Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

جینے کے ہاتھوں مرچلے

$
0
0

’’میرے میزبان! ناشتہ تیار ہے‘‘

روبوٹ ڈی آٹھ ہزار بیاسی، یاور داؤد کے سامنے مؤدب کھڑا تھا۔

’’ہمم‘‘ یاور نے دیوار پر ابھرتی خبروں سے نظر ہٹا کر اُسے دیکھا۔ نظریں ہٹتے ہی دیوار پر چمکتی اسکرین غائب ہوگئی۔ وہ بیڈ سے اُتر کر کسلمندی کے ساتھ ڈائننگ روم کی طرف بڑھا۔

’’تم بہت اچھے روبوٹ ہو‘‘ وہی رسمی جملہ جو وہ اکثر دُہرایا کرتا تھا۔ یہ دُہرانا بس عادتاً تھا، اِس کا نئے منظور شدہ اُس قانون سے کوئی تعلق نہیں تھا جس کے مطابق قرار دیا گیا تھا کہ روبوٹس کے بھی جذبات ہوتے ہیں، جنہیں ٹھیس پہنچانے والے شہری پر جرمانہ عاید ہوگا۔ اس معاملے پر اسمبلی کے اجلاس میں کئی روز تک بحث ہوئی تھی، گرماگرم بحث۔ تقریباً تمام نمائندوں کے عکس اجلاس میں شریک تھے۔ کوئی اجلاس ہو، سیاسی جلسہ یا سرکاری اور کاروباری میٹنگ، جسمانی موجودگی کا دور خواب وخیال ہوچکا تھا۔ ایک چھوٹی سی ڈیوائس اب کسی کا ہوبہو عکس کہیں بھی پہنچادیتی تھی، براہ راست، جوں کا توں۔ اراکین اسمبلی اپنے ڈرائنگ روم میں ٹہلتے ہوئے اجلاس سے خطاب کرتے، سیاست داں گھر کے چمن زار میں کھڑے ہوکر جلسوں میں تقریر کرتے۔ روبوٹس میں جذبات ہونے کا قضیہ کچھ سائنس دانوں کی دین تھا، جسے موقع پرست سیاست داں لے اُڑے تھے۔ تمام سروے بتاتے تھے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جن کا ہر رشتہ صرف کسی روبوٹ سے رہ گیا ہے، ان مشینی انسانوں سے شدید محبت میں مبتلا ہوگئی ہے، یہ جذبات ووٹ کی صورت میں ڈھلنے کا پورا امکان تھا۔

’’نہیں۔۔۔روبوٹ نہیں۔۔۔مہمان‘‘

’’اوہ ہاں، معاف کرنا پیارے مہمان، قانون نیا ہے اس لیے ابھی عادت نہیں ہوئی۔‘‘

صبح ہی تو اُس نے خبر دیکھی تھی نئے قانون کی۔ ان کی ’’دل شکنی‘‘ نہ کرنے کے قانون کی ایک شق شہریوں کو پابند کرتی تھی کہ وہ اپنے گھر میں مختلف خدمات کے لیے موجود روبوٹس کو ’’مہمان‘‘ کہیں گے اور روبوٹ انھیں میزبان کہے گا۔ یہ قانون منظور ہوتے ہی روبوٹس کو کنٹرول کرنے والے مرکز سے صرف ایک گھنٹے کے اندر روبوٹس کے پروگرام میں نئے احکامات فیڈ کردیے گئے تھے۔

ناشتہ ختم کرکے یاور داؤد دھیرے سے اُٹھا اور کھانے کی میز کے دائیں طرف دیوار کا حصہ بنا بٹن چُھوا، چھوتے ہی بٹن کے عین اوپر سے نکلتی شعاؤں نے سر سے پاؤں تک اسے ایک لمحے کو حصار میں لیا اور غائب ہوگئیں۔ ’’سب ٹھیک ہے‘‘ وہاں الفاظ روشن ہوئے جہاں شعاعیں گُم ہوئی تھیں۔ یہ روز ہونے والا خودکار طبی معائنہ ہی نہیں تھا، نظام ہاضمہ اور خون کی روانی درست رکھنے کا عمل بھی تھا۔ یہ شعاعیں جسم میں موجود کسی بھی صحت کے لیے نقصان دہ جرثومے اور جزو کو جڑ سے مٹا دیتی تھیں۔

اب وہ اپنے کُشادہ فلیٹ کے ڈرائنگ روم میں تھا۔ چوبیسویں منزل سے جھانکتی کھڑکی سے چھلکتا اُفقی منظر دو عمارتوں کے درمیان پھنسا آسمان دکھا رہا تھا اور نیچے لکیر سی سڑک پر ہر منظر بونا تھا۔ سامنے والی عمارت کی کھڑکیوں کے شیشے دھوپ سے چمک کر آنکھیں چندھیا رہے تھے۔ وہ روز کی طرح دیر تک کھڑکی کے شیشے سے ناک لگائے باہر تکتا رہا، کبھی زمین کو کبھی آسمان کو۔ اتنی دیر تک کہ نیچے دکانوں کے سائن بورڈ، فٹ پاتھ، پارکنگ میں کھڑی گاڑیاں۔۔۔۔سائے سے دھوپ میں آگئیں۔ لمحے، منٹ، گھنٹے تیزی سے گزرتے رہے، مگر وقت تھما رہا۔

وقت چالیس سال سے تھما ہوا تھا، مگر صرف یاور داؤد اور اُس جیسے پانچ کروڑ کے قریب دیگر بوڑھوں کے لیے، جو ملک کی آبادی کا پچیس فی صد تھے۔

وہ فقط نام کے بوڑھے تھے ’’بزرگ شہری‘‘ کی پہچان اور خصوصی کارڈ کے ساتھ۔ نہ جلد پر کوئی جُھرّی، نہ کمر میں ذرا بھی خم، بال سفیدی سے ناآشنا، مکمل صحت مند اور چاق و چوبند۔

یہ بائیسویں صدی کا معجزہ تھا، جو اس ریاست میں رونما ہوا تھا۔ بیماریوں اور بڑھاپے پر قابو پاکر موت کو زندگی سے بہت دور کردیا گیا تھا۔ سو فی صد صاف پانی، مضرصحت اجزاء سے پاک متوازن غذا کی عام دست یابی، جدید ٹیکنالوجی کے وہ زودحس اور ہر شہری تک رسائی رکھنے والے آلات جو جسم میں پیدا ہونے والی ذرا سی بھی خرابی کی اطلاع محکمۂ صحت کو فراہم کرتے تھے، اور پھر برق رفتار ایمبولینس مستعد عملے کو لیے متاثرہ شہری کی طرف دوڑ پڑتی تھی۔ قریبی سرکاری اسپتال میں پہنچا کر مریض کو مرض سے متعلق شعاعوں کے سامنے ڈیڑھ منٹ تک کھڑا کیا جاتا، اور مرض کے جراثیم کا خاتمہ ہوجاتا۔ بڑھتی بیماری کے قدم رُک جاتے، اور بہت دور کھڑی موت پسپا ہوجاتی۔ مکمل تن درستی اور عمروں کی طوالت کے کرشمے کو ’’زندگی کا انقلاب‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس انقلاب کے بعد وہی لوگ اجل کا نشانہ بنے تھے جو قبل از انقلاب دور میں چالیس کے پیٹھے میں تھے۔

اچانک اس کے نتھنوں میں مخصوص خوشبو مہکی، اس نے کھڑکی کے ساتھ لگے شلیف پر رکھے موبائل فون کی طرف دیکھا، جس کی چپٹی اسکرین میسیج کی ’’سُنگھاتی بیپ‘‘ دے کر روشن تھی۔ آہستگی سے ہاتھ بڑھا کر موبائل اُٹھایا،’’کیسا ہوگا اکیس سو اکتیس۔۔۔ جانیں ستارہ نجومی سے‘‘ میسیج پڑھ کے اسے خیال آیا کہ نیا سال شروع ہونے والا ہے، اور اس برس کے پہلے مہینے میں اس کی سال گرہ ہے، ان خیالوں سے بندھا اگلا خیال کتنا خوف ناک تھا۔۔۔۔وہ۔۔۔ ایک سو تیس سال۔۔۔ کا ہونے والا ہے، تنہائی اور بے زاری کا ایک اور برس دوڑا چلا آرہا ہے۔ یوم پیدائش کی صبح ’’مہمان‘‘ اپنے پروگرام میں شامل سال گرہ کا مخصوص گیت گاکر اُسے جگائے گا۔ کچھ دیر بعد ’’محکمۂ خدمتِ بزرگ شہری‘‘ کی طرف سے اسے کیک اور گُل دستہ وصول کرنا ہوگا۔ باربار موبائل سے آتی پیغاماتی بیپ سونگھنا ہوگی، جو سب میکانیکی انداز میں لکھے ہوئے پیغام ہوں گے۔ شام کو اسی عمارت کی بائیسویں منزل پر رہنے والا اس کا دوست حیان فراز ملنے چلا آئے گا۔

دَم گُھٹنے لگا۔ وہ کھسکتے قدموں سے بڑھا اور سوفے پر جاگرا۔ یہ دھیرج اُس کا مزاج نہیں تھی۔

’’اس لڑکے میں تو پارہ بھرا ہے۔‘‘ ماں کہتی تھی۔ ’’کبھی ایک پَل کو ٹِک کر بیٹھ جایا کرو‘‘ بیوی کا شکوہ کانوں میں گونجا۔ یہ پارہ صفتی ہی تو تھی کہ علاقے کی ہر کرکٹ ٹٰیم اُسے لینا چاہتی تھی۔ اُس جیسا پُھرتیلا فیلڈر سب کی ضرورت تھا۔ ’’بال ایسے دبوچتا ہے جیسے چیل جھپٹا مار کے گوشت کا لوتھڑا لے اُڑے۔‘‘

عمر کے ایک سو انتیسویں سال میں بھی اس کا توانا، سڈول اور اکہرا جسم پُھرتی سے بھرا ہوا تھا۔ لیکن اس پُھرتی کا کرنا کیا تھا۔ تیزی اور عجلت تو تیزرو وقت کے پیچھے بھاگنے کے لیے ہوتی ہے، یہاں تو سمے ساکت تالاب تھا، کائی سے ڈھکا۔ یاور کے پاس بس وقت ہی تو بچا تھا، چاروں اُور، نظر کی حد سے پار تک پھیلا ہوا۔ وہ کاہلی اور دھیمے پن سے خود کو سرکتے وقت سے ہم آہنگ کرتا تھا۔

اپنے علاقے سے اُس کی شہرت شہر کے تمام کرکٹ کے حلقوں تک پھیل چکی تھی۔ یہی پُھرتی اور برق رفتاری ٹیبل ٹینس میں کام یابیاں دلاتی رہی۔ وہ تو گھر کے معاشی حالات خراب ہوگئے ورنہ وہ سیلزمین بن کر موٹرسائیکل پر بھاگا بھاگا پھرنے کے بہ جائے کرکٹ کے میدان میں دوڑ رہا ہوتا یا ٹیبل ٹینس کی میز کے پیچھے اُچھل اُچھل کر گیند مخالف کے کورٹ میں پھینک رہا ہوتا۔ اس کا کھلاڑی ہونا ہی تو سحرش کو بھایا تھا، جو محبت کی پگڈنڈی پر چلتی اُس کی زندگی میں بیوی بن کر آگئی تھی۔

پھر چلی بھی گئی تھی، چالیس سال پہلے۔ جب یاور اَسّی سال کا تھا اور وہ پچھترویں برس میں قدم رکھ چُکی تھی، اپنے حُسن اور جوانی سمیت۔ ایک دن سحرش کی گاڑی ایک تیزرفتار کار کی زد میں یوں آئی کہ وہ سڑک پر ہی دَم توڑگئی۔

شیشے کے خون آلود ٹکڑے یاور کے دماغ میں چُبھنے لگے۔ ’’اب ٹریفک حادثات ہوتے ہی نہیں، بلکہ کوئی حادثہ نہیں ہوتا۔‘‘ تمام گاڑیاں خود کار تھیں، انسان، دوسری گاڑی، دیوار۔۔۔جہاں بھی فاصلہ خطرے کی زد میں آیا، اور کار رکی، پیچھے آنے والی دوسری گاڑیاں بھی اسی نظام کے تحت تھم جاتی تھیں۔ گھروں، دفاتر، کارگاہوں، سڑکوں۔۔۔۔ہر جگہ آتش شکن سیلنڈر نصب تھے، کسی چنگاری کے اپنے مخصوص دائرے سے نکلتے ہی گیس اسے جالیتی اور بجھادیتی۔ بجلی کا نظام بھی اتنا ہی محفوظ تھا۔ زلزلے اور سیلاب بھی ہار چکے تھے۔ زمین پہلو بدلتی تو زلزلے کی لہریں جذب کرتے عناصر سے بنی عمارتیں ذرا سا لرز کر تھم جاتیں، کتنی ہی بارش ہو، کتنا ہی دریا چڑھے، سیلاب کی صورت نہیں بنتی تھی، اضافی پانی کا ہر قطرہ ہنگامی آبی حالت کے لیے بنے راستوں سے ذخیرہ گاہوں میں پہنچ جاتا تھا۔

یاور نے چھت کی طرف دیکھا، جہاں نصب خوب صورت سے دھاتی دائرے سے آتی نرم ہوا اس کے جسم کو چھورہی تھی۔ ’’کاش وہ پنکھے رہتے۔‘‘ خودکشی کی دبی خواہش نے اُسے پروں والے پنکھے کی یاد دلادی، بچپن کی یاد، جب چھت پر پَروں والے پنکھے ہوتے تھے۔ وہ دور پَر لگا کر اُڑ گیا۔

’’خودکُشی۔۔۔‘‘ یہ لفظ بارہا اس کے دماغ میں گردش کرکے کسی کونے میں چُھپتا رہا تھا۔ اُس میں یوں بھی اپنی جان خود لینے کی ہمت نہیں تھی، ہوتی بھی تو اس کا کوئی امکان کہاں باقی بچا تھا۔ روبوٹ مستقل بزرگ شہریوں اور ہر اس شخص پر نظر رکھتے جس میں ذرا سا بھی خودکشی کرنے کا رجحان پایا جاتا۔ ’’ایسا شخص جب جان دینے کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے لگتا ہے، اس کے جسم سے ایک خاص مہک اٹھنے لگتی ہے‘‘ طبی تحقیق نے ثابت کردیا تھا، اور روبوٹ اس بُو کو سونگھتے ہی اپنے میزبان کو قابو کرکے ’’انسداد خودکشی‘‘ کے ادارے کے نمبر پر فون کردیتے۔

بزرگ شہریوں کو اپنے گھر سمیت کسی عمارت کی چھت پر جانے کی اجازت نہیں تھی، روکنے کے لیے ہر لمحہ جاگتا مہمان موجود تھا۔ اور باہر۔۔۔۔۔ناممکن، وہ صرف تعطیل کے روز باہر نکل سکتے تھے، مگر کسی ایسی جگہ جانا ممنوع تھا جہاں وہ اپنی جان خطرے میں ڈال سکتے ہوں، جیسے کوئی اونچائی جس سے کودا جاسکے۔

صرف خودکشی کا خدشہ انھیں گھر پر روکے نہیں رکھتا تھا۔ انھیں گھروں سے نکلنے نہ دینے کا قانون اٹھارہ سے پچاس سال تک کے نوجوانوں کے پُرزور مطالبے پر نافذ کیا گیا تھا۔ ’’ہم اپنے بزرگوں کا احترام کرتے ہیں، مگر سو سے اوپر کی عمر کے لوگ کوئی کام کرکے ملکی معیشت کو فائدہ نہیں پہنچارہے، سرمایہ نہیں بڑھا رہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ یہ بے کار ہیں۔ ان کے گاڑیاں چلانے سے سڑکوں پر ٹریفک کا ہجوم بڑھ جاتا ہے۔ یہ پیدل بھی چل رہے ہوں تو نوجوانوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ان میں قوت خرید نہیں، اس لیے ان کے باہر آنے سے مارکیٹ کو کچھ نہیں ملتا۔۔۔۔‘‘ اسمبلی کے اجلاس میں بزرگ شہریوں پر پابندیوں کا مسودہ پیش کرتے ہوئے جودت کمالی نے مجوزہ قانون کے حق میں دلیلوں کا انبار لگادیا تھا۔ مسودہ منظور ہوا اور بزرگ شہریوں کے ان کے رہائشی پروجیکٹس سے نکلنے پر پابندی عاید ہوگئی۔ ’’وہ جو رہائشی پروجیکٹس کے بہ جائے وسیع وعریض کوٹھیوں میں رہتے ہیں اپنی کوٹھی سے باہر نہیں جاسکیں گے۔‘‘ قانون سازوں کی ہر پہلو ہر گوشے پر نظر تھی۔

عمر کی سرکاری تعریف بہت پہلے متعین کی جاچکی تھی، جس کے مطابق ستر سال تک کے لوگ نوجوان تھے، اور اس کے بعد بزرگی کا دور شروع ہوجاتا تھا۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی مشکلات نے حکومت کو مجبور کردیا تھا کہ سرکاری اور نجی اداروں کو پابند کردے کہ ستر سال سے زیادہ عمر کے کسی شخص کو ملازمت دی جائے گی نہ وہ برسرروزگار رہ سکے گا۔ اس پابندی کے بعد تجربہ کار بوڑھے اپنی جمع پونجی لیے تجارت کرنے اور صنعتیں لگانے کی طرف مائل ہونے لگے۔ ’’ستر سال سے زیادہ کا کوئی شخص صنعت لگاسکتا ہے نہ تجارت کرسکتا ہے۔‘‘ نیا قانون آگیا۔ بعد میں ترمیم کرتے ہوئے نئی نسل کے چالاک سیاست دانوں نے بزرگ شہریوں کے لیے الیکشن میں حصہ لینا بھی ممنوع قرار دلوادیا۔ صورت حال بڑھتی ہوئی آبادی نے خراب کی تھی۔ آبادی کی روک تھام کے لیے بڑے مؤثر اقدام کیے گئے تھے۔ ’’بس ایک بچہ کافی ہے‘‘ کی پالیسی پوری طرح کام یاب رہی تھی۔ لیکن ایک بچہ پیدا کرنے والے خاندان رہے ہی کہاں تھے۔ شادی کا رواج اتنا کم ہوگیا تھا کہ کسی بھی محلے میں شادی ہونا ایک بڑی خبر ہوتی۔ ناجائز بچوں پر قانون کا اطلاق نہیں ہوسکتا تھا۔ قانون بنتا بھی تو سزا کسے ملتی؟ نہ ماں کا پتا چلتا تھا نہ باپ کا، لاوارث بچوں کے لیے نصب سرکاری جھولے ہر صبح بَھرے ملتے۔ ان بچوں کو نام سے خوراک اور تحفظ سے تعلیم وتربیت دینے تک کی ساری ذمے داری سرکار کی تھی۔ کسی دستاویز میں ولدیت کا خانہ نہیں تھا۔ فرد کے پیدائش کے ساتھ ملنے والا عدد ہی اس کی پہچان تھی۔ والدین، ذات اور خاندان ماضی کا قصہ بن چکے تھے۔

انسان پیدا ہورہے تھے، مر نہیں رہے تھے۔ مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ گمبھیر ہوتا جارہا تھا۔

یاور کا بیٹا بزرگوں پر پابندیوں کے قوانین کا پُرجوش حامی تھا۔ وہ بوڑھوں کے ملازمتوں پر فائز ہونے کے باعث برسوں سے بے روزگار جو تھا۔ اس وقت یاور خود بھی نوجوانوں کی فہرست میں شامل تھا۔ ’’مگر وہ کریں گے کیا۔۔۔۔۔‘‘ اُس کی حساس طبیعت شاید مستقبل میں آنے والا ذاتی کرب محسوس کر رہی تھی۔’’بیمار نہیں ہوں گے، زندہ رہ کر زندگی سے لطف اٹھاتے رہیں گے، زندہ رہنا ہی کیا کم پُرلطف ہے۔ ڈیڈی! تاریخ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔۔۔جسم کو کھا جانے والا بڑھاپا، بیماریاں، تکلیف سے برسوں سسک سسک کر مرتے لوگ۔۔۔۔۔ان بزرگوں کو تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ سائنس نے انھیں اس سب سے نجات دلا دی ہے۔‘‘ بیٹے کی بات سُن کر وہ ’’شاید تم صحیح کہہ رہے ہو‘‘ سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا تھا۔

بیٹے کو ملازمت مل گئی اور ایک دن وہ چلا گیا تھا، بس اتنا کہہ کر ’’میں اب الگ رہوں گا‘‘ نوجوان جُدا ہوتے وقت ماں باپ سے اس سے زیادہ کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

’’دروازہ کھولیے‘‘ کی مشینی آواز اور عبارت کے ساتھ شعاعوں سے مرتب آنکھیں خیرہ کرتی قدآدم تصویر چند لمحوں کے لیے کمرے کی فضا میں بنی، اور وہ خیالوں سے باہر آگیا۔ دروازے پر شاذی نشاط کھڑا تھا۔ چالیس سال پہلے وہ وکالت کرتا تھا، سیاست میں حصہ لیا، برسراقتدار جماعت ’’تعمیروترقی پارٹی‘‘ کا علاقائی صدر رہ چکا تھا، پھر بزرگ شہری ہوکر گھر بٹھادیا گیا۔ وہ کالج میں یاور کا کلاس فیلو تھا۔ کوئی قدرمشترک نہ ہونے کے باعث کالج کی زندگی میں اور اس کے بعد وہ دور دور ہی رہے، لیکن ایک ہی عمارت میں رہائش زمانۂ طالب علمی کی مشترکہ یادوں کے جُھرمٹ میں اُنھیں قریب لے آئی تھی۔ مگر کتنی باتیں، کتنی ملاقاتیں، پانچ چھے سال تو میل ملاقات کا سلسلہ رہا، پھر ان کے پاس بات کرنے کو کچھ نہ بچا، وہ بیزار ہوگئے، یادوں سے، بزرگ شہریوں کے مسائل اور ملک کی سیاست پر باتوں سے، ایک دوسرے سے۔ اب بس ایک منزل کے فاصلہ پر رہنے کے باوجود کئی کئی سال بعد ملاقات ہوتی تھی۔ سارے بزرگ شہری ہی ایک دوسرے سے مل مل کر بول بول کر، سُن سُن کر اُکتا چکے تھے۔

لمحہ بھر پہلے جہاں تصویر ابھری تھی اب وہاں روبوٹ کھڑا منتظر تھا کہ دروازہ کھولنے کا حکم ملتا ہے یا نہیں۔ حکم ملتے ہی اُس نے دروازہ کھول دیا۔ دراز قد شاذی نشاط پاؤں سرکاتا اندر آیا اور یاور سے ہاتھ ملا کر سوفے پر ڈھے گیا۔

’’مبارک ہو، ہمارا مطالبہ منظور ہونے والا ہے۔‘‘ اُس کے ہونٹوں پر اُداس مسکراہٹ تھی۔

’’اووہ۔۔۔کب تک؟‘‘ یاور کی آنکھوں میں عرصے بعد سکون اُترا۔ وہ جانتا تھا کہ شاذی کو یہ خبر کہاں سے ملی ہے، جس کے تصدیق شدہ ہونے میں کوئی شک نہیں تھا۔ شاذی کا بیٹا ملک کا نام ور صحافی تھا، بہ طور ٹی وی اینکر اس کا پروگرام عوام وخواص میں بہت مقبول تھا، مقتدر حلقوں تک اس کی رسائی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں تھی۔

’’بہت جلد۔۔۔فیصلہ ہوچکا ہے، اسمبلی میں بِل پیش ہونا اور منظور ہونا ہے، حزب اقتدار اور حزب اختلاف اس معاملے پر متفق ہیں۔‘‘

’’ہمممم۔۔۔۔تم کس ملک جانا پسند کرو گے؟‘‘

’’افریقہ کے کسی ملک۔۔۔وہاں خانہ جنگیاں بھی ہورہی ہیں ناں۔ اب میں چلتا ہوں، دوسرے لوگوں کو بھی بتانا ہے۔‘‘ وہ کسی بڑی خبر ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے ملاقات کو ترجیح دیتے تھے۔

’’مجھے کس ملک جانا چاہیے؟‘‘ شاذی کے جاتے قدموں کی فرش پر ابھرتی سست رو اور ہلکی سی کھٹ کھٹ کے دَم توڑتے ہی یاور کے ذہن میں افلاس اور پس ماندگی کا شکار ملکوں کے نام گردش کرنے لگے۔

بزگ شہریوں کی مختلف تنظیمیں عرصے سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ بوڑھے قرارپانے والے  شہریوں کو اس پابندی سے استثنیٰ دیا جائے جس کے تحت ’’ریاست کے شہری کسی ایسے ملک کا سفر نہیں کر سکتے جس کا ماحول اور جہاں میسر سہولیات صحت کے معیار کے مطابق نہ ہوں۔‘‘ یہ وہ تمام افلاس زدہ اور پس ماندہ ممالک تھے جہاں آج بھی خراب صحت اور بیماریوں کے سبب لوگوں کی اوسط عمر چالیس سے پچاس سال تھی۔ صرف عسکری، تجارتی اور سفارتی مقاصد کے تحت ایسے ممالک کا سفر کیا جاسکتا تھا، اور سفر کرنے والوں کو واپسی کے بعد حفاظت برائے صحت تحویل، باریک بینی سے کیے جانے والے طبی معائنے اور شعاعوں کے ذریعے جراثیم کے خاتمے کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔ ان ممالک کے سفیروں اور سفارتی اہل کاروں کو صحت بخش، جراثیم کش اور امراض شکن شعاعوں کا سامنا کرنے کے بعد تقرر کی اجازت ملتی تھی۔ بزرگ شہریوں کی جانب سے خودکشی کی اجازت کا مطالبہ ایک عشرے قبل رد کردیا گیا تھا۔ ’’بڑے پیمانے پر خودکشی کے واقعات ملک کی بدنامی کا باعث بنیں گے‘‘ قومی اسمبلی نے مشترکہ قرارداد استرداد میں کہا تھا۔ اب زندگی سے اکتائے بوڑھوں کی اُمید بس سفر کی اجازت سے بندھی تھی۔ سفر کے نام پر وہ ان ممالک میں طویل قیام کرنا چاہتے تھے، جہاں بیماریاں، جرائم، قدرتی آفات اور جنگیں اُن کی بے زاری اور بے کاری کا حل بنی منتظر تھیں۔

شاذی نشاط کی آمد کے بس دس دن بعد اس کی دی ہوئی اطلاع مصدقہ خبر کی صورت نشر ہورہی تھی۔ یاور کی انگشت شہادت کے مخصوص اشارے نے دیوار کو ٹی وی اسکرین میں بدل دیا۔ ’’قومی اسمبلی نے بزرگ شہریوں کو ممنوعہ ممالک میں سفر پر پابندی سے استثنیٰ دے دیا ہے۔ لیکن واپس آنے والوں کو ہمیشہ سرحد پر قائم تحویل برائے صحت کے مراکز میں رہنا ہوگا۔‘‘ نیوزاینکر نے مسکراتے ہوئے خبر سُنائی۔ ’’واپس کون بدبخت آئے گا‘‘ یاور بڑبڑایا، بھرپور انگڑائی لیتے ہوئے، آزادی کے احساس کے ساتھ۔

پُرانے قانون میں ترمیم کے ساتھ حکومت کا نیا فیصلہ بھی سامنے آیا۔ ’’ممنوعہ ممالک جانے والے بزرگ شہریوں پر آئندہ دس سال تک ہونے والے اخراجات انھیں نقد رقم کی صورت میں ادا کر دیے جائیں گے۔‘‘ ریاست کی یہ فراخ دِلی سمجھنا بہت آسان تھا۔ خوراک کی فراہمی، لباس کا الاؤنس، کرائے پر رہائش کی صورت میں کرائے کی ادائیگی، بجلی، پانی، مکان کا ٹٰیکس اور گیس کے بل ادا کرنے سے استثنیٰ۔۔۔۔۔یہ لوگ ملک کے خزانے پر بھاری بوجھ تھے، جسے جانے کب تک ریاست کے کندھوں پر رہنا تھا، ان کے جانے کی صورت میں صرف دس سال کے اخراجات کی ادائیگی گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ یہ بھاری رقم وہ پردیس میں دل کھول کر خرچ کرتے، عیش اور آزادی کے دن گزارنے کے لیے، جس کے بعد کوئی بیماری، سانحہ، حادثہ انھیں اس جینے سے نجات دلادیتا جس کے ہاتھوں وہ مرچلے تھے۔ مہمان ملک ایسے شاہ خرچ غیرملکیوں کو طویل قیام دینے سے کیوں انکار کرتا؟

یاور اور شاذی نے ایک ہی ملک کے سفارت خانے میں ویزے کے لیے درخواست جمع کرائی۔ یہ درخواست عام دنوں میں جاتی تو شاید منظوری میں ایک دن بھی نہ لگتا، لیکن منظوری پورے ایک ہفتے کی تاخیر سے ملی۔ ’’کیا کریں۔۔۔ویزے کی درخواستوں کا ڈھیر لگا ہے‘‘ سفارت خانے کا عملہ ہر درخواست گزار کو بڑی شائستگی سے تاخیر کا سبب بتاتا۔

آخر یاور اور شاذی کا ویزا آگیا۔ ’’ساتھ چلیں گے‘‘ دونوں نے ایک ساتھ سفر اور قیام کا فیصلہ کیا۔

’’وہاں صرف ٹی بی سے ہر سال ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوتے ہیں۔‘‘ روانگی کی تاریخ قریب آرہی تھی اور یاور اور شاذی ہر روز ایک دوسرے سے انٹرنیٹ سے ملنے والی معلومات کا تبادلہ کرتے تھے۔ جو ملک ان کی میزبانی کا منتظر تھا وہاں ایڈز سے ہلاکتوں کا تناسب کیا ہے، سرطان ہر برس کتنے لوگوں کی جان لیتا ہے، دہشت گردی، راہ زنوں اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل اور قبیلوں میں تصادم کے واقعات۔۔۔۔عشروں بعد انھیں بات کے لیے موضوع ملا تھا۔ ان باتوں کے اختتام پر اور کبھی کبھی درمیان میں وہ یکایک چُپ ہوجاتے، کسی سوچ میں ڈوب جاتے، ایک دوسرے سے نظریں چُرانے لگتے۔

روانہ ہونے کا دن آگیا۔

’’میرے میزبان! آپ کی فلائٹ میں تین گھنٹے رہ گئے ہیں۔ اب آپ تیار ہوجائیے۔‘‘

پانچ گھنٹے۔۔۔۔چار گھنٹے۔۔۔۔روبوٹ تیسری مرتبہ یاور کو یاد دلا رہا تھا۔ ’’اچھا‘‘ کہہ کر وہ بے دلی سے اُٹھا اور خود کو کھینچتا ہوا باتھ روم میں لے گیا۔ باہر آیا تو روبوٹ باتھ روم کے دروازے پر اس کے انتظار میں تھا۔ ’’شاذی نشاط صاحب کا پیغام ہے آپ کے لیے، انھوں نے فون پر کہا۔۔۔‘‘ پھر روبوٹ کے مشینی حلق سے شاذی کی ریکارڈ ہونے والی آواز برآمد ہوئی،’’میں نہیں جارہا، مجھے نہیں جانا۔‘‘ لہجے میں شکست اور جھنجھلاہٹ گھلی ہوئی تھیں۔

’’تو میں اکیلا جاکر کیا کروں گا۔‘‘ یاور نے کوٹ اُتار کر پھینکا اور بستر پر گرگیا۔

’’ستائیس لاکھ بائیس ہزار ویزا درخواستیں دی گئی تھیں مختلف ممالک کے سفارت خانوں کو۔ نئے قانون کا فائدہ صرف چھے سو ستائیس بزرگ شہریوں نے اُٹھایا ہے۔‘‘ کابینہ کے عکسی اجلاس میں وزیربرائے امورِ بزرگ شہری بسالت کیف کی آواز گونجی اور خاموشی چھاگئی۔ وزیراعظم اور وزیرخزانہ کے چمکتے عکسوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، دونوں کے چہروں پر مایوسی تھی۔

The post جینے کے ہاتھوں مرچلے appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>