مردہ آبی پرندوں کے پیٹ میں پلاسٹک
عالمی ماہرین اور فوٹوگرافر ماحول پر سمندری آلودگی کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں اور اس کے لیے فکر مند بھی ہیں۔ سمندر میں مرنے والے ان پرندوں کی یہ تصویریں ایک فوٹوگرافر نے کھینچی ہیں جن کے پیٹوں میں وہ پلاسٹک صاف دکھائی دے رہا ہے جو وہ سمندر کے بہتے ہوئے پانی سے کھاگئے تھے اور چوں کہ وہ اس پلاسٹک کو ہضم نہ کرسکے تو موت کا شکار ہوگئے۔
پلاسٹک اور ناکارہ اشیاء جس طرح ہمارے سمندروں کو آلودہ کررہی ہیں، اس سے ہم سبھی واقف ہیں۔ سیاٹل کا ایک فوٹوگرافر تین سال سے یہی کام کررہا ہے، اس نے ان مردہ آبی پرندوں کی تصویریں بنائی ہیں جن کے پیٹ اور معدوں میں وہ ناکارہ پلاسٹک صاف دکھائی دے رہا ہے جو انہوں نے کھانے کی کوشش کی، مگر اسے ہضم نہ کرسکے اور یہ غیرہضم شدہ پلاسٹک ہی ان پرندوں کی موت کا سبب بن گیا۔
مذکورہ فوٹو گرافر بحرالکاہل میں واقعMidway Atoll نامی جزیرے پر آباد پرندوں کی تصاویر بھی کھینچتا ہے اور ان کی فلمیں بھی بناتا ہے۔ Midway Atoll نامی یہ جزیرہ الاسکا سے 2,400 میل سے بھی دور واقع ہے۔ یہاں آباد الباٹروس اور دیگر آبی پرندوں کی خوراک سمندری کیڑے مکوڑے اور وہ آبی جانور ہیں جو رات کو پانی میں تیرتے ہوئے سطح پر آجاتے ہیں، مگر یہ آبی پرندے جب بھی اتفاقی طور پر پلاسٹک کے ٹکڑوں کو کھانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان کی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس جزیرے پر ہر سال پانچ لاکھ الباٹروس پیدا ہوتے ہیں جن میں سے لگ بھگ دو لاکھ مرجاتے ہیں۔
ان کی موت کا بڑا سبب بھوک اور ڈی ہائیڈریشن ہوتی ہے۔ مگر اس سے بھی بڑی تعداد پلاسٹک کے ٹکڑے کھانے سے ہلاک ہوتی ہے۔ یہ ٹکڑے ان پرندوں کے معدوں میں پنکچر کردیتے ہیں اور وہ بے چارے معدوں میں ہونے والے زخموں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس جزیرے پر سمندر کے پانی پر تیرتا ہوا ہر سال 20ٹن پلاسٹک کا کچرا پہنچتا ہے اور اس میں سے پانچ ٹن الباٹروس کے بچے کھا جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ پلاسٹک کا یہ کچرا سیل مچھلیوں، سمندری شیروں، وھیل، ڈولفنز، سمندری کچھووں اور دیگر آبی مخلوقات کی خوراک بھی بنتا ہے اور وہ بے چارے بھی اسی طرح موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
چین کی 1,800کلومیٹر طویل عظیم نہرجسے مکمل طور پر انسانی ہاتھوں نے کھودا تھا
چین میں واقع گرینڈ کینال مشرقی اور شمالی چین کے آبی راستوں پر مشتمل ایک سیریز ہے جو بیجنگ سے شروع ہوکر Hangzhouنامی شہر میں ختم ہورہی ہے۔ اس نے دریائے زرد کو دریائے یانگ سے ملادیا ہے۔ اس عظیم نہر کی مجموعی لمبائی کوئی 1,800 کلومیٹر ہے۔ یہ دنیا کی طویل ترین آبی گزر گاہ ہے جسے انسان نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ یہ چین کے پانچ اہم دریاؤں کے طاس کو بھی آپس میں جوڑتی ہے۔
اس نہر کا مقصد اس ٹرانسپورٹ کے اُن راستوں پر سے لوگوں کے اس دباؤ کو کم کرنا تھا جو زرعی طور پر مالا مال یانگتے اور دریائے ہوائی کی وادیوں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ اس کے بعد سے یہ آبی راستے ان شہروں اور صوبوں کو ملانے میں بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں اور ان کی وجہ سے چین میں تجارتی اور ثقافتی تبادلے بھی ممکن ہوئے ہیں، خاص طور سے شمالی اور جنوبی چین کے درمیان دوریاں کم ہوئی ہیں۔
یہ عظیم نہر مختلف علاقوں میں مختلف زمانوں میں حصوں میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی تعمیر کا آغاز پانچویں صدی قبل مسیح سے ہوا تھا، لیکن پھر شہنشاہ یانگ کے دور میں اس میں اچھی خاصی وسعت ہوئی تھی اور یہ کام تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا تھا۔ شہنشاہ یانگ کو ایک ایسے راستے کی ضرورت تھی جس کے ذریعے زرخیز خطے سے چاول کی ترسیل اس کے دارالحکومت تک ممکن بنائی جاسکے۔ فوج کے لیے بھی خوراک کی ضرورت تھی اور کسانوں پر بھی بہت زیادہ دباؤ تھا۔ انہوں نے کچھ کام مکمل تو کیا مگر اس وقت تک آدھے سے زیادہ کسان غربت اور بھوک کی وجہ سے مرچکے تھے۔
لوگوں کے مسائل بڑھتے چلے گئے، اس دوران اناج کی سپلائی بھی جاری رہی اور کسانوں کے مسائل بھی کسی حد تک حل کیے گئے جس سے چین کی معیشت کو وقتی طور پر سنبھالا ملا۔
بعد میں جب مزید آبی راستوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو شینڈونگ صوبے پر ایک شارٹ کٹ بنایا گیا جس سے گرینڈ کینال کا راستہ کم و بیش 700 کلومیٹر تک کم ہوگیا اور اس طرح اس عظیم نہر کا راستہ سیٹ ہوسکا۔
اس دوران کئی بار اس عظیم نہر کی اوور ہالنگ بھی کی گئی جس سے اس نہر نے عمدگی سے کام کرنا شروع کردیا۔ بعد میں ریلوے کی ایجاد کے بعد عظیم نہر کا استعمال کم ہوا اور آج اس کا چھوٹا سا حصہ ہی استعمال ہورہا ہے۔
موسیقی سُناتی سڑکیں
یہ خبر حال ہی میں ایمسٹرڈم سے آئی ہے جہاں ولندیزی حکومت نے سڑکوں پر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے والے اور طوفانی انداز سے گاڑیاں چلانے والے ڈرائیورز پر قابو پانے اور انہیں سدھارنے کے لیے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کی ہے کہ ہائی وے سے گزر کر آنے والے ڈرائیور جیسے ہی پرسکون علاقے میں داخل ہوں گے تو انہیں اپنی گاڑیوں کی رفتار کو ایک حد میں رکھنا ہوگا۔
ہالینڈ میں گاڑیوں کی قانونی رفتار کی حد 60 کلومیٹر فی گھنٹہ یا 40 میل فی گھنٹہ ہے۔ جو ڈرائیور رفتا کی اس حد کو توڑے گا اور اس سے زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ پکڑا جائے گا۔ وہ کس طرح پکڑا جائے گا، اسی کے لیے ہالینڈ کے ارباب اختیار نے میوزیکل سڑک والا طریقہ وضع کیا ہے۔ اس کے مطابق یہ ہوگا کہ اگر آپ ہالینڈ میں ہائی وے سے گزر کر ولندیزی گاؤں Jelsum کی طرف جانے والا راستہ اختیار کریں گے اور اس ضمن میں تیزرفتاری کا مظاہرہ کریں گے تو سڑک خود بہ خود موسیقی سنانا شروع کردے گی۔
یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ضمن میں ماہرین نے اس سڑک پر “rumble strips” بنائی ہیں جو دور دراز اور ویران علاقوں میں مسافروں کو تنہائی سے بچاتی ہیں اور جیسے ہی یہ میوزک بجنا شروع ہوگا تو وہ خود کو دوران سفر اکیلا محسوس نہیں کریں گے۔ اس میوزک کو مقامی لوگ بہت پسند کررہے ہیں، لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ اس طرح کی سڑک پر ہلکا اور مدھر میوزک بجنا چاہیے۔
جب کہ رفتار کی حد توڑنے والی سڑک کی رنگین دھاری دار پٹیاں ان لوگوں کو سخت سزا اس طرح دیتی ہیں جو اپنی گاڑیاں ان پیٹیوں کے اوپر سے بہت تیزی سے دوڑاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بجنے والا میوزک بہت دھماکا خیز ہوتا ہے اور اسی لیے لوگوں نے یہ شکایات کرنی شروع کردی ہیں کہ یہ مستقل بجنے والی ڈروننگ میلوڈی جو کسی بم باری سے کم نہیں، ہمیں پاگل کیے دے رہی ہے۔
جیسے ہی ہائی وے سے سفر کرکے آنے والی کار ان دھاریوں کے اوپر سے گزرتی ہے تو میوزک بجنا شروع ہوجاتا ہے، عام طور سے سڑکوں کے اوپر بنائی گئی یہ میوزیکل دھاریاں سبھی اہم اور بڑی سڑکوں کی سائیڈ پر لگائی گئی ہیں جو اصل میں ڈرائیورز کو خبردار کرتی ہیں کہ آگے فلاں فلاں علاقہ شروع ہونے والا ہے اور انہیں کس حد تک اپنی گاڑی کی رفتار کو کنٹرول میں رکھنا ہوگا۔
اگر ڈرائیور اس دوران اپنی رفتار کو قانونی حد میں نہیں رکھتے تو یہ سڑک Friesland کے خطے کا ترانہ بجائے گی جو اصل میں ہالینڈ کا شمالی حصہ ہے اور جہاں کی زبان اور کلچر باقی ملک سے مختلف ہے۔
لیکن یہ ترانہ اس قدر شدید آواز میں ہوتا ہے کہ اس کی آواز بہت دور تک جاتی ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں کہ اس غنائی سڑک نے تو ہمارا ناک میں دم کردیا ہے اور ہم پوری رات بجنے والے اس میوزک کی وجہ سے سو نہیں پاتے۔ ایک روز وہاں سے کچھ ٹیکسیاں گزر رہی تھیں کہ انہوں نے ان رنگین دھاریوں سے بہت تیزی سے گزرنے کی کوشش کی تو اسی وقت وہ ترانہ نہایت تیز، ناقابل برداشت اور شدید آواز میں بجنا شروع ہوگیا۔ اسی لیے اب یہاں کے حکام بالا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان میوزیکل دھاریوں کو اس سڑک سے ہٹاکر لوگوں کو اس کے شور سے بچالیا جائے۔
The post یہ انوکھی دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.