دنیا میں بچوں سے مشقت کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن جب تک دنیا میں دیہی آبادی کا تناسب 90 فیصد تک رہا اور جب دنیا نے صنعتی ترقی نہیں کی تھی اُس وقت تک کم ازکم آزادکسانوں کی اولادیں اگرچہ اپنے والدین کے ساتھ کھیتوں اور باغات میں آج کی طرح مشقت کرتی تھیں مگر یہ مشقت جبری نہیں تھی ہاں یہ ضرور تھا کہ غلام داری کے زمانے تک غلام کا بچہ بھی پیدائشی طور پر اپنے ماں باپ کی طرح اسی مالک کا غلام ہوا کرتا تھا جس کے غلام اس کے والدین ہوتے، ایسے غلام بچوں کے ساتھ ایسا ہی ظالمانہ سلوک ہوتا تھا ، لیکن 16ویں صد ی عیسوی میں یورپ میں صنعتی ترقی کے ساتھ ایک جانب سرمایہ دارانہ نظام اسٹاک ایکسچینج اور سنٹرل بنکنگ کے ساتھ متعارف ہوا تو دوسری طرف ان یورپی ممالک نے اپنی سائنسی اور تکنیکی برتری اور قوت کے بل بوتے پر پوری دنیا پر نوآبادیاتی نظام کے شکنجے مضبوط کردئے۔
یہ دنیا کی تاریخ کا بدترین نظام تھا جب ایک جانب پوری دنیا میں ایشیا، افریقہ ، امریکہ اور لاطینی امریکہ میں کروڑوںلوگوں اور ان کے بچوں سے خام مال کوڑیوں کے بھاؤ لے جاتے اور پھر اس سے بننے والی مصنوعات کو انہی ملکوں میں کئی گنا زیادہ منافع پر فروخت کرتے تو دوسری جانب ان یورپی ممالک میں بھی غریب امیر کے درمیان ظالمانہ خلیج تھی۔
ان کے کا رخانوں میں مزدور کے ساتھ مزدور کے بچے بھی کام کرتے تھے اور ان کے کام کی جگہ اور کام کی نوعیت بہت ہی خطرناک تھی۔ انیسویں صدی سے بیسویں صد ی کے وسط تک یہ وہ دور تھا جب کارخانوں میں ایندھن کے لئے معدنی کوئلہ استعما ل ہوتا تھا اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے علاوہ دوسری صنعتوں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں آٹھ اور دس برس عمر تک کے بچوں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور ان کی اکثریت کو جوانی دیکھنا نصیب نہ ہوتی تھی۔
ٹی بی، دمہ، سانس اور سینے کی بیماریوں کے علاوہ اور کئی مہلک اور اذیت ناک بیماریوں میں مبتلا ہو کر اگر یہ موت سے فور ی طور پر بچ جاتے تو پھر بعد میں کئی برس سسک سسک کر مرتے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں جہاں انسانی تاریخ میں ظلم و جبر ملتا ہے وہاں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے بھی انسان ہوتے ہیں جو بہت ہمت ، جرات ، صداقت اور عزم کے ساتھ اپنی جد وجہد کو جاری رکھتے ہیں۔ 1800 ء کی پہلی دہائی تک برطانیہ میں 20 لاکھ بچوں سے ہفتہ وار 50 سے 70 گھنٹے مشقت لی جاتی تھی، ان کی اکثریت ٹیکسٹائل کی صنعت میں کام کرتی تھی۔ یوں ان کے لیے جدوجہد شروع ہوئی، مشقت کرنے والے بچوں کے لیے جد وجہد کرنے والوں میںمذہبی پیشوا، اساتذہ اور مزدور رہنما اور ادیب شاعر دانشور شامل تھے۔
یہ وہی دور ہے جب مشہور انگریز ناول نگار چارلس ڈکن نے بچوں کی مشقت کے خلاف انسانی سماجی شعور بیدار کرنے لیے ناول لکھے، جن میں مشہور ناول،،Oliver Twist ،، بھی شامل ہے ، یہ اس عہد میں بچوں کی جابرانہ مشقت کی عکاسی کرتا ہے۔ یوں اس دور میں اس جدوجہد کے نتیجے میں برطانیہ میں کچھ قوانین بنائے گئے جن میں اہم 1802 اور1809 ء کے دو فیکٹری ایکٹ شامل ہیں۔ برطانیہ کی مقننہ سے منظور ہونے کے بعد ان کی وجہ سے بچوں کی مشقت کے گھنٹوں میں کچھ کمی کی گئی، لیکن اس پر بھی عملی طور بہت کم عملدرآمدہوا اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ اسی دور میں عالمی سطح پر اس وقت کی نو آبادیاتی قوتوں کے در میان کشا کش رہی لیکن ان ملکوں میں بچوں کی مشقت کے اعتبار سے ظلم وستم جاری رہا۔ 1900 ء میں برطانیہ کی کل افرادی قوت کا 18% بچوں پر مشتمل تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہی1914 ء سے1918 ء تک ء پہلی جنگ عظیم جاری رہی اگر چہ اس جنگ کے بعد دنیا میں پہلی مرتبہ عالمی سطح پر اقوام عالم ’’لیگ آف نیشن ‘‘ بنائی گئی لیکن یہ ادارہ بھی دنیا میں بچوں کی مشقت کی روک تھام کے لیے ناکام رہا۔
دوسری جانب پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر پوری دنیا کا سیاسی اقتصادی منظرنامہ بلکہ نقشہ تبدیل ہونے لگا۔ اس جنگ سے ایک سال پہلے1917 ء میں روس میں اشتراکی انقلاب آیا اور زارشاہی خاندان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا، دنیا سے اسلامی خلافت سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور اگرچہ جنگ عظیم اول میں اتحادیوں میں برطانیہ فاتح ہوا لیکن وہ اب دنیا کی سپر پاور نہیں رہا اور اس کی جگہ جنگ کے آخری دنوں میں شامل ہونے والا امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا، اس جنگ کے بعد فرانس کے وارسائی محل میں شکست خوردہ جرمنی سے ذلت آمیز معاہدہ ِ وارسائی پر دستخط کروائے ۔ ماہرین نے اسی وقت یہ واضح کردیا کہ معاہدہ میں دوسری جنگ عظیم کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔
اور اسی کے ساتھ 1930 ء میں ہی جنگ عظیم اول کے اثرات کی وجہ ہی سے عالمی کساد بازاری دنیا پر چھا گئی۔ اس سے پوری دنیا مالیاتی اقتصادی طور پر شدید انداز سے متاثر ہوئی اور ترقی یافتہ ملکوں میں مہنگا ئی،افراط زر اور بیروزگاری کے شدید مسائل ابھرے۔ دوسری جنگ عظیم سے ایک برس پہلے 1938 ء میں برطانیہ میں د ی فیئر لیبر اسٹینڈر ایکٹ آف 1938 ء The Fair Laber Stander Act جاری ہوا، لیکن جب 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی تو پھر ہر چیز پس منظر میں چلی گئی، لیکن جب 1945ء میں جنگ عظیم ختم ہوگئی تو فورا ہی اقوام متحدہ UNO کا ادارہ تشکیل پا یا اور پھر پوری دنیا میں انسانی حقوق کے ساتھ ہی خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے عالمی سطح پر کامیاب کوششیں ہونے لگیں۔ ایسی پہلی بڑی اور کامیاب کوشش 20 نومبر 1959 ء کو ہوئی جب اقوام متحدہ نے بچوں کے حقو ق کا ڈکلیریشن منظور کیا۔
اس زمانے میں دوسری جنگ عظیم سے تباہ شدہ یورپ اور جاپان کی تعمیر نو کا عمل مکمل ہوا اور یہاں تیز رفتار صنعتی ترقی شروع ہوئی مگر یہاں پر بچوں کی مشقت پر اب کنٹرول کرلیا گیا اور ساتھ ہی دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں بھی حکومتوں کو تحریک دی جانے لگی کہ وہ بھی اپنے ملکوں میں بچوں کی مشقت کی حوصلہ شکنی کریں پھر 20نومبر 1989 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کنونشن آن دی رائٹس آف چائلڈ منعقد کیا اور اس پر پاکستان سمیت اقوام متحدہ کے بیشتر رکن ممالک نے دستخط کئے، اس کنوینشن کے بعد ہمارے ہاں بھی نہ صرف حکومتی اداروں کی جانب سے بچوں سے مشقت لینے والے صنعتی اداروں کارخانوں ،فیکٹریوں کے خلاف کاروائیاں شروع ہوئیں بلکہ ہمارے ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی اس سلسلے میں سماجی شعور کی سطح کو بلند کرنے کے لیے کام کیا۔
ہمارے ہاں حکومتی پالیسیوں کے اعتبار سے برصغیر کی تقسیم سے پہلے 1934 ء کا فیکٹریز ایکٹ آیا جس میں بچوں کی مشقت کے مسئلے پر بھی توجہ دی گئی تھی۔ 1969ء میں ویسٹ پاکستان شاپز اسٹبلائز کا قانون آیا، پھر 1991ء دی ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ نافذالعمل ہوا ۔ 1992 ء میں دی باؤنڈڈ لیبر سسٹم ابولیشن ایکٹ بنایا گیا، اور 1994 ء میں دی پنجاب کمپلسری ایجو کیشن ایکٹ سامنے آیا جب کہ 1991 ء میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے 1990 ء کی دہائی کے اعتبار سے کہا کہ اس دہائی میں 11 ملین یعنی ایک کروڑ 10 لاکھ بچے مشقت کرتے تھے اور ان میں سے نصف بچوں کی عمریں 10 سال سے زیادہ نہیں تھیں۔
اسی طرح گلو بل فوڈ سکیورٹی انڈکس میں پاکستان پانچسالہ کم وزن بچوں کے اعتبار سے 109ملکوں کی فہرست میں 78 ویں نمبر پرتھا، یہ بچے غربت اور کم خوراکی کی وجہ سے پیدائشی طور پر کمزور ہوتے ہیں اور انہی میں سے بہت سوں کو کم عمری ہی میں مشقت بھی کرنی پڑتی ہے۔ 1996 ء کے مطابق پاکستان کی آبادی میں 49% بچے تھے جن کی مجموعی تعداد 4 چار کروڑ تھی اور ان میں سے 33 لاکھ بچے مشقت کرتے تھے۔ ان بچوں میں سے 73% یعنی 24 لاکھ لڑکے اور 27% یعنی 9 لاکھ لڑکیاں تھیں۔ صوبوں کے لحاظ سے ان کی تقسیم یوں تھی کہ پنجاب کے 19 لاکھ بچے تھے، خیبر پختونخوا کے 10 لاکھ ، سندھ کے 298000 بچے اور بلوچستان کے 14000 بچے تھے۔
معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق ہماری معاشی ترقی پیداواری صلاحیتوں کے ساتھ قیام پاکستان سے اسی کی دہائی تک مستحکم اور متوازن رہی اور پھر 1987 ء کے بعد بتدریج بحرانوں کا شکار ہوتی گئی اور ملک میں بے روزگار ی اور غربت میں متواتر اضافہ ہوتا رہا۔ اگرچہ اس دوران پاکستان میں بچوں کی مشقت سے متعلق مختلف اعداد وشمار کی بنیاد پر رپورٹیں سامنے آئیں لیکن ان سب میں ایک بنیادی بات یکساں تھی کہ ہمارے ہاں بچوں کی مشقت کے رجحان میں قدرے اضافہ ہوا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ بچوں کی مشقت کو روکنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کئے گئے مگر دوسری جانب بچوں کی مشقت کے لحاظ سے شعبے مختلف ہوئے مثلا اسی کی دہائی تک کچرا چننے والے بچوں کی تعداد آج کے مقابلے میں دس گنا کم تھی۔
اسی طرح گھروں میں چھوٹے معصوم بچوں سے مشقت لینے کا رجحان بہت ہی کم تھا، اور پھر ہوم بیس ورکرز جن کا تعلق ویسے تو باقاعد ہ انڈسٹری سے ہے مگر ان کی نہ تو رجسڑیشن کی جاتی اور نہ ہی گھر وں میں جاکر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اس اعتبار سے یہاں بچوں سے مشقت لی جاتی ہے یا نہیں ،کیو نکہ ہوم بیس ورکرز سمال انڈسٹری یعنی چھوٹی صنعتوں سے وابستہ ہوتے ہیں اور عموما خواتین کارخانوں فیکٹریوں سے پیکنگ کا اور دوسرا سامان گھر لے آتی ہیں بلکہ اب تو خود فیکٹریوں اور کارخانے والے ان ہوم بیسڈ ورکرز کے گھروں میں سامال پہنچا دیتے ہیں، اور مقررہ وقت میں تیاری کے بعد یہ مصنوعات لے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں مشقت کرنے والے بچوں کے اعداد وشمار مختلف سروے میں مختلف ہی ر ہے۔
2000 ء سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے UNDP کے تحت ترقی پذیر ممالک میں انسانی سماجی ترقی کے لیے صحت ، تعلیم کے شعبوں میں خصوصا بچوں کی طرف تو جہ دیتے ہو ئے 2001 ء تا 2010 ء میلینیم ڈیو یلپمنٹ گولز کے لحاظ سے ایک پروگرام شروع کیا گیا اور یہ طے کیا گیا تھا کہ یہ اہداف ان دس برسوں میں حاصل کر لیے جائیں گے مگر ایسا نہ ہوسکا تو اس کے بعد اب اسی پروگرام میں توسیع کرتے ہوئے اسے sustainable development goals کا نام دیا گیا ہے اور ترقی پذیر ممالک میں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ان اہداف کو 2030 ء تک حاصل کرلیا جائے ۔
اس کے تحت غربت میں کمی ، خواندگی کی شرح میں اضافہ ، زچہ بچہ کی صحت میں بہتری کے ساتھ بچوں سے مشقت لینے کے ظالمانہ عمل کو بھی ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں،جب ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز کا آغاز ہوا تھا تو اس کے ایک سال بعد ہی انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل Juan Somavia نے 12 جون 2002 ء کو بچوں کی مشقت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر یہ بتا یا تھا کہ اُس وقت دنیا بھر میں مشقت کرنے والے بچوں کی مجموعی تعداد 215 ملین یعنی 21 کروڑ 50 لاکھ ہے۔ ہمارے ہاں اگرچہ 1996ء میں سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے بچوں کی مشقت کے مسئلے پر توجہ دی تھی اور اسی طرح 1998 ء میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دور کے وفاقی وزیر شیخ رشید نے اسی سال جنوری میں بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لیے چار نکاتی پالیسی ڈرافٹ کروا کر اسے نافذالعمل کرنے کا اعلان بھی کیا، پھر 2002 ء سے 2005 ء میں بھی بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لیے بہت اقدامات کئے گئے لیکن ہمارے ہاں اس مسئلے کا خاتمہ نہیں ہوا۔ البتہ اس ظالمانہ مسئلے کی شکل بہت حد تک بدل گئی۔
جون 2016 ء میں چائلڈ رائٹس موومنٹ کے مطابق پاکستان میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ 25 لاکھ تھی جن میں سے 85 لاکھ 20 ہزار ہوم بیس ورکرز تھے اور ان میں دس سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 60 لا کھ تھی۔ ایک اور رپورٹ میں بتا یا گیا کہ آئی ایل اوکے مطابق اس وقت دنیا میں 85 ملین بچے برے حالات اور ماحول میں کام کر رہے ہیں اور سالانہ 22000 مشقت کرنے والے بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس زمانے میں سندھ نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی سطح پرقانون سازی کرتے ہوئے چودہ سال سے کم عمر بچوں سے خطرناک انداز کی مشقت لینے پر جرمانے کی حد کو 50 ہزار روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کر دیا اور سزا کی مدت تین سال کردی۔
14 نومبر2017 ء کو انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ڈائر یکٹر جنرلGuy Ryder,, ،، گائے ریڈر IV نے گلوبل بچوں کی مشقت کے خاتمے کی کانفرنس میں بتایا کہ اس وقت دنیا بھر میں مشقت کرنے والے بچوں کی مجموعی تعداد 152 ملین یعنی 15 کروڑ 20 لاکھ ہے اور ان میں سے 10% شدید نوعیت کی مشقت کرتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ اقوام متحدہ کا ہدف 8.7 ۔ 2030 ء کے ایجنڈے کے تحت 2025 ء تک دنیا بھر میں بچوں کی ہر طرح کی مشقت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔
آئی ایل او کے مطابق 2 کروڑ 50 لاکھ بچوں سے اس وقت دنیا میں سخت مشقت لی جاتی ہے جو انتہائی غیر انسانی سلوک ہے۔ بچوں کی مشقت کے اعتبار سے اس وقت پاکستان دنیا کے سر فہرست ملکوں میں سے ہے، اور یہاں بچوں کی مشقت کے مسائل بھی مختلف نوعیت کے ہیں۔ اس ملک کی آبادی پہلی مردم شماری1951 ء کے مطابق 3 کروڑ 30 لاکھ تھی جو 2017 ء کی چھٹی مردم شماری میں 21 کروڑ سے زیادہ ہے اورا یشین ڈیویلپمنٹ بنک کے مطابق اس وقت ملک میں غربت کی لیکر سے نیچے 29.30 فیصد افراد زندگی گزار رہے ہیں، چائلڈ رائٹس موومنٹ کے مطابق 1 کروڑ 25 لاکھ بچے مشقت کرتے ہیں،9 مارچ 2017 ء کی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق 5 سال سے 16 سال تک کی عمروں کے سکول جانے والے 44 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں جن کی مجموعی تعداد 2 کروڑ 26 لاکھ ہے۔
اگرچہ بعض ماہرین آج غربت کی شرح کو گذشتہ دو تین سال پہلے کی شرح سے کہیں کم قرار دیتے ہیں لیکن اگرغربت کی شرح تناسب 29.30 % بھی تسلیم کرلی جائے یہ بڑے مسائل یعنی بچوں کی مشقت، اسکول جانے کی عمروں کے بچوںمیں بڑھتی ہوئی نا خواندگی،آبادی میں تیز ی سے اضافہ ،غربت میں اضافہ،مہنگائی اور بے روز گاری،ملکی اقتصادی ترقی میں جمود ، برآمدات کے مقابلے میں در آمدات میں اضافہ ، روپے کی قدر میں کمی اور ان کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں بچوں کی مشقت کی روک تھام میں نئے رجحانات کی وجہ سے مشکلات، اس وقت عام بازاروں ، ریستورانوں ، ہوٹلوں اور دکانوں میں کام کرنے والے بچوں کے مقابلے میں گھروں میں کام کرنے والے بچوں یا پھر ہیوم بیسڈ ورکرز میں بچوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے اور بچوں کے اس استحصال تک حکومتی اہلکاروں کا پہنچنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ آج سے بیس پچیس برس پہلے امیر گھرانوں میں ملازمین خصوصا ملازمہ رکھنے کا رواج ہو تا تھا اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو جو سر کاری رہائش گاہیں ملتی تھیں ان کے ساتھ سرونٹ کوارٹر ہوا کرتے تھے۔
یوں ایسے گھرانے اپنے گھروں میں مستقل ملازمین اور ملاز مہ رکھ لیتے تھے۔ یہ رجحان اب بھی اوُنچی سطح کے گھرانوں میں ہے جہاں ان ملازمین کے لیے بنگلوں ،حویلیوں اورکوٹھیوں کے احاطوں ہی میں ان ملازمین کے لیے مکا نات بنے ہوئے ہیں لیکن بعد میں صورت حال مختلف ہوگئی۔ اب عام سرکاری ملازمین اور پرائیویٹ شعبوں کے ملازمین جنکی تنخواہیں اگر ستر اسی ہزار سے زیادہ ہیں تو وہ اپنے گھر وں میں غریب گھرانوں کے بچوں کو چوبیس گھنٹوں کی ملازمت کے اعتبار سے رکھ لیتے ہیں، ان کی ماہانہ تنخواہیں بھی دو سے چار ہزار روپے ہوتی ہیں جو ان بچوں کے والدین ہر مہینے آکر وصول کر لیتے ہیں۔
یہ بچے گھروں میں دن رات مشقت کرتے ہیں ،گھر کا بچا کچا کھا لیتے ہیں اور رات کو اسٹور یا کسی چھوٹی سی کوٹھری میں سو جا تے ہیں۔ یہ لاہور ،کراچی ، فیصل آباد ، حیدرآباد ،کوئٹہ ، پشاور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے لاکھوں گھروں میں کام کرتے ہیں اور اب یہ رجحان اتنا بڑھ گیا ہے کہ تین ، چار اور پانچ مرلے کے مکانات میں بھی ایسے بچے ملاز م ہیں اور ان بچوں میں سے 90% دس برس کی عمروں سے کم ہیں کیونکہ ان گھرانوں میں متوسط طبقے کے خاندان رہائش رکھتے ہیں اور ان کی بیگمات گھریلو کاموں کی محنت سے بچنے کے لیے ان بچوں کی مشقت کو سستے داموں خرید لیتی ہیں اور دس برس کی عمروں کے ان بچے، بچیوںسے ان کی معصومیت سے ان کو کسی طرح کا گھریلو خوف اور خطرہ نہیں ہوتا، اس لیے ان کو اپنے گھروں میں ساتھ ہی رکھا جاتا ہے مگر دیکھنے میں یہ آ یا کہ جب بھی میاں بیوی کی لڑائی ہو تو کسی نہ کسی اعتبار سے ان کا غصہ پُر تشدد انداز میں ان معصوم بچوں پر اتارا جا تا ہے، اور جب کھبی کبھا ر یہ تشدد حد سے بڑھ جائے اور بچے زیادہ مجروح ہو جائیں تو ایسی رپورٹیں بھی میڈیا میں آجاتی ہیں جب کوئی معصوم بچہ یا بچی معذور ہو جاتی ہے یا جان سے چلی جاتی ہے۔
اسی طرح بعض گھر وں میں بچے بچیاں کبھی کبھار جنسی تشدد کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ ان بڑے شہروں میں ایسے بچے زیادہ تر قریبی دیہاتوں سے لائے جاتے ہیں۔ کوئٹہ، پشاور کے علاوہ کچھ شہر وں میں مہاجر بچوں کو ملازم رکھنے کا رجحان 1984-85 سے شروع ہوا تھا، اس وقت ہماری مقامی آبادی میں غربت کی سطح اتنی بلند نہیں ہوئی تھی لیکن اب ان شہروں میں بھی نوے فیصد بچے مقامی ہیں اور اب یہ معیوب نہیں سمجھا جاتا کہ ملا زم بچہ اپنے ہم عمر بچوں کی خدمت پر ما مور ہو کر ان کی ڈانٹ سنتا ہے، ان سے چپ چاپ مار کھاتا ہے اور یہ سب کچھ سہتا ہے کیونکہ وہ غریب ہے حالانکہ وہ بھی بچہ ہے۔
اس کی معصومیت شائد ہمارے معاشرتی جبر اور ظالمانہ انداز سے مفاہمت کرنا سیکھ گئی ہے لیکن ہم بحیثیت قوم یہ فراموش کر رہے ہیں کہ ان بچوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے اور انہوں نے اسی سماج میں جوان ہونا ہے۔ اسی طرح لاکھوں بچے ہوم بیسڈ ورکرز ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے گھروں اور جھگیوں میں اپنے خاندانو ں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں ان غریب گھرانوں کا سائز اوسطاً چھ بچوں سمیت آٹھ یا اس سے زیادہ افراد پر مشتمل ہوتا ہے، ان ہوم بیس ورکرز کو یہاں پر کارخانے والے، فیکٹریوں والے، ایسا میٹریل یا مصنوعات کے مختلف حصے فراہم کر دیتے ہیں جن کو یہ آپس میں جوڑ کر یا ملا کر، یا پھر پیکنگ کر کے واپس کارخانے والوں، فیکٹری والوں کے حوالے کردیتے ہیں اور اس محنت مشقت کا ان کو نہایت ہی کم معاوضہ ملتا ہے۔ یہاں پورا خاندان دن رات کام کرتا ہے۔
یوں صبح سے شام رات اکثر و بیشتر چھوٹے چھوٹے نیم تاریک کمروں میں ان خاندانوں کے بچے بھی مشقت میں گزار دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر فیکٹریوں ،کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو پاکستان کے قوانین کے مطابق کام کے دوران ہلاکت یا معذوری پر کمپنسیشن ، ریٹائرمنٹ پر اولڈ ایچ بینیفٹ کے تحت ماہانہ مختصر سی پیشن اور سوشل سکیورٹی کی بنیادوں پر حقوق حاصل ہیں مگر ان ہوم بیس ورکرز کا کہیں کو ئی اندراج نہیں ہے اور اس طرح ان کا استحصال کیا جا رہا ہے اور ان ہوم بیس ورکرز میں مشقت کرنے والے بچوں کی سب سے بڑی تعداد ہے یہاں یہ شعر اس صورتحال کی عکاسی کرسکتا ہے
ہر موسم ہر رُت میں سچے
خوشبو پھول پرندے بچے
یوں یہ یہ چاروں ماحول، احساسا ت ،کیفیات اور جذبات اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات کی درست تصویر کشی کرتے ہیں ۔ آج ہمارے ملک میں ایک کروڑ 25 لاکھ معصوم بچوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اگر ہم احساسات ،جذبات کی معرفت ان معصوموں پر گزر نے والی کیفیات سے واقف نہیں ہوتے تو مستقبل قریب میں آنے والے کل کو جب یہ جوان ہونگے تو اس وقت آج کے ان مشقت کرنے والے بچوں کے حوالے سے وہ حقیقی اور سچی تصویر بہت بھیانک ہوگی اور اس کا تصور ابھی سے اور بہت آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ شعر کی زبان میں یوں کہا جا سکتا ہے
میری یہ پیشگوئی ہے جو کل ہو گا
وہ میرے آج کا ردعمل ہو گا
یوں 12جون World Day Against Child Labour بچوں کی مشقت کے خلاف عالمی دن دنیا کے باقی ملکوں کے مقابلے میں ہمارے لیے اس لیے کہیں زیادہ اہم ہے اور ہمیں بغیر وقت ضا ئع کئے پاکستان میں بچوں کی مشقت کو فوری طور پر روکنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ اس کا بھی فوری اہتمام کرنا چاہیے کہ اسکول جانے کی عمروں کے جو 2 کروڑ 26 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں وہ اسکولوں میں ہوں۔ ہمارے آئین کی دفعہ 25-A کے تحت 5 سال سے 16 سال کی عمر تک کے ہر بچے کو مفت معیاری تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس وقت کے یہ اعداد وشمار برسوں سے ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔
اب تک بچوں کی مشقت کی روک تھام سے متعلق اداروں کے حکام یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ گھر میں پہنچ کر اقدامات کرنے میں ہمارے سماج کی بہت سی روایات رکاوٹ بنتی ہیں لیکن ان کا یہ جواز ہماری پارلیمنٹ اس سلسلے میں کامیاب قانون سازی کے ذریعے دور کر سکتی ہے ،گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے لیے رجسٹریشن کو لازمی قرار دیکر یہاں اس سلسلے کو مرحلہ وار مختصر مدت میں روکا جا سکتا ہے، اسی طرح فیکٹریوں اور کارخانوں کی پیداوار کی بنیادوں پر ہوم بیس ورکرز تک پہنچ کر ان کو مروجہ قانونی حقوق دلائے جا سکتے ہیں ۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اگر ہم اپنے وسائل کو بہتر انداز میںا ستعمال کرتے ہوئے پیداوار میں اضافہ کریں، در آمدات کو کم سے کم کرکے برآمدات میں اضافہ کریں تو باقی اس طرح کے مسائل اس وقت خود ہی حل ہونے لگیں گے جب ہمارے ملک سے غربت دور ہوجائے گی۔
The post 1 کروڑ 25 لاکھ بچے مشقت پر مجبور appeared first on ایکسپریس اردو.