بہت سال پرانی بات ہے کہ ایک دن جب یہ راقم اپنے استادگرامی قبلہ مفتی اطہرنعیمی صاحب کے دولت کدے پر حاضر ہوا تو اثنائے گفتگو، اُن کے کوئی شناسا آپہنچے۔ اُن کا اصرار تھا کہ مفتی صاحب پہلے ان کا مسئلہ حل کریں اور مسئلہ یہ تھا کہ اُن کے گھر میں کسی بچی کی ولادت ہوئی تھی۔
انھوں نے بجائے اس کے کوئی اچھا سا اسلامی نام دریافت کرتے ، بس ایک رَٹ لگائی کہ حضرت! زارا اور سَنیا دو نام ہیں، ان کے معانی بتادیں، بس ان ہی میں سے کوئی ایک رکھنا ہے۔ مفتی صاحب قبلہ نے کچھ توقف کے بعد معذرت کی کہ بھئی مجھے اس کا علم نہیں، پھر حسب عادت میری طرف متوجہ ہوکر استفسار فرمایا۔ خاکسار نے کہا کہ زارا درحقیقت (قدیم) روس کی ملکہ کا لقب (زارینا Zarina کا مخفف) تھا ، اور چوںکہ آخری شاہ روس (اور غالباً اُس کی ملکہ) اپنے ظلم کے لیے بدنام تھے، اس لیے یہ نام رکھنا بھی صحیح نہیں۔ بعدازآں تحقیق پر پتا چلا کہ یہ لفظ ’سارہ‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے جو پہلے پہل شہزادی اور پھر تبدیل شدہ شکل میں، ملکہ، دونوں کے لیے، مستعمل تھا۔
(حضرت سارہ سلام اللہ علیہا، ایک روایت کی رُو سے حضرت لوط علیہ السلام کی ہمشیرہ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی چچازاد اور اہلیہ محترمہ تھیں، اس طرح اپنے عہد کی مَلِکہ ہوئیں، جب کہ اُن کی سوکن حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا مصر کے اولین فرعون کی شہزادی تھیں )۔ بعض لوگ ’سارا‘ لکھتے ہیں جو عبرانی الاصل لفظ سارہ سے مختلف عربی لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے : چادر۔ دوسرے نام کے متعلق اظہارخیال کرتے ہوئے اس ہیچ مَدآںکا لہجہ قدرے تلخ ہوگیا، کہا کہ جناب! عربی، فارسی اور ترکی میں کوئی نام سنیہ، سنیا، صنیعہ یا ثنیعہ نہیں ہے….البتہ عربی لفظ ثنیہ یعنی ثانیہ (دوسری) موجود ہے جو کوئی نام نہیں، نسبت ہے۔ مزید زور دے کر کہا کہ اگر یہ کوئی نام ہیں تو اُن ڈراما نگار خاتون ہی سے پوچھ لیں جنھوں نے یہ ایجاد اور استعمال کیے ہیں۔
وہ سائل پھر بھی نہ ٹلا، اَب مفتی صاحب قبلہ نے اپنے نجی کتب خانے میں موجود ، عربی۔ اردو لغت ’اَلمُنجِد‘ اور قدیم فارسی لغت ’غیاث اللغات‘ سے رجوع کی ہدایت فرمائی، راقم نے اپنی جگہ سے اٹھ کر دونوں وقیع کتب یکے بعد دیگرے پیش کیں، مگر نتیجہ وہی ’ڈھاک کے تین پات‘۔ آنے والے صاحب نے نہ میری سنی نہ استاد گرامی کی مانی اور اسی پر اصرار کرکے چلے گئے۔ یہ میری ذاتی زندگی کا ایک واقعہ نہیں، متعدد بار اسی طرح کا تجربہ ہوا کہ کسی نے، کسی بچے کی پیدائش پر نام تجویز کرنے کو کہا اور پھر اس طرح کی بے کار بحث بھی کی، ہاں یہ ضرور ہے کہ جن بچوں کے منفرد اسلامی نام تجویز کیے ، بحمداللہ! ان پر اس کے مُثبَت اثرات بھی یقیناً ہوئے۔
ایسے ہی بات کی بات ہے کہ ایک صاحب نے اپنی بچی کا نام ’’عُنَیزہ‘‘ رکھا۔ یہ نام سننے میں تو جیسا بھی ہو، اس کا پس منظر بہت خطرناک ہے۔ عہدجاہلیت (ماقبل ظہوراسلام) میں مشرکین ، اونٹنی کے حمل میں جو بچہ، اپنی مشرکانہ نذر کے لیے اٹھا رکھتے تھے، اُسے عُنَیزہ کہا جاتا تھا۔ ایک صاحب نے اپنی بچی کا نام ’عدِینہ‘ رکھا جس کا مطلب ہے پانی کی بالٹی۔ ایک مرد صحابی کا نام ہے ’اَیمن‘ (یعنی سیدھی راہ پر گامزن)[AIMAN] بن عبید رضی اللہ عنہ‘، اُنھی کی والدہ حضرت اُم اَیمن رضی اللہ عنہا ہمارے پیارے رسول (ﷺ) کی آیا تھیں۔ (یہ دونوں ماں بیٹا، السابقون الاولون یعنی اسلام قبول کرنے والے اولین خوش نصیب افراد میں شامل تھے)۔ یہ نام ہمارے یہاں مؤنث سمجھ کر لڑکیوں کے لیے اختیار کیا گیا ، مگر مزید قباحت یہ ہوئی کہ اکثر لوگ اسے الف کی دبی آواز سے ایمن [AYMAN] کہہ کر پکارتے ہیں جو ہندی میں، مُوسیقی کے ایک راگ کا نام ہے۔
ایک صحابی رسول حضرت عُروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو حدیث شریف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ اُنھیں اُن کے اپنے شہر طائف کے لوگوں نے پیغام حق سنانے کی پاداش میں شہید کردیا تھا۔ یہ نام یقیناً بہت محترم ہے، مگر خاکسار نے آج تک، اپنی یادداشت میں، صرف ایک ہی مرد ایسا دیکھا ہے جس کا یہ نام ہے، (میرے اسکول کے ایک ہم جماعت کے بہنوئی) جب کہ ایک اداکارہ نے یہ نام اپنالیا تو یارلوگ سمجھے کہ یہ بھی کوئی زنانہ نام ہے ، جھَٹ لڑکیوں کا نام عُروہ رکھنے لگے۔ صحابہ کرام میں حضرت خُذَیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے نام نامی کی بڑی اہمیت ہے کہ انھوں نے ایک موقع پر نبی کریم (ﷺ) کے حق میں (بغیر اپنی آنکھ سے دیکھے) گواہی دی تو انھیں سرکاردوعالم (ﷺ) نے ’ذوالشہادتین‘‘ کا لقب عطا فرمایا یعنی دو گواہی والا۔ مفہوم یہ تھاکہ اگر کسی معاملے میں وہ گواہی دیں تو اسے دو آدمیوں کی گواہی کے مساوی اور معتبر مانا جائے۔
پھر ہوا بھی یونہی کہ جب قرآن شریف کی کتابی جمع وترتیب میں ایک آیت کے متن کے متعلق گواہی مطلوب تھی تو فقط انھی صحابی کی گواہی کام آئی اور اُن سے، تائید کے لیے، دوسری گواہی طلب نہ کی گئی۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی دُہراتے چلیں کہ ایک اُم المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے والد کا نام بھی خُذَیمہ تھا۔ نبی اکرم (ﷺ) کے اجداد میں بھی ایک صاحب کا نام خُذَیمہ تھا۔ ایک روایت کے مطابق رسول مقبول (ﷺ) کے شام کے اسفار (واحد: سفر) میں ایک ہمراہی کا نام خُذَیمہ بن حکیم تھا (بحوالہ حبیب السیر)۔ ایران پر حکومت کرنے والے ایک عربی النسل خاندان کا نام بھی خُذَیمہ تھا۔ اس نام کا رواج ہمارے یہاں مفقود ہے، مگر تعجب کی بات ہے کہ ایک انگریزی روزنامے سے وابستہ ایک خاتون صحافی کا نام یہی ہے۔ یہ معاملہ غالباً اس غلط فہمی کے سبب عام ہے کہ ہمارے یہاں لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جس عربی لفظ یا نام کے آخر میں ’ہ‘ آئے ، وہ یقیناً مؤنث ہوگا، حالانکہ یہ کوئی کلیہ نہیں۔ اسی پر بس نہیں اور بھی مثالیں ہیں، عربی ناموں کی غلط ترویج اور توجیہہ کی۔
ایک نام ہے ، سُہاSuha-(اچھا، خوب صورت)، یہ قرآن کریم میں بھی آیا ہے۔ ایک نامور حکیم نے شاعری میں یہی تخلص اختیار کیا تھا۔ نوجوانی میں ہمارے ایک دور پرے کے رشتہ دار اسی نام کے ملے تھے، اَب پتا نہیں کہاں ہیں، مگر ان دنوں اس نام کی بھی مٹی پلید ہوچکی ہے۔ ایک اداکارہ نے اسے اپنے خیال میں سوہا Soha-بنایا (ہندوستان کے ممتاز اداکار سیف علی خان کی بہن) تو ہمارے یہاں کی ایک نسبتاً نئی فن کارہ نے ’سوہائے‘ Sohai- بنادیا۔ ویسے ایک نام اسی شعبے کے حوالے سے بہت مشہور ہورہا ہے ، ماوَراء۔ اَب کون سمجھائے کہ یہ کوئی نام نہیں، اس کا مطلب ہے، آگے ، پرے یا دور[Beyond]، جیسے حقیقت سے ماوراء یا ماورائے عدالت وغیرہ جیسی جدید اصطلاح۔ خاکسار کے ٹی وی پروگرام ’بوجھئے‘ سے، سن انیس سو پچانوے[1995]میں اپنا فَنّی سفر شروع کرنے والی مایا خان کا اصل نام ’غِناء ‘ ہے، بہت سال قبل، اُسے اور اُس کی والدہ کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ نام اچھا نہیں۔ ہندومَت میں مال دولت، فریب ، سِحر کی دیوی کا نام ہے، مگر کیا کریں۔
اُس نے خود اسکول کے زمانے میں کسی سے سن کر اپنالیا تو پھر چل سو چل۔ اُسے مشہور ہوتا دیکھ کر ہمارے یہاں لوگ باگ اپنی بچیوں کا نام اس کے نام پر رکھنے لگے۔ ایک مردانہ نام ہے، وجیہہ یعنی اچھی شکل صورت والا۔ اس کا مؤنث ہے، وجیہا۔ اب کیا کریں ہمارے خورد معاصر، ٹی وی کے خبرخواں، وجیہہ ثانی کی حد تک تو ٹھیک ہے، مگر عموماً لڑکیوں کا نام وجیہہ لکھ دیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بہت سی بچیوں، لڑکیوں کا نام رکھا جاتا ہے، علینا۔ یہ درحقیقت مغربی نام ’اَلینا‘ یا ایلینا [Alina]ہے جسے زبردستی عربی بناکر علینا اور علینہ کردیا گیا۔ یہ لفظ اصل میں سلاف Slavic] [زبانوں، خاص کر روسی اور پولش [Polish]میں رائج ہے اور اس کا ماخذ ہے، قدیم نام ہیلن [Helen]۔ اس کا مطلب ہے: روشن، حسین۔ اس نام کی متغیر شکلیں، مختلف زبانوں میں اس طرح ہیں:
Nicknames & Variations for Alina
Alianna, Allene, Alene, Lynah, Aleena, Aline, Alleen, Lina, Alyna, Allyna, Allena, Aleen, Alinna, Alynnah, Leena, Alline, Lyna, Lenah, Lena, Alyne, Allynah, Alyona, Alena, Alenah, Linah, Allyne, Alinah, Leenah, Alynna, Aliana
[https://nameberry.com/babyname/Alina]
بالکل اسی طرح ایلیس، ایلسا، ایلیسا یا ایلیشا کو علیشا، علیشہ اور علیشاہ کردیا گیا۔ یہ ہے: Alice جیسےAlice’s Adventures in Wonderland اور سن دوہزارتیرہ میں ادب کا نوبیل انعام پانے والی کینیڈین ادیبہ Alice Munro۔ اس کا مطلب ہے : معزز۔ اس کے مماثل یا اسی سے مشتق ناموں کی فہرست یہ ہے:
Similar Names
Alice, Alise,Ailis,Alison,Alissa,Allison,Alix,Elissa,Alicia
[https://nameberry.com/search?q=Alice&search=go]
مشہورزمانہ اداکارہ سوفیا لارین کے نام کی نسبت سے ہمارے یہاں سوفیا [Sofia/Sophia] نام اپنالیا گیا، مگر اسے صُوفیہ لکھا جاتا ہے جو عربی لفظ صوفی کی جمع اور مذکر لفظ ہے۔ یونانی زبان میں سوفیا کے معنی ہیں: دانش۔ اب اگر کسی کو یہ نام پسند ہی ہے تو براہ کرم اصل ہجے کے ساتھ تجویز کیا جائے۔ اسی طرح ایک اور زنانہ نام، اتفاق سے ذہن میں آیا، سَبیِن، Sabeen یا سبینہ، اَب کسی سے پوچھو کہ یہ نام کیا ہے اور کیا معنی ہیں، جواب ملے گا ، بس اچھا لگا، رکھ لیا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ یہ اٹلی کی ایک قدیم قوم کا نام ہے اور اس کے درست ہجے یہ ہیں:SABIN, SABINE OR SABINA۔ سابین /سابینا۔ سابین یا سابینہ سے مراد ہے اُس قوم کا رکن مرد یا عورت۔ مغرب میں اس کا رواج بطور مردانہ نام (اور کہیں کہیں زنانہ) عام ہے۔
طبیعیات داں اور خوردحیاتیات داں[Physicist and Microbiologist]والیس سابینWallace C. Sabine (1868–1919),کے طفیل یہ نام علم طبیعیات میں متعارف ہوا اور ایک مخصوص اکائی بن گیا۔ یہ موصوف امریکی تھے، مگر روس میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ایلبرٹ بروسسابین Sabin] [Albert Bruceنے سن انیس سو پچپن[1955] میں پولیو کے علاج کے لیے Sabin vaccine متعارف کرائی تھی۔ وہ سن انیس سو چھے[1906] میں پیدا ہوئے اور انیس سو ترانوے [1993]میں فوت ہوئے۔ Florence Rena Sabinامریکا کی خاتون ماہر علم الابدان تھیں جنھیں سن انیس سو پچیس (1925)میں امریکا کی National Academy of Sciences میں شامل ہونے والی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ نام دنیا کی مختلف زبانوں میں قدرے فرق سے رائج ہے :
Sabin’s International Variations
Savino (Italian) Sabinien, Sabinu, Sabien, Saby, Sabatay (French) Savin (Eastern European) Sabino (Spanish) Sabiny (Polish) Saidhbhin (Gaelic)
[https://nameberry.com/babyname/Sabin/boy]
مگر یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ محولہ بالا ویب سائٹ میں اس لفظ کو قرآن مجید میں مذکور، مذہبی گروہ ’صابئین‘ سے ملادیا گیا جو سراسر بے بنیاد ہے۔ لفظ صابی یا صابئی کی تعریف اور وجہ تسمیہ اختلافی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک مجوسی ۔یا۔آتش پرست ہی صابئی ہیں، مگر درحقیقت، صابئین (یا واحد ’صابئی‘) وہ فرقہ ہے جو بقول خود حضرت نوح علیہ السلام کے صحیفے پر عمل پیرا ہے۔ بعض جگہ انھیں حضرت آدم علیہ السلام کے فرزند اور دنیا کے دوسرے نبی حضرت شیث علیہ السلام نیز حضرت یحیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہونے کا مدعی بھی بتایاگیا ہے۔ اس گروہ کی مذہبی تعلیمات بالتفصیل نہیں ملتیں، البتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرقہ اول اول مُوَحّد (توحید پرست ) تھا ، پھر ان کے یہاں ستارہ پرستی اور دیگر مشرکانہ عقائد داخل ہوگئے اور ان میں بھی کئی فرقے بن گئے جو مختلف ممالک میں مختلف عقائد کے حامل ہیں۔
ان کی ایک شاخ خود کو حضرت یحیٰ علیہ السلام کے نصاریٰ کہتی ہے اور اسی لیے ان کا شمار عیسائیوں میں ہوتا ہے۔ قدیم عرب میں، ستارہ پرست عیسائی فرقہ ’رکوی‘ غالباً یہی تھا، جس سے حاتم طائی کا تعلق تھا۔ حاتم کے فرزند حضرت عدی رضی اللہ عنہ‘ اور دختر حضرت سفانہ رضی اللہ عنہا کو قبول اسلام کے ساتھ ساتھ صحابیت کا شرف حاصل ہوا۔ (حاتم طائی کی حکایات سے قیاس لگایا جاتا ہے کہ وہ خود توحید پرست تھا)۔ یہاں ایک صابئی شخصیت کا ذکر نقل کرنا ، ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ ابواسحق ابراہیم بن ہلال صابئی، سلطنت بغداد پر (خلافت عباسی کے دور زوال میں) قابض ایرانی النسل خاندان، آل ِ بُوَیہ [Aal-e-Buweh]کے عہد میں، ایک نامور درباری کاتب، ماہرعلومِ ریاضی و نجوم ، ہندسہ و ہئیت تھا۔ اُسے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا جاتا رہا، مگر وہ مسلمان نہ ہوا، البتہ وہ حافظ ِ قرآن تھا، رمضان شریف میں روزے رکھتا تھا اور اُس نے دینی مسائل پر مبنی کتاب ’المختار من رسائل صابی‘ بھی لکھی تھی۔ سلطنت عُمان[Oman] پر حکم راں سلطان قابوس کا خاندان بھی صابئی تھا۔ (یہ نام ’اومان‘ نہیں ہے)۔ اس فرقے کے متعلق انٹرنیٹ پر بھی مختصر مواددستیاب ہے:
http://www.suffahpk.com/sabi-kisy-kehty-hain/
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B5%D8%A7%D8%A8%DB%8C
http://daanish.pk/4871
https://fa.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%A
8%D9%88%D8%A7%D8%B3%D8%AD%D
8%A7%D9%82_%D8%B5%D8%A7%D8%A8%DB%8C
ایک مَرد صحابی رسول عُکاشہ بن مُحصن [Ukkasha bin Muhas’sin] رضی اللہ عنہ کا نام بھی ہمارے یہاں زنانہ سمجھ کر اپنالیا گیا ہے جو درست نہیں۔ سب سے دل چسپ صورت حال ہے وَردہ کی۔ صحابہ کرام میں کئی مرد حضرات کا نام وَرد یا وَردہ تھا (یعنی گلاب)۔ جدید عربی میں یہ نام عورتوں میں بھی مستعمل ہے ، لہٰذا ہمارے یہاں اس کی تقلید جائز ہے۔
The post نام میں کیا رکھا ہے ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.