12 ستمبر 2017ء کا دن تھا اور رات کے 9 بج رہے تھے۔ لاہور کے ایک پوش علاقے میں واقع ڈینٹسٹ کلینک میں اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والی ایک لڑکی حسب معمول اپنا کام ختم کرکے گھر جانے کے لیے باہر نکلی۔ جیسے ہی وہ گیٹ پر پہنچی تو وہاں اس لڑکے کو کھڑے دیکھ کر حیران ہوئی جس نے اس کے گھر رشتہ بھیجا تھا، لیکن لڑکی کے گھر والوں نے انکار کردیا تھا۔
لڑکے نے لڑکی سے کہا کہ وہ اس سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ اس کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھے، مگر لڑکی نے انکار کردیا۔ اس پر لڑکے نے اس پر تیزاب پھینکا اور فرار ہو گیا۔ لڑکی کا چہرہ اور جسم جھلس کر رہ گیا اور پھر اس کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی۔
یہ کہانی ہے بینش نامی ایک غریب لڑکی کی، جو اپنے گھر کی واحد کفیل تھی۔ اس کا باپ ایک معمولی کباڑی تھا اور باقی بہن بھائی چھوٹے تھے۔ بینش سارا دن گھر میں کپڑے سیتی اور شام کو اس کلینک میں نوکری کرتی تھی۔ تیزاب نے بینش کے جسم کے پچیس فی صد حصے کو جلا دیا تھا اور نہ صرف اس کا چہرہ بھیانک ہوگیا بلکہ اس کی بینائی پر بھی بہت برا اثر پڑا۔ تیزاب پھینکنے والے مجرم عصمت اللہ نے یہ قبیح فعل رشتے سے انکار کی بنا پر انجام دیا تھا۔ اب بینش کے گھر والے ایک ذریعہ آمدنی سے محروم ہوئے سو ہوئے ساتھ ہی ساتھ بینش کے علاج معالجے کے معاملے کی وجہ سے مزید مالی مشکلات کا شکار بھی ہوگئے۔ دوسری طرف زندگی سے بھرپور ایک لڑکی بہت سے جسمانی اور نفسیاتی مسائل سے بھی دوچار ہوگئی، جس کی بحالی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ اب وہ کبھی بھی جسمانی اور ذہنی طور پر پہلے جیسی نہیں ہوپائے گی۔
یہ داستان ان بہت ساری داستانوں میں سے ایک ہے جن میں تیزاب گردی، مٹی کا تیل چھڑک کر جلائے جانے اور نام نہاد چولہا پھٹنے جیسے واقعات کے ذریعے خواتین کو تشدد سے دوچار کرکے یا تو ان کی زندگیاں ہی چھین لی جاتی ہیں یا پھر اسے موت سے بھی بدتر بنادیا جاتا ہے۔
تیزاب گردی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تاہم جدید زمانے میں اس قسم کا پہلا واقعہ17 اکتوبر 1915ء کو منظر عام پر آیا جب آسٹریا کے پرنس لیوپولڈ کلیمنٹ پر اس کی ایک مخبوط الحواس خادمہ نے تیزاب پھنکا۔ اب اس قسم کے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب ان کا زیادہ تر نشانہ خواتین ہی بنتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں یہ واقعات زیادہ عام ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے بنگلادیش خواتین پر تشدد، جیسے تیزاب گردی، مارپیٹ اور زندہ جلا دینے، جیسے واقعات کے حوالے سے سرفہرست ہے، جہاں 1999ء سے لے کر 2013ء تک تقریباً ساڑھے تین ہزار سے زائد صرف تیزاب گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی اس معاملے میں کافی بدنام ہے۔
٭ وجوہات:
خواتین پر تیزاب پھینکے جانے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں شادی شدہ خواتین سے سسرال والوں یا شوہر کی جانب سے مزید جہیز یا وقتاً فوقتاً رقوم کا مطالبہ، بیوی کا شوہر کو دوسری شادی کی اجازت نہ دینا، غیرشادی شدہ لڑکی یا اس کے گھر والوں کا کسی رشتے سے انکار اور لڑکی کا کسی لڑکے سے ناجائز تعلقات استوار نہ کرنا جیسے عوامل شامل ہیں۔
٭ صحت پر اثرات:
تیزاب گردی یا کسی آتش گیر مادے سے جلا دینے کا سب سے قابل ذکر اثر زندگی بھر کے لیے چہرے اور جسم کا بدصورت ہوجانا ہے۔ Acid Survivors Foundation Pakistan کے مطابق پاکستان میں تیزاب گردی کا شکار ہونے والوں کی جان بچ جانے کا تناسب تو بہت زیادہ ہے، لیکن اس کا دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ ایسے مظلوموں کو ساری زندگی جسمانی اور نفسیاتی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بار بار عمل جراحی سے گزرنا اور نفسیاتی علاج معالجے کے پیچیدہ مراحل عبور کرنا ایک طویل اور منہگا عمل ہے، جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ اس کے علاوہ اس ضمن میں معاشرتی رویے کا سامنا کرنا بھی ایک کار دشوار ہے۔
تیزاب گردی کے طبی اثرات بھی بہت دور رس ہوتے ہیں۔ اس عمل کے دوران کیوںکہ زیادہ تر نشانہ چہرے کو بنایا جاتا ہے، اس لیے تیزاب تیزی سے جلد کو گھلا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اکثر جلد کے نیچے موجود چربی کی تہہ سے گزر کر ہڈیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح پلکیں اور ہونٹ مکمل طور پر نیست و نابود ہوجاتے ہیں اور ناک اور کانوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ سانس کی نالی کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے مریض کو سانس لینے میں بھی دشواری پیش آسکتی ہے۔
اگر نفسیاتی صحت کے متاثر ہونے کی بات کریں تو تیزاب گردی کا شکار ہونے والے انتہائی درجے کے ذہنی دبائو اور ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ نیز بدصورت چہرے کے ساتھ دوسروں کے سامنے آنے کا خیال ہی ان کے لیے سوہان روح اور ڈرائونا خواب بن جاتا ہے، جو ان کے مورال کو آخری درجے تک گرا دیتا ہے، یوں وہ دوسروں کے سامنے آنے سے کترانے کے باعث تنہائی پسند ہوجاتے ہیں اور یہ تنہائی ان میں مزید منفی خیالات جنم لینے کا موجب بن جاتی ہے۔
٭ سماجی و معاشی مسائل:
طبی و نفسیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ تیزاب گردی کا شکار افراد، خاص طور پر خواتین، بہت سے سماجی اثرات بھی جھیلتے ہیں۔ ایسے افراد کیوںکہ عموماً جسمانی لحاظ سے بھی معذور ہوجاتے ہیں اس لیے انجام کار اپنی روزمرہ زندگی کے کاموں میں اپنے گھر والوں کے محتاج ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر تو کھانے پینے اور دیگر گھریلو امور کے لیے بھی انہیں دوسرے لوگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پھر یہ انحصار بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ دوسرے تیزاب گردی سے متاثرہ فرد کیوںکہ کوئی مناسب کام یا نوکری کرنے کے قابل نہیں ہوتا، اس لیے اس کی جسمانی نفسیاتی الجھنوں کے ساتھ مالی حالت بھی دگرگوں ہوتی چلی جاتی ہے۔ متاثرہ فرد کے خاتون ہونے کی صورت میں اس کی خانگی زندگی اور اگر وہ شادی شدہ بھی ہو تو اس کی ازدواجی زندگی مشکلات میں گھر جاتی ہے اور اکثر طلاق پر منتج ہوتی ہے۔ اگر متاثرہ فرد غیرشادی شدہ ہو تو اس کی شادی کا معاملہ کھٹائی میں پڑجاتا ہے۔ خاص طور پر غیرشادی شدہ خاتون تو مزید معاشرتی دشواریوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کا کردار:
تیزاب گردی اور جلائے جانے کے متاثرین خصوصاً خواتین کی طبی، قانونی، جسمانی و نفسیاتی بحالی کے لیے بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں مصروف عمل ہیں، جن کا کردار اس ضمن میں بے حد اہم ہے۔
پاکستان میں معروف بیوٹیشن مسرت مصباح کی تنظیم The Depilex Smileagein Foundation اور The Acid Survivors Foundation قابل قدر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اور بیان کیے گئے بینش والے معاملے میں بھی مسرت مصباح کی Smile Again Foundation نے اس غریب لڑکی کے علاج کی ذمہ داری اٹھائی۔ اس کے علاوہ بہت سارے دیگر کیسز میں بھی متعلقہ ادارہ قابل تحسین کردار ادا کررہا ہے۔ Smile Again Foundation کی ترجمان یاسمین ظہور کے مطابق ایسے کیسز میں متاثرہ افراد کو متعدد بار جراحی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک بار کی جراحی پر تقریباً 80 تا 90 ہزار کا خرچہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد متاثرہ فرد کی نفسیاتی بحالی کے لیے پنجاب یونیورسٹی کے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے ان کی نفسیاتی تھراپی کی جاتی ہے تاکہ انہیں اس ظلم کے ذہنی اثرات سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کی جاسکے۔
2002ء میں برطانیہ میں قائم ہونے والی ایک غیرسرکاری تنظیم Acid Survivors Trust Internationl تیزاب گردی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ تنظیم بنگلادیش، کمبوڈیا، بھارت، نیپال، یوگنڈا اور پاکستان میں اس ظلم کا شکار ہونے والے افراد کی طبی امداد اور بحالی کے لیے مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے اور متاثرین کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے مقامی قوانین میں مؤثر تبدیلیوں کی مہم چلانے اور آگاہی دینے کے منصوبوں کے لیے فنڈز مہیا کرتی ہے۔
تیزاب گردی کے واقعات رونما ہونے میں تیزاب کی سرعام فروخت اور خرید کنندہ کے کوائف کا اندراج نہ ہونے کا بھی ایک بڑا حصہ ہے۔ اسی وجہ سے تیزاب گردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا مطالبہ تھا کہ نہ صرف تیزاب کی سرعام فروخت پر پابندی لگائی جائے بل کہ فروخت کنندگان کو اس کے خریداروں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنے کی قانون سازی بھی کی جائے۔ بدقسمتی سے اس اچھی تجویز پر صرف جزوی عمل ہوا ہورہا ہے، کیوںکہ متعلقہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
٭ علاج معالجے کی سہولیات:
جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ تیزاب گردی یا جلائے جانے والے متاثرہ شخص کے علاج معالجے پر اچھا خاصا خرچہ آتا ہے اور یہ ایک طویل المدتی عمل ہوتا ہے جس کو مالی طور پر بھی برداشت کرنا متاثرہ فرد یا اس کے خاندان والوں کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ دوسرے غیرسرکاری تنظیموں کے پاس بھی محدود فنڈز ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سرکاری سطح پر ان کے علاج کی ذمے داری حکومت اٹھائے اور پوری طبی سہولتوں سے آراستہ ’’برن یونٹس‘‘ کم از کم ہر ڈسٹرکٹ اسپتال میں موجود ہوں۔ نیز فوری ابتدائی طبی امداد کے لیے بنیادی مراکز صحت میں بھی ضروری سازو سامان اور تربیت یافتہ عملہ تعینات ہو۔ اس قسم کے زیادتی کا شکار ہونے والے افراد کا تعلق عموماً غریب خاندانوں سے ہوتا ہے اور ہمارے ملک کی زیادہ آبادی کیوںکہ دیہات میں رہتی ہے، اس لیے سرکاری سطح پر اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ متاثرہ فرد کی رسائی ’’برن یونٹ‘‘ تک فوری طور پر ممکن ہو تاکہ فوراً طبی امداد ملنے کی وجہ سے متاثرہ فرد کی جان بھی بچائی جاسکے اور اس کو صحت یابی کی منزل تک پہنچنے میں کم سے کم وقت لگے۔
اس طرح کے معاملات میں ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہماری پولیس پر لوگ زیادہ اعتبار نہیں کرتے۔ پولیس کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ طاقت ور کا ساتھ دیتی ہے۔ اب کیوںکہ زیادتی کا نشانہ بننے والے زیادہ تر غریب لوگ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ پولیس میں رپورٹ کروانے سے کتراتے ہیں۔ خاص طور پر اگر متاثرہ فرد خاتون ہو تو ہمارے Male Dominant معاشرے میں اس کا پولیس میں رپورٹ درج کروانا ایک امر محال ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیزاب گردی اور جلائے جانے کے واقعات کے صحیح اعدادوشمار دست یاب نہیں ہوپاتے۔
٭ دست یاب اعدادوشمار اور قانون سازی:
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2004ء میں خواتین پر تیزاب گردی کے چھیالیس واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ 2007ء میں یہ تعداد گھٹ کر 33 رہ گئی۔ 2010ء میں پھر یہ تعداد بڑھ کر 65 اور بعدازاں 2011ء میں ایک سو پچاس تک جاپہنچی تاہم اندازہ ہے کہ اصل میں یہ تعداد چار سو سے لے کر ساڑھے سات سو سالانہ تک ہے۔ مگر تمام واقعات رپورٹ نہ ہوسکنے کے باعث ان اعدادوشمار کی صداقت میں شک کی گنجائش موجود ہے۔ خواتین کے ساتھ سنگین نوعیت کے جرائم میں پنجاب سرفہرست ہے۔ دوسرے نمبر پر سندھ جب کہ خیبرپختونخواہ میں وہاں کی پولیس کی مثبت کارکردگی کی بدولت صورت حال کافی بہتر رہی۔ سب سے کم واقعات بلوچستان میں سامنے آئے۔ لیکن یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ پاکستان بھر میں گذشتہ دو برس کے دوران یہ تعداد کچھ کم رہی۔ اس کی وجوہات میں بظاہر 2014ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے پاس ہونے والا Acid and Burn Crime Bill ہے، جس میں ان جرائم پر قانون سازی کرکے جرمانے اور قید کی سزائوں کا تعین کیا گیا ہے۔ متاثرہ فرد کے علاج معالجے کی ذمے دار حکومت ہو گی۔ اس بل کے مطابق جامع تحقیقات کے لیے ساٹھ دن کا دورانیہ طے کیا گیا ہے اور تحقیقی افسر کی بے پرواہی اور ناقص تحقیقات کی صورت میں اسے بھی قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس بل کے مطابق تیزاب گردی یا جلائے جانے کی صورت میں اگر متاثرہ فرد کی موت واقع ہوجائے تو مجرم کو نئے قوانین کی روشنی میں سزا دی جائے گی۔ قبل ازیں Acid Control and Acid Crime Prevention Bill 2010 کے قانون میں 2011ء میں ایک کریمنل لا ترمیمی ایکٹ لایا گیا جیسے 2014ء میں نیا بل لاکر مزید جامع بنانے کی کوشش کی گئی۔ گو ہیومن رائٹس کی اکثر تنظیمیں ابھی بھی اس قانون سازی سے پوری طرح مطمئن نہیں لیکن بہرحال یہ اس ضمن میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس قانون کے مطابق تیزاب کی فروخت کو قانونی ضابطوں کے تحت لایا گیا ہے۔ فروخت کنندہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خرید کنندہ کے تمام کوائف کا اندراج کرکے ہی تیزاب فروخت کرے۔ یوں اب تیزاب گردی کی صورت میں مجرم کو ڈھونڈنا نسبتاً آسان ہوگیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
اس قانون میں یہ سقم بہرحال موجود ہے کہ اس طرح کے بیشتر کیسز میں کسی کو جلائے جانے کے لیے تیزاب کے علاوہ مٹی کا تیل یا پٹرول بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کی فروخت کا حساب رکھنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ مشہور وکیل اور ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ عاصمہ جہانگیر کی صاحبزادی سلائمہ جہانگیر، جو خود بھی ایک معروف وکیل اور ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ ہیں اور اب اپنی والدہ کی جگہ AGHS نامی غیرسرکاری تنظیم چلارہی ہیں جس کے مقاصد میں تشدد اور ظلم کا شکار خواتین کو قانونی معاونت فراہم کرنا بھی ہے، کی معلومات کے مطابق خواتین پر تشدد، تیزاب گردی اور جلائے جانے کے کیسز میں عام طور پر 80% معاملات میں پولیس بااثر ملزمان کے ساتھ مل کر عدالت سے باہر ہی متاثرین کو صلح کرلینے پر مجبور کردیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا سدباب یقینی بنایا جائے اور متاثرہ فرد کو یہ آزادی اور تحفظ فراہم کیا جائے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی باقاعدہ رپورٹ درج کرواسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ کم از کم 2014ء کے بل پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ہونا چاہیے۔ گو انہوں نے مذکورہ بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناکافی اقدام قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک مزید مؤثر قانون سازی نہیں ہوتی موجودہ بل بہرحال غنیمت ہے لیکن اس کو حقیقی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے۔
The post ایک چھینٹے سے جُھلس جاتا ہے جیون سارا appeared first on ایکسپریس اردو.