غوث بخش، خضدار سے گزرنے والی آر سی ڈی شاہراہ کے قریب سمبان چشمے کے قریب آبا ؤ اجداد سے ترکے میں ملنے والے پانچ ایکڑ پر مشتمل سیب کے باغ کا مالک تھا ۔ باغ سے اُسے سالانہ آٹھ لاکھ کے قریب آمدنی ہوتی تھی۔ یہ آمدنی اس کے بھرے پُرے کنبے کی کفالت کے لئے کافی تھی۔ زندگی نہایت آسودہ گزر رہی تھی۔ پھرخشک سالی کے باعث بارشوں کی کمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ یوں ہوا کہ سمبان چشمہ خشک ہو نے لگا۔
اس کے سُوتے سوکھنے لگے تو باغ کو ملنے والے پانی میں بھی کمی آنے لگی۔ پانی میں کمی سے فصل خراب ہونا شروع ہوئی تو اس نے باغ کو بچانے کے لئے ٹیوب ویل لگا لیا۔ لیکن ٹیوب ویلوں کی بے تحاشہ تنصیب کے سبب بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی طرح خضدار میں بھی زیر زمین پانی کی سطح روز بروز گرتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ٹیوب ویل چلانے کے لگ بھگ ایک گھنٹے کے بعد ہی پانی نکلنا بند ہو جاتا تھا اس کے بعد آٹھ سے نو گھنٹے بعد اس قدر پانی دوبارہ ذخیرہ ہو تا تھا کہ ٹیوب ویل مزید ایک گھنٹہ تک چل سکے۔
لیکن یہ پانی گھریلو استعمال کے لئے بھی نا کافی تھا ۔ چہ جا ئیکہ باغ سیراب ہوتا ۔ غوث بخش نے زیر زمین پانی کی تلاش میں مختلف جگہوں پر کھدائی بھی کروائی لیکن وقت اور پیسوں کے زیاں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اور تمام کو ششوں کے باوجود سیب کا یہ باغ نہ بچ سکا۔ مالی پر یشانی کے عالم میں غوث بخش اس دار فانی سے کوچ کر گیا ۔ یوں خشک سالی کچھ اس طرح سے لوگوں کی خوشحالی کو بھی اپنے ساتھ لیتی چلی گئی کہ جہاں زندگی اپنی بھر پور رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں تھی۔ اب وہاں ویرانی راج کرتی ہے۔ ا ور یوں ماضی قریب کا یہ ہنستا بستا خاندان نان شبینہ کا بھی محتاج ہو گیا ۔ جو باغ کبھی سرسبز و شاداب تھے آج دھول اڑاتی بنجرو بیابان زمینوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
سمبان چشمے پر استوار زندگی کی دم توڑتی یہ کہانی چند سال قبل سلطان شاہوانی جو اِس وقت ریڈیو پاکستان خضدار کے اسٹیشن ڈائریکٹر ہیں نے ایک ملاقات میں سنائی اور آج جب یہ تحریر لکھنے بیٹھا تواس کہانی نے یک دم یادوں کے جھروکے سے جھانکنا شروع کر دیا اور ایک لرزہ سا طاری کردیا کہ ہم جو قدرت کے خزانوں سے مالا مال تھے۔ اب اس کا کشادہ دامن سمٹ رہا ہے ۔ لیکن ہم قدرتی وسائل کے استعمال میں اسراف سے پھر بھی باز نہیں آرہے۔ نتیجتاً قدرت نے بھی اب اپنے ردعمل کا اظہار شروع کر دیا ہے جس کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک خشک سالی تودوسری زمین کی فر سودگی بھی ہے۔
انسانی تاریخ کا ایک المناک باب ’’قحط‘‘ خشک سالی کے عمل سے جنم لینے والے اس بھیانک عفریت کا انجام ہر بار انسانوںاور مال مویشیوں کی کثیر تعداد کو متاثر کرنے کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ لیکن زمین جو خوراک کی پیداوار اور دیگر انسانی و حیاتیاتی ضروریات کی تکمیل میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے بری طرح خشک سالی سے متاثر ہوتی ہے اور اس کے وجود پر بنجر پن اور صحراء کی صورت میں ہونے والی کوڑھ نما ایسی جلدی بیماری نمودار ہونا شروع ہو جاتی جو انسانی زندگیوں اور حیاتیاتی اجسام کو بقاء کے خطرے سے دوچار کر دیتی ہے اور انھیں نقل مکانی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔
خشک سالی اورزمین کی فر سودگی (Desertification) کا یہ عمل کرہ ارض کے ماحولیاتی نظام کے ایک بنیادی عنصر آب وہوا میں تبدیلی کا مرہون منت تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی کارگزاریوں کے باعث زمین کی طبعی ساخت میں تبدیلی بھی واقع ہو رہی ہے۔ زیادہ کاشت کاری کے لئے زمین کا حصول، بے دریغ زرعی ادویات اور پانی کا استعمال، شجر کٹائی، مویشیوں کی چراہ گاہوں کا اُن کی استعداد سے زیادہ استعمال، ناقص نظامِ آبپاشی، حیاتیاتی تنوع کے قدرتی نظام میں مداخلت، شہروں کی توسیع کے لئے زمین کا حصول اورزمین کے ماحولیاتی توازن میں بڑھتی ہوئی انسانی دخل اندازیوں کے باعث کرہ ارض بنجر پن اور کثرت سے خشک سالی کی لپیٹ میں آرہا ہے ۔
جس کی رفتارمیں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ یوں ہر سال خشک سالی اور زمینوں کی فرسودگی کی نذر ایک کروڑ20 لاکھ ہیکٹر رقبہ ہو رہا ہے یعنی 23 ہیکٹر فی منٹ۔ اس کے علاوہ صورتحال کی شدت کا اندازہ ان اعدادوشمار سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ 1950 سے1980 تک دنیا کی 10 سے 14فیصد زمین کو خشک قرار دیا گیا تھا جو 2000 سے2010 تک بڑھ کر 25 سے 30 فیصد ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے عشرہ برائے صحرا اورزمین کی فر سودگی کے خاتمے(United Nations Decade for Deserts and the Fight against Desertification) کی ایک دستاویزکے مطابق990 1 کی دہائی کے وسط میں دنیا کے110 ممالک شدید زمینی تنزلی (Severe land degradation) کا سامنا کر رہے تھے۔
ان ممالک کی تعداد 2013 تک بڑھ کر 168 ہو چکی ہے۔ اور یہ تنزلی ہر سال 490 ارب ڈالرکے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ علاوہ ازیں ہر سال سطح زمین پر بچھی75 ارب ٹن زرخیز مٹی زمینی فرسودگی کا باعث بننے والے عوامل کے نتیجے میں غائب ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس زرخیز مٹی کو پیدا ہونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں ۔ جبکہ اس کو ضائع ہونے میں محض چند موسم لگتے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کے ساتھ ساتھ خشک سالی کے عفریت نے بھی سر اٹھا لیا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک وزراعت کے مطابق گزشتہ 40 سال کے دوران خشک سالی سے زمین کے متاثر ہونے کی شرح میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصہ کے دوران بانسبت دیگر قدرتی آفات کے خشک سالی سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ اورماحولیاتی تبدیلی کے باعث خصوصاً درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے دنیا کے اکثر حصوں میں خشک سالی کے تواتر، دورانیہ اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ اعداد وشمار اور حقائق دنیا میںخشک سالی او زمین کی فر سودگی کے بڑھتے ہوئے خطرات کی وہ گھنٹی ہے جس کی باز گشت کو دنیا بھر میں پہنچانے کے لئے ہر سال 17 جون کو زمین کی فر سودگی (Desertification) اور خشک سالی سے نمٹنے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے لوگ زمین کی فرسودگی اور خشک سالی کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔
خواتین اس عفریت سے زیادہ متاثر ہیں کیونکہ اکثر تیسری دنیا کے ممالک میں پینے کے لئے پانی کا حصول، ایندھن کے لئے لکڑیوں کا اکٹھا کرنا، جانوروں کو چرانا وغیرہ خواتین کی ذمہ داریوں کا حصہ ہیں۔ اور خشک سالی اور زمین کی فرسودگی کے نتیجے میں جب قدرتی وسائل ناپید ہونا شروع ہوتے ہیں تو خواتین کے لئے ان کا حصول مشکل اور زیادہ مشقت طلب ہو جا تا ہے۔
یوں خواتین مردوں کے مقابلے میں اس بھیانک عفریت کا براہ راست اور جلد شکار ہوتی ہیں۔ لیکن جب زمین کی فرسودگی اور خشک سالی کے سائے بڑھنے لگتے ہیں تو پھر مرد وزن کے ساتھ ساتھ مال مویشیوں کی ہجرت کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ زمین کی طبعی ساخت میں تبدیلی یعنی فرسودگی کی وجہ سے آنے والے10 سالوں میں5 کروڑ افراد نقل مکانی کر سکتے ہیں۔
ہم اکثر زمین کو ایسے استعمال کرتے ہیں کہ یہ لامحدود وسائل کی مالک ہے اور اپنی روزمرہ زندگی میں اس کے کردار کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ہماری یہ غفلت غذا اور پانی کی فرا ہمی، حیاتیاتی تنوع اور یہاں تک کہ انسانی سلامتی کے لئے خطرہ بن جاتی ہے۔
اس کے علاوہ زمین کے استعمال میں تبدیلیاں ماحول میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا باعث بنتی ہیں۔ جبکہ زمین کی بہتری اس عمل کو روکنے کے لئے ضروری ہے کیونکہ یہ کرہ ہوائی میں موجود اضافی کاربن کو چوستی اور اپنے اندر جذب کرتی ہے، مثلاً خشک زمینیں (Drylands) عالمی کاربن کا 46 فیصد اپنے اندر جذب کرتی ہیں۔ یہ دنیا کے41.2 فیصد رقبہ پر مشتمل ہیں اور2.1 ارب افراد کا مسکن ہیں ۔
دنیا کی 44 فیصد زرعی اراضی خشک زمینوں پر مبنی ہے اور زرعی پودوں کا 30 فیصد ان زمینوں سے آتا ہے۔ جبکہ دنیا کے50 فیصد مال مویشیوں کو ان علاقوں کی چراگاہیں سپورٹ کرتی ہیں۔ یہی خشک زمینیں دنیا بھر میں زیادہ تر تنزلی اورڈیزرٹیفیکیشن کا شکارہو تی جا رہی ہیں۔ اس لئے خشک زمینوں کا پائیدار استعمال ماحولیاتی اور دیگرسماجی و معاشی فوائدکے لئے بہت ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق کسی دوسرے ماحولیاتی نظام کے مقابلے میں خشک علاقوں میں رہنے والے زیادہ تر افراد اپنی ضروریات کے لئے ماحولیاتی خدمات (Environmental services) پرزیادہ انحصار کر تے ہیں ۔ فصلوں کی پیداوار، مویشیوں اور دودھ کی پیداوار، ایندھن کے لئے لکڑی کی افزائش اور تعمیراتی مواد یہ سب پودوں کی پیداوار پر منحصر ہے جو خشک علاقوں میں پانی کی دستیابی کی وجہ سے محدود ہے کیونکہ خشک علاقوں میں پانی کی قلت زیادہ ہے اور ان علاقوں میں پانی کی طلب اور رسد کے مابین بہت واضح فرق موجود ہے۔
ہر انسان کو بنیادی ضروریات کے لئے کم از کم 2 ہزار کیوبک میٹر پانی کی سالانہ ضرورت ہوتی ہے جبکہ خشک علاقوں میں اس کی دستیابی صرف1300 کیوبک میٹر سالانہ ہے۔ اس لئے خشک رقبوں پر رہنے والے افراد کا معیار زندگی دیگر ایکلاجیکل زونز میں رہنے والے افراد کی نسبت قدرے پست ہو تا ہے۔ مثلاً ان علاقوں میں ایک سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات زیادہ ہوتی ہے( اس حوالے سے تھر کی مثال ہم سب کے سامنے ہے) جبکہ آمدن کم اور غربت ان کا نصیب ٹھہرتی ہے۔
زمین کی فر سودگی اور صحراؤں کا پھیلتا ہوا سلسلہ خاموش اور غیر محسوسانہ عمل ہے جو اس وقت دنیا بھر کے ماہرین اور سائنسدانوں کے لئے سنگین ماحولیاتی مسئلہ ہے۔ ارضیات کے ماہرین کے مطابق زمین کے وسائل اور قدرتی ماحول کے درمیان نہایت مضبوط تعلق موجود ہے اور انسانی سرگرمیاں جب قدرتی ماحول میں خلل ڈالتی ہیں تو مختلف پہلوؤں سے اس کا تعلق زمین کی فرسودگی سے جا ملتا ہے۔ مثلاً درختوں کی کٹائی جو زمین کو رفتہ رفتہ ہوا اور آبی کٹاؤ کے خطرے سے قریب اور درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے سے استثنا فراہم کر دیتی ہے۔
زمین کی استعداد سے زیادہ فصلوں کی کاشت اور زرعی زہروں کا بے دریغ استعمال جو بتدریج زمین کے غذائی عناصر میں کمی کرتے ہوئے اس کی پیداواری صلاحیتوں کو کم کر دیتے ہیں اور با لآخر اُسے بنجر بنا ڈالتے ہیں ۔ یوں چر مراتی سطح زمین محض کچھ ہی سالوں بعد ریگراز میں بدل جاتی ہے۔ آبپاشی کے ترسیلی نظام کی دیکھ بھال نہ ہونے اور کھیتوں کو سیراب کرنے کے غلط طریقوں کے سبب زرعی زمین سیم و تھور کا شکار اس لئے بنتی ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح بڑھنے سے زمین پیداواری زراعت کے لئے ناکارہ ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف یہ پانی زمین کی سطح پر پہنچ کر جوہڑ کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے یا پھر زیر زمین پانی کی بلند سطح کی وجہ سے زمین کے نکاس کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور پانی زیر زمین رستا نہیں بلکہ ایک جوہڑ کی صورت میں موجود رہتا ہے۔ جب عملِ تبخیر سے پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے تو زمین پر موجود نمکیات کی مو ٹی تہہ ایک دن اسے دھول اڑاتے میدانوں میں بدل دیتی ہے۔
اسی طرح قدرتی چراگاہوں کا اُن کی گنجائش سے زیادہ استعمال اور جانوروں کے کھروں کا اس کی مٹی کی بالائی تہہ کو کاٹ دینا، شہروں کی توسیع کے لئے زمینوں کو صاف کر دینا یعنی راہ میں آنے والے درختوں اور پودوں کو ہٹا دینا اور چرندو پرند کے قدرتی مساکن کو مسمار کرنا ، یہ سب انسانی کار گزاریاں زمین کو تیزی سے فرسودگی کی طرف دھکیل رہی ہیں اور اس پر خشک سالی صورتحال کی نزاکت کو مزید سنگین کر دیتی ہے۔ انٹر نیشنل سینٹر فار ڈراؤٹ رسک ری ڈکشن کے مطابق اگر چہ عالمی سطح پر تمام طرح کی رونما ہونے والی آفات کا10 فیصد سے بھی کم واقعات خشک سالی پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن یہ سیلاب کے بعد دوسری بڑی قدرتی آفت ہے۔
جس سے لوگوں کی کثیر تعداد متاثر ہوتی ہے اوریہ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے افراد کی40 فیصد تعداد کا حصہ دار ہوتی ہے۔ رپورٹس یہ بتا رہی ہیں کہ 1970 کی دہائی سے 2000 ء کے عشرہ تک خشک سالی سے متاثرہ زمینی رقبہ کے تناسب میں دگنا سے بھی زائد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کا اثر خطوں اور وقت دونوں لحاظ سے مختلف ہوتا ہے ۔ افریقہ میں خشک سالی کا طویل دورانیہ لاکھوں افراد کو متاثر کرتا ہے۔ غذائی کمی کا باعث بنتا ہے۔ قحط کا موجب ہوتا ہے اور موت کا محرک ٹھہرتا ہے۔ جبکہ امریکہ میں خشک سالی بنیادی طور پر معاشی نقصان کا باعث بنتی ہے۔
شدید اور طویل خشک سالی زمین کی فرسودگی کا محرک بنتی ہے اور بارانی (Arid) اور نیم بارانی(Smi-Arid) علاقوں میں ریت اور دھول کے طوفانوں کا موجب ہوتی ہے۔ خشک سالی کو روکا تو نہیں جا سکتا لیکن جدید تکنیکی اختراعات کی زیادہ سے زیادہ دستیابی اور استعمال سے اس کی پیش گوئی ضرورکی جا سکتی ہے اور بعض کیسز میں تو ایسا ایک مہینہ پہلے تک ممکن ہے۔ اس طرح بہتر پیش بندی سے خشک سالی کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
زمین کی فر سودگی دنیا میں غربت کا پیش خیمہ ہے اور اس کا نتیجہ بھی بن رہی ہے۔کیونکہ زیادہ آمدن کے لالچ میں اور کم قیمت ادا کرنے کی وجہ سے لوگ قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ تاکہ معیار زندگی کو بہتر کیا جا سکے۔ ایسی صورتحال میں زمین کا استعمال اُس کی گنجائش سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث زمین تنزلی کا شکار ہوتے ہوتے بالآخر بنجر ہو جاتی ہے۔
یوں اس کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور لوگوں کی آمدن میں طویل المدتی اضافہ کے برعکس غربت انہیں اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے اور جب زمین اور حالاتِ کاشت کاری زرعی مقاصد کے لئے موزوں نہ رہیں تو اس پر منحصر آبادی کے روزگار کا وسیلہ ان سے چھن جاتا ہے اور وہ مستقل غربت کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔ اور اگر غربت آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو تنزلی کا شکار قدرتی وسائل کاا ستعمال اور زیادہ بڑھ جاتا ہے نتیجتاً جو کل ہونا ہوتا ہے وہ آج ہی ہو جاتا ہے۔
اس لئے زمین کی فرسودگی اور غربت کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور یہ ایک دوسرے کی کیفیت میں اضافہ کے بنیادی محرکات ہیں۔ یوں غریب دیہی علاقوں میں بڑھتی ڈیزرٹیفیکیشن انسانی اور معاشی بحران کو آواز دے رہی ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان 168ممالک میں ہوتا ہے جو زمین کی فرسودگی (ڈیزرٹیفیکیشن) سے متاثرہ ہیں۔ ماہرین نے پاکستان میں زمین کی فر سودگی کی وجوہات کو تین بڑی کیٹگریز میں تقسیم کیا ہے۔ اول: تھر اور چولستان کے صحرا کا پھیلنا، دوم: درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ڈیزرٹیفیکیشن کا پھیلنا، سوم: سیم و تھور، چراگاہوں کا کثرت سے استعمال اور شہروں کا پھیلاؤ۔ وزارتِ ماحولیات حکومت پاکستان کے سیسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ پروجیکٹ کی ایک دستاویز کے مطابق ملک کا51 فیصد علاقہ زمین کی فر سودگی کا شکار ہے جبکہ وطنِ عزیز کا 80 فیصد رقبہ بارانی(Arid ) اور نیم بارانی(Semi-Arid )ہے۔ اور دو تہائی آبادی ان خشک زمینوں پر انحصار کرتی ہے۔
پاکستان کے نیشنل ایکشن پروگرام ٹو کومبیٹ ڈیزرٹیفیکیشن کے مطابق ملک کے بارانی علاقوں میں سالانہ بارش کی مقدار 250 ملی میٹر سے کم ہے۔ ان علاقوں میں لیہ، مظفر گڑھ، میانوالی، لودھراں، وہاڑی، لاڑکانہ، حیدرآباد اور بنوں وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بعض علاقوں میں 150 ملی میٹر سے بھی کم بارش ہوتی ہے اور وہ صحرائی آب و ہوا کے حامل علاقے کہلاتے ہیں۔ اس میں سندھ کا صحرا تھر، پنجاب کا چولستان، بہاولپور، رحیم یار خان، جیک آباد وغیرہ شامل ہیں ۔ نیم بارانی علاقوں میں سا لانہ بارش کی اوسط مقدار250 سے500 ملی میٹر ہے۔
فیصل آباد، گوجرانوالہ، لاہور، سرگودھا، شیخو پورہ، پشاور، مردان، وسطی اور شمال مغربی دئیر اور کوہاٹ وغیرہ ملک کے نیم بارانی علاقوں کے نمایاں شہر ہیں۔ ملک کا تین چوتھائی علاقہ 250 ملی میٹر سے کم بارش کا حامل ہے اور اس کا 20 فیصد 125 ملی میٹر سے بھی کم۔ جس کے سبب خشک سالی کا خطرہ ہر وقت پاکستان کی اکثریت کے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے ۔ زیادہ حساس علاقوں میں ہر 10 سال میں 2 یا 3 سال خشک سالی کے ہوتے ہیں ۔ پاکستان نے ماضی میں بہت سی خشک سالیوں کا سامنا کیا ہے۔ پنجاب نے 1899 اور 1920 اور1935 میں شدید خشک سالی کو جھیلا ۔ خیبرپختونخوا نے1902 اور1951 جبکہ سندھ نے 1871، 1881 ، 1899 ، 1931 ، 1947 اور1999 میں شدید خشک سالی کو برداشت کیا ۔
بلوچستان بھی خشک سالی کے واقعات کی ایک طویل فہرست کا حامل ہے۔ اور اس وقت بھی ملک کے کچھ حصے اور خصوصاً بلوچستا ن کافی حد تک خشک سالی کے زیرِ اثر ہیں۔ اس لئے بارشوں میں معمولی تبدیلی بھی ملک کے سماج اور معیشت پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ بارش خشک سالی کو دور کرنے کا بنیادی محرک ہے۔ ملک میں ہونے والی سالانہ بارش کا60 فیصد مون سون ( جولائی تا ستمبر) کے موسم میں ہوتا ہے۔
لیکن ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ سال ان بارشوں میں 23 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی۔ محکمہ موسمیات کی رپورٹ پاکستان مون سون 2017 رینفال اپ ڈیٹ کے مطابق جولائی تا ستمبر 2017 کے دوران میں ملک میں 108.8 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی جبکہ اوسط مقدار140.9 ملی میٹر کی ہے۔ اس عرصہ کے دوران گلگت بلتستان میں 14 فیصد، کشمیر میں31 فیصد ، بلوچستان میں 38 فیصد، سندھ میں 16 فیصد، خیبر پختونخوا میں18 اور پنجاب میں 21 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔
ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت میں ہونے والے اضافہ نے دنیا کے اکثر حصوں میں خشک سالی کے تواتر، دورانیہ اور شدت میں اضافہ کیا ہے اور بارشوں کے نظام کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔ پاکستان میں عالمی حدت کے منفی اثرات شدید موسمیاتی واقعات کی صورت میں دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک 1998 سے2001 کے دوران شدید خشک سالی کا شکار رہا ۔ اور 2010 ،2011 اور2012 میں شدید سیلاب کا سا منا رہا ۔ اور1960 سے 2007 تک ہیٹ ویو کے دورانیہ میں 31 دن کا اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے براہ راست متاثر ہیں۔
جرمن واچ نامی تھنک ٹینک کے گلوبل کلائمیٹ رسک انڈکس 2018 کے مطابق 1997 سے2016 تک دنیا کے دس ایسے ممالک جو سب سے زیادہ ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے قدرتی آفات کا شکار ہوئے ان میں پاکستان7 ویں نمبر پر ہے۔ عالمی حدت میں اضافہ کی ایک جھلک ملک کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ کی صورت میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ورلڈ بینک کے کلائمیٹ چینج نالج پورٹل کے اعدادوشمار کے تجز یہ کے مطابق پاکستان میں 1901 تا 1930 کے اوسط درجہ حرات اور 1991 تا2015 کے اوسط درجہ حرارت میں اعشاریہ نو (0.9 ) ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ اضافہ فروری کے مہینے کے اوسط درجہ حرارت میں ہوا جو ایک اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈ ہے۔ اس کے بعد نومبر اور دسمبر کے مہینے رہے جن میں ایک اعشاریہ چار سینٹی گریڈ فی کس اضافہ ہوا۔
جبکہ جولائی کے درجہ حرارت میں معمولی سی کمی واقع ہوئی جو منفی اعشاریہ ایک (-0.1) ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ جبکہ ملک کے درجہ حرارت میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ گیارویں پانچ سالہ منصوبے 2013-18 کے مطابق 2050 تک وطنِ عزیز کے اوسط درجہ حرات میں دو اعشاریہ پانچ سے دو اعشاریہ آٹھ ڈگری سنٹی گریڈ اضافہ ہو سکتا ہے۔
درجہ حرارت میں ہونے والے اضافہ کی وجہ سے پاکستان کے گلیشئرز کے پگھلنے کی رفتار قدرے تیزہے جس سے کچھ عرصہ تک ملکی دریاؤں میں اضافی پانی موجود رہے گا ۔( جس کی ابتدائی طور پر 20 فیصد اضافی مقدار کا اندازہ لگا یا گیا ہے ) جس کو بہتر استعمال میں لانے کے لئے پانی کی ذخیرہ گاہوں کی تعمیر ضروری ہے۔ اور جب یہ گلیشئرز پگھلتے پگھلتے کم ہو جائیں گے تو پھر ملک کے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوگی اور اُس وقت پانی کی ذخیرہ گاہوں کی اور زیادہ ضرورت ہوگی تاکہ بارش اور سیلاب کے پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔
2017 میں ملک میں ہونے والی مون سون کی بارشوں کی کم مقدار خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے جو ملک میں بارش کے نظام میں تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ کیونکہ گزشتہ دو تین سال سے ملک میں بارشوں کے دورانیہ میں کمی لیکن وقتی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب زیادہ موسلادھار تیز بارش کم وقفے میں ہونے کے مظاہر سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان میں بارش کی اوسط سالانہ مقدار1991 سے 2015 کے درمیان تین سو تیرہ اعشاریہ پانچ(313.5 ) ملی میٹر رہی جو 1901 سے1930 کی اوسط مقدار سے تیس اعشاریہ پانچ(30.5 ) ملی میٹر زیادہ ہے۔
ورلڈ بینک کے کلائمیٹ چینج نالج پورٹل کے تجزیہ کے مطابق اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ مقداری اضافہ اگست کے مہینے میں ہونے والی بارشوں میں ہوا جو سات اعشاریہ پانچ ملی میٹر ہے۔ دوسرا نمایاں اضافہ فروری کے مہینے میں ہونے والی بارشوں کی مقدار میں ہوا جو چھ اعشاریہ پانچ ملی میٹر ہے۔ جبکہ دسمبر میں ہونے والی بارشوں کی مقدار میں پانچ اعشاریہ چھ ملی میٹر اور جنوری کی بارشوں میں دو اعشاریہ سات ملی میٹر کمی واقع ہوئی ہے۔ موسمِ سرما کی یہ بارشیں( دسمبر تا مارچ) ویسٹرن ڈسٹربنس کے باعث ہوتی ہیں جن سے زیادہ تر بلوچستان اور سندھ فیضیاب ہوتے ہیں۔ ان کی اوسط مقدار1991 تا 2015 دسمبر کے مہینے میں گیارہ اعشاریہ سات ملی میٹر، جنوری میں بائیس اعشاریہ پانچ، فروری میں تیس اعشاریہ نو اورمارچ میں اکتیس اعشاریہ چھ ملی میٹر رہی۔ موسمِ سرما کی بارشیں بلوچستان کے لئے بہت اہم ہیں کیونکہ صوبے کا اکثریتی حصہ مون سون کی پہنچ سے باہر ہے۔
اور صوبہ میں پو رے سال اوسطً 210 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ صوبے کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت (باغبانی) اور مالداری پر ہے۔ لیکن کم بارشوں اور خشک سالی کے طویل دورانیوں نے صوبے کی زراعت کو شدید متاثر کیا ہے اور صوبے میں باغات کی بہت بڑی تعداد خشک سالی کی وجہ سے ویران زمینوں میں بدل چکی ہے اورزمینی فرسودگی کا وحشت ناک منظر پیش کر رہی ہیں۔
اسی طرح خشک سالی نے قدرتی چرا گاہوں پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں۔ بلو چستان میں مال مویشی کا زیادہ تر انحصار قدرتی چراگاہوں پر ہے۔ بھیڑ بکریاں اپنی خوراک کا 60 فیصد یہاں سے حاصل کر تی ہیں جبکہ صوبے کے لائیو سٹاک کی مجموعی ضرورت کی 90 فیصد خوراک یہ چرا گاہیں مہیا کر تی ہیں۔ بلوچستان پاکستان کے رقبہ کا تقریباً نصف ہے۔ اور صوبہ کا 60 فیصد رقبہ قدرتی چرا گاہوں پر مشتمل ہے۔ خشک سالی کے باعث بلوچستان کی یہ قدرتی چراگاہیں مال مویشی کے شدید دباؤ کی وجہ سے تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہی ہیں کیونکہ پاکستان کی31 فیصد بھیڑ بکریاں اور 41 فیصد اونٹ اس وقت بلوچستان میں ہیں۔
زمین کی فر سودگی کے بڑھتے ہوئے خطرات میں انسانی کار گزاریاں زیادہ سنگین نتائج مرتب کر رہی ہیں جن میں سر فہرست زمین کو درختوں کے زیور سے محروم کرنا ہے جس کے باعث موسموں میں تبدیلی واقع ہو نے سے قدرتی آفات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور کرہ ارض بنجر پن کی لپیٹ میں آرہا ہے۔ کیونکہ یہ درخت ہوا کی تیزی کو روکتے ہیں جس سے سطح زمین پر موجود زرخیز مٹی اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اور وہ اس مٹی کو جکڑکر رکھتے ہیں جس کے باعث یہ مٹی بارشوں میں سیلابی پانی کے ساتھ بہہ نہیں جاتی۔ درخت درجہحرارت میں کمی کا باعث بنتے ہیں اور دھوپ کی شدت کو زمین پر براہ راست پڑنے سے روکتے ہیں۔
جس سے سطح زمین پر موجود پانی زیادہ تیزی سے بخارات بن کر فضاء میں نہیں اڑتا۔ درخت زیر زمین پانی کو تواتر میں رکھنے اور ری چارج کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر فضاء میں نمی کی مقدار کو قائم رکھنے اور بارشوں کا باعث بننے میں اُن کے کردار سے انکار ممکن نہیں جبکہ فضاء میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنا اور آکسیجن کا اخراج درختوں کے ماحول دوست کردار کی نمایاں خاصیت ہے لیکن صد افسوس درختوں کے بے شمار فوائد کے باوجود صورتحال اس کے بر عکس ہے اور درختوں کو جس بے دردی سے کا ٹا جا رہا ہے اس کا اندازہ پاکستان کے حوالے سے یوں لگا یا جا سکتا ہے۔ گیارویں پانچ سالہ منصوبہ 2013-18 کے مطابق’’ ملک میں سالانہ لکڑی کی ضرورت 43 ملین مکعب میٹر ہے جبکہ پیداوار صرف چودہ اعشاریہ چار(14.4 )ملین مکعب میٹر ہے‘‘۔ طلب اور رسد کے اس فرق کو غیر قانونی شجر کٹائی سے پورا کیا جاتا ہے۔
ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو طاہر رشید جو ملک کے ماحولیاتی شعبہ میں کام کرنے کا بہت وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’ پاکستان اس وقت ڈیزرٹیفیکیشن کے شدید خطرے سے دوچار ہے اور ہم اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ہم نے فوری طور پر اس کی روک تھام کے حوالے سے عملی کوششیں نہ کیں تو پھر اس کے بعد صرف تنزلی ہی تنزلی ہوگی۔ کیونکہ ہم نے جس رفتار سے اپنی زمین پر سے جنگلات کا صفایا کیا ہے ۔ اُس کا حاصل یہ ہے کہ اب ملک کے صرف ایک اعشاریہ نو فیصد رقبہ پر جنگلات باقی بچے ہیں جو کبھی 5 فیصد رقبہ پر ہوا کر تے تھے۔
میں آپ کو بتاؤں کہ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق 1990 سے2015 تک کے عرصے میں پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کی شرح دو اعشاریہ ایک فیصد سالانہ رہی جو جنوب ایشیا میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ جب ہم اتنی بے رحمی سے زمین کو بے شجر کریں گے تو اس سے ہمارے دیگرقدرتی وسائل مثلاً ہوا، پانی اور زمین بھی متاثر ہوں گے کیونکہ پھر برساتی پانی تیزی سے بہے گا، زمین کو کاٹے گا ، اپنے ساتھ مٹی لائے گا۔ تیز ہوا ئیں میدانوں کی سطح پر موجود زرخیز مٹی کو اپنے ساتھ اڑا لے جائیں گی اور با لآخر زمین تنزلی کا شکار ہوتے ہوتے بنجر اور صحرا کا روپ اختیار کر لے گی۔ اس کے علاوہ جب ہم زمین کو درختوںسے محروم کرتے ہیں تو عموماً اُس زمین کو ویسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے اور تیزی سے تبدیل ہوتے ماحولیاتی عوامل اُس زرخیز زمین کو فرسودگی کا شکار کر دیتے ہیں۔
اور جب زمین مکمل طور پر ڈیزرٹیفیکیشن کا شکار ہو جائے تو پھر اس کی بحالی ایک مشکل کام ہوتا ہے جس کے لئے بہت زیادہ وسائل درکار ہوتے ہیں‘‘۔ تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں طاہر رشید کا کہنا تھا ’’ دیکھیں ڈیزرٹیفیکیشن کے بہت سے عوامل ہیں لیکن اکثریت کا تعلق چونکہ جنگلات سے ہے اس لئے ہمیں جنگی بنیادوں پر اپنے جنگلات کے زیر سایہ رقبہ میں ناصرف اضافہ کرنا ہوگا بلکہ پہلے سے موجود جنگلات کی بھی حفاظت کرنا ہو گی۔ اس حوالے سے ملک گیر مہموں کی ضرورت ہے۔ اور اُن علاقو ںپر ہمیں زیادہ توجہ دینا ہوگی جو ڈیزرٹیفیکیشن کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ قدرتی چراگاہوں کا پائیدار استعمال، قدرتی پودوں کی افزائش اور تحفظ، زرعی رقبوں پر شجر کاری کی حوصلہ افزائی اور واٹر شیڈ پر مبنی علاقوں کی بقاء کے لئے کام کرنا ہوگا، یہ اقدامات ڈیزرٹیفیکیشن کے آگے ایک موثر ڈھال کے طور پر کام کریں گے ‘‘۔ اس تمام تناظر میں ہو کیا رہا ہے؟ اس بارے میں طاہر رشید کا کہنا تھا ’’ قومی اور صوبائی سطح پر شجر کاری کے کئی ایک اقدامات کئے گئے ہیں۔
مثلاً گرین پاکستان پروگرام، ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی اور بلین ٹری سونامی منصوبے ملک میں جنگلات کے فروغ میں اہم ثابت ہو رہے ہیں۔ خصوصاً ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کے تحت جنوبی پنجاب کے اُن علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں زمین اس وقت نباتاتی غلاف سے محروم ہے۔ جس کی وجہ وہ ڈیزرٹیفیکیشن کا شکار ہو سکتی ہے۔ کمپنی کے پاس جنوبی پنجاب کے 2 سول ڈویژن کے6 اضلاع ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں حکومت پنجاب کا فراہم کردہ ایک لاکھ 34 ہزار 9 سو95 ایکڑ رقبہ موجود ہے جس پر کمرشل فارسٹری کے ذریعے شجر کاری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
جس سے نا صرف علاقے کے ماحول میں بہتری آئیگی اور زمینیں ڈیزرٹیفیکیشن کا شکار ہو نے سے محفوظ رہیں گی بلکہ اس سے ملکی معیشت میں 240 ارب روپے شامل اور حکومتی آمدن میں 20 ارب روپے کا اضافہ ہوگا اور15ہزار نئی ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہوں گے جو جنوبی پنجاب کے ان اضلاع میں غربت میں کمی میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑا فائدہ 35 ملین ٹن کاربن کی ضبطی کی صورت میں بھی سامنے آئے گا۔ یہاں یہ بات میں خصوصی طور پر کہوں گا کہ ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کا قیام ڈیزرٹیفیکیشن پر قابو پانے، ماحولیاتی تبدیلی میں تخفیف کرنے اور حیاتیاتی تنوع کی حفاظت سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کی جانب ہمارا ایک مثبت قدم ہے جو اقوامِ متحدہ کے ڈیزرٹیفیکیشن پر قابو پانے کے کنونشن کے تحت پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان میں اعانت فراہم کرے گا‘‘۔
درختوں کو کاٹنے سے زمین ایسی صورت اختیار کر لیتی ہے جس سے اس پر برسنے والا پانی اپنے ساتھ مٹی بہہ کر لے جاتا ہے جس سے ایک طرف تو زمین کی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے تو دوسری طرف دریا گندے اور ڈیم مٹی سے بھر جاتے ہیں۔ اور پانی کا ترسیلی نظام بھی اپنی پوری استطاعت کے مطابق کام نہیں کر تا ۔جرنل آف انوائر منٹل ٹریٹمنٹ ٹیکنیکس میں چھپنے والے تحقیقی مقالہ ’’ ڈیزرٹیفیکیشن اِن پاکستان چیلنجز اینڈ اپرچیونٹیز‘‘ کے مطابق ہر سال 4 کروڑ ٹن مٹی دریائے سندھ میں بارش اور سیلاب کے پانی کے ساتھ بہہ کر آتی ہے۔ دریاؤں کے کیچمنٹ ایریاز سے بہہ کر آنے والی اس مٹی سے پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے دو اہم ذخائر تربیلا اور منگلا پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والی مٹی کی وجہ سے تیزی سے انحطا ط کا شکار ہو رہے ہیں۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے مطابق’’ تربیلا میں ہر سال ایک لاکھ10 ہزار ایکڑ فٹ اور منگلا میں 60 ہزار ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو رہی ہے‘‘۔ اور اس پر سرحد پار سے آنے والے ہمارے دریاؤں پر بھارت کا تیزی سے متنازعہ ڈیمز تعمیر کرنے کی روش پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کا نشانہ بنا تے ہوئے مزید بنجر پن کا شکارکر رہی ہے جو خطے کے امن کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
اور یہ تمام صورتحال پاکستان میں نئی آبی ذخیرہ گاہوں کی ضرورت کو دو چند کر رہی ہے لیکن فی الوقت ملک میں پانی کے کم ذخیرہ کا مطلب ہے کہ کم پانی کی دستیابی، جبکہ اس کے برعکس ہماری آبادی میں اضافہ ہے کہ قابو میں ہی نہیں آ رہا۔ جن کے لئے اضافی خوراک اور پینے کے اضافی پانی کی ضرورت ہے جسے فی الحال زیر زمین پانی سے پورا کیا جا رہا ہے لیکن جب سطح زمین سے پانی کا ری چارج کم ہو گا تو یہ سہارا بھی آخر کب تک ساتھ دے گا؟ اس وقت ملک میں سالانہ پچاس اعشاریہ دو (50.2 ) ملین ایکڑ فٹ پانی زیر زمین ذخائر سے حاصل کیا جا رہا ہے جو 1976 میں نکالے جانے والے زیر زمین پانی کی مقدار پچیس اعشاریہ چھ (25.6 )ملین ایکڑ فٹ سے دگنا ہے۔
زیر زمین پانی کے ری چارج کی اس وقت ملک کے تمام شدید بارانی، بارانی اور نیم بارانی علاقوں کو ضرورت ہے لیکن ہمارے نہری نظام سے ملحقہ بعض علاقوںچاہے و ہ بارانی ہوں یا نیم بارانی ان کو اس کی با لکل ضرورت نہیں کیونکہ وہ زمینی فر سودگی کی ایک اور وجہ سیم و تھور کا شکار ہیں جو کہ ہمارے آبپاشی کے نظام میں موجود خرابیوں کی وجہ سے رسنے والے پانی کی دین ہے۔ اس وقت ملک کا 11 ملین ہیکٹر رقبہ سیم اور2.8 ملین تھور کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ دس لاکھ ہیکٹر پانی کے کٹاؤ سے متاثر ہے جبکہ تین کروڑ 50 لاکھ ہیکٹر ہوا کے کٹاؤ کا شکار ہے۔
ہوا کے اس کٹاؤ کے باعث سطح زمین کی 28 فیصد مٹی اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے۔ ہوائی کٹاؤ زیادہ تر ملک کے بارانی اور صحرائی علاقوں کا سنگین مسئلہ ہے۔ ہوائی کٹاؤ کا مسئلہ اس وقت صحرائے تھل، چولستان، تھر پارکر اور مکران کے ساحلی علاقوں میں نہایت سنگین ہے جس کی وجوہات میں مویشیوں کی تعداد میں اضافہ اور بے دریغ چرائی، نیز ایندھن کے لئے جھاڑیوں اور جھاڑی دار درختوں کا صفایا ہے جس کے باعث زمین پر سے سبزے کی روئیدگی کم ہو رہی ہے اور زمینی غلاف پر نباتات و جھاڑیوں کی گرفت ختم ہونے سے ہوا کے کٹاؤ میں شدت آتی جا رہی ہے۔
ہوا اپنے ساتھ گرد کے طوفان لئے انسانی آبادیوں اور کھیتوں پر دھول کی بارش کا موجب بنتی ہے جو زرعی پیداوار کیلئے نقصان دہ تو ہے ہی لیکن انسانی آبادی بھی اس دھول والی ہوا کی وجہ سے سانس کی بیماریوں، آنکھ کے انفیکشن اور جلدی عوارض کا سامنا کرتی ہے کیونکہ دو اعشاریہ پانچ (2.5 ) لینھ آف میٹر سے کم سائز کی گرد کے ذرات سانس کے ذریعے اندر جانے سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ وادی کوئٹہ بھی کافی عر صہ سے ایسی گرد آلود ہواؤں کی لپیٹ میں اکثر آجا تی ہے۔ اس کے علاوہ ہوا کے کٹاؤ کا شکار ہماری قدرتی چراگاہیں بھی ہیں جو گیارویں پانچ سالہ منصوبہ کے مطابق ملک کے زمینی رقبے کے 66 فیصدحصے پر مشتمل ہیں اورایک کروڑ 50 لاکھ افراد کو زندگی کی بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ دودھ اور گوشت کا بنیادی ماخذ ہیں ۔ یہ چراگاہیں زیادہ تر ملک کے بارانی علاقوں میں ہیں جہاں ہونے والی بارش کی مقدار پہلے ہی بہت محدود ہے۔
جس کی وجہ سے یہ زمینیں کسی بھی مو سمی تبدیلی کی وجہ سے مال مویشیوں کی خوراک کی مکمل ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو جاتی ہیں۔ اور حالات یہ ہیں کہ اکثر علاقوں میں گلہ بانوں کی جانب سے گلہ بانی کے روایتی اور قدرتی نظام سے مطابقت رکھنے والے طریقہ کار کو پسِ پشت ڈالا جا چکا ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جانور موسمی سختی کو سہتی ان چراگا ہوں کی جھاڑیوں اور پودوں کا مکمل صفا یا کر رہے ہیں مثلاً بلو چستان ہی کی مثال کو لے لیں۔
روایتی طور پر بلوچستان کے چرواہوں میں صدیوں سے چرائی کے لئے ایک روایتی طریقہ ’’ پر گوڑھ‘‘ مروج تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی جگہ پر جانوروں کو نہ چرایا جائے بلکہ انہیں ادھر اُدھر لے جا یا جائے تاکہ کوئی جگہ جھاڑیوں اور پودوں سے یکسر محروم نہ ہو جائے۔ اس روایتی طریقے میں چراگا ہوں کی بقا تھی لیکن گلہ بانوں نے اسے رفتہ رفتہ ترک کر دیا ہے۔ اب گلہ بان قبائل یا خاندان کسی ایک سر سبز جگہ مقیم ہو جاتے ہیں۔ چرائی کے قابل زمین مختلف خاندانوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ جو اپنے اپنے حصے میں مویشی چراتے ہیں۔ اس طرح حد سے زیادہ پڑنے والا یہ دباؤ اس زمین کو نباتات، جھاڑیوں اور سبزے سے محروم کر دیتا ہے۔ اس طرح زمین کی پیداواری صلاحیت تیزی سے کم ہونے لگتی ہے اور قا بلِ تجدید اس قدرتی وسیلے کو بہ آسانی پنپنے کا موقع نہیں مل پاتا جس سے زمینی فرسودگی کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
یہ تمام صورتحال اس امر کی جانب متوجہ کر رہی ہے کہ اگر ہم نے اب بھی سنجیدگی سے بہتری کے اقدامات نہ کئے تو آنے والے وقتوں میں یہ صورتحال ایک سنگین خطرے کی طور پر ہمیں شدید متاثر کر سکتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں قدرت کے نظام میں مداخلت کی بجائے اس کے ساتھ ہم آہنگی کا راستہ اپنا نا ہوگا یعنی ماحول دوست طرز عمل میں ہی بقائے حیات ہے۔
The post خطرے کی گھنٹی کی بازگشت سنو۔۔۔ آدھا پاکستان ڈیزرٹیفیکیشن کا شکار appeared first on ایکسپریس اردو.