نام… سیرت میرے حضورﷺ کی
مولف… مرزا محمد نوازبیگ
قیمت…999روپے
ناشر… بک کارنر، جہلم
رسول مہربانﷺ کی سیرت مبارکہ پر گزشتہ ساڑھے چودہ سو برس سے مسلسل لکھاجارہا ہے، دنیا میں شاید ہی کسی دوسری ہستی کے بارے میں اس قدر زیادہ لکھا، پڑھااورسناگیاہو لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کی سیرت کا بیان مکمل نہیں ہوپارہا،سبب یہ ہے کہ ہماری عقل ناقص ہے، ہم جتنا زیادہ غوروفکر کرتے ہیں، رسول اکرم ﷺ کی حیات مطہرہ کے اسی قدر زیادہ پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔
زیرنظرکتاب میں مولف نے بھی بڑی محنت شاقہ سے حضورنبی کرم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو بیان کیا ہے ،سیرت کے واقعات کو نبوی اور ہجری سال کے مطابق اس طرح قلمبند کیاگیاہے کہ ایک عام قاری بھی ایک ہی نشست میں پوری سیرت کا عکسی جائزہ لے سکتاہے۔ واقعات کے بیان میں قرآن و حدیث کو مدنظر رکھاگیاہے۔ سیرت پاک کے ہرپہلو کو اس قدرخوبصورت اندازمیں بیان کیاگیاہے کہ انسان پر عشق و مستی کی عجب کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
بالخصوص نماز کی اہمیت، اس کے جملہ ارکان کی حکمت بیان کرنے میں کمال جوہر دکھایاہے اور اس سے بھی بڑھ کر قرآن مجید کے معجزہ ہونے کے حوالے سے سائنسی اور تجرباتی پہلو بیان میں کیف ورنگ بھردیاہے،کتاب میں مختلف خوبصورت نقشوں اور تصاویر کی مدد سے دکھایاگیاہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حجاز میں آمد کیسے ہوئی؟آپ علیہ السلام کے ہاتھوں ہونے والی تعمیر کعبہ کیسی تھی؟ حضرت خدیجہ ؓ کے گھر کا نقشہ، ہجرت مدینہ کا سفر اور مسجد نبوی کی پہلی تعمیر کیسی تھی؟ اسی طرح دیگر موضوعات پر بھی خوبصورت تصاویرموجود ہیں۔ مولف سابق استاد ہیں، اس لئے انھوں نے جس اندازمیں یہ سب کچھ بیان کیا، وہ ایک عام فرد بالخصوص نوجوان نسل کو ان موضوعات سے بہ آسانی فائدہ اٹھانے اور اپنی زندگی سنوارنے کا بہترین موقع فراہم کرتاہے۔
٭٭٭
نام… اے میرے اسامہ!
مصنفہ… جبین چیمہ
قیمت…150روپے
ناشر… منشورات، منصورہ ملتان روڈ لاہور
یہ کتاب دراصل تین خطوط ہیں ہے، زیادہ بہتر ہے کہ ان خطوط کو زندگی کے ایک دل گداز اور دل دوز سفر کی داستان کہاجائے۔ اس سفر میں چارمسافرتھے، والدہ، بیٹا، بہو اور پوتی۔ ایک روز بیٹا، بہو اور پوتی اچانک گھاٹی کے اُس پار جااترے جہاں سے ابدی دنیا شروع ہوتی ہے۔ پیچھے رہ گئی ماں، اس نے اپنے تینوں پیاروں کا تذکرہ منفرد اندازمیںکیا۔ تینوں خطوط میں سے ایک طویل اور دومختصر۔ طویل خط بیٹے کے نام لکھا جو ڈپٹی کمشنر چترال تھا، اسامہ احمد۔ پاکستان کی سول سروس سے ابھرنے والا ایک ستارہ ، نیک نام افسر۔
یقیناً آپ نے سات دسمبر2016ء کو ایک بڑے سانحہ کی خبر سنی ہوگی ، چترال سے اسلام آباد کی طرف اڑنے والا طیارہ ، حویلیاں کے نزدیک پہاڑیوں میں گرگیاتھا، اس طیارے میں بہت سے سواروں کے درمیان اسامہ احمد بھی تھے، ان کی اہلیہ اور دس ماہ کی بیٹی بھی۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان تین مسافروں کے بعد ماں پر کیا بیتی ہوگی، اس نے کیسے یہ خبر سنی ہوگی، پہلے یہ خبر کہ طیارہ حویلیاں کی پہاڑیوں میں کہیں گم ہوگیا، پھر وہ خبر جسے سن کر ہر فرد کے ہوش جاتے رہتے ہیں۔ یہ تو پھر ماں تھیں لیکن یہ قرون اولیٰ کی پہاڑ ایسا حوصلہ رکھنے والی خواتین کی طرح صابرہ نکلیں، انھوں نے اپنا غم بیان کرنے کے لئے کوئی نوحہ نہیں لکھا بلکہ ایک منفرد قسم کا خط لکھا جس میں دنیا کے سامنے بیٹے کا وہ کردار لائیں جس سے بہت سے لوگ واقف نہ تھے، بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی زندگی کے پہلے دن سے آخری دن تک کے تمام لمحات اور واقعات بیان کئے۔ پہلے دن’ جب بہاریں اپنے شباب پر تھیں، درختوں کی ڈالیوں، پھولوں کے پودوں حتیٰ کہ گھاس نے بھی اُس سال ایک نیا روپ نکالاتھا، پھل دار پودے سفید کلیوں سے اور آڑو اور بادام کے درخت سفید اور گلابی پھولوں سے لدے کھڑے تھے‘۔ اور وہ آخری لمحہ بھی بیان کیا جب اس ماں کو یوں محسوس ہوا کہ کوئی ان سے پوچھ رہاہے:
’کیا اللہ کے اس فیصلے سے تم ناخوش ہو؟‘
’ نہیں‘ میں پورے دل کی سچائی سے جواب دیتی۔
’کیا اللہ کا یہ فیصلہ درست ہے؟‘
اندر سے آواز اٹھی:’ بے شک! میرے رب کے سب فیصلے درست ہیں، اس کی ذات بے عیب ہے اور اس کے فیصلے بے عیب ہیں‘۔
یادرکھئے کہ ماں نے اس کتاب کے ذریعے اپنا غم نہیں بانٹا بلکہ ایک ایسی کہانی سنائی ہے کہ جسے سن کر نوجوان حوصلہ اور ہمت پاتے ہیں اور ملت کے مقدر کا ستارہ بنتے ہیں۔
٭٭٭
نام…رابطے تو ہوتے ہیں(افسانے)
مصنفہ… قانتہ رابعہ
قیمت…240 روپے
ناشر… منشورات، منصورہ ملتان روڈلاہور
زیرنظرکتاب افسانہ نگار کے افسانوں کا دسواں مجموعہ ہے، یہ کہانیاں زندگی کے حقائق ہیں جو مصنفہ سپردقلم کرتی رہی ہیں۔انھوں نے اپنی کوشش وکاوش کے دوران اصلاح ذات اور اصلاح معاشرہ کو پیش نظر رکھا، یہ کوشش وہی کرسکتاہے جو حساس دل کا مالک ہو، باشعور ہو اور گہری نظر رکھتاہو۔ قانتہ رابعہ کہتی ہیں کہ ’’ افسانہ کسے کہتے ہیں، افسانہ کے فنی تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ اور ادبی پیرائے میں افسانے کو کن اصول و ضوابط کی بنا پر پرکھاجاتاہے؟ مجھے ان اصولوں اور دائروں کا تو کوئی علم نہیں… البتہ یہ ضرور احساس ہے کہ دیکھوں کہ میرے اردگرد کیا ہورہاہے، کیا نہیں ہوناچاہئے اور کیا ہوناچاہئے؟ یہ جو بات ہے کہ کیاہوناچاہئے ؟ یہی ہے وہ چیز جو لکھنے پر ابھارتی بلکہ مجبور کرتی ہے‘‘۔ مصنفہ ان کہانی کاروں میں سے ہیں جو کہانی بے مقصد تفریح کے لئے نہیں لکھتیں بلکہ مقصدیت ان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس کا ہرشعبہ انحطاط کی پستیوں میں گراپڑاہو، وہاں ایسی کہانیوں کی ازحد ضرورت ہوتی ہے جو عروج کے راستوں کی طرف لے جائیں۔
’لیڈر‘،’ حسرت دل‘،’ عزم توانا‘،’ سنگ میل‘،’ ضرب کلیم‘،’ آسان راستے‘،’ کمّی‘،’ ہم سب بشر ہیں‘،’ اصل بیماری‘،’ رابطے تو ہوتے ہیں‘،’ فری ہینڈ‘،’ فردجرم‘،’ سسی بے خبرے‘،’اصلی پیار تو یہ ہے‘،’ بیلنس‘،’ کیچڑ‘،’ پاک دل و پاک باز‘،’ شر سے خیر‘،’ باب برکات‘،’ ہم سا ہوتو‘،’ زندگی یا بندگی‘،’ جہاں کا خمیر تھا‘ اور’ عشق بکواس سہی‘ یہ سب مختلف رسائل وجرائد اور ڈائجسٹوں میں شائع ہوئے ہیں۔ہر افسانہ ایک الگ ہی داستان ہے۔
’لیڈر‘،’ رابطے تو ہوتے ہیں‘ اور’عشق بکواس سہی‘ ، یہ تینوں افسانے خاصے کی چیز ہیں، ایک سیاست دانوں سے متعلق، دوسرا روحانیت اور تیسرا عورت کے لطیف احساسات پر ہے۔ اول الذکر سیاست دانوں کے عمومی رویوں کو آشکار کرتاہے، ثانی الذکر میں بتایاگیاہے کہ مرحومین کے بھی آپس میں رابطے ہوتے ہیں، بھلا کیسے، یہ تو آپ کو پڑھنے سے معلوم ہوگا اور موخرالذکر افسانہ بتاتاہے کہ عورت اپنے جذبات کو چھپانے پر کمال ہنر رکھتی ہے۔ آپ یہ افسانہ پڑھیں گے تو حیرت سے آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
٭٭٭
گوجرقوم سے متعلق دو تاریخی کتابیں
گوجرقوم صدیوں برصغیر پاک وہند پر حکمران رہی، اس قوم کی جرات، بہادری، دلیری، جنگجوئی اور جفاکشی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کا جس زاویہ سے بھی مطالعہ کیاجائے، آپ کو گوجرقوم کا تذکرہ ضرور ملے گا۔ زیرنظرکتب ’تاریخ گوجراں‘ اور ’گنجینہ گوجراں‘ عنوانات ہی سے اپنا تعارف خوب کرارہی ہیں۔’تاریخ گوجراں‘ کے مصنف چودھری حسن سیف ہیں جنھوں نے بڑی عرق ریزی اور کمال محنت سے گوجر قوم کے ماضی کے واقعات کو تسلسل کے ساتھ جمع کیا ہے، اس کتاب کے مطالعہ سے جہاں لفظ ’گوجر‘ کی وجہ تسمیہ سے لے کر گوجر حکمران راجوں کے بارے میں مربوط تاریخی معلومات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے وہاں حروف تہجی کے اعتبار سے گوجر گوتیں بھی بیان کردی گئی ہیں۔ ’گنجینہ گوجراں‘ کے مصنف چودھری ولایت خان ہیں،انھوں نے کتاب کے شروع میں بتایا کہ ابتدائے آفرینش سے قومیں کس طرح وجود میں آئیں اور تاریخ کس طرح مرتب ہوئی؟اس کے بعد انھوں نے ’گوجروں کے پرانے حالات‘، ’گوجروں کی راجدہانیاں‘، ’نامور گوجر راجے‘،’گوجروں کی ریاستیں‘، ’آمد اسلام کے وقت گوجر‘، ’گوجروں پر بیرونی حملے‘ اور ’گوجروں کا زوال‘ کے عنوانات سے باب باندھے۔ قبیلہ سے محبت ایک فطری جذبہ ہے، ایسے میں یہ کتابیں خاص طور پر گوجر قوم کے بیٹوں کے لئے غیرمعمولی طور پردلچسپی کی حامل ہوں گی۔
٭٭٭
نام… راپنزل(ناول)
مصنفہ… تنزیلہ ریاض
قیمت… ایک ہزار روپے
ناشر… القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک اردوبازارلاہور
’راپنزل‘ دراصل محبت کی ایک داستان ہے۔ کہنے کی بات نہیں کہ ایسی داستانیں ہماری زندگی کا حصہ ہوتی ہیں، ان کہانیوں کے کردار ہم اپنے اردگرد چلتے پھرتے دیکھتے ہیں، ہمارے ہاں ہر دوسرا، تیسرا مرد اس کہانی کے مرکزی کردار کاشف جیسا ہوتاہے، وہ خوبصورت انسان تھا، لڑکیوں سے تعلقات میںکبھی حدود وقیود کا قائل نہ تھا، پھر اس کی شادی صوفیہ سے ہوئی جو عام ، قبول صورت اور سانولی سلونی لڑکی تھی۔ وہ متوسط بلکہ غریب گھرانے کے ماں باپ کی بیٹی تھی۔ وہ اچھے طور اطوار کی تھی۔اللہ نے اولاد دی تو بھی کاشف نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور اولاد میں بھی امتیاز برتنے لگا۔ بالآخر وہی ہوا جو اکثرہوتاہے، قدرت انسان کو اسی دنیا میں کسی بیماری یا مکافات عمل کا شکار کردیتی ہے یا بعض اوقات کسی ایسی صورت حال میں ڈال دیتی ہے کہ وہ ہوتاہے اور اس کا ضمیر ہوتاہے اور پچھتاوا ہی پچھتاوا ہوتاہے۔کاشفکے گناہوں کے اثرات اس کی بیٹیوں پر بھی پڑے، انھیں ادراک تھا کہ یہ باپ ہی کے گناہوں کی سزا ہے۔ تنزیلہ ریاض کا یہ ناول ایک شاندار کہانی ہے۔
٭٭٭
نام… امید صبح بہار رکھنا
مصنفہ…شبانہ شوکت
قیمت…400روپے
ناشر…القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک اردوبازارلاہور
زیرنظرکتاب میں چھ طویل کہانیاں ہیں:’امیدصبح بہار رکھنا‘،’ محبت ہم سفر میری‘،’اے جذبہ دل‘،’ تیری سادگی بھی کمال ہے‘،’ خوشیوں کا موسم‘ اور ’ہوائے کشت وفا‘۔ ہر کہانی دل ودماغ کی دنیا تبدیل کرنے والی ہے۔ مثلاً ایک کہانی ایک ایسے آدمی کے گرد گھومتی ہے جو خوشحال زندگی گزاررہاہوتاہے، کئی دکانوں کا مالک ہوتاہے جن میں سے بعض کرائے پر دی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے کرائے دار دکانداروں کے ساتھ اس قدراچھے تعلقات رکھتاہے کہ ان سب کی فیملیز ایک دوسرے کی گہری دوست بن جاتی ہیں، بچے تو یک جان دوقالب ہوتے ہیں۔ پھر ایک واقعہ ہوتاہے جس میں یہ شخص جاں بحق ہوجاتاہے، کرائے دار کفن دفن میں خوب ہاتھ بٹاتے ہیں لیکن پھر وہ کرائے کی دکانوں کی ملکیت کا دعویٰ کردیتے ہیں۔
نتیجتاً جعلی کاغذات بنانے والے قابض کرائے دار مختلف مصائب کا شکار ہوتے ہیں، کوئی کینسر میں مبتلا ہوتاہے اور کسی کا عزیز اغواکاروں کے ہتھے چڑھ جاتاہے۔ اس کے بعد وہ سبق سیکھتے ہیں اور اپنی زیادتیوں کی تلافی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اس کہانی میں بہت کچھ ہوتاہے، وہ جاننے کے لئے آپ کو یہ ناولٹ پڑھنا پڑے گا۔ شبانہ شوکت کی باقی طویل کہانیاں بھی ایسی ہی زوردار ہیں، پڑھئے اور سردھنئے۔القریش پبلی کیشنز نے فکشن کا خوب بازارسجارکھاہے، بالخصوص خواتین کہانی کاروں کی حوصلہ افزائی کو اپنا فرض اولین بنایاہواہے۔ یہ وہ ناول اورناولٹ ہیں جو ڈائجسٹوں کی دنیا میں خوب مقبول ہوئے، اب مجلد صورت بھی قبولیت عامہ حاصل کررہے ہیں۔
٭٭٭
نام… میرا آسمان
مصنفہ… شفق افتخار
قیمت…500روپے
ناشر…القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک اردوبازارلاہور
زیرنظرکتاب ،تین کہانیوں کا مجموعہ، مصنفہ کی پہلی کاوش ہے۔ ’نایاب ہیں ہم‘،’ دریچہ محبت ‘ اور ’ میرے حصے کی زمین میرا آسمان‘ کے عنوانات سے یہ ناولٹ ایک ڈائجسٹ میں چھپ چکے ہیں۔ ’نایاب ہیں ہم‘ ان لوگوں کی کہانی ہے جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اور اللہ کی رحمت کو ان کے ماں باپ کے لئے جرم بنادیتے ہیں۔ احساس تب ہوتاہے جب وہی بیٹی ان کے آڑے وقت میں بیٹے سے بڑھ کر ساتھ دیتی ہے۔ ’دیچہ محبت‘ حمزہ اور علیزے کی محبت کہانی ہے، علینہ کی خودغرضی کی کہانی ہے جس نے دوستی جیسے پاک اور انمول رشتے کو اپنی خودغرضی کی بھینٹ چڑھادیا، خود وقت کے ہاتھوں شکست کھائی اور جسے وقت مات دے وہ انسان زمانے کی ٹھوکروں میں آجاتاہے۔
اس کی ’’میں‘‘ نے اسے رسوا کیا اور اس کے ہاتھ کچھ نہ آسکا، محبت نہ دوستی۔ حمزہ ایک ایسا کردار جو صرف محبت کرنا جانتاہے اور اسے نبھانا بھی۔ علیزے سادہ سی پرخلوص لڑکی جو دوستی میں چالاکی اور خودغرضی کو نہ سمجھ سکی مگر وقت نے اسے محبت جیسا خوبصورت تحفہ دیا۔’ میرے حصے کی زمین میرا آسمان‘ٹوٹے خوابوں کی ایسی داستان ہے کہ جن خوابوں کے ٹوٹنے کی چبھن آنکھوں سے تو شاید وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوجاتی ہے مگر دل ے ایک کونے میں ہمیشہ رہتی ہے۔ سب کی سب کہانیاں بہت خوب ہیں۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.