وطن عزیز کی میٹھی زبان،پشتو کی ضرب المثل ہے ’’تورو تیارو پسی رنا رانی‘‘۔یعنی تاریکی کے بعد روشنی بھی ہونے لگتی ہے۔
یہ ضرب المثل وطن عزیز کے خوبصورت اور فطری مناظر سے مالامال علاقے، وزیرستان پر پوری اترتی ہے جہاں پاک فوج حکومت پاکستان کے تعاون سے چہار سو امن، محبت، بھائی چارے اور ترقی کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہے۔ اس انقلاب کی داستان حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔ یہ عیاں کرتی ہے کہ خصوصاً پاک فوج نے نہایت تدبر و حکمت سے پہلے بذریعہ گولی ایک تباہ کن آفت پر قابو پایا اور اب وہ محبت و خیر خواہی کے پھول بانٹ کر خاص طور پر شمالی وزیرستان کو نیا رنگ، نئی صورت دینے میں مصروف ہے۔
شمال مغربی پاکستان میں واقع پہاڑی علاقہ وزیرستان انتظامی لحاظ سے دو حصوں میں منقسم ہے: شمالی وزیرستان (رقبہ 1817 مربع میل اور آبادی پانچ لاکھ چوالیس ہزار) اور جنوبی وزیرستان) رقبہ 2556 مربع میل اور آبادی چھ لاکھ اسی ہزار)۔جب 2001ء میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، تو بہت سے طالبان اور غیر ملکی جنگجو وزیرستان میں بھاگ آئے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے شمالی وزیرستان کو اپنا ہیڈکوارٹر بنالیا۔ وہ پھر وہاں سے امریکا ہی نہیں ریاست پاکستان پر بھی حملے کرنے لگے۔ انہوں نے نظریہ تکفیر اپنایا اور مخالف مسلمانوں کو نشانے پر رکھ لیا۔ آنے والے برسوں میں ہزارہا پاکستانی ان جنگجوؤں کے بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا نشانہ بنے اور کھربوں روپے کی سرکاری و نجی تنصیبات تباہ ہوگئیں۔
آخر جون 2014ء میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا۔ اس فوجی مہم کا ٹارگٹ وہ دہشت گرد تھے جو شمالی وزیرستان کو اپنا مرکز بناکر پاکستانی قوم و ملک کے خلاف خوفناک کارروائیاں کررہے تھے۔ یہ آپریشن انجام دینا نہایت کٹھن اور مشکل مرحلہ تھا۔ وجہ یہ کہ شمالی وزیرستان میں میدانی علاقے بہت کم ہیں اور وہ پہاڑوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ پہاڑ بھی معمولی نہیں بلکہ پانچ تا نو ہزار فٹ بلند ہیں اور اجنبی بمشکل ان پر چل پھر پاتے ہیں۔
پیچیدہ جغرافیائی صورتحال کے باوجود جذبہ حب الوطنی سے سرشار جوانوں نے دہشت گردوں پر بھرپور حملے کیے اور انہیں پسپا کرتے آخر شمالی وزیرستان کے صدر مقام میراں شاہ تک پہنچ گئے۔ اس جنگ میں افواج پاکستان کے ایک ہزار سے زائد جوانوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا جبکہ تین ہزار جوان زخمی ہوئے۔ مگر انہوں نے اپنے لہو کا نذرانہ دے کر پاک دھرتی کو دہشت گردوں کے وجود سے پاک کردیا۔انہی کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ درہ خیبر سے کراچی تک شہریوں کی زندگیوں پر چھائے خوف کے سائے چھٹ گئے اور امن و محبت کی بہارلوٹ آئی۔
آج پاک فوج وزیرستان میں دو اہم کام انجام دینے میں مصروف ہے۔ اول وہ پاک افغان سرحد پر باڑ کا جدید ترین اور مربوط نظام قائم کررہی ہے۔ اس نظام کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد سرزمین پاکستان پر قدم نہ دھرسکیں۔ دوم وزیرستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ان گنت منصوبوں پر کام جاری ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس پہاڑی علاقے کے غریب مکین بھی دور جدید کی سہولیات سے مستفید ہوسکیں۔
وزیرستان میں دہشت گردوں کے جنگی اڈوں کا صفایا کرکے افواج پاکستان نے ثابت کردیا کہ پیشہ ورانہ تربیت، تجربے اور دلیری میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں کی شبانہ روز محنت و سرگرمیوں کا نتیجہ ہے کہ سوہنی دھرتی میں امن و امان ماضی کی نسبت کہیں زیادہ قائم ہوچکا۔مثال کے طور پہ 2013ء میں دہشت گردوں نے تین ہزار پاکستانی شہید کر ڈالے تھے۔آج پچھلے چھ ماہ میں تقریباً ایک سو پاکستانی دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
گویا پاک فوج کے آپریشن نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور اب وہ بزدلوں کی طرح چھپ کر وقتاً فوقتاً ریاست اور پاکستانی قوم پر وار کرتے ہیں۔شمالی وزیرستان میں ہماری افواج کی کامیابیاں کم ہی نمایاں ہو پاتی ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ شہرت پانے کی خاطر خالی خولی نعرے بازی نہیں بلکہ عمل پر یقین رکھتی ہیں۔ مگر افواج پاک کے اچھے کاموں کی تشہیر ضروری ہے، اس طرح ہم وطنوں پر مثبت اثرات پڑتے ہیں اور ان میں بھی وطن سے محبت کا جوش و جذبہ بڑھتا ہے۔کچھ کر دکھانے کا عزم جنم لیتا ہے۔ مزید براں کارناموں کی تشہیر نہ ہونے سے مخالفین فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کئی ماہ سے امریکی حکومت یہ راگ الاپ رہی ہے کہ افواج پاکستان نے شمالی علاقہ جات میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ جبکہ پاک فوج امریکیوں کو کئی بار باور کراچکی کہ شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشن ہوا ہے اور ’’اچھے‘‘ یا ’’برے‘‘ طالبان میں سے کوئی تمیز نہیں رکھی گئی۔ اس کے باوجود ٹرمپ حکومت نے مرغ کی ایک ہی ٹانگ والا رویّہ اختیار کررکھا ہے۔
آخر حالیہ ماہ مارچ میں پاک افواج نے امریکی صحافیوں کو شمالی وزیرستان آنے کی دعوت دی تاکہ وہ اپنے آنکھوں سے وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکیں۔ امریکی صحافیوں کے وفد میں اہم اخبارات کے صحافی شامل تھے۔ اس دورے کے بعد واشنگٹن پوسٹ، دی اکنامسٹ اور دی بریٹ بارٹ (Breitbart) سے منسلک امریکی صحافیوں نے دورہ میران شاہ پر مضامین لکھے اور ان میں افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا جو اپنے وطن میں امن لانے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے پر جتی ہوئی ہیں۔
دی بریٹ بارٹ کی صحافی، کرسٹینا وونگ نے یہ امر واضح کیا کہ پاک فوج اٹھارہ سو میل طویل پاک افغان سرحد پر خاردار باڑیں لگا رہی ہے۔دو خاردار باڑوں پہ مشتمل یہ نظام 12 فٹ اونچا ہے۔ باڑوں کے نزدیک مناسب فاصلوں سے کیمرے لگے ہیں اور شمسی لائٹیں بھی۔ مزید براں کسی اجنبی کے دخول سے مطلع کرنے والا جدید ترین نظام (intrusion detection system) بھی نصب ہے۔ خاردار باڑوں کا یہ نظام جگہ جگہ فوجی چوکیاں بناکر مضبوط بنایا جارہا ہے۔ امید ہے کہ یہ 2019ء تک مکمل ہوجائے گا۔
اٹھارہ سو میل طویل خاردار باڑ کا یہ نظام بنانے میں پاکستان کے تقریباً 550 ملین یعنی پچپن کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ تقریباً ستاون ارب روپے بنتے ہیں جو یقیناً ایک بڑی رقم ہے۔ مزید براں یہ نظام برقرار رکھنے کی خاطر بھی حکومت پاکستان کو کثیر رقم خرچ کرنا پڑے گی۔ یہ نظام اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکومت اور افواج پاکستان دہشت گردوں کے عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے اور اس ضمن میں کسی جنگجو گروہ کی حمایت نہیں کی جا رہی۔ ایسے میں امریکی حکومت کا یہ دعویٰ کہ پاکستان افغان طالبان کی مدد کررہا ہے، محض سیاسی ڈراما ہے۔ صدر ٹرمپ اس ڈرامے سے مخصوص مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام کی مدت بڑھائی جا سکے۔ اور یہ کہ پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست ملک قرار دیا جائے ۔
میران شاہ میں سیونتھ انفنٹری ڈویژن کے کمانڈر، میجر جنرل اظہر اقبال عباسی نے امریکی صحافیوں کا استقبال کیا اور انہیں تفصیل سے بتایا کہ پاک فوج اس پس ماندہ علاقے کو ترقی دینے کی خاطر کس قسم کے دیرپا، ٹھوس اور وسیع اقدامات کررہی ہے۔ انہوں نے امریکی حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا ’’افواج پاکستان نے دو برس میں پاکستانی طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے وہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر تباہ کردیئے جو وزیرستان میں قائم تھے جبکہ امریکی فوج پچھلے سترہ برس سے افغانستان میں موجود ہے اور وہ طالبان کو ختم نہیں کرسکی۔‘‘
میجر جنرل اظہر نے پھر مہمانوں کو پاک افواج کی کامیابی کا راز کچھ یوں بتایا ’’ہم نے مقامی آبادی کو اپنا مخالف بنائے بغیر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور انہیں تنہا ہونے پر مجبور کردیا۔ گوریلا جنگ مقامی آبادی کے تعاون ہی سے پھلتی پھولتی ہے۔ جب دہشت گردوں کو وزیرستان کے عوام سے مدد نہ ملی تو وہ یہاں سے فرار ہوگئے۔‘‘
مگر یہ بھی سچ ہے کہ دو سالہ جنگ نے وزیرستان کی انسانی آبادیوں کو خاصا نقصان پہنچایا۔ کئی جگہیں تو ملیامیٹ ہوگئیں۔ اب پاک فوج کے تعاون سے اس علاقے میں گھروں، سکولوں، ہسپتالوں، مارکیٹوں اور سڑکوں کی تعمیر جاری ہے۔ گویا پتھریلی زمین پر نئے پھول آگ رہے ہیں اور ایک نیا جہان آباد ہورہا ہے… ایسا جہان جہاں ہر شہری کو زندگی کی بنیادی سہولیات دستیاب ہوں گی اور جہاں نفرت و دشمنی نہیں پیار و محبت کی کلیاں کھلیں گی ۔جہاں گولیاں اور بم نہیں بچوں کی خوش کن کلکاریاں اور کھیلنے کی چنچل آوازیں گونجیں گی۔
پاک فوج مادی تعمیر و ترقی کے علاوہ باشندگان شمالی وزیرستان کی جذباتی نشوونما کرنے میں بھی مصروف ہے۔ مقصد ہے کہ ان میں اپنے وطن سے محبت کرنے کا جذبہ ابھارا جاسکے۔ اس طرح پہاڑی علاقوں کے باسی بھی قومی دھارے میں شامل ہوکر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔
پشتو میں کہتے ہیں:’’ بیکاروتہ شیطان کار پیدا کوئی۔‘‘ یعنی فارغ انسان کا دماغ شیطان کا کارخانہ بن جاتا ہے۔ بیکار انسان کو الٹے سیدھے خیالات آتے رہتے ہیں۔ اسی لیے پاک فوج اور حکومت پاکستان کی سعی ہے کہ شمالی وزیرستان بلکہ پورے شمالی علاقہ جات میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ نہ صرف غربت کا خاتمہ ہو بکہ مختلف سماجی برائیوں کا سدباب بھی ممکن ہوسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے یعنی 1979ء میں افغانستان میں گریٹ گیم شروع ہوئی ہے، پاکستان اندرونی و بیرونی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے۔ پہلے افغان جہاد کے دوران روسی، افغان اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے شہروں میں بم دھماکے کراتی رہیں۔ جب امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا تو بہت سے سابقہ جہادی امریکیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں پر بھی حملے کرنے لگے۔یوں پاکستان پچھلے اڑتالیس برس سے دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے۔یہ دہشت گردی جنم دینے میں دوسروں کا واضح کردار ہے تو اپنی غلطیوں نے بھی اسے بڑھاوا دے ڈالا۔
پاکستان کا المّیہ یہ ہے کہ ہم سے نبرد آزما جنگجو حکومت اور پاک فوج کو مغربی طاقتوں کا پٹھو قرار دیتے ہیں جبکہ ہمارے اتحادی بھی اپنی ناکامیوں کا ذمے دار پاکستانی حکومت اور پاک فوج کو سمجھتے ہیں۔ غرض دونوں نے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنالیا ہے۔ جب بھی جنگجو تنظیمیں اور امریکا پر تنقید ہو، تو دونوں اس کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیتی ہیں۔
یہ بہرحال یقینی بات ہے کہ خار دار باڑوں کی تعمیر سے وزیرستان میں امن و امان بحال کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ وجہ یہ کہ وزیرستان اور دیگر شمالی علاقہ جات میں فوجی آپریشن کی کامیابی کے بعد بہت سے جنگجو افغانستان فرار ہوگئے۔ وہ اب افغان علاقوں میں مرکز بناکر پاکستان میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
فی الوقت یہ جنگجو پاک افغان سرحد کے کسی ویران و دشوار گزار راستے سے پاکستان چلے آتے ہیں۔ مگر جب بھی پوری سرحد پر خاردار باڑیں لگ جائیں گئی تو ان کے لیے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونا بہت مشکل ہوجائے گا۔ تب پاک فوج جان سکے گی کہ افغانستان سے کون پاکستان آجارہا ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان نے بھر پور کوشش کی ہے کہ افغان حکومت سے تعلقات بہتر بنائے جائیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان حکومت امریکا کی کٹھ پتلی ہے اور وہ بھارت کے اشاروں پر بھی ناچتی ہے۔ اسی لیے وہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاسکتی۔ امریکہ اور بھارت جو حکم دیتے ہیں،افغان حکمرانوں کو اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ غرض کمزور افغان حکومت دونوں پڑوسیوں کے خوشگوار تعلقات جنم لینے میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکی۔لیکن افواج پاکستان ہم وطنوںکے تعاون سے دفاع مضبوط بنا رہی ہیں اور اب دشمن قوتوں کے لیے آسان نہیں رہا کہ وہ ارض پاک پہ دہشت گردی کے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کر سکیں۔
The post سنگلاخ پہاڑوں پہ کھلتے پُھول appeared first on ایکسپریس اردو.