دنیا کے امیر ترین انسانوں میں شامل بل گیٹس کو سبھی لوگ رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ممکن ہے ان کی بے مثال کامیابیوں سے بعض حسد بھی کرتے ہوں۔ مگر سچ یہ ہے کہ بل گیٹس ہماری توقع سے بڑھ کر خوش قسمت ہیں۔
دنیا میں شاذ ونادر ہی لوگوں کو ایسی خوش قسمتی میسر آتی ہے۔ ان کی داستان حیات بتاتی ہے کہ جب وہ بیس سال کے نوجوان تھے، تو انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی جیسی مادر علمی کو خیرباد کہا، اپنی تعلیم ادھوری چھوڑی اور مائیکروسافٹ کمپنی کی بنیاد رکھ دی۔ کمپنی کو فقید المثال کامیابی ملی، نتیجتاً گیٹس کا شمار دنیا کی امیر ترین ہستیوں میں ہونے لگا۔
جناب گیٹس کی کامیابیوں سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ نہایت ذہین و فطین انسان ہیں۔ انہوں نے ذہانت سے بروقت فیصلے کیے۔ وہ محنتی اور کھری شخصیت بھی ہیں۔ ان خصوصیات نے بھی انہیں کامیاب ہونے میں مدد دی۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ گیٹس کی شاندار کامیابیاں بنیادی طور پر ایسے حالات وواقعات کا کرشمہ ہیں جو ان کے کنٹرول سے باہر تھے… گویا گیٹس کی کامیابی کو اس لیے بھی میسر آئی کہ رب تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی حالات کا تحفہ عطا کردیا۔
دنیا بھر میں لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ کامیاب ترین انسانوں نے اپنی ذہانت، قابلیت اور محنت کے سہارے ہی زبردست کامیابیاں پائیں مگر یہ خیال سو فیصد درست نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر اوقات غیر معمولی حالات کے باعث ہی بعض انسانوں کو محیرالعقول کامیابیاں ملتی ہیں۔زندگی کے میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کرنے والے انسان بالعموم انتہائی خوش قسمت ہوتے ہیں۔
وہ اس امر سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں کہ وہ صحیح جگہ پر صحیح وقت پر پائے جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات ایسی شخصیات کو ’’الگ تھلگ‘‘ (outliers)کا نام دے چکے۔ یہ وہ انوکھے انسان ہیں جو اس نظام سے باہر نکل جاتے ہیں جس میں عام انسان کام کرتے ہیں۔بہت سے لوگ بل گیٹس اور ان جیسے دولت، عزت اور شہرت پانے والے انسانوں کی زندگی کو مثالی سمجھتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی بے پناہ کامیابیاں پاسکتے ہیں۔ اسی لیے گیٹس وغیرہ کی باتوںکو غور سے سنا جاتا ہے۔ لوگ ان کے اعمال کی اندھا دھند تقلید بھی کرتے ہیں۔لیکن علم نفسیات اور عمرانیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ دولت و عزت پانے والی بیشتر شخصیات غیر معمولی حالات کی وجہ سے کامیابیاں پاتی ہیں۔
اسی لیے ان کے نقش قدم پر چلنے والے مرد و زن جب کامیابی سے محروم رہیں، تو وہ مایوسی و پژمردگی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔بعض تو زندگی بھر اس صدمے سے سنبھل نہیںپاتے۔ سچ یہ ہے کہ کوئی بھی انسان سو فیصد حد تک بل گیٹس کی نقالی کرے، تب بھی وہ ان جیسی شاندار کامیابیاں نہیں پاسکتا۔ وجہ یہی کہ گیٹس کو ابتداء ہی سے ایسے غیر معمولی حالات مل گئے جو ہر کسی کو میسّر نہیں آتے۔
مثال کے طور پر بل گیٹس کے والدین بہت امیر تھے۔ چناں چہ انہوں نے بیٹے کے لیے گھر پر بہترین اساتذہ کا بندوبست کیا۔ نیز گیٹس بچپن ہی سے کمپیوٹروں کے درمیان اٹھنے بیٹھنے لگے۔ تب چند ہزار امریکی بچوں کے گھروں ہی میں کمپیوٹر موجود تھا۔ پھر گیٹس کی والدہ کے مشہور کمپیوٹر کمپنی، آئی بی ایم کے سربراہ سے قریبی تعلقات تھے۔ انہی تعلقات کی بنا پر گیٹس کو آئی بی ایم سے ایک بڑا ٹھیکہ مل گیا۔
یوں ان کی نوزائیدہ کمپنی بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر ترقی کرنے لگی۔آئی بی ایم سے ٹھیکہ ملنا بل گیٹس کے لیے انقلاب ساز لمحہ کہا جا سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ تب سبھی امریکی آئی بی ایم کے کمپیوٹر استعمال کرتے اور خریدتے تھے۔ چناں چہ ان سب کے لیے لازم ہوگیا کہ وہ اپنے کمپیوٹر کو رواں دواں رکھنے کی خاطر مائیکرو سافٹ کے تیار کردہ سافٹ ویئر خریدیں۔ گویا صارفین کی ضرورت گیٹس کی کمپنی کے لیے چھپر پھاڑ کر دولت دینے والا ذریعہ بن گئی۔
اس کے بعد امریکیوں میں مائیکروسافٹ کے تیار کردہ سافٹ ویئر استعمال کرنے اور خریدنے کا چلن بڑھتا چلا گیا۔ اس لیے نہیں کہ وہ دیگر کمپنیوں کے تیار کردہ سافٹ ویئر سے زیادہ اچھے تھے۔ مائیکرو سافٹ کے سافٹ ویئرز کو کامیابی اس لیے ملی کہ وہ آئی بی ایم کمپیوٹروں میں مستعمل تھے۔ لہٰذا شروع میں امریکی عوام نے مجبوراً یا ضرورتاً انہیں برتا پھر رفتہ رفتہ وہ اس کے عادی ہوتے چلے گئے۔ سافٹ ویئرز کی زیادہ فروخت سے مائیکروسافٹ دیگر کمپنیوں کی بہ نسبت زیادہ مالدار کمپنی بن گئی۔
چناں چہ اس نے تحقیق و تجربات پر بھی زیادہ پیسہ لگایا اور مزید بہتر سافٹ ویئر تیار کرنے لگی۔ یوں اسے سافٹ ویئرز کی مارکیٹ میں اجارہ دار جیسی حیثیت حاصل ہوگئی۔درج بالا حقیقت سے عیاں ہے کہ آئی بی ایم کے ٹھیکے نے گیٹس کی قسمت بدل ڈالی۔ ورنہ وہ تو یہی تہیہ کیے بیٹھے تھے کہ اگر مائیکروسافٹ کمپنی نہ چل سکی، تو وہ واپس ہارورڈ یونیورسٹی چلے جائیں گے۔
گویا کاروبار کی ابتدا ہی میں ’’خوشی قسمتی‘‘ سے اور ’’مناسب حالات‘‘ کے باعث بل گیٹس کو ایسا ٹھیکہ مل گیا جس نے ان کی کمپنی کے قدم فوراً جما دیئے۔درست کہ مائیکروسافٹ کی بے مثال کامیابیوں میں بل گیٹس کی قابلیت اور محنت کا بھی حصہ ہے۔ لیکن وہ اتنا بے پایاں نہیں کہ صرف اسی کے بل بوتے پر گیٹس گنی چنی’’الگ تھلگ‘‘ شخصیات کی صف میں شامل ہوجاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر گیٹس بے انتہا ذہین اور قابل ہوتے، مگر انہیں خوشی قسمتی میسر نہیں آتی اور نہ ہی وہ موزوں حالات جو ان کو ملے، تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اتنے زیادہ کامیاب نہیں ہوتے جتنے ہوگئے۔
ایک جادوئی نمبر
بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ عظیم کامیابیاں حاصل کرنے والے مرد و خواتین سخت محنت اور تجربوں کی بھٹی سے کندن بن کر نکلنے پر غیر معمولی ہنر پالیتے ہیں۔ تب ان میں دوسروں سے مختلف اعلیٰ صلاحیتیں جنم لیتی ہیں۔ اس بنا پر تعریف توصیف پانا ان کا حق بنتا ہے۔کچھ ماہرین نفسیات کا بھی دعویٰ ہے کہ انسانی عظمت کو ایک جادوئی نمبر کے ذریعے بیان کرنا ممکن ہے۔
وہ جادوئی نمبر ’’دس ہزار گھنٹے‘‘ ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے، یہ سچ ہے کہ بہت سے پیشہ ور مسلسل محنت اور نت نئے تجربوں سے گزر کر غیر معمولی صلاحیتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اب بل گیٹس ہی کو دیکھیے۔ وہ بچپن سے لے کر لڑکپن تک کمپیوٹر پروگرامنگ کرتے رہے۔ یہ عرصہ کم از کم دس ہزار گھنٹے بنتا ہے۔ چناں چہ اس عرصے میں متواثر مشق نے انہیں ایک ماہر اور تجربے کار کمپیوٹر پروگرامر بنا دیا۔ یہ تجربہ پھر ان کی عظیم کامیابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
مختلف علوم سے تعلق رکھنے والے سائنس داں اور ماہرین ’’دس ہزار گھنٹے‘‘ کے عجوبے پر پچھلے چالیس برس سے تحقیق کررہے ہیں۔ ان ماہرین کی تحقیق و تجربات کا تجزیہ عیاں کرتا ہے کہ محنت اور تجربات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن بالعموم خصوصی حالات کی بدولت ہی ’’الگ تھلگ ‘‘ افراد غیر معمولی کارنامے انجام دینے پر قادر ہوپاتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں یہ انوکھی بات دیکھنے کو ملی کہ ایک قصبے کی گلی میں ٹیبل ٹینس کے ایسے تین کھلاڑیوں نے جنم لیا جو بعدازاں قومی چیمپئن بننے میں کامیاب رہے۔
یہ کوئی اتفاق نہیں تھا اور نہ ہی وہ تینوں کھلاڑی دن رات ٹیبل ٹینس کھیلنے میں محو رہتے تھے۔ اصل صورت حال یہ تھی کہ ٹیبل ٹینس کا مشہور کوچ، پیٹر چارٹرز جب قومی سطح پر اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوا، تو وہ اس گلی میں جا بسا۔وہ لوگوں سے میل جول رکھنے والا انسان تھا۔اس کی پیہم کوشش سے گلی کے کئی لڑکے ٹیبل ٹینس کھیلنے میں دلچسپی لگنے لگے۔
ان میں سے تین نے بہرحال ’’دس ہزار گھنٹے‘‘کے جادوئی اصول پر عمل کیا اور مسلسل اپنا کھیل کھیلتے رہے۔ پیٹر کی توجہ و رہنمائی نے ان کا کھیل نکھار دیا۔ لہٰذا وہ نہ صرف ٹیبل ٹینس کے بہترین کھلاڑی بنے بلکہ قومی چیمپئن شپ جیتنے میں بھی کامیاب رہے۔یہ سچ ہے کہ وہ باصلاحیت تھے۔ پھر ان کی مسلسل کوششیں بھی رنگ لائیں اور یوں وہ غیر معمولی کارکردگی دکھا پائے لیکن ’’خوشی قسمتی‘‘ سے اگر انہیں ایک بہترین اور بااعتماد کوچ کا ساتھ میسر نہ آتا اور اہل خانہ ان کی بھر پور مدد نہ کرتے، تو امکان یہی تھا کہ وہ ٹیبل ٹینس کے قومی چیمپئن نہ بنتے۔ موزوں ابتدائی حالات اور خوش قسمتی ہی نے انہیں اس نہج پر پہنچا دیا کہ وہ غیر معمولی کامیابی حاصل کرلیں۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر پیٹر ان کی رہنمائی نہ کرتا، تو تینوں کھلاڑی بیشک دس ہزار گھنٹے بھی کھیل کر مشق کرتے رہتے مگر قومی چیمپئن شپ جیتنا ان کے لیے یقیناً محال ہوتا۔ غرض تینوں کھلاڑیوں کی کامیابیوں میں ابتدائی حالات اور خوش قسمتی نے اہم کردار ادا کیا۔
فرض کیجیے، آپ کے محلے میں ایک لڑکا ٹیبل ٹینس بہت عمدگی سے کھیلتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ ایک ماہر کوچ کی رہنمائی سے محروم ہے۔ مزید براں پاکستان میں ویسے بھی دیگر کھیلوں کی نسبت ٹیبل ٹینس کم مقبول ہے۔ لہٰذا اس لڑکے کے لیے پاکستان میں حالات سازگار نہیں کہ وہ ٹیبل ٹینس کے میدان میں کارہائے نمایاں رکھ پائے گا۔اسی طرح تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہت سے لوگوں کو اپنی صلاحیتیں سامنے لانے اور چمکانے کا موقع نہیں مل پاتا۔ وجہ یہی ہے کہ انہیں خاص طور پر ابتدا میں حالات سازگار نہیں ملتے۔اس تحریر کا ماحصل یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مرد یا عورت غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرلے، اس کی داستان حیات سے دوسروں کو کم ہی سبق ملتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ جس انسان کے کارنامے جتنے زیادہ غیر معمولی ہوں ، اس سے اتنے ہی کم سبق حاصل ہوسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے لوگ ’’فاتح‘‘ کہلاتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر ایسی فتح کا راز ان کی ذاتی صلاحیتوں پر کم موزوں حالات اور خوش قسمتی پر زیادہ ہوتا ہے۔البتہ جو مرد وزن کار زار حیات میں عمدہ کارکردگی دکھائیں، ان کی زندگیوں کے مطالعے سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کامیابی پانے کے گر اور طریقے کیا ہیں۔ وجہ یہ کہ عموماً ایسے لوگ سخت محنت یا ذہانت کے بل بوتے پر ترقی کرتے ہیں۔ وہ غربت کے پنجوں سے نکل کر خوشحالی پالیتے ہیں۔ لیکن عظیم یا غیر معمولی کارکردگی دکھانے والے لوگوں کی کہانی مختلف ہے اور اس میں عموماً تھوڑے سبق پوشیدہ ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ایک انسان کو عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی موزوں حالات مل جائیں اور خوش قسمتی بھی اس کے ساتھ ہو، تو وہ ہر قسم کی کامیابیاں پاسکتا ہے۔ لیکن درست جگہ پر درست وقت میں موجود ایسے فاتحین کا المیہ یہ ہے کہ وہ ذاتی قابلیت اور صلاحیت کے بل بوتے پر کم ہی کامیابیاں حاصل کرپاتے ہیں۔یہ سچائی مدنظر رکھتے ہوئے عام لوگوں کو ہرگز یہ توقع ہرگز نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ بھی غیر معمولی طور پر کامیاب مردوزن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یا ان کی نقالی کرتے ہوئے عظیم کامیابیاں پالیں گے۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ دنیا بھر میں بستے غیر معمولی طور پر امیر ہستیوں کو بل گیٹس اور وارن بفٹ کی نقالی کرنا چاہیے۔ امیر ترین افراد میں شامل یہ دونوں امریکی اپنی بیشتر دولت انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کرچکے۔ یہ عمل یقیناً انہیں قابل احترام اور قابل عزت بنا دیتا ہے۔
The post بل گیٹس کی نقل مت کیجیے appeared first on ایکسپریس اردو.