آپ نے ابراہیم ذوق کا یہ شعر تو سنا ہی ہوگا:
اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے
اگر سنا ہے تو ضروری نہیں کہ آپ ان کی رائے سے اتفاق بھی کریں۔ اگر اتفاق بھی کرتے ہوں تو کوئی ضروری نہیں کہ اس پر عمل بھی کرتے ہوں۔ کیوں کہ شاعر حضرات کی ہر بات کو مان لینا خطرے سے خالی نہیں۔ ویسے ہم ایسے بہت سے لوگوں سے واقف ہیں جو نہ صرف اس بات سے متفق ہیں بلکہ پابندی سے اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ نہ صرف عمل کرتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں اگر کوئی ناخوش گوار صورت حال بھی سامنے آجائے تو اسے درگزر کرنے کے بعد سختی سے اسے اپنا مسلک بنائے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بے تکلیف بھی ایک فن ہے۔ اس سلسلے میں تھوڑی ’’احتیاط‘‘ لازمی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بے تکلفی کو اپنا شعار بنانا ہو تو کچھ نازک موقعوں پر اس سے پرہیز بھی کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً اپنے ملازم، اپنے باس (Boss) اور اپنی بیگم کے ساتھ بے تکلفی ایک مستقل خطرہ بن سکتی ہے، جس کے نتائج فوراً نہیں ظاہر ہوتے اور کچھ دنوں بعد انسان کو بہت کچھ جھیلنا پڑسکتا ہے۔
اس سلسلے میں ہم آپ سے اپنے ایک بے تکلف دوست کا تعارف کرانا چاہتے ہیں جو ہم کو کافی عزیز رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ہم کو بھی ان کا کافی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مگر ان کے ساتھ دقت یہ ہے کہ اکثر وہ ’’ہم حال دل سنائیں گے سنیے کہ نہ سنیے‘‘ کے آزار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ بیماری کبھی کبھی ان پر اتنی حاوی ہوجاتی ہے کہ کچھ لوگ دور ہی سے ان کو دیکھ کر اس آزمائش سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک حال دل سنانے کی بیماری کا تعلق ہے تو وہ اس کو بیماری کے بجائے بے تکلفی کا اعجاز قرار دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر جب ہم ان کی گرفت میں آگئے تو شروع ہوگئے،’’میاں تم کیا جانو بے تکلفی کے اعجاز! تم تو بن بلائے مہمان کو بھی بغیر چائے پلائے گھر سے جانے نہیں دیتے۔ بے تکلفی کی دو قسمیں ہوتی ہیں، شائستہ اور ناشائستہ۔ اگر انسان ناشائستہ بے تکلفی سے گریز کرنا سیکھ لے تو پھر ساری مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ شرط ہے کہ آدمی اپنی اس شائستگی کو اپنی جاگیر نہ سمجھے۔ تم جانتے ہو کہ شائستگی کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں سے میں کوسوں دور رہتاہوں…‘‘ ان کی یہ باتیں سن کر ہم کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ پٹری سے اترنے والے ہیں اس لیے ہم نے چپکے سے اپنی گھڑی کی طرف دیکھنا چاہا تو فوراً تاڑگئے ’’گفتگو… اور دوستوں سے گفتگو میں گھڑی دیکھنا بے توجہی کی علامت ہے۔‘‘
ہم نے شوشہ لگایا… ’’ اور بے تکلفی کی بھی۔!‘‘ جس کو سن کر وہ باغ باغ ہوگئے۔ کچھ سنبھلے کہ ان کی گفتگو سچ مچ پٹری سے اترچکی تھی۔ بات بتاتے ہوئے فرمایا،’’بے تکلفی سے ایک فائدہ اور ہوتا ہے کہ حاضر جوابی آپ کے مزاج میں خود بخود شامل ہوجاتی ہے‘‘۔ اس پر جب ہم نے لقمہ دیا،’’ایسی حاضر جوابی کس کام کی جس سے پرانی سی پرانی دوستی سے آدمی محروم ہوجائے…‘‘ ہماری اس چوٹ کو بھانپتے ہوئے جواب دیا،’’ہردل عزیزی میرے حصے میں آئے یا نہ آئے، لیکن میں اب بھی ابراہیم ذوق کے فلسفے کا قائل ہوں۔ ذرا سوچیے کہ اگر بطور مہمان آپ کی پسندیدہ ڈش (DISH) آپ کے سامنے آجائے تو اس وقت تکلف کا دامن پکڑے رکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ یہ سن کر ہم کو ان کی ایک کم زوری یاد آگئی۔ کھانے کے معاملے میں وہ اپنی ’’خوش ذوقی‘‘ کے لیے خاصی ’’رسوائی‘‘ حاصل کرچکے تھے۔ اس لیے ہم خاموش ہوگئے اور شائستہ بے تکلفی سے کام لیتے ہوئے ان سے اجازت چاہی تو انہوں نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا اور ہم اس دن دفتر دیر سے پہنچنے سے بچ گئے۔
ذکر ہمارے دوست کا آچلا ہے تو ہم ان کا مکمل تعارف آپ سے کرانا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ ویسے تو ہیں ڈاکٹر لیکن بے تکلفی کی بیماری ان پر اتنا حاوی ہوچکی ہے کہ اپنا تعارف بھی محفلوں میں ایک خاص ادا کے ساتھ کراتے ہیں،’’میں ڈاکٹروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں جن کو لوگ بغیر قصور کے آنکھیں دکھاتے ہیں۔‘‘ بے تکلفی کے علاوہ ان کی شخصیت کے کچھ اور دل چسپ پہلو بھی ہیں جن کو لوگ ان کی (Idiosyncrasy) سمجھ کر ٹال دینے ہی میں نجات سمجھتے ہیں۔ مثلاً اردو شاعری سے ان کی عقیدت۔ غالب کے وہ عاشق ہیں۔ اس لیے کہ ان کو وہ بے تکلفی کا شہنشاہ کہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کو مخاطب کرنے میں غالب کی شوخیوں کو وہ بے تکلفی کی معراج سمجھ کر مثال کے طور پر ایک دن ہمیں یہ اشعار سنانے لگے:
(1) کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملالیں یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی!
(2) ہم سے کھل جائو بوقت مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن
غالب کی بے تکلفی کی زندہ مثال تم کو اس شعر میں بھی نظر آئے گی:
جس میں لاکھوں برس کو حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی
ظاہر ہے کہ ان کا دل رکھنے کے لیے ہم نے فوراً جب حامی بھرلی تو ہمارے دل میں خیال آیا کیوں نہ ان کو چھیڑا جائے۔ ہم نے فوراً دریافت کیا ’’اردو کی مزاحیہ شاعری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ تھوڑے توقف کے بعد بولے مجھے ضمیر جعفری کی وہ نظم بہت پسند ہے جس کا ماڈرن آرٹ کے سلسلے میں ایک مصرع بہت مشہور ہے:’’جس کو سمجھا تھا انناس وہ عورت نکلی‘‘ ن، م، راشد کی آزاد نظم،’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے۔ زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں‘‘ پر کسی کی مزاحیہ تضمین ان کو بہت اچھی طرح یاد تھی۔
اے مرے حجام قینچی تھام لے
اور کردے خشخشی داڑھی مری
مولوی سے بھاگ کر آیا ہوں میں…
یہ سن کر ہم پھر گھڑی دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے تو فرمایا ’’آج تمہیں اس بات کا مکمل ثبوت دے کر رہوں گا کہ بے تکلفی سے حاضر جوابی بڑھتی ہے۔‘‘ کہنے لگے صرف دو مثالیں دوں گا،’’اردو کے آل انڈیا پاک مشاعرے گزرے دنوں میں بہت دل چسپ ہوا کرتے تھے، ایسی ہی ایک محفل میں کسی گستاخ نے جوش صاحب سے ان کی عمر دریافت کرلی، جوش صاحب بہ حسن وخوبی اس کا جواب دے چکے تو جگر اور فراق وغیرہ نے بھی اپنی اپنی تاریخ پیدائش بتانی جب ختم کی تو مجاز فوراً بولے،’’اس لحاظ سے تو میں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا‘‘
’’ڈوبائی کی ایک ایسی ہی محفل مشاعرہ میں جب بے تکلفی کا دور شروع ہوا تو ایک شاعر نے شکایت کی کہ فلاں شاعر، فلاں صاحب کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوا… اور لوگ اس سے بہت نالاں ہیں۔ اس پر مجاز نے برجستہ کہا ’’تم دل چھوٹا نہ کرو ہم سب تمہاری نماز جنازہ میں ضرور شریک ہوں گے۔‘‘
ہمارے صبر کا پیمانہ اب جھلکنے ہی والا تھا کہ ایک فاتحانہ تبسم کے ساتھ انہوں نے حکم دیا،’’اب تم جاسکتے ہو…‘‘
ان سے نجات ملنے پر جب ہم دیر سے گھر پہنچے تو ہماری نصف بہتر کا پارہ خاصا چڑھا ہوا تھا۔ بڑے انتظار کے بعد جب گرم گرم چائے آئی تو ہم نے آج کا اخبار طلب کیا۔ بیگم صاحب نے تنک کر جواب دیا،’’میں تو کل سے ڈھونڈ رہی ہوں نہ جانے کہاں غائب ہوگیا‘‘
اس کے بعد ہم نے خاموشی سے آنکھیں بند کیں اور بڑی دیر تک meditateکرنے کے بعد جب نیند کا غلبہ ہوا تو خواب میں بھی ابراہیم ذوق کا شعر کوئی بڑے ترنم سے گنگنا رہا تھا۔
اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے