Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

بچے سیکھنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں؟

$
0
0

ایک مدت تک بچوں میں پڑھنے کی کمزوری کاعلاج ایک ہی ڈنڈے سے کیاگیا، ان پر لیبل لگایاگیا کہ یہ پڑھنے کے قابل نہیں ہیں لیکن پھر ریسرچ نے ثابت کیاکہ اگر کوئی بچہ ہجے کرنے میں اٹکتا ہے تو ضروری نہیں کہ لفظوں کو سمجھنے میں بھی اسے مشکل پیش آتی ہو۔ اگر کسی کو لفظوں کی ادائیگی میں مشکل پیش آتی ہے تو ہوسکتاہے کہ اسے ان لفظوں کو لکھنا آسان ہو،(یہ مختلف بچوں پر تجربات سے ثابت ہوچکا ہے)۔ ’ریڈنگ ڈ س ایبلٹی‘ سے کہیں زیادہ مشکل کا سامنا’ لرننگ ڈس ایبلٹی‘ کے حامل بچوں کوکرنا پڑتا ہے۔

لرننگ ڈ س ایبلٹی کے مفہوم میں بہت وسعت ہے، اگرچہ اکثر یہ دونوں ڈس ایبلیٹیزاکٹھی ہوجاتی ہیں پھر بھی ان کا الگ الگ تجزیہ ضروری ہے۔ اس موضوع پر بہت تحقیق کی گئی ہے، وہ بچے جو بچپن میں ’ڈس لیکسک‘ کے طور پر تشخیص ہوئے جب انہوں نے مشکلات پر قابو پا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرلی تو پھر بھی ان کا دماغ ٹیسٹ کرنے پر ایک نارمل دماغ سے مختلف نظر آیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ دماغ کی بناوٹ کو نہیں بدلا جا سکتا، صرف سیکھنے اور سکھانے کے طریقے بدلنے کی ضرورت ہے۔’ریڈنگ ڈس ایبلٹی‘ یا پڑھنے میں مشکل پیش آنا ’ڈس لیکسیا‘ کہلاتا ہے۔

اسکے حامل بچوںکے دماغ کی بناوٹ میں فرق ہوتاہے، آسان لفظوں میں دماغ کی وا ئرنگ میں ہوتاہے۔ مثال کے طور پر جب ٹی وی کے اینٹینا میں سگنلز کا مسئلہ ہو اور دو تین چینل آپس میں مکس اپ ہو جائیں یا آواز اور تصویر کے اوپر لائنیں اس طرح آئیں کہ کچھ سمجھنا مشکل ہو۔ ڈسلیکس بچہ ہر وقت اس( نہ سمجھ میں آنے والی) مشکل میں ہوتا ہے اور ارد گرد کے لوگ اس کی مشکل کو مختلف نام (سست، کند ذہن، موٹی عقل والا، ڈھیلا، بیوقوف) دے کر اس مشکل کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈسپریکسک بچے کو ایک عام سا لکھاہوا جملہ دھندلا نظرآسکتاہے یا وہ دوہرا نظرآتاہے یاپھر الٹانظرآنے لگتاہے، وہ پڑھتے ہوئے کوئی لفظ چھوڑبھی سکتاہے مثلاً  ’’ہم جوتا لینے بازار گئے‘‘ کو وہ پڑھ سکتاہے:’’ گئے بازار خریدنے ہم تاجو ‘‘، وہ الفاظ میں تبدیلی بھی کرسکتاہے:’’ہم چپل لینے دکان پرگئے ‘‘۔

ڈسلیکسیا کی مختلف اقسام میں چند درج ذیل ہیں:

٭ڈسکیلکولیا( Dyscalculia): بچوں کو ریاضی کے نمبر پڑھنے اور سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے مثلاً 17 اور 71 میں فرق نہ کر سکنا۔ 031 کو 301 پڑھ جانا۔ اس کے علاوہ +کو * لکھ دینا، سادہ جمع اور منفی نہ کر سکنا۔ دیر تک نمبر 7اور 9 کو الٹا لکھنا۔

٭ڈس گرافیا( Dysgraphia ): ڈس گرافیا میں بچہ اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت گندا، آہستہ اور غلط لکھتا ہے۔ اگر ایک دن بہت زیادہ پریکٹس کے بعد وہ چند لفظ صحیح لکھ لے تو ضروری نہیں کہ اس کی دماغی وائرنگ اسے اگلے د ن ’ج‘ کو ’خ‘ اور ’9‘ کو ’6‘ یا ’بی‘ کو ’ڈی‘ نہ دکھائے۔ اکثر ڈس گرافیا بچوں کو پنسل پکڑنے میں ،لائن لگانے، قینچی سے کاٹنے میں اور سیدھا یا کاغذکی صحیح سمت لکھنے میں مشکل پیش آ تی ہے۔

ڈسپریکسیا(Dyspraxia ): یعنی ذہنی اور جسمانی حرکات میں ہم آہنگی نہ ہونا۔ بچوں کی بڑی تعداد جو ڈسلیکسیا کا شکار ہوتی ہے، وہ اکثر ڈسپریکیا کا شکار بھی ہوتی ہے۔ ڈسپریکیا میں اکثر موٹر سکلز اتنی موثر نہیں ہوتیں۔ بارش کے بعد گلی میں جمع ہونے والے پانی کو پھلانگنا، دو دو سیڑھیاں چڑھنا، آپس میں اونچی چھلانگ لگانے کا مقابلہ کرنا، گیند کو اونچا اچھال کر اپنی کیچ کرنے کی صلاحیت کو آزمانا، یہ سب جسمانی حرکات صحتمند بچوں کا روز کا معمول ہوتی ہیں مگر ڈسپریکسیا کا شکار بچے یہ سب نہیں کرتے۔ اگر کرنے کا سوچتے ہیں تو اعصابی اور جسمانی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث وہ ایسا نہیںکر پاتے۔ فٹ بال کو کک لگانے سے لے کر بھا گنے دوڑنے اور پنسل پکڑنے، لائن لگانے تک کے سارے کام ڈسپریکسک بچے کو عام بچوں کی نسبت مشکل لگتے ہیں۔

فائن موٹر سکلز(باریکی کے ایسے کام جن میں جسمانی مدد درکار ھوتی ہے مثلاً قینچی سے کاٹنا، کاغذ پر سیدھی لائن لگانا، کاغذ یا کپڑے کو تہہ لگانا، پنسل کو صحیح گرفت سے پکڑنا) اور گراس موٹر سکلز (موٹے موٹے کام جن میں ذہن کے ساتھ جسم کی حرکت بھی ضروری ہو مثلاً فٹ بال کو کک لگانا، رسی پھلانگنا )کے مسائل ڈسپریکسیا میں شدید ہوکر سامنے آتے ہیں۔ یہ سارے مسائل کس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔

بچپن تجربات سے بھر پور لیبارٹری کا نام ہے، صرف لکھنا پڑھنا سیکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ دو ستیاں لگانے، غلطیاں کرنے، ہم جماعت بچوں کے ساتھ کھیلنے، کھیل میں ہار جیت کا مزہ لینے، شرار توں کی جرات، سزا ملنے اور شاباش سننے کا نام ہے لیکن لرننگ ڈس ایبلٹی کے حامل بچے اس سب کچھ سے محروم رہتے ہیں کیونکہ وہ 93 فیصد معلومات کو حاصل نہیں کرپاتے جو نہ صرف ان سرگرمیوں میں حصہ لینے میں معاون ہوتی ہیں بلکہ روز مرہ زندگی کے لیے بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس 93 فیصد میں اشاروں کو سمجھنا ، موقع محل کا اندازہ لگا کر عمل کرنا ، وقت سے آگے دیکھنے کی اور گزرے وقت سے سیکھنے کی صلاحیت ہونا ، پیش آنے والی صورت حال کو سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کی صلاحیت پانا۔

ایمری یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ ایل ڈی(لرننگ ڈس ایبل) بچوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ وہ بغیر لفظوں کی زبان سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ہم لوگ صرف سات فیصد لفظ استعمال کرتے ہیں اور بہت سی باتیں ہمارے انداز اور رویے سے دوسرے لوگ سمجھ لیتے ہیں۔ نفسیات کی زبان میں ایسے بچوں کو سماجی نفسیات کے مسائل کا شکار بھی کہا جاتا ہے، جن پر اگر بچپن میں توجہ نہ دی جائے تو وہ شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں سات فیصد افراد) تین عورتیں اور دو مرد( نفسیاتی طور پر سماجی اضطراب یعنی سوشل اینگزائٹی ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔ مثلا ً دوسروں کے سامنے بول نہ سکنا، لکھ نہ سکنا، غیر منطقی خوف پال لینا، اس خیال میں رہنا کہ میرے اندر کوئی کشش یا خوبی نہیں کہ میں کوئی کام ڈھنگ سے انجام دے سکوں، وغیرہ وغیرہ، یہ سب مسائل بچپن کے حادثات واقعات باعث پیدا ہوتے ہیں لیکن لرننگ ڈس ایبلٹی کے مسائل ان سے بھی کہیں بڑھ کر ہیں۔

ماہرین بغیر لفظوں کی زبان کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں:

٭جسمانی حرکات و سکنات کے اشارے سے کوئی پیغام دینے کی کوشش کرنا (Kinesics):  مثلا ً کندھے اچکانا، آنکھ مارنا، خاص انداز میں مسکرانا۔ ہاتھ کے اشارے سے کوئی پیغام دینے کی کوشش کرنا۔ نارمل افراد اکثر بغیر کوئی لفظ ادا کیے صرف اشارے سے اپنا مطلب واضح کر دیتے ہیں۔ مثلا ً اگر کوئی بار بار گھڑی دیکھے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ اس شخص کو کہیں پہنچنا ہے، پیٹ پر ہاتھ پھیر کر نارمل بچے بھوک کا اظہار کر دیتے ہیں۔ ہم فون کرنے کا اشارہ انگلی اور انگوٹھے سے کر دیتے ہیں۔ دور سے ویٹر کو بلانا ہو تو ہاتھ اوپر کرکے ہلایا جاتا ہے اور بل لانے کا کہنا ہو تو ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ کرکے اسے متوجہ کیا جاتا ہے کہ ہم کھانا کھا چکے ہیں۔

٭فاصلے کا تعین کرنا(Proxemics):  گھروں کے علاوہ سڑکوں، بسوں، جہازوں میں بھی ہماری جگہ ہوتی ہے۔ سڑک پر ہمارے قدم اور بس میں ہماری سیٹ ہماری جگہ ہوتی ہے، منزل آنے تک وہ ہماری رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک سماجی فاصلہ ہوتا ہے مثلاً لوگ ایک فاصلہ رکھ کر بات چیت کرتے ہیں۔ ایل ڈی بچے اس فاصلے کا تعین کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور بد قسمتی سے جو بچے فاصلوں کا تعین نہیں کر پاتے وہ زیادہ تر اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں،  وہ یہ اندازہ نہیں کر پاتے کہ ان کے قریب آ کر چھونے والا شخص کس نیت سے انہیں چھو رہا ہے۔

٭آواز کا اتار چڑھاو (Vocalics):  لہجہ یا بولنے کا انداز پوری بات کا مفہوم بدل دیتا ہے۔ مثلاً ’’اچھا‘‘ اگر زور دے کر کہا جائے تو یہ ’’اچھا؟‘‘ ہوگا اور اگر کسی چیز کی رضامندی ظاہرکرنے کے لئے ہوگا تو صرف نارمل انداز میں ’’اچھا‘‘ ہوگا۔اگر آپ کو کوئی حیران کن واقعہ سنا رہا ہو تو آپ کہیں گے کہ ’’نہیں‘‘ اس نہیں کا مطلب ہوگا ’ناقابل یقین بات ہے‘ لیکن اگر کوئی آپ کو چائے پینے کا پوچھے تو آپ بڑے آرام سے ’نہیں‘ کہیں گے۔ ایل ڈی بچے آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلنے والے لفظوں کا مطلب یا بات کے اندر چھپا طنز، سرد مہری اور گرم جوشی کو سمجھنے سے قاصرہوتے ہیں۔

٭ظاہری حلیے کا ادراک(Appearance consciousness ):

پوری دنیا میںہر شخص موقع محل، کام اور موسم کی نوعیت سے کپڑے پہنتا ہے۔ملازم پیشہ افراد، کاروباری لوگ اور کھلاڑی سب کے کپڑے ان کے کام کے مطابق ہوتے ہیں۔ایل ڈی بچے اکثر موسم اور موقع کی مناسبت سے کپڑوں کا انتخاب نہیں کرسکتے۔

٭سماجی رابطے(Social contracts ):

دن میں کئی دفعہ ہمارے دوسرے لوگوں سے سماجی رابطے ہوتے ہیں، سودا سلف لیتے ہوئے اپنی باری کا انتظار کرنا، گزرتے ہوئے دوسرے کو راستہ دینا، واقف کار کو دیکھ کر سلام کرنا۔ بولنے میں دوسرے کی بات ختم ہونے کا انتظار کرنا۔ ایل ڈی بچے سماجی رابطوں کا ادراک نہیں کر پاتے۔

٭تاثرات کا بدلنا یا قائم رکھنا(Expression management ): وقت گزرنے کے ساتھ دوسروں سے متعلق ہمارے اچھے اور برے تاثرات بدل جاتے ہیں، عام طور پر بچے اپنے تاثرات نہیں بدل پاتے ۔ان صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے ایسے بچے پبلک میں نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ان سماجی رویوں میں کمی کی اقسام کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

علاج

کیا ان امراض کا کو ئی علاج ہے؟ یہ والدین کی طرف سے کیا جانے والا سے بڑا سوال ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ دماغ کی وائرنگ تو نہیں بدلی جا سکتی لیکن بچوں کے ساتھ تعاون سے ان کی زندگی کو کافی حد تک نارمل کیا جا سکتا ہے۔اس کے لیے سب سے پہلا مرحلہ تشخیص ہے جونہی والدین کو احساس ہو کہ ان کا بچہ اپنے ہم عمر بچوں سے پیچھے یا مختلف ہے، فیملی ڈاکٹر کے مشورے سے نیورالوجی ٹیسٹ کروائیں۔

ہر بچے کا مسئلہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور نیورالوجسٹ اس کے حساب سے تھرا پی تجویز کرتاہے، لیکن اگر آپ تھرا پی نہیں کروا سکتے تو بچے کے استاد سے رابطہ کریں۔ بچے کی کمزوریوں اور مثبت پوائنٹس پر تفصیلی گفتگو کریں۔

استاد سے گفتگو اور اپنے مشاہدے کے بعد والدین یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بچے کو گراس موٹر سکلز ( جسمانی حرکات، کھیل کود وغیرہ) اور فائن موٹر سکلز ( پنسل پکڑنے، کاغذ کاٹنے لائن لگانے جیسے باریک کام) کہاں زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔

گراس موٹر سکلز یعنی کھیل کود میں مسائل کے لئے بچے کو کھیلنے کا موقع فراہم کریں۔ روزانہ نہیں تو ہفتے میں چند دفعہ اس کے ساتھ فٹ بال کھیلیں، کک لگوائیں، توازن کی ورزش بے حد مؤثر اور آسان ہے۔ تین اینٹیں ایک طرف اور تین اینٹیں دوسری طرف رکھ کر ان پر چند فٹ لمبی ایک فٹ چوڑی لکڑی رکھیں جس پر بچے کو چلنے کی پریکٹس کروائیں۔ سائیکل ضرور چلوائیں۔ گھر کے نزد یکی پارک میں جتنی بھی سلائڈز اور بارز ہوں ان پر چڑھنے میں اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ یاد رہے کہ ایک ہی دن میں بہت ساری سرگرمیاں کروانا مناسب نہیں بلکہ تھوڑی مگر کثرت سے پریکٹس بہت جلد بچے کی توازن کی صلاحیتوں میں بہتری لائے گی۔

فائن موٹر سکلز کے لیے موٹی پنسل کا انتخاب کریں جسے پکڑنا آسان ہو، اور سیدھی لائن کی مشق کروائیں۔ پیپر کی دوہری تہری تہہ لگوائیں، شرٹ کے بٹن بند کروائیں، تسمے باندھنے کی پریکٹس کروائیں، اور جتنے چھوٹے موٹے کام کروا سکتی ہیں کروائیں۔ کپڑا تہہ لگوانا، دھاگہ لپیٹنا، پیچ کے کسنا وغیرہ وغیرہ۔

گھر میں مطالعے کا رواج قائم کریں۔ بچے کو روزانہ کوئی ایسی چیز پڑھنے کی ترغیب دیں جو اسے پسند ہو، اس سے لفظ میں رنگ بھروائیں اور پلیڈو سے وہ لفظ بنوائیں جو بچہ الٹے لکھتا ہے۔ اسے ترغیب دیں کہ وہ  لکھتے وقت ان الفاظ کو با آواز بلند دہرائے۔ یادرکھیںکہ یہ محنت تھکا دینے والی ہو گی لیکن ہمیشہ کے لیے بچے پر بند دروازے کھول دے گی۔

محبت اور برداشت سیکھنے کے دروازے کھولتی ہے، سختی اور غصہ کھلے ہوئے راستے بھی بند کر دیتا ہے۔

ایک طویل فہرست ان کامیاب اور نامور لوگوں کی ہے جنھوں نے لرننگ ڈس ایبلٹی پر قابو پایا اور اپنے شعبوں میں نام کمایا۔

زبیدہ رؤف

The post بچے سیکھنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>