Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سنگیت کو جُرم کی دلدل میں گھسیٹ لیا گیا

$
0
0

میکسیکو کے تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان امن اور تحفظ چاہتے ہیں۔

خوف اور دہشت سے آزادی ان کی اولین خواہش ہے۔ وہ اپنے معاشرے کو جرم کی دلدل سے نکالنے کے لیے حکومتی سطح پر فیصلوں اور اقدامات کے منتظر ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ میکسیکو دنیا میں ایک خوش حال، پُرامن ملک کے طور پر پہچانا جائے۔ دوسری طرف ایک نسل ایسی بھی ہے جو تعلیم یا کوئی ہنر سیکھ کر باعزت طریقے سے زندگی بسر کرنے کے بجائے جرم کی تاریک دنیا سے جڑ گئی اور ان نوجوانوں نے اپنا مستقبل برباد کرلیا۔

جرائم پیشہ گروہوں کے سرغنہ ان کا آئیڈیل بنے۔ انہوں نے طاقت ور بننے اور اندھی کمائی سے عیاشی کرنے کا خواب دیکھا جس کے لیے جرم کی دنیا میں قدم رکھنا ضروری تھا۔ طاقت اور دولت کا لالچ، پُرآسائش زندگی کا فریب ایسا تھا کہ غربت اور مسائل کا شکار نوجوان اس طرف کھنچے چلے گئے اور جرم کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ دوسری طرف میکسیکو کی حکومتوں اور انتظامیہ نے بھی جرم اور لاقانونیت کے اس سلسلے کو پنپنے اور طول دینے میں بھیانک کردار ادا کیا۔ جرائم پیشہ گروہوں نے سیاسی انتشار اور ریاستی اداروں کی کم زوریوں کا خوب فائدہ اٹھایا اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس ملک میں پُرتشدد واقعات اور خوں ریز تصادم کے نتیجے میں کئی گھرانوں کے پیارے زندگی کی بازی چکے ہیں۔

میکسیکو میں قتل و غارت گری کے حوالے سے 2011ء کو بدترین سال کہا جاتا تھا، مگر 2017ء اس سے بھی آگے نکل گیا۔ اس برس ملک میں قتل کی 23 ہزار سے زائد وارداتیں ہوئیں اور ڈرگ مافیا سمیت دیگر جرائم پیشہ گروہوں نے خوب مانی کی۔ اگرچہ حکومت نے فوج اور پولیس کو بھاری اختیارات دیے ہیں، لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔ ان حالات میں یہاں تبدیلی کی خاطر ایک اور قدم اٹھایا گیا ہے جس کے نتائج تو مستقبل میں ظاہر ہوں گے، لیکن یہ ایک عمدہ کوشش ہے۔ حکومت نے منشیات اور تشدد کے رحجان پر قابو پانے کے لیے کلاسیکی موسیقی کا سہارا لیا ہے۔

سرکاری سطح پر بچوں کو روایتی سازوں اور موسیقی کی تربیت دے کر کم عمری سے ہی ان میں مثبت سوچ کو فروغ دینے اور تعمیری سرگرمیوں کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے قبل برازیل میں موسیقی کا سہارا لے کر نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کا کام یاب تجربہ کیا گیا تھا۔ اب میکسیکو کے ایک فن کار پیڈرو ریز نے اسلحہ سے نفرت کی مہم چلائی ہے۔ حکومت نے جرائم پیشہ افراد سے اکٹھا ہونے والا اسلحہ ان کے حوالے کیا جسے انھوں نے گٹار، بانسری، وائلن اور دیگر میوزیکل آلات میں ڈھال دیا۔ اس فن کار کا کہنا ہے کہ وہ موت بانٹنے والی چیزوں کو زندگی اور راحت دینے والے آلات میں ڈھالتے ہیں۔ وہ پُرامید ہیں کہ اس طرح ایک دن میکسیکو کی رونقیں بحال ہوں گی۔ فنونِ لطیفہ کا سہارا لے کر بدلاؤ کی حکومتی کوششیں تو اب سامنے آئی ہیں، مگر جرائم کی دنیامیں کئی سال پہلے اسی موسیقی کے ذریعے  مجرموں نے اپنی امارت اور شان و شوکت کا اظہار کیا۔

یہ موسیقی حکومت اور پیڈرو ریز کی مثبت اور تعمیری کوشش کے بالکل الٹ ہے۔ یہ موسیقی ’نارکو کوریڈو‘ کہلاتی ہے جس میں دراصل ڈرگ لارڈز کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ مخالف گروہ کے ’ڈان‘ کی شکل و صورت کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ان کی برائیاں بیان کی جاتی ہیں۔ اسی طرح اپنے کارندوں کا حوصلہ بڑھانے اور ان کی تعریف میں بھی اشعار اور موسیقی تخلیق کروائی جاتی ہے۔ بعض گروہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس کے ناجائز اور غیرقانونی کاموں، اقربا پروری اور خاص طور پر کرپشن کا بھی چرچا نارکو کوریڈو کے ذریعے کرواتے ہیں۔ ڈرگ لارڈز ایسے گلوکاروں کو بھاری معاوضہ دیتے ہیں۔ ان جرائم پیشہ گروہوں کے لیے گانے والے کئی فن کار زندگی سے محروم کر دیئے  گئے۔ ان کی اکثریت کو مخالف گروہ کے کارندوں نے قتل کیا۔

’’نارکو کوریڈو‘‘ موسیقی دراصل دو الفاظ نارکو اور کوریڈو کا مرکب ہے۔ نارکو، نارکوٹکس کا اختصار ہے جب کہ کوریڈو شاعری کی وہ قسم ہے جس میں واقعات اور شخصیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل مقامی شاعری اور گائیکی کی ایک شکل ہے جسے برسوں ’’کوریڈو‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا رہا ہے۔ اس شعری صنف میں تین بند ہوتے ہیں جو تمام ایک ہی لَے میں گائے جاتے ہیں، مگر جرم کی دنیا میں اس کا نام بگڑ گیا۔ یہ نارکو کوریڈو ہوگئی گزشتہ تین عشروں میں ایک نیا، مگر خوف ناک روپ دھار لیا۔

فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف کسی بھی معاشرے میں مثبت قدروں اور رویوں کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہیں۔ عملی و ادبی سرگرمیاں شعور اور آگاہی کا زینہ ثابت ہوتی ہیں، مگر عجیب بات ہے کہ اسی موسیقی نے میکسیکو میں جرم کے ہاتھ مضبوط کیے۔ اس کے ذریعے منشیات فروشوں کا حوصلہ بڑھایا گیا۔ موسیقی کا یہ خونیں روپ 1970ء میں سامنے آیا تھا۔ اب حکومت اسی فن کے ذریعے معاشرے میں مثبت قدروں کو پروان چڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔

نارکوکوریڈو گائیکی کی مزید تفصیل میں جانے سے پہلے ڈرگ لارڈز اور ان کے غیرقانونی کاروبار کے بارے میں جان لیں۔ میکسیکو منشیات کے علاوہ انسانی اسمگلنگ کا دھندا کرنے والوں کا گڑھ ہے جو یہاں خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہیں۔ امریکا کی ایک سرحد میکسیکو سے ملتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر منشیات اسی سرحدی راستے امریکا اسمگل کی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ستر فی صد نشہ آور اشیا انہی راستوں سے امریکا پہنچتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر طویل دیوار کی تعمیر کا اعلان کیا تھا جس پر خطیر رقم خرچ ہو گی۔ تاہم اس اعلان کے بعد ٹرمپ کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے اس فیصلے کو نفرت اور تعصب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ میکسیکو میں رشوت ستانی اور قومی اداروں میں لوٹ کھسوٹ عام ہے جس کے باعث جرائم پیشہ گروہ ہر کام آسانی سے کر گزرتے ہیں۔

نارکو کوریڈو سے مختلف میوزیکل بینڈ باقاعدہ وابستہ ہیں جس کے باعث ان کی زندگی کو بھی خطرہ رہتا ہے۔ تاہم دولت کی ہوس اور وار لارڈز سے تعلقات کے نشے نے انہیں ہر خطرے سے بے نیاز کر دیا ہے۔ وہ نائٹ کلبوں اور خفیہ مقامات پر ریاست کے مجرموں کی خوشی کے لیے پرفارم کرتے ہیں۔ وہ ڈرگ لارڈز کو اپنی شاعری کے ذریعے بے پناہ طاقت ور اور بااثر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ مخالف گروہ کی تذلیل کی جاتی ہے اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ زیادہ تر حقیقی واقعات پر مبنی اس شاعری کے ساتھ گائیک اور اس کے ساتھی اپنی مہارت سے سامعین کے سامنے کسی بھی واقعے کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نارکو کوریڈو پرفارمر مخصوص لباس پہنتے ہیں۔ ان کے گلے میں سونے کی بھاری زنجیریں پڑی ہوتی ہیں۔ وہ کاؤ بوائے اور پرانے زمانے کے جنگجوؤں کا روپ دھار کر سامنے آتے ہیں۔

ایسے پرفارمر کی جانب سے جب کسی ڈرگ لارڈ کی مخالفت کی جاتی ہے تو اس کی زندگی خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے۔ اب تک سیکڑوں نارکوکوریڈو گائیک ڈرگ لارڈز کے کارندوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ اس ضمن میں Chalino Sanchaz کا نام سرفہرست ہے جس نے اس فن کو مقبولیت کی انتہا پر پہنچا دیا اور اس حوالے سے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ اسے 1992ء میں ایک میوزیکل شو کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ سنگر ایل کمانڈر نے بھی اسی میدان میں شہرت پائی۔ Elizalde Valentin بھی میکسیکو اور امریکا کا مقبول ترین گلوکار تھا، جسے 2006ء میں پُرتشدد واقعات کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ Sergio Gomez نارکو کوریڈو گلوکار کو 2007ء میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا۔ میکسیکو کے مقبول گلوکار سرگیوویگا کو بھی اسی موسیقی نے موت سے ہم کنار کیا۔ وہ ’’ایل شاکا‘‘ کے لقب سے مشہور تھا۔ اگرچہ کئی معروف گائیکوں کے قتل کے بعد اس نے باڈی گارڈز رکھ لیے تھے، مگر وہ اسے بچانے میں ناکام رہے۔

Felipe Calderon کے دورِ اقتدار میں منشیات فروشوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع ہوا جس میں چند روزہ جھڑپوں کے دوران پچاس فوجی اور سو سے زائد پولیس اہل کار اپنی جانوں سے گئے، جب کہ پانچ سو جرائم پیشہ افراد کو مار دیا گیا۔ اسی طرح وقفے وقفے سے ایسی جھڑپوں کے دوران ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ میکسیکو میں ڈرگ لارڈز کے درمیان تنازعات کے بعد خوں ریز تصادم کو تین عشروں سے زائد بیت چکے ہیں۔ اس دوران پولیس، فوج کے اہل کاروں سمیت عام آدمی بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تاہم Felipe Calderon نے 2006ء میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد اہم فیصلے کرتے ہوئے ڈرگ لارڈز کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی۔ ان کے اس اقدام کے بعد حکومت اور ڈرگ لارڈز کے درمیان لڑائی میں شدت آتی گئی۔ حکومت کی جانب سے تقریباً 45 ہزار اہل کاروں کو ایسے گروہوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے تعینات کر دیا گیا۔

پولیس اور فوج کے اسپیشل دستوں نے مختلف کارروائیوں کے دوران متعدد بڑے منشیات فروشوں کو گرفتار بھی کیا اور کئی مارے گئے، مگر مکمل طور پر ان کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا۔ نارکوکوریڈو موسیقی کی عام مقبولیت کے علاوہ منشیات فروشوں کی اس میں گہری دل چسپی پر یہ سوال اٹھا کہ اس کا کوئی نفسیاتی پہلو بھی ہے یا یہ محض ڈرگ لارڈز کے نزدیک تفریح اور عیاشی کا ایک ذریعہ ہے؟ اس پر بعض ماہرین بشریات کہتے ہیں کہ مختلف جرائم پیشہ گروہ دو باتوں کی وجہ سے اس موسیقی کے شیدائی ہیں۔ ایک طرف تو وہ اس کے ذریعے شہرت حاصل کرتے ہیں اور شاعری میں اپنی جس طاقت اور اثر و رسوخ کا پرچار کرتے ہیں وہ لوگوں پر ان کی دہشت اور دبدبہ قائم کرتا ہے۔

دوسری طرف اس طرح وہ عام لوگوں کو حکومتوں سے بدظن کرنے میں کام یاب رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حکومت کو کم زور کر کے وہ آسانی سے اپنا مکروہ دھندا جاری رکھ سکتے ہیں۔ ادھر طاقت کے ذریعے جرائم پیشہ گروہوں کو کچلنے کی کوششوں میں ناکام حکومت نے بچوں کو سُروں کی زبان سکھانے، اور اس کے ذریعے معاشرتی تبدیلی لانے کی عملی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ تاہم دنیا کے سامنے جس منشیات فروشی اور انسانی اسمگلنگ کو معاشرے کے لیے خطرہ بتایا جاتا ہے، فقط وہی نہیں بلکہ ایک شہری سے لے کر اہم ترین سرکاری اور انتظامی عہدے داروں کا مختلف اخلاقی برائیوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا بھی معاشرتی زوال کا سبب ہے۔

The post سنگیت کو جُرم کی دلدل میں گھسیٹ لیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles