کلثوم وقار سوات کے صدر مقام مینگورہ سے پندرہ کلومیٹر دور گاؤں’غالیگئی‘کی رہائشی ہیں، شادی شدہ اور ایک بیٹی کی ماں ہیں۔ وہ صوبہ خیبرپختونخواکی وزارت تعلیم میں ملازم اور پشاور یونیورسٹی سے انوائرنمنٹل سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ وہ مینگورہ میں پیدا ہوئیں اور وہاں کے ’سوات اسکول اینڈ کالج‘ سے ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد پشاور یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز اور ایم ایس سی کیا۔ ایم فل کے بعد اب وہ اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی کا تھیسز لکھ رہی ہیں۔
کلثوم کا کہنا ہے کہ سوات اور صوبہ کے دور دراز علاقوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو علاقے کی مذہبی اور ثقافتی روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خطے کی ترقی میں سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں مگرپاکستانی ذرائع ابلاغ ان خواتین کو سامنے نہیں لاتا۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ2007ء سے 2009ء تک تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سوات کے علاقے میں محدود کنٹرول حاصل کرکے اسلام کا ایک ایسا وژن دنیا کے سامنے پیش کیا جس میں خواتین کی تعلیم کو جائز نہیں سمجھاجاتا تھا۔ صرف یہی نہیں، انہوں نے بڑی تعداد میں لڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑایا، یوں خطے کے متعدد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔
انھوں نے سوات کے آثار قدیمہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ ان واقعات سے ساری دنیا میں پاکستان خصوصاً سوات کے بارے میں منفی تاثر قائم ہوا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوات کی شاندار تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ تاریک دور مختصر ہی تھا۔2009ء کے بعد پاکستانی فوج نے آپریشن کرکے حکومت پاکستان کی رٹ بحال کی اور اس کے بعد سے ان اسکولوں کی بحالی جاری ہے۔ بہت سے اسکول بحال کیے جا چکے ہیں لیکن عالمی میڈیا میں سوات کا منفی تاثر برقرار ہے۔ آئیے! خطے کے عوام سے معلوم کرتے ہیں کہ سوات میں لڑکیوں کی تعلیم، ملازمت اور یہاں کی خواتین کی سماجی خدمات کے حوالے سے جو تاثر پاکستان اور دنیا میں پھیلا ہواہے، اس میں حقیقت کتنی ہے اور افسانہ کتنا؟
کلثوم چار سال سے وزارت تعلیم کے محکمہ آئی ایم یو سے ڈیٹا کلیکشن اینڈ مانیٹرنگ افسر کے طور پر وابستہ ہیں۔ سوات کی عام عورتوں کی طرح کلثوم بھی چہرے کا پردہ کرتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کا پردہ ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ ہر مہینے ضلع سوات کے قریباً پچاس اسکولوں کا دورہ کرتی ہیں، جن میں سے بعض دور دراز اور دشوارگزارعلاقوں میں بھی ہیں۔کلثوم کے والد خود بھی استاد کی حیثیت سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہے، انھوں نے اپنے سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ سوات کے عام رواج کے برعکس کلثوم کی شادی گریجویشن کے بعد ہوئی۔ ان کے شوہر ان کے ماموں کے بیٹے ہیں اور عمر میں ان سے دو سال چھوٹے ہیں۔ وہ خود بھی پشاور یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
والی سوات کے دور میں سوات میں تعلیم
کلثوم کا یہ بھی کہنا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں یہ خطہ والی سوات کے دور میں صوبہ کے دوسرے خطوں کے مقابلے میں آگے تھا کیونکہ ریاست کے پاکستان سے الحاق سے پہلے والی سوات تعلیم کے فروغ کے لئے ذاتی دلچسپی لیتے تھے۔ سوات کا جہانزیب کالج اسی دور میں قائم ہوا جب پشاور میں اسلامیہ کالج تعمیر ہواتھا۔ وہ اپنے کالج پرنسپل کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے ایف ایس سی کیا تو وہ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے لیکن اس دور کے والی سوات خود ان سے ملے اور انھوں نے کہا کہ ہمیں ڈاکٹرز کی نہیں ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انھوں نے والی سوات کے ذاتی اسکالر شپ پر پشاور یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ماسٹرز کیا اور تمام عمر سوات آکر جہانزیب کالج میں کیمسٹری پڑھاتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے لڑکیوں کے ایک کالج میں پرنسپل کے طور پر کام کیا۔
سوات میں لڑکیوں کی تعلیم
کلثوم کے مطابق سوات کے بارے میں یہ تاثر غلط ہے کہ لوگ اپنی بچیوں کو پڑھانا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل بات یہ ہے مقامی کلچر کے مطابق لوگ اپنی بچیوں کی حفاظت کے لئے زیادہ حساس ہیں اور انہیں دور بھیجنا نہیں چاہتے۔ ’’پرائمری تک تو تقریباً پورے سوات میں اسکولوں کی سہولت موجود ہے لیکن مڈل اسکول دیہی علاقوں میں ہرجگہ موجود نہیں۔ بہت سے غریب لوگ اپنے بچوں کو مڈل اسکول تک نہیں بھیج سکتے۔‘‘ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو دور دراز اسکولوں میں سفر کے لئے کم ہی اجازت ملتی ہے، اسی لئے خواہش کے باوجود ان کی دلچسپی اپنی بچیوں کی تعلیم میں ختم ہو جاتی ہے۔
یاد رہے کہ صوبائی وزارت تعلیم کے اعداد و شمار(2017) کے مطابق سوات میں پرائمری کی سطح پر رجسٹرڈ طلبہ کی کل تعداد میں51 فیصد لڑکے اور49 فیصد لڑکیاں ہیں۔ اس میں سرکاری اور پرائیویٹ اسکول اور مدرسے سب ہی شامل ہیں جبکہ مڈل کی سطح پر رجسٹرڈ طلبہ میں 53 فیصد لڑکے اور 47 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح رجسٹریشن میں یہ فرق پاکستان کے باقی علاقوں کی نسبت بہت کم ہے۔
چھوٹی عمر کی شادی اور تعلیم
کلثوم کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم میں ایک اور بڑی رکاوٹ ان کی جلد شادی بھی ہے۔کم پڑھے لکھے گھرانوں میں بچیوں کی شادی عام طور سے تیرہ، چودہ سال کی عمر میں ہو جاتی ہے جب بچیاں ذہنی طور پر اتنی بالغ نہیں ہوتیں کہ انھیں اپنے زندگی کے معاملات نمٹانے کی سمجھ ہو اور ان کی تعلیم بھی عملاً ختم ہو جاتی ہے مگر کچھ لڑکیاں شادی کے بعد بھی اپنی تعلیم جاری رکھتی ہیں۔ اس حوالے سے کلثوم سوات کے علاقے تندو ڈاک سے تعلق رکھنے والی جماعت اسلامی کی رکن قومی اسمبلی عائشہ سید کا تذکرہ کرتی ہیں.
جن کی شادی ساتویں جماعت ہی میں ہوگئی تھی مگر انہوں نے شادی کے بعد اپنا تعلیمی سفر کچھ تعطل کے بعد جاری رکھا، علاقے میں تعلیم کے فروغ کے علاوہ دیگر سماجی کاموں میں بھی سرگرم رہیں اور غیر اسلامی ثقافتی روا یات کے خلاف بھی جدو جہد کرتی رہیں۔ آج وہ چہرے کے پردے کے ساتھ اسمبلی کے علاوہ بیرون ملک دوروں میں بھی صوبہ خیبر پختونخوا کی نمائندگی کرتی ہیں مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ان کی سرگرمیوں کی کوریج بہت کم ہے۔ عائشہ سید نے لڑکیوں کی تعلیم، غریب عورتوں کے روزگار، یتیم بچوں کی اعلیٰ تعلیم مہیا کرنے کے حوالے سے1991ء سے مالاکنڈ ڈویژن میں ایک فنی ٹریننگ کے ادارے سمیت بے شمار اسکول، ادارے قائم کیے۔ ان کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے طالبان کے مسمار کئے ہوئے متعدد اسکول متحدہ عرب امارا ت کے تعاون سے دوبارہ تعمیر کرائے۔
سوات کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت
راشد اسلم (نام ان کی خواہش پر تبدیل کردیا گیا ہے) کا تعلق سوات سے ملحقہ ایک ضلع سے ہے جو ماضی قریب میں سوات کا حصّہ تھا۔ انہوں نے سوات کے سنگھوٹہ اسکول سے تعلیم حاصل کی جسے بعد ازاں طالبان نے بموں سے اڑا دیا۔ راشد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اورصوبہ خیبرکی حکومت میں افسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی کے برعکس بہت سے دور دراز علاقوں میں بھی لوگ اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ معاشی بھی ہوسکتی ہیں کیونکہ اس وقت صوبہ کی پی ٹی آئی حکومت بڑی تعداد میں بہت اچھی تنخواہ پرتعلیم کے شعبے میں خواتین کو ملازمت دے رہی ہے اور اب دور دراز علاقوں میں بھی لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی بچیاں تعلیم حاصل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں اور گھر کی آمدنی میں اضافے کا سبب بنیں۔
ملالہ یوسف زئی کی عالمی شہرت اور خطے کے بارے میں منفی تصورات
قومی اور عالمی سطح پر ایک عام تاثر یہ ہے کہ سوات میں لوگ اپنی بچیوں کو پڑھانا نہیں چاہتے۔صوبہ بالخصوص سوات کے عوام کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ اس کی وجہ ملالہ یوسف زئی کے سوات کے بارے میں منفی تاثرات ہیں۔ طالبان کے لڑکیوںکے اسکولوں کو تباہ کرنے کے خلاف ایک غیرملکی میڈیا ادارے میں بلاگ لکھنے والی اور بعد ازاں نوبل پرائزحاصل کرنے والی ملالہ حالیہ چند برسوں میں سوات کی بین الاقوامی شہرت کا باعث رہی ہیں۔ اس حوالے سے سوات کے عوام اور خصوصاً طالبات کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے مگر خیبرپختونخوا کے عوام کی بڑی تعداد ملالہ سے خوش نظر نہیں آتی۔
چند سال قبل یہ خبر پاکستانی اخبارات کی زینت بن چکی ہے کہ حکومت نے سوات کے ایک گرلز کالج کا نام ملالہ کے نام پر تبدیل کرنا چاہا توکالج کی لڑکیوں نے کالج کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور نام کی اس تبدیلی کو مسترد کر دیا۔ ایجوکیشن مانیٹرنگ آفیسر کلثوم وقار کا کہنا ہے کہ ملالہ نے سوات کی عورت کی ایک محدود اور یک رخی تصویر دنیا کو دکھائی ہے۔ سوات میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ سوات کی بد نامی کا سبب بنی ہیں۔ یہاں کے عوام کو اس بات کا بھی ملال ہے کہ ملالہ پر حملے کو بنیاد بنا کر غیر متناسب رپورٹنگ کے ذریعے عالمی میڈیا نے سوات اور خیبرپختونخواکی عورت اور معاشرے کے بارے میں منفی اسٹیریو ٹائپس تصورات کو جنم دیا ہے۔
ملالہ کی کہانی سے دانستہ یا غیر دانستہ پھیلے تاثر کے برعکس پورے خیبرپختونخوا میں سوات کی عورت کو سب سے زیادہ مضبوط اور بہادر سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے صوابی کے ایک گاؤں احد خان کی رہائشی حمیرا طیبہ، جو ایک سر گرم سیاسی کارکن ہیں، کا کہنا ہے: ’’ملالہ کی کہانی سے جنم لینے والے تاثر کے برعکس پورے خیبرپختونخوا میں سوات کی عورت کو سب سے زیادہ مضبوط اور بہادر سمجھا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک طالبان نے لڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑایا اور سوات میں دہشت گردی کی مگر بہت جلد پاکستانی فوج نے دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا‘‘۔
راشد اسلم کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ملالہ کے نام پر لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جو فنڈ اکٹھا ہو رہا ہے سوات یا خیبرپختونخوا میں اب تک اس سے کوئی تعلیمی ادارہ نہیں بنایا گیا۔ یاد رہے کہ 2014ء میں پاکستان کے ایک بڑے انگریزی روزنامہ میں شائع ہونے والی ایک کی ایک خبر کے مطابق ملالہ فنڈ سے سات ملین ڈالر پاکستان کے دور دراز علاقوں میں خواتین کے تعلیمی پراجیکٹس کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
تاہم راشد اسلم صاحب صوبہ سرحد فنانس ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق کرتے ہیں کہ ملالا فنڈ کا کوئی حصہ سوات میں نہیں آیا۔ طالبان کے بموں سے تباہ شدہ اسکول عرب امارت کے تعاون سے دوبارہ تعمیر کیے گئے اور جو اسکول از سر نو تعمیر ہو رہے ہیں وہ یو ایس فنڈ فنانس کر رہا ہے۔ انھوں نے تصدیق کی کہ طالبان کے بموں سے تباہ شدہ اسکول عرب امارت کے تعاون سے دوبارہ تعمیر کیے گئے، جو اسکول از سر نو تعمیر ہو رہے ہیں انھیں یو ایس فنڈ فنانس کر رہا ہے۔ اس حوالے سے تصدیق کے لئے ’ملالہ فنڈ‘ کی ویب سائٹ کے ذریعے ملالہ سے رابطے کی کوشش کی تو جواب موصول ہوا کہ ملالہ اپنی تعلیمی مصروفیت کے با عث جواب دینے کے لئے وقت نہیں نکال سکتیں۔ یاد رہے کہ ویب سائٹmalala.fund.org پر واشنگٹن کے ایک پی او باکس کا ایڈریس موجود ہے لیکن رابطے کے لئے کونٹیکٹ فارم موجود ہے۔
سوات میں دینی مدرسے
سوات اور خیبرپختوانخوا کے دیگرعلاقوں میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اسکول کے بجائے اپنے بچوں، بچیوں کو دینی مدرسے بھیجنے پر ترجیح دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت دینی مدرسوں کو ختم کرنے کے بجائے ان کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دے رہی ہے۔بعض دینی مدارس قران محض ناظرہ پڑھاتے ہیں،بعض لفظی ترجمے سے اور بعض دینی مدارس میں انگریزی اور سائنس کے دیگر عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔2009ء سے قبل سوات میں حالات کی خرابی کے با عث کلثوم وقار کچھ عرصہ صوابی میں بھی مقیم رہیں جہاں انہوں نے ’جامعات المحسنات‘ نامی لڑکیوں کے مدرسہ میں کچھ عرصہ انگریزی اور سائنس کی تدریس کی۔ ان کا کہنا ہے کہ مدرسوں میں عموماً ماحول روایتی ہے جس میں اصلاحات کی گنجائش ہے۔ تعلیم کے حوالے سے بات ہو تو خیبرپختونخوا حکومت کے کچھ حالیہ اقدامات کا ذکر کرنا ضروری ہے جس سے لڑکوں اور لڑکیوں، دونوں کی تعلیم میں بہتری آنے کی توقع ہے۔
جسمانی تشدد
اپنی ملازمت کے حوالے سے کلثوم وقار بتاتی ہیں کہ ماضی کے برعکس پورے خیبرپختونخواخصوصاً سوات کے اسکولوں میں ماحول کافی حد تک تبدیل ہوا ہے۔ بچوں پر سختی اور ڈسپلن کے کلچر کو حکومت نے ختم کیا ہے لیکن ہر حال میں ان کی حاضری کو یقینی بنایا ہے‘‘۔ اکثر دیہی علاقوں میں بچے یونیفارم پہن کر نہیں آتے اور ان کے منہ بھی اچھی طرح دھلے ہوئے نہیں ہوتے، نہ ہی بال بنے ہوتے ہیں لیکن خیبرپختونخوا وزارت تعلیم کی طرف سے ٹیچرز کو ہدایت ہے کہ وہ ایسے بچوں کو گھر واپس نہ بھیجیں، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی جائے بلکہ ہر حال میں حاضری کو یقینی بنایا جائے‘‘۔ یاد رہے کہ صوبے کی موجودہ اسمبلی نے اسکولوں میں مار پیٹ اور بچوں پر تشددکے خلاف باقاعدہ قانون سازی کی ہے۔ راشد اسلم کے مطابق خیبرپختونخوا کی حالیہ حکومت نے چلڈ لیبر کے خلاف بھی عملی اقدامات کئے ہیں۔
اساتذہ کی حاضری
کلثوم کا خیال ہے کہ تعلیم کے سلسلے میں موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے سب سے موثر اقدام یہ کیا ہے کہ مانیٹرنگ کے ذریعے ٹیچرز کی حاضری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بعض دور افتادہ علاقوں میں ٹیچرز کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی۔ ’’ہم وہاں جاتے تو دو ایک بچے تو موجود ہوتے مگر اساتذہ ندارد، اب اساتذہ کی حاضری الحمد لللہ بہتر ہوئی ہے‘‘۔
کم ذہنی استعداد والے بچے
کم ذہنی استعداد کے بچوں سے ٹیچرز کے امتیازی رویہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کلثوم کہتی ہیں:’’ہمارے ہاں والدین بھی یہ بات نہیں سمجھ پاتے کہ ہر بچے کی اپنی ذہنی استعداد ہوتی ہے، اس بات کو استاد، والدین اور باقی معاشرے کو باقاعدہ ٹریننگ کے ذریعے سمجھانا ضروری ہے‘‘۔ کلثوم کا کہنا ہے کہ ضلع سوات کے اکثر دشوار گزار علاقوں میں دوروں کے دوران میں ان کے سسر حفاظت کے پیش نظر ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کلثوم کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے، پشتون کلچر میں خاندان گھر سے باہر خواتین کی حفاظت اورسہولت کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ سوات کے دور دراز ہونے کے باوجود یہاں اْن جیسی بہت سی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین موجود ہیں جو ملازمت بھی کر رہی ہیں اور سماجی کاموں میں بھی سرگرم ہیں۔ حتیٰ کہ اب سوات میں خواتین ڈرائیونگ بھی کرتی نظر آتی ہیں۔ کلثوم خود پشاور یونیورسٹی میں تعلیم ، بعدازاں ہاسٹل میں رہائش کے دوران سوات سے پشاور جانے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی رہیں۔ راشد اسلم نے تصدیق کی کہ طالبان دور سے پہلے اور بعد میں بھی خواتین کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ میں شہروں کے درمیان سفر مکمل محفوظ تھا۔
خواتین کی امپاورمنٹ
خواتین کے حقوق اور ان کی تعلیم کے حوالے سے سوات جیسے پسماندہ خطوں کے باسیوں کو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے لیکن عائشہ سید اورکلثوم جیسی خواتین کی سرگرمی مثبت تبدیلیوں کا پتہ دی رہی ہے جو اپنے گھر، خطے کے کلچر اور اپنی پیشہ وارانہ اور سماجی ذمہ داریوں میں توازن رکھ کر ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سوات کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے عالمی اور قومی میڈیا کے رویے میں بہت تعصب نظرآتا ہے۔ وہ ملالہ پر طالبان حملے کی سنسنی خیز تصویر کشی تو کرتا ہے لیکن ملالہ کی ہر حرکت پر نثار ہونے والا عالمی میڈیا عائشہ سید جیسی مضبوط ،سیاسی اور سماجی طور پر سرگرم عورت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ میڈیا کی سنسنی سے ہٹ کر حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو ملالا یوسف زئی اور عائشہ سید کے ایکٹیوازم میں یہی فرق نظر آتا ہے کہ ملالہ ساری دنیا کو سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے تعلیم دیتی رہیں جبکہ عائشہ سید خود سوات کی لڑکیوں کو تعلیم دیتی رہیں۔
لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح تعلیم میں فرق
صوبہ خیبرپختونخوا کے محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق سوات کے پرائمری اسکولوں اور مدرسوں میں پانچ سے نو سال کی عمر کے کل ملا کر ایک لاکھ اکیانوے ہزار لڑکے اور ایک لاکھ اسی ہزار لڑکیاں رجسٹرڈ ہیں۔ یعنی لڑکوں کی تعداد اکیاون فیصد اور لڑکیوں کی تعداد49 فیصد ہے۔ سرکاری اسکولوں میں ایک لاکھ انتیس ہزار لڑکے اور ایک لاکھ بارہ ہزار لڑکیاں رجسٹرڈ ہیں جبکہ اس رپورٹ کے مطابق سوات کے پرائیویٹ اسکولوں میں 5783 لڑکے اور صرف 487 لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ جبکہ دینی مدارس میں دو لاکھ لڑکے اور ایک لاکھ پینتیس ہزار لڑکیاں رجسٹرڈ ہیں۔ یاد رہے کہ 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق سوات کی کل آبادی تئیس لاکھ (2.3 ملین) ہے۔ اس طرح پرائمری کی سطح پر لڑکوں اور لڑکیوں کی داخلے کی شرح میں محض گیارہ ہزار کا فرق ہے۔ اسی ویب سائٹ کے مطابق سوات کے مڈل اسکولوں میں زیر تعلیم دس سے چودہ سال کی عمر کے ایک لاکھ چونسٹھ ہزار لڑکے اور ایک لاکھ چوالیس ہزارلڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ اس طرح مڈل اسکول میں زیر تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح بالترتیب 53 فیصد اور 47 فیصد ہے۔ جبکہ پورے کے پی کے میں پرائمری کی سطح پراسکولوں اور مدرسوں میں پچیس لاکھ لڑکے اور تئیس لاکھ لڑکیاں رجسٹرڈ ہیں۔ اس طرح کے پی کے میں پرائمری میں زیر تعلیم 53 فیصد لڑکیاں اور 47 فیصد لڑکوں کی شرح ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کے پی کے کی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے۔
عائشہ سید
جو طالبان کے ہاتھوں تباہ سکول تعمیر کرتی ، بھکاری خواتین کو روزگار فراہم کرتی، قالین بافی اور دست کاری سکھاتی ہیں
عائشہ سید کی دلچسپ کہانی عائشہ سید کا تعلق سوات کے ایک خوش حال گھرانے سے ہے۔ وہ 1970ء میں سوات کے علاقے کبن میں پیدا ہوئیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے باب میں ان کی اپنی کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے۔ ان کی اپنی شادی ان کے مڈل پاس کرتے ہی تیرہ برس کی عمر میں آخری والی سوات میاں جہانزیب گْل کے کزن سے ہوگئی تھی اور ان کی تعلیم کا سلسلہ وقتی طور پر منقطع ہو گیا تاہم انھوں نے اپنی غیر رسمی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب ان کا بڑا بیٹا نویں جماعت میں آیا تو انہوں نے خود بھی بورڈ کے امتحانات دوبارہ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ بعد ازاں عائشہ سید نے ملاکنڈ یونیورسٹی سے پشتو اور اسلامیات میں ایم اے کیا۔ عائشہ سید کا کہنا ہے کہ اپنی مختصر اسکول لائف کے دوران بھی اپنی بساط کے مطابق غریب لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کام کرتی رہی تھیں کیونکہ ان کے والدین تعلیم میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے خود تقسیم سے قبل انڈیا جا کر تعلیم حاصل کی تھی، وہ تعلیم کے اس قدر حامی تھے کہ گھر کے نوکر تک گھر کے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے بعد خود اسکول جاتے تھے۔
سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں عائشہ سید کا کہنا ہے کہ والی سوات نے لڑکوں کی تعلیم کے لئے تو جہانزیب کالج اور دیگر کئی تعلیمی ادارے قائم کئے مگر عائشہ سید کے اپنے اندازے کے مطابق 1970ء تک سیدو شریف میں لڑکیوں کا صرف ایک اسکول تھا اور خطے میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح پانچ فیصد سے زائد نہ تھی۔ اسّی کی دہائی تک سوات کے خوش حال لوگ بھی لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے خلاف تھے لیکن آبادی کی اکثریت میں قرآن ناظرہ پڑھنے کا رواج بہرحال موجود تھا۔ عائشہ سید کے مطابق ان کی والدہ علاقے کی لڑکیوں کو ناظرہ قرآن، لفظی ترجمہ اور صحاح ستہ کی تعلیم دیا کرتی تھیں لیکن ان کے سسرال میں تعلیم کا رواج نہ تھا۔
عائشہ سید نے مذہبی حدود میں رہتے ہوئے سوات کی قدامت پسند معاشرتی روایات کے خلاف بھی طویل جدو جہد کی۔ ان کے اپنے بیان کے مطابق انہیں خطے کی لڑکیوں اور کمزور طبقات کے بچوں کی تعلیمی پسماندگی دیکھ کر شدید کڑھن ہوتی تھی۔ خاندانی روایات کے مطابق غریب طبقے سے تعلقات خصوصاً گھر کی خواتین کا تعلق ایک شجر ممنوعہ تھا، یہاں تک کہ اگر نوکروں کے ہاں فوتیدگی بھی ہوجاتی تو انہیں جانے کی اجازت نہ تھی۔
زندگی تبدیل کرنے والا حادثہ بیس سال کی عمر میں عائشہ سید کے ساتھ ایک ایسا حادثہ ہوا جس نے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان کے تین میں سے دو بیٹے یکے بعد دیگرے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ نے اس حادثے کے ذریعے انھیں غلط معاشرتی رویوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیدی۔ ایسے میں انہوں نے اپنی سماجی جدوجہد کا آغاز اپنے نوکروں کے بچوں کو پڑھانے سے کیا۔ انہوں نے1991ء میں اپنے ارد گرد کے 85 بچوں کو لے کر ایک اسکول کھولا، یہ آسان نہیں تھا کیونکہ عائشہ سید کے مطابق’’سات سال کا بچہ بھی ہمارے گھر نہیں آسکتا تھا۔ علاقے میں مشہور تھا کہ سید کے گھر جانے والا اندھا ہو جاتا ہے، پردہ میکے سسرال دونوں میں بہت تھا‘‘۔ ایسے میں کسی خاتون کیلئے غریب بچوں کی خاطر اسکول کھولنا ایک مشکل امر تھا لیکن عائشہ سید نے ہمت نہیں ہاری اور ان کا کہنا ہے کہ یہ اس لئے بھی ممکن ہوا کہ ان کے شوہر نے ان کا بہت ساتھ دیا۔1995ء تک وہ علاقے میں کل 13 اسکول کھول چکی تھیں۔ بعد ازاں انہوں نے دیگر مصروفیات کی وجہ سے اپنے تمام اسکول جماعت اسلامی کے ’بیٹھک اسکول پروجیکٹ‘ کے حوالے کر دیئے۔ آج بھی یہ اسکول بیٹھک اسکول کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔
اسی دوران میں انھوں نے ’رران ویلفیئر‘ نامی ایک این جی او کی بنیاد بھی رکھی۔ عائشہ سید کا کہنا ہے کہ یہ این جی او سوات کی بھکاری خواتین کو روزگار فراہم کرنے کے لئے قالین بافی اور دست کاری کے فنون کی تربیت کا انتظام کرتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’رران ویلفیئر‘ کے تحت نائن الیون کے بعد امریکا سے جہاد کے لئے افغانستان جاکر لاپتہ ہو جانے والوں کے 600 یتیم بچوں کی تعلیم کا بھی بندو بست کیا گیا جن میں سے بیشتر اعلیٰ تعلیم کے بعد آج اپنے پیروں پر کھڑے ہیں۔ اگر ان بچوں کو مناسب تعلیم نہ دی جاتی تو یہ بھی انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کے ہاتھوں میں استعمال ہو سکتے تھے۔
عائشہ سید قومی اسمبلی کی ان چند خواتین میں سے ایک ہیں جو ایشوز پر منطقی دلائل کے ساتھ بات کر سکتی ہیں۔ ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود سیاسی اور سماجی لحاظ سے اسمبلی کے اندر اور باہر بیک وقت ایسی متحرک خواتین پاکستانی سیاست کے لئے ایک قیمتی سرمائے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ اس وقت قومی اسمبلی کی متعدد اہم اسٹینڈنگ کمیٹیز کی ممبر ہیں جن میں سمندر پار پاکستانی، پوسٹل سروسز، اور لاء اینڈ جسٹس شامل ہیں۔
سوات میں خواتین کے ووٹنگ لسٹوں میں اندراج کی مہم
’سنڈے ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے محترمہ عائشہ سید نے بتایا کہ انھوں نے گزشتہ دنوں سوات میں خواتین کی نادرا میں رجسٹریشن کے لئے ایک مہم چلائی جس کے تحت نادرا کے موبائل آفس نے گھر گھر جا کر خواتین کے شناختی کارڈ بنائے۔ عائشہ سید بہت فخر سے کہتی ہیں:’’ایسے وقت میں جب ملک میں ایک کروڑ بیس لاکھ خواتین ووٹ سے محروم ہیں، سوات جیسے پسماندہ علاقے کی 48 فیصد خواتین رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔
یہ تناسب جدید کراچی جیسے شہری علاقے سے بھی زیادہ ہے جہاں خواتین ووٹرز کی صرف 31 فیصد تعداد رجسٹرڈ ہے‘‘۔ عائشہ سید کا کہنا ہے کہ انہوں نے طالبان کے مسمار کیے ہوئے متعدد اسکول عرب امارت کے تعاون سے از سر نو تعمیر کروانے کے علاوہ دور دراز علاقوں کے ایسے اسکولوں کی بحالی میں بھی حصہ لیا جہاں صرف ایک ٹیچر موجود تھا اور اس ایک ٹیچرکی لاپرواہی اور غیر حاضری کی وجہ سے ایسے اسکول اکثر بند پڑے رہتے تھے۔
قومی اسمبلی کے ریکارڈز کے مطابق یہ عائشہ سید ہی تھیں جنھوں نے سوات میں خواتین یونیورسٹی کی منظوری کے لئے بھی جدو جہد کی جو اب قائم ہو چکی ہے۔ یہ خاتون رہنما تعلیم کو قومی ترقی کے لئے اکسیر سمجھتی ہیں، وہ صرف باتیں نہیں کرتیں بلکہ 27 سال سے مسلسل، انتھک کام کر رہی ہیں۔ سن 2013 میں قومی اسمبلی کی رکن بننے کے بعد سے وہ اسمبلی کے اندر اور غیرمعمولی طور پرسرگرم رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی سوات میں لڑکیوں کی ہی نہیں لڑکوں کی تعلیم کے حوالے سے بھی بہت کام باقی ہے۔
The post کیا سوات اب بھی طالبات کیلئے خطرناک علاقہ ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.