یہ احساس بڑھ رہا ہے اور عام ہوتا جارہا ہے کہ ہم ادیب شاعر لوگ اب معاشرے کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ہمارا معاشرہ اب ہم سے لاتعلق ہوچکا ہے اور اسے ہماری کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے لکھے ہوئے لفظ اور کہی ہوئی بات کی ایک زمانے میں یہ توقیر تھی کہ لوگ اُس کے اثر میں رہتے تھے۔ اُس سے روشنی اور راہ نمائی حاصل کرتے تھے۔ جو سانچا ہم بناتے تھے، معاشرے کے افراد خود کو اُس میں ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ کسی چیز کو ہم معیار ٹھہراتے تو وہ لوگوں کے لیے معیارِ زندگی بن جاتی تھی۔ عام آدمی ہی نہیں، اہلِ ثروت، اہلِ دنیا، اہلِ سیاست سبھی ہماری طرف دیکھتے اور ہم سے توانائی اور بصیرت حاصل کرتے تھے۔ اب لیکن، صورتِ حال بدل چکی ہے۔ لکھا ہوا لفظ، کتاب، ادب اور ادیب آج یہ بساط اُلٹ چکی اور اب یہ سب ہاری ہوئی بازی ہے۔
یہ احساس اس دور میں صرف اُن ادیبوں اور شاعروں میں ہی نہیں پایا جاتا جو ادب میں بڑا نام نہیں بناسکے، بلکہ اب تو ایسے لوگ بھی اس کا شکار ہیں جنھوں نے ادب کے حوالے سے دنیا میں بڑی شہرت پائی اور وہ سب کچھ حاصل کیا جو ہر لحاظ سے دنیاوی زندگی کی کامیابی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ اس سطح کے لوگ بھی اگر ان خیالات کا اظہار کررہے ہیں تو پھر ضروری ہوجاتا ہے کہ اس مسئلے پر غور کیا جائے، اس کی نوعیت کو سمجھا جائے اور دیکھا جائے کہ واقعہ کیا ہے اور اس کے تدارک یا اصلاح کے کیا امکانات ہیں؟
ایسے کسی بھی معاملے میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ دیکھا جائے، مسئلے کی نوعیت اور گہرائی کیا ہے، تاکہ اُس کے حل کے لیے بہتر انداز سے کوشش کی جاسکے۔ اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ عہد میں ادبی و علمی، بلکہ ساری ذہنی و فکری سرگرمیوں میں عوامی دل چسپی کم ہوئی ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ عوامی مزاج میں یہ تبدیلی صرف ہمارے یہاں نہیں آئی ہے، بلکہ یہ ایک گلوبل فینومنا ہے۔ اس کا مشاہدہ عالمی سطح پر دنیا کے مختلف ملکوں میں بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ادب سے عوامی دل چسپی میں کمی کا سبب یہ نہیں ہے کہ ادب بے مصرف یا لایعنی ہوگیا ہے، بلکہ عوام کو دوسرے مشاغل میسر آگئے ہیں۔ خصوصاً ٹیکنولوجی کی ترقی اور سوشل میڈیا کے فروغ نے اس حوالے سے بہت اہم کردارا ادا کیا ہے۔ تیسری بات یہ کہ اس عرصے میں سام راجی قوتوں نے بڑے غیرمحسوس انداز میں عالمی سطح پر عوام کی ذہن سازی کی ہے اور انھیں تفریح کا ایک نیا تصور دیا ہے۔ وہ تصور یہ ہے کہ دن بھر کے کام کاج کے بعد آدمی کو تھکن اتارنے اور ذہن کو تازہ کرنے کے لیے ایسی ہلکی پھلکی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اُس کے اضمحلال کو ختم اور اعصاب کو چاق چوبند کرسکیں۔
ہلکی پھلکی تفریح یا لائٹ موڈ بنانے کا یہ مطالبہ یہاں تک لایا گیا کہ بعد میں آسانی سے اس میں وہ چیزیں بھی شامل ہونے لگیں جنھیں تہذیب دار معاشرے میں ناشائستہ، بلکہ مخرب الاخلاق سمجھا جاتا تھا۔ ظاہر ہے، تفریح کے اس تصور کو اپنا اخلاقی نظام رکھنے والے ملکوں میں رواج دینا آسان نہیں تھا۔ اس کے لیے کسی مضبوط جواز کی ضرورت تھی۔ چناںچہ کبھی آزادیِ اظہار، کبھی آزادیِ نسواں، کبھی نئے ذوق، کبھی نئے دنیا کے تقاضوں کو بنیاد بناکر اس کے فروغ کا راستہ ہموار کیا گیا۔ اس جواز کے سہارے ہمارے جیسے معاشرے میں بھی بہت سی ایسی چیزیں رواج پاگئیں جن کے بارے میں اس سے پہلے سوچنا بھی محال تھا۔ یوں تفریح کا تصور اس حد تک بدل گیا کہ آج ابتذال اور تفریح میں فرق کرنا مشکل ہے۔
ادب ویسے تو واعظ و شیخ کے مطلب کی چیز کبھی نہیں رہا کہ اسے صرف وعظ اور نصیحت کے لیے استعمال کیا جاتا، لیکن زندگی کے کسی بھی تجربے کو بیان کرنے کے باوجود ادب بہرحال مبتذل بھی نہیں ہوتا تھا۔ ادب تفریحِ طبع کا سامان تو بے شک کرتا تھا، لیکن تفریح برائے تفریح نہیں۔ تفریح کے ساتھ یہ ذہنوں کو سوچنے کی طرف بھی مائل کرتا تھا۔ زندگی کے معنی کو وسعت دیتا تھا۔ احساس کی بیداری اور رویے کی تشکیل کا سبب بنتا تھا۔ اس لیے کہ اب سے پہلے تفریح کا مقصد محض تھکن اتارنا یا اعصاب کو سلانا نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ انسان کو تازہ دم کرکے، ہمت اور شعور دے کر اس کی زندگی کو بہتر بناتی تھی۔ آج تفریح کو بالکل اس کے برعکس بنا دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ سب سرگرمیاں جو ذہن اور اعصاب کے لیے مسکن دوا کا کام نہیں کرتیں، بلکہ بیداری کا سبب بنتی ہیں، معاشرے میں اْن کا رُجحان بہت کم ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسا کم زور، کم تعلیم یافتہ، پس ماندہ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ سب ہی اقوام میں اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سطح پر ہوا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی سام راجیت یہی چاہتی تھی۔ اصل میں اُس کا مقصد یہ تھا کہ وہ عوام کی اکثریت کے ذہنوں کو ایسی پینک میں مبتلا کرسکے کہ وہ اس کے ہتھ کنڈوں کو سمجھ نہ پائیں، اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کرسکیں، بلکہ اس نے جو نشہ آور طریقے اختیار کیے ہیں، اُن کے زیرِاثر عوام کا ازدحام صارفیت کی ترقی میں معاون ثابت ہو، اور دنیا کی بیشتر آبادی کو محض صارف یا خریدار بنا دیا جائے۔ ٹیکنولوجی کے فروغ نے تو آج یہ صورتِ حال پیدا کردی ہے کہ آدمی کی زندگی میں گیجٹس کا استعمال ہی نہیں بڑھ رہا، بلکہ وہ خود بھی ایک روبوٹ جیسی زندگی کے سانچے میں ڈھلتا چلا جارہا ہے۔ یہ بلاشبہہ سام راجیت اور صارفیت کے ہتھ کنڈوں کی شان دار کامیابی ہے۔
اب اگر ہم اپنا قومی اور تہذیبی منظرنامہ سامنے رکھیں تو سچائی کے ساتھ اس کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اس صورتِ حال کا سارا الزام صرف سام راجیت کو دینا انصاف کے خلاف ہے۔ رویوں کی اس تبدیلی کا ذمے دار تو ہمارا معاشرہ خود بھی ہے، خصوصاً اس کے تہذیبی ادارے، اور سب سے بڑھ کر اس کے ادیب شاعر۔ اگر آج وہ مضطرب یا افسردہ ہیں تو ان سے پوچھا جانا چاہیے:
کن نیندوں سوتی تھی تو اے چشمِ گریہ ناک
جب معاشرے کے تہذیبی اور اخلاقی رویوں میں بگاڑ پیدا ہورہا تھا، اس وقت ادیب شاعر کہاں تھے؟ وہ تو آتے ہوئے وقت کے قدموں کی چاپ سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انھوں نے کیوں نہ دیکھا کہ ہوائیں رْخ بدلتی ہیں، زمانہ قیامت کی چال چلتا ہے۔ اگر وہ یہ سب دیکھتے اور سمجھتے تھے تو چپ کیوں تھے؟
سچ پوچھیے تو ماجرا یہ نہیں، کچھ اور ہے۔ ہم ادیب شاعر لوگ بلاشبہہ وقت کی چاپ کو پہچانتے ہیں۔ ہماری آنکھیں وہ کچھ دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو معاشرے کے دوسرے افراد نہیں دیکھ پاتے۔ ہم ان مسائل کو سمجھ لیتے ہیں جنھیں دوسرے آسانی سے نہیں سمجھ پاتے۔ ایسا مگر اُس وقت ہوتا ہے جب ہمارے حواس بیدار ہوں، آنکھیں کھلی ہوں، ہمارا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہو اور اس کی دھڑکنیں ہمیں سنائی دیتی ہوں۔ یہ سب اْسی وقت ممکن ہے جب ہمیں اپنی اصل حیثیت کا پتا ہو اور ہم اپنے کام اور اپنی ذمے داریوں کو دنیا کی ہر شے سے مقدم جانتے ہوں۔
اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ وقت کی بدلتی ہوئی چال اور معاشرے میں آتی ہوئی تبدیلیوں کے وقت ہم غافل تھے، سب سے یعنی اپنی حیثیت سے، ذمے داریوں سے اور معاشرے کے احوال سے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ہم اپنے معاشرے سے بالکل لاتعلق ہوگئے۔ اس لیے کہ ہمارا سارا دھیان خود اپنی ذات پر مرکوز ہوگیا۔ ہمارا کام اپنی تہذیب، اپنے معاشرے کو بنانا ہے، لیکن ہم خود کو بنانے میں مصروف ہوگئے۔ ہماری حیثیت بہت بلند تھی۔ معاشرہ ہمیں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا، لیکن ہم نے سوچا کہ عزت مل جانے سے آدمی کا پیٹ تھوڑا ہی بھر جاتا ہے۔
پیٹ بھرنے کے لیے تو پیسے چاہییں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم معاشی ضرورت کے لیے کوئی کام ہی نہیں کرتے تھے اور ہمارے پاس بالکل پیسے نہیں ہوتے تھے۔ ہم کام بھی کرتے تھے اور اس کا معاوضہ بھی ملتا تھا۔ اس معاوضے میں ہماری گزر بسر بھی ہوجاتی تھی۔ دو وقت کی روٹی تو عزت سے مل ہی جاتی تھی، لیکن پھر ہم نے مال دار لوگوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ اُن سے مقابلے میں پڑگئے۔ ہمارا سماجی مرتبہ تو بلند تھا، لیکن ہمیں مالی حیثیت بلند کرنے کی فکر نے آلیا۔ پہلے ہماری نظروں میں سب سے بلند شے ہمارا کام، ہمارا فن تھا، لیکن پھر ہمیں دنیا اور اس کی آسائشیں بڑی نظر آنے لگیں۔ اُن کی کشش نے ہمارے دلوں میں جگہ بنالی۔ ہم دنیا سے اتنے مرعوب ہونے لگے کہ ہمارا فن ہماری نظروں میں چھوٹا ہوتا چلا گیا۔
یہ کوئی خوش گوار واقعہ نہیں تھا۔ سخت تکلیف دہ اور ناگوار صورتِ حال تھی، لیکن ہم نے مان لیا کہ حقیقت یہی ہے۔ دنیا واقعی بڑی ہے۔ اس کی آسائشیں زیادہ اہم اور بیش قیمت ہیں۔ یہ تسلیم کرنے کے بعد ہماری قوتِ مدافعت بالکل ختم ہوگئی۔ اپنے کام اور اپنی سماجی حیثیت سے ہمارا یقین یکسر اٹھ گیا۔ مال و زر اور دنیا کے حصول کی کوششوں کو پہلے ہم چوہا دوڑ کہا کرتے تھے، لیکن پھر ہم خود اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔ ہم جانتے تھے کہ اس دوڑ میں شامل ہونے والے بے حس، خود پرست، اخلاقیات اور اقدار سے عاری ہوجاتے ہیں۔ ہمارا اندازہ سو فی صد درست تھا۔ اس لیے کہ پھر ہم بھی ایسے ہی ہوگئے۔
اس سب کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے بہتری کے، فلاح کے خواب دیکھنے چھوڑ دیے یا شعر کہنا، نظم لکھنا اور کہانی بننا چھوڑ دیا— نہیں، بلکہ ہم بہ دستور خواب دیکھتے رہے، مگر اب یہ خواب صرف اپنی ذاتی بہتری، فلاح اور ترقی کے تھے۔ ہمارے شعر، نظم اور کہانی کے سروکار بدل گئے۔ پہلے ہماری آواز میں، ہمارے فن میں ہماری روح کی پکار گونجتی تھی اور اسی گونج میں سماج کا ضمیر بولتا سنائی دیتا تھا، اسی لیے ہمارے شعر، نظم اور کہانی کو پڑھ کر لوگ برملا کہہ اٹھتے:
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
لیکن پھر ہمارا فن صرف اپنے وجود کی پکار ہو کر رہ گیا۔ تب ہم نے دیکھا کہ فن کار کے فن میں اس کی روح شامل نہ ہو تو وہ صرف ڈھول بن کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا، لیکن ہم نے پروا نہیں کی۔ اس لیے کہ اب ہمارا مقصود دنیا تھی۔ ہم اُس سے دھیان نہیں ہٹا سکتے تھے، کیوںکہ ہم جان گئے تھے کہ:
مسلسل ایک اندیشہ ہے دنیا
اس اندیشے میں ہم ایسے مبتلا ہوئے کہ پھر تو ہماری پوری شخصیت اور سارا کردار ہی بدل کر رہ گیا۔
ہم مزاجاً حساس لوگ ہوتے ہیں، لیکن اب یہ ساری حساسیت صرف ہماری اپنی ذات سے متعلق ہوگئی۔ ہم نے یہ دیکھنا اور سوچنا بالکل چھوڑ دیا کہ ہم دوسروں کے لیے تکلیف دہ تو نہیں ہورہے۔ ہماری توجہ صرف اس پر مرکوز ہوگئی کہ لوگ، معاشرہ اور حالات ہمارے لیے ناموافق ہیں، ہمیں تکلیف پہنچا رہے ہیں، ہم وقت کی ناسازگاری کا شکار ہیں اور پھر ہم نے اپنی فلاح کو مرکزِ نگاہ بنالیا۔
اب ہم اصولوں کی، اخلاق کی اور فرائض کی جب بات کرتے ہیں تو ہمارا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ دوسرے ان باتوں کا خیال رکھیں۔ ہم خود کو ہر اصول، اخلاق اور فرض سے ماورا اور آزاد سمجھتے ہیں۔ ہم حسن کی، سچائی کی اور خیر کی باتیں کرتے ہیں، لیکن یہ سب کھوکھلی باتیں ہیں۔ اب حسن سے ہماری مراد صرف وہ ہے جو ہمیں بھلا لگتا ہے اور ہمارے لیے لذتِ کام و دہن کا باعث ہے۔ ہمارے نزدیک سچائی صرف وہ ہے جو ہم کہہ رہے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی غلط اور جھوٹ پر مبنی کیوں نہ ہو۔
ہمارے لیے اب خیر صرف وہ ہے جو ہمیں مطلوب ہے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ دوسروں کے لیے کتنی ہی ضرر رساں کیوں نہ ہو۔ ہم آزادی اور حقوق کی بات کرتے ہیں، لیکن یہ کہتے ہوئے ہمارے پیشِ نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہو۔ سماجی، اخلاقی، قانونی، مذہبی اور معاشی کسی بھی سطح پر ہمارے لیے کوئی پابندی نہ ہو۔ ہم جب اور جو چاہیں کرسکیں۔ ہم سے کوئی بھی اور کچھ بھی پوچھنے والا نہ ہو۔ ہمارا معاشرہ، ہمارے دوست احباب اور عزیز ترین رشتے صرف اور صرف ہمارے حقوق یاد رکھیں۔ ہم سے کوئی مطالبہ نہ کیا جائے اور ہماری ہر خواہش، ہر مطالبے کو صرف ہمارے اشارۂ ابرو پر فوراً پورا کردیا جائے۔
یہ سب باتیں اور ساری خواہشیں بے جواز نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ہم اب کسی الجھن میں بھی نہیں ہیں۔ ہمارا ذہن بالکل صاف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بھی تو آخر گوشت پوست کے انسان ہیں۔ ہماری بھی تو ضرورتیں ہیں، خواہشیں ہیں۔ انھیں پورا کرنے کے مواقع ہمیں کیوں حاصل نہ ہوں۔ ہم معاشرے کے لائق فائق لوگ ہوتے ہیں تو لازم ہے کہ ہمیں دوسروں پر برتری حاصل ہو۔ شاعری کو جزوِ پیغمبری کہا جاتا ہے۔ ہمیں معاشرے میں یہی مقام و مرتبہ ملنا چاہیے۔ ہماری باتوں سے امرا، روسا اور اہلِ اقتدار راہ نمائی حاصل کرتے ہیں تو ہمارا درجہ ان سے بلند ہے۔ چناںچہ جو آسائشیں انھیں حاصل ہیں، وہ ان سے پہلے ہمیں ملنی چاہییں۔
گو کہ ہم یہ سب باتیں کھلے بندوں نہیں کہتے، لیکن ان پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا ہمارے کہے بغیر یہ سب کچھ اسی طرح سمجھے اور اسی طرح کرے۔ ضرورت پڑتی ہے تو ہم سیاسی چال بازی سے گریز نہیں کرتے۔ جھوٹ اور منافقت سے کام لینے سے بھی ہم نہیں چوکتے۔ اپنی جبلی خواہشوں کی تکمیل کے لیے اخلاق، اقدار اور اصولوں کی نفی سے ہمیں ذرا تأمل نہیں ہوتا۔ ہم مریضانہ حد تک خود مرکز اور خود پرست ہوگئے ہیں، لیکن بڑی بڑی باتیں کرکے اپنے اس مرض کو چھپاتے اور لوگوں کا دھیان اس سے ہٹاتے ہیں۔ ہم اصول اور حق کے لیے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار اور عمل کا حوالہ تو دیتے ہیں لیکن خود اس کردار کو اپنانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ہم کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے نام کی قربانی بھی دوسرے دیں اور نام ہمارا ہو، عزت ہمیں دی جائے۔
یہ سب سچ ہیں، لیکن ہم اسے ماننا نہیں چاہتے۔ ماننا تو دور کی بات ہے، ہم اس پر بات تک نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں اپنی خامیوں، اپنی کم زوریوں پر بات کرنے سے سخت نفرت ہے۔ ہم صرف اپنی اچھائی، برتری اور عظمت کا چرچا چاہتے ہیں۔ ہماری آرزو ہے کہ معاشرہ ہمارے گن گائے، ہمیں سر آنکھوں پر بٹھائے۔ زہر لگتے ہیں وہ لوگ جو ہمیں عام انسانوں جیسا سمجھتے ہیں۔ عام انسانوں سے کیا، ہم تو اشرافیہ سے بھی بڑھ کر قدر و منزلت کے حق دار ہیں۔ اسی طرح ہمیں وہ لوگ بھی ایک آنکھ نہیں بھاتے جو ہمیں ہمارے ہی بیان کیے ہوئے اصولوں کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں یا جو ہمارے ہی مقرر کردہ معیار پر ہمیں پرکھنا چاہتے ہیں۔ گردن زدنی ہیں وہ لوگ جو ہمارے بیان کی تصدیق ہمارے عمل سے چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ہیں وہ لوگ جن کی اسی ذہنیت کی وجہ سے معاشرہ ہم سے بدظن ہوگیا ہے۔ انھی لوگوں کی وجہ سے ادب کی توقیر اور ادیب کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔
مستثنیات سے انکار نہیں۔ تاہم ہماری ادیب شاعر برادری کی اکثریت ایسا ہی سوچتی ہے اور یہی سمجھتی ہے۔ اس صورتِ حال میں خدا لگتی کہیے، ادب پر زوال نہ آئے، لکھا ہوا لفظ بے اثر اور ادیب شاعر بے توقیر نہ ہوں تو پھر کیا ہو—؟
The post ہم ادیب شاعر لوگ appeared first on ایکسپریس اردو.