجنسیز کے ساتھ رابطے کیے ہیں، لیکن سب بے سود، ان کی طرف سے کوئی رسپانس نہیں ملا، اسی طرح حکومتی سطح پر سوائے مایوسی کے کچھ نہیں کہا جا سکتا، ہاں البتہ پچھلی صوبائی حکومت کے وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کی ذاتی کوششوں اور دل چسپی پر میں بہت ممنون اور شکرگزار ہوں جنہوں نے پرسنل کیپیسٹی میں ڈھائی کروڑ روپے کے آلات، تین ایمبولینس اور سالانہ گرانٹ کی فراہمی میں ہماری مدد کی۔ اس ضمن میں سی ایم سیکرٹریٹ میں ایک کمیٹی نے خفیہ طور پر ہماری کارکردگی کی نگرانی کی اور وزیراعلیٰ کو (او کے) رپورٹ دی، جب کہ ایم ایم اے دور حکومت میں ان کے وزیر صرف یہاں فوٹو سیشن کے لیے تشریف لاتے۔ اس کے ساتھ عام لوگ اور مخیر حضرات خون عطیہ کرنے، نقد اور آلات کی شکل میں بھرپور امداد کر کے متاثرہ بچوں کی سانسوں کو رواں دواں رکھنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس وقت ادارے کے ماہانہ اخراجات 20 لاکھ روپے بنتے ہیں، جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ فرنٹیئر فاؤنڈیشن ایک رجسٹرڈ فلاحی ادارہ ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت خون کے عطیات، زکوٰۃ، خیرات، صدقات، فطرانہ اور قربانی کی کھالوں سے جمع کی جانے والی رقوم سے زکوٰۃ کے 99 فی صد مستحق مریضوں کے خون اور اجرائے خون کی منتقلی کا کام مفت انجام دے رہا ہے جس کی وجہ سے ادارے پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 9 سال تک بغیر کسی حکومتی یا انٹرنیشنل ڈونر کی امداد کے ہمارا ادارہ انسانیت کی خدمت کررہا ہے لیکن کبھی ہمارے ارادے متزلزل نہیں ہوئے، اس لیے دکھی انسانیت کا درد رکھنے والوں اور مخیر حضرات کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت آکر سسکتے، تڑپتے بچوں کی سانسوں اور آہوں کو دیکھیں، محسوس کریں اور ان کی تکلیف کا اندازہ کریں، کیوں کہ یہ آپ کی امداد کے حقیقی مستحق ہیں، خون کے عطیے کے علاوہ عطیات بذریعہ چیک، زکوٰۃ، خیرات، فطرانہ، صدقہ، خصوصی عطیے آلات اور قربانی کی کھالوں کی شکل میں دی جا سکتی ہیں، کسی بچے کے ماہانہ علاج کا خرچہ اٹھایا جا سکتا ہے، آپ بلڈ بیگ، بلڈ ٹرانسفیوژن کٹس، لیبارٹری کے آلات، ڈس فرال انجکشن عطیہ میں دے سکتے ہیں جب کہ ایک رضا کار کی حیثیت سے خون کے عطیات جمع کرنے کے لیے کیمپ لگا سکتے ہیں، فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے تقریبات وغیرہ کا انعقاد کر سکتے ہیں۔
ایکسپریس: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خون عطیہ کرنے سے انسانی جسم پر کوئی اثر پڑتا ہے؟
صاحب زادہ محمد حلیم: یہ بات شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ پاکستان، افغانستان اور انڈیا کو تھیلیسیمیا بیلٹ کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں خاندانی شادیوں کی روایات کے باعث یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمارے لیے قابل افسوس اور خطرناک بات یہی ہے کہ خیبر پختون خوا اس حوالے سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے اس حوالے سے ہمارا فرض بھی بنتا ہے کہ اپنے صوبے میں مہلک مرض پرجتنا جلد قابو پایا جاسکے اتنا ہی یہ ہمارے حق میں بہتر ہوگا، جب کہ اس مقصد کے لیے خون کی زیادہ مقدار میں ضرورت بھی پڑتی ہے، میں یہ بتایا چلوں کہ خون عطیہ کرنے سے انسانی صحت پر منفی نہیں بل کہ مثبت اثرات پڑتے ہیں ایک انسانی جسم میں عموماً 6 ہزار سی سی خون موجود ہوتا ہے اور انسانی جسم 4 یا 5 ہزار تک سی سی خون استعمال کرتا ہے، لہٰذا ایک ہزار سی سی زاید خون ہمارے جسم میں موجود ہوتا ہے۔ اس طرح ایک بیگ خون عطیہ کرنے سے 3 انسانی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ میں یہ فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا ادارہ اب تک بڑے سرکاری ہسپتالوں کو ایمرجنسی اور میٹرنٹی کی صورت میں 22 ہزار خون بیگز عطیہ کر چکا ہے۔
ایکسپریس: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ محدود وسائل میں خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے اور مزید بہتری کے لیے آپ کیا اقدامات تجویز کرتے ہیں؟
صاحب زادہ محمد حلیم: جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ہم محدود وسائل یا عطیات پر دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے پرعزم ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، ہماری پشاور برانچ میں کل عملے کی تعداد 38، کوہاٹ میں 14 اور اب مینگورہ برانچ کے لیے 8 افراد ہائیر کئے گئے ہیں ان سب کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات کی مد میں لاکھوں روپے خرچ اٹھتا ہے۔ اس لیے حکومتی سرپرستی انتہائی ناگریز ہے۔ اس کے علاوہ اگر حکومت ہمیں ادارے کے لیے 5 یا 6 کنال اراضی دینے سمیت سالانہ گرانٹ میں اضافہ کرتی ہے اور ساتھ ہی بلڈ بیگز، اسکرینگ کٹس اور دیگر آلات کی صورت میں مدد کرتی ہے، تو ہم بہتر انداز میں خون کے مرض میں مبتلا بچوں کی بہتر طور پر خدمت کر سکیں گے اور ان کی زندگی کی سانسوں کو رواں دواں رکھ سکنے میں معاون ہو سکیں گے۔
اٹھائیس سالہ ذکیہ ہاشم عزم وحوصلے کا مجسم پیکر:
زندگی سے پیار کرنے والی، ہر سانس کو پھول کی مہک سمجھ کر ہرکلی سے انتہائی محبت وشفقت سے پیش آنے والی خون کے مرض میں مبتلا اٹھائیس سالہ ذکیہ ہاشم حوصلے، عزم، جذبے سے سرشار اور مہروفا کی مجسم پیکر جب خون کے امراض میں مبتلا ان کلیوں کی خدمت میں دیوانہ وار کبھی ایک کی طرف اور کبھی دوسری کی جانب لپکتی ہے، تو رواں سانسوں پر اعتبار اور بھی زیادہ پختہ ہوجاتا ہے اور انسانیت پر پیار آنے لگتا ہے۔ باڑہ کے علاقے تیراہ سے تعلق رکھنے والی میٹرک تک تعلیم پانے والی ذکیہ ہاشم کہتی ہیں، کہ دوردراز علاقے میں رہائش اور آگہی نہ ہونے کے باعث میری بیماری شدیدتر ہوگئی تھی لیکن یہاں آنے کے بعد میری حالی بتدریج بہتر ہونے لگی اور پھر خون کے امراض میں مبتلا بچوں کی خدمت کو زندگی کا مشن بنانے کے اس ادارے میں بطور نرس اپنی خدمات پیش کردیں اور عرصہ آٹھ سال سے اسی جذبے اور لگن خدمات انجام دے رہی ہوں، میری والدین سے گزارش ہے کہ ان کے جو بچے اس مرض میں مبتلا ہیں ان کو بروقت علاج معالجے کے لیے متعلقہ اداروں میں انتقال خون کے لیے لائیں اور ساتھ کوشش کریں کہ وہ ان بچوں کو زیادہ سے زیادہ خوشی دیں۔