Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

تولیدی صحت کا حق۔۔ حقدار تک ۔۔۔مگر کب؟

$
0
0

انسانی ترقی انسانی حقوق کی تکمیل کا نام ہے۔ یہ خیال ڈاکٹر محبوب الحق نے یعنی پاکستان نے دنیا کو دیا۔ اور آج ہم اس کے موجد ہونے کے باوجود انسانی ترقی کی دوڑ میں دنیا بھر میں 147 ویں نمبر پر ہیں جو ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال اور اس سلسلے میں اُن تمام وعدوں کی تکمیل جو ہم نے انٹرنیشنل کمیونٹی سے کر رکھے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی بجا آوری سے مخلصی کی حقیقت کو عیاں کر رہی ہے جس کی ایک واضح جھلک ملک میں خواتین کی تولیدی صحت کے شعبے کی زبوں حالی کی صورت میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

پاکستان دنیا کے اُن 179ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ’’انٹرنیشنل کانفرنس آن پاپولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ‘‘ کے پروگرام آف ایکشن (1994) پر دستخط کیے تھے اور ’’ ملینئیم ڈیولپمنٹ گولز‘‘ کا بھی دستخطی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان ’’ عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیازات کے خاتمے کا معاہدہ‘‘ (CEDAW)کا بھی دستخطی فریق ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں جنسی و تولیدی صحت اور حقوق کی مجموعی صورتحال زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔

جنسی و تولیدی صحت کے حقوق انسانی حقوق کی عمارت کا ایک اہم ستون ہیں۔کیونکہ یہ حقوق لوگوں کے اقتصادی حالات، تعلیم، روزگار، معیارزندگی، خاندان کے ماحول، سماجی و صنفی تعلقات اور جس روایتی اور قانونی ڈھانچے کے اندر وہ رہتے ہیں ان کو متاثر تو کرتے ہی ہیں لیکن ان تمام عوامل سے خود بھی متاثر ہوتے ہیں۔ لہذا ان حقوق کی تکمیل ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونی چاہئے لیکن افسوس پالیسی کی سطح پر اور سہولیات کی فراہمی کی طرف مطلوبہ توجہ نہیں دی جا رہی۔

جبکہ روایتی اور ثقافتی رسوم جنسی و تولیدی صحت اور حقوق کو شجر ممنوعہ تصور کرتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ 2015 میں دنیا بھر میں زچگی کے دوران موت (maternal death) کے منہ میں جانے والی خواتین کی پانچویں بڑی تعداد یعنی 9 ہزار 7 سو کا تعلق پاکستان سے تھا۔ جبکہ زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں178 اموات فی لاکھ کیسز کے ساتھ 54 نمبر پر ہے ۔

جوخطے میں صرف نیپال اور افغانستان سے بہتر پوزیشن ہے۔ اسی طرح تمام عمر زچگی کے دوران خواتین کے مرنے کے امکان (Life time risk of maternal death) کے حوالے سے پاکستان دنیا کے165 ممالک (جن کے اعداد وشمار دستیاب ہیں ) میں 153 ویں نمبر پر ہے۔ اور ملک میں ہر 140 خواتین میں سے ایک اس خطرے کے امکان کا شکار رہتی ہے۔ عالمی ادارہ اطفال کی رپورٹ ، ’’ دی اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن2017 ‘‘ کے اعداد وشمار سے مرتب کردہ ان حقائق کو اگر سامنے رکھیں تو یوں لگتا ہے کہ ملک میں خواتین کا حقِ زندگی، محفوظ حمل اور بچوں کی پیدائش کے حق کومسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2016 میں دنیا میں پیدا ئش کے کیسز کی چوتھی بڑی تعداد یعنی 54 لاکھ 38 ہزار6 سو پاکستانی بچوں پر مشتمل تھی۔ جبکہ فی خاتون بچوں کی تعداد (Total fertility rate ) 3.5 کے ساتھ وطنِ عزیز دنیا بھر میں 51 ویں درجہ پر ہے۔

پاکستان میں خواتین کی تولیدی صحت کا شعبہ اس لئے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ 2018 میں دنیا بھر میں تولیدی عمر (15 سے49 سال) کی حامل خواتین کی چھٹی بڑی تعداد یعنی پانچ کروڑ 51 لاکھ 49 ہزار پاکستان میں موجود ہیں۔ یو ایس سینسز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق اس وقت پاکستان کی 54.5 فیصد خواتین تولیدی عمر کے گروپ سے تعلق رکھتی ہیں اور اس تناسب کے حوالے سے ملک دنیا بھر میں 34 ویں درجہ پر ہے۔جبکہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک میں تولیدی عمر (Reproductive age) کی حامل خواتین کی آبادی کے تناسب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز کے مطابق 2006 میں ملک کی خواتین کی آبادی کے 46.2 فیصد کا تعلق تولیدی عمر کے گروپ سے تھا۔ جبکہ یہ تناسب 2016 تک بڑھ کر 54.3 فیصد ہو چکا تھا۔ اس عشرے کے دوران ملک میں خواتین کی کل آبادی میں 52.3 فیصد اور 15 سے49 سال کی خواتین کی تعداد میں 78.8 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔

خواتین کو تولیدی سہولیات کی ضرورت اگرچہ عمر بھر یعنی پیدائش سے موت تک رہتی ہے لیکن تولیدی عمر کے دورانیہ میں یہ دوچند ہو جاتی ہے اور خصوصاً کم عمر ی میں شادی کے بندھن میں بندھ جانے والی لڑکیوں کو تو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ ملک میں 20 سے24 سال کی خواتین کے 21 فیصد کی شادی 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ اور اس حوالے سے پاکستان دنیا میں 69 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ اسی ایج گروپ کی 8 فیصد خواتین کے ہاں پہلے بچے کی ولادت 18 سال کی عمر سے پہلے ہو چکی ہوتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا عالمی درجہ بندی میں 79 واں نمبر ہے۔

عالمی ادارہ اطفال کے مطابق 15 سے19سال تک کی عمر کی ماں کا زچگی کے دوران مرنے کا امکان 20 سال کی عمر میں ماں بننے والی لڑکی کی نسبت تقریباً دگنا ہوتا ہے اس کے علاوہ بین الاقوامی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کم عمر ماؤں کے ہاں اکثر پری میچور پیدائش (وقت سے پہلے) کے زیادہ کیسز ہونے کا امکان ہوتا ہے جو کہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کم عمری میں ماں بننے والی لڑکیوں اور ان کے نوزائیدہ بچوں کی اموات کا قریبی تعلق ماں کی صحت کے ساتھ بھی وابستہ ہے کیونکہ ابھی لڑکی کی اپنی نشوونما کا عمل جاری ہوتا ہے کہ وہ ماں بن جاتی ہے جس سے زچہ و بچہ دونوں کی صحت متاثر ہوتی ہے اور پیدا ہونے والے بچے کم وزن، کمزور اور مائیں خون کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یونیسف کے مطابق پاکستان کی51.1 فیصد تولیدی عمر کی خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں اور اس حوالے سے ملک دنیا بھر میں 185ممالک میں سے 180 ویں نمبر پر ہے۔ خون کی کمی کی ایک بڑی وجہ خواتین خصوصاً حاملہ خواتین کی خوراک ہے۔

قومی غذائیت سروے 2011 کے مطابق ملک میں حاملہ خواتین کا صرف 24.4 فیصد فولاد، 25.3 فیصد فولک ایسڈ، 3.9 فیصد مائیکرونیوٹرینٹ اور 35.6 فیصد کیلشیم کا استعمال کرتا ہے جس کے باعث اکثر زچہ و بچہ کمزور صحت کے حامل ہوتے ہیں ان ہی کمزور بچوں میں ایک بڑی تعداد بچیوں کی بھی ہے جنہوں نے مستقبل میں ماں بننا ہوتا ہے اور اگر وہ بچپن ہی سے کمزور اور کم غذائیت کا شکار ہوں گی تو ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کس طرح صحت مند ہو سکتے ہیں؟

جنسی و تولیدی صحت اور حقوق کی پالیسیوں اور پروگراموں میں ماہرین کے مطابق چار عناصر کا ہونا ضروری ہے یعنی دستیابی، رسائی، معیار اور قبولیت۔ اسی تناظر میں اگر ہم طبی سہولیات کی دستیابی کا جائزہ لیں تو جو منظر نامہ سامنے آتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ملک میں اس وقت سرکاری ہسپتالوں کی تعداد محض 1201 ہے ۔ اور اگر ہم ملک میں موجود تولیدی عمر کی حامل خواتین کی آبادی کو ہی صرف لیں تو اس وقت ملک میں 45 ہزار9 سو 19 خواتین کے لئے ایک سرکاری ہسپتال موجود ہے۔ جبکہ 9 ہزار5 سو 5 خواتین کے لئے ایک ڈسپنسری اور 9 ہزار9 سو94 خواتین کے لئے ایک بنیادی مرکز صحت دستیاب ہے۔

اسی طرح زچہ و بچہ کی صحت کا ایک مرکز 75 ہزار 4 سو 43 عورتوںکو خدمات فراہم کرنے کے لئے موجود ہے۔ علاوہ ازیں 80 ہزار7 سو 45 خواتین کے لئے ایک دیہی مرکز اور ایک لاکھ 58 ہزار 9 سو31 خواتین کے لئے ایک ٹی بی سینٹر کی سہولت دستیاب ہے۔

یوں تمام طرح کی سرکاری طبی سہولیات کا ایک بستر 447 خواتین کے لئے موجود ہے۔ اگر ہم طبی عملے کی دستیابی کا جائزہ لیں تو اس وقت ملک میں تولیدی صحت کی عمر(15-49) کے گروپ پر مشتمل 264 عورتوں کے لئے ایک ڈاکٹر( ایم بی بی ایس اور اسپیشلسٹ) موجود ہے۔ لیکن یہاں اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ ملک کے اکثر علاقوں میں سماجی و ثقافتی روایات کی وجہ سے خواتین اپنی تولیدی صحت کے مسائل خصوصاً حمل اور زچگی کے لئے مرد ڈاکٹرز کے پاس جانے سے کتراتی ہیں یا پھر اُنھیں مرد ڈاکٹر کے پاس لے جایا ہی نہیں جاتا۔

یہ صورتحال ملک میں لیڈی ڈاکٹرز کی ضرورت کو دوچند کر دیتی ہے۔ جن کی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں رجسٹرڈ تعداد بطور ایم بی بی ایس اور اسپیشلسٹ کے 31 دسمبر2017 تک 94 ہزار ایک سو 8 ہے جو ملک میں موجود ایم بی بی ایس اور اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کا 45 فیصد ہیں۔ یوں ملک میں 586 تولیدی عمر کی خواتین کے لئے ایک لیڈی ڈاکٹر دستیاب ہے۔ جبکہ 556 خواتین کے لئے ایک نرس، 1518 کے لئے ایک میڈوائف اور3172 خواتین کے لئے ایک لیڈی ہیلتھ وزیٹر ہے۔

ملک میں صحت کی سہولیات کی یہ نا کافی تعداد دراصل باعث ہے اُن کم تر اخراجات کا جو حکومتی سطح پر صحت کے شعبے میں کئے جاتے ہیں۔ اکنامک سروے آف پاکستان2016-17 کے مطابق ملک میں گزشتہ 10سال کے دوران صحت کے شعبہ پر جی ڈی پی کا 0.5 سے0.8 فیصد خرچ کیا گیا جو عالمی ادارہ صحت کے بنیادی اور جان بچانے والی خدمات کے لئے مقرر کردہ بینچ مارک(کم از کم شرح)6 فیصد سے بہت کم ہے۔

اسی طرح ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں فی کس صحت کے شعبے پر 36.2 امریکی ڈالر خرچ کئے جاتے ہیںجوکہ عالمی ادارہ صحت کے کم آمدن کے حامل ممالک کے بینچ مارک86 ڈالرز سے کہیں کم ہیں۔ اور اگر ہم صحت کے مختلف شعبوں میں حکومت کی طرف سے ہونے والے اخراجات کی تقسیم کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنرل ہسپتالوں اور طبی مراکز ان اخراجات کا سب سے زیادہ حصہ لے رہیں ہیں۔ جبکہ سب سے کم خرچ زچہ و بچہ کے شعبہ پر کیا جاتا ہے۔ وزارتِ خزانہ کی پاورٹی ریڈکشن اسٹریٹیجی پییپر کی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال 2015-16 کے مطابق ملک میں صحت پر ہونے والے اخراجات کا مذکورہ سال صرف صفر عشاریہ44 (0.44) فیصد زچہ و بچہ سے متعلق امور پرصرف کیا گیا۔

ملک میں صحت کے شعبے کی کسمپرسی اپنی جگہ لیکن ان سہولیات تک رسائی، قبولیت اور معیار کی صورتحال بھی کوئی اتنی خاص حوصلہ افزاء نہیں۔ مثلاً حمل کے دوران اور بعد از زچگی چیک اپ کو ہی لے لیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ایسا کرنے سے خواتین کو حمل کے دوران، زچگی کے وقت اور اس کے بعد کی پیچیدگیوں اور خطرات کی علامات سے آگاہ ہونے، حفاظتی ٹیکوں، خوراک، احتیاطی تدابیر، بچے کی دیکھ بھال اس کی خوراک اور صحت کے بارے میں مفید معلومات ملتی ہیں اس کے علاوہ زچہ و بچہ میں کسی قسم کی پیچیدگی کا ناصرف بروقت پتہ چل جاتا ہے بلکہ اس کے علاج اور احتیاط کے ساتھ ساتھ بچے کی نگہداشت کے بارے میں ضروری ہدایات بھی مل جاتی ہیں اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کسی بھی خاتون کو نارمل صورتحال میں Prenatal Care کے حوالے سے 4 بار چیک اپ کا مشورہ دیتا ہے لیکن ہمارے مخصوص حالات میں ماہرین کم از کم ایک بار ہی چیک اپ کروا لینے پر زور دیتے ہیں۔ اسی تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو یونیسف کے مطابق پاکستان میں حمل کے دوارن خواتین کے کسی بھی طبی سہولت سے ایک بار استفادہ کی شرح 73 فیصد اورچار بار وزٹ کی شرح صرف 37 فیصد ہے یو ں پاکستان عالمی درجہ بندی میں اول ذکر کے حوالے سے 153 ویں نمبر پراور دوم ذکر کی مناسبت سے 139 ویں نمبر پر ہے۔ جب کہ زچگی کے بعد ملک کی صرف 60 فیصد مائیںجدید اور روائتی طبی سہولیات سے چیک اپ کرواتی ہیں۔

اس حوالے سے وطن عزیزدنیا بھر میں 58 ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح ملک میں خواتین کی اموات کی ایک اور نمایاں وجہ زچگی کے کیسز کی اکثریت کے لئے طبی سہولیات سے استفادہ نہ کرنے کا رجحان ہے۔کیونکہ ملک میں صرف 48 فیصد زچگی کے کیسز مختلف نوعیت کے طبی مراکز / ہسپتالوں میں ہوتے ہیں۔ اور زچگی کے کیسز کا صرف 55 فیصد تربیت یافتہ طبی عملے کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ زچگی کے مقام اور معاونت کے حوالے سے پاکستان کے یہ دلخراش اعداد وشمار اُسے دنیا میں بالترتیب 149اور146 ویں نمبر پر براجمان کئے ہوئے ہیں۔

ماں اور بچے کی صحت کا براہ راست انحصار اولاد میں مناسب وقفے پر منحصر ہے جس کے لئے اس کا خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کو بے شمار رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ جن میں سہولیات کا فقدان، رسائی میں رکاوٹیں، مانع حمل ادویات کے ضمنی اثرات کا خوف، استعمال سے آگہی کی کمی، خواتین کی کم شرح خواندگی اور کمزور خود مختاری نمایاں ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کی شرح اتنی حوصلہ افزا نہیں۔ یواین ایف پی اے کی رپورٹ ’’ اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن 2017 ‘‘ کے مطابق پاکستان میں15 سے49 سال کی شادی شدہ خواتین کا 40 فیصد خاندانی منصوبہ بندی کے کسی ایک طریقے کا استعمال کرتی ہیں۔ جبکہ کسی ایک جدید طریقے کے استعمال کی شرح 31 فیصد ہے۔

اس صورتحال کے ساتھ پاکستان دنیا بھر میں 148 ویں اور146 ویں نمبر پر ہے۔ ایک طرف تو ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کی شرح کم ہے تو دوسری جانب پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے مطابق ملک کی 15 سے 49 سال کی موجودہ شادی شدہ خواتین (Currently maried women جن کے ایک سے چھ تک بچے ہیں)کا 42.3 فیصد مزید بچوں کی خواہش مند نہیں۔ اوراس کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا خواتین کے 98.9 فیصد نے خاندانی منصوبہ بندی کے کسی ایک طریقے کے بارے میں بھی سن رکھا ہے۔ جبکہ اس ایج گروپ کے موجودہ شادی شدہ مردوں میں اس طرح کی آگہی کی شرح 95.7 فیصد ہے ۔

یعنی خواتین کے زیادہ تناسب کو مردوں کی نسبت اس بارے میں پتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کا استعمال نہیں کرتیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر فائزہ ربانی، چمپیئن آغا خان یونیورسٹی برائے لیڈر شپ فیملی پلاننگ اینڈ ری پروڈیکٹیو ہیلتھ کا کہنا ہے کہ ’’اختیارات کی وفاق سے صوبوں کو منتقلی کے نتیجے میں صوبائی سطح پر صحت اور بہبود آبادی کے پروگرام کے حوالے سے کئی خلاء ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اٹھارویں ترمیم ، وفاقی صحت، ترقی نسواں، سماجی بہبود اورآبادی کی وزارتوں کو صوبوں کی منتقلی کے حوالے سے دستوری اور پالیسی اصلاحات کی جائیں۔ ان وزارتوں کو منظم انداز سے انسانی حقوق اور صنفی مساوات کے پہلوؤں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو خاندانی منصوبہ بندی کو ٹھوس اور مربوط انداز میں مرکزی دھارے میں لانا چاہیئے۔ اس ضمن میں دوردراز علاقوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولتوں کے فقدان، عملے کی کمی اور انفراسٹرکچر کی ضرورتوں پر کام کیا جائے۔

اور ان سہولتوں سے متعلق آگاہی کے فقدان کو عوامی مہم کے ذریعے دور کیا جائے تاکہ بڑھتی ضرورتوں کی تشفی ہو۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے افادیت پسند نقطہ جس کا محور معیشت ہوتی ہے، اس کے بجائے انسانی حقوق پر مبنی نقطہ نظر اختیار کرے۔ اس کے علاوہ خدمات فراہم کرنے والوں کا اعتماد بحال کرکے ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ بے خوف ہوکر کام کر سکیں۔ انکے عقائد اور کام میں تصادم سے متعلق ابہامات کو دور کیا جائے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ جن علاقوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات نا کافی ہیں وہاں تک رسائی کے لئے محکمہ صحت اور بہبود آبادی کے محکمے کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔‘‘

سماجی و ثقافتی حوالوں سے اگر دیکھیں تو عورت کو صحت کی سہولتوں تک رسائی سے قبل خاندان کے افراد کی اجازت کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ ان کی حیثیت گھر میں ہمیشہ کمتر فرد کی سی ہوتی ہے۔ ان کی خود مختاری کے فقدان اور فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی عدم شرکت عورتوں کی صحت اور حاملہ ہونے کے لئے سنجیدہ نتائج کا باعث بنتی ہے۔ ثقافتی اقدار کی وجہ سے عورت کی کم سماجی حیثیت انہیں صحت کی سہولتوں تک رسائی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ جو ماؤں کی بلند شرح اموات اور دیگر بیماریوں کا شکار ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ پی ڈی ایچ ایس 2012-13 کے مطابق ملک کی موجودہ شادی شدہ خواتین(15-49) کا صرف 11.1 فیصد اپنی صحت کے حوالے سے ذاتی طور پر فیصلہ کرتی ہیں۔ جبکہ40.8 فیصد خاوند کی مشاورت سے اور 30.5 فیصد خواتین کی صحت کی دیکھ بھال کے فیصلے صرف اور صرف شوہر کرتے ہیں۔

معاشرے میں مغلوب حیثیت کی وجہ سے ہمارے یہاں خواتین کا سماجی اور معاشی مقام کم تر ہے جس کے باعث انھیں گوں نا گوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خصوصاً صحت کی سہولیات سے استفاد ہ کے تناظر میں مسائل کا ایک پہاڑ اُن کے سامنے ہوتا ہے۔ پی ڈی ایچ ایس 2012-13 کے مطابق تولیدی عمر کی حامل خواتین کے 63.2 فیصد کو طبی سہولیات سے مستفید ہونے کے حوالے سے کسی نا کسی مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 53.1 فیصد کو درپیش مسئلہ کی نوعیت یہ ہے کہ اُن کے ساتھ طبی سہولت تک ساتھ جانے والا کوئی نہیں ہوتا اور وہ اکیلا جانا نہیں چاہتیں یا اُنھیں اکیلے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ 40.3 فیصدکو سواری کے بندوبست کے سلسلہ میں مسائل کامنا کرنا پڑتا ہے۔ 37.1 فیصد کو طبی سہولت کے زیادہ فاصلہ پر ہونے کے مسئلہ کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ 29.7 فیصد کو علاج یا مشورے کے لئے پیسوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ جبکہ 17.7 فیصد کو علاج کے لئے اجازت کے حصول میں مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

غربت ایک اور وجہ ہے جو پاکستان میں تولیدی صحت کی سہولیات اور ان سے استفادہ کے رجحان کی بد حالی کا باعث بن رہی ہے۔ غربت زدہ علاقوں میں اکثر اوقات عورتیں مردوں سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقے غربت کی زیادہ لپیٹ میں ہیں جہاں لوگ احساس محرومی کا شکار ہیں کہ نہ اُنہیں صحت کی موزوں سہولتیں میسر ہیں۔ نہ نکاسی آب کا نظام ہے اورنہ ان کے انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جہالت کی وجہ سے دیہی علاقوں کی عور تیں مانع حمل ادویات اور خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے بھی عموماً نا بلد ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں شر ح بارآوری زیادہ ہے۔

کیونکہ اکنامک سروے آف پاکستان2016-17 کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں 10سال اور اس سے زائد عمر کی خواتین میں خواندگی کی شرح محض 36 فیصد ہے( شہروں میں یہ تناسب 68 فیصد اور مجموعی طور پر خواتین میں خواندگی کی شرح صرف 48 فیصد ہے)۔ غربت کے باعث دیہی علاقوں میں مناسب طبی مراکز تک رسائی کے فقدان (ٹرانسپورٹ کی سہولت کا نہ ہونا، طبی مراکز سے زیادہ فاصلہ پر ہونا)کی وجہ سے بچوں کی ولادت عموماً گھرمیں بغیر تربیت یافتہ عملے کی موجودگی میں ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی طبی مرکز تک پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو تربیت یافتہ عملہ کی اکثر غیرحاضری اور مراکز پر طبی سازوسامان اور ادویات کی کمی صورتحال کو اور زیادہ سنگین کر دیتی ہے۔

جس کی وجہ سے ماؤں کی شرح اموات ملک کے دیہی علاقوں میں زیادہ ہے۔ ڈاکٹر افشاںامین جو کہ جان ہاپسکن یو نیورسٹی امریکا سے الحاق شدہ ایک بین الاقوامی غیرمنافع بخش غیرسرکاری ہیلتھ آرگنائزیشن(Jhpiego ) کی صوبا ئی پروگرام منیجر ایم سی ایس پی پنجاب ہیں، وہ کہتی ہیں ’’ پنجاب میں تولیدی صحت کی سہولیات اور خدمات کی دستیابی کی صورتحال دیگر صوبوں سے قدرے بہتر ہے کیونکہ پنجاب میں انتظامی سطح پر اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ طبی سہولیات میں عملے کی موجودگی اورسازوسامان و ادویات کی دستیابی ہر وقت ہو۔ اب ضرورت ان خدمات کی معیاری فراہمی کی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ عملے کو باقاعدگی سے اپنی استعدادکار بڑھانے کے لئے تربیتی مواقع فراہم کئے جائیں۔ اور معاون نگرانی (Supportive supervision) کے نظام کو متعارف کرایا جائے۔ اس کے علاوہ فیملی پلاننگ کی جدید تکنیکس کو زچگی کے وقت فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ تربیت یافتہ عملہ جو ایک طرف تو محفوظ زچگی کی خدمات سر انجام دے رہا ہے وہی پیدائش کے فوراً بعد فیملی پلاننگ کی سہولت بھی بہم پہنچا سکے‘‘۔

ہمارے یہاںذ ہنی امراض کی طرح جنسی مسائل کو بھی بیماری نہیں بلکہ سماجی طور پر کلنک کا ٹیکہ سمجھا جاتا ہے۔ اور ان پر بات کرنا معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ خصوصاً نوجوان تو اس حوالے سے خاص طور پر غیر محفوظ ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس معلومات کی بھی کمی ہوتی ہے اور متعلقہ سہولتوں تک رسائی بھی نہیں ہوتی۔ یعنی ان بیماریوں کی نوعیت کیا ہے؟ یہ کیسے پھیلتی ہیں؟ ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟اور ان کے علاج و معالجے کی سہولیات کی دستیابی وغیرہ ۔ ان سب کے بارے میں آگاہی کے فقدان کی وجہ سے وہ عطائیوں کے ہتھے چڑھ کر مزید مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر خاموشی کی زنجیر میں جکڑے ایک صحت مند زندگی سے محظوظ نہیں ہو پاتے۔

اس کے علاوہ اس بات کا احتمال بھی بڑھ جاتا ہے کہ کہیں وہ ان بیماریوں کا شکار یا پھیلاؤ کا باعث نہ بن جائیں۔ مثلاًایچ آئی وی/ ایڈز کو ہی لے لیں ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے پھیلنے کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ جنسی بے راہ روی بھی ہے۔ اور اگر ہم ملک کے نوجوانوں خصوصاً 15 سے 19سال کے نو بالغوں (Adolescents) میں اس مرض کے بارے میں آگہی کی سطح کا جائزہ لیں تو جو صورتحال سامنے آتی ہے اُس کے مطابق ملک کی نو بالغ لڑکیوں کا صرف ایک فیصد ایڈز کے بارے میں جامع معلومات رکھتا ہے۔ اس حوالے سے جن ممالک کے اعداد وشمار دستیاب ہیں ان میں پاکستان سب سے نچلے درجہ یعنی 111 ویں نمبر پر ہے۔

جبکہ نو بالغ لڑکوں میں یہ شرح5 فیصد ہے جس کے باعث پاکستان دنیا کے86 ممالک میں سے 81 ویں نمبر پر ہے۔ اس لئے جنسی بیماریوںکی روک تھام اور علاج و معالجہ کے بارے میں ہر طرح کی سہولتوں کی فراہمی اور ان سے استفادہ انتہائی اہم ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عنیقہ جو کہ ایک طویل عرصہ گرین سٹار سوشل مارکیٹنگ میں بطور ٹرینر خدمات دے چکی ہیں ان کا کہنا ہے ’’نوجوانوں کی جنسی و تولیدی صحت وہ شعبہ ہے جس میں حقوق اور سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے بڑے بڑے خلاء ہیں۔ ثقافتی اقدار کی وجہ سے ان موضوعات پرگفتگو عام نہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کی تولیدی صحت پر بات کرنے کے مقاصد کے حوالے سے خدشات اور غلط تصورات پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ جنسی اور تولیدی صحت کی سہولیات تک رسائی اور ان سے استفادہ سے جڑی بدنامی (Stigma) کے خوف کو دور کیا جائے۔ اور نوجوانوںکو جب جنسی اور تولیدی صحت کی رہنمائی اور سہولیات کی ضرورت ہو تو انھیں رہنمائی، مکمل معلومات اور سہولیا ت بہم مہیا کی جائیں ‘‘۔

خواتین پر ہونے والا کسی بھی قسم کا تشدد اْن کی جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی صحت کو ناصرف متاثرکرتا ہے۔ بلکہ عوامی زندگی میں حصہ لینے کے لئے اْن کی صلاحیت کو ختم کر دیتا ہے۔ اور اس تشدد کے اثرات آنے والی نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔ خصوصاً بچوں کی نفسیات، تر بیت اور نشوونما پر خواتین کے تشدد کا بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ خواتین پر تشدد خاندانوں اور کمیونٹیز کو نسل در نسل نقصان پہنچاتا ہے اور معاشرہ میں پائے جانے والے دیگر تشدد کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں بھی خواتین پر تشدد کی کیفیت دنیا سے مختلف نہیں۔ پاکستان ڈیمو گرافک اینڈ ہیلتھ سروے-13 2012 ملک میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے بارے میں جو حقائق سامنے لاتا ہے اْس کے مطابق ملک میں 15 سے 49 سال کی عمر کی 32.2 فیصد شادی شدہ خواتین جسمانی تشدد برداشت کرتی ہیں۔ خواتین پر تشدد کے منظر عام پر آنے والے واقعات کے علاوہ اَن گنت کیسز سامنے ہی نہیں آتے اور گھروں کی چاردیواری کے اندر ہی دبا دیئے جاتے ہیں۔

چاہے وہ خواتین پر جسمانی تشدد ہو، نفسیاتی یا پھر معاشی، خواتین خود بھی اس کے بارے میں کم ہی زبان کھولتی ہیں۔ اس حوالے سے پی ڈی ایچ ایس کے اعداد و شمار جو منظر نامہ پیش کر رہے ہیں وہ کچھ یوں ہیں کہ ملک میں 15 سے 49 سال کی عمر کی جسمانی تشدد کا شکار51.3 فیصد شادی شدہ خواتین تشدد کے وقت نہ ہی مدد کے لئے کسی کو پکار تی ہیں اور نہ ہی کسی سے اْس کا ذکر کرتیں اور چپ سادھ لیتی ہیں۔ خواتین پر تشدد کے زیادہ سنگین نتائج اُن کی ذہنی صحت پر مرتب ہوتے ہیں۔ جو ایک طویل عرصہ تک انھیں اپنی گرفت میں رکھتے ہیں اور ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہ کہنا ہے ڈاکٹر غلام رسول کا جو بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں شعبہ ذہنی صحت کے سربراہ اور پروفیسر آف سائیکاٹری ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خواتین کے حقوق کی عدم فراہمی کو بھی اُن پر تشدد قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’ خواتین پرتشدد ہر اُس عمل کو کہا جا سکتا ہے جس سے اُنھیں تکلیف پہنچے وہ چاہے جسمانی ہو، نفسیاتی ہو، اقتصادی ہو یا پھر سماجی۔ یہ سب تشدد کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور تکلیف تب پیدا ہوتی ہے جب حقوق پورے نہ کئے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ خواتین پر تشدد کے جسمانی، نفسیاتی اور سماجی اثرات ہوتے ہیں۔

جسمانی لحاظ سے اگر دیکھیں تو کوئی خاتون کسی بھی طرح کے تشدد کے باعث لمبے عرصہ تک ذہنی دباؤ کا شکار ہو تو اُس کے دماغ سے خاص قسم کے کیمیکلز یا جنہیں ہم ہارمونز کہہ سکتے ہیں نکلتے ہیں جو اُن کے دل، ہڈیوں، جلد،بالوں اور تولیدی نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ ہارمونز خاتون کے پورے تولیدی سائیکل یعنی خون اور جسم کے اُن حصوں تک جہاں بچے کی نشوونما ہوتی ہے اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ کیمیکلز خاتون کے وقتی طور پر بانجھ پن کا بھی باعث بن سکتے ہیں۔ ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ خواتین پر تشدد اُن کے تولیدی نظام کی عمر کو کم کر دیتا ہے۔ اور اُن کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اور اگر وہ ایسی صورت میں حاملہ ہو جائیں کہ وہ ایک لمبے عرصے سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں یا اُن پر حمل کے دوران تشدد کیا گیا ہو تو اس کا اثر بچے پر پڑتا ہے۔

اس صورت میں بچے کا وقت سے قبل پیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور بچہ ضائع بھی ہو سکتا ہے۔ جبکہ پیدا ہونے والا بچہ کم وزن، پستہ قد اور مختلف بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ بچے کی خواہش سے لیکر پیدائش اور پھر پرورش کے تمام مراحل خاتون پر تشدد کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر نفسیاتی حوالے سے خواتین پر تشدد کے اثرات کو دیکھیں تو ایک بات واضح طور پر محسوس کی گئی ہے کہ ایسی خواتین تولیدی عمل میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتی ہیں۔ ان کی خواہشات کم ہو جاتی ہیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد اُس کی پرورش اور نشوونما کے حوالے سے وہ کم حوصلگی کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنے بچوں کو وہ توجہ اور پیار نہیں دے پاتیں جو تشدد سے محفوظ ماں دیتی ہے۔ نتیجتاً بچے نظر انداز ہوتے ان کی تربیت متاثر ہوتی ہے وہ پُر تشدد رویہ اپناتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے سامنے خواتین پر تشدد انھیں اس فعل کے مرتکب ہونے کی اولین تربیت بھی فراہم کرتا ہے اور ان سب کے بالآخر سماجی اثرات ایک پُرتشدد معاشرے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں‘‘۔

اس تما م صورتحال میں ہم نے تولیدی صحت کے شعبہ میں اپنے بین الاقوامی وعدوں پر مبنی ایم ڈی جیز کے اہداف کو کس حد تک حاصل کیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے تولیدی صحت کے جو پانچ اہداف ملکی سطح پر مقرر کئے تھے ان کے حصول میںکافی پیش رفت تو کی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی مکمل طور پرحاصل نہیں کر پائے۔ ہم زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح کو 140اموات فی لاکھ کیسز تک لانے کے ملکی ہدف کے حصول میں 79 فیصدکامیابی حاصل کر پائے ہیں۔ جبکہ تربیت یافتہ طبی عملے کے ہاتھوں زچگی کے کیسزکے ملکی ہدف کا 64 فیصد حاصل کر سکے ہیں۔

اسی طرح خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کے ہدف کا بھی 64 فیصد حصہ حاصل کیا ہے۔ فی خاتون بچوں کی اوسط تعداد کے حوالے سے ہم 53 فیصدہدف حاصل کر پائے ہیں اور حمل کے دوران ایک بار چیک اپ کی شرح کے ہدف کا73 فیصد حاصل کر سکے ہیں۔ عالمی اہداف کے حصول میں تشنگی کی یہ صورتحال دراصل ہمیں اپنی پالیسیوں کے ازسرنو جائزہ کی دعوت دے رہی ہے تاکہ اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے تمام گولز خصوصاً جنسی اور تولیدی صحت کے اہداف جس میں 2030 تک زچگی کے دوران شرح اموات کو 70 فی لاکھ تک لانا، 2030 تک جنسی اور تولیدی صحت کی سہولیات تک عالمگیر رسائی کو یقینی بنانا۔ جس میں خاندانی منصوبہ بندی ، اطلاعات و معلومات اور قومی حکمت عملیوں اور پروگرامز میں تولیدی صحت کو شامل کرنا اور اس کے علاوہ آبادی اور ترقی پر بین الاقوامی کانفرنس کے ایکشن پروگرام اور بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن اور ان کے جائزہ لینے والی کانفرنسز کے نتائج کی دستاویزات کے مطابق جنسی اور تولیدی صحت کی عالمگیر رسائی کو یقینی بنانے جیسے گولز کو حاصل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوا جا سکے۔

جنسی و تولیدی صحت اور حقوق

٭ اقوام متحدہ کے دفتر برائے ہائی کمشنر انسانی حقوق کے مطابق خواتین کی جنسی اور تولیدی صحت مختلف انسانی حقوق سے متعلق ہے۔ بشمول جینے کا حق، تشد د سے آزاد رہنے کا حق، رازداری کا حق اور ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا حق۔ کمیٹی برائے اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق اور خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیازات کے خاتمے (سی ای ڈی اے ڈبلیو) دونوں نے واضح طور پر اس کی نشاندہی کی ہے کہ خواتین کی صحت کے حقوق میں ان کی تولیدی صحت کا حق بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کو خواتین کے جنسی اور تولیدی صحت سے متعلق حقوق کو احترام، ان کی حفاظت اور ان کو پورا کرنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں اداکرنا ہوں گی۔ جسمانی اور ذہنی صحت کے اعلیٰ معیارات سے محظوظ ہونے کے حق کے حوالے سے اسپیشل رپورٹر نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ خواتین، تولیدی صحت کی خدمات، اشیاء اور سہولیات جن میں ان کی مناسب تعداد میں دستیابی، جسمانی اور معاشی طور پر دسترس میں ہونے، بلا امتیاز رسائی میں ہونے اور اعلیٰ معیار کی حامل ہونے کی حقدار ہیں۔

٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنسی و تولیدی صحت اور حقوق اُن تمام کوششوں کا مجموعہ ہیں۔ جن کے ذریعے ماں اور نوزائیدہ بچوں کی اموات اور امراض پر قابو پایا جا سکے۔ جنسی و تولیدی صحت کی معیاری خدمات کو یقینی بنا یا جاسکے۔ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں اور رحم کے کینسر سے بچا جا سکے۔ خواتین و بچیوں پر تشدد کی روک تھام اور نو بالغوں کی جنسی اور تولیدی صحت کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

٭ یو این انٹرنیشنل کانفرنس آن پاپولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ (1994 ) کے مطابق تولیدی صحت اور حقوق سے مراد ذمہ دار، اطمینان بخش اور محفوظ جنسی زندگی، افزائش نسل کی صلاحیت اور اس انتخاب کی آزادی کہ کب اور کتنے بچے پیدا کرنے ہیں۔

The post تولیدی صحت کا حق۔۔ حقدار تک ۔۔۔مگر کب؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles