بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وقتِ مقررہ سے پہلے اور خدا کی رضا کے بغیر نہ تو کوئی روح اس دنیا میں آ سکتی ہے اور نہ ہی خدا کے مقررہ وقت سے پہلے کسی کو موت آ سکتی ہے۔ مگر سائنس روحانیت اور جذبات سے عاری ہے۔ سائنس کا ایک بنیادی اصول ہے کہ یہ ہر شے کو مادی، تجزیاتی اور تجرباتی پیمانوں پر پرکھتی اور نتائج اخذ کرتی ہے۔
امریکا کے اخبار ’’ایوننگ پوسٹ‘‘ نے اس راز سے پردہ اٹھانے کیلئے کہ لمبی عمریں پانے والے آخر کس طرح موت کے بے رحم ہاتھوں سے اتنے طویل عرصہ بچے رہے، باقاعدہ ایک کمیشن مقرر کیا اور اس انداز میں سارے انتظامات کئے گئے جس طرح سیاسی مسائل میں امریکیوں کا رحجان اور ان کی رائے معلوم کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ اس کمیشن نے تلاش و تجسس کے بعد 402 معمر ترین افراد کا پتہ لگایا، ان سے تفصیلی انٹرویو کئے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا درازی عمر کے واقعی کچھ ٹھوس اسباب اور لگے بندھے اصول ہیں یا یہ قدرت کا کھیل ہے ۔ لمبی عمریں پانے والے آخر کیا کھاتے اور کس طرح رہتے ہیں؟ منتخب افراد میں سب کے سب 90 سال سے زائد عمر کے تھے ان میں مردوں کی تعداد 250 اور عورتوں کی 152 تھی ۔ نسلی اور جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے سفید فام امریکی 364‘ نیگرو 34 ‘ ایک جاپانی اور تین ریڈ انڈین تھے اور یہ لوگ مختلف جغرافیائی خطوں میں رہ رہے تھے ۔
کچھ انتہائی گرم علاقوں، میں کچھ انتہائی سرد علاقوں میں ،کچھ خشک آب و ہوا میں اور چند مرطوب خطوں کے رہنے والے تھے ۔ جب ان لوگوں سے ملاقات کی گئی تو اندیشہ یہ تھا کہ ان میں سے بیشتر افراد ذہنی طور پر اس حد تک مفلوج ہوں گے کہ ان سے کام کی باتیں معلوم کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ ان میں صرف سات فیصد افراد ایسے نکلے البتہ ان سب کی سماعت میں کسی نہ کسی حد تک فرق ضرور آچکا تھا ۔ ان لوگوں سے پہلا سوال یہ کیا گیا کہ آپ کے خیال میں درازی عمر کا راز کیا ہے۔ 48 فیصد افراد نے صاف صاف الفاظ میں اقرار کیا کہ انہیں کوئی اندازہ نہیں کہ ان کی درازی عمر کا کیا سبب ہے۔ 22 فیصد نے اسے ’’اللہ کی مرضی‘‘ کا مظہر قرار دیا ۔17فیصد لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ انہوں نے زندگی میں کبھی فکر و پریشانی کو پاس پھٹکنے نہیں دیا ، ہر حال میں خوش رہے اور زندہ دلی شعار کی۔ 16فیصد افراد نے طوالت عمر کا سبب اپنی جفاکشی اور محنت کو ٹھہرایا‘ 11فیصد نے کہا کہ درازی عمران کی خاندانی خصوصیت ہے اور صرف 9 فیصد افراد نے نیند، کھانے اور ورزش میں باقاعدگی کو زیادہ عرصے زندہ رہنے کی بنیاد بتایا لیکن یہ سارے جوابات درحقیقت اس سوال کا کوئی دو ٹوک اور متعین جواب یا حل پیش نہیں کرتے۔
البتہ ان سے یہ ضرور اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی میں اعتدال اور میانہ روی کا طریقہ زیادہ مدت تک جینے کی ایک اہم بنیاد ہے لیکن یہ کوئی نئی دریافت نہیں۔ 1822ء میں ایک انگریز ڈاکٹر کچز اپنی کتاب ’’درازی عمر کے راز‘‘ میں یہ مشورہ دے چکا ہے کہ جلدی سو جائو، صبح سویرے اٹھ جائو ،کھلی ہوا میں اتنی ورزش کرو جس سے تھکان ہو‘ سیدھی سادی غذا اعتدال کے ساتھ کھائو اور ہر دم خوش و خرم رہو، ذہن کو پریشانیوں اور الجھنوں کی آماجگاہ نہ بننے دو‘ لیکن ڈھونڈنے سے ایسی مثالیں بھی مل سکتی ہیں کہ ان ساری تدابیر کے بغیر بھی بعض لوگ اوسط سے کہیں زیادہ عرصے زندہ رہے۔ ان عمر دراز لوگوں سے جن کا اوپر ذکر آ چکا ہے‘ گفتگو کرنے سے معلوم ہوا کہ ان میں سے نصف تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے عمر بھر شراب کو ہاتھ نہیں لگایا ، باقی لوگوں میں بھی اکثریت نے شراب یا تو بہت کم پی اور اگر پی ہے تو اس میں بھی اعتدال کا خاص خیال رکھا ہے، صرف ایک فرد ( 115سالہ) نے بتایا کہ اس نے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ شراب پینے کی کوشش کی ہے۔ مشی گن کی ایک سو ایک سالہ مسز میری اینیر کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ اسی سال سے مسلسل ہر ہفتے ایک کوارٹر شراب پیتی ہے اور کئی سال سے اس نے روزانہ ایک گیلن تک بیئر پی ہے۔
ان لوگوں میں 97 فیصد افراد ایسے پائے گئے جو مذہب سے کسی نہ کسی حد تک لگائو رکھتے تھے اور ان میں 73 فیصد تو اپنی زندگیوں میں کٹر مذہب پرست واقع ہوئے تھے لیکن چھ افراد ایسے بھی نکلے کہ جو سرے سے خدا کے منکر تھے۔ سگریٹ نوشی کے اعتبار سے جائزہ لیا گیا تو 60 فیصد افراد ایسے نکلے جو سگریٹ سے بالکل پرہیز کرتے رہے اور 14 فیصد ابھی تک سگریٹ پی رہے ہیں لیکن ان میں جداگانہ مثال ایک جج کی ہے جو بستر سے اٹھتے ہی اپنے پائپ میں تمباکو بھر کر پینا شروع کر دیتا ہے اور رات کو سونے کے وقت تک پائپ اس کے منہ سے جدا نہیں ہوتا۔
وزن کے اعتبار سے ان میں اوسط درجے کے مرد کا وزن تیس سال کی عمر میں 152 پونڈ رہا‘ لیکن بعض 200 پونڈ سے بھی آگے نکل گئے۔ تین مردوں اور ایک عورت کا وزن اس عمر میں بھی دو سو پونڈ سے اوپر ہے۔ ان 402 معمر ترین افراد میں تیرہ مرد اور پانچ عورتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے شریک زندگی سے طلاق کے ذریعے علیحدگی اختیار کی۔ کھانے کے معاملے میں تقریباً سب نے ہی بتایا کہ وہ صرف اتنا کھاتے ہیں جس سے انہیں بھوک محسوس نہ ہو لیکن حلق تک ٹھونسنے سے سب پرہیز کرتے رہے ہیں۔ 75 فیصد افراد اپنے پیشے سے پوری طرح مطمئن اور اپنے کام میں مگن رہے۔
ان افراد میں ٹیکساس کی ایک خاتون شامل ہے جس کی عمر 103 سال کے لگ بھگ ہے۔ وہ غلاموں کی تجارت کرنے والے ایک تاجر کی بیٹی ہے۔ اس نے اپنی خوراک میں وہ تمام چیزیں استعمال کیں جو صحت اور درازی عمر کے لئے بظاہر کوئی خاص مفید نہیں سمجھی جاتیں‘ مثلاً شکر‘ چکنائی‘ آلو اور گوشت وغیرہ۔ اس کا عام طریقہ یہ تھا کہ وہ اگر سبزی پکاتی تو اسے بھی کافی دیر تک پہلے چربی یا کسی اور چکنائی میں جوش دیتی تھی۔ اسے کبھی یہ معلوم نہ ہوا اور نہ اس بات کو جاننے کی ضرورت پیش آئی کہ چکنی غذائیں دل کو کم زور کرتی اور اختلاج قلب کے مرض میں مبتلا کرتی ہیں یا یہ کہ شکر کا زیادہ استعمال گردے کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ان ساری بے اعتدالیوں کے باوجود وہ اوسط عمر سے تقریباً پچاس ساٹھ سال اوپر گزر چکی ہے اور آج کل امریکی قانون کے مطابق ایک آرام گاہ میں رہ رہی ہے جو معمر لوگوں کو زندگی کے آخری ایام میں کسمپرسی اور فاقہ کشی کی مصیبت سے بچانے کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ یہاں وہ اپنی خوراک کے انتظام سے سخت نالاں ہیں کیوں کہ ڈاکٹر اپنے جدید فارمولوں کے مطابق ان آرام گاہوں کی خوراک چکنائی اور دوسری مضر صحت اشیا سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس خاتون کو نمک اور چکنائی بہت کم دی جاتی ہے۔
یہی معاملہ 95 سالہ سرخ و سفید شخص ریڈنگ بیک کا ہے۔ وہ مسوری کا رہنے والا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ساری عمر چربی والا گوشت، آٹے کی روٹی اور لوبیا استعمال کرتا رہا ہے۔ گوشت جتنا چکنا ہو‘ اسے اتنا ہی اچھا لگتا ہے۔ چارلی واشنگٹن کی عمر 115 سال ہے ، وہ بھی چکنائی اور گوشت خوب استعمال کرتا ہے۔ خاص طور پر بھنا ہوا گوشت اس کی مرغوب غذا ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ان چیزوں کا استعمال رگوں میں سختی پیدا کر دیتا ہے البتہ بھوک سے زیادہ کھانا واقعی مضر ہے۔ 78 فیصد افراد نے اس بارے میں متفقہ طور پر ایک ہی طرز عمل کا ذکر کیا کہ وہ کھانے کے معاملے میں اس بات کی بہت احتیاط رکھتے ہیں کہ بھوک سے کچھ کم ہی کھایا جائے۔ غرض مجموعی طور پر ان سارے افراد کے حالات سے یہ اندازہ ہوا کہ کھانے کے معاملے میں انہوں نے کوئی خاص قید یا پابندی اپنے اوپر عائد نہیں کی اور درازی عمر کا کھانے کے اجزاء سے کم از کم ان افراد کی حد تک کوئی خاص تعلق واضح نہیں ہوا ۔ عمر کی انتہائی منازل میں پہنچنے کے باوجود انہیں زندگی سے پوری دل چسپی ہے اور وہ چست اور چاق و چوبند نظر آتے ہیں۔ ان افراد میں ایک شخص جیمز بریٹ ہے ۔ جو پکا مذہبی شخص ہے۔ اس سے زیادہ سکون شاید ہی کسی کو میسر آیا ہو۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ تم کتنے عرصے اور زندہ رہو گے تو اس نے نہایت پرسکون لہجے میں جواب دیا۔’’بھائی! موت اور زندگی میرے ہاتھ میں ہے نہ میں اس کے بارے میں کوئی علم رکھتا ہوں ، یہ تو خد کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک اس کی مرضی ہے میں زندہ رہوں گا اور جب وہ چاہے گا مجھے اٹھالے گا ‘‘۔
خوش گوار اور پر مسرت ازدواجی زندگی بھی طویل عمر کا ایک سبب ہے۔ زیر مطالعہ افراد میں سے 94 فیصد نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ان کی گھریلو زندگی بہت اچھی اور پر سکون رہی ہے صرف چھ فیصد افراد ایسے نکلے جنہوں نے شادی نہیں کی ۔ شادی شدہ لوگوں نے اس دور میں زندگی گزاری کہ جب مشترکہ خاندانی نظام رائج تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں زندگی میں شاید ہی کبھی خاندانی جھگڑوں سے کوئی واسطہ پڑا ہو۔ یہ لوگ ذہنی طور پر بھی بہت آسودہ ہیں۔ ان کا ضمیر بالعموم پاک صاف ہے اور اپنے پیشے اور کاروبار میں بھی یہ بہت خوش اور مطمئن رہے ہیں۔ 5 فیصد افراد کے سوا جنہیں معاش کے معاملے میں پریشانیوں اور الجھنوں سے دو چار رہنا پڑا‘ باقی تمام لوگ بہت خوش قسمت رہے ہیں ۔ انہوں نے بالعموم آزاد کاروبار کئے اور ملازمت یا ماتحتی کی زندگی سے بہت کم واسطہ پڑا اور یہ لوگ کبھی رشک و حسد کے ’’امراض‘‘ میں مبتلا نہیں ہوئے۔ البتہ بعض افراد نے اس حسرت کا اظہار ضرور کیا کہ کاش انہوں نے تعلیم اور زیادہ حاصل کی ہوتی۔ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ بہتر تعلیم یافتہ ہوتے تو زندگی ان کے لئے اس سے بھی زیادہ پر مسرت اور خوش گوار ہوتی۔
بحیثیت مجموعی اس انوکھے جائزے سے یہ نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں کہ کہ کھانے میں اعتدال، اچھا چال چلن، خانگی جھگڑوں سے بے نیازی اور ورزش زندگی کی گھڑیوں کو نہ صرف خوش گوار بناتی ہے بلکہ طویل بھی کر دیتی ہے۔
لمبی اور بہتر زندگی گزارنے کے لیے چند تجاویز:
٭دبائو اور ڈپریشن سے بچنے کی کوشش کریں‘ یہ زندگی کم کرنے کی بڑی وجوہات ہیں۔
٭کم از کم روزانہ آدھا گھنٹہ ورزش کو معمول بنا لیں، یہ آپ کو بڑھاپے کی کمزوریوں سے روکے گی اور آپ کے اعصاب زیادہ طویل عرصے تک آپ کا ساتھ دیں گے۔
٭مناسب اور متوازن غذا استعمال کریں‘ ایسی غذا سے پر پرہیز کریں جس میں زیادہ چکنائی ہو۔
٭ آپ کی غذا میں فیٹی ایسڈز کم سے کم ہونے چاہئیں۔ یہ خوراک ہی ہے جو آپ کو مختلف امراض سے بچاتی اور مختلف امراض میں مبتلا کرتی ہے۔ زیادہ چکنائی کولیسٹرول دل کے امراض کا باعث ہوتے ہیں اور اس میں اب کسی شک کی بھی گنجائش نہیں رہی۔
٭کم از کم رات میں سات سے آٹھ گھنٹے کی معیاری نیند لیں۔ یہ آپ کے جسم کے خلیوں کو نئی جان دیتی ہے اور دن بھر کی مشقت سے جسم کے خلیوں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتی ہے تاہم نیند کے لئے ضروری ہے کہ یہ پر سکون ہو بار بار اٹھنا نہ پڑے اگر آپ نیند نہ آنے کے مرض انسومینیا میں مبتلا ہیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اپنی نیند کو بہتر بنائیں۔
٭شراب نوشی اور الکحل سے جس حد تک ممکن ہو پرہیز کریں‘ آپ کے کسی عمل میں زیادتی کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے۔
٭سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں‘ تمباکو کے استعمال سے جہاں آپ کے دانت خراب ہوتے ہیں‘ ان پر دھبے پڑتے ہیں وہیں براہ راست اس سے آپ کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اگر آپ ایک منٹ میں ایک سگریٹ پی جاتے ہیں تو سمجھئے کہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک منٹ کم کر دیا۔
٭وزن کو مت بڑھنے دیں۔ جسم پر چربی کے آنے کا مطلب ہے کہ آپ موٹاپے کی طرف گامزن ہیں اور موٹاپا زندگی کا دشمن ہے۔ اس سے بیشتر نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق اپنی جسمانی ساخت کے اعتبار سے اپنا وزن درست رکھیں۔ وزن میں اضافہ عمر میںکمی کرنے کے مترادف ہے۔
٭اپنی غذا میں اینٹی آکسیڈینٹ اجزاء اور وٹامن شامل رکھیں اور ڈیری کی مصنوعات یعنی دودھ اور دہی وغیرہ سے مذکورہ غذائیت حاصل کریں۔
٭بروقت تشخیص کسی بھی مرض کے علاج کی بنیادی کنجی تصور کی جاتی ہے، لہذا کینسر اور دل کے امراض سے بچنے کیلئے ہر سال اپنا مکمل طبی معائنہ کراتے رہیں خواہ آپ کسی بیماری میں مبتلا ہوں یا نہیں۔
٭کم از کم آٹھ سے دس گلاس روزانہ صاف پانی پینا اپنا معمول بنا لیں‘ یہ آپ کی جلد کو بہتر رکھے گا اور گردے اور مثانے کے امراض سے بچنے میں بھی مدد گار ثابت ہو گا۔
٭خود کو کبھی بوڑھا اور بے کار آدمی خیال نہ کریں‘ عمر کے کسی حصے میں بھی ہوں اپنی سوچ نوجوانوں جیسی رکھیں‘ اسی لئے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ عمر کا تعلق انسان کی سوچ سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کی سوچ جوان ہے تو آپ بھی جوان ہیں۔